#صوبہ سندھ
Explore tagged Tumblr posts
Text
سندھ میں بزرگ شہریوں کیلئے کارڈ کا اجرا 37ہزار سے زائد سینئر شہری مستفید ہونگے
( اویس کیانی ) محکمہ سماجی بہبود سندھ اور نادرا کی جانب سے پاکستان کے پہلے سینئر سٹیزن(بزرگ شہری)کارڈ جاری کردیا گیا۔ نادرا اور محکمہ سماجی بہبود سندھ کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب میں صوبائی وزیر سمیت دونوں اداروں کے افسران نے شرکت کیاس موقع پر صوبائی وزیر میر طارق علی خان تالپور کا کہنا تھا کہ سندھ پاکستان کا پہلا صوبہ ہے جس نے بزرگ شہریوں کے لئے مخصوص کارڈ کا اجراء کیا ہے۔ اس پروگرام سے…
0 notes
Text
کراچی کا ماضی
آج میں آپ کو ڈیڑھ سو برس پیچھے لے جانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ماضی کی سیر کرانا چاہتا ہوں۔ آپ کو ویزا کی یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزرا ہوا کل دیکھنے کے لیے آپ کو کسی قسم کا ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیتے ہوئے ادوار کی طرف ہوائی جہاز، ریل گاڑی اور بسیں نہیں جاتیں، میں آپ سے دنیا دکھانے کا وعدہ نہیں کرتا۔ ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کا بھیانک آنکھوں دیکھا حال میں آپ کو سنا نہیں سکتا۔ ہندوستان کے ایک جزیرہ انڈومان پر انگریزوں نے روح فنا کردینے جیسی جیل بنائی تھی۔ سمندر میں گھرے ہوئے انڈومان جیل میں سیاسی قیدیوں کو پابند سلاسل کیا جاتا تھا۔ انڈومان جیل میں آپ کو نہیں دکھائوں گا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں دکھائوں گا کہ شہنشاہ ہند اورنگزیب نے کس بیدردی سے اپنے تین بڑے بھائیوں کو قتل کروا دیا تھا۔ ماضی کی جھلک دکھاتے ہوئے میں اس بات پر بحث نہیں کروں گا کہ ہندو اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے انگریز نے ریلوے پلیٹ فارم اور ریل گاڑیوں میں ہندو پانی اور مسلمان پانی، ہندو کھانے اور مسلمان کھانے کا رواج ڈالا تھا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں بتائوں گا کہ تب کراچی سے کلکتہ جانے کے لیے آپ کو ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ آپ کو صرف ریل گاڑی کا ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے ہندوستان میں رہنے والے ہم سب لوگ پیدائشی طور پر ہندوستانی ہوتے تھے۔
کراچی، لاہور اور پشاور میں پیدا ہونے والے بھی پیدائشی ہندوستانی Born Indian ہوتے تھے۔ مدراس سے بمبئی آنے جانے پر روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔ ایسا ہوتا تھا ہمارے دور کا برصغیر، کڑھنے یا میری نسل کو برا بھلا کہنے سے زمینی حقائق بدل نہیں سکتے۔ اگست 1947ء سے پہلے ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا۔ اگست 1947ء سے پہلے پاکستان عالم وجود میں نہیں آیا تھا۔ لہٰذا اگست 1947ء سے پہلے ہم سب نے ہندوستان میں جنم لیا تھا۔ تب کراچی، لاہور اور پشاور برٹش انڈیا کا حصہ تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے، گھڑی ہوئی کہانی نہیں ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمارا اہم اور بہت بڑا حصہ ہے۔ میں نے سیانوں سے سنا ہے کہ اپنے تاریخی اور ثقافتی حصہ سے دستبردار ہونا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہوتا۔ اس لمبی چوڑی اور نامعقول تمہید کا مطلب اور مقصد بھی یہی ہے جو ابھی ابھی میں نے آپ کے گوش گزار کیا ہے۔ میں آپ کو سیر کروانے کے لیے لے جارہا ہوں مچھیروں کی چھوٹی سی بستی کی طرف۔ یہ بستی نامعلوم صدیوں سے بحر عرب کے کنارے آباد ہے۔ اب یہ چھوٹی سی بستی ایک بہت بڑے تجارتی شہر میں بدل چکی ہے۔
یوں بھی نہیں ہے کہ ڈیڑھ سو برس پہلے مچھیروں کی چھوٹی سی بستی گمنام تھی۔ تب ٹھٹھہ معہ اپنے اطراف کے مشہور تجارتی شہر ہوا کرتا تھا۔ بیوپاری اپنا سامان ملک سے باہر بھیجتے تھے اور بیرونی ممالک سے برآمد کیا ہوا سامان اپنے ملک سندھ میں بیچا کرتے تھے۔ تاریخ کے بد خواہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ سندھ انگریز کے آنے سے پہلے خودمختار ملک تھا۔ سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ اٹھارہ سو تینتالیس میں سر چارلس نیپئر نے فتح کرنے کے بعد سندھ کو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دیکھنے کے لیے بمبئی یعنی ممبئی صوبے سے ملا دیا تھا ۔ اس طرح انیس سو تینتالیس میں سندھ ہندوستان کا حصہ بنا۔ یہاں مجھے ایک تاریخی بات یاد آرہی ہے بلکہ دو باتیں یاد آرہی ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر کسی مسلمان سیاستدان نے انگریز سے سوال نہیں اٹھایا کہ انگریز کی فتح سے پہلے سندھ ایک الگ تھلگ خودمختار ملک تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے سندھ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا۔ کسی بھی موقع پر کسی سیاستدان نے یہ سوال انگریز سے نہیں پوچھا تھا کہ آپ لوگوں نے سندھ ایک آزاد ملک کے طور پر جنگ میں جیتا تھا، ہندوستان کے ایک حصے یا صوبہ کے طور پر نہیں۔
