#محکمہ جات کو خط
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 4 days ago
Text
سیاسی جماعت سے دور رہیں،چیف سیکرٹری کے پی کامحکمہ جات کوخط
سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما سے دور رہیں،پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیش نظر چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا نے محکمہ جات کو خط ارسال کردیا۔ چیف سیکرٹری  خیبر پختونخوا ندیم اسلم چودھری نےتمام انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ کسی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما کی حمایت میں آپ کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ کوبغیر کسی سیاسی دباؤمیں آئےبغیر ملک کے آئین کےمطابق اپنے فرائض کی انجام دہی کو یقینی…
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
بائیڈن نے کانگریس کو ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے وزیٹر لاگز کی رہائی کا حکم دیا۔ #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a8%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%88%d9%86-%d9%86%db%92-%da%a9%d8%a7%d9%86%da%af%d8%b1%db%8c%d8%b3-%da%a9%d9%88-%d9%b9%d8%b1%d9%85%d9%be-%d9%88%d8%a7%d8%a6%d9%b9-%db%81%d8%a7%d8%a4%d8%b3-%da%a9%db%92-%d9%88/
بائیڈن نے کانگریس کو ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے وزیٹر لاگز کی رہائی کا حکم دیا۔
Tumblr media
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
صدر بائیڈن نے نیشنل آرکائیوز کو 6 جنوری 2021 کو ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے وزیٹر لاگز کو ہاؤس کمیٹی کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے کیپٹل ہنگامہسابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو استحقاق کے دعوے کے باوجود۔
نیشنل آرکائیوز کو لکھے گئے خط میں، صدر ڈانا ریمس کے وکیل نے کہا کہ بائیڈن ایجنسی کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ کمیٹی کو لاگس دیں، جس میں وائٹ ہاؤس کے مہمانوں کی معلومات بشمول فسادات کے دن کی تاریخوں کے بارے میں دکھایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے جنوری کو بلاک کرنے کی ٹرمپ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ 6 کمیٹی کی درخواستیں
ریمس نے لکھا، “صدر بائیڈن نے سابق صدر کے دعووں پر غور کیا ہے، اور میں نے محکمہ انصاف میں قانونی مشیر کے دفتر سے مشاورت کی ہے۔” “صدر نے یہ طے کیا ہے کہ ایگزیکٹو استحقاق کا دعویٰ ریاستہائے متحدہ کے بہترین مفادات میں نہیں ہے، اور اس وجہ سے ان ریکارڈوں اور ریکارڈوں کے حصوں کے حوالے سے جائز نہیں ہے۔”
Tumblr media
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 30 جون 2021 کو ویسلاکو، ٹیکساس میں یو ایس میکسیکو سرحدی دیوار کا دورہ کرنے سے پہلے ویسلاکو ڈیپارٹمنٹ آف پبلک سیفٹی ڈی پی ایس ہیڈ کوارٹر میں ریاستی حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ایک بریفنگ میں شریک ہیں۔ (جابن بوٹسفورڈ/ دی واشنگٹن پوسٹ بذریعہ اے پی، پول)
خط میں نوٹ کیا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ – جیسا کہ ماضی میں اوباما انتظامیہ کرتی تھی – ہر ماہ اس طرح کے ریکارڈ کو “رضاکارانہ طور پر ظاہر کرتی ہے”، اور یہ کہ موجودہ انکشاف کی پالیسی زیادہ تر ریکارڈوں کا احاطہ کرے گی جو ٹرمپ لپیٹ میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پیلوسی نے جنوری کے لیے ریپبلکنز کو دھماکے سے اڑا دیا۔ 6 سینسور ریزولیوشن: ‘ایسا لگتا ہے کہ وہ نیچے تک پہنچ گئے ہیں’
“جیسا کہ اس پالیسی کے تحت عمل ظاہر کرتا ہے، عام طور پر ایگزیکٹو برانچ کے طویل مدتی ادارہ جاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اس قسم کے ریکارڈ کی رازداری کو محفوظ رکھنا ضروری نہیں ہے،” ریمس نے لکھا، مزید کہا کہ “[a]اس کے مطابق، صدر بائیڈن سابق صدر کے استحقاق کے دعووں کو برقرار نہیں رکھتے۔”
بائیڈن اب نیشنل آرکائیوز کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ ٹرمپ کو مطلع کرنے کے 15 دن بعد نوشتہ جات جاری کریں، جب تک کہ عدالتی حکم اس پر پابندی نہ لگا دے۔
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
لاگز خود بخود عوامی نہیں کیے جائیں گے۔ جب کہ انہیں کمیٹی کے حوالے کیا جانا ہے، انہیں خفیہ طور پر “قومی سلامتی کے لیے حساس” یا “بصورت دیگر انتہائی حساس” قرار دیا جائے گا اور کمیٹی پیشگی مشاورت کے بغیر ان کا اشتراک نہیں کر سکے گی۔ ذاتی معلومات جیسے کہ تاریخ پیدائش اور سوشل سیکورٹی نمبرز کو تبدیل کیا جائے گا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔
Source link
0 notes
gcn-news · 4 years ago
Text
وزیر اینٹی کرپشن بھی کرپٹ نکلے نیب نے بھرپور تیاری کے ساتھ کارروائی شروع کردی
Tumblr media
وزیر اینٹی کرپشن بھی کرپٹ نکلے نیب نے بھرپور تیاری کے ساتھ کارروائی شروع کردی کراچی (گلوبل کرنٹ نیوز) نیب نے سندھ کے اینٹی کرپشن جام اکرام اللہ دھاریجو کا گھیرائو شروع کردیا ہے۔ ان کا اور ان کی اہلیہ کا ریکارڈ مختلف اداروں سے مانگ لیا گیا ہے۔نیب نے محکمہ ایکسائز سندھ سے صوبائی وزیر اینٹی کرپشن جام اکرام اللہ دھاریجو اور ان کی اہلیہ کی جائیدادوں اور گاڑیوں کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔اس کے علاوہ نیب نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) سے جام اکرام اللہ دھاریجو کی تمام سفری تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔نیب نے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن، بورڈ آف ریونیو ،ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی(ڈی ایچ اے) اور ڈپٹی کمشنر گھوٹکی کو بھی خط لکھا ہے۔خط میں ڈی ایچ اے اور نجی تعمیراتی ادارے سے پلاٹوں اور زمینوں کی تفصیلات مانگی ہیں اور سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن سے جام اکرام اللہ دھاریجوکے نام کمپنیوں کا ریکارڈ طلب کیا ہے جب کہ ڈپٹی کمشنرگھوٹکی سے بھی اثاثہ جات کی تفصیل مانگی گئی ہے۔نیب نے صوبائی وزیر جام اکرام اللہ کے خلاف 28 دسمبر تک ریکارڈ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ Read the full article
