#قدغن
Explore tagged Tumblr posts
Text
لأنكِ تعرفِين كيفَ تنسِين ❤️🩹 !.
#قدغن#لقاء#فراق#ذكرى#نسيان#حب#عشق#نهاية#ايران#دراما#life#downfall#downfalldestiny#حياة#magic destinations#magical world#magic moments#love#وجع#Pain#شعر ابيض#كبر
18 notes
·
View notes
Photo
(5/54) “The meaning of our most important words I learned from my mother. 𝘙𝘢𝘴𝘵𝘪: Truth. I never heard her tell a lie. 𝘕𝘦𝘦𝘬𝘪: Goodness. I never heard her gossip. And 𝘔𝘦𝘩𝘳: Love. We were three brothers and five sisters, but she loved us all equally. There were no assigned places at our dinner table. Everyone got their desired portion. While we ate our father would encourage us to debate the events of the day. No topic was off limits: history, politics, even the existence of God. And everyone was encouraged to use their voice. One weekend my father drove us all to visit Ferdowsi’s tomb in the city of Tus. It’s a large tomb. It’s modeled after the tomb of Cyrus The Great. On its face is etched the first line of Shahnameh. The master verse. The cornerstone: ‘In the Name of the God of Soul and Wisdom.’ 𝘑𝘢𝘢𝘯 and 𝘒𝘩𝘦𝘳𝘢𝘥. Soul and Wisdom. The two things that all humans have. With the opening line Ferdowsi does away with all castes and classes. He does away with all religion. He gives everyone a direct connection to the creator. As a young boy I’d memorized hundreds of verses. One of my favorite stories in Shahnameh is when Rostam selects his horse. Rakhsh is the only horse in Iran that can carry Rostam’s weight. Rakhsh has the body of a mammoth. But he's wild, he foams at the mouth. Rostam has to fight to tame him. I was a shy child. But something happens when I read Shahnameh. There’s an epic cadence. The words demand to be spoken. It’s like touching a hot stove. I feel the heat, I feel the pressure. It’s like a sword pierces my body and I have to let it out: ‘𝘙𝘢𝘬𝘩𝘴𝘩 𝘳𝘰𝘢𝘳𝘦𝘥 𝘣𝘦𝘯𝘦𝘢𝘵𝘩 𝘙𝘰𝘴𝘵𝘢𝘮!’ The neighbors would come running to their balconies to watch. Every region in Iran has its own dialect, and I could switch between them. The language is ancient, so I didn’t know the meaning of every word. But I could feel the music. When I mispronounced a word, I knew. As if I’d played a wrong chord. I could almost tell what he wanted. I could almost hear the voice of Ferdowsi himself.”
معنای مهمترین واژگان زبانمان را از مادرم آموختم، راستی، هرگز دروغی از او نشنیدم. نیکی، هرگز غیبت نمیکرد و مهر و دوستی. ما سه برادر و پنج خواهر بودیم و مادر همه را به اندازهی مساوی دوست داشت. برای هیچکس جایگاه ویژهای بر سر سفره در نظر گرفته نمیشد. هر کسی به میل و اندازهی خود از خوراک سهم میبرد. هنگام خوردن پدر تشویقمان میکرد که دربارهی رویدادهای روز گفتوگو کنیم. هیچ موضوعی قدغن نبود: تاریخ، سیاست، حتا وجود خداوند. و همه تشویق میشدند که اندیشههای خود را بیان کنند. پدر ما را یک هفته به دیدن آرامگاه فردوسی در شهر توس برد. آرامگاهی بود بزرگ. بسان آرامگاه کوروش بزرگ طراحی شده است. نخستین بیت شاهنامه بر روی سنگ آرامگاه حک شده بود. شاهبیت است. پایه و ستون اندیشه و جهانبینی ایرانیست: به نام خداوند جان و خرد. دو چیزی که همهی مردمان از آن برخوردارند. در نخستین برگ شاهنامه، فردوسی همهی طبقات اجتماعی را کنار مینهد. همهی دینها را کنار مینهد. فردوسی به مردمان پیوندی بیواسطه با خداوند میبخشد. او میگوید: هر آنچه در این کتاب است، برای همگان است. در کودکی سدها بیت شاهنامه را به یاد سپرده بودم. از داستانهای مورد علاقهام در شاهنامه جاییست که رستم اسبش، رخش را برمیگزیند. رخش تنها اسبیست در ایران که میتواند رستم و جنگ افزار سنگینش را تاب بیاورد. رخش تنی بسان پیل دارد. سرکش است، رستم برای گرفتن و رام کردنش میبایست سخت بکوشد. من کودکی خجالتی بودم. ولی زمانی که شاهنامه را میخواندم، شور شگفتانگیزی مرا فرا میگرفت. شعرها آهنگی رزمی دارند. واژگان خواستار خوانشاند. همانند دست زدن به کورهای گرم. گرما را حس میکنم، فشار را حس میکنم. همانند شمشیری که تنم را میشکافد و باید آن را فریاد بزنم: از این سو خُروشی برآورد رَخش / وزآن سوی اسب یل تاجبخش. همسایگان شتابان بر روی بامهاشان جمع میشدند تا شنوندهی فردوسی باشند. هر منطقهای از ایران گویش و لهجهی خود را دارد. من داستانهای شاهنامه را به فارسی و گویشهای محلیمان میخواندم. کتاب به زبان پارسی کهن سروده شده است، معنای همهی واژگان را نمیدانستم ولی آهنگش را حس میکردم. اگر واژهای را اشتباه میخواندم، درمییافتم. چنانکه گویی نُت موسیقی را اشتباه زده باشی. میتوانستم به درستی بدانم که او چه میخواهد بگوید. گویی صدای دلآویز فردوسی را به جان میشنیدم
188 notes
·
View notes
Text
"رائے کو طاقت سے نہ دبائیے! کسی سے بھی اختلاف ہو توزور زبردستی کرنے کے بجائےدلیل سے بات کیجیے کیونکہ زور زبردستی سے حاصل کی گئی فتح غیر حقیقی اورفریبی ہوتی ہے۔"
"کسی بھی چیز کے بارے میں مکمل طور پر یقینی رویہ مت اپنائیے۔"
"سارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ احمق اور بے وقوف اپنی انتہا پسندی اور شدت پسندی پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں۔"
"خوف پر قابو پانا علم کے آغاز کی علامت ہے۔"
اگر پچاس لاکھ لوگ ایک جھوٹ کو سچ کہیں تب بھی وہ جھوٹ ہی رہے گا۔"
"اپنی رائے کے منفرد اور خارج المرکز ہونے سے نہ ڈرئیے کیونکہ آج قبول کردہ
ہر اک رائے کبھی منفرد اور خارج ازامکان ہوا کرتی تھی۔"
"اگر تعلیم ہمیں سیکھنے کی آزادی مہیا نہیں کرتی کہ کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں، ساتھ ہی ہمارے اظہار رائے پر قدغن لگاتی ہے تو ایسی تعلیم ہمارے کسی کام کی نہیں۔
"لطف حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اچھی کتابیں پڑھیں، فلسفہ پڑھیں، شاعری پڑھیں اور موسیقی سنیں."
