Tumgik
#عالمی وبا
alkamunia · 1 month
Text
افریقہ میں منکی پوکس وبا؛ عالمی سطح پر ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کیوں کیا گیا؟
http://dlvr.it/TBy3dH
0 notes
risingpakistan · 11 months
Text
اقتصادی ترقی : چین سے کیا سیکھیں؟
Tumblr media
عوامی جمہوریہ چین کے 74ویں یوم تاسیس پر جہاں پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور اہم شخصیات دونوں ممالک کی لازوال دوستی کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہیں ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے چین آج دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور بن چکا ہے اور ہم دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ چین نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران غیر معمولی اقتصادی ترقی کا تجربہ کیا ہے، جس سے وہ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک ماڈل بن گیا ہے۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں نظریاتی اختلافات کے باوجود چین سے تعلقات کے معاملے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح چین نے بھی ہر مشکل وقت میں پاکستان کی بھرپور مدد کی ہے۔ چین نے پاکستان کے ساتھ سی پیک کا منصوبہ بھی اسی لئے شروع کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کیلئے معاشی تعلقات میں اضافہ کیا جائے۔ 
64 ارب ڈالر کی لاگت سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر سنکیانگ کو گوادر سے سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائن کے ذریعے کارگو، تیل اور گیس کی ترسیل کیلئے ملایا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پانے اور لوڈشیڈنگ کے جن کو بوتل میں بند کرنے کیلئے متعدد بجلی گھر بھی کام شروع کر چکے ہیں جبکہ کچھ دیگر منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔ صنعتی تعاون کے اس منصوبے کا سب سے اہم حصہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بننے والے نو خصوصی ترجیحی اکنامک زونز ہیں جہاں پر چینی کمپنیوں نے صنعتیں لگا کر پاکستان میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور روزگار فراہم کرنا ہے۔ ان میں سے چار اکنامک زونز کو فاسٹ ٹریک پر مکمل کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے تحت پنجاب کا واحد اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی فیصل آباد میں بنایا جا رہا ہے جس کا 35 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ رشاکائی اسپیشل اکنامک زون خیبر پختونخواپر 30 فیصد، بوستان اسپیشل اکنامک زون بلوچستان پر 20 فیصد اور دھابیجی اسپیشل اکنامک زون سندھ پر پانچ فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے۔ 
Tumblr media
اس سلسلے میں طے شدہ اہداف کے مطابق تمام اکنامک زونز 2020ء تک مکمل ہونے تھے تاہم کورونا کی وبا کے باعث ان کی تکمیل تاخیر کا شکار ہوئی لیکن اب یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ اکنامک زونز جلد سے جلد مکمل ہو جائیں گے جس سے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ چین کے سرمایہ کار پاکستان کی ترقی اور دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے حوالے سے جو اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کا بطور چیئرمین فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (فیڈمک) میں خود مشاہدہ کر چکا ہوں۔ فیڈمک کے زیر انتظام بننے والے سی پیک کے سب سے بڑے ترجیحی اسپیشل اکنامک زون علامہ اقبال انڈسٹری سٹی کا سنگ بنیاد جنوری 2020ء میں رکھا گیا تھا۔ اس اکنامک زون میں چین کی 150سے زائد کمپنیاں اور سرمایہ کار تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں فیڈمک کی طرف سے سرمایہ کاروں کو دس سال کی ٹیکس چھوٹ بھی دی گئی ہے جس کی وجہ سے اس اکنامک زون میں بعض صنعتی یونٹس کی جانب سے پروڈکشن یونٹس لگا کر پیداوار بھی شروع کر دی گئی ہے۔ چینی سرمایہ کار اس اکنامک زون سمیت ملک بھر میں ترقیاتی منصوبوں میں ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