0 notes
swstarone · 4 years ago
Photo
Tumblr media
نیب کے سیاستدانوں پر مقدمات: ’برسوں پرانے مقدمات اب تک چلانے پر قومی احتساب بیورو کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے‘ عماد خالق بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد10 منٹ قبل،NAB،تصویر کا کیپشننیب میں گذشتہ کئی برسوں سے زیر التوا بہت سے مقدمات میں یا تو اب تک ریفرنس ہی دائر نہیں ہوا اور اگر کسی کیس میں ریفرنس دائر ہو چکا ہے تو فرد جرم عائد نہیں ہو سکیپاکستان میں سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں احتساب کے عمل کو تیز، شفاف اور مؤثر بنانے کے اپنے انتخابی وعدوں کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا۔ جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بھی اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد ملک میں احتساب کے عمل کو تیز بنانے سمیت ماضی میں سست روی کا شکار ہو جانے والے مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کی یقین دہانی کروائی۔نیب کی جانب سے گذشتہ دو برسوں کے دوران درجنوں برسوں پرانے مقدمات پر دوبارہ سے کارروائی کا آغاز اس وعدے کے ساتھ کیا گیا کہ ان کیسز کو بہت جلد ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا تاہم ان سب وعدوں، اعلانات اور یقین دہانیوں کے باوجود بہت سے ایسے پرانے مقدمات پر جن پر کا��روائی انتہائی سست روی کا شکار ہے۔پیر کے روز اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری سمیت 10 شریک ملزمان پر پار�� لین ریفرنس میں فرد جرم عائد کر دی ہے تاہم تمام ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔اگرچہ اس مقدمے کی گونج دسمبر 2018 میں اُس وقت سننے میں آئی جب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو راولپنڈی نیب نے اسلام آباد کے نواحی علاقے سنگجانی میں قیمتی اراضی کو سستے داموں خریدنے کی الزام میں بلایا تھا۔تاہم یہ یاد رہے کہ پارک لین ریفرنس بھی کوئی ایک، دو نہیں بلکہ برسوں پرانا کیس ہے۔ اس سے قبل بھی سنہ 1997 میں آصف علی زرداری پر اس وقت کے احتساب بیورو نے اسلام آباد کی نواحی علاقے سنگجانی میں 2460 کنال کی قیمتی اراضی کو سستے داموں خریدنے کے الزام میں دائر کیا تھا۔تاہم ناکافی شواہد اور عدم ثبوتوں کے باعث اس مقدمہ کو بند کر دیا گیا۔ اس وقت احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمان تھے۔پارک لین ریفرنس کی مزید تفصیلات بیان کرنے سے قبل آئیے چند ایسے ہی دہائیوں پرانے نیب کیسز کا سرسری جائزہ لیتے ہیں جو برس ہا برس سے نیب کے پاس مختلف وجوہات کی بنا پر زیر التوا ہیں۔ نیب میں گذشتہ کئی برسوں سے چلنے والے بیشتر مقدمات میں اب تک ریفرنس ہی دائر نہیں ہوا اور یہ بنیادی تحقیق کی سطح پر ہی ہیں یا اگر ریفرنس دائر ہو بھی چکا تو فرد جرم عائد نہیں کی جا سکی۔ اسی طرح بہت سے مقدمات میں ملزمان دیگر عدالتوں سے ضمانت پر ہیں اور ان کے کیسز میں کارروائی سست روی کا شکار ہو چکی ہے۔،،تصویر کا کیپشنچوہدری پرویز الہی: ’ملک میں نامعلوم درخواستوں پر بے بنیاد مقدمات قائم کرنے اور تحقیقات کے سلسلے کو ختم ہونا چاہیے‘چوہدری برادران کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کا مقدمہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی اور سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت کے خلاف بھی نیب گذشتہ 20 برس سے ایک کیس میں تفتیش کر رہا ہے اور اب تک نہ اس کیس میں کوئی ریفرنس دائر کیا جا سکا ہے نہ ہی نیب کچھ ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔نیب ریکارڈ کے مطابق چار جنوری 2000 میں نیب نے اُس وقت کے وفاقی وزیر چوہدری شجاعت اور ان کے بھائی چوہدری پرویز الہی کے خلاف اختیارات کا ناجائز استعمال اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ایک مقدمہ قائم کیا تھا۔نیب کے دعوے کے مطابق اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے چوہدری برادران نے قومی خزانے کو تقریباً 2.42 ارب کا نقصان پہنچایا۔چوہدری برادران کے خلاف یہ کیس بھی سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بنایا گیا تھا۔ اس کیس میں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے غیر قانونی طریقوں سے ملک اور بیرون ملک آمدن سے زائد اثاثے بنائے ہیں۔نیب ریکارڈ کے مطابق اس کیس کی کارروائی میں سنہ 2000 سے سنہ 2002 کے آخر تک تیزی دیکھنے میں آئی جبکہ اس کے بعد مسلم لیگ ق کے قیام اور مشرف حکومت میں شامل ہونے کی بعد اس کیس میں کارروائی کو سست روی کا سامنا رہا۔ چوہدری بردران کے خلاف اس کیس کی گونج تقریباً 18 برس بعد دوبارہ سنہ 2018 میں سنی گئی جب نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے عہدے کا چارج سنبھالا۔آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں نیب کا موقف ہے کہ چوہدری برادران کے اثاثے سنہ 1985 سے لے کر اب تک کئی گنا تک بڑھ چکے ہیں۔اس کیس میں نیب کی جانب سے اب تک کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا ہے تاہم اب تک اس حوالے سے متعدد انکوائریاں کی گئی ہیں۔نیب کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے یہ ��سلیم کیا کہ گذشتہ ادوار میں اس کیس میں مختلف وجوہات کی بنا پر سست روی کا مظاہرہ کیا گیا۔نیب اہلکار کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ کیس کو بند فائلوں میں رکھ دیا گیا تاہم اس معاملے میں کارروائی میں تاخیر اور سستی ضرور ہوئی ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ کیس میں تاخیر کی ایک سب سے بڑی وجہ چوہدری برادران کی بیرون ملک جائیداد اور اثاثوں کی تفصیلات کے سلسلے میں ان ممالک سے رابطوں اور خط و کتابت کی سبب ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک کے اثاثوں کی مکمل تفصیل اور تفتیش کے لیے بیرون ملک سے رابطے اور وہاں سے مطلوبہ دستاویزات حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے۔