اب آپ سندھ کا بٹوارہ ہندوستان کے ایک صوبہ کے طور پر کیوں کررہے ہیں؟ آپ سندھ کو ایک آزاد ملک کی طرح آزاد کیوں نہیں کرتے؟ اسی نوعیت کی دوسری بات بھی ہمارے سیاستدانوں نے انگریز سے نہیں پوچھی تھی۔ انگریز نے مکمل طور پر جب ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا تب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یہاں سے کوچ کرتے ہوئے آپ نے ہندوستان کے ٹکڑے کیوں کر دیے؟ انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا، نیپال وغیرہ ک�� طرح ایک ملک کے طور پر ہندوستان کو آزاد کیوں نہیں کیا؟ اور سب سے اہم بات کہ آپ نے ہندوستان مسلمان حکمراں سے جیتا تھا، ہندوئوں سے نہیں۔ جاتے ہوئے آپ نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے حوالے کیوں نہیں کی تھی؟ ڈیڑھ سو برس بعد ایسے سوال فضول محسوس ہوتے ہیں۔ انگریز میں بے شمار اچھائیاں تھیں، بے شمار برائیاں تھیں۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ کراچی کو ننھا منا لندن بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ جنہوں نے 1947ء کے لگ بھگ لندن دیکھا تھا، وہ کراچی کو چھوٹا سا لندن کہتے تھے اور پھر کراچی جب ہمارے ہتھے چڑھا، ہم نے انگریز کی نمایاں نشانیاں غائب کرنا شروع کر دیں۔
دنیا بھر کے مشہور شہروں میں آج بھی ٹرام رواں دواں ہے۔ ہم نے ٹرام کی پٹریاں اکھاڑ دیں۔ ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسوں کا رواج ختم کر دیا۔ مشرقی اور مغربی امتزاج کی ملی جلی عمارتوں میں ایک عمارت کا نام تھا پیلس ہوٹل، یہ انتہائی خوب صورت عمارت تھی، ہم نے گرا دی۔ ایسی کئی عمارتیں ایلفنسٹن اسٹریٹ اور وکٹوریا روڈ صدر پر شاندار انداز میں موجود ہوتی تھیں۔ ہم نے ان عالی شان عمارتوں کا ستیاناس کر دیا۔ جانوروں کے لیے شہر میں جابجا پانی کے حوض ہوا کرتے تھے، ہم نے اکھاڑ دیے۔ کراچی سے ہم نے اس کا ماضی چھین لیا ہے۔
امر جلیل
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
سندھ میں اساتذہ اور عمارتیں نہ ہونے پر 2640 سکول بند پڑے ہیں، جوڈیشل مجسٹریٹس کی رپورٹ، 2 ماہ میں فعال کیا جائے، عدالتی حکم
سندھ ہائیکورٹ نے صوبہ سندھ میں تعلیمی نظام اور اسکولوں کی کمی سے متعلق کیس کا فیصلہ سنادیا۔جسٹس صلاح الدین پہنور نے 113 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ سندھ بھر کے جوڈیشل مجسٹریٹس کی رپورٹس میں تہلکہ خیز انکشافات ہوئے ہیں، جوڈیشل مجسٹریٹس کی رپورٹس کے مطابق حکومت سندھ نےاساتذہ کی کمی،عمارتین اور فرنیچر نا ہونے کے باعث 2 ہزار 6 سو 40 اسکول بند کردیئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کندھ کوٹ کشمور ضلع…
View On WordPress
0 notes
Text
آؤ نیا وزیراعظم ـ ’سلیکٹ‘ کریں
سب سے پہلے تو پوری قو�� کو نیا سال مبارک ہو، شکر کریں سال 2023 کو توسیع نہیں دی گئی۔ اب سنا ہے نئے سال میں کچھ ’’الیکشن و لیکشن‘‘ ہونے جا رہا ہے۔ سلیکشن کمیٹی خاصی محترک ہے بہت سے بلامقابلہ جیت نہیں پا رہے تو دوسروں کو بلا مقابلہ ہرایا جا رہا ہے۔ کوئی جیت کر بھی ہارتا نظر آ رہا ہے اور کوئی ہار کر بھی جیتتا۔ اب یہ بھی کیا حسن ِاتفاق ہے کہ صرف ایک پارٹی کی پوری اے ٹیم کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے کیا کپتان کیا نائب کپتان، کیا پارٹی کا صدر یا قریب ترین ساتھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان فیصلوں کیخلاف اپیلوں پر کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں پاکستان کی ’’بدقسمتی‘‘ کس کے ہاتھ آتی ہے، لگتا کچھ یوں ہے کوئی نیا پروجیکٹ تیار نہیں ہو پا رہا تو عبوری دور کیلئے پرانے پروجیکٹ کو ہی آزمانے کی تیاری آخری مرحلوں میں ہے، یہ نہ ہو پایا تو کہیں ’’فیکٹری کو سیل نہ کرنا پڑ جائے۔‘‘ آپ کسی محفل میں چلے جائیں، سوال بہت سادہ سا پوچھا جاتا ہے ’’کیا الیکشن واقعی ہو رہے ہیں۔ نظر نہیں آ رہا کہ پی ٹی آئی کو آنے دیا جائے گا۔ کپتان کا کیا بنے گا۔