چین سے صنعتی تعاون کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے بھی چین کی پیروی کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ چین نے 40 سال کی مدت میں 80 کروڑ چینی عوام کو غربت سے نجات دلا کر انسانی تاریخ کا منفرد کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین نے پاکستان سے دو سال بعد آزادی حاصل کی تھی اور اس وقت ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی کا یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی فوجی اور اقتصادی قوت ہے۔ اس لئے اگر ہم بھی چینی تعاون سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلیں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان نہ صرف غربت سے نجات حاصل کر سکتا ہے بلکہ صنعتی ترقی کی حقیقی منزل سے بھی ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ چین تخفیف غربت کیلئے پاکستان سے تعاون کر رہا ہے اور اس سلسلہ میں دونوں ممالک کے مابین مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہو چکے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان غربت کے خاتمے کیلئے چین کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ اسی طرح پاکستان کو چین کے ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے تعلیم اور افرادی قوت کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ 
ملک میں بہتر ہنرمند افرادی قوت پیدا کرنے کیلئے ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ پاکستان کو ایک ترقی پذیر ملک سے جدید معیشت بنایا جا سکے۔ چینی ماڈل کے مطابق ہمارے لئے دوسرا اہم قومی ہدف گرین انرجی اور پائیدار ترقی کا فروغ ہونا چاہیے۔ ملک میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے، آلودگی کم کرنے اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ہم چین کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے حقیقی معنوں میں عالم اسلام اور اقوام عالم کا ایک اہم رکن بننا ہے تو یہ ہدف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ٹیکنالوجی میں ترقی کے ذریعے ہی چین نے ای کامرس، ٹیلی کمیونیکیشن اور مینوفیکچرنگ سمیت مختلف شعبوں کو فروغ دیا ہے۔
کاشف اشفاق
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
موبائل فون کی وہ ایپس جن سے آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں
Tumblr media
موسم خزاں شروع ہونے کو ہے۔ اس دوران بعض لوگ وقت گزاری کے لیے مختلف ویڈیو گیمز کا سہارا لیتے ہیں جبکہ کچھ تفریح کی غرض سے سوشل میڈیا پر توجہ دیتے ہیں۔ اگر آپ معلومات میں اضافے کے خواہاں ہیں تو کیوں نہیں ایسے موضوعات کا انتخاب کریں جو آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات فراہم کر دیں جس سے روزگار اور دفتری امور میں سہولت ہو۔ الشرق الاوسط میں اس سلسلے میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
سمارٹ فون ایک استاد ذیل میں بعض ایسی ایپلی کیشنز کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی ہیں جن سے آپ بہتر طور پر استفادہ کر سکتے ہیں۔
نئی زبان کی تعلیم ماضی قریب میں ایسی بے شمار سمارٹ فونز اپیلی کیشنز متعارف ہوئی ہیں جن کے ذریعے آپ مختلف زبانوں کی تعلیم بآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان ایپلی کیشنز کا استعمال کورونا وائرس کی وبا کے دوران بہت زیادہ ہو گیا تھا جب ’گھر سے کام‘ کرنے کی نوبت آئی تھی۔ یہ درست ہے کہ مختلف زبانوں کے ترجمہ کے لیے گوگل اور ایپل کی اپنی ایپلی کیشنز موجود ہیں جن سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے تاہم بعض لوگوں نے ورک فرام ہوم کے دوران دوسری زبانیں سیکھنے میں خصوصی دلچسپی لی۔ مختلف زبانوں کو سیکھنے کے لیے متعدد ایپلی کیشنز موجود ہیں جن میں کچھ فری اور معمولی رقم کے عوض بھی یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ایسی ایپس میں ’ڈولینگو‘، بابل، میمیرائز وغیرہ شامل ہیں جہاں مختلف زبانوں کو سکھانے کے لیے شارٹ کورسسز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ڈولینگو اور میمرائز ایپس میں بعض کورسز مفت جبکہ کچھ ایڈوانس کورسز معمولی فیس کے عوض پیش کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ کورسز انتہائی آسان فہم انداز میں سکھائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کی دلچسپی کے پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب بابل اورروزیٹاسٹون ایپس میں ایڈوانس کورسز پیش کیے جاتے ہیں جو فیس کی ادائیگی سے مشروط ہیں تاہم ان کی سالانہ فیس بھی 100 ڈالر سے تجاوز نہیں کرتی۔