برٹرینڈ رسل
#bartrendro
1 note
·
View note
Text
ایک کے بعد ایک آئینی بحران، قاضی فائز عیسیٰ کا امتحان
قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی اور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا، یوں انتخابات سے پہلے کے مراحل مکمل ہو گئے۔ اب عام انتخابات کیلئے الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے، نگران حکومت پر آئینی قدغن ہے کہ 90 دنوں میں عام انتخابات کرانے۔ آئینی پابندی کے باوجود سبکدوش ہونے والے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات آئندہ برس موسم بہار میں ہوں گے، راجہ ریاض کے پاس اس پیشگوئی کی…
View On WordPress
0 notes
Text
youtube
"به نام جان"
پادکست به نام جان
ویژه برنامه : آلتپرستان
قسمت چهارم : فرهنگسازی
با نیما شهسواری
آلتپرستان
فرهنگی آلوده به شهوت
فرهنگی اسیر و تسلیم امیال و تناقضی در تقبیح شهوت
بیماران جنسی دینی پدید آوردهاند که برای سلاخی عشق آمده است
آمده است تا آلوده کند پاکی را
تا به شهوت اسیر کند و اسیران را به قتلگاه بسپارد
فرهنگسازی
فرهنگی بر پای جنون و بیماری
میآموزند تا درندگانی پدید آورند برای برپایی جنونی دنبالهدار
اینجا نفس کشیدن هم قدغن است
برنامهی به نام جان قصد دارد تا درباب مباحث مهم باورها و دغدغههای دنیایمان به زبان ساده و بداهه سخن بگوید
این برنامه به صورت هفتگی منتشر خواهد شد
و میتوانید در وبسایت جهان آرمانی و پلتفرمهای پادکستگیر کانال تلگرام یوتیوب و ... به آن دسترسی داشته باشید
برای دریافت و گوش دادن به کامل اثر و دیگر آثار نیما شهسواری میتوانید از صفحات رسمی نیما شهسواری در شبکههای اجتماعی استفاده کنید
دسترسی به آثار نیما شهسواری اعم از کتب و اشعار آثار صوتی و تصویری در
وبسایت جهان آرمانی، یوتیوب، تلگرام، فیسبوک و در برنامههای پادکستگیر اعم از
گوگلپادکست، آمازون موزیک، اپل پادکست، رادیو پابلیک، ناملیک، کستباکس و ...
وبسایت جهان آرمانی
https://idealistic-world.com
صفحات رسمی نیما شهسواری در شبکههای اجتماعی
https://zil.ink/nima_shahsavari
پادکست جهان آرمانی در فضای مجازی
https://zil.ink/Nimashahsavari
پرتال دسترسی به آثار
https://zil.ink/nima.shahsavari
صفحه رسمی اینستاگرام نیما شهسواری
@nima_shahsavarri
#نیماشهسواری
#پادکست
#پادکست_اجتماعی
#پادکست_سیاسی
#پادکست_ایران
#پادکست_فارسی
#به_نام_جان
#ایران_آزاد
#انقلاب_ایران
#زن_زندگی_آزادی
#اسلام
0 notes
Text
بغاوت یا انقلاب
سپریم کورٹ میں تقسیم گہری اور نمایاں ہو گئی ہے۔ اس پر بہت سے لوگ پریشان ہیں اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ دیکھیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کیا حال ہے؟ تاہم میری نظر میں اس تقسیم میں سپریم کورٹ کے لئے، انصاف کے نظام کے لئے اور پاکستان کے لئے بہت بہتری ہو گی۔ دوسروں کو چھوڑیں اب سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن لینے کے اختیار پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ بھی ہوا کہ چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار اور منطق پر بھی سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی اعتراض اٹھا دیا۔ ایک روز قبل تو سپریم کورٹ کے دو جج حضرات نے اس بات پر بھی سوال کیا کہ کس اصول کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے کیس لگائے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ موجودہ نظام شفاف نہیں جس میں کسی کیس کو سماعت کے لئے منتخب کر لیا جاتا ہے اور کسی کو برسوں گزرنے کے باوجود سنا ہی نہیں جاتا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کے سٹاف افسر کی طرف سے موصول ہونے والی چٹ پر دی گئی ہدایت پر مقدمات مختلف بینچوں کے سامنے لگاتے ہیں۔ یہ سن اور دیکھ کر اچھا لگا کہ سپریم کورٹ کے اندر سے ججوں نے آڈیو سکینڈل کی زد میں آنے والے جج صاحب سمیت دو ججوں کا نوے دن میں الیکشن کروانے کے لئے چیف جسٹس کا سوموٹو کیس سننے کے لئے بنائے گئے نو رُکنی بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض اُٹھایا جس کے نتیجے میں وہ بینچ ہی ٹوٹ گیا۔
سپریم کورٹ کو انصاف کے نظام کی بہتری اور اپنی Repute کے لئے اصلاحات اور شفافیت کی بہتر ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بنچ بنانے اور سوموٹو نوٹس لینے کے اپنے اختیار کو ختم کر کے سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو یہ فیصلے کرے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ چیف جسٹس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ سمیت دو سینئر ترین ججوں کو نہ ہی اہم بنچوں میں شامل کیا جاتا ہے نہ ہی اُنہیں اہم نوعیت کے کیس سننے کے لئے دیے جاتے ہیں۔ بظاہر کیس لگانے کا اختیار اگرچہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا ہے لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ زیادہ تر اہم مقدمات کو چیف جسٹس کے حکم پر ہی اُن کی مرضی کے ججوں کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان معاملات کی درستی سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں ہونی چاہئے۔ ایسا نہیں کہ یہ خرابی اب پیدا ہوئی ہے۔ یہ نظام کی خرابی ہے جو پہلے سے چل رہی ہے اور جسے درست کرنے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔ کسی نے ہمیشہ کے لئے کسی عہدے پر نہیں بیٹھے رہنا۔ چیف جسٹس بھی آتے ہیں اور ریٹائر ہو جاتے ہیں۔