‘‘ زیادہ تر سوالات ہم جیسے صحافیوں سے ہی کیے جاتے ہیں سادہ سا جواب تو یہ دیتا ہوں جب تک الیکشن ملتوی نہ ہوں سمجھ لیں ہو رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے، چیف جسٹس کہہ رہے ہیں، آرمی چیف نے بھی کہہ دیا ہے، اب بھی اگر ایسا نہیں ہوتا تو تمام نئے پرانے پروجیکٹ بند ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بہرحال ابھی تک تو کچھ الیکشن ولیکشن ہو رہا ہے کچھ ویسا ہی جیساکہ ہوتا آیا ہے البتہ اس بار ذرا مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ پرانے پروجیکٹ کو چند سال میں اتنا نقصان پہنچا کہ لوگ اب اسے قبول کرنےکو مشکل سے ہی تیار ہوںگے اب اگر سرکار آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے کسی کو لانے کا یا کسی کو نہ آنے دینے کا تو کیسا ووٹ اور کیسی اس کی عزت۔ یہ سال تو ان کیلئے بھی مشکل ترین سال رہا جنہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی راولپنڈی میں اور پنڈی کی طرف دیکھتے ہوئے گزار دی انہیں بھی چلے پر بیٹھنا پڑ گیا اور وہ گجرات کے چوہدری جو جنرل ضیاء سے لے کر جنرل مشرف تک کے ہمنوا رہے پہلے خود تقسیم ہوئے پھر نہ جانے ایک گھر سے مٹھائی کھا کر نکلے تو اس گھر اور شخص کو ہمراہ لیا جو انکے بیٹے کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ جو کبھی گجرات سے الیکشن نہیں ہارا آج اس کے بھی کاغذات مسترد ہو گئے۔ دیکھیں اپیل کا کیا بنتا ہے۔ دوستو یہ ہے سال 2023 کے سیاسی منظر نامہ کا مختصر جائزہ۔
یقین جانیں اس سب کی ضرورت نہ پڑتی اگر پی ڈی ایم تین چار بڑی غلطیاں نہ کرتی۔ پہلی مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کا لانا۔ دوسری تحریک کے منظور ہونے کے بعد شہباز شریف یا کسی بھی شریف کو وزیر اعظم بنانا (اس سے سب سے زیادہ نقصان خود میاں صاحب کو ہوا)۔ تیسری اور سب سے بڑی غلطی سابق وزیر اعظم عمران خان کو ہٹا کر فوراً الیکشن نہ کرانا، اس سب کے باوجود اگر اگست 2023 میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نومبر میں ہی الیکشن ہو جاتے تب بھی یہ ساکھ تو شہباز صاحب کے حق میں جاتی کے وقت پر الیکشن ہو گئے۔ میاں صاحب اس بات کو ماننے پر تیار ہوں یا نہیں آج کا پنجاب 90 کے پنجاب سے مختلف ہے، ویسے بھی اس صوبہ کے مزاج میں غصہ بھی ہے اور وہ بہادر کے ساتھ کھڑا بھی ہوتا ہے اسی لیے ذوالفقار علیٰ بھٹو پھانسی لگنے کے بعد بھی زندہ ہے اور جنرل ضیاء نت نئے پروجیکٹ لانے کے بعد بھی اس کی مقبولیت ختم نہ کر سکے، انکے دو پروجیکٹ تھے محمد خان جونیجو دوسرے، شریف برادران۔ ایک کو اس لیے لایا گیا کہ سندھ کا احساس محرومی کم کیا جائے مگر اس نے تو پہلی تقریر میں ہی کہہ دیا کہ ’’جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔
دوسرے میاں صاحب تھے جنہیں بھٹو اور پی پی پی کا زور توڑنے کیلئے لایا گیا مگر پھر جنرل حمید گل مرحوم ان سے بھی ناراض ہو گئے کیونکہ وہ لاڈلے پن سے باہر آنا چاہتے تھے اور پھر عمران خان پہ کام شروع ہوا اور اب وہ بھی گلے پڑ گیا ہے۔ ماشاء اللہ کپتان سے بھی کمال غلطیاں ہوئیں۔ 2013 سے 2022 تک جنرل ظہیر سے جنرل پاشا تک اور جنرل باجوہ سے جنرل فیض تک وہ انکے ساتھ جڑے رہے اور پھر آخر میں ان ہی میں سے ایک جنرل باجوہ جن کی مدت ملازمت میں توسیع اور پھر مزید توسیع کیلئے سب دربار میں حاضر تھے، ہی کے ہاتھوں جو کچھ ہوا وہ مارچ اور اپریل 2022 کی کہانی ہے۔ خان صاحب کی تاریخی غلطیوں میں ان پر سیاسی معاملات میں اعتماد کرنا، پرانا پنجاب عثمان بزدار کے حوالے کرنا ، دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اپنی کور کمیٹی کا حصہ بنانا، سیاسی مخالفین سے بات نہ کرنا، پنجاب ��ور کے پی کی حکومتیں ختم کر کے اپنی فیلڈ مخالفین کے حوالے کر دینا۔ ان غلطیوں کے باوجود آج بھی عمران اپنے سیاسی مخالفین سے آگے نظر آتا ہے جسکی بڑی وجہ پی ڈی ایم کی 18 ماہ کی کارکردگی اور مظلومیت کارڈ ہے۔
اب آپ سارے کاغذات مسترد بھی کر دیں، نااہل اور سزا برقرار بھی رکھیں، ایک ٹیم کو میچ سے ہی باہر کر دیں۔ لاتعداد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس یا انٹرویو کروا دیں یقین جانیں یہ وہی سیاسی غلطیاں ہیں جو 1956 سے ہماری حکمراں اشرافیہ کرتی آ رہی ہے۔ بہتر ہوتا اگر عمران کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی اور جیسا کہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کے دوستوں کا خدشہ تھا وہ جنرل فیض کو آرمی چیف بنا بھی دیتا، کوئی صدارتی نظام سے بھی آتا تو کیا جمہوری جدوجہد ختم ہو جاتی یہ صرف خدشات کی بنیاد پر ہونے والی کارروائی کا نتیجہ ہے کہ آج تمام تر اقدامات کے باوجود خان کی مقبولیت کا گراف بدستور اوپر ہے۔ آخر میں طاقتور لوگوں سے بس ایک گزارش ہے کہ پروجیکٹ بنانا ختم کرنا پھر نیا پروجیکٹ تیار کرنا پھر اسے ہٹا کر کوئی اور یا پرانا کچھ تکنیکی مرمت کے بعد دوبارہ لانچ کرنا، جماعتیں بنانا توڑنا، حکومتیں گرانا اور توڑنا چھوڑ دیں۔ غلطیاں کرنی ہی ہیں تو نئے سال میں نئی غلطیاں کریں پاکستان آگے بڑھ جائیگا ورنہ تاریخ کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Nawaz Sharif#Pakistan#Pakistan establishment#Pakistan Politics#PDM#Politics#PTI#Shahbaz Sharif#Word
0 notes
Text
نواز شریف کی مقدمات سے بریت مشروط ہے
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جونہی انتخابی شیڈول جاری کیا، نگران حکومت آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہوئے لازماً عام انتخابات کروائے گی اور کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جائے گا۔ اصولی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے امیدوار سامنے لائیں، کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ نو مئی کے قانون شکن واقعات کے بعد درپیش صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف پر ان واقعات کی وجہ سے اب تک آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان اس لیے نظر آ رہا ہے کہ نگران حکومت اپنے محدود مینڈیٹ کے تحت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی انتخابی عمل میں شرکت کی بات ہے تو ان کے خلاف قائم مقدمات کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے اور قانون اس معاملے میں اپنا راستہ خود بتائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے آئینی ماہرین نے سائفر کیس میں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم کو حاصل اختیارات کے تحت عدالت سے استثنیٰ مانگنے کی استدعا کی ہے۔ آئینی ماہرین نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 کے اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے مقدمے کے اخراج کی استدعا کر دی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کا تحریری حکم جاری کر دیا ہے۔ اس کے برعکس میری رائے میں آئین کا آرٹیکل 248 اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب وزیراعظم اپنے عہدے پر فائز رہے۔ وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد اس نوعیت کے مقدمات عام شہری کی حیثیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو چار سال بعد وطن واپسی پر اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔ جس کیس میں وہ سزا یافتہ ہیں، اس میں ان کے جیل جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ انتخابی عمل میں ان کی شرکت مقدمات میں بریت سے مشروط ہے۔ تاہم ان کی جماعت کے لیے انتخابات میں شریک ہونے میں کوئی رکاوٹ حاصل نہیں ہے۔
قانونی ماہرین کا اتفاقِ رائے یہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر گرفتاری فوراً ہو گی، تاہم توقع ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کو ایک ہفتے کی حفاظتی ضمانت دے گی۔ پاکستان کا معاشی سفر بہتری کی طرف جا رہا ہے۔ شرح نمو 3.5 فیصد ہو گئی ہے، سٹاک ایکسچینج نے چھ سال کا ریکارڈ توڑا ہے۔ اس پیش رفت میں پاکستان کے لیے بہت اچھے مواقع ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے پالیسی ساز اور عوام کی غالب تعداد، جو نوجوانوں پر مشتمل ہے، کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ نوجوان ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جذباتی اور قومی وژن سے عاری ہی ہوں۔ عوام کو یہ بات ذہن نشین کرنا ہو گی کہ جمہوریت میں پارٹیاں اور لیڈر آتے جاتے رہتے ہیں۔ ملک و قوم کو مضبوط معیشت کے لیے معاشی ترقی اور سیاسی نظام میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کے سیاست دان میدان میں ہیں اور ان کے لیے ایک بہترین موقع ہے وہ ماضی کے تنازعات پر نظرِثانی کریں۔ سوچیں کہ پاکستان کیسے دوسرے ممالک کی ترقی سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔
ایشیا تو آگے بڑھ رہا ہے، اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے لیے سیاسی سطح پر سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کو 17 اکتوبر کو الیکشن کی ابتدائی تیاریوں کے حوالے سے طلب کر لیا ہے اور اگلے مرحلے پر پنجاب، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے اعلیٰ حکام سے یہ بریفنگ لیں گے۔ میری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کر لیا ہے اور الیکشن کا شیڈول 30 نومبر کے بعد فوری طور پر جاری کر دیا جائے گا۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ امریکہ نے جس طرح سے کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے اور اپنے فوجی اثاثے اس کے حوالے کرنے کے لیے آمادہ ہے، اس سے شہ پا کر اس تنازع کا دائرہ کار سرحدوں سے باہر پھیلا کر دوسرے ملکوں تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے عالمی معیشت پر تو خطرناک اثرات مرتب ہوں گے ہی اور اگر جنگ کے شعلے پاکستانی سرحدوں تک پہنچے اور جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا تو پاکستان میں الیکشن موخر ہو سکتے ہیں۔ اس تمام صورتِ حال میں نگران حکومت کو تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا۔
کنور دلشاد
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
0 notes
Text
لانڈھی جیل میں قید افغان شہری انتقال کر گیا -
کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں لانڈھی جیل میں موجود افغان شہری دوران قید انتقال کر گیا، جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ قیدی کی بیماری کے حوالے سے افغان قونصل خانے کو آگاہ کیا گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کی لانڈھی جیل میں قید افغان شہری انتقال کر گیا، جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ 60 سالہ فیض محمد کو گزشتہ ماہ دستاویز نہ ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قیدی فیض محمد دوران حراست…
View On WordPress
0 notes
Text
کراچی میں دودھ من مانی قیمتوں پر فروخت -
کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں دودھ من مانی قیمتوں پر فروخت کیا جارہا ہے، دودھ کی فی کلو قیمت 220 روپے تک جا پہنچی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں دودھ کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا گیا، مختلف علاقوں میں دودھ 210 سے 220 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ ڈیری فارمرز کا کہنا ہے کہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث دودھ کی قیمت بڑھانی پڑی۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز زائد قیمت پر دودھ فروخت کرنے والے…
View On WordPress
0 notes
Text
ڈکیتی کے دوران سرکاری اہلکار کا قتل، ملزم ایک ماہ بعد گرفتار
کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کارروائی میں سرکاری اہلکار کو ڈکیتی کے دوران قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق رینجرز اور پولیس نے کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں مشترکہ کارروائی کی، کارروائی میں سرکاری اہلکار کو ڈکیتی کے دوران شہید کرنے والا ملزم گرفتار کرلیا گیا۔ ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ ملزم عثمان غنی عرف بلوچ، اورنگی ٹاؤن اور اطراف…
View On WordPress
0 notes
Text
ججز دہشتگردی کے مقدمات کے بلاخوف فیصلے کریں چیف جسٹس پاکستان کی ہدایت
(امانت گشکوری)چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت انسداد دہشتگردی عدالتوں سے متعلق اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں انسداد دہشتگردی عدالتوں کے مانیٹرنگ ججز سمیت پراسیکیوٹر جنرلز نے شرکت کی،انسداد دہشتگردی عدالتوں میں اصلاحات کیلئے تجاویز پیش کی گئیں،اجلاس کے دوران انکشاف ہوا کہ ملک میں 2273 دہشتگردی کے مقدمات زیر التوا ہیں، صوبہ سندھ میں 1372 دہشتگردی کے مقدمات زیر التوا…
0 notes
Text
لاوارث شہر کا ’میئر‘ کون
وہ شاعر نے کہا تھا نا’’ ؎ مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں۔‘‘ ابھی ہم پہلے سال کی بارشوں کی تباہ کاریوں سے ہی باہر نکل نہیں پائے کہ ایک اور سمندری طوفان کی آمد آمد ہے۔ اب خدا خیر کرے یہ طوفان ٹلے گا یا میئر کا الیکشن جو کم از کم کراچی میں کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں۔ ویسے تو مقابلہ پی پی پی کے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے درمیان ہے مگر دونوں کی جیت اس وقت زیر عتاب پاکستان تحریک انصاف کے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر منحصرہے، وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ اتوار کے روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بڑے پراعتماد نظر آئے اور کہا نہ صرف میئر کراچی ایک ’جیالا‘ ہو گا بلکہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سندھ کے لوگ پی پی پی کو ووٹ دیں گے۔ بظاہر کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے مگر شاہ صاحب پہلے آنے والے طوفان سے تو بچائیں۔ دوسری طرف اسی شام جماعت اسلامی نے، جس کی شکایت یہ ہے کہ پی پی پی زور زبردستی سے اپنا ’میئر‘ لانا چاہتی ہے، سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ’مدد‘ طلب کی ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق خصوصی طور پر کراچی آئے کیونکہ یہ الیکشن جماعت کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاید پورے پاکستان میں یہ واحد بلدیہ ہے جہاں ان کا میئر منتخب ہو سکتا ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کے تمام منتخب بلدیاتی نمائندے حافظ نعیم کو ووٹ دے دیں۔ ماضی میں جماعت کے تین بار میئر منتخب ہوئے دو بار عبدالستار افغانی 1979ء اور 1983ء میں اور جناب نعمت اللہ ایڈووکیٹ 2001 میں، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1979ء میں پی پی پی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جیسا آج پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ افغانی صاحب کا جیتنا مشکل تھا البتہ 1983ء میں وہ باآسانی جیت گئے اور دونوں بار ڈپٹی میئر پی پی پی کا آیا۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کا یہاں کی سیاست میں بڑا اسٹیک ہے۔ اسی طرح نعمت اللہ صاحب کو 2001 کی میئر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے طفیل ملی جنہوں نے اس وقت کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جو ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا۔
اب تھوڑی بات ہو جائے پی پی پی کی بلدیاتی سیاست کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ 22 اگست 2016ء کے بعد جو ہوا اس سے شہری سندھ کا سیاسی توازن پی پی پی کے حق میں چلا گیا اور پہلی بار دیہی اور شہری سندھ کی بلدیاتی قیادت ان کے ہاتھ آنے والی ہے، جس میں حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور نواب شاہ شامل ہیں۔ پی پی پی پر تنقید اپنی جگہ مگر کسی دوسری سیاسی جماعت نے اندرون سندھ جا کر کتنا سیاسی مقابلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا 29 سال پرانی تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)۔ رہ گئی بات ’قوم پرست‘ جماعتوں کی تو بدقسمتی سے یہ صرف استعمال ہوئی ہیں ’ریاست‘ کے ہاتھوں۔ ایسے میں افسوس یہ ہوتا ہے کہ اتنی مضبوط پوزیشن میں ہونے اور برسوں سے برسر اقتدار رہنے کے باوجود آج بھی سندھ کا اتنا برا حال کیوں ہے۔ شہروں کو ایک طرف رکھیں کیا صوبہ تعلیمی میدان میں آگے ہے کہ پیچھے۔ بارشوں کا پانی جاتا نہیں اور نلکوں میں پانی آتا نہیں۔
18ویں ترمیم میں واضح اختیارات کے باوجود۔ آج بھی منتخب بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے مرہون منت ہیں، آخر کیوں؟۔ چلیں اس کو بھی ایک طرف رکھیں۔ شاہ صاحب جس وقت پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ان کے دائیں اور بائیں سب منتخب نمائندے بیٹھے تھے، سوائے میئر کیلئے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں بات بھی شائستگی سے کرتے ہیں جس میں والدین وہاب اور فوزیہ وہاب کی تربیت بھی نظر آتی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یو سی کا الیکشن جیت کر امیدوار بنتے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر پی پی پی بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو کیا کوئی بھی منتخب نمائندہ اس قابل نہیں کہ ’میئر‘ کیلئے نامزد ہو سکے ایسے میں صرف ایک غیر منتخب نمائندے کو میئر بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ کیا یہ رویہ جمہوری ہے۔ مرتضیٰ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اور اب کیا آپ کی نامزدگی منتخب یوسی چیئرمین کے ساتھ ’تھوڑی زیادتی‘ نہیں۔
تعجب مجھے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ پی پی پی میں کچھ ایسا ہی چند سال پہلے بھی ہوا تھا جب پارٹی کی کراچی کی صدارت کیلئے رائے شماری میں تین نام تھے جن کو ووٹ پڑا مگر جب نتائج کا اعلان ہوا تو ایک صاحب جو دوڑ میں ہی نہیں تھے وہ کراچی کے صدر ہو گئے۔ ’جیالا‘ کون ہوتا ہے اس کا بھی شاید پی پی پی کی موجودہ قیادت کو علم نہ ہو کہ یہ لفظ کیسے استعمال ہوا اور کن کو ’جیالا‘ کہا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی چڑھ جانے والوں، خود سوزی کرنے اور کوڑے کھانے، شاہی قلعہ کی اذیت سہنے والوں کے لئے اس زمانے میں پہلی بار استعمال ہوا یعنی وہ جو جان دینے کے لئے تیار رہے اور دی بھی۔ اب مرتضیٰ کا مقابلہ ہے جماعت کے ’جیالے‘ سے یا انہیں آپ جماعتی بھی کہہ سکتے ہیں، حافظ نعیم سے ، جنہوں نے پچھلے چند سال میں خود کو ایک انتہائی محنتی اور متحرک سیاسی کارکن منوایا اور جلد کراچی شہر میں جماعت کی پہچان بن گئے۔ دوسرا 2016ء میں متحدہ کو ’ریاستی طوفان‘ بہا کر لے گیا جس کو حافظ نعیم نے پر کرنے کی کوشش کی اور بارشوں میں شہر کے حالات اور تباہی ن�� بھی انہیں فائدہ پہنچایا۔
مگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان آئی، پی ٹی آئی اور 2018ء میں 14 ایم این اے اور 25 ایم پی اے جیت گئے جس کا خود انہیں الیکشن کے دن تک یقین نہیں تھا۔ البتہ حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں نشستیں ضرور مل گئیں کہ کراچی کا میئر جو بھی منتخب ہو گا وہ ’پی ٹی آئی‘ کی وجہ سے ہی ہو گا چاہے وہ ووٹ کی صورت میں، مبینہ طور پر ’نوٹ‘ کی صورت میں ہو یا لاپتہ ہونے کی صورت میں۔ اگر 9؍ مئی نہیں ہوتا توشاید ان کے معاملات خاصے بہتر ہوتے، اب دیکھتے ہیں کہ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے کتنے نومنتخب نمائندے آتے ہیں اور کتنے لائے جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ووٹنگ اوپن ہے سیکرٹ بیلٹ کے ذریعہ نہیں۔ رہ گئی بات ’لاوارث کراچی‘ کی تو بھائی کوئی بھی آجائے وہ بے اختیار میئر ہو گا کیونکہ سیاسی مالی اور انتظامی اختیارات تو بہرحال صوبائی حکومت کے پاس ہی ہوں گے یہ وہ لڑائی ہے جو کسی نے نہیں لڑی۔ لہٰذا ’کراچی کی کنجی‘ جس کے بھی ہاتھ آئے گی اس کا اختیار 34 فیصد شہر پر ہی ہو گا۔ جس ملک کے معاشی حب کا یہ حال ہو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہو گا۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ڈکیتی کے دوران سرکاری اہلکار کا قتل، ملزم ایک ماہ بعد گرفتار
کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کارروائی میں سرکاری اہلکار کو ڈکیتی کے دوران قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق رینجرز اور پولیس نے کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں مشترکہ کارروائی کی، کارروائی میں سرکاری اہلکار کو ڈکیتی کے دوران شہید کرنے والا ملزم گرفتار کرلیا گیا۔ ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ ملزم عثمان غنی عرف بلوچ، اورنگی ٹاؤن اور اطراف…
View On WordPress
0 notes
Text
سندھ کے عوام مسلم لیگ ن کو آزمائیں، ترقی نہ ہوئی تو جو سزا دیں گے قبول ہوگی، احسن اقبال
مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن سندھ کے عوام کو بھی ترقی ، خوشحالی کا پیغام دے گی،سندھ کے عوام پنجاب جیسی ترقی چاہتے ہیں تو مسلم لیگ ن کو آزما کر دیکھ لیں،سندھ کے عوام کو ترقی نہ ملی تو جو سزا دیں گے قبول ہوگی۔ کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ سندھ پاکستان کا اہم صوبہ اور کراچی ملک کا معاشی دارالحکومت ہے،ن لیگ…
View On WordPress
0 notes
Text
شاہراہِ قراقرم جو پاکستان اور چین کے درمیان پل بن گئی
مجھے شاہراہِ قراقرم پر 25 بار سفر کا تجربہ ہے اور میں اس سٹیٹ آف دی آرٹ شاہراہ کے اطراف میں پھیلے مناظر اور مشکل ترین سفر کے آسان احساس کا شاہد ہوں۔ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ بل کھاتی قراقرم ہائی وے کبھی جگلوٹ تک ویران تھی اور اب تو ہر طرف آباد ہو چکے قصبے ہیں جہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیا کی دستیابی کے ساتھ ساتھ اے ٹی ایم اور پٹرول پمپس بھی کھل چکے ہیں۔ پاکستان میں 1956 سے 1958 تک تعینات رہنے والے چین کے سفیر جنرل چینگ بائیو نے چین کو گلگت سے ملانے کی خواہش کا پہلی بار اظہار کیا تھا۔ 1963 میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کی بات چیت ہوئی اور پھر 1966 میں اس اہم سڑک کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ قراقرم کی تعمیر میں پاکستان اور چین کے 25 ہزار مزدوروں اور کارکنوں نے حصہ لیا تھا۔ اس وقت کم وسائل اور محدود مشینری کے باوجود سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر ہموار راستہ بنانا ایک ناممکن کام تھا اور حویلیاں سے خنجراب تک لگ بھگ چار سو کلومیٹر کی اس سڑک کی تعمیر کے مشکل ترین کام کے دوران 408 کارکن مارے بھی گئے تھے۔ گویا لگ بھگ سڑک کے ہر کلومیٹر نے ایک جان کا نذرانہ قبول کیا۔
لیکن یہ سڑک خنجراب پر ختم نہیں ہو جاتی، اس سے آگے چین کے وسیع و عریض صوبے سنکیانگ میں رواں دواں رہتی ہے۔ یہ شاہراہ بننے سے پہلے گلگت، سکردو اور ہنزہ جانا خواب و خیال کی طرح تھا۔ سفر دنوں میں نہیں، ہفتوں کی بات تھا۔ یہ علاقے بےحد پسماندہ اور مرکزی دھارے سے یکسر کٹے ہوئے تھے۔ نہ وہاں کے باسیوں کو بقیہ پاکستان کی کوئی خبر تھی، نہ بقیہ پاکستان کو وہاں کی کوئی اطلاع۔ سڑک نے بقیہ پاکستان کو شمالی علاقوں سے ملانے کے لیے ایک پل کا سا کام کیا۔ اب لوگ گھنٹوں میں اسلام آباد سے گلگت پہنچنے لگے۔ خنجراب پاس سے چلاس تک کے علاقے سیاحوں کو اپنی طرف بلانے لگے اور پھر نانگا پربت، فیری میڈوز، تین پہاڑی سلسلوں کا ملاپ، راکا پوشی اور شمشال جیسے خوبصورت نظارے عام آدمی کو میسر آئے۔ اس سڑک کے بننے سے ان علاقوں میں ترقی و خوشحالی کا ایسا دور شروع ہوا جس سے شرح خواندگی 14 فی صد سے 60 فیصد تک جا پہنچی۔ خواتین میں شرح خواندگی بھی تسلی بخش رہی۔ ہنزہ، سوست، نگر اور غذر کے لوگ اب دنیا بھر میں پاکستان کی روشن مثال ہیں۔
شاہراہِ قراقرم کے وہ حصے جہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے رکاوٹیں آتی تھیں اور چین سے پاکستان تجارتی سامان لانے والی گاڑیاں کئی کئی دن رکی رہتی تھیں، اب وہاں سرنگیں بنا دی گئی ہیں جن کی لمبائی دو سے 10 کلومیٹر تک ہے، جس کی وجہ سے اب شاہراہ سال بھر کھلی رہتی ہے۔ اس ایک سڑک کی تعمیر نے خطے کو معاشی طور پر مضبوط کر دیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ چین پاکستان راہداری جیسے عظیم الشان منصوبے دراصل شاہراہِ قراقرم کی ہی توسیع ہیں۔ اس سڑک کا صرف پاکستان ہی کو نہیں، چین کو بھی بے پناہ فائدہ ہوا ہے۔ مشرقی چین تو زمانۂ قدیم ہی سے ایک ترقی یافتہ ملک رہا ہے، مگر اس کے مغربی علاقے خاص طور پر سنکیانگ جیسا دور افتادہ ��وبہ پسماندہ اور بقیہ دنیا سے تقریباً کٹا ہوا تھا۔ اس شاہراہ نے ان مغربی علاقوں کو بقیہ دنیا سے ملایا۔
چونکہ چین 60 کی دہائی سے قبل بقیہ دنیا سے الگ تھلگ تھا، اس لیے چینی مسلمان حج و عمرہ کرنے کی حسرت دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو جاتے تھے۔شاہراہِ قراقرم بننے کے بعد چین کے لوگ گلگت سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچنے لگے اور یہاں سے عازمِ حج ہونے لگے۔ لوگوں کو یاد ہو گا کہ اسلام آباد میں واقع حاجی کیمپ میں چینی مسلمانوں کے لیے الگ سیکشن بنایا جاتا تھا۔ اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں آج بھی چینی طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد دینی علوم حاصل کرتی ہے۔
قیصر عباس صابر
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note
·
View note
Text
تیس اپریل کو الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تجویز پر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کرانے کے لیے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کر دی ہے جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کی تاریخ کا تعین گورنر خیبر پختونخواہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر کریں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں ادا کی ہے اور بادی النظر میں یہ اہم اقدام ملکی استحکام کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر صدر مملکت نے 30 اپریل کو صوبہ پنجاب میں جنرل الیکشن کرانے کی راہ ہموار کر دی ہے جو پانچ سال کی مدت کے لیے ہوں گے۔ اس کے برعکس میڈیا میں جو مناظر پیش کیے جا رہے ہیں اس سے یوں نظر آ رہا ہے کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن انتظامات ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے بھی مقررہ تاریخ مقرر ہونے پر سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
میری اطلاع کے مطابق وفاقی حکومت اس کے قانونی پہلوؤں پر غور و غوض کر رہی ہے اور مردم شماری اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی ریفرنس دائر کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 86 کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس میں آئین کے آرٹیکل 51 کی بنیاد پر نئی مردم شماری اور پرانی مردم شماری کے حوالے سے پرانی حلقہ بندیاں اور نئی حلقہ بندیوں کے تضادات کو مدِنظر رکھنا ہو گا اور کوشش کی جائے گی کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے تناظر میں ایسی راہ نکالی جائے کہ ملک میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن میں منعقد کرا کے سیاسی استحکام کی طرف اہم قدم اٹھایا جائے۔ موجودہ حالات میں منقسم الیکشن کروانے سے پاکستان میں سیاسی استحکام کا فقدان برقرار رہے گا۔ جس سیاسی جماعت نے ان دونوں صوبائی اسمبلیوں میں کامیابی حاصل کر