Tumblr media
عالمی ثقافت کو دریافت کریں اگر آپ کی مصروفیت کچھ ایسی ہے کہ آپ روزانہ کم از کم 45 منٹ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں تو اس دوران آپ بلومبرگ کنیکٹس اور گوگل آرٹس اینڈ کلچر ایپس کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے عجائب گھروں کا نظارہ اپنے سمارٹ فون پر روزمرہ کے سفر کے دوران کر سکتے ہیں۔ بلومبرگ کنیکٹس میں دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں 200 سے زیادہ فہرست موجود ہے جو ان ممالک کی ثقافت اور وہاں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہے ان میں مختصر ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں جنہیں ڈاؤن لوڈ کرنے کی بھی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ گوگل آرٹس اینڈ کلچر ایپ میں دنیا کے مختلف ممالک کی تین ہزار سے زائد سیاحتی اور ثقافتی معلومات تصاویر اور ویڈیوز کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک کے اہم شہروں اور سیاحتی مقامات کے بارے میں بھی مکمل معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اینڈرائیڈ اور آئی او ایس فونز پر’ٹی ای ڈی ٹاکس‘ ایپ پر جدید ٹیکنالوجی، سائنس، ثقافت اور دیگر موضوعات کے حوالے سے جدید ترین ریسرچ اور معلوماتی پروگرامز فراہم کیے گئے ہیں جو بالکل مفت ہیں انہیں آپ اپنے فون پر ڈاؤن لوڈ کرکے بعد میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
کمپیوٹر کی تعلیم ایپ سٹور پر متعدد ایسی ایپلیکیشنز موجود ہیں جن کے ذریعے آپ سمارٹ فون کی کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کے بارے میں اہم معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ ’سولو لرن‘ ایپ کے ذریعے کمپیوٹر لینگویج کے شارٹ کورسز مفت فراہم کیے گئے ہیں جبکہ ایڈوانس کورسز کے لیے آفرز بھی دی جاتی ہیں جن کی سالانہ فیس 70 ڈالر تک ہوتی ہے۔ ’خان اکیڈمی‘ جو کہ ایک مکمل غیر منافع بخش گروپ ہے کے ذریعے کمپیوٹر پروگرامنگ، کارٹون ڈیزائننگ اور دیگر موضوعات کے حوالے سے بھی کورسز موجود ہیں جن میں سے بیشتر یوٹیوب پر ہیں جبکہ بعض صرف ان کی ویب سائٹ پر ہی دستیاب ہیں۔
علمی مشقیں اگرآپ کسی بھی حوالے سے اپنی قابلیت کو جانچنا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے ’نالج ٹرینر‘ کے عنوان سے ایپ موجود ہے جس میں مختلف موضوعات پر چھ ہزار سے زائد سوالات پیش کیے جاتے ہیں جن میں سے آپ اپنے مطلوبہ فیلڈ کا انتخاب کرتے ہوئے اس میں اپنی صلاحیت و قابلیت کی جانچ کر سکتے ہیں۔ ایڈوانس ورژن جس میں اشتہارات نہیں ہوتے اسے صرف چھ ڈالر سالانہ فیس کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نالج میں اضافے کے لیے بھی ’دماغی ورزش ‘ کے عنوان سے ایپ موجود ہیں جن کے ذریعے نہ صرف آپ اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ کھیل کے ذریعے آپ بہت کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں۔ ابتدائی ورژن مفت جبکہ ایڈوانس ورژن کی سالانہ فیس 40 ڈالر ہے۔
بشکریہ اردو نیوز  
0 notes
winyourlife · 1 year
Text
ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لیں
Tumblr media