اُس چیف جسٹس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جو اپنے اختیارات جن کا غلط استعمال ہوتا رہا، ختم کر کے کیسوں کو مختلف ججوں کے سامنے فکس کرنے، عدالتی بنچ بنانے، سوموٹو نوٹس لینے کے لئے ایک ایسا نظام وضح کرے گا جو شفافیت پر مبنی ہو، انصاف کے نظام میں بہتری کی کوشش ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے نظام پر نظر ثانی کرے تاکہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے ججوں کا معیار جان پہچان اور تعلقات کی بجائے میرٹ ، اعلیٰ کردار اور انصاف پسندی پر ہو۔کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ایک چپراسی کی تعیناتی کے لئے اخباروں میں اشتہار جاری ہوتا ہے، مقابلے کے لئے ایک پالیسی اپنائی جاتی ہے لیکن ہائی کورٹوں کے جج جو بعد میں سپریم کورٹ میں جانے کے اہل بن جاتے ہیں اُن کی تعیناتی کے لئے نہ کوئی اشتہار، نہ کوئی مقابلہ، نہ کوئی ٹیسٹ اور نہ ہی کوئی انٹرویو۔ ان تعیناتیوں کی بنیاد چند افراد کی پسند و ناپسند پر ہوتی ہے۔
اس نظام کو بدلا جائے۔ اسی طرح ملک کی موجودہ معاشی بدحالی کے تناظر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف جسٹس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی مراعات، پروٹوکول اور ریٹائرڈ ججوں کی دس سے پندرہ لاکھ روپے ماہانہ پنشن جیسے معاملات پر نظر ثانی کریں۔ ایک ملک جو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے وہ اپنے ججوں اور اعلیٰ عدلیہ سے توقع رکھتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی مراعات، پروٹوکول اور پنشن میں کمی کریں گے بلکہ دوسرے سرکاری اداروں اور محکموں کے افسروں اور حکمراں طبقے کی قوم کے پیسے پر عیاشیوں پر قدغن لگائیں گے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ثاقب نثار کے اعترافات
پاکستان کے نویں چیف جسٹس شیخ انوارالحق کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ایک ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان نے انہیں ہائیکورٹ کا جج بنایا، دوسرے ڈکٹیٹرجنرل یحییٰ خان نے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا جب کہ تیسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ جالندھر سے تعلق رکھنے والے شیخ انوارالحق نے انڈین سول سروس سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور کئی اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، انتظامیہ سے عدلیہ کی طرف آئے تو کراچی اور لاہور سمیت متعدد اضلاع میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کام کیا۔ جسٹس انوارالحق تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اکانومسٹ تھے مگر عدلیہ کا رُخ کیا تو یہاں بھی اپنی قابلیت کا سکہ منوایا لیکن انہیں تاریخ ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد کرتی ہے جن کے دور میں نہ صرف مارشل لا کی توثیق کی گئی بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت ڈکٹیٹر کو آئین میں من چاہی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس ان کے دامن پر سب سے بدنما داغ ہے، وہ عمر بھر اس حوالے سے وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ جسٹس انوارلحق اپنی کتاب ’’Revolutionnary, Legality in Pakistan‘‘ میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کوآئین سازی یا آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت ضرور دی مگر یہ اجازت صریحاً نظریۂ ضرورت کے تحت دی گئی۔
یہ ایک عبوری بندوبست تھا اور فیصلے کے مطابق عدالتیں نظریہ ٔضرورت کے تحت سی ایم ایل اے کی طرف سے بنائے گئے کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتی تھیں۔ نصرت بھٹو کیس میں جسٹس افضل چیمہ نے اضافی نوٹ لکھ کر نظریۂ ضرورت کے حق میں دلائل دیئے اور لکھا کہDoctrine of Necessity یعنی نظریۂ ضرورت کو اسلامک جیورس پروڈنس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جسٹس انوارالحق کے علاوہ سپریم کورٹ کے اس بنچ میں شامل بیشتر جج صاحبان صفائیاں دیتے رہے یا پھر ندامت کا اظہار کرتے دکھائی دیئے۔ جسٹس دراب پٹیل جن کا شمار باضمیر جج صاحبان میں ہوتا ہے، انہوں نے بھی برملا اس فیصلے پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل اپنی سوانح حیات ’’Testament of a liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلے پر تنقید کی گئی کیونکہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیدیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لا جرنلز شائع نہیں ہوتے جن میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے اور ان پر تنقید کی جائے چنانچہ یہ کام جج صاحبان خود کر سکتے ہیں اور انہیں یہ کرنا چاہئے کہ مخصوص وقت کے بعد اپنے فیصلوں پر تنقید کا جائزہ لیں۔
(نصرت بھٹوکیس) پر ہونے والی تنقید کہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دے دیا، اس کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ تنقید درست ہے۔ نصرت بھٹو کیس کے بعد جنرل ضیا الحق نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے آئین سازی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئین میں آرٹیکل 212A کا اضافہ کر کے اعلیٰ عدالتوں کے پر کاٹ دیئے۔ آرٹیکل 212A کے تحت سپریم کورٹ پر تو کوئی قدغن نہ لگائی گئی البتہ ہائیکورٹس کو فوجی عدالتوں سے متعلق رٹ جاری کرنے سے روک دیا گیا گویا اب ہائیکورٹ کسی فوجی عدالت کی کارروائی روکنے کے لئے حکم جاری نہیں کر سکتی تھی۔ دراب پٹیل اپنی خود نوشت ’’Testament of a Liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آرٹیکل 212A کے نفاذ سے پہلے جنرل ضیا الحق نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوارالحق اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق کو مشاورت کے لئے راولپنڈی بلایا۔ جسٹس انوارالحق ،جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اورمیں، ہم سب پشاور میں تھے۔