،PTV NEWS،تصویر کا کیپشنچوہدری برادران کی جانب سے اس کیس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے نیب پر ’پولیٹیکل انجینیئرنگ‘ کا الزام عائد کیا ہےچوہدری برادران کی جانب سے اس کیس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اس مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرنے پر نیب چیئرمین کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے نیب پر ’پولیٹیکل انجینیئرنگ‘ کا الزام عائد کیا ہے۔انھوں نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ نیب گذشتہ 19 برس سے زائد عرصے میں ان کے خلاف ایک ثبوت بھی پیش نہیں کر سکی اور نیب کا ادارہ ایک نامعلوم شکایت کنندہ کی درخواست پر گذشتہ 20 برس سے ان کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔چند روز قبل چوہدری پرویز الہی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ملک میں نامعلوم درخواستوں پر بے بنیاد مقدمات قائم کرنے اور تحقیقات کے سلسلے کو ختم ہونا چاہیے۔‘اس کیس میں رواں برس مئی کے اوائل میں ہونے والی اس سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے نیب کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔یاد رہے رواں مئی میں سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی اس مقدمے کی سماعت کے لیے ذاتی حیثیت میں لاہور ہائی کورٹ پیش ہوئے تھے۔اس کیس میں چوہدری برادران کی وکیل امجد پرویز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نیب کی جانب سے یہ کیس بے بنیاد ہے، نیب 19 برس سے زائد عرصے میں اس کیس میں ایک بھی ریفرنس دائر نہیں کر سکا۔ یہ کیس اس وقت صرف سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا اور آج بھی اس مقدمے کو ان کے موکلین پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘ایڈوکیٹ امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ’نیب کا کہنا تھا کہ ان (چوہدری برادران) کی اثاثے سنہ 1985 سے سنہ 2020 تک کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ نیب بیرون ملک سے اگر کوئی اثاثوں کی تفصیل نہیں لا سکا تو ملک میں ہی سے کچھ ایسا ثابت کر دیتا۔‘انھوں نے کہا کہ ’نیب اپنی تفتیش میں ملک اور بیرون ملک سے کچھ ایسا ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ نیب اپنے مقدمے میں چوہدری برادران کے تمام اہلخانہ کو اس مقدمے میں شامل کرتا ہے جبکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر اولاد خود کفیل ہے اور اپنا کاروبار کرتے ہیں تو وہ زیر کفالت نہیں ہیں۔‘امجد پرویز کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کو جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے اور نیب اس حوالے سے جواب تیار کر کے جلد جمع کروائے گا۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اس مقدمے کی اگلی سماعت کی تاریخ نیب کے جواب جمع کروانے کے بعد دی جائے گی۔،Facebook/PTI،تصویر کا کیپشنسبطین خان سنہ 2007 میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں صوبائی وزیر معدنیات تھے اور انھیں چنیوٹ میں مائنز ٹھیکہ کیس میں گذشتہ برس گرفتار بھی کیا گیا تھاچنیوٹ مائنز اینڈ منرلز کیسپاکستان کی صوبہ پنجاب کے شہر چنیوٹ میں خام لوہے کی ذخائر تلاش کرنے کا ٹھیکہ کسی گمنام کمپنی کو دینے کا کیس بھی نیب میں گذشتہ ایک دہائی سے چل رہا ہے اور اس مقدمے میں تفتیش اور گرفتاریاں تو ہوئیں لیکن آج تک ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکا۔نیب دستاویزات کے مطابق اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی سردار سبطین خان پر ’ارتھ ریسورسزپرائیویٹ لمیٹڈ‘ نامی من پسند کمپنی کو ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ دینے اور قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔نیب دستاویزات کے مطابق سبطین خان سنہ 2007 میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں صوبائی وزیر معدنیات تھے اور انھیں چنیوٹ میں مائنز ٹھیکہ کیس میں گذشتہ برس گرفتار بھی کیا گیا تھا۔نیب دستاویزات کے مطابق ملزم کی جانب سے جولائی 2007 میں میسرز ارتھ ریسورس پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی کو ٹھیکہ فراہم کرنے کے غیرقانونی احکامات جاری کیے۔نیب دستاویزات کے مطابق ملزم سبطین خان نے شریک ملزمان ارشد وحید و دیگر سے ملی بھگت کر کے ٹھیکہ خلاف قانون فراہم کیا، ملزم محمد سبطین نے چنیوٹ کے اربوں مالیت کے معدنی وسائل 25 لاکھ مالیت کی کمپنی کو فراہم کیے تھے۔پنجاب حکومت نے سنہ 2018 میں نیب کو آگاہ کیا جس پر دوبارہ کارروائی کا آغاز کیا گیا۔نیب حکام کی جانب سے جاری کردہ بیان اور دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ نجی کمپنی ماضی میں کان کنی کے تجربے کی حامل نہیں تھی، تجربہ نہ ہونے کے باوجود سابق وزیر نے ملی بھگت سے کمپنی کو ٹھیکہ فراہم کیا، پنجاب مائنز ڈیپارٹمنٹ نے بولی میں دوسری کمپنی کو شامل ہی نہیں کیا اور نہ ہی ملزمان نے ایس ای سی پی کو منصوبے کی تفصیلات فراہم کیں۔نیب حکام کے مطابق لاہور ہائی کورٹ سے کیس ریفر ہونے پر نیب نے کارروائی کا آغاز کیا۔واضح رہے سردار سبطین خان سنہ 2018 کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے حقلہ پی پی 88 میانوالی 4 سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں اور موجودہ کابینہ میں وزیر جنگلات ہیں۔یہ ٹھیکہ2007 میں پرویزالٰہی دور حکومت میں دیا گیا تھا۔ سنہ 2008 میں شہباز شریف نے پنجاب میں عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد جب اس سکینڈل کی چھان بین کروائی تو مذکورہ کمپنی نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر لیا تھا جو ڈھائی سال تک لاگو رہا۔بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے اس معاہدے کی تمام تفصیلات کا بغور جائزہ لیا اور ایک حکم کے ذریعے اسے منسوخ کر دیا۔عدالت عالیہ نے حکومت پنجاب کو حکم جاری کیا کہ یہ معاملہ نیب کے حوالے کیا جائے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ارتھ ریسورسز پرائیوٹ لمیٹیڈ (ای آر پی ایل) کے ساتھ 30 سے 35 ارب ڈالر کے خام لوہے کی تلاش کا یہ معاہدہ قومی مفاد کو سامنے رکھے بغیر کیا گیا۔یہ معاملہ پہلے اس وقت کی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اینٹی کرپشن کو بھجوایا تھا لیکن اینٹی کرپشن متعدد سال اس پر اپنی تفتیش مکمل نہ کر سکی پھر یہ معاملہ نیب کے حوالے کر دیا گیا۔اس مقدمے میں تحریک انصاف کے ایم پی اے سبطین خان کے وکیل حیدر رسول مرزا کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انھیں تفتیش کرنے والوں کی طرف سے کلین چٹ مل چکی ہے اور یہ کیس نیب کا بنتا ہی نہیں ہے۔پنجاب منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور ارتھ ریسورسز پرائیویٹ لمیٹیڈ میں مبینہ غیر قانونی کنٹریکٹ ہوا تھا اور یہ کمپنی شعبہ معدنیات کے ماتحت قائم ہوئی۔ اس کمپنی کے مالک ارشد وحید نے صوبائی محکمہ پنج من کے ساتھ لوہے کے معدنی ذخائر نکالنے کا معاہدہ دسمبر 2007 میں کیا تھا۔سرکاری دستاویزات کے مطابق مقدمے کی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ پی یو این جے ایم آئی این نے 117.59 ملین خرچ کر دینے کے بعد 610 ملین میٹرک ٹن لوہا چنیوٹ میں دریافت کیا جس کی مالیت 915 ارب ڈالرز بنتی ہے۔معاہدے میں حکومت 20 فیصد پر راضی ہوئی جبکہ ارشد وحید کو اس کا 80 فیصد ملنا تھا۔ چھ برس معاملے کی تحقیقات کے بعد اینٹی کرپشن نے ایف آئی آر 10/518 پی پی سی کے سیکشن 471،468اور 420 کے تحت سات افراد کے خلاف درج کی جن میں موجودہ پی ٹی آئی ایم پی اے اور پنجاب کے سابق وزیر برائے مائینز اینڈ منرلز محمد سبطین خان ،سابق سیکریٹری مائنز این�� منرلز پنجاب امتیاز احمد چیمہ ،سیکریٹری پی یو این جے ایم آئی این بشارت اللہ ،جنرل منیجر پی یو این جے ایم آئی این محمداسلم، چیف انسپکٹرز آف مائنز پنجاب میاں عبدالستار، ٹیکنیکل ایڈوائزر پی یو این جے ایم آئی این ادریس رضوانی اور سی ای او ای آر پی ایل ارشد وحیدر شامل تھے۔ای پی آر ایل کے مالک ارشد وحید پنجاب حکومت کے ان کی کمپنی سے کنٹریکٹ منسوخ کرنے کے بعد جلد ہی ملک سے باہر چلے گئے۔ ارشد وحید تاحال امریکا سے پاکستان واپس نہیں آئے۔ای پی آر ایل اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئی لیکن سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ تاہم رواں برس 16 جولائی کو ہونے والے نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس میں اس مقدمے میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔،AFPنواز شریف اور شہباز شریف پر اختیارات کا ناجائز استعمالپاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے خلاف بھی ایک مقدمہ گذشتہ 20 برس سے نیب کی زیر تفتیش ہے اور آج تک اس کیس میں بھی ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکا۔یہ مقدمہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے سنہ 1998 میں رائیونڈ سے اپنی رہائش گاہ جاتی امرا تک سڑک کی مبینہ غیر قانونی تعمیر کروانے کا ہے جس سے قومی خزانے کو مبینہ طور پر تقریباً 126 ملین روپے کا نقصان پہنچا۔نیب ریکارڈ کے مطابق یہ مقدمہ اپریل 2000 میں قائم ہوا تھا تاہم تقریباً 20 برس گزرنے بعد اب تک اس میں ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکا۔جبکہ سنہ 2018 سے اب تک متعدد بار سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اس مقدمہ میں احتساب عدالت طلب کیا جا چکا ہے۔نیب کے مطابق نواز شریف نے 1998 میں بطور وزیراعظم اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے جاتی امرا تک سڑک تعمیر کروائی اور ان کے حکم پر سڑک کی چوڑائی 20 فٹ سے 24 فٹ کی گئی جس سے لاگت میں مزید اضافہ ہوا۔ نیب کا کہنا ہے کہ 17 اپریل 2000 کی تفتیش کے مطابق منصوبے پر 12 کروڑ 56 لاکھ روپے سے زائد کرپشن سامنے آئی جب کہ سنہ 2016 تک یہ انکوائری التوا کا شکار رہی اور سنہ 2016 کے بعد چیئرمین نیب نے براہ راست کیس کی تحقیقات کا حکم دیا۔ نیب کے مطابق سڑک کی تعمیر کے لیے ضلع کونسل کے کئی منصوبے بند کرائے گئے اور ایک سکول اور ڈسپنسری کا بجٹ بھی سڑک کی تعمیر پر خرچ کیا گیا۔واضح رہے یہ مقدمہ بھی سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا۔ اس مقدمے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے اراکین اسے سیاسی بنیادوں پر قائم کرنے اور نواز لیگ کی قیادت کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔،پارک لین اراضی سکینڈل کیساور اب ذکر اس کیس کا جس میں سابق صدر زرداری سمیت دیگر ملزمان پر آج فردِ جرم عائد ہوئی ہے۔اس کیس میں جولائی کے مہینے میں ہونے والی سماعت کے دوران سابق صدر کے وکیل فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ نیب نے قرض میں فراڈ کا کیس بنایا لیکن قرض دینے والوں کو ملزم ہی نہیں بنایا۔ صرف ان کے موکل آصف زرداری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ وہ پارک لین کمپنی سے پہلے ہی مستعفی ہو چکے تھے۔پارک لین سٹیٹ کمپنی آصف زرداری، بلاول بھٹو اور دیگر افراد کی مشترکہ ملکیت ہے اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ریکارڈ کہ مطابق اس کمپنی کے ایک لاکھ 20 ہزار شیئرز ہیں جن میں سے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری 30، 30 ہزار شیئرز کے مالک ہیں۔نیب کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس میں آصف علی زرداری کو پارک لین کمپنی کے ڈائریکٹر کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔نیب ریکارڈ کے مطابق کراچی کی ایک نجی کمپنی پارک لین اسٹیٹ نے سنہ 2008 فیصل سخی بٹ نامی شخص سے سنگجانی کے قریب 2460 کنال اراضی 6 کروڑ 20 لاکھ میں خریدی تھی۔ جبکہ فیصل سخی بٹ نے بھی یہ اراضی امریکہ میں مقیم ناصر خان نامی شخص سے خریدی تھی۔ناصر خان نے بھی یہ ��مین سنہ 1994 میں چھ کروڑ 20 لاکھ کے عوض خریدی تھی اور احتساب بیورو کی جانب سے 1997 میں آصف علی زرداری پر قائم کیے گئے کیس میں ناصر خان نامی شخص کو آصف علی زرداری کا فرنٹ مین قرار دیا گیا تھا۔نیب ریکارڈ، اطلاعات اور اخباری تراشوں کے مطابق سنہ 1997 سے سنہ 2007 تک ناصر خان ہی اس زمین کے مالک رہے جبکہ سنہ 2008 میں فیصل سخی بٹ نامی شخص نے جو مبینہ طور پر آصف علی زرداری کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے نے اسلام آباد کے سول کورٹ میں ایک درخواست دائر کی۔درخواست کے مطابق انھوں نے یہ 2460 کنال 13 مرلے کی زمین ناصر خان سے 6 کروڑ 20 لاکھ میں خریدی ہے اور اس کے عوض اسے 6 کروڑ 10 دس لاکھ ادا کر دیے ہیں۔جبکہ دس لاکھ کی ادائیگی باقی ہے اور وہ ادا کر کے زمین کی ملکیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔سنہ 2008 کے وسط میں سول عدالت نے مقدمے میں فیصل سخی بٹ کے حق میں قرار دیتے ہوئے معاملے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوا دیا۔ جس کے جواب میں ناصر خان نے اپنے وکیل کے ذریعے امریکہ میں کاروباری مصروفیات اور بیماری کا عذر پیش کرتے ہوئے عدالت کے سامنے پیش ہونے پر معذرت کرتے ہوئے فیصلہ فیصل سخی بٹ کے حق میں ہونے دیا۔سنہ 2008 کے آخر میں جب اسلام آباد عدالت کی جانب سے اس زمین کا انتقال فیصل سخی بٹ کے نام کیا جانا تھا تب فیصل سخی بٹ کے وکیل کی جانب سے استدعا کی گئی ہے اس زمین کا انتقال پارک لین سٹیٹ پرائیویٹ کے نام پر کیا جائے۔ تب پہلی مرتبہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی ملکیتی پارک لین اسٹیٹ کا نام منظر عام پر آیا۔ اور جنوری 2009 میں اس زمین کی ملکیت پارک لین اسٹیٹ کے نام کر دی گئی۔اس کیس میں آصف علی زرداری کی گزشتہ برس گرفتاری ڈالی گئی جبکہ دسمبر 2019 کو ان کو اس کیس میں ضمانت ملی تھی۔ آصف زرداری پر اس کیس میں سستی اراضی خریدنے کے ساتھ ساتھ پروتھینون نامی ایک کمپنی قائم کر کے قرضے کی رقم میں غبن کا الزام بھی ہے۔،AFP،تصویر کا کیپشننیب سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں بنائی گئی تھی (فائل فوٹو)نیب کے مقدمات پر قانونی ماہرین کی رائےنیب کی جانب سے یہ مقدمات التوا کا شکار کیوں ہے اس بارے میں قانونی ماہرین کا کہنا ہےکہ نیب کا قانون ہمیشہ سے متنازع رہا ہے اور اس کو بلاشبہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔سابق اٹارنی جنرل اور ماہر قانون عرفان قادر نے اس ضمن میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی کیس بنتا ہی نہیں ہے تو نیب کو اس کو بند کر دینا چاہیے، یہ نیب کی اتنے برسوں کی نا اہلی کو ثابت کرتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’نیب کو ہر حکومت میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور متعدد مقدمات کا کئی برس گزرنے کے بعد منطقی انجام تک نہ پہنچنا یا اس میں ریفرنس تک دائر نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’قومی احتساب بیورو کے زیرالتوا مقدمات، جن پر آج تک ریفرنس دائر نہیں کیا گیا یا ان کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکیں، پر خود نیب کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔'بیرسٹر سعد رسول کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو کا ادارہ ہمیشہ سے ہی متنازع رہا ہے، اس ادارے کی تشکیل سابق فوجی آمر جنرل مشرف کے دور میں کی گئی اور اس کے قانون کو ’ڈریکونین لا‘ بھی کہا جاتا رہا۔ان کا کہنا تھا کہ اس ادارے سے جو امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں اور مختلف ادوار میں اسے سیاسی مقاصد یا مفاہمتی سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ان کا کہنا تھا کہ نیب کے مقدمات میں تفتیش مکمل نہ ہونے یا سست روی کا شکار ہونے کی تمام ذمہ داری ہم صرف ادارے پر نہیں ڈال سکتے بلکہ اس میں گذشتہ ادوار کی حکومتوں کا عمل دخل بھی ہے۔سعد رسول کا کہنا تھا کہ ’ملک میں 2000 کی دہائی کے وسط سے لے کر سنہ 2016 تک احتساب کا عمل مختلف سیاسی وجوہات کی بنا پر انتہائی سست روی کا شکار رہا۔‘’اس ادارے کی خودمختاری کی باتیں تو سب نے کیں لیکن اس پر عمل کوئی نہ کر سکا۔‘ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
unnnews-blog · 7 years ago
Photo
Tumblr media
آمدن سے اثاثہ جات کیس؛ نیب کو پرویز مشرف اور اہل خانہ کی گاڑیوں کی تفصیلات فراہم لاہور(یو این این): آمدن سے اثاثہ جات کیس میں نیب کو پرویز مشرف اور اہل خانہ کی گاڑیوں کی تفصیلات فراہم کردی گئیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے آمدن سے اثاثے بنانے کے الزام میں سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے محکمہ ایکسائز موٹر برانچ کو خط لکھا جس میں پرویز مشرف، ان کی اہلیہ صہبا مشرف، والدہ زہرہ، بیٹی عالیہ رضا اور داماد عاصم رضا کے نام رجسڑڈ گاڑیوں کی تفصیلات طلب کیں۔ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے پرویز مشرف سمیت ان کی فیملی کی گاڑیوں کی فہرست نیب کو فراہم کر دی ہیں۔ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی موٹر رجسٹریشن اتھارٹی کے ریکارڈ کے مطابق جنرل (ر) پرویز مشرف کی بیگم صہبا مشرف کے نام ایک لینڈ کروزر نمبر ایل ای ڈی 12..2829 رجسٹرڈ نکلی۔گزشتہ ماہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیرِ صدارت ہونے والے نیب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں سابق صدر پرویز مشرف سمیت دیگر شخصیات کے خلاف انکوائری کی منظوری دی گئی تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے، بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔
0 notes
utv-pakistan-posts · 7 years ago
Text
نوجوان سرفراز شاہ کو قتل کرنے والے رینجرز اہلکاروں کو صدارتی معافی
صدرِ پاکستان ممنون حسین نے ایک نوجوان کے قتل کے جرم میں سزا یافتہ سندھ رینجرز کے اہلکاروں کو صدارتی معافی دینے کا اعلان کیا ہے۔
ان اہلکاروں کو مقتول نوجوان سرفراز شاہ کے اہل خانہ پہلے ہی معاف کر چکے ہیں۔
آئی جی سندھ جیل خانہ جات کی جانب سے سندھ کے محکمہ داخلہ کے سیکریٹری کو 4 جنوری کو تحریر کیے گئے ایک خط میں اس معافی کی اطلاع دی گئی ہے۔
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 4 years ago
Text
عزیر بلوچ کی جان کو خطرات، اسے اب کہاں منتقل کردیا گیا؟
Tumblr media
کراچی(جی سی این رپورٹ) انسداد دہشت گردی عدالت کو بتایا گیا ہے کہ رینجرز نے مبینہ طور پر سیکیورٹی خدشات کے باعث کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ کو کراچی سینٹرل جیل سے میٹھا رام ہاسٹل سب جیل منتقل کردیا۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معلومات انسداد دہشت گردی عدالت ( اے ٹی سی-VXI ) میں قتل اور دہشت گردی کے الزامات سے متعلق کیس میں سینٹرل جیل کے سینئر سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے جمع کروائے گئے خط میں فراہم کی گئی۔واضح رہے کہ 2013 میں پاک کالونی پولیس اسٹیشن میں قتل اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔گزشتہ سماعت میں عدالت نے مبینہ طور پر لیاری کے سردار کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے۔اس پروڈکشن آرڈر کے جواب میں حکام کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ سزا یافتہ قیدی (عزیر بلوچ) کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ محکمہ داخلہ سندھ کی ہدایت پر انہیں سینٹرل جیل سے پاکستان چوک کے قریب میٹھا رام ہاسٹل منتقل کردیا گیا تھا۔ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ مذکورہ بالا معاملے کے پیش نظر عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ وہ سماعت کے لیے ایک اور تاریخ مقرر کرے تاکہ عزیر بلوچ کو پیش کیا جاسکے۔بعد ازاں سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں ٹرائل کرنے والے جج نے عزیر بلوچ کے 13 جولائی کے لیے پروڈکشن آرڈر دوبارہ جاری کردیے۔اس سے قبل 9 جون کو صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے مبینہ طور پر جاری کیے گئے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی خدشات سے متعلق رپورٹس کے جائزے پر حکومت پاکستان رینجرز کے میٹھا رام ہاسٹل کی حدود کو سب جیل قرار دیتی ہے تاکہ لیاری گینگسٹر کو حراست میں محفوظ رکھا جاسکے۔مزید برآں یہ بھی کہا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل ��انہ جات کی جانب سے نامزد عہدیدار سب جیل کے انتظامی معاملات اور نگرانی کے ذمہ دار ہوں گے اور رینجرز اور پولیس ان کی بیرونی سیکیورٹی کے لیے ذمہ دار ہوں گے۔اس میں یہ بھی کہا گیا کہ پیراملٹری فورس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سب جیل میں ان کے ساتھ موجود قیدی اور وہاں تعینات عملے کو کسی بھی قسم کے خطرے یا کوئی مجرمانہ فعل سے بچانے کے لیے ہر ممکن حفاظتی کریں گی۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ لیاری کی بدنام زمانہ شخصیت عزیر جان بلوچ کو فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف ان کے اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ Read the full article
0 notes
gcn-news · 4 years ago
Text
پنجاب کا بجٹ پیش کردیا گیا
Tumblr media
لاہور(جی سی اہن رپورٹ) صوبائی حکومت نے مالی سال 21-2020 کے لیے پنجاب کا تقریباً 22 کھرب 40 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے‘کورونا وائرس کے پیش نظر ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے سخت شور شرابہ اور نعرے بازی دیکھنے میں آئی. وزیر خزانہ ہاشم بخت جوان نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک کھرب 6 ارب روپے کورونا ریلیف کے لیے مختص کیے گئے ہیں صوبائی وزیر نے بتایا کہ ہم آئندہ سال کے بجٹ کے لیے عوام سے تجاویز و سفارشات طلب کی تھیں جس کی روشنی میں اقدامات کیے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 20 سے زائد سروسزپر سیلز ٹیکس 16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے، پراپرٹی بلڈر اور بلڈر نے 50 ار 100 روپے فی مربع گز ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے. ہاشم بخت جوان نے بتایا کہ مقامی حکومتوں کے بجٹ میں 10 ارب روپے اضافی رکھے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ تمام معاشی مشکلات کے باوجود ہم نے کوشش کی ترقیاتی بجٹ میں کمی نہ کی جائے اس لیے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 337 ارب روپے کی رقم مختص کیے جارہے ہیں. صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہماری کوشش ہے کہ آئندہ مالی سال میں ایسے منصوبے پیش کیے جائیں جس سے عوام کو روزگار میسر ہو اس سلسلے میں کمیونیٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام کے لیے 15 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں. اپنی بجٹ تقریر میں انہوں نے بتایا کہ کاروبار میں آسانی کے لیے نوجوانوں کی فنی تربیت کے لیے 6 ارب 86 کروڑ روپے مختص کیے جارہے ہیں، اسکلز ڈیویلپمنٹ کے لیے 4 ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ پنجاب کے 10 اضلاع میں غربت مٹاو¿ پروگرام کے لیے 2 ارب سے زائد مالیت کے مختلف منصوبوں کا آغاز کیا جائے گا. ہاشم جواں بخت نے بتایا کہ پنجاب میں خط غربت سے نیچے رہنے والوں کے لیے 5 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم مختص کیے گئے انہوں نے بتایا کہ اسکولوں کی اپ گریڈیشن کے لیے بھی بجٹ میں خطیر رقم شامل کی ہے اور پہلی حکومت ہے جو 12 سو اسکولوں کو اپ گریڈ کیا جاچکا ہے. انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے 4 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جس میں سے ایک ارب روپے صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو فراہم کیے جائیں گے‘صوبائی وزیر نے بتایا کہ پنجاب میں محکمہ جنگلات کے لیے 8 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی جارہی ہے. صوبائی وزیر نے بتایا کہ ہم آئندہ سال کے بجٹ کے لیے عوام سے تجاویز و سفارشات طلب کی تھیں جس کی روشنی میں اقدامات کیے گئے ہیں پنجاب کے بجٹ میںشعبہ صحت کیلئے 2کھرب 80ارب مختص کرنے‘کورونا اثرات کم کرنے کیلئے23 شعبوں کو ٹیکس ریلیف دینے‘شعبہ ��یجوکیشن کیلئے مجموعی طورپر388ارب مختص کرنے‘روڈ اور ٹرانسپورٹ کے شعبے کیلئے73 ارب روپے مختص کرنے اورخدمات پرسیلز ٹیکس میں ریکارڈ کمی کی تجویزدی گئی ہے. پنجاب میں ترقیاتی بجٹ کا حجم 337ارب رکھنے کی سفارش کی گئی ہے ‘صوبائی ارکان اسمبلی اور وزرا کے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 23 ارب روپے کے فنڈ مختص کرنے‘جنوبی پنجاب کے لیے بلاک ایلوکیشن کی مد میں 3 ارب روپے، نئے منصوبہ جات کی مدمیں 76 ارب جاری منصوبوں کے لیے 184 ارب روپے مختص کرنے ‘کورونا وائرس کے باعث بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر قابو پانے اور چھوٹے بڑے کاروباروی حضرات کی مالی معاونت کے لیے 23 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کرنے اورپنجاب میں پبلک پرایﺅٹ پارٹنر شپ کے تحت منصوبہ جات کی تکمیل کی لاگت کا تخمینہ 25 ارب روپے لگایا گیا ہے.صوبائی ترقیاتی منصوبوں کے لیے بلاک ایلوکیشن کے نام 31 ارب روپے مختص کرنے ‘ تعلیم کے لیے 34اعشاریہ پانچ ارب روپے، صحت کے شعبہ کیلئے 33 اعشاریہ 6 ارب روپے مختص کرنے ‘پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے آب پاک اتھارٹی کو 2 ارب روپے پچاس کروڑ روپے دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ خواتین کے شعبہ کی ترقیاتی کے لیے راواں مالی سال کے مختص شدہ بجٹ جی نسبت نئے مالی سال میں 50 فیصد بجٹ کا کٹ لگا دیا گیا ہے. نئے مالی سال میں خواتین کی ترقی کے لیے 40 کروڑ روپے مختص کرنے‘پراپرٹی ٹیکس دو اقساط میں لینے ‘بیوٹی پارلرزپر کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی پر5 فیصد ٹیکس لگانے‘ سکول ایجوکیشن کیلئے319 ارب مختص کرنے اور صوبائی ٹیکس وصولی کا ہدف2کھرب 20ارب مختص کرنے کی تجویزدی گئی ہے. اسی طرح اخراجات جاریہ کے حجم کا تخمینہ 1778 ارب روپے لگایا گیا ہے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 337 ارب روپے لگایا گیا ہے‘ڈونر ایجنسیوں سے 133 ارب روپے ملنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘انووٹینگ فناسنگ سے 25 ارب روپے ملنے کا تخمینہ لگا یا، اکاﺅنٹ ٹو(فوڈ) سے331 ارب روپے ملنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے. قابل تقسیم محاصل کی مد میں14کھرب33 ارب روپے، تنخواہوں کی مد میں 3 کھرب 33 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز، پینشن کی مد میں 2 کھرب پچاس ارب روپے کا تخمینہ ، پی ایف سی کی مد میں 4 کھرب 48 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے ‘پنجاب ریونیواتھارٹی کیلئے 1کھرب 25ارب مختص کرنے ,بورڈ آف ریونیو کیلئے56ارب ‘ایکسائزکیلئے32.4ارب،توانائی کیلئے 6.8ارب‘ٹرانسپورٹ کیلئے70ارب روپے‘پرائمری اینڈسکینڈری ہیلتھ کیلئے 124.4ارب‘پولیس کیلئے 1کھرب 19ارب روپے رکھنے کے علاوہ پنجاب پولیس کو 13.8ارب کی اضافی گرانٹ جاری کی گئی ہے. شعبہ صحت کیلئے 2کھرب 80ارب ‘شعبہ ایجوکیشن کیلئے مجموعی طورپر388ارب ‘شعبہ تعلیم میں نظرثانی شدہ بجٹ کی نسبت1ارب ‘شعبہ تعلیم کی ترقی کے لیے33 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ شعبہ صحت کے بجٹ میں نظر ثانی شدہ بجٹ کی نسبت 6 ارب اضافہ ہوگا, شعبہ صحت کیلئے مجموعی طور پر 33 ارب روپے کے فنڈ مختص کرنے کی تجویز,روڈ اور ٹرانسپورٹ کے شعبے کیلئے73 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز,محکمہ آبپاشی کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 17 ارب مختص کرنے کی تجویزدی گئی. آمدن کے لیے میرج ہالز، تقریبات اور لان اور پنڈال سجانے پر5 فیصد محصول دینا ہوگا، ہیلتھ کیئر جم، فٹنس سنٹر، پراپرٹی ڈیلر، رینٹ اے کارسروسز، کیبل آپریٹرز، آٹوموبائل ڈیلرز، اپارٹمنٹ مینجمنٹ سے بھی 5 فیصد وصولا جائے گا، سکن اور لیزر کلینکس، ایجوکیشن فرنچائز، آئی ٹی سکیٹر پر بھی پانچ فیصد ٹیکس لگے گا، ریسٹورنٹس اور بیوٹی پارلرزپر کیش ادائیگی پر 16 اور کریڈٹ کارڈ پیمنٹ پر 5 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے. بجٹ میں ہیلتھ انشورنس پر عائد 16 فیصد ٹیکس ختم کردیا گیامالی سال 2020-21 میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہاﺅسز کے کمروں پر کم کر کے 5 فیصد کردیا گیاوفاق کی طرح پنجاب حکومت بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپینشن میں اضافہ نہیں کیا گیا سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن پچھلے سال والی ہی برقرار رہے گی کابینہ ارکان نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا مطالبہ کیا تاہم وزارت خزانہ نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال میں یہ اضافہ ممکن نہیں. بجٹ میں کورونا کے بدترین اثرات کم کرنے کیلئے خصوصی اقدامات، 23 شعبوں کیلئے ٹیکس ریلیف،1 براہ راست اور 10 باالواسطہ اقدامات سے فائدہ اٹھائیں گے، سروسز پر سیلز ٹیکس میں کمی اور پراپرٹی ٹیکس کی 2 قسطوں میں وصولی کی تجویز بھی پیش کی جائیگی، ہسپتالوں کے بیڈ اور روم چارجز، ہیلتھ انشورنس پر 16 فیصد ٹیکس ختم ، ہوٹلوں، گیسٹ ہاﺅسز کے کمروں پر کم کرکے 5 فیصد کردیا جائیگا. تعلیم، صحت اور روزگار پر خصوصی توجہ دینے کی پالیسی اپنائی گئی ہے، کورونا وائرس کے تدارک اورپیدا کردہ معاشی صورتحال میں صوبائی حکومت کی جانب سے ہنگامی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے پرائمری ہیلتھ کو123 ارب اور سپیشلائزڈ ہیلتھ کے لیے 130 ارب اور سکول ایجوکیشن پر323 ارب مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے. محکمہ آبپاشی کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 17 ارب مختص کرنے کی تجویز, واٹر سپلائی کے شعبہ میں نظر ثانی شدہ بجٹ کی نسبت 1ارب روپے کمی, واٹر سپلائی کے شعبہ کیلئےبجٹ میں 11 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز,سٹیٹ ٹریڈینگ اورچینی کی مد میں 65.8ارب کی اضافی گرانٹ دی گئی. پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت 100 ارب کی سرمایہ کاری ہوگی‘کورونا اثرات کم کرنے کے لئے 23 شعبوں کو ٹیکس ریلیف ملے گا اور کورونا سے نمٹنے کیلئے 43 ارب سے زائد رقم کا بندوبست کیا گیا ہے‘لاک ڈاﺅن کے بعدکاروباری حضرات اور شہریوں کو راواں مالی سال 18 ارب کا ریلیف دیا گیا ہے‘اسی طرح مالی سال2020-20 میں ٹیکسی سروسز اوبر کریم اور دیگر پر پر 4 فیصد ٹیکس عائد کردیا گیاہے Read the full article
0 notes
gcn-news · 5 years ago
Text
اگر نواز شریف سے اے سی کی سہولت واپس لی گئی تو۔۔۔شہباز شریف نے کیا وارننگ جاری کردی
لاہور(جی سی این رپورٹ)مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے چیف سیکریٹری پنجاب کو خط لکھ کر خبردار کیا ہے کہ اگر لیگی قائد نواز شریف کے جیل میں موجود کمرے سے اے سی کو اتار لیا گیا تو ان کے گردے فیل ہوسکتے ہیں۔چیف سیکریٹری پنجاب کو لکھے گئے اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو گردے کا عارضہ لاحق ہے۔شہباز شریف نے پنجاب حکومت کے آئی جی جیل خانہ جات کو لکھے گئے خط کو میڈیکل بورڈ کی سفارشات کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔میڈیکل بورڈ کی سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے شہباز شریف کا کنہا تھا کہ کہا کہ 'میڈیکل بورڈ کی سب سے پہلی سفارشی یہی ہے کہ محمد نواز شریف کو مناسب درجہ حرارت والے کمرے میں رکھا جائے.'ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ کا یہی کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کو مناسب درجہ حرارت والے کمرے میں نہیں رکھا گیا تو ان کے گردے فیل ہوسکتے ہیں۔واضح رہے کہ 25 جولائی 2019 کو ذرائع ابلاغ میں رپورٹس آئیں تھیں کہ پنجاب حکومت نے آئی جی جیل خانہ جات کو 17 جولائی کو خط لکھ کر نواز شریف کے کمرے سے اے سی اتارنے کی ہدایت کی تھی۔انہوں نے کہا کہ 'محکمہ داخلہ کی سرد مہری پر حیران ہوں کہ محمد نواز شریف کی صحت سے متعلق کلیدی نکتے کو کس طرح نظر انداز کردیا گیا، سیاسی انتقام کی خاطر یہ اقدام میرے قائد اور بھائی کی جان پر حملہ ہے'۔شہباز شریف نے الزام عائد کیا کہ یہ اقدام وزیراعظم عمران خان کے حکم پر اٹھائے جارہے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ میڈیکل بورڈ کی سفارشات پر ان کی رو کے مطابق عمل کیا جائے کیونکہ ایسے اقدامات سے محمد نواز شریف کی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کو سیاسی دباؤ کی بنا پر ان کے قانونی اور جائز حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔انہوں نے چیف سیکریٹری پنجاب سے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ آپ اس اقدام کے سنگین نتائج اور دانستہ طور پر نواز شریف کی صحت پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ ہیں۔‘شہباز شریف کے خط کی کاپیاں چیف جسٹس پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات کو بھی ارسال کی گئیں۔ Read the full article
0 notes
gcn-news · 5 years ago
Text
اگر نواز شریف سے اے سی کی سہولت واپس لی گئی تو۔۔۔شہباز شریف نے کیا وارننگ جاری کردی
لاہور(جی سی این رپورٹ)مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے چیف سیکریٹری پنجاب کو خط لکھ کر خبردار کیا ہے کہ اگر لیگی قائد نواز شریف کے جیل میں موجود کمرے سے اے سی کو اتار لیا گیا تو ان کے گردے فیل ہوسکتے ہیں۔چیف سیکریٹری پنجاب کو لکھے گئے اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو گردے کا عارضہ لاحق ہے۔شہباز شریف نے پنجاب حکومت کے آئی جی جیل خانہ جات کو لکھے گئے خط کو میڈیکل بورڈ کی سفارشات کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔میڈیکل بورڈ کی سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے شہباز شریف کا کنہا تھا کہ کہا کہ 'میڈیکل بورڈ کی سب سے پہلی سفارشی یہی ہے کہ محمد نواز شریف کو مناسب درجہ حرارت والے کمرے میں رکھا جائے.'ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ کا یہی کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کو مناسب درجہ حرارت والے کمرے میں نہیں رکھا گیا تو ان کے گردے فیل ہوسکتے ہیں۔واضح رہے کہ 25 جولائی 2019 کو ذرائع ابلاغ میں رپورٹس آئیں تھیں کہ پنجاب حکومت نے آئی جی جیل خانہ جات کو 17 جولائی کو خط لکھ کر نواز شریف کے کمرے سے اے سی اتارنے کی ہدایت کی تھی۔انہوں نے کہا کہ 'محکمہ داخلہ کی سرد مہری پر حیران ہوں کہ محمد نواز شریف کی صحت سے متعلق کلیدی نکتے کو کس طرح نظر انداز کردیا گیا، سیاسی انتقام کی خاطر یہ اقدام میرے قائد اور بھائی کی جان پر حملہ ہے'۔شہباز شریف نے الزام عائد کیا کہ یہ اقدام وزیراعظم عمران خان کے حکم پر اٹھائے جارہے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ میڈیکل بورڈ کی سفارشات پر ان کی رو کے مطابق عمل کیا جائے کیونکہ ایسے اقدامات سے محمد نواز شریف کی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوں گے۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کو سیاسی دباؤ کی بنا پر ان کے قانونی اور جائز حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔انہوں نے چیف سیکریٹری پنجاب سے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ آپ اس اقدام کے سنگین نتائج اور دانستہ طور پر نواز شریف کی صحت پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ ہیں۔‘شہباز شریف کے خط کی کاپیاں چیف جسٹس پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ پنجاب اور آئی جی جیل خانہ جات کو بھی ارسال کی گئیں۔ Read the full article
0 notes