اس سے پہلے کہ ذیابطیس کے تازہ عالمی نقشے پر نگاہ ڈالیں۔ خود ذیابطیس کی ابجد کیوں نہ دوھرا لی جائے۔ جو بھی خوراک ہم استعمال کرتے ہیں وہ جسم میں داخل ہو کر گلوکوز ( شوگر ) بنتی ہے اور پھر خون میں شامل ہوتی ہے۔ خون میں گلوکوز ایک مخصوص مقدار میں ہی داخل ہو۔ اسے یقینی بنانے کے لیے قدرت نے ہر جسم میں لبلبہ نامی ایک کنٹرولر مقرر کر رکھا ہے جو انسولین بناتا ہے، تاکہ آپ کے خون میں داخل ہونے والے گلوکوز کی مقدار توانائی کی شکل میں جسم کو ضروری ایندھن فراہم کر سکے۔ بعض اوقات متعدد وجوہات کے سبب لبلبلہ یا تو ضروری مقدار میں انسولین پیدا نہیں کر پاتا یا پھر پوری طرح فعال نہیں رہتا۔ یوں گلوکوز کی مقدار آپ کے خون میں بلا رکاوٹ بڑھتے بڑھتے جسمانی پیچیدگیوں کا محرک بن جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ فالتو گلوکوز دل، گردے، اعصاب اور بینائی پر اثرانداز ہونے لگتا ہے۔ اب تک شوگر کی بے قاعدگی کو قدرتی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے کوئی مستقل حل دریافت نہیں ہو سکا۔ البتہ وزن میں کمی، صحت مند غذا، متحرک معمولات، اچھی نیند اور اعصابی تناؤ میں کمی کی مشق سے کسی حد تک شوگر مینیجمنٹ ضرور ہو سکتی ہے۔
شوگر کے مرض کی دو عمومی اقسام زیادہ جانی جاتی ہیں۔ ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ٹائپ ون شوگر کی شکایت تب لاحق ہوتی ہے جب جسم میں کسی اندرونی ردِعمل کے سبب انسولین بننے کا عمل معطل ہو جاتا ہے۔ یہ اچانک ردِعمل بچوں اور نوعمروں میں بھی ہو سکتا ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے روزانہ انسولین لینا پڑتی ہے۔عموماً ٹائپ ون کے مریضوں کی تعداد پانچ سے دس فیصد کے درمیان ہے۔ البتہ اکثریت بتدریج ٹائپ ٹو شوگر کی زد میں آتی ہے۔ آپ کا لبلبلہ رفتہ رفتہ انسولین کی مقدار کم بنانے لگتا ہے۔ یوں خون میں گلوکوز کی مقدار میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اس کا ہدف زیادہ تر جوان یا پکی عمر کے لوگ ہیں۔ علامات بھی آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں۔ ذیابطیس کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو دورانِ حمل گلوکوز کی مقدار میں اتار چڑھاؤ کے سبب پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے منفی اثرات بچے میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دورانِ حمل شوگر لیول کی نگرانی ازبس ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص شوگر کی سرحد پر کھڑا ہے۔ طرزِ زندگی اور روزمرہ عادات میں صحت مند تبدیلیوں کے ذریعے اس سرخ لکیر سے پیچھے ہٹنا ممکن ہے۔
Tumblr media
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق انیس سو اسی میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد ایک سو آٹھ ملین تھی جو اگلے چار عشروں میں چار گنا بڑھ گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ذیابطیس کے متاثرین کی تعداد لگ بھگ چار سو بیالیس ملین ہے۔ ہر سال ذیابطیس کی پیچیدگیوں کے سبب پندرہ سے بیس لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ متوسط اور غریب ممالک میں زیادہ سنگین ہے۔ ذیابطیس کی بین الاقوامی فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کا اندازہ ہے کہ سرکاری و عمومی عدم دلچسپی کے باعث یہ مسئلہ وبائی شکل اختیار کر رہا ہے اور اگر اس بابت موثر بنیادی اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے دو ہزار تیس تک چھ سو تینتالیس ملین اور دو ہزار پینتالیس تک سات سو تراسی ملین افراد لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اگر بیس برس کی عمر تک کے ٹائپ ون ذیابطیس چارٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو حیرت انگیز طور پر امریکا سرِفہرست دکھائی دیتا ہے۔ وہاں فی ہزار ایک سو پچھتر افراد ٹائپ ون ذیابطیس کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہیں جب کہ انڈیا میں یہ تناسب فی ہزار ایک سو اکہتر ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کے طرزِ زندگی میں بہت فرق ہے۔