مولوی مشتاق کے مطابق انہیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق آئین کو منسوخ کرنیوالے ہیں اس لئے انہوں نے آئین کی منسوخی کے متبادل کے طور پر ایک آئینی مسودہ تیار کر لیا۔ یہ آئینی مسودہ جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا اور چیف جسٹس انوارالحق نے اس کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کیں۔ پھر یہ دونوں چیف جسٹس صاحبان جنرل ضیاالحق سے ملنے گئے جو راولپنڈی میں سینئر جرنیلوں کے ہمراہ ان کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ملاقات بہت کٹھن تھی مگر آخر کار جرنیلوں نے دونوں چیف جسٹس صاحبان کا تیار کردہ مسودہ قبول کر لیا اور آئین کو منسوخ کرنیکا ارادہ ترک کر دیا گیا۔ اس مسودے نے ہی آرٹیکل 212A کی شکل اختیار کی اور سپریم کورٹ کی جیورس ڈکشن کو بچا لیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ اس خوش فہمی کی بنیاد پر دیا گیا کہ اعلیٰ عدالتیں کام کر رہی ہیں ان کے جوڈیشل ریویو کا اختیار باقی ہے مگر پھر خود ہی اپنے ہاتھ قلم کر دیئے گئے۔
یہ سب باتیں یوں یاد آئیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند صحافیوں سے گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ بطور جج ان سے غلط فیصلے ہوئے۔ مگر ان فیصلوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے انہوں نے کہا کہ بعد از مرگ ان کی آپ بیتی شائع ہو گی جس میں یہ تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔ اگر جسٹس دراب پٹیل کے الفاظ مستعار لوں تو پاکستان میں جج صاحبان خود ہی اپنے فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ یادداشتیں اور مشاہدات قلمبند کئے جائیں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی زندگی میں ہی اعتراف کرلیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کس طرح ہوا۔ حال ہی میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح حیات شائع ہوئی۔ بہتر ہو گا کہ ثاقب نثار بھی اپنی زندگی میں ہی یہ کتاب منظر عام پر لے آئیں۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Chief Justice of Pakistan#Pakistan Judiciary#Pakistan Politics#Politics#Supreme Court of Pakistan#World
0 notes
Text
پی ٹی آئی پر پابندی کا مطالبہ غلط ہے
ہنگامہ ہے کیو�� برپا یہ کون نہیں جانتا ؟ کون نہیں جانتا ججوں، جرنیلوں اور چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والا ایک ٹرائیکا وطن عزیز کے ہر اُس گراؤنڈ پر کھیلتا ہے جو اسے اقتدار میں حصہ دلوا دے اور یہ اختیارات کی رسی کو جائز و ناجائز طریقے سے تھامے رکھے۔ اگر گلشن کا کاروبار اوکھے سوکھے چل رہا ہے اور جمہوریت کا دیا ان سب آندھیوں میں جل رہا ہے، تو اس کا صاف مطلب یہ ٹھہرا کہ ابھی کچھ جرنیل، ججز اور سیاست دان ایسے ہیں جو جمہوریت کی بقا اور آئین سے وفا کا دم بھرتے ہیں اور ایسے لوگ خزاں میں بہار کا جھونکا ہیں۔ تاریخ گواہ بےنظیربھٹو کو سیکورٹی رسک اور نواز شریف کو ضیاء زادہ کہنے والوں نے میثاقِ جمہوریت کی خشت اوّل 14 مئی 2006 کو رکھی جس کی بدولت آج 14 مئی 2022 تک لولی لنگڑی سہی مگر آمریت سے پاک جمہوریت اپنی راہ پر ہے بھلے ہی راستہ نشیب و فراز والا ہے اور خاردار جھاڑیوں کے بیچوں بیچ ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں بھی آجاتی ہیں۔ بہرحال سفر جاری ہے، اور آئندہ بھی روانی ہی ہو گی تاہم اس میں تحریک انصاف کو تھوڑی دیر کیلئے کم عمری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بالغ نظری کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا، سیاسی قیادت کی بالغ نظری ججوں اور جرنیلوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اسی لئے تو میثاقِ جمہوریت جنم لیتے ہیں۔
کیا کبھی کسی جوڈیشری یا جرنیلی نے کسی ملک کو حقیقی قیام یا اٹھان دی؟ ججوں اور جرنیلوں کے فیصلے تو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر سیاسی قیادت کو کرنا ہوتے ہیں وہ کوئی بھٹو ہو، شریف یا عمران! مگر افسوس کے اس سیاسی قیادت نے خودی اور پارلیمان ان کے ہاتھوں میں دے دی جنہوں نے کبھی سیاست اور جمہوریت کو پنپنے ہی نہ دیا۔ ارے یہ تو کل بھی عزیز و اقارب کیلئے آپ سے ٹکٹوں کے متلاشی تھے اور آج بھی۔ یہ کل بھی ریٹائر ہوئے تھے اور آج بھی ریٹائر ہو کر سیاسی قیادت کے پیچھے پیچھے ہوں گے: تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا سیاسی رہنمائوں سے استدعا ہے کہ اپنی اہمیت، اہلیت اور استطاعت کو خوردبین اور دوربین سے دیکھئے مگر دیکھنے سے قبل تعصب کی عینک اتارنا ضروری ہے کائنات میں کتنے ججوں اور جرنیلوں کی مسیحائی، پیش کردہ و منظور کردہ اصلاحات، جمہوریت پسندی یا آئین سازی کا چرچا ہے؟ جتنے بھی آمروں نے دربار چھینے یا سجائے ان میں سے کتنے ہیں جن کے دربار پر ذوالفقار علی بھٹو کے مزار سا چراغاں اور دل کی دھڑکنوں کے نذرانے ہیں؟
یہ بات تو اب عمران خان کو بھی سیکھ لینی چاہئے۔ کب تک لاڈلوں کی سی ضروریات کی مخصوص لوگ بغض معاویہ میں آبیاری کرتے رہیں گے ؟ خان صاحب، اب آپ کو کون بتائے کہ آپ وزیراعظم سے بھی بڑے ہو گئے؟ چڑھانے والے کب اتارنے والے بن جائیں اور کیسے پتہ چلے آپ کو جناب ؟ اتنی مقبولیت کے باوجود بار بار آپ کو مخصوص سے انصاف کی بھیک مانگنی پڑتی ہے جو آپ کے عوام کو تو انصاف دیتے نہیں! درج بالا بات ابھی جاری ہے، از راہ کرم، ایک ہلکی پھلکی بات سن لیجئے! کچھ کہیں گے یہ اتنی بڑی بات میں چھوٹی سی بات کہاں گھسیٹ لائے لیکن یہ بات یتیم خانے کی سہی مگر یتیم بھی تو انسان ہیں۔ ان بڑی بڑی عدالتوں میں عوام، تعلیم اور صحت سے انصاف کا وقت تو نہیں نکلتا، جھوٹی سچی تاریخ ڈال بھی دیں تو بات سننے یا سمجھنے کے بجائے ایک ہی کیس کے دس دس وکلاء اور بیس بیس سائلین کو لمحے میں ’’پھر کبھی آئیے گا‘‘ کا کہہ کر بھول جاتے ہیں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی جو بلاوجہ اور بلا ضرورت، تقرری کا عمل ہو جانے کے باوجود کسی ایک کی خواہش کی بدولت بغیر کسی مستقل سربراہ کے چلے اور جلے جا رہی ہے، ایک عنایت کیجئے اقبال کی اقبالیات اتار کر نام محض اوپن یونیورسٹی ہی کر دیجئے!
