#مٹی کا برتن استعمال کرنا
Explore tagged Tumblr posts
Text
کیا مٹی کا برتن استعمال کرنا سنت ہے ؟
کیا مٹی کا برتن استعمال کرنا سنت ہے ؟
کیا مٹی کا برتن استعمال کرنا سنت ہے ؟ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، کیافرماتےہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مٹی کے برتنوں کا استعمال کرنا کیا سنّت مؤکدہ ہے اور مٹی کے برتن استعمال کس نیت سے کریں ؟ سائل حافظ رضوان خوشاب وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ الجـــــوابــــــــــــ بعون الملک الوھّاب (سب سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سنت مؤکدہ، اور سنت غیر مؤکدہ…
View On WordPress
#Kya mitti ke bartan me khana peena sunnat hai#مٹی کا برتن استعمال کرنا#مٹی کے برتن میں کھانا کھانے کے فائدے#کیا مٹی کا برتن استعمال کرنا سنت ہے ؟#کیا مٹی کے برتن میں کھانا کھانا سنت ہے
0 notes
Text
کیا گورے واقعی ملاوٹ نہیں کرتے؟
برصغیر کے لوگ صدیوں سے انگریز راج آنے تک ملاوٹ کے مفہوم سے نا آشنا تھے۔ گھروں میں دیسی گھی، گڑ، شکر، لسی، دودھ، مکھن، دیسی مرغیاں، دیسی انڈے، بکرے، دنبے وغیرہ کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا۔۔ نہانے کے لیے کالا صابن ہوتا تھا۔۔ برتن دھونے کے لیے مٹی، ریت اور کالا صابن استعمال ہوتا تھا۔۔ یہ برصغیر کا حقیقی چہرہ تھا۔۔ یہی یہاں کا معیار تھا اور یہی رواج بھی۔۔ پھر بھوکے ننگے، لالچی، چور ذہن انگریز میدان میں آئے۔ تب "مصنوعات" کا رواج نکلا. "مصنوعات" کیا تھیں۔"مصنوعی" چیزیں. انسانی تخلیق۔ مقصد صرف پیسہ کمانا تھا استعماریت اور سرمایہ کاری تھا۔۔ جو آج پوری دنیا کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں ان عالمی جعل سازوں نے "ولایتی" کونسیپٹ متعارف کرایا۔۔ بالکل ایسے جیسے آج ہر دو نمبر اور گھٹیا پروڈکٹ کو "چائنہ" کہہ لیا جاتا ہے۔۔ دیسی گھی کے مقابلے میں ولائتی گھی آگیا۔۔ کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کا تحفہ انہی انگریزوں کی کرم نوازی ہے۔۔ دیسی مشروبات (ستو، لسی، دودھ) وغیرہ کے مقابلے میں ولائتی کیمیکل ملے مشروبات (کوکا کولا، سیون اپ) وغیرہ انہی انگریزوں کا تحفہ ہےجو ملاوٹ نہیں کرتے۔ برصغیر میں چائے بھی انگریز نے متعارف کروائ یہ اب ہمارے لئے ایک نشہ بن چکی ہے کہ جس کے بغیر زندگی گزارنی مشکل ہو گئ ہے۔ گڑ ،شکر کے مقابلے میں گنے کے رس میں مضر صحت کیمیکل کی ملاوٹ سے چینی بنا کر عوام کو اس طرف لگا دیا گیا۔ پوری قوم کو ذیابیطس مبارک ہو انگریز ملاوٹ نہیں کرتا۔ دودھ خالص ہوتا تھا اور دودھ سے بنی تمام اشیاء بھی۔۔ نیسلے کمپنی (ان کی ہے جو ملاوٹ نہیں کرتے) نے جعلی دودھ متعارف کرایا۔۔ الحمد للہ کیمیکل ملا دودھ ساری دنیا کو بیچنے کا سہرا اسی کمپنی کے سر ہے جو ملاوٹ نہیں کرتی۔ سچ کہوں تو بہت ساری پروڈکٹ جن کو دودھ کہا جاتا ہے ان میں دودھ نام کی سرے سے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ شکر ہے عدالت نے پابندی لگائی اور اب ٹی وائٹنر وغیرہ لکھنے لگے ہیں۔ علاج معالجہ طبیب ہی کرتے تھے جس سے انسان واقعی تندرست بھی ہو جاتا تھا۔۔ انہی عالمی جعل سازوں نے انگریزی کیمیکل ملی ادویات متعارف کرائیں جن سے انسان روز بروز نت نئی بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔۔ جب سے انگریزی ادویات کا دور دورہ ہوا ہے شاید ہی کوئی انسان روئے کائنات پر صحت مند بچا ہو۔۔ مقصد کیا تھا۔۔ صرف اور صرف پیسہ کمانا۔۔ آج بیماریوں کا یہ عالم ہے کہ ہر گھر میں ہزاروں کی ادویات جا رہی ہیں اور صحت مند پھر بھی کوئی نہیں ہو رہا۔۔۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ انگریز ملاوٹ نہیں کرتا۔۔ ملاوٹ والی ساری ��شیاء مسلمانوں کی ہیں۔۔ حضرات ذی وقار۔۔ انگریز مضر صحت کیمیکلز سے کیا کیا بنا کر بیچ رہا ہے زرا ایک نظر ادھر کیجیے۔ دودھ، مکھن، گھی، آئس کریم، خشک دودھ، کیچپ، چینی، رنگ برنگی فوڈ آئٹمز، مشروبات، ڈبے والے جوس، کاسمیٹکس، میڈیسن، پھلوں کو پکانے کیلیے رنگ برنگے کمیکل۔۔۔ اور جانے کتنی لمبی لسٹ ہے جس کا احاطہ کرنا شاید بس سے باہر ہے۔۔لیکن ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔۔ یعنی حد ہے ذہنی غلامی کی۔۔ دوسری اہم چیز انہوں نے سب سے بڑا کمال یہ کیا کہ مذہب میں بھی ملاوٹ کر دی۔خلافت کی جگہ جمہوریت۔بریلوی دیوبندی شیعہ ۔جیسے مسالک ایجاد کیے ۔جہاد کو ختم کرنے کیلے قادیانیت کا پودا کاشت کیا وحدت امت مسلمہ کو وطنیت کے زہر سے بدل کر اسکی جنس ہی بدل دی اصل تعلیم کی بجائے لارڈ میکالے کا طرق تعلیم نافذ کیا اور مسلمانوں کو نا تین میں نا تیرہ میں کردیا مسلمان بے چارہ زیادہ سے زیادہ کیا ملاوٹ کرلے گا۔۔ مرچ میں برادہ پیس لے گا۔۔ دودھ میں پانی ڈال لے گا۔۔ چائے کی پتی میں باتھو پیس لے گا۔۔ اصل چور تو یہ ہیں جو سرمائے کی آڑ میں شیمپو، صرف، صابن سے لے کر روزمرہ استعمال کی ہر چیز میں مضر صحت کیمیکلز کا دھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں اور الزام جب بھی لگتا ہے بے چارے سازش کا شکار مسلمانوں پر لگتا ہے جن کی بے ایمانی بھی بڑی محدود سی ہے۔۔ براہ کرم ذہنی غلامی سے نکلیں اور خود کو درست کریں۔۔ ملاوٹ، جھوٹ، دھوکہ جیسی چیزیں ہمارا ورثہ نہیں ہیں۔۔ یہ معصوم صورت عیاروں کی چالیں ہیں جو دنیا بھر کو رنگی برنگی مصنوعات کے نام پر مضر صحت کیمیکل بیچنے میں مصروف ہیں
5 notes
·
View notes
Text
آڈیو لیکس یا چور سپاہی کا کھیل
وہ جو کہتے ہیں کہ ’مردے کے بال مونڈھنے سے وزن کم نہیں ہوتا۔‘ یہی حال وزیرِ اعظم ہاؤس کی وڈیو لیکس کا ہے۔ جانے کتنے مہینے کی ریکارڈڈ گفتگو اب انٹرنیٹ کی منڈی میں چار آنے پاؤ دستیاب ہے۔ اس واردات کے اسباب اور کھلاڑیوں کے شجرے تک پہنچنے کی بجائے یہ مجرب حل نکالا گیا ہے کہ ایک کمیٹی اور وہ بھی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں چھان بین کرے گی کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ حالانکہ سب سے پہلے تو خود رانا ثنااللہ کو اپنے عہدے سے ’علامتی‘ استعفی دینا چاہئے۔ مبینہ عبوری انتظام یہ کیا گیا ہے کہ کابینہ اجلاسوں اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں کسی بھی اعلی ترین افسر کو لیپ ٹاپ اور موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نیز حفاظتی عملے کی سہہ ماہی سکریننگ ہو گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ جب 1972 میں واٹر گیٹ سکینڈل کا بھانڈا پھوٹا تو اس کی قیمت صدر رچرڈ نکسن کو بدنامی اور برطرفی کی شکل میں ادا کرنا پڑی تھی۔ جب یہ راز منکشف ہوا کہ ٹرمپ کی مدِ مقابل صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن حساس معلومات کے تبادلے کے لیے بطور وزیرِ خارجہ محفوظ سرکاری ای میل اکاؤنٹ کے بجائے نجی ای میل اکاؤنٹ استعمال کرتی رہی ہیں تو پیشہ وارانہ غیر زمہ داری کا یہ انکشاف ان کی انتخابی شکست کا ایک اور سبب بن گیا۔ جب یہ پتہ چلا کہ سابق صدر ٹرمپ کچھ ریاستی حساس دستاویزات ازخود ہی گھر لے گئے تو ایف بی آئی نے ان کے نجی ٹھکانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ جب چند برس پہلے یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی جرمن چانسلر اینجلا مرکل سمیت کئی قریبی امریکی اتحادیوں کی گفتگو ٹیپ کرتی ہے تو یورپ اور امریکہ تعلقات میں سنگین تناؤ پیدا ہو گیا جسے دور کرنے کے لئے امریکہ کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ گیا۔ مگر پاکستان میں ملک ٹوٹنے سے لے کر، کارگل کی جنگ، انتخابی نتائج کے الیکٹرونک نظام کے اچانک بیٹھنے، بیک روم رجیم چینج، چیف آف سٹاف، ججوں اور وزرائے اعظم کی اپنے اور بیرونی مہمانوں سے گفتگو، اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور جبراً غائب ہونے والے ہزاروں افراد سمیت ہر المیے اور سکینڈل کا ایک ہی علاج ہے ’دفع کرو، مٹی پاؤ، آگے بڑھو۔‘
ہم ہر بار درخت سے گر کے کپڑے جھاڑتے ہوئے یہ کہتے کہتے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کچھ نہیں ہوا چیونٹی مر گئی، چیونٹی مر گئی۔ جس طرح کارِ ریاست چلایا جا رہا ہے اس طرح تو کسی پیلے سرکاری سکول کا نظام چلنے پر ہیڈ ماسٹر معطل ہو جاتا ہے۔ اس طرح تو بچے اپنے کھلونے بھی صحن میں نہیں چھوڑتے۔ اس طرح تو فقیر بھی کٹیا کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑتا مبادا ہر کتا بلی اندر آ کر برتن میں منہ نہ ڈال دے۔ اس طرح تو اپنے کپڑے گھر کی گیلری کی الگنی پر بھی نہیں سکھائے جاتے۔ اس طرح تو کوئی تھکا ہارا نوجوان گلی میں موٹرسائیکل کو بنا قفل بھی نہیں کھڑا کرتا۔ اس طرح تو کوئی کریانہ فروش دکان کھلی چھوڑ کے اذان کی آواز پر بھی نہیں دوڑتا۔ اگر ریاست چلانے والے ذہنی دیوالیہ پن میں مبتلا ہوں ��و پھر ملک دیوالیہ ہو نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے۔ جس ملک میں منظور شدہ پارلیمانی بل، خفیہ سفارتی کیبلز اور تحقیقاتی رپورٹوں کی اصل کاپی فائلوں سمیت اغوا ہونے کو بھی ایک عام خبر کی طرح بھلا دیا جائے وہاں ہاتھی کا سوئی کے ناکے سے گذر جانا بھی معمول کی اطلاع ہے۔
اب سب ایک دوسرے کے پیچھے گول گول بھاگ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس کی گفتگو کس نے کیسے لیک کی اور یہ غیر ذمہ دار ہاتھوں میں کس نے پہنچائی۔ چوری کی ایک ’چھوٹی سی واردات‘ جس کا خاتمہ امریکی صدر کے استعفے پر ہوا ان گول گول بھاگنے والے اداکاروں میں وہ بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ کارستانی دکھانے کا شبہہ ہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اس ملک میں آنے اور جانے والی تمام انٹرنیٹ ٹریفک کے ڈیٹا کیبلز پر سیندھ لگا کے بیٹھے ہیں اور انھیں فرداً فرداً ہر ہر عمارت، کمرے، لیپ ٹاپ اور موبائیل پر ’چور چپ‘ نصب کرنے کی اب حاجت ہی نہیں۔ پورے سکینڈل میں رسمی خانہ پری کے طور پر اتنا احتسابی ڈرامہ رچنے کا بھی امکان نہیں جو اس سے 99 فیصد کم اہم ڈان لیکس کے موقع پر رچایا گیا تھا۔ جس واردات میں چور، سپاہی اور تماشائی شامل ہوں وہ واردات نہیں رہتی سستے آرٹ کا نمونہ بن جاتی ہے۔
البتہ ایک فوری فائدہ ضرور ہوا۔ چور سپاہی کے تازہ تھیٹر کے سبب ریٹنگ گزیدہ کیمروں کا رخ ایک بار پھر ساڑھے تین کروڑ سیلاب زدگان کے حقیقی مصائب پر فوکس ہونے کے بجائے اسلام آباد کی علی بابائی غلام گردشوں کی جانب مڑ گیا۔انٹرویو لینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے اور انٹرویو دینے والا بھی پوچھ رہا ہے کہ یہ کس کی کارستانی ہے؟ اور جس گیری کیسپروف کی یہ کارستانی ہے وہ کہیں ٹھنڈے کمرے میں بساط سامنے دھرے ایک مہرے کو دوسرے سے پیٹنے کی مشقِ مسلسل میں ہے۔
ترک کہاوت ہے ’غلام کا غصہ غلام پر ہی نکلتا ہے۔‘
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
بابائے کیمیا : جابر بن حیان کی اہم ایجادات
جابر ابن حیان ایسا مسلمان کیمیا دان رہا ہے جس کی محنت اور کوشش سے علم کیمیا کو بڑی ترقی ملی اور یہ علم موجودہ حالت پر آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جابر ابن حیان سب سے پہلا کیمیا دان تھا۔ جنھیں دنیا ''بابائے کیمیا‘‘ کے نام سے بھی جانتی ہے۔ وہ ایک عظیم مسلمان کیمیا دان ہونے کے ساتھ ساتھ ریاضی دان، حکیم، فلسفی ، ماہر نفسیات اور ماہر فلکیات بھی تھے۔ اہل مغرب میں جابر بن حیان ''Geber‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق عرب کے ایک قبیلے ''بنو ازد‘‘ سے تھا لیکن ان کا خاندان کوفے آ کر آباد ہو گیا تھا۔ جابر 722ء میں خراسان میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدہ انہیں لے کر واپس عرب چلی گئیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنے لگیں۔ انھوں نے کوفہ میں امام جعفر صادقؓ کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ حکمت، منطق اور کیمیا جیسے مضامین کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہ ان ہی کی صحبت کا اثر تھا کہ جابر اگرچہ بعد میں سائنسدان بنے لیکن ان پر مذہب کا رنگ ہمیشہ غالب رہا۔
اب تو علم کیمیا بہت ترقی کر چکا ہے اور اس کی بہت سی شاخیں ہیں لیکن جابر کے زمانے میں اس علم کا مطلب یہ تھا کہ معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے۔ کسی کو اس میں کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن کوشش سب کرتے تھے۔ جابر نے اپنا وقت صرف اس خیال پر ضائع نہیں کیا، انہوں نے تجرباتی کیمیا پر زور دیا۔ وہ بہت سے تجربات سے واقف تھے جو آج کے طالب علم بھی اپنی تعلیم گاہوں کی تجربہ گاہ میں کرتے ہیں۔ مثلاً حل کرنا، کشید کرنا، فلٹر کرنا، اشیا کا جوہر اڑانا اور مختلف چیزوں کی قلمیں بنانا۔ اپنی ایک کتاب میں وہ لکھتے ہیں ''کیمیا میں سب سے ضروری چیز تجربہ ہے، جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔ پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربے پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔
کسی کیمیا دان کی قابلیت کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ اس نے کیا کیا پڑھا ہے، بلکہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے تجربے کے ذریعے کیا کچھ ثابت کیا ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑا رنگنے، دھاتوں کو صاف کرنے موم جامہ بنانے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے اس پر وارنش کرنے، بالوں کا خضاب تیار کرنے اور اسی قسم کی درجنوں مفید چیزیں بنانے کے طریقے ایجاد کئے۔ کیمیائی آلات میں جابر کی سب سے اچھی ایجاد ''قرع انبیق‘‘ (distilling apparatus) ہے جس سے کشید کرنے، عرق کھینچنے اور ست یا جوہر تیار کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس آلے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے ان میں سے ایک ''قرع‘‘ اور دوسرے کو ''انبیق‘‘ کہتے تھے۔ قرع عموماً صراحی کی شکل کا ہوتا تھا، جس کے ساتھ ایک لمبی نالی لگی ہوتی تھی۔ دوسرا حصہ پہلے پر اچھی طرح آ جاتا تھا اور اس میں پھنس جاتا تھا۔
عطار عرق کھینچنے کے لئے اب بھی یہ آلہ استعمال کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ مٹی کے بجائے لوہے یا ٹین سے بنایا جاتا ہے۔ اس کا موجودہ نام'' ریٹارٹ‘‘( Retort ) ہے۔ جابر کی ایک اہم دریافت گندھک کا تیزاب ہے۔ انہوں نے اس قرع انبیق سے ہی تیزاب بنایا۔ آج بھی اس کی تیاری کا طریقہ کافی حد تک وہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ذرا بہتر قسم کے آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ الغرض جابر نے اپنی تحقیقات سے علم کیمیا کو نیا روپ دیا اور اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ انھوں نے کیمیا پر تصانیف بھی لکھیں جن کی زبان عربی ہے۔ ان کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔ ان کی علمی تحریروں میں 200 سے زیادہ تصانیف شامل ہیں۔ اسلامی عہد میں سنہری کارنامے انجام دینے والا یہ عظیم ��ائنس دان 95 برس کی عمر میں فوت ہوا۔
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
��س سالانہ ہندو تہوار کے بارے میں آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔
اس سالانہ ہندو تہوار کے بارے میں آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔
جنماشتمی جو کہ گوکولستمی کے نام سے بھی مشہور ہے ، طاقتور بھگوان کرشن کا تہوار ہے۔ یہ ہندو تہوار بھگوان کرشن کی پیدائش کی علامت ہے ، جسے بھگوان وشنو کا آٹھویں اوتار بھی سمجھا جاتا ہے۔ ہندو کیلنڈر کے مطابق ، ہر سال ، یہ تہوار آٹھویں دن یعنی کرشنا پکا کی اشٹمی ، اگست یا ستمبر کے مہینے میں آتا ہے۔ اس سال ، جنمستمی کی تقریبات 30 کو شروع ہوں گی۔ویں اگست۔
یہ تہوار بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے ، خاص طور پر متھرا اور ورنداون میں۔ قابل احترام بھگوان کرشنا کا استقبال اور احترام کرنے کے لیے ، عقیدت مند مذہبی گیت گاتے ہیں ، بھگوان کرشنا کی زندگی پر ڈانس ڈرامہ نافذ کرتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں
تاریخ پیدائش۔
بھگوان کرشنا اگست ستمبر میں اشٹمی کی رات متھرا میں پیدا ہوا تھا۔ وہ واسودیو اور دیوکی کے بیٹے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ دیوکی متھرا کے برے حاکم بادشاہ کانسا کی بہن بھی تھی۔ دیوکی کی شادی کے بعد ، ایک پادری نے پیش گوئی کی کہ جوڑے کا آٹھویں بیٹا کنسا میں موت لائے گا۔ جیسے ہی یہ پیشگوئی کانسا کے کانوں تک پہنچی ، اس نے واسودیو اور دیوکی کو قید کر لیا۔
دیوکی کے پہلے چھ بچے فوری طور پر کانسا کے ہاتھوں مارے گئے۔ تاہم ، ان کے ساتویں بچے کی پیدائش کے دوران ، بلرام کہا جاتا ہے کہ جنین کو جادوئی طور پر شہزادی روہنی کے رحم میں منتقل کیا گیا تھا۔ جب بھگوان کرشنا کی پیدائش کا وقت قریب آیا تو واسودیو بچہ کو کنسا کے چنگل سے بچانے میں کامیاب ہوگیا اور اسے ورنداون میں رہنے والے یشودھا اور نندا بابا کے ہاتھوں میں دے دیا۔
بھگوان کرشنا ورنداون میں پلا بڑھا اور دلکش ، پھر بھی شرارتی بچہ نکلا۔ اس کی پسندیدہ لذت دودھ ، دہی اور مکھن (سفید مکھن) تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر نوجوان لڑکیوں کے برتن توڑتے ہوئے مکھن چوری کرتا تھا (گوپیان) اسے ‘مکھن چور’ بھی سمجھا جاتا ہے۔
ورنداون میں بہت سی خواتین کرشن کو برتنوں کو توڑنے اور مکھن چرانے سے روکنے کے لیے اونچائیوں پر مکھن سے بھرے برتن باندھتی تھیں۔ بھگوان کرشنا اور اس کے دوست انسانی اہرام بناتے تھے تاکہ اس کی بلندی تک پہنچیں اور مکھن چوری کریں۔ یہ شرارتی فعل اب بڑے پیمانے پر جنم ستمی کے دوران منایا جاتا ہے۔ دھی ہندی جشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ تقریبات بڑے پیمانے پر بڑے انداز اور بھرپور انداز میں ہوتی ہیں۔ ہر سال ، بہت سے عقیدت مند اس مبارک موقع کا ہمارے ملک کے بہت سے حصوں جیسے مہاراشٹر ، گجرات ، مشرقی اور شمال مشرقی ہندوستان وغیرہ میں بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔
مہاراشٹر۔
ممبئی ، پونے ، لاتور اور ناگپور شہروں میں جنماشتمی منائی جاتی ہے۔ تقریبات افسانوی دہی ہانڈی (دہی کا مٹی کا برتن) روایت کو نمایاں کرتی ہیں ، جس کے چاروں طرف خوشگوار ہجوم ، سماجی شخصیات اور میڈیا شامل ہیں۔ ہر سال ، نوجوانوں اور لڑکوں کی ایک ٹیم شہر میں گھومتی ہے ، لٹکے ہوئے برتنوں کی تلاش کرتی ہے۔ ٹیم جسے ‘گوونداس’ بھی کہا جاتا ہے برتن کو توڑنے کے لیے ایک انسانی اہرام بناتا ہے۔ برتنوں کے اندر کی خاصیت کو کمیونٹی کی پیشکش (پرساد) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اب ، جدید دور میں ، مختلف کارپوریشنوں نے اس ایونٹ کو اسپانسر کرنا شروع کیا ہے اور گووندا ٹیموں کو بطور انعام نقد یا تحائف پیش کرنا شروع کردیئے ہیں۔ کئی نوجوان گروپ نقد انعام کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ شہر میں گھومتے ہوئے لٹکے ہوئے برتنوں کی تلاش کرتے ہیں ، زیادہ سے زیادہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تقریبات لڑکوں کے ارد گرد تالیاں بجاتے ، رقص اور گانے سے روشن ہوتی ہیں ، کیونکہ وہ اہرام بناتی ہیں۔
گجرات۔
بھگوان کرشنا کی بادشاہی ، گجرات کے دوارکا میں جنم اشٹامی منانے کے مراکز۔ عقیدت مند مشہور مندروں جیسے دوارکاش مندر میں جاتے ہیں۔ وہ لوک رقص کرتے ہیں اور مذہبی گیت گاتے ہیں۔ کسان اپنی بیل گاڑیوں کو سجاتے ہیں اور بھگوان کرشنا کے اعزاز اور پوجا کے لیے پریڈ کا انعقاد کرتے ہیں۔ گجرات میں ماکھن ہانڈی کہلانے والی دہی ہانڈی کی مشہور روایت بھی منائی جاتی ہے۔
دیارام کی عقیدت مند شاعری – گجراتی شاعر ، جو کہ گجرات میں جنماشتمی تہواروں کے دوران بھی مشہور ہے۔
مشرقی اور شمال مشرقی ہندوستان۔
مشرقی اور شمال مشرقی ہندوستان میں جنم اشٹمی منانے کی معروف ثقافت 15 کی تعلیمات سے منسوب ہے۔ویں اور 16۔ویں صدی سنکاردیو اور چیتنیا مہاپربھو۔ منی پور کے لوگ منی پوری ڈانس کرتے ہیں ، راسلیلا کو نافذ کرتے ہیں – رادھا اور کرشنا کی محبت سے متاثرہ ڈانس ڈرامہ ایکٹ۔
اس موقع پر والدین اپنے بچوں کو کرشنا یا گوپیان کا لباس پہناتے ہیں۔ بچے لککول سنابا کا کھیل کھیلتے ہیں – ایک روایتی بورڈ گیم جو کہ جنمشتمی کی رات میں کھیلا جاتا ہے۔
مندروں کو پھولوں اور پتوں کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ بھگوت گیتا اس موقع کی بنیادی جھلکیاں میں سے ایک ہے۔ لوگ مقدس کتاب کے دسویں باب کی تلاوت یا سنتے ہیں۔ کئی لوگ منی پور میں روزے رکھتے ہیں ، بھگوان کرشنا کی دعائیں اور صحیفے پڑھتے ہیں۔
یہ تہوار شری گووند جی مندر ، امپھال اور کئی اسکون مندروں میں بھی بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔
بھگوان کرشنا کی یاد ، جنماشتمی پر نہ صرف ہندوستان میں ، بلکہ ہندوستان سے باہر بہت سے ممالک میں بھی منائی جاتی ہے ، جیسے نیپال ، بنگلہ دیش ، فجی ، پاکستان وغیرہ۔
گہرائی ، معروضی اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ متوازن صحافت ، یہاں کلک کریں آؤٹ لک میگزین کو سبسکرائب کریں۔
. Source link
0 notes
Text
پاکستان میں انسانی تہذیب کی شروعات
پروفیسر عبدالحمید دانی لکھتے ہیں کہ ’’انسان اوزار ساز ہونے پر مجبور ہے، انہیں اوزاروں کی مدد سے اور ان کے ارتقا سے ہم زمانہ قبل از تاریخ کے انسان کا، اس کے خیالات اور اعمال کے ارتقا کا، قدرت کے خلاف اس کی جدوجہد کا اور اپنے لیے بہتر ماحول پیدا کرنے اور سہولتیں فراہم کرنے کا… مختصر یہ کہ اس کی پوری تہذیبی تشکیل کا سراغ لگاتے ہیں۔ چنانچہ قدیم انسان کے بارے میں معلومات کا بنیادی ذریعہ اوزار ہوتے ہیں۔‘‘ یہ ابتدائی اوزار راولپنڈی سے تقریباً 10 میل کے فاصلے پر سُوان ندی کے کنارے کثیر تعداد میں دستیاب ہوئے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کے قدیم ترین باشندوں کے لیے ’’سوانی تہذیب‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اوزاروں کی ساخت بتاتی ہے کہ وادیٔ سُوان (پوٹھوہار) کے لوگ ان سے کلہاڑی، گوشت کاٹنے کے چھرے اور کھال کھرچنے کا کام لیتے تھے۔
سوانی تہذیب کے ان آثار سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں دشوار نہیں ہے کہ پاکستان کے ابتدائی باشندوں کا رہن سہن اور فکرو احساس کا نظام حجری دور کے دوسرے معاشروں سے مختلف نہیں تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں درختوں پر یا غاروں میں رہتے تھے۔ ہزارہ، پشاور اور مردان کے اضلاع میں ایسے کئی غار دریافت ہو چکے ہیں۔ مردان کے ایک غار میں تو اوزاروں کے علاوہ چولھے کے پاس جانوروں کی جلی ہوئی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔ وہ جنگلی پھل پھول کھاتے تھے۔ جانوروں کا شکار کرتے تھے اور ان کی کھال سے اپنا تن ڈھانکتے تھے۔ وہ درندوں اور دوسرے گروہوں کے خوف سے ایک ساتھ رہتے تھے۔ ایک ساتھ شکار کرتے تھے اور پھر اسے آپس میں مل بانٹ کر کھاتے تھے۔ البتہ ہم ان آثار کی مدد سے یہ نہیں بتا سکتے کہ سوانی تہذیب کے لوگ کس نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ کون سی زبان بولتے تھے۔ ان کا رنگ کیسا تھا اور ان کے چہرے کی بناوٹ کیا تھی۔
یہ پہلا حجری دور کب ختم ہوا اور پوٹھواریوں نے کھیتی باڑی کب شروع کی، ان سوالات کے جواب کے لیے ہمیں شاید انتظار کرنا پڑے۔ پاکستان میں دوسرا حجری دور کھیتی باڑی سے شروع ہوا۔ کھیتی باڑی انسان کا نہایت انقلاب آفریں تجربہ تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ اس فن کی ایجاد ہی کی بدولت انسان انسان کہلانے کا مستحق ہوا۔ زراعت کا فن سیکھنے کے بعد وہ اپنی ضروریات زندگی خود پیدا کرنے لگا۔ اس طرح انسان کو اپنی ذاتی صلاحیتوں کا شعور ہوا اور وہ اپنی تخلیقی قوتوں سے کام لے کر اپنے لیے ایک جہان تازہ پیدا کرنے پر قادر ہوا۔ پہلے حجری دور کے ذہنی اور حسی محرکات کا محور اگر انسانوں اور جانوروں کی افزائش نسل کی آرزو تھی تو دوسرے حجری دور کے رسوم و افسوں کا محرک افزائش نسل اور افزائش فصل کے تقاضے تھے۔
انہیں تقاضوں کی تکمیل کے دوران میں بلوچستان کے کاشت کاروں نے دھات کا استعمال معلوم کر لیا۔ تب ہم دیہی تہذیب سے ترقی کر کے وادیٔ سندھ کی شہری تہذیب تک پہنچ گئے۔ تہذیب نے تمدن کا لباس فاخرہ زیب تن کر لیا اور طبقات میں بٹ گئی۔ محققین نے سوانی تہذیب اور موہن جو ڈرو؍ ہڑپہ کی شہری تہذیب کے درمیان چار دیہی یا زرعی تہذیبیں دریافت کی ہیں۔ ان تہذیبوں میں بع�� باتیں مشترک ہیں اور بعض باتیں فرق ہیں۔ مثلاً زراعت ان کی مشترکہ خصوصیت تھی۔ وہ کھیت جوتنے کے لیے ہل اور کدال، جن کے پھل نوکیلے پتھر کے ہوتے تھے، استعمال کرتے تھے۔ وہ جَو، گیہوں اور دالیں بوتے تھے۔ فصل پتھر کی ہنسیوں سے کاٹتے تھے اور اناج کو پتھر کی چکیوں میں پیستے تھے۔ انہیں پتھر کے چاک پر مٹی کے نقشی برتن بنانے اور ان برتنوں کو آگ میں پکانے کا ہنر بھی آتا تھا۔ ان کی بستیوں کا رقبہ زیادہ سے زیادہ ڈھائی ایکڑ ہوتا تھا۔
سندھ اور بلوچستان کے آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے کے لوگ موہن جو دڑو؍ ہڑپہ تہذیب سے پیشتر بہت ترقی یافتہ تھے بلکہ موہن جو دڑو والوں نے بعض باتیں انہیں سے سیکھی تھیں۔ موہن جو دڑو؍ ہڑپہ کی تہذیب کو عرف عام میں وادیٔ سندھ کی تہذیب کہتے ہیں۔ یہ پاکستان میں کانسی کے دور کا نقطۂ عروج تھی۔ یہ تہذیب کوہ ہمالیہ کے دامن سے کاٹھیاواڑ تک اور کوئٹہ سے راجپوتانہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی تہذیبی تھی کیونکہ اس کا دائرہ ہم عصر مصری، سومیری اور ایرانی تہذیبوں سے کہیں زیادہ وسیع تھا۔ یہ تہذیب تقریباً ایک ہزار برس تک بڑی آن بان سے زندہ رہی۔ اس کے آثار میں دو بڑے شہر موہن جو دڑو اور ہڑپہ ہیں۔ بقیہ چھوٹی چھوٹی بستیاں جو پورے سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ موہن جو دڑو دریائے سندھ کے کنارے آباد تھا اور ہڑپہ دریائے راوی کے کنارے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دونوں شہر وادیٔ سندھ کے دارالسلطنت تھے۔ موہن جو دڑو تجارتی بندرگاہ بھی تھا جس کی آبادی ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ آج کل کی طرح اس زمانے میں وادیٔ سندھ کے باشندوں کی غالب اکثریت گاؤں میں رہتی اور کھیتی باڑی کرتی تھی۔ یہ لوگ جَو، گیہوں، رائی اور تِل کی کاشت کرتے تھے۔ گائے، بیل، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ، گھوڑے، گدھے اور کتے پالتے تھے۔ کپاس اگاتے اور سوت کے کپڑے پہنتے تھے۔ کپاس ان کی اجارہ داری تھی چنانچہ وہ بھی ہمارے طرح کپاس اور سوتی سامان دساور بھیج کر زرمبادلہ کماتے تھے۔ وادیٔ سندھ کے برتن بھانڈے عموماً مٹی کے ہوتے تھے۔ اسی وضع کے جیسے آج کل بنتے ہیں۔
حتیٰ کہ ان کے نقش و نگار میں تین ہزار برس گزر جانے کے بعد بھی فرق نہیں آیا۔ ان لوگوں کو سونے، چاندی، تانبا، ٹن اور جست کو گلا کر اوزار اور زیورات بنانا آتا تھا۔ اونچے طبقے کی عورتوں کو آرائش و زیبائش کا بڑا شوق تھا، چنانچہ ہڑپہ اور موہن جو دڑو سے سونے چاندی کے بکثرت ہار، مالائیں، گلوبند، کڑے، جھومر، کرن پھول، ناک کی کیلیں اور سرمہ دانیاں ملی ہیں۔ کانسی کے آلات میں کلہاڑیاں، استرے، چاقو اور بلم بھالوں کے چھوٹے چھوٹے پھل دستیاب ہوئے ہیں۔ البتہ ڈھال تلوار، خود، زرہ بکتر یعنی جنگی اسلحہ ایک بھی نہیں ملا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وادیٔ سندھ کا معاشرہ محفوظ معاشرہ تھا۔ لوگ بڑے امن پسند اور صلح جُو تھے۔ لوٹ مار، قتل و ��ارت گری ان کا شیوہ نہ تھا۔
سبطِ حسن
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
دھواں افسانہ سعادت حسن منٹو

وہ جب اسکول روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس میں دو تازہ ��بح کیے ہوئے بکرے تھے۔ کھالیں اتری ہوئی تھیں اور ان کے گوشت میں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں، پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اس کی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔ سوا نو بجے ہوں گے ، مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔ سردی میں شدت نہیں تھی، لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سماوار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دھواں نکل رہا تھا۔ ہر شئے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہوئی ہے۔، موسم کچھ ویسی ہی کیفیت کا حامل تھا جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے ، آوازیں مدھم تھیں، جیسے سرگوشیاں ہو رہی ہیں، چپکے چپکے ، دھیرے دھیرے باتیں ہو رہی ہیں۔ ہولے ہولے لوگ قدم اٹھا رہے ہیں کہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔ مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جا رہا تھا۔ آج اس کی چال سُست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کئے ہوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دھواں اٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہوئی۔ اس دھوئیں نے اس کے ٹھنڈے گالوں پر گ��م گرم لکیروں کا ایک جال سا بُن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دھواں مل جایا کرے تو کتنا اچھا ہو۔ فضا میں اجلا پن نہیں تھا۔ روشنی تھی مگر دھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہر شے پر چڑھی ہوئی تھی جس سے فضا میں گدلا پن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ گدلا پن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا، اس لئے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔ مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کر کے قطعی طور پر خوشی نہ ہوئی کہ اسکول سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے ، جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے۔ کچھ چھٹی کا پتہ معلوم کرتے ہی گھر چلے گئے تھے ، کچھ آ رہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے ، اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔ مسعود نے جب سنا کہ سکتر صاحب مر گئے ہیں تو اسے بالکل افسوس نہ ہوا۔ اس کا دل جذبات سے خالی تھا۔ البتہ اس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے دادا جان کا انتقال انہی دنوں میں ہوا تھا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دقت ہوئی تھی۔ اس لیے کہ بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کُھدی ہوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔ یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے ، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبے پڑ جاتے تھے۔ ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر آ کر ہاتھ پاؤں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ ------ یہ سب کچھ اس کو اچھی طرح یاد تھا۔ چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سنی تو اسے یہ سب بیتی ہوئی باتیں یاد آ گئیں۔ اور اس نے سوچا جب سکتر صاحب کا جنازہ اٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بلبلا اٹھیں گے۔ مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنی کلاس کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے ڈیسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں، اس میں رکھیں اور باقی بستہ اٹھا کر گھر کی جانب چل پڑا۔ راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیئے ہوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا۔ دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعود دکان سے گزرا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا، چھو کر دیکھے۔ چنانچہ اس نے آگے بڑھ کر انگلی سے بکرے کے اس حصے کو چھو کر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا۔ گوشت گرم تھا۔ مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بھلی معلوم ہوئی۔ قصائی دکان کے اندر چھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔ گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سنائی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے ابا جی انہی کے جنازے کے ساتھ گئے ہوئے ہیں۔ اب گھر میں صرف دو آدمی تھے۔ ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانے میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کر رہی تھی۔ چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں ہوا تھا، اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابا جی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش طاق میں پڑا تھا مگر اس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوڈو اور اس قسم کے دوسرے کھیل جو اس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی، اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی ان کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاّ ایسے کھیلوں سے لگاؤ نہیں تھا۔ بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اس نے سبز سبز پتوں کا گیلا گیلا ڈھیر اٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اس میں سے سفید سفید دھواں اٹھنے لگا۔ اس دھوئیں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوشت یاد آ گیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا ‘‘ امی جان آج میں نے قصائی کی دکان پر دو بکرے دیکھے کھال اتری ہوئی تھی اور ان میں دھواں نکل رہا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتا ہے۔‘‘ ‘‘ اچھا ------ ‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں چولہے ��یں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔ ‘‘ ہاں، اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چھُو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔‘‘ ‘‘ اچھا ------ ‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانے سے باہر چلی گئی۔ ‘‘ اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا تھا۔‘‘ ‘‘ اچھا ------‘‘ مسعود کی بڑی بہن نے درباری سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی، ‘‘ کیسے پھڑکتا تھا؟‘‘ ‘‘ یوں ------ یوں۔‘‘ مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کر کے اپنی بہن کو دکھائی۔ ‘‘ پھر کیا ہوا؟‘‘ یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذہن ہو گیا۔ ‘‘ پھر کیا ہونا تھا۔ میں نے ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چھُو کر بھی دیکھا تھا۔ گرم تھا۔‘‘ ‘‘ گرم تھا۔۔۔۔ اچھا مسعود، یہ بتاؤ تم میرا ایک کام کرو گے ؟‘‘ ‘‘ بتائیے۔‘‘ ‘‘ آؤ، میرے ساتھ آؤ۔‘‘ ‘‘ نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے ؟‘‘ ‘‘ تم آؤ تو سہی، میرے ساتھ۔‘‘ ‘‘ جی نہیں ------ آپ پہلے کام بتائیے۔‘‘ ‘‘ دیکھو، میری کمر میں بڑا درد ہو رہا ہے ------ میں پلنگ پر لیٹتی ہوں۔ تم ذرا پاؤں سے دبا دینا ------ اچھے بھائی جو ہوئے۔ اللہ کی قسم بڑا درد ہو رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کر دیں۔ ‘‘ یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے ؟ جب دیکھو درد ہو رہا ہے۔ اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں۔ کیوں نہیں اپنی سہلیوں سے کہتیں۔‘‘ مسعود اٹھ کھڑا ہوا اور راضی ہو گیا۔ ‘‘ چلیئے ، لیکن آپ سے یہ کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دباؤں گا۔‘‘ ‘‘ شاباش، شاباش۔‘‘ اس کی بہن اٹھ کھڑی ہوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔ صحن میں پہنچ کر اس نے اپنی دکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جھکے ہوئے تھے ‘‘ مسعود آج ضرور بارش ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔ جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کر گھڑی میں وقت دیکھا۔ ‘‘ دیکھیئے باجی، گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دوں گا۔ ‘‘ بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آ کر جلدی کمر دباؤ۔ ورنہ یاد رکھو، بڑے زور سے کان اینٹھوں گی۔‘‘ کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پاؤں سے اس کی کمر دبانا شروع کر دی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہو گیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں، تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ، ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا۔ جب مسعود کا پاؤں اس حصے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔ اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کر دیئے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر۔ وہ ان کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل ہی نہ تھا۔ ایک دو بار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے۔ اس قسم کی حرکت جو اس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بد دلی سے کمر دبانا شروع کی تھی، مگر اس اسے اس کام میں لذت محسوس ہونے لگی۔ اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی، اس گمنام سی لذت میں اضافہ کر رہی تھی۔ ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے ، مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا۔ جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی، ‘‘ شاباش مسعود، شاباش، لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو۔ بالکل اسی طرح ------ شاباش میرے بھائی۔‘‘ مسعود نے دیوار کا سہارا لے کر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پاؤں کے نیچے مچھلیاں تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دہری ہو گئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا۔ لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی تڑپ منجمد سی ہو گئی۔ اس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوار کا سہارا لے کر اپنی بہن کی رانیں دبائے۔ چنانچہ اس نے کہا، ‘‘ یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کر دیا۔ سیدھی لیٹ جائیے ، میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں۔‘‘ کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں ادھر ادھر ہونے کے باعث جو گُدگُدی ہوئی تھی، اس کا اثر ابھی اس کے جسم میں باقی تھا۔ ‘‘ نا بھائی، میرے گُدگُدی ہوتی ہے۔ تم وحشیوں کی طرح دباتے ہو۔‘‘ مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ ‘‘ نہیں، اب کی دفعہ میں پورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں ------ آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دباؤں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔‘‘ دیوار کا سہارا لے کر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے پیر چلانے شروع کیئے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر ادھر ادھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازیگر کر چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازی گر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا اسی طرح پھسلتا ہو گا۔ اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں۔ مگر وہ لذت جو اسے اب محسوس ہو رہی تھی، پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا کلثوم کو اگر ذبح کیا جائے تو کھال اتر جانے پر کیا اس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟ لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کر دیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔ ‘‘ بس، بس ‘‘ کلثوم تھک گئی ‘‘ چلیں بس۔‘‘ مسعود کو شرارت سوجی۔ وہ پلنگ سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گُدگُدی شروع کر دی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اتنی ��کت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے لیکن جب اس نےیہ ارادہ کر کے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی ہے۔ بادل اور بھی جھک آئے تھے۔ پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہو رہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دلنواز حرارت محسوس کر رہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اس کے گالوں کے ساتھ مس ہوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کے ناک پر پڑیں تو ایک جھُرجھُری سی اس کے بدن میں لہرا اٹھی۔ سامنے ، کوٹھے کی دیورا پر ایک کبوتر اور ایک کبوتری پاس پاس پر پھُلائے بیٹھے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔ گلِ داؤدی اور نازبُو کے ہرے ہرے پتے اوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں کھلی ہوئی تھیں۔ ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے ارد گرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اُونی کپڑے۔ مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا جن کا مطلب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ ان باتوں کو چھُو کر دیکھ سکتا تھا مگر ان کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا۔ پھر بھی ایک گمنام سا مزا اس سوچ بچار میں اسے آ رہا تھا۔ بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کس لیں اور ان کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی پہنچی مگر وہ نم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانے میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا۔ ابھی اس پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آ گیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسعود کی ماں اٹھ کر فوراّ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت بڑھ گئی تھی۔ کیونکہ اب ہوا بھی چل رہی تھی۔ مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کو راحت انگیز گرمی پہنچے۔ دیر تک وہ ایسی شیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اس کے پٹھوں میں ہلکی ہلکی دکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی۔ اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا۔ البتہ اس اٹکاؤ نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہوئے اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ اس کا سارا جسم کھینچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔ دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اٹھا اور باورچی خانے سے ہوتا ہوا صحن میں آ نکلا۔ کوئی باورچی خانے میں تھا نہ صحن میں۔ ادھر ادھر جتنے کمرے تھے ، سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رکھ گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کر دیا۔ ایک بار جب اس نے زور کی ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پر لگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی ‘‘ کون؟‘‘ ‘‘ جی میں ہوں، مسعود۔‘‘ اندر سے آواز آئی ‘‘کیا کر رہے ہو؟‘‘ ‘‘ جی کھیل رہا ہوں۔‘‘ ‘‘ کھیلو۔۔۔۔۔۔‘‘ پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اس کے باپ نے کہا، ‘‘ تمہاری ماں میرا سر دبا رہی ہے ------ زیادہ شور نہ مچانا۔‘‘ یہ سن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں ��یے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم باز ------ مسعود کو شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم باز دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیئے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو پاس پاس لیٹی تھیں خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔ بملا کے بلاؤز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔ مسعود کچھ سمجھ نہ سکا۔ اس کے دماغ پر دھواں سے چھا گیا۔ وہاں سے الٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاًّ اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت بالکل کمزور کر دی۔ بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دباؤ ڈالنے پر بھی ہاکی میں خم پیدا ہو جائے گا اور زیادہ زور لگانے پر تو ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زور لگانے پر بھی وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کشتی لڑتا رہا۔ جب تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اس نے ہاکی پرے پھینک دی۔ Read the full article
0 notes
Link
جوں جوں سردی کا موسم قریب آتا ہے، ننھے منے پھول جیسے بچے زیادہ سردی لگنے سے مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ بچوں کا مدافعتی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا، اس لیے وہ تھوڑی سی بد احتیاطی سے بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔سردیوں میں ناک بہنا، زکام، کھانسی، بخار، سانس کا تیز چلنا بچوں میں ہونے والی عام علامات ہیں۔ ان سب پر مناسب توجہ سے آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان حالتوں میں زیادہ تر سانس کے نظام کا اوپر والا حصہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ عموما وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن کوئی اور بیکٹیریا بھی انفیکشن کرسکتا ہے اور مناسب توجہ نہ دینے کی وجہ سے نمونیہ اور ٹی بی جیسے موذی مرض بھی ہوسکتے ہیں جس سے بچے کیلئے بہت زیادہ مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
نظام تنفس کے اوپر کے حصہ کی بیماریاں جنہیںURTIبھی کہتے ہیں یا تو وائرس کی وجہ سے ہوتی ہیں یا پھر بیکٹیریا کی وجہ سے۔ ان میں بچہ بے چین ہوتا ہے۔ بخار کی وجہ سے جسم گرم محسوس ہوتا ہے۔ ٹانسل اور نظام تنفس کے اوپر والے حصے کے دوسرے حصے سوجے اور پھولے نظر آتے ہیں۔ سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان حالات میں ماں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس کا کام ہے کہ تسلی سے بچہ کی حرکات و سکنات اور رویے میں تبدیلی کو دیکھے اور بچے کو ایک صاف اور ہوا دار کمرے میں رکھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دوسرے صحت مند بچوں کواس سے دور رکھا جائے۔ بخار وغیرہ کی صورت میں بچے کو کچھ نہ کچھ کھلاتے پلاتے رہنا چاہیے۔ عموما دیکھا گیا ہے کہ مائیں اس صورت میں بچے کو کھلانے پلانے سے احتراز کرتی ہیں۔ ماں کو بد ستور اپنا دودھ پلاتے رہنا چاہیے اور زیادہ تر پینے والی اشیا دینا چاہئیں۔بچے کی نیند اور آرام کا مکمل خیال رکھنا چاہیے۔اگر ٹمپریچر زیادہ ہو تو پھر ٹھنڈی پٹیاں کر کے اسے کنٹرول کرنا چاہیے۔بخار کم کرنے کیلئے کوئی بخار کم کرنے والی دوا استعمال کریں لیکن 12سال سے کم عمر بچوں میں اسپرین یا ڈسپرین کبھی استعمال نہ کی جائے کیونکہ اس سے جگر اور دماغ کی بیماری ہوسکتی ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مچھلی کا تیل(Cod liver oil) یا شہد بچوں کے لیے اچھی غذا ہے اور یہ نظام تنفس کے امراض کو روکنے میں مدد کرسکتے ہیں۔-7بہت سے ایسے امراض ہیں جن میں اینٹی بائیوٹکس دواوں کے استعمال کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کی ضرورت وائرس سے ہونے والی انفیکشن میں بالکل نہیں ہوتی۔اگر اوپر دی گئی ہدایات پر عمل کرنے سے بچے کا بخار کم نہ ہو اور سانس میں رکاوٹ بد ستور بر قرار رہے تو پھر ڈاکٹر سے مشورہ کرکے بچے کا باقاعدہ علاج شروع کروانا چاہیے تاکہ باقاعدہ تشخیص کرکے صحیح علاج کیا جاسکے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سردیوں کے موسم میں بچوں کی طرح بڑے بھی مختلف بیماریوں اور چسٹ انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جاں لیوا خشک کھانسی اور بلغمی کھانسی پیچھانہیں چھوڑتی۔ گلے میں سوجن کی وجہ سے آواز نہیں نکلتی۔ زکام کی وجہ سے ہر وقت ناک بہتا رہتا ہے۔ دمہ کے مریضوں میں انفیکشن کی وجہ سے دمہ کے مرض میں شدت آجاتی ہے۔انسانی جسم کا مدافعتی نظام بہت مضبوط ہے۔ جب بھی جسم پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے جسم کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے۔ کھانسی کا آنا بھی اسی مدافعتی نظام کا ایک حصہ ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کھانسی کے ذریعے سانس کی نالی کے اوپر والے حصے سے جمی ہوئی بلغم باہر نکلتی ہے جس سے سانس لینا آسان ہو جاتا ہے۔ کھانستے رہنے سے سانس کی نالی صاف ہوتی رہتی ہے۔ اس بلغم کا اخراج نہ ہو تو سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں اور یوں سانس پھولنے اور دمہ کی بیماری کے حملے ہونے لگتے ہیں۔ اس لیے اس طرح کی کھانسی کو روکنے کے لیے کسی قسم کی دوا کی ضرورت نہیں رہتی۔اصل میں کھانسی کی دوا صرف اور صرف اس وقت استعمال کرنی چاہیے جب اس کے ساتھ ساتھ دوسری تکالیف ہوں یعنی بخار یا کوئی اور انفیکشن جن کا علاج بہت ضروری ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بعض اوقات گرم پانی اور نمک کے غرارے کرنے یا پھر بھاپ لینے سے کھانسی دور ہو جاتی ہے۔ مختلف قسم کی نت نئی کھانسی کی دوائیں حقیقتا کھانسی روکنے میں ذرا بھی مدد نہیں کرتیں۔ ان کا بے جا استعمال صرف اور صرف پیسے کا ضیاع ہے۔ اس لیے ان کے استعمال سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔کھانسی کم کرنے یا روکنے والے مختلف شربت دیکھنے میں بہت بھلے اور ا چھے لگتے ہیں۔ جیب پہ بھی خاصا بوجھ ڈالتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے ان سب سے جتنا بھی بچا جائے بہتر ہے۔ تھوڑی بہت کھانسی ہونا فائدہ مند ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس سے سانس کی نالی صاف ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ کھانسی کی صورت میں مندرجہ ذیل گھریلو علاج فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔صبح دوپہر شام دو چمچ شہد میں چار دانے پسی ہوئی سیاہ مرچ ملا کر استعمال کریں۔رات کو سونے سے پہلے کھلے برتن میں گرم پانی ڈال کر اس میں Tinc Benzco کے چند قطرے یا نمک ملا کر بھاپ لیں۔زکام کی صورت میں گرم چنے لے کر ان کی بھاپ لیں۔میٹھے بادام کی چھ سات گریاں پانی میں بھگوئیں۔ صبح چھلکا اتار کر چینی اور مکھن کے ساتھ ملا کر پیسٹ بنائیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
خشک کھانسی کے لیے مجرب نسخہ ہے۔بعض نام نہاد حکیم اور جعلی ڈاکٹر ذرا سے زکام میں مختلف دواوں کی کاک ٹیل بنا کر دیتے ہیں جس میں درد دور کرنے والی دوا الرجی کے لیے دوا، اینٹی بائیوٹک دوا اور سٹیر ائیڈ شامل ہوتے ہیں۔اگرچہ اس سے فوری افاقہ تو ہو جاتا ہے لیکن ان دواوں کے مضر اثرات کی وجہ سے بعد میں خاصے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ زکام یا فلو ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں ان ساری دواوں کے استعمال کا ذرا بھی فائدہ نہیں۔ زکام میں ناک میں ڈالنے والی یا بند ناک کھولنے والی دواوں سے حتی المقدور پرہیز کریں کیونکہ اس سے بلڈ پریشر اور خون کی نالیاں سکڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس لیے بہتر ہے کہ ایسی تمام دواوں کے استعمال سے بچا جائے۔ تاہم زکام کی وجہ سے اگر سر درد یا بخار ہو تو اس صورت میں سر درد یا بخار کے لیے پیراسٹا مول یا ڈسپرین لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح زکام میں سٹیرائیڈز اور اینٹی بائیوٹک دواوں کے استعمال کا بالکل کوئی فائدہ نہیں۔ زکام ہونے کی صورت میں مندرجہ ذیل آسان گھریلو نسخے پر عمل کریں۔زکام یا فلو ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے جس پر مختلف قسم کی دواوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کا سب سے بہتر علاج بھاپ لینا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بھاپ لینے سے وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔زکام کے دوران وٹامن سی کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔ وٹامن سی کے لیے اورنج جوس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔زکام کے دوران سوپ لیں اور جوشاندہ وغیرہ کا استعمال کریں۔کھانسی اور گلے کی خراش کی صورت میں غرارے کریں۔ملٹھی کا استعمال کریں۔گلے کی مختلف تکالیف کے لیے دواں کا استعمال کرتے وقت اس بات کا تعین کرنا بہت ضروری ہے کہ واقعی دوا کی ضرورت بھی ہے کہ نہیں۔ معمولی گلا خراب ہونے یا گلے میں خارش ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کھانے پینے میں احتیاط نہ کرنے اور بہت زیادہ ٹھنڈی یا زیادہ گرم اشیا کھانے سے بھی گلا خراب ہو جاتا ہے۔ جو ایک آدھ دن بعد خودبخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گلے میں انفیکشن ہونے کی صورت میں اینٹی بائیوٹک دواں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرلیا جائے۔ گلے کی معمولی تکلیف بعض اوقات صرف غرارے کرنے سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔ تکلیف زیادہ دیر برقرار رہے تو بہتر ہے ڈاکٹر کے مشورہ سے علاج کیا جائے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
گلے کی تکالیف دور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل آسان آزمودہ نسخوں پر عمل کریں۔نیم گرم پانی میں نمک ملا کر باقاعدگی سے غرارے کریں۔ادرک کے رس میں شہد ملا کر چاٹنے سے بھی گلا ٹھیک ہو جاتا ہے۔ذرا سی سونف منہ میں ڈال کر دن میں کئی بار چبائیں اور اس کا رس نگل لیں۔آواز بیٹھ جانے کی صورت میں آدھا لیٹر پانی میں تھوڑی سی سونف ڈال کر پکائیں۔ چوتھا حصہ رہ جائے تو اسے اتار کر حسب ذائقہ چینی ملا کر دو تین بار دن میں استعمال کریں۔ آواز ٹھیک ہو جائے گی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ایک چمچ سرکہ پانی میں ڈال کر غرارے کریں۔ایک لیموں کو پانی میں دس منٹ تک ابالیں۔ اس کا جوس نکال کر ایک گلاس میں ڈالیں۔ اس میں دو چمچ گلیسرین ڈا کر اچھی طرح ہلائیں دو چمچ شہد ڈالیں اور گلاس کو پانی سے بھر لیں۔ کھانسی کا قدرتی شربت تیار ہے۔ گلے کی خرابی میں ہونے والی کھانسی کے دوران 5 دن تک دو چمچ صبح، دوپہر، شام استعمال کریں ان شا اللہ افاقہ ہوگا۔ملٹھی اور سونف کا استعمال بھی کھانسی روکنے میں ممد ثابت ہوتا ہے۔دمہ بچوں اور بڑوں کے لیے ایک بہت تکلیف دہ بیماری ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس میں بار بار سانس اکھڑتا ہے جو بعض حالتوں میں خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔دمہ بعض اوقات الرجی کرنے والی اشیا مثلا گرد، ہاس مائٹ، پولن گرین یا کھانے پینے کی اشیا کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر انفیکشن کی وجہ سے جس کی و جہ سے سانس کی نالیوں میں بلغم جمع ہو جاتا ہے ان حالتوں میں سب سے بہتر علاج الرجی کرنے والے عناصر سے پرہیز اور انفیکشن کو کنٹرول کرنا ہے۔دمہ کے علاج کے لیے مختلف قسم کی دوائیں دستیاب ہیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ان میں گولیاں، شربت اور انہیلر شامل ہیں لیکن دواں کے استعمال میں سب سے ضروری امر یہ ہے کہ دوا استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے بعض نام نہاد حکیم اور ڈاکٹر دمہ میں فوری طور پر سٹیرائیڈ دواں کا استعمال شروع کرا دیتے ہیں۔ جس کا کسی طرح بھی کوئی جواز نہیں ہوتا۔ دمہ کے علاج کے لیے مختلف قسم کی اینٹی الرجی ویکسین بھی بنائی جاتی ہیں لیکن تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ تمام ویکسین زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتیں۔اگر آپ دمہ کا شکار ہیں تو گھبرائیے نہیں۔ اس کا حل آپ کے پاس موجود ہے۔ سب سے پہلے ان چیزوں کو جاننے کی کوشش کیجئے جن سے آپ پر دمہ کا حملہ ہوتا ہے، ان عوامل سے بچیں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مٹی، گرد وغیرہ سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل گھریلو نسخوں پر عمل کریں۔ ان شا اللہ افاقہ ہوگا۔کھانے پینے کی ایسی تمام اشیا سے پرہیز کریں جن کے کھانے سے آپ کو الرجی ہو یا دمہ کا حملہ ہوتا ہے۔اپنی روزمرہ کی خوراک میں انگور، کھجور اور امرود کا باقاعدہ استعمال کریں۔تلسی کے پتے، ادرک، پیاز لے کر ان کا جوس نکالیں اور اس میں شہد کے دو چمچ ملا کر دو چمچ صبح دوپہر شام استعمال کریں۔سبزیوں کا زیادہ استعمال کریں۔ گاجر کے موسم میں اس کا جوس استعمال کریں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
لیموں کے رس میں ادرک اور شہد ملا کر استعمال کریں۔سبزیوں کا سوپ صبح شام لیں۔سادہ غذا لیں، مرغن غذاں سے پرہیز کریں، تلی ہوئی چیزوں اور زیادہ گھی اور تیل والی تمام اشیا کے استعمال سے پرہیز کریں۔کولڈ ڈرنکس اور سگریٹ نوشی سے مکمل کنارا کشی کر لیں۔روزانہ دو چمچ شہد کا استعمال دمہ اور سانس کی دیگر بیماریوں میں موثر ثابت ہوتا ہے۔تین یا پانچ انجیروں کو گرم پانی سے صاف کر کے رات بھر گھڑے کے پانی میں ڈال کر رکھیں۔ نہار منہ انجیریں کھا کر گھڑے والا پانی پی لیں۔ صرف پندرہ دن یہ عمل کریں۔ بیماری سے افاقہ ہوگا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
0 notes
Photo

نظر کی حقیقت اور اس کا علاج سوال ۶۵: کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے اس کا علاج کیا ہے؟ کیا نظر سے بچنا توکل کے منافی ہے؟ جواب :نظر لگنا برحق ہے اور یہ شرعی اور حسی طور پر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ﴾ (القلم: ۵۱) ’’��ور کافر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((اَلْعَیْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَیْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتْ الْعَیْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا)) (صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۸۔) ’’نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔‘‘ اسی طرح امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب کہ وہ غسل کر رہے تھے اتفاق سے انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ دیکھ کر بے ساختہ کہا کہ: ’’میں نے آج تک کسی کنواری دو شیزہ کی بھی اس طرح کی جلد نہیں دیکھی۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ سہل بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جایا گیا اور عرض کیا گیا: سہل بے ہوش ہو کر گر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: (مَنْ تَتَّہِمُوْنَ ٖ) ’’تم ان کے بارے میں کس کو مورد الزام ٹھہراتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: عامر بن ربیعہ کو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((عَلَامَ یَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ إِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مِنْ أَخِیہِ مَا یُعْجِبُہُ فَلْیَدْعُ لَہُ بِالْبَرَکَۃ))ِ (سنن ابن ماجہ، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱۔) ’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرنے کے درپے کیوں ہے؟ تم میں سے کوئی جب اپنے بھائی کی کوئی خوش کن بات دیکھے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے۔‘‘ پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ وضو کریں، تو انہوں نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا، دونوں گھٹنوں اور ازار کے اندر کے حصے کو دھویا اور پھر آپ نے حکم دیا کہ وہ پانی نظر لگے ہوئے شخص پر بہا دیں۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: (وَاَمَرَہُ اَنْ یَّکْفَأَ الْاِنَائَ مِنْ خَلْفِہٖ) ’’اور آپ نے عائن کو حکم دیا کہ وہ معین کے پیچھے کی طرف سے اس پر پانی کے اس برتن کو انڈیل دیں۔‘‘ واقعات سے بھی نظر بد لگنے کی شہادت ملتی ہے، بلاشبہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نظر بد لگنے کی حالت میں درج ذیل شرعی علاج استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔ ۶۔ دم کرنا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا رُقْیَۃَ اِلاَّ مِنْ عَیْنٍ اَوْ حُمَۃٍ)) (صحیح البخاری، الطب، باب من اکتوی او کوی غیرہ… ح:۵۷۰۵ وصحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین الجنۃ بغیر حساب ولا عذاب، ح:۲۲۰۔) ’’ جھاڑ پھونک یادم نظر لگنے یا بخار ہی کی وجہ سے ہے۔‘‘ جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے: ((بِاسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ، مِنْ کُلَّ شَیْئٍ یُؤْذِیْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ، بِاسْمِ اللّٰہِ اَرْقِیْکَ)) (صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔) ’’اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔‘‘ ۲۔ دھونا: جیسا کہ سابقہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا (کہ وہ خود کو دھوئیں) اور پھر اس پانی کو مریض پر انڈیل دیا جائے۔ نظر لگانے والے کے بول و براز کو مذکورہ مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے پاؤں کی مٹی کو استعمال کرنا بھی بے اصل بات ہے، ثابت وہی ہے جس کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اس کے اعضا اور ازار کے اندرون کو دھلایا جائے گا اور شاید اسی کی مثل اس کے رومال، ٹوپی اور قمیض وغیرہ کو بھی اندر سے دھلانا ہو۔ واللّٰہ اعلم نظر بد سے پیشگی حفاظت تدبیر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ایسا کرناتوکل کے منافی بھی نہیں بلکہ یہی عین توکل ہے، کیونکہ یہ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر اعتماد کرنا اور ان اسباب کو اختیار کرنا ہے جن کو اس نے مباح قرار دیا یا جن کے استعمال کا اس نے حکم دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو ان کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے: ((أَعِیْذُکَمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ))( صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، باب ۱۰، ح: ۳۳۷۱ وسنن ابن ماجہ، الطب، باب ما عوذ بہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما عوذ بہ، ح: ۳۵۲۵ ولفظہا: اعوذ بکلمات االلّٰه … وسنن ابی داود، السنۃ، باب فی القرآن، ح:۴۷۳۷ وجامع الترمذی، الطب، باب کیف یعوذ الصبیان، ح:۲۰۶۰۔) ’’میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان اور زہریلی بلا کے ڈر سے اور ہر لگنے والی نظر بد کے شر سے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اسماعیل واسحاق رحمہم اللہ کو اسی طرح دم کیا کرتے تھے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۲۵، ۱۲۶، ۱۲۷ ) #FAI00058 ID: FAI00058 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text

مٹی کے پیالے میں پانی پینا شفا ہے۔۔۔ چند لوگ جو پرانے وقتوں کے ساتھی ہیں ان کو یہ بات معلوم ہے۔۔۔ آج تو لوگ دیسپوز گلاس استعمال کرتے ہیں۔۔۔ پیا اور پھینک دیا۔۔۔ اسیطرح آج کے کچھ لوگ بھی دوسروں کے جزبات، خلوص اور احساس کو استعمال کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔۔ اور کبھی کبھی تو ایتنی بےدردی سے کے دوسرا انسان پھر ٹوٹ کر جوڑ ہی نہیں پاتا۔۔
قدرت نے اس دنیا کا نظام بھی اسطرح کا بنایا کے۔۔انسان اپنے کیا ہی کھاتا ہے۔۔۔ اگر ّکھی غور کرنا میری بات پر۔۔تم کو سمجھ آ جاے گی۔ پھر تم جو اکڑتے ہو۔۔ تم کو خد پے شرم آ جاے گی۔۔
ایتنی حقارت کس لیے۔۔۔ مٹی کے برتن میں نہیں پینا۔۔۔نا پیو۔۔۔ مٹی میں ہی تو جانا ہے۔۔۔پھر کیا کرو گے۔۔۔
مسزز نگہت سیما۔۔۔ یہ بھی وقت نکل جاے گا۔۔۔ کب تک کیتنا اور۔۔مٹی کو مٹی سے ملنا ہے ایک دن۔۔۔حساب برابر ہو جاے گا۔۔😏😔نعیم۔
♈ن💏ن♌
0 notes
Text
صحت مند اور تندرست زندگی
صحت مند اور تندرست زندگی، ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر صحت نہ ہو تو انسان دولت، شہرت، عزت، اور شاید کسی بھی نعمت سے خوشی حاصل نہ کرسکے۔ غالب نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘۔ ہر چندکہ، غیر صحت بخش ماحول، مرغن اور مصالحے دارغذاؤں، جسمانی سرگرمیوں میں کمی، تمباکو نوشی اور تیز رفتار زندگی کے باعث، انسان صحت مند زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ صحت مند زندگی گزارنا اتنا مشکل بھی نہیں۔
چلیں پھریں، چست رہیں
ماہرینِ صحت تجویز کرتے ہیں کہ ایک انسان کے لیے ہفتہ میں 150منٹ کی ہلکی اور بھاری جسمانی سرگرمی میں مشغول رہنا ضروری ہے۔ اس سے جسم میں خون کی روانی تیزہوتی ہے اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی کارکردگی میں بھی بہتر آتی ہے، ذہنی دباؤ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جسمانی مشقت کے لیے جِم جوائن کرنا لازمی نہیں، اس لیے اگر آپ جِم جوائن نہیں کرسکتے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ گھر کے ہر کام کے لیے گاڑی نہ نکالیں، پیدل جائیں یا سائیکل کا انتخاب کریں،گھر کی صفائی خود کریں اور لفٹ یا خود کار زینے کے بجائے سیڑھیاں چڑھنے اُترنے کو ترجیح دیں۔
تمباکو نوشی سے پرہیز
اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ سب سے اہم قدم ہے۔ تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق، کثرت سے تمباکو نوشی ذیابیطس کے علاوہ 13اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے، لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دِل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔سگریٹ پینے والوں میں نظر کے کمزور ہونے یا اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں سگریٹ نوشی کے اثرات سے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی کٹے ہونٹ،حمل کے دوران پیچیدگیوں کا پیدا ہونا، جوڑوں کا درد اور جسم کی دفاعی صلاحیت میں کمی ہو جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے ذیابیطس اور جگر کے امراض بھی پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
چاق و چوبند ہونے کے فائدے
چاق و چوبند ہونے کا مطلب ہے، آپ کا جسم اپنے کام اور افعال بہتر طریقے سے کرنے کے قابل ہو۔ آپ کے دل اور پھیپھڑے اچھی طرح اپنا کام انجام دے رہے ہوں اور آپ کا معمول زندگی ایسا ہو، جس میں اضافی کیلوریز (حرارے) استعمال ہونے کا باقاعدہ انتظام موجود ہو۔اس سلسلے میں، آپ چند چیزوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے لیے صحت مند زندگی کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
نیند کے اوقات کار
رات کے وقت بھرپور نیند ، صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ 24 گھنٹے میں6 سے 8گھنٹے کی نیند ایک انسان کو تازہ دم اور چست کرنےکے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس سے روزمرہ کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، تھکن، چڑچڑے پن اور ذہنی دبائو سے چھٹکارا ملتا ہے۔ رات کے اوقات میں لی جانے والی نیند دن کی نیند کے مقابلے میں دُگنی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین رات میں جاگنے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔
محتاط رہیں، اپنا چیک اپ کروائیں
آپ نے یہ مقولہ تو سُنا ہوگا کہ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے۔ کسی بیماری کے بعد ہی ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری نہیں۔ اپنے چند جسمانی ٹیسٹ ریگولر کرواتے رہنے سے آنے والی بیماریوں کا اندازہ ہوجاتا ہے اور پہلے ہی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ بیٹ وقتاً فوقتاً چیک کرواتے رہیں۔
سماجی روابط ضروری ہیں
دوسروں سے ملتے ملاتے رہنا، دُکھ سُکھ بانٹنا، ان سے انسان کے دل و دماغ پر بوجھ کم رکھتا ہے۔ اپنے جذبات و خیالات کا دوسروں سے اظہار کریں اور دوسروں کی باتیں بھی سُنیں۔ اس سے ذہنی اور جسمانی کارکردگی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
پانی پیتے رہیں
پانی کی اہمیت سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ لیکن اس کو اہمیت کم ہی دیتے ہیں۔ دن کا کتنا ہی حصہ ہم پانی پیئے بغیر گزار دیتے ہیں اور اس کے بجائے چائے ، کافی، کولڈ ڈرنک یا شربت وغیرہ پی لیتےہیں۔ یاد رکھیں، ہمارے جسم کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور اپنی نمی برقرار رکھنے کے لیے اسے روزانہ کم از کم دو لیٹر سادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
آپ کا مشغلہ کیا ہے
کام ، ذمہ داری، تفریح، آرام، ان سب کے بیچ کیا آپ کا کوئی مشغلہ بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو آج ہی کسی مشغلہ کو اختیار کریں۔ اگر آپ کو اپنی دلچسپی کے بارے میں نہیں معلوم تو کسی نئی سرگرمی کو اپنانےسے ہرگز نہ گھبرائیں۔ باغبانی کریں، کھانا پکانے کی کلاسز لیں، سلائی کڑھائی سیکھیں ، میک اپ کی نئی تکنیک آزمائیں یا مٹی کے برتن بنانے کی کوشش کریں، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اپنے کچھ وقت کو اس طرح صرف کریں کہ وہ آپ کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع دےاور آپ کو تخلیق کرنے کا اطمینان حاصل ہو۔
مراقبہ کریں
ہم میں سے اکثر مراقبہ نہیں کرتے۔ آج ہی اسےشروع کریں اور اس کے جادوئی اثرات خود ہی دیکھیں۔ یوگا کلاسز لیں اور اگر نہیں لے سکتے تو گھر کے کسی پرسکون گوشے میں10یا15منٹ خاموش بیٹھیں، آنکھیں بند کریں، لمبی سانسیں لیں اور اپنے جسم کے اندررہ کر تھوڑی دیر اسے محسوس کریں۔ یہ عمل جسمانی اور ذہنی کارکردگی بہتر بنانے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں تو یہ سب سے بہترین عمل ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ، اچھی، معیاری اور صحت مند زندگی کے لیے انسان کو ٹائم ٹیبل بنا نا چاہیے، جس کے مطابق مندرج بالا تمام اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آپ صحت مند زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
The post صحت مند اور تندرست زندگی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NpuuYV via Urdu News
0 notes
Text
صحت مند اور تندرست زندگی
صحت مند اور تندرست زندگی، ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر صحت نہ ہو تو انسان دولت، شہرت، عزت، اور شاید کسی بھی نعمت سے خوشی حاصل نہ کرسکے۔ غالب نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘۔ ہر چندکہ، غیر صحت بخش ماحول، مرغن اور مصالحے دارغذاؤں، جسمانی سرگرمیوں میں کمی، تمباکو نوشی اور تیز رفتار زندگی کے باعث، انسان صحت مند زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ صحت مند زندگی گزارنا اتنا مشکل بھی نہیں۔
چلیں پھریں، چست رہیں
ماہرینِ صحت ت��ویز کرتے ہیں کہ ایک انسان کے لیے ہفتہ میں 150منٹ کی ہلکی اور بھاری جسمانی سرگرمی میں مشغول رہنا ضروری ہے۔ اس سے جسم میں خون کی روانی تیزہوتی ہے اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی کارکردگی میں بھی بہتر آتی ہے، ذہنی دباؤ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جسمانی مشقت کے لیے جِم جوائن کرنا لازمی نہیں، اس لیے اگر آپ جِم جوائن نہیں کرسکتے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ گھر کے ہر کام کے لیے گاڑی نہ نکالیں، پیدل جائیں یا سائیکل کا انتخاب کریں،گھر کی صفائی خود کریں اور لفٹ یا خود کار زینے کے بجائے سیڑھیاں چڑھنے اُترنے کو ترجیح دیں۔
تمباکو نوشی سے پرہیز
اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ سب سے اہم قدم ہے۔ تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق، کثرت سے تمباکو نوشی ذیابیطس کے علاوہ 13اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے، لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دِل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔سگریٹ پینے والوں میں نظر کے کمزور ہونے یا اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں سگریٹ نوشی کے اثرات سے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی کٹے ہونٹ،حمل کے دوران پیچیدگیوں کا پیدا ہونا، جوڑوں کا درد اور جسم کی دفاعی صلاحیت میں کمی ہو جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے ذیابیطس اور جگر کے امراض بھی پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
چاق و چوبند ہونے کے فائدے
چاق و چوبند ہونے کا مطلب ہے، آپ کا جسم اپنے کام اور افعال بہتر طریقے سے کرنے کے قابل ہو۔ آپ کے دل اور پھیپھڑے اچھی طرح اپنا کام انجام دے رہے ہوں اور آپ کا معمول زندگی ایسا ہو، جس میں اضافی کیلوریز (حرارے) استعمال ہونے کا باقاعدہ انتظام موجود ہو۔اس سلسلے میں، آپ چند چیزوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے لیے صحت مند زندگی کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
نیند کے اوقات کار
رات کے وقت بھرپور نیند ، صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ 24 گھنٹے میں6 سے 8گھنٹے کی نیند ایک انسان کو تازہ دم اور چست کرنےکے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس سے روزمرہ کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، تھکن، چڑچڑے پن اور ذہنی دبائو سے چھٹکارا ملتا ہے۔ رات کے اوقات میں لی جانے والی نیند دن کی نیند کے مقابلے میں دُگنی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین رات میں جاگنے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔
محتاط رہیں، اپنا چیک اپ کروائیں
آپ نے یہ مقولہ تو سُنا ہوگا کہ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے۔ کسی بیماری کے بعد ہی ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری نہیں۔ اپنے چند جسمانی ٹیسٹ ریگولر کرواتے رہنے سے آنے والی بیماریوں کا اندازہ ہوجاتا ہے اور پہلے ہی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ بیٹ وقتاً فوقتاً چیک کرواتے رہیں۔
سماجی روابط ضروری ہیں
دوسروں سے ملتے ملاتے رہنا، دُکھ سُکھ بانٹنا، ان سے انسان کے دل و دماغ پر بوجھ کم رکھتا ہے۔ اپنے جذبات و خیالات کا دوسروں سے اظہار کریں اور دوسروں کی باتیں بھی سُنیں۔ اس سے ذہنی اور جسمانی کارکردگی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
پانی پیتے رہیں
پانی کی اہمیت سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ لیکن اس کو اہمیت کم ہی دیتے ہیں۔ دن کا کتنا ہی حصہ ہم پانی پیئے بغیر گزار دیتے ہیں اور اس کے بجائے چائے ، کافی، کولڈ ڈرنک یا شربت وغیرہ پی لیتےہیں۔ یاد رکھیں، ہمارے جسم کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور اپنی نمی برقرار رکھنے کے لیے اسے روزانہ کم از کم دو لیٹر سادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
آپ کا مشغلہ کیا ہے
کام ، ذمہ داری، تفریح، آرام، ان سب کے بیچ کیا آپ کا کوئی مشغلہ بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو آج ہی کسی مشغلہ کو اختیار کریں۔ اگر آپ کو اپنی دلچسپی کے بارے میں نہیں معلوم تو کسی نئی سرگرمی کو اپنانےسے ہرگز نہ گھبرائیں۔ باغبانی کریں، کھانا پکانے کی کلاسز لیں، سلائی کڑھائی سیکھیں ، میک اپ کی نئی تکنیک آزمائیں یا مٹی کے برتن بنانے کی کوشش کریں، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اپنے کچھ وقت کو اس طرح صرف کریں کہ وہ آپ کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع دےاور آپ کو تخلیق کرنے کا اطمینان حاصل ہو۔
مراقبہ کریں
ہم میں سے اکثر مراقبہ نہیں کرتے۔ آج ہی اسےشروع کریں اور اس کے جادوئی اثرات خود ہی دیکھیں۔ یوگا کلاسز لیں اور اگر نہیں لے سکتے تو گھر کے کسی پرسکون گوشے میں10یا15منٹ خاموش بیٹھیں، آنکھیں بند کریں، لمبی سانسیں لیں اور اپنے جسم کے اندررہ کر تھوڑی دیر اسے محسوس کریں۔ یہ عمل جسمانی اور ذہنی کارکردگی بہتر بنانے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں تو یہ سب سے بہترین عمل ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ، اچھی، معیاری اور صحت مند زندگی کے لیے انسان کو ٹائم ٹیبل بنا نا چاہیے، جس کے مطابق مندرج بالا تمام اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آپ صحت مند زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
The post صحت مند اور تندرست زندگی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NpuuYV via Daily Khabrain
0 notes
Text
صحت مند اور تندرست زندگی
صحت مند اور تندرست زندگی، ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر صحت نہ ہو تو انسان دولت، شہرت، عزت، اور شاید کسی بھی نعمت سے خوشی حاصل نہ کرسکے۔ غالب نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘۔ ہر چندکہ، غیر صحت بخش ماحول، مرغن اور مصالحے دارغذاؤں، جسمانی سرگرمیوں میں کمی، تمباکو نوشی اور تیز رفتار زندگی کے باعث، انسان صحت مند زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ صحت مند زندگی گزارنا اتنا مشکل بھی نہیں۔
چلیں پھریں، چست رہیں
ماہرینِ صحت تجویز کرتے ہیں کہ ایک انسان کے لیے ہفتہ میں 150منٹ کی ہلکی اور بھاری جسمانی سرگرمی میں مشغول رہنا ضروری ہے۔ اس سے جسم میں خون کی روانی تیزہوتی ہے اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی کارکردگی میں بھی بہتر آتی ہے، ذہنی دباؤ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جسمانی مشقت کے لیے جِم جوائن کرنا لازمی نہیں، اس لیے اگر آپ جِم جوائن نہیں کرسکتے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ گھر کے ہر کام کے لیے گاڑی نہ نکالیں، پیدل جائیں یا سائیکل کا انتخاب کریں،گھر کی صفائی خود کریں اور لفٹ یا خود کار زینے کے بجائے سیڑھیاں چڑھنے اُترنے کو ترجیح دیں۔
تمباکو نوشی سے پرہیز
اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ سب سے اہم قدم ہے۔ تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق، کثرت سے تمباکو نوشی ذیابیطس کے علاوہ 13اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے، لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دِل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔سگریٹ پینے والوں میں نظر کے کمزور ہونے یا اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں سگریٹ نوشی کے اثرات سے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی کٹے ہونٹ،حمل کے دوران پیچیدگیوں کا پیدا ہونا، جوڑوں کا درد اور جسم کی دفاعی صلاحیت میں کمی ہو جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے ذیابیطس اور جگر کے امراض بھی پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
چاق و چوبند ہونے کے فائدے
چاق و چوبند ہونے کا مطلب ہے، آپ کا جسم اپنے کام اور افعال بہتر طریقے سے کرنے کے قابل ہو۔ آپ کے دل اور پھیپھڑے اچھی طرح اپنا کام انجام دے رہے ہوں اور آپ کا معمول زندگی ایسا ہو، جس میں اضافی کیلوریز (حرارے) استعمال ہونے کا باقاعدہ انتظام موجود ہو۔اس سلسلے میں، آپ چند چیزوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے لیے صحت مند زندگی کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
نیند کے اوقات کار
رات کے وقت بھرپور نیند ، صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ 24 گھنٹے میں6 سے 8گھنٹے کی نیند ایک انسان کو تازہ دم اور چست کرنےکے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس سے روزمرہ کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، تھکن، چڑچڑے پن اور ذہنی دبائو سے چھٹکارا ملتا ہے۔ رات کے اوقات میں لی جانے والی نیند دن کی نیند کے مقابلے میں دُگنی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین رات میں جاگنے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔
محتاط رہیں، اپنا چیک اپ کروائیں
آپ نے یہ مقولہ تو سُنا ہوگا کہ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے۔ کسی بیماری کے بعد ہی ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری نہیں۔ اپنے چند جسمانی ٹیسٹ ریگولر کرواتے رہنے سے آنے والی بیماریوں کا اندازہ ہوجاتا ہے اور پہلے ہی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ بیٹ وقتاً فوقتاً چیک کرواتے رہیں۔
سماجی روابط ضروری ہیں
دوسروں سے ملتے ملاتے رہنا، دُکھ سُکھ بانٹنا، ان سے انسان کے دل و دماغ پر بوجھ کم رکھتا ہے۔ اپنے جذبات و خیالات کا دوسروں سے اظہار کریں اور دوسروں کی باتیں بھی سُنیں۔ اس سے ذہنی اور جسمانی کارکردگی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
پانی پیتے رہیں
پانی کی اہمیت سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ لیکن اس کو اہمیت کم ہی دیتے ہیں۔ دن کا کتنا ہی حصہ ہم پانی پیئے بغیر گزار دیتے ہیں اور اس کے بجائے چائے ، کافی، کولڈ ڈرنک یا شربت وغیرہ پی لیتےہیں۔ یاد رکھیں، ہمارے جسم کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور اپنی نمی برقرار رکھنے کے لیے اسے روزانہ کم از کم دو لیٹر سادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
آپ کا مشغلہ کیا ہے
کام ، ذمہ داری، تفریح، آرام، ان سب کے بیچ کیا آپ کا کوئی مشغلہ بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو آج ہی کسی مشغلہ کو اختیار کریں۔ اگر آپ کو اپنی دلچسپی کے بارے میں نہیں معلوم تو کسی نئی سرگرمی کو اپنانےسے ہرگز نہ گھبرائیں۔ باغبانی کریں، کھانا پکانے کی کلاسز لیں، سلائی کڑھائی سیکھیں ، میک اپ کی نئی تکنیک آزمائیں یا مٹی کے برتن بنانے کی کوشش کریں، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اپنے کچھ وقت کو اس طرح صرف کریں کہ وہ آپ کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع دےاور آپ کو تخلیق کرنے کا اطمینان حاصل ہو۔
مراقبہ کریں
ہم میں سے اکثر مراقبہ نہیں کرتے۔ آج ہی اسےشروع کریں اور اس کے جادوئی اثرات خود ہی دیکھیں۔ یوگا کلاسز لیں اور اگر نہیں لے سکتے تو گھر کے کسی پرسکون گوشے میں10یا15منٹ خاموش بیٹھیں، آنکھیں بند کریں، لمبی سانسیں لیں اور اپنے جسم کے اندررہ کر تھوڑی دیر اسے محسوس کریں۔ یہ عمل جسمانی اور ذہنی کارکردگی بہتر بنانے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں تو یہ سب سے بہترین عمل ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ، اچھی، معیاری اور صحت مند زندگی کے لیے انسان کو ٹائم ٹیبل بنا نا چاہیے، جس کے مطابق مندرج بالا تمام اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آپ صحت مند زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
The post صحت مند اور تندرست زندگی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NpuuYV via Roznama Urdu
#jang online newspaper#roznama urdu#naija newspapers#khabrain news epaper#all pakistani newspapers in
0 notes
Text
صحت مند اور تندرست زندگی
صحت مند اور تندرست زندگی، ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر صحت نہ ہو تو انسان دولت، شہرت، عزت، اور شاید کسی بھی نعمت سے خوشی حاصل نہ کرسکے۔ غالب نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘۔ ہر چندکہ، غیر صحت بخش ماحول، مرغن اور مصالحے دارغذاؤں، جسمانی سرگرمیوں میں کمی، تمباکو نوشی اور تیز رفتار زندگی کے باعث، انسان صحت مند زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ صحت مند زندگی گزارنا اتنا مشکل بھی نہیں۔
چلیں پھریں، چست رہیں
ماہرینِ صحت تجویز کرتے ہیں کہ ایک انسان کے لیے ہفتہ میں 150منٹ کی ہلکی اور بھاری جسمانی سرگرمی میں مشغول رہنا ضروری ہے۔ اس سے جسم میں خون کی روانی تیزہوتی ہے اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی کارکردگی میں بھی بہتر آتی ہے، ذہنی دباؤ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جسمانی مشقت کے لیے جِم جوائن کرنا لازمی نہیں، اس لیے اگر آپ جِم جوائن نہیں کرسکتے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ گھر کے ہر کام کے لیے گاڑی نہ نکالیں، پیدل جائیں یا سائیکل کا انتخاب کریں،گھر کی صفائی خود کریں اور لفٹ یا خود کار زینے کے بجائے سیڑھیاں چڑھنے اُترنے کو ترجیح دیں۔
تمباکو نوشی سے پرہیز
اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ سب سے اہم قدم ہے۔ تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق، کثرت سے تمباکو نوشی ذیابیطس کے علاوہ 13اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے، لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دِل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔سگریٹ پینے والوں میں نظر کے کمزور ہونے یا اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں سگریٹ نوشی کے اثرات سے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی کٹے ہونٹ،حمل کے دوران پیچیدگیوں کا پیدا ہونا، جوڑوں کا درد اور جسم کی دفاعی صلاحیت میں کمی ہو جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے ذیابیطس اور جگر کے امراض بھی پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
چاق و چوبند ہونے کے فائدے
چاق و چوبند ہونے کا مطلب ہے، آپ کا جسم اپنے کام اور افعال بہتر طریقے سے کرنے کے قابل ہو۔ آپ کے دل اور پھیپھڑے اچھی طرح اپنا کام انجام دے رہے ہوں اور آپ کا معمول زندگی ایسا ہو، جس میں اضافی کیلوریز (حرارے) استعمال ہونے کا باقاعدہ انتظام موجود ہو۔اس سلسلے میں، آپ چند چیزوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے لیے صحت مند زندگی کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
نیند کے اوقات کار
رات کے وقت بھرپور نیند ، صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ 24 گھنٹے میں6 سے 8گھنٹے کی نیند ایک انسان کو تازہ دم اور چست کرنےکے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس سے روزمرہ کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، تھکن، چڑچڑے پن اور ذہنی دبائو سے چھٹکارا ملتا ہے۔ رات کے اوقات میں لی جانے والی نیند دن کی نیند کے مقابلے میں دُگنی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین رات میں جاگنے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔
محتاط رہیں، اپنا چیک اپ کروائیں
آپ نے یہ مقولہ تو سُنا ہوگا کہ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے۔ کسی بیماری کے بعد ہی ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری نہیں۔ اپنے چند جسمانی ٹیسٹ ریگولر کرواتے رہنے سے آنے والی بیماریوں کا اندازہ ہوجاتا ہے اور پہلے ہی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ بیٹ وقتاً فوقتاً چیک کرواتے رہیں۔
سماجی روابط ضروری ہیں
دوسروں سے ملتے ملاتے رہنا، دُکھ سُکھ بانٹنا، ان سے انسان کے دل و دماغ پر بوجھ کم رکھتا ہے۔ اپنے جذبات و خیالات کا دوسروں سے اظہار کریں اور دوسروں کی باتیں بھی سُنیں۔ اس سے ذہنی اور جسمانی کارکردگی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
پانی پیتے رہیں
پانی کی اہمیت سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ لیکن اس کو اہمیت کم ہی دیتے ہیں۔ دن کا کتنا ہی حصہ ہم پانی پیئے بغیر گزار دیتے ہیں اور اس کے بجائے چائے ، کافی، کولڈ ڈرنک یا شربت وغیرہ پی لیتےہیں۔ یاد رکھیں، ہمارے جسم کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور اپنی نمی برقرار رکھنے کے لیے اسے روزانہ کم از کم دو لیٹر سادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
آپ کا مشغلہ کیا ہے
کام ، ذمہ داری، تفریح، آرام، ان سب کے بیچ کیا آپ کا کوئی مشغلہ بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو آج ہی کسی مشغلہ کو اختیار کریں۔ اگر آپ کو اپنی دلچسپی کے بارے میں نہیں معلوم تو کسی نئی سرگرمی کو اپنانےسے ہرگز نہ گھبرائیں۔ باغبانی کریں، کھانا پکانے کی کلاسز لیں، سلائی کڑھائی سیکھیں ، میک اپ کی نئی تکنیک آزمائیں یا مٹی کے برتن بنانے کی کوشش کریں، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اپنے کچھ وقت کو اس طرح صرف کریں کہ وہ آپ کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع دےاور آپ کو تخلیق کرنے کا اطمینان حاصل ہو۔
مراقبہ کریں
ہم میں سے اکثر مراقبہ نہیں کرتے۔ آج ہی اسےشروع کریں اور اس کے جادوئی اثرات خود ہی دیکھیں۔ یوگا کلاسز لیں اور اگر نہیں لے سکتے تو گھر کے کسی پرسکون گوشے میں10یا15منٹ خاموش بیٹھیں، آنکھیں بند کریں، لمبی سانسیں لیں اور اپنے جسم کے اندررہ کر تھوڑی دیر اسے محسوس کریں۔ یہ عمل جسمانی اور ذہنی کارکردگی بہتر بنانے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں تو یہ سب سے بہترین عمل ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ، اچھی، معیاری اور صحت مند زندگی کے لیے انسان کو ٹائم ٹیبل بنا نا چاہیے، جس کے مطابق مندرج بالا تمام اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آپ صحت مند زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
The post صحت مند اور تندرست زندگی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NpuuYV via Urdu News
0 notes
Text
صحت مند اور تندرست زندگی
صحت مند اور تندرست زندگی، ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر صحت نہ ہو تو انسان دولت، شہرت، عزت، اور شاید کسی بھی نعمت سے خوشی حاصل نہ کرسکے۔ غالب نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘۔ ہر چندکہ، غیر صحت بخش ماحول، مرغن اور مصالحے دارغذاؤں، جسمانی سرگرمیوں میں کمی، تمباکو نوشی اور تیز رفتار زندگی کے باعث، انسان صحت مند زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ صحت مند زندگی گزارنا اتنا مشکل بھی نہیں۔
چلیں پھریں، چست رہیں
ماہرینِ صحت تجویز کرتے ہیں کہ ایک انسان کے لیے ہفتہ میں 150منٹ کی ہلکی اور بھاری جسمانی سرگرمی میں مشغول رہنا ضروری ہے۔ اس سے جسم میں خون کی روانی تیزہوتی ہے اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی کارکردگی میں بھی بہتر آتی ہے، ذہنی دباؤ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جسمانی مشقت کے لیے جِم جوائن کرنا لازمی نہیں، اس لیے اگر آپ جِم جوائن نہیں کرسکتے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ گھر کے ہر کام کے لیے گاڑی نہ نکالیں، پیدل جائیں یا سائیکل کا انتخاب کریں،گھر کی صفائی خود کریں اور لفٹ یا خود کار زینے کے بجائے سیڑھیاں چڑھنے اُترنے کو ترجیح دیں۔
تمباکو نوشی سے پرہیز
اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ سب سے اہم قدم ہے۔ تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق، کثرت سے تمباکو نوشی ذیابیطس کے علاوہ 13اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے، لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دِل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔سگریٹ پینے والوں میں نظر کے کمزور ہونے یا اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں سگریٹ نوشی کے اثرات سے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی کٹے ہونٹ،حمل کے دوران پیچیدگیوں کا پیدا ہونا، جوڑوں کا درد اور جسم کی دفاعی صلاحیت میں کمی ہو جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے ذیابیطس اور جگر کے امراض بھی پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
چاق و چوبند ہونے کے فائدے
چاق و چوبند ہونے کا مطلب ہے، آپ کا جسم اپنے کام اور افعال بہتر طریقے سے کرنے کے قابل ہو۔ آپ کے دل اور پھیپھڑے اچھی طرح اپنا کام انجام دے رہے ہوں اور آپ کا معمول زندگی ایسا ہو، جس میں اضافی کیلوریز (حرارے) استعمال ہونے کا باقاعدہ انتظام موجود ہو۔اس سلسلے میں، آپ چند چیزوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے لیے صحت مند زندگی کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
نیند کے اوقات کار
رات کے وقت بھرپور نیند ، صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ 24 گھنٹے میں6 سے 8گھنٹے کی نیند ایک انسان کو تازہ دم اور چست کرنےکے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس سے روزمرہ کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، تھکن، چڑچڑے پن اور ذہنی دبائو سے چھٹکارا ملتا ہے۔ رات کے اوقات میں لی جانے والی نیند دن کی نیند کے مقابلے میں دُگنی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین رات میں جاگنے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔
محتاط رہیں، اپنا چیک اپ کروائیں
آپ نے یہ مقولہ تو سُنا ہوگا کہ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے۔ کسی بیماری کے بعد ہی ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری نہیں۔ اپنے چند جسمانی ٹیسٹ ریگولر کرواتے رہنے سے آنے والی بیماریوں کا اندازہ ہوجاتا ہے اور پہلے ہی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ بیٹ وقتاً فوقتاً چیک کرواتے رہیں۔
سماجی روابط ضروری ہیں
دوسروں سے ملتے ملاتے رہنا، دُکھ سُکھ بانٹنا، ان سے انسان کے دل و دماغ پر بوجھ کم رکھتا ہے۔ اپنے جذبات و خیالات کا دوسروں سے اظہار کریں اور دوسروں کی باتیں بھی سُنیں۔ اس سے ذہنی اور جسمانی کارکردگی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
پانی پیتے رہیں
پانی کی اہمیت سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ لیکن اس کو اہمیت کم ہی دیتے ہیں۔ دن کا کتنا ہی حصہ ہم پانی پیئے بغیر گزار دیتے ہیں اور اس کے بجائے چائے ، کافی، کولڈ ڈرنک یا شربت وغیرہ پی لیتےہیں۔ یاد رکھیں، ہمارے جسم کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور اپنی نمی برقرار رکھنے کے لیے اسے روزانہ کم از کم دو لیٹر سادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
آپ کا مشغلہ کیا ہے
کام ، ذمہ داری، تفریح، آرام، ان سب کے بیچ کیا آپ کا کوئی مشغلہ بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو آج ہی کسی مشغلہ کو اختیار کریں۔ اگر آپ کو اپنی دلچسپی کے بارے میں نہیں معلوم تو کسی نئی سرگرمی کو اپنانےسے ہرگز نہ گھبرائیں۔ باغبانی کریں، کھانا پکانے کی کلاسز لیں، سلائی کڑھائی سیکھیں ، میک اپ کی نئی تکنیک آزمائیں یا مٹی کے برتن بنانے کی کوشش کریں، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اپنے کچھ وقت کو اس طرح صرف کریں کہ وہ آپ کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع دےاور آپ کو تخلیق کرنے کا اطمینان حاصل ہو۔
مراقبہ کریں
ہم میں سے اکثر مراقبہ نہیں کرتے۔ آج ہی اسےشروع کریں اور اس کے جادوئی اثرات خود ہی دیکھیں۔ یوگا کلاسز لیں اور اگر نہیں لے سکتے تو گھر کے کسی پرسکون گوشے میں10یا15منٹ خاموش بیٹھیں، آنکھیں بند کریں، لمبی سانسیں لیں اور اپنے جسم کے اندررہ کر تھوڑی دیر اسے محسوس کریں۔ یہ عمل جسمانی اور ذہنی کارکردگی بہتر بنانے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں تو یہ سب سے بہترین عمل ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ، اچھی، معیاری اور صحت مند زندگی کے لیے انسان کو ٹائم ٹیبل بنا نا چاہیے، جس کے مطابق مندرج بالا تمام اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آپ صحت مند زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
The post صحت مند اور تندرست زندگی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NpuuYV via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
صحت مند اور تندرست زندگی
صحت مند اور تندرست زندگی، ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر صحت نہ ہو تو انسان دولت، شہرت، عزت، اور شاید کسی بھی نعمت سے خوشی حاصل نہ کرسکے۔ غالب نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘۔ ہر چندکہ، غیر صحت بخش ماحول، مرغن اور مصالحے دارغذاؤں، جسمانی سرگرمیوں میں کمی، تمباکو نوشی اور تیز رفتار زندگی کے باعث، انسان صحت مند زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ صحت مند زندگی گزارنا اتنا مشکل بھی نہیں۔
چلیں پھریں، چست رہیں
ماہرینِ صحت تجویز کرتے ہیں کہ ایک انسان کے لیے ہفتہ میں 150منٹ کی ہلکی اور بھاری جسمانی سرگرمی میں مشغول رہنا ضروری ہے۔ اس سے جسم میں خون کی روانی تیزہوتی ہے اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی کارکردگی میں بھی بہتر آتی ہے، ذہنی دباؤ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جسمانی مشقت کے لیے جِم جوائن کرنا لازمی نہیں، اس لیے اگر آپ جِم جوائن نہیں کرسکتے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ گھر کے ہر کام کے لیے گاڑی نہ نکالیں، پیدل جائیں یا سائیکل کا انتخاب کریں،گھر کی صفائی خود کریں اور لفٹ یا خود کار زینے کے بجائے سیڑھیاں چڑھنے اُترنے کو ترجیح دیں۔
تمباکو نوشی سے پرہیز
اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ سب سے اہم قدم ہے۔ تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق، کثرت سے تمباکو نوشی ذیابیطس کے علاوہ 13اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو افراد سگریٹ نوشی نہیں کرتے، لیکن اس کے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں، ان میں دِل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔سگریٹ پینے والوں میں نظر کے کمزور ہونے یا اندھے پن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین میں سگریٹ نوشی کے اثرات سے نوزائیدہ بچوں میں پیدائشی کٹے ہونٹ،حمل کے دوران پیچیدگیوں کا پیدا ہونا، جوڑوں کا درد اور جسم کی دفاعی صلاحیت میں کمی ہو جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی سے ذیابیطس اور جگر کے امراض بھی پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
چاق و چوبند ہونے کے فائدے
چاق و چوبند ہونے کا مطلب ہے، آپ کا جسم اپنے کام اور افعال بہتر طریقے سے کرنے کے قابل ہو۔ آپ کے دل اور پھیپھڑے اچھی طرح اپنا کام انجام دے رہے ہوں اور آپ کا معمول زندگی ایسا ہو، جس میں اضافی کیلوریز (حرارے) استعمال ہونے کا باقاعدہ انتظام موجود ہو۔اس سلسلے میں، آپ چند چیزوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے لیے صحت مند زندگی کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
نیند کے اوقات کار
رات کے وقت بھرپور نیند ، صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ 24 گھنٹے میں6 سے 8گھنٹے کی نیند ایک انسان کو تازہ دم اور چست کرنےکے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس سے روزمرہ کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، تھکن، چڑچڑے پن اور ذہنی دبائو سے چھٹکارا ملتا ہے۔ رات کے اوقات میں لی جانے والی نیند دن کی نیند کے مقابلے میں دُگنی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے ماہرین رات میں جاگنے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔
محتاط رہیں، اپنا چیک اپ کروائیں
آپ نے یہ مقولہ تو سُنا ہوگا کہ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے۔ کسی بیماری کے بعد ہی ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری نہیں۔ اپنے چند جسمانی ٹیسٹ ریگولر کرواتے رہنے سے آنے والی بیماریوں کا اندازہ ہوجاتا ہے اور پہلے ہی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ بیٹ وقتاً فوقتاً چیک کرواتے رہیں۔
سماجی روابط ضروری ہیں
دوسروں سے ملتے ملاتے رہنا، دُکھ سُکھ بانٹنا، ان سے انسان کے دل و دماغ پر بوجھ کم رکھتا ہے۔ اپنے جذبات و خیالات کا دوسروں سے اظہار کریں اور دوسروں کی باتیں بھی سُنیں۔ اس سے ذہنی اور جسمانی کارکردگی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
پانی پیتے رہیں
پانی کی اہمیت سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ لیکن اس کو اہمیت کم ہی دیتے ہیں۔ دن کا کتنا ہی حصہ ہم پانی پیئے بغیر گزار دیتے ہیں اور اس کے بجائے چائے ، کافی، کولڈ ڈرنک یا شربت وغیرہ پی لیتےہیں۔ یاد رکھیں، ہمارے جسم کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور اپنی نمی برقرار رکھنے کے لیے اسے روزانہ کم از کم دو لیٹر سادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
آپ کا مشغلہ کیا ہے
کام ، ذمہ داری، تفریح، آرام، ان سب کے بیچ کیا آپ کا کوئی مشغلہ بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو آج ہی کسی مشغلہ کو اختیار کریں۔ اگر آپ کو اپنی دلچسپی کے بارے میں نہیں معلوم تو کسی نئی سرگرمی کو اپنانےسے ہرگز نہ گھبرائیں۔ باغبانی کریں، کھانا پکانے کی کلاسز لیں، سلائی کڑھائی سیکھیں ، میک اپ کی نئی تکنیک آزمائیں یا مٹی کے برتن بنانے کی کوشش کریں، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اپنے کچھ وقت کو اس طرح صرف کریں کہ وہ آپ کو اپنے بارے میں خوش ہونے کا موقع دےاور آپ کو تخلیق کرنے کا اطمینان حاصل ہو۔
مراقبہ کریں
ہم میں سے اکثر مراقبہ نہیں کرتے۔ آج ہی اسےشروع کریں اور اس کے جادوئی اثرات خود ہی دیکھیں۔ یوگا کلاسز لیں اور اگر نہیں لے سکتے تو گھر کے کسی پرسکون گوشے میں10یا15منٹ خاموش بیٹھیں، آنکھیں بند کریں، لمبی سانسیں لیں اور اپنے جسم کے اندررہ کر تھوڑی دیر اسے محسوس کریں۔ یہ عمل جسمانی اور ذہنی کارکردگی بہتر بنانے میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر آپ نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں تو یہ سب سے بہترین عمل ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ، اچھی، معیاری اور صحت مند زندگی کے لیے انسان کو ٹائم ٹیبل بنا نا چاہیے، جس کے مطابق مندرج بالا تمام اصولوں پر عمل پیرا ہوکر آپ صحت مند زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
The post صحت مند اور تندرست زندگی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NpuuYV via Today Pakistan
0 notes