جب کہ ٹائپ ٹو ذیابطیس کا عالمی چارٹ دیکھا جائے تو چین مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے سرِفہرست ہے۔ وہاں بیس سے اسی برس تک کے ایک سو اکتالیس ملین متاثرین ہیں۔ دیگر بہتر ملین چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں بھی ذیابطیس ہے مگر وہ تشخیصی نظام کے مدار سے باہر ہیں۔ چین کے بعد تعداد کے اعتبار سے انڈیا اور پاکستان کا درجہ ہے۔ آبادی کے تناسب سے ذیابطیس کے پھیلاؤ کو دیکھا جائے تو پھر پاکستان پہلے، فرنچ پولینیشیا دوسرے اور کویت تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی اکتیس فیصد، فرنچ پولنیشیا اور کویت کی پچیس فیصد آبادی اس وبا کی لپیٹ میں ہے اور متاثرہ افراد میں لگ بھگ نوے فیصد کو ٹائپ ٹو ذیابطیس لاحق ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ براعظم افریقہ کی محض ساڑھے چار فیصد آبادی میں ذیابطیس کی علامات پائی گئی ہیں۔ ایک سبب شہری آبادی کی کم تعداد اور موٹاپے کی کم شکایت ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہو مگر اکثریت کو اس کا ادراک نہ ہو یا پھر تشخیصی سہولتوں تک رسائی نہ ہو۔
جب تک کوئی تسلی بخش سستا علاج یا طریقہ وسیع پیمانے پر دریافت نہیں ہو جاتا تب تک ایک سادہ و متحرک زندگی اختیار کرنے سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ کیونکہ ذیابطیس کوئی ایک مسئلہ نہیں بلکہ کئی جسمانی پیچیدگیوں کی جڑ ہے۔ جنھیں گمان ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔ انھیں اس خوش فہمی میں مسلسل رہنے کے بجائے سال میں کم از کم ایک بار ضرور اپنا معائنہ کروانا چاہیے اور جو مبتلا ہیں انھیں اضافی جسمانی پیچیدگیوں سے بچنے اور صحت کے معیار کو مزید ابتری سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر کو روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔ اس وقت صحت کے کل عالمی بجٹ کا چھ فیصد (نو سو چھیاسٹھ بلین ڈالر) ذیابطیس کی روک تھام اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر جسمانی پیچیدگیوں کے علاج معالجے اور دیکھ بھال پر صرف ہو رہا ہے۔ اس اضافی خرچے سے بچنا ممکن ہے اگر دوسروں کے معاملات کے ساتھ ساتھ ذرا سی توجہ خود پر بھی دے لی جائے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
جانئے وہ ملک جہاں کی سیر کریں اور ڈالرز پائیں
تائیوان: سیاحوں کی سابقہ تعداد کو بحال کرنے کے لئے حکومت نے پرکشش اعلان کردیا ہے۔ سال دو ہزار انیس میں وارد ہونے والی عالمی وبا کرونا نے عالمی سیاحت کو شدید دھچکا پہنچایا، تاہم اب بڑی تعداد میں لوگ بین الاقوامی سفر کررہے ہیں جس کے باعث فضائی اخراجات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کرونا سے قبل انڈونیشیا، ملائیشیا اور تائیوان ایسے ممالک تھے جہاں ہر سال کروڑوں سیاح آتے تھے جس سے ان ممالک کو کافی زرمبادلہ حاصل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years
Text
دنیا پر منڈرایا ماربرگ وائرس کا خطرہ، جسم سے پسینے کی طرح نکلنے لگتا ہے خون، "عالمی ادراہ صحت" نے بلائی ہنگامی میٹنگ - Siasat Daily
واشنگٹن: دنیا ابھی کورونا وائرس وبا کی تباہی سے نکل بھی نہیں پائی تھی کہ ایک اور خطرناک وائرس ماربرگ نے تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ اس ماربرگ وائرس کی وجہ سے افریقی ملک استوائی گنی میں اب تک کم از کم 9 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایبولا کی طرح اس انتہائی مہلک وائرس کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں اسے روکنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔اس نئے وائرس نے عالمی ادارہ صحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
دنیا پر منڈرایا ماربرگ وائرس کا خطرہ، جسم سے پسینے کی طرح نکلنے لگتا ہے خون، "عالمی ادراہ صحت" نے بلائی ہنگامی میٹنگ - Siasat Daily
واشنگٹن: دنیا ابھی کورونا وائرس وبا کی تباہی سے نکل بھی نہیں پائی تھی کہ ایک اور خطرناک وائرس ماربرگ نے تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ اس ماربرگ وائرس کی وجہ سے افریقی ملک استوائی گنی میں اب تک کم از کم 9 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایبولا کی طرح اس انتہائی مہلک وائرس کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں اسے روکنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔اس نئے وائرس نے عالمی ادارہ صحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