پچھلے دنوں جو جناح ہاؤس کوئٹہ سے لاہور کور کمانڈر ہاؤس تک ہوا، کراچی سے راولپنڈی کے حساس مقامات پر ہوا۔ ان حملہ آوروں اور ان کو ورغلانے والوں کی آڈیوز اور وڈیوز شناخت کر لیجئے گا کہ کس کا کیا کیا سیاسی ماضی تھا، کس قدر جمہوریت پسند اور ذہین فطین ہیں، اور کیا مستقبل ہو گا، پھر فتویٰ دیجئے گا کہ معاملہ محبت کا ہے یا جہالت اور کم فہمی کا ؟ ہمیں یہ ادراک ہے ایم کیو ایم کی قدغن اور حدود کیا تھیں اور تحریک انصاف کی وسعتیں کیا ہیں، یہ بھی معلوم ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کیا ہے؟ پی ٹی آئی کو خود کچھ پی ٹی آئی والے ٹی ایل پی بنانا چاہیں تو کوئی کیا کرے؟ کسی طرح بھی سہی، آخر، جی ایم سید اور باچا خان پر پابندیاں بھی ہوا میں تحلیل ہوئی تھیں۔ فقیر تو جماعت الدعوۃ پر پابندی کو بھی غریب مار سمجھتا ہے۔ غلط صرف وہ ہیں جو ��حریک طالبان پاکستان کو دامن گیر رکھتے ہوئے پابندی کو پابندی نہیں سمجھتے۔ راقم مولانا فضل الرحمٰن سے اتفاق نہیں کرتا کہ تحریک انصاف پر پابندی لگنی چاہئے، خاکسار کو معلوم ہے مولانا ایک سیاسی قیادت ہیں اور جمہوریت چاہتے ہیں انہوں نے بھی تنگ آکر عادلوں کو احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ عدل کیجئے، مولانا ! عدل کے میرٹ کا حصول چاہنے کیلئے بھی ایک مثالی میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے، جاناں!
تنگ نظر گر اجازت دیں تو، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو خراج تحسین پیش کر لوں کہ ان کی بالغ نظری بھی کہتی ہے سیاسی جماعتوں پر پابندی نہیں! تاہم ہماری درخواست ہے کم از کم سیاسی جماعتیں بھی تو اپنے آپ پر کوئی جمہوری پابندی لگا لیں اور پیاری تحریک انصاف نفرتوں کے پھیلاؤ اور جلاؤ گھیراؤ کی ٹی20 گیم ترک کر دے۔ بہرحال سیاسی بلوغت کو تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ زیب نہیں دیتا!
نعیم مسعود
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Imran Khan#Pakistan#Pakistan Army#Pakistan establishment#Pakistan Judiciary#Pakistan Politics#Politics#PTI#World
0 notes
Text
معاشی و توانائی بحران کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا
معاشی و توانائی بحران کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا
کراچی: بجلی گیس کے بحران، درآمدات پر قدغن، بلند پیداواری لاگت اور سرمائے کی قلت کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ گیا۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کو ارسال کردہ ہنگامی مکتوب میں انڈسٹری کی نمائندہ انجمن نے حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ سپلائی چین میں تعطل، سرمائے اور توانائی کی قلت ، خام مال ، پلانٹ مشینری، پرزہ جات کی درآمدات میں مشکلات نے…
View On WordPress
0 notes
Text
مراسم در روف گاردن هتل ونک با بهترین پروتکلهای بهداشتی
مراسم در روف گاردن هتل ونک با بهترین پروتکلهای بهداشتی
برگزاری بهداشتی ترین مراسم در روف گاردن هتل آپارتمان ونک قطعا در این برهه ی زمانی تلخ و دشوار که بیماری مرگبار کرونا بر دنیای ما سایه گسترانیده و هر لحظه نیز شاهد شیوع بیش از پیش آن هستیم، به شدت توصیه میشود که از میهمانی های مختلف و دورهمی ها پرهیز شود. همینطور حضور در اماکن عمومی از جمله رستوران ها و کافی شاپ ها قدغن اعلام شود. چرا که با توجه به راههای انتقال گوناگون این بیماری در جامعه، حضور…
View On WordPress
1 note
·
View note
Text
"رائے کو طاقت سے نہ دبائیے! کسی سے بھی اختلاف ہو توزور زبردستی کرنے کے بجائےدلیل سے بات کیجیے کیونکہ زور زبردستی سے حاصل کی گئی فتح غیر حقیقی اورفریبی ہوتی ہے۔"
"کسی بھی چیز کے بارے میں مکمل طور پر یقینی رویہ مت اپنائیے۔"
"سارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ احمق اور بے وقوف اپنی انتہا پسندی اور شدت پسندی پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں۔"
"خوف پر قابو پانا علم کے آغاز کی علامت ہے۔"
اگر پچاس لاکھ لوگ ایک جھوٹ کو سچ کہیں تب بھی وہ جھوٹ ہی رہے گا۔"
"اپنی رائے کے منفرد اور خارج المرکز ہونے سے نہ ڈرئیے کیونکہ آج قبول کردہ
ہر اک رائے کبھی منفرد اور خارج ازامکان ہوا کرتی تھی۔"
"اگر تعلیم ہمیں سیکھنے کی آزادی مہیا نہیں کرتی کہ کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں، ساتھ ہی ہمارے اظہار رائے پر قدغن لگاتی ہے تو ایسی تعلیم ہمارے کسی کام کی نہیں۔
"لطف حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اچھی کتابیں پڑھیں، فلسفہ پڑھیں، شاعری پڑھیں اور موسیقی سنیں."
برٹرینڈ رسل
#bartrendro
1 note
·
View note
Text
اسرائیل میں حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے، عدالتی اصلاحات ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ سماعت کا اعلان
عدالتی اختیارات محدود کرنے کے ایکٹ پر اسرائیل کی سپریم کورٹ اور مذہبی قوم پرست حکومتی اتحاد آمنے سامنے آگیا۔ اسرائیل کی سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کے بنائے گئے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کریں گے۔ اسرائیلی حکومت کا عدالتی اصلاحات کا قانون حکومت اور وزرا کے کچھ فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کے اختیار پر قدغن لگاتا ہے۔ عدالت کے ایک ترجمان نے کہا کہ سپریم…
View On WordPress
0 notes
Text
مشہور ٹی وی سیریز کے ذریعے انسیسٹ کی پزیرائی
یوں تو قتل و غارت اور دیو مالائی داستانوں پر بہت سی فلمیں اور ڈرامے بنے ہیں جن میں جہاں ایک طرف تشدد ہوتا ہے تو دوسری طرف زنا کی رنگینیاں بھی لیکن مشہور امریکی ٹی وی سیریل گیمز آف تھرونز نے مقبولیت کے سب ریکارڈ توڑ دیے.. فلم اعر ٹی وی کے نقادوں کے مطابق جس بات نے اس سیریز کو منفرد بنایا ہے وہ بغیر کسی اخلاقی قدغن کے محرم رشتوں میں زنا کو خوبصورتی سے فلمانا ہے... زنا کسی بھی امریکی فلم یا ڈرامے کا ایک لازمی عنصر رہا ہے لیکن انسیسٹ کو جس طرح اس سیریز میں دکھایا گیا ہے وہ لوگوں میں خاص کر ٹین ایجرز میں بہت پسند کیا جا رہا ہے... سیریز میں جہاں بھائی اپنی سگی بہن کی چوت میں لن ڈال رہا ہے وہیں بیٹیاں اپنے ہی باپ کے لن کی منی اپنی چوت کی گہرائیوں میں لے کر حاملہ ہو رہی ہیں .. کہیں بہن بھائی زنا سے بچے پیدا کر رہے ہیں تا کہ بلڈ لائن خالص رہے تو کہیں باپ نابالغ بچیوں کو بچپن سے لن اور چوت کے کھیل میں لگا رہا ہے.
..ماہرین کے مطابق انسیسٹ یعنی زناے محرم کے بارے میں جتنی زیادہ قبولیت اس ڈرامے سے آئ ہے ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی.. پہلے انسیسٹ کو ایک taboo سمجھا جاتا تھا لیکن اس ڈرامے کے مسلسل سات سیزیز میں خونی رشتوں میں زنا اور حمل کو ایسے انداز میں دکھایا گیا کہ لوگوں کے نزدیک اب انسیسٹ اخلاقی لحاظ سے کوئی گناہ نہیں رہا. خاص کر ٹین ایجرز بہن بھائیوں کے درمیان زنا کے واقعات نہ صرف بہت بڑھ گئے ہیں بلکہ والدین بھی ان کے اس جسمانی تعلق پر کوئی ردعمل نہیں دکھا رہے.
ہندوستان میں ایک ایسی ہی گیم آف تھرونز پارٹی جو سکول کے بچوں نے ایک گھر میں رکھی تھی اور والدین کو کہا تھا کہ صرف ان کے دوست بہن بھائی شریک ہو رہے ہیں. رات گئے جب والدین کو کچھ گڑبڑ محسوس ہوی تو دیکھا کہ پارٹی میں شریک سب بہن بھائی گیم آف تھرونز کے کرداروں میں ایک دوسرے کے ساتھ زنا کر رہے تھے..
اسی طرح مختلف واقعات میں بہن بھائیوں کے درمیان تعلقات پر شک پر جب والدین نے خفیہ کیمرے سے ان کی نگرانی کی تو پتہ چلا کہ وہ زنا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں.
ماہرین کے مطابق سامنے آنے والے واقعات tip of iceberg ہیں کیونکہ باہمی رضا مندی سے انسیسٹ اکثر سامنے نہیں لایا جاتا.. خاص کر باپ بیٹی یا جس میں پورا گھر ایک دوسرے سے زنا کر رہا ہو وہ سامنے نہیں آتے.. ماہرینِ نفسیات کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ بہن بھائی ماں بیٹے اور باپ بیٹی کے زنا کو ممنوعہ سمجھنا چھوڑ کر ہم جنس پرستی کی طرح اس کو باقاعدہ رشتہ سمجھنا چاہیے.
349 notes
·
View notes
Text
نہ جسم میرا‘ نہ میری مرضی
'میرا جسم میری مرضی‘ کے سلوگن نے ایک بخار سا چڑھایا ہوا ہے جبکہ دنیا بھر میں اس وقت جان لیوا وبائی مرض کورونا وائرس کا خوف طاری ہے اور یہ وائرس اب تک اسّی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ چین‘ ایران‘ کوریا اور اٹلی سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ امریکہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر بے شمار ترقی پذیر ممالک بھی اس قاتل وائرس سے محفوظ نہیں ہیں۔ دنیا بھر کی سٹاک ایکس چینجز مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ سعودی عرب حکومت نے غیرملکیوں کے بعد اب اپنے مقامی شہریوں کے لیے بھی عمرہ جیسی عبادت پابندی عائد کر دی ہے۔ امسال حج کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان سمیت اکثر ممالک نے اپنی زمینی اور فضائی سرحدوں کو سِیز کر دیا ہے اور ملک میں داخل ہونے والے شہریوں کو الگ تھلگ رکھنے کیلئے آئسولیشن سٹی بسائے جا رہے ہیں تاکہ کوئی متاثرہ شخص شہر میں داخل نہ ہونے پائے۔
خوف کا عالم یہ ہے کہ وائرس میں مبتلا ایک متاثرہ شہری حیدرآباد ہسپتال سے فرار ہو گیا�� جس کے بعد پانچ اضلاع کی انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئیں اور مفرور مریض کو تلاش کرنے کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر جیو فینسنگ سے یہ پتا چلایا گیا کہ وہ مریض سانگھڑ میں روپوش ہے۔ بہت سے ممالک اپنے اعدادوشمار چھپا رہے ہیں تاکہ وہ پابندیوں سے محفوظ رہ سکیں اور ان کے ہاں معاشی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق کورونا وائرس کا بیس کیمپ چین ہی ہے اور یہیں سے پھر یہ دوسرے ملکوں میں متاثرہ انسانوں کے ذریعے پہنچا اور یہ بھی کہ یہ وائرس ایسے جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہوا‘ جو دین اسلام میں حرام ہیں اور ان کو کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مسلم ممالک کے نامور سکالرز میدان میں اترتے‘ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو فروغ دیتے اور اسلامو فوبیا کو پھیلانے والے عناصر میں عقل و دانش کے ذریعے دین اسلام میں حلال و حرام کے تصور کو اجاگر کرتے۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے جو حفاظتی تدابیر اور طور طریقے بتائے جا رہے ہیں‘ وہ تو دین اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ صفائی کو ہمارے دین میں نصف ایمان کہا گیا ہے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے عوامی شعور پیدا کیا جا رہا ہے کہ چھینک آئے تو منہ پر ہاتھ رکھا جائے اور چھینک منہ ایک طرف کر کے ماری جائے تاکہ کوئی دوسرا شخص اس سے متاثر نہ ہو۔ اسلامی تعلیمات میں بھی چھینک مارنے کے علاوہ جمائی لیتے وقت بھی ہاتھ منہ پر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس کے بعد اپنے ہاتھ صاف کرنے کا بھی درس دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس سے بچنے کیلئے دوسری حفاظتی تدبیر کے طور پر بتایا جا رہا ہے کہ اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوتے رہیں تاکہ وائرس ہاتھوں کے ذریعے منہ کے راستے آپ کے جسم میں داخل نہ ہو سکے۔ دینِ اسلام میں پانچ نمازیں فرض ہیں اور نوافل کی ادائیگی پر کوئی قدغن نہیں، صرف طلوع اور غروب کے وقت سجدوں سے منع کیا گیا ہے۔
نماز کی ادائیگی کیلئے وضو کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ خود اندازہ لگا لیجئے کہ دینِ اسلام پر عمل پیرا ایک مسلمان دن میں کم از کم پانچ بار اپنے ہاتھ منہ بازو اور پاؤں تک کو دھوتا ہے اور مزید یہ کہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں بھی ہاتھ دھونے اور کُلی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ طہارت کے بعد بھی اپنے آپ کو پاک صاف رکھنے کی تعلیمات اسلام میں موجود ہیں‘ غرض یہ کہ اسلامی تعلیمات میں روحانی و جسمانی صفائی کی خاص ہدایات ہیں۔ اکثر مسلمان اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور دین اسلام کا پیروکار کم و بیش دن میں دس سے پندرہ بار اپنے ہاتھ منہ کو صاف کرتا ہے۔ اسی طرح مسواک یا ٹوتھ برش کی بھی تعلیمات موجود ہیں۔ جبکہ وبائی مرض پھیلنے کی صورت میں رحمت العالمین آخری پیغمبرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ متاثرہ علاقے میں نہ کوئی داخل ہو اور نہ ہی کوئی متاثرہ علاقے سے نکلے جب تک کہ وبائی مرض پر قابو نہ پا لیا جائے۔
اب ذرا ایک جائزہ لیں تو کورونا وائرس کے پھیلنے کی وجوہ سے لے کر اس سے بچنے تک کیلئے عالمی ادارہ صحت نے جو ہدایات جاری کی ہیں‘ کیا ان تمام اقدامات کی تعلیمات دین اسلام کا لازمی جزو نہیں ہیں؟ جواب سو فیصد اثبات میں ہے۔ تو پھر دنیا بھر میں پھیلے ہمارے تمام مسلم سکالرز اور دانشور اس نازک موقع پر اپنا فرض ادا کیوں نہیں کر رہے؟ اور اقوام عالم کو دین اسلام کی حقانیت سے آگاہ کیوں نہیں کر رہے لیکن بالعموم دین کی پوری تعلیمات اپنے علما بھی عام لوگوں کے سامنے پیش نہیں کرتے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کیلئے آخری الہامی کتاب قرآن مجید اتاری گئی جو پندرہ صدیوں کے بعد بھی اصلی حالت میں ہمارے پاس موجود ہے اور قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لی ہے۔
پہلی سورہ فاتحہ کی پہلی آیت 'الحمدللّٰہ رب العالمین‘ سے لے کر آخری سورہ‘ سورۃ الناس کی آخری آیت 'مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ‘ تک قرآن پاک پوری کائنات سے مخاطب ہے اور سب کو ایک ضابطہ حیات دیتا ہے۔ قرآن پاک کی عملی تفسیر آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور حیات مبارکہ ہے۔ سونے جاگنے سے لے کر شب و روز کے معمولات تک زندگی کیسے گزارنی ہے‘ قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے۔ کاروبار کی کیا اخلاقیات ہیں؟ ناپ تول کیسے کرنا ہے؟ یتیموں‘ مساکین، بے سہارا لوگوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے‘ رشتے داروں ہمسایوں کے حقوق کیا ہیں؟ سورہ ماعون میں تو یہاں تک بتایا گیا کہ ہلاکت ہے ایسے لوگوں کیلئے جو یتیموں کو دھکے دیتے ہیں جو مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے جو ریاکار ہیں جو عام استعمال کی چیزیں دوسرے بھائیوں کو دینے میں بخیلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایسے نمازیوں کو بھی متنبہ کیا گیا جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ رشتوں کی حرمت، بچوں کے حقوق، بڑوں کے فرائض‘ شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض اور وراثت میں خواتین بیوگان‘ ماں بیٹیوں کا حصہ تک مقرر کیا گیا ہے۔ ماں‘ بیٹی اور بیوی کے لیے تو شوہر اور والدین‘ دونوں کی طرف سے جائیداد میں حصے کا تعین بڑا واضح کر دیا گیا ہے۔ جانوروں کے حقوق‘ ہمسایوں کے حقوق گویا ایک ایک حق کی وضاحت کر دی گئی اور جو ان حکامات کی خلاف ورزی کریں گے‘ ان کیلئے دردناک عذاب کی خبر سنائی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق‘ ان کے رشتوں کی حرمت و تقدس کے بارے میں خاص احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ باپ‘ شوہر‘ بھائی‘ بیٹے کے پورے کرنے کے بارے میں بڑی فصاحت کے ساتھ حکم صادر کیا گیا ہے۔
خواتین کی عصمت‘ شرم و حیا کی حفاظت کیلئے بھی واضح تلقین اور قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں۔ خواتین کے ہر رشتے کو ایک پاکباز اعلیٰ و ارفع مقام دیا گیا ہے‘ پیدائش سے لے کر لحد میں اتر جانے تک ایک مکمل ضابطہ حیات دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کو عوام کا خادم کہہ کر ان کو فرائض کے بوجھ تلے دیا گیا ہے کہ وہ عوام کی خدمت پر مامور ہیں نہ کہ رعونت اور تکبر کیلئے۔ خالق کائنات نے انسان سمیت ہر چیز کو ایک قاعدے قانون کے تحت تخلیق کیا ہے اور قواعد و ضوابط کا پابند بنایا ہے‘ جس کے تحت اسے زندگی گزارنا ہے۔ اسے محدود اختیار دیا گیا ہے تاکہ کائنات کا نظم و نسق ایک ڈسپلن کے تحت چلے نہ کہ مادر پدر آزادی کے ذریعے کوئی بھی انسان معاشرے کو تہ و بالا کر دے۔ اس لئے ہر انسان اور ریاست کا ہر شہری ��یک قانون ضابطے کا پابند ہے۔ وہ اپنی سوچ، اپنی خواہشات کی تکمیل، اپنے فیصلے کرنے میں مادر پدر آزاد ہرگز نہیں۔ اس کا جسم‘ اس کی روح‘ اس کی سوچ‘ اس کے حواس خمسہ خالق کے عطا کردہ ہیں‘ نہ میرا جسم اپنا ہے نہ میری مرضی لا محدود ہے‘ اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود کشی کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ زندگی دینے زندگی گزارنے اور زندگی واپس لینے کا اختیار بھی خالق کائنات نے اپنے پاس ہی رکھا ہے۔
صابر شاکر
بشکریہ دنیا نیوز
2 notes
·
View notes
Text
آئین سے انحراف کی سزا کون بھگتے گا؟
1973 ء کا آئین پاکستان کی سالمیت اور بقا کا ضامن ہے۔ اس آئین کی تشکیل میں پاکستانی قوم نے اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی دستاویز ترتیب دی جس کی بنیاد پر پاکستان کی چاروں اکائیاں متحد ہیں۔ آئین پامال کرنے کی داستان بہت طویل ہے۔ پاکستان میں بالادست طبقے نے جب بھی دستور کی بے حرمتی کی اس کے سنگین نتائج پوری قوم نے بھگتے۔ آج پاکستان کا ہر ذی شعور شخص اس بات سے خوفزدہ ہے کہ موجودہ حالات کا انجام کیا ہو گا۔ آج، سیاسی اور دستوری روایات منہدم کی جا رہی ہیں، اندھی طاقت کے زعم میں مبتلا حکمراں طبقہ، اپنے موقف کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے درپے ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زبان و بیان پر اتنی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ مقبول سیاسی قائدین کی سرگرمیوں کی کوریج مشکل بنا دی گئی ہے۔ سرکاری چینل کیا اور نجی ذرائع ابلاغ کیا، سب پیمرا کی غیر آئینی ہدایات کی چھری تلے، ذبح ہو رہے ہیں۔ جرات اس قدر بڑھ گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود انتخابات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ جسارت کا یہ عالم ہے کوئی قاعدہ خاطر میں نہیں لایا جا رہا۔ مختلف سیاسی موقف رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔اور انہیں دیوار سے لگانے کیلئے ہر قسم کا حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ پورے ملک میں خوف و ہراس کا عالم ہے۔
قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنے والے پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔ 11 جماعتی حکومتی اتحاد اس وقت ہر قسم کی سیاسی مصلحتوں اور دستوری تقاضوں کو پس پشت ڈال کر محض طاقت کے زور پر اپنے مخالفین کی آواز دبانے میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ کھلے عام کہتے ہیں کہ’’ ہم رہیں گے یا ہمارے مخالفین‘‘۔ اس نوعیت کے بیانات سے تو یہی عیاں ہوتا ہے کہ شکست کے خوف سے حکمراں اتحاد حواس کھو رہا ہے۔پاکستان کا دستور، یہاں رہنے والے ہر شہری کے بنیادی حقوق کا محافظ ہے۔ اس دستور کے تحت ہر شہری کو انفرادی اور اجتماعی آزادی حاصل ہے۔ اس متفقہ دستور میں تمام اصول و ضوابط طے کر دیے گئے ہیں۔ انتخابات کے انعقاد سے لے کر حکومت سازی تک تمام جزئیات باریک بینی سے بیان کر دی گئی ہیں۔ آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے لیکن سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود پاکستان میں انتخابات کا انعقاد ناممکن بنا دیا گیا۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ماضی میں جب بھی دستور سے انحراف کیا گیا اس کے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ 1971 میں جب عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا۔ 1977 میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اس کا خمیازہ آج تک بھگتا جا رہا ہے، ماضی میں ہماری عدالتوں نے آئین شکنی کو نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم کی۔ کئی کئی سال انتخابات التوا کا شکار ہوتے رہے اس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی قیادت کا بحران پیدا ہوا، جس کا خمیازہ آج ہم بطور قوم اجتماعی طور پر بھگت رہے ہیں۔ 1950 کی دہائی میں اگر آئین شکنی کو نظریہ ضرورت کا جواز نہ بخشا جاتا اور آئین توڑنے والوں کو کڑی سزا دی جاتی تو آج ملک سیاسی بحران کا شکار نہ ہوتا۔ پاکستان کے دستور سے انحراف کرتے ہوئے حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی کے انتخابات ملتوی کئے، 1973 کے آئین میں دی گئی شخصی آزادیوں پر قدغن عائد کی، سیاسی کارکنان کو بلاجواز جیلوں میں بند رکھا گیا، حکومت مخالف جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، لیکن ان سب کے باوجود عوام نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصادم سے گریز کیا اور مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں اکٹھا ہو کر اپنی اجتماعی دانش کا ثبوت دیا۔
پاکستان کے اقتدار پر قابض گروہ اس وقت ہر قسم کی آئینی قانونی اور اخلاقی حمایت سے محروم ہے، اور اسے خود احساس ہے کہ نہ اس کے اقدامات کی کوئی دستوری حیثیت ہے اور نہ ہی عوام انہیں قبول کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود دستور کی خلاف ورزیوں پر اصرار کرنا ریاست کیلئے اچھا شگون نہیں۔ بدقسمتی سے تمام ادارے متنازع ہو چکے ہیں قوم ایک مرتبہ پھر 1973 کے آئین کی طرف دیکھ رہی ہے، جسے موجودہ حکمراں اتحاد نے گویا غلاف میں لپیٹ کر کسی طاق پر رکھ دیا ہے لیکن اگر پاکستان بچانا ہے تو ہمیں دستور کی کتاب کھولنا پڑے گی۔ اگر پاکستان کی بنیادیں مضبوط کرنی ہیں تو دستورِ پاکستان کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ انفرادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانےکیلئے ہمیں آئین سے رہنمائی لینا پڑے گی۔ ورنہ انتقام پر انتقام کی سیاست نہ صرف ملک کی چولیں ہلا دے گی بلکہ معاشرے میں انارکی پھیلے گی۔ موجودہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے اس وقت نچلی سطح پر شدید اضطراب کی کیفیت ہے۔ مہنگائی سے مارے عوام آئین کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا شکار ہیں اس سے پہلے کہ یہ لاوا پھٹ پڑے اور کسی بھی سیاستدان اور ��یاسی جماعت کے قابو میں نہ رہے اب بھی وقت ہے کہ دستور پر عمل کیا جائے، آئین پر عمل کرتے ہوئے قومی انتخابات کا اعلان کیا جائے عوام کو حق دیا جائے وہ اپنی مرضی کی جماعت کو ووٹ دیں، عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے عوام کی منتخب حکومت کو اقتدار دیا جائے تاکہ ملک کو اس دلدل سے نکالا جاسکے۔ پاکستان اب مزید کسی دستوری کھلواڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Video
وقتی برای نخستین بار “جمعه” را شنیدی، کجا بودی؟ “قصه دو ماهی” قصه چند سالگی تو بود؟ “هفته خاکستری” را کدامین روز ورق زدی؟ چگونه از “بوی خوب گندم” ��ست شدی؟ حرف، نفس، هجرت، کودکانه، همیشه غایب، نفرین نامه، قدغن، بی بی آبی و … را در خلوت کدام شب نفس کشیدی؟… برای تو از همه خواهم گفت. روایت کامل: خطاهای حافظه در چاپ اول، اینجا، برطرف شدهاند! هر دو تاریخ خورشیدی و میلادی پای ترانهها آمده است. پر از تصویر و یادداشتهای تازه است. کتاب با وسواس غلطگیری شده است. این روایت کامل «دریا در من» است که کمترین شباهتی به چاپ ایران ندارد. پیش از این گفتم که آنچه در خانه منتشر شده است، «حوض در من» است! روایت جاهل: در همهی این سالها از آنان که ترانههای مرا دوست میدارند خواستهام که آن نسخهی وحشتناک را نخرند. نسخهیی که دستپخت سیاهکاران است. وگرنه چهگونه میشود ناشر کتاب، تاریخ تولد جعلی برای شاعرش دستوپا کند، تا مثلاً نزدیک به یک دهه، پیرتر نشاناش دهد که: ببینید جوانان! شاعر شما، پیر شده است! و هنوز و همچنان: – شعر خوردن. شعر نوشیدن. شعر بوییدن. شعر گریستن. شعر خندیدن. شعر خوابیدن و شعر نفس کشیدن، تنها کسب و کار من است. استاد شهیار قنبری @shahyarghanbari (در Mashhad, Iran) https://www.instagram.com/p/B8AsxEYHC6k/?igshid=10g58yktokpk4
2 notes
·
View notes