دنیا پر منڈرایا ماربرگ وائرس کا خطرہ، جسم سے پسینے کی طرح نکلنے لگتا ہے خون، "عالمی ادراہ صحت" نے بلائی ہنگامی میٹنگ - Siasat Daily
واشنگٹن: دنیا ابھی کورونا وائرس وبا کی تباہی سے نکل بھی نہیں پائی تھی کہ ایک اور خطرناک وائرس ماربرگ نے تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ اس ماربرگ وائرس کی وجہ سے افریقی ملک استوائی گنی میں اب تک کم از کم 9 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایبولا کی طرح اس انتہائی مہلک وائرس کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں اسے روکنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔اس نئے وائرس نے عالمی ادارہ صحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
دنیا پر منڈرایا ماربرگ وائرس کا خطرہ، جسم سے پسینے کی طرح نکلنے لگتا ہے خون، "عالمی ادراہ صحت" نے بلائی ہنگامی میٹنگ - Siasat Daily
واشنگٹن: دنیا ابھی کورونا وائرس وبا کی تباہی سے نکل بھی نہیں پائی تھی کہ ایک اور خطرناک وائرس ماربرگ نے تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ اس ماربرگ وائرس کی وجہ سے افریقی ملک استوائی گنی میں اب تک کم از کم 9 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایبولا کی طرح اس انتہائی مہلک وائرس کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں اسے روکنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔اس نئے وائرس نے عالمی ادارہ صحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nuktaguidance · 2 years
Text
ارشاد السائلین
ارشاد السائلین پیش لفظ نحمده ونصلي على رسوله الكريم، أما بعد: بتوفیق خداوندی گذشته تقریبا ۳۰ سال سے احقر کا شاہی مسجد جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد میں تراویح کے بعد درس تفسیر کا معمول رہا ہے، لیکن ۱۴۴۱ رمضان المبارک کا مہینہ اس حال میں آیا کہ ” کو رونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے ساری سرگرمیاں موقوف تھیں۔ مساجد میں جماعت اور تراویح کا سلسلہ بھی بند تھا، وعظ ونصیحت اور دینی مجالس کا بھی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mubashirnews · 2 years
Text
چین میں کورونا کیسز میں دوبارہ خطرناک حد تک اضافہ
چین میں کورونا کیسز میں دوبارہ خطرناک حد تک اضافہ
بیجنگ: چین میں عالمی وبا کورونا ایک مرتبہ پھر سر اٹھانے لگا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق چین کے دارالحکومت بیجنگ سمیت مختلف شہروں میں بھی کورونا کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیجنگ کی ستر فیصد آبادی کوویڈ 19 وائرس کا شکار ہوگئی، اسپتالوں میں متاثرہ لوگوں کا رش بڑھ گیا ہے جبکہ شنگھائی میں اسکولوں کو آن لائن کلاسیں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ چین میں کئی عرصے سے لگا لاک ڈاؤن ایک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
ہر جمہوریت ، جمہوریت تھوڑا ہوتی ہے
Tumblr media
گزشتہ روز ( پندرہ ستمبر ) عالمی یومِ جمہوریت منایا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے بقول عالمی تنازعات میں شدت کے سبب بڑھتی کشیدگی، اقتصادی اتھل پتھل اور ماحولیاتی اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں جمہوریت بھی بحران کی زد میں ہے اور شہری آوازوں کو دبانے کے لیے دیواریں اونچی ہو رہی ہیں۔ گمراہ کن اور غلط اطلاعات کی وبا تیزی سے ذہنوں کو آلودہ کر کے سماجی فاصلے بڑھا رہی ہے اور اداروں پر عدم اعتماد برابر بڑھ رہا ہے۔ اس صورتِ حال سے سب سے زیادہ متاثر وہ جوان نسل ہو رہی ہے کہ جس کے کاندھوں پر اس دنیا اور جمہوریت کا مستقبل ہے۔ چنانچہ اس برس کے عالمی یومِ جمہوریت کا موضوع ہے ’’ اگلی نسل کی با اختیاری ۔‘‘ یعنی عالمی، علاقائی و ملکی سطح پر کیے جانے والے دوررس فیصلوں کے عمل میں نئی پود کی رائے اور امنگوں کا خصوصی دھیان رکھا جائے۔ جمہوریت کی بیسیوں قسمیں ہو سکتی ہیں، لیکن آزادیِ اظہار ناقص یا برائے نام یا مشکوک ہو تو ایسا نظام کچھ بھی ہو سکتا ہے جمہوریت نہیں ہو سکتا۔
انسانی حقوق کے عالمی میثاق کی شق انیس میں کسی بھی چونکہ چنانچہ ہچر مچر کے بغیر واضح لکھا ہے کہ ’’ ہر انسان کو بنا کسی رکاوٹ ، دباؤ اور مداخلت کے اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کی بنیادی آزادی حاصل ہے۔ کسی بھی شہری تک اطلاعات کی آزادانہ ترسیل میں کسی بھی طرح کی اڑچن پیدا کر کے اس کی رائے بدلنے یا اثرانداز ہونے کی کوئی بھی کوشش اس بنیادی حق کی پامالی ہے ۔‘‘ اس حق کو شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کے توسط سے ذرائع ابلاغ کی بنیادی آزادی سے بھی مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس آئینے میں وہ تمام ریاستیں اور حکومتیں جنہوں نے انسانی حقوق کے عالمی میثاق کی توثیق کی ہے۔ اپنی اپنی جغرافیائی حدود میں جمہوریت کا پست و بلند معیار باآسانی دیکھ سکتی ہیں جمہوریت کی موجودہ شکل ہزاروں برس کی انسانی جدوجہد کا نتیجہ ہے اور اس تصور کے تحفظ یا اس کی خامیاں دور کرنے اور اسے صحیح معنوں میں بنی نوع انسان کا آدرش بنانے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رہنی چاہیں۔
Tumblr media
یونانی شہری ریاستوں میں جمہوریت کی ابتدائی شکل سے لے کے اکیسویں صدی تک کی ڈیجیٹل دنیا میں اس نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے لاتعداد قربانیاں دی گئی ہیں۔ جن جن ممالک میں بھرپور عوامی نمایندگی کے اصول پر جمہوری اقدار جڑ پکڑ چکی ہیں ان کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ بنیادی آزادیوں کے روزمرہ ثمرات کو ایک معمول کا طرزِ نظام سمجھ کے لطف اندوز ہو سکیں، مگر اسی دنیا میں نصف سے زائد آبادی ایسی بھی ہے جس کے لیے بنیادی حقوق کا حصول ایک پر آسائش خواب ہے اور انہیں اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے آج بھی بظاہر ناقابلِ عبور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اگر ایک عام شہری ریاستی فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہے اور اس کا یہ بنیادی حق کسی بھی حیلے، بہانے یا جبر کے بل پر ایک طاقتور اقلیت نے نظریے، قوم پرستی یا قسمت کے پردے میں غصب کر رکھا ہے۔ یا کسی بھی شہری کو نسل، رنگ، علاقے یا تعصب کی کسی بھی شکل کے ذریعے ووٹ کے حق سے ایسے محروم رکھا جا رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسانی مساوات کے ازلی قانون پر آنچ آتی ہو تو پھر اس نظام کا نام جمہوریت کے بجائے کچھ بھی رکھا جا سکتا ہے۔
اس دنیا میں سوائے چھ خلیجی ریاستوں ، برونائی ، افغانستان اور ویٹیکن ہر ریاست کے سرکاری نام میں آپ کو ڈیموکریٹ یا ری پبلک یا پیپلز ریپبلک یا اسلامک ریپبلک کا لاحقہ مل جائے گا۔ محض لاحقہ لگانے سے کیا جمہوریت کے بنیادی تقاضے پورے ہو سکتے ہیں ؟ محض ایک خاص مدت کے بعد انتخابات کروانے کے عمل کو ہی جمہوریت کہا جا سکتا ہے ؟ کیا یک جماعتی نظام بھی جمہوریت کی مروجہ تعریف پر پورا اترتا ہے ؟ کیا کثیر جماعتی نظام کے باوجود کسی بھی ریاست کے وسائل اور سیاست پر اکثریتی گروہ کی اجارہ داری اور اس اجارہ داری کے منفی اثرات سے اسی ریاست کی مذہبی ، لسانی و نسلی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے کوئی موثر آئینی و قانونی ڈھال تشکیل دئیے بغیر اس ریاست کو جمہوری کہا جا سکتا ہے ؟ اور اگر کوئی ریاست انتخابی عمل، کثیر جماعتی نظام اور اکثریتی گروہ کی بالادستی کی زد سے اقلیتی گروہوں کو محفوظ رکھنے کا نظام بنا بھی لیتی ہے مگر سب کو پابند کر دیتی ہے کہ طے شدہ ریاستی نظریات سے ہٹ کے اپنی رائے کا اظہار غداری کے مترادف ہو گا تو کیا ایسے نظام کو بھی جمہوریت کی دستار پہنائی جا سکتی ہے ؟
اگر ریاست محض لیپا پوتی کی خاطر جمہوری سمبلز اپنا لے اور جمہوری اداروں کی نقالی بھی کر لے مگر اس کے خمیر میں آمریت و فسطائیت گندھی ہوئی ہو، کاغذ پر بہترین آئین چھپا ہوا اور قوانین کی کتاب میں بظاہر تمام شہریوں کی قانونی برابری کا عہد بھی کیا گیا ہو۔ مگر ریاست کا عمل اس کے قول کی چغلی کھاتا ہو اور آئین کو بھی موشگافیوں اور خود ساختہ منطق کی دھول اڑا کے اپنے پوشیدہ و اعلانیہ مقاصد کے حصول کے لیے موم کی ناک اور غریب کی جورو میں تبدیل کر دیا جائے تو کیا ایسے ماحول کو بھی جمہوری کہا جا سکتا ہے ؟ جمہوریت کوئی وقت گذاری کا مشغلہ، خوش وقتی یا کتابی شے نہیں بلکہ انتخابی عمل برقرار رکھنے اور آئینی روح کے مطابق چلنے کا مطلب ریاستی سطح پر جمہوری تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے سماج کی تشکیل میں مدد دینا ہے جہاں قوتِ برداشت ، تحمل ، بردباری ، ہمدردی کے اوصاف نمایاں ہوتے چلے جائیں اور ہر شہری اس اصول کو دل سے تسلیم کرنے کے قابل ہو جائے کہ جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں پر آپ کے مکے کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں ہر شہری اور ادارہ اتفاق کے ساتھ ساتھ اختلافِ رائے کا بھی مکمل احترام کر پائے۔ تب تو یہ عمل جمہوریت کہلا سکتا ہے۔ورنہ ادھ کچی پکی ، لولی لنگڑی جمہوریت تو کہیں بھی بازار سے بارعایت ہر وقت دستیاب ہے۔ بس آواز دے کے طلب فرما لیں۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
دنیا پر منڈرایا ماربرگ وائرس کا خطرہ، جسم سے پسینے کی طرح نکلنے لگتا ہے خون، "عالمی ادراہ صحت" نے بلائی ہنگامی میٹنگ - Siasat Daily
واشنگٹن: دنیا ابھی کورونا وائرس وبا کی تباہی سے نکل بھی نہیں پائی تھی کہ ایک اور خطرناک وائرس ماربرگ نے تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ اس ماربرگ وائرس کی وجہ سے افریقی ملک استوائی گنی میں اب تک کم از کم 9 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایبولا کی طرح اس انتہائی مہلک وائرس کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں اسے روکنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔اس نئے وائرس نے عالمی ادارہ صحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
irtibaat · 2 years
Text
ریئلمی اس سال کے سب سے بڑے ای کامرس شاپنگ فیسٹیول میں 11.11 کو اپنے مداحوں کی سب سے بڑی خواہشات پوری کرنے جارہا ہے۔
ریئلمی اس سال کے سب سے بڑے ای کامرس شاپنگ فیسٹیول میں 11.11 کو اپنے مداحوں کی سب سے بڑی خواہشات پوری کرنے جارہا ہے۔
ریئلمی، دنیا کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا اسمارٹ فون برانڈ، دنیا بھر کے نوجوانوں کو لیپ فارورڈ کارکردگی اور ٹرینڈ سیٹنگ ڈیزائن کے ساتھ سستی مصنوعات فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ پرعزم رہا ہے، اور اس نے دنیا بھر میں 100 ملین سے زیادہ صارفین کو ایسا تجربہ فراہم کیا ہے جو ماضی میں توقعات سے زیادہ ہے۔ کرونا وبا کے بعد کے دور میں، عالمی کھپت کی عادات آن لائن کھپت کی طرف مڑ گئی ہیں اور عالمی ای کامرس لین…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
gamekai · 2 years
Text
#Coronavirus چین میں کورونا کی تباہی، 6 دنوں میں 13 ہزار ہلاکتیں
بیجنگ: عالمی وبا کرونا نے ایک بار پھر چین میں تباہی مچادی، جس کے باعث نئے چینی قمری سال کی خوشیاں ماند پڑ گئیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا کے نئے ویرئینٹ نے چین میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا رکھی ہے، محتاط اندازے کے مطابق اسی فیصد چینی شہری اس وبا میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ چینی وزارتِ صحت کے مطابق تیرہ سے انیس جنوری کے دوران کورونا سے تیرہ ہزار افراد ہلاک ہو ئے۔ حکام کے مطابق کورونا کے نئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
کیا کورونا کی وباءکا اختتام ہوگیا؟
کیا کورونا کی وباءکا اختتام ہوگیا؟
کیا کورونا کی وباءکا اختتام ہوگیا؟ عالمی ادارہ صحت کا موقف سامنے آگیاجنیوا(آوازنیوز)عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے کہا ہے کہ کووڈ 19 اب بھی عالمی ایمرجنسی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بیان اس وقت جاری کیا گیا ہے جب کووڈ 19 کی وبا کو عالمی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیے ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ عالمی ادارے کی ایمرجنسی کمیٹی نے 30 جنوری 2020 کو کووڈ 19 کو عالمی ایمرجنسی قرار دیا تھا جس کا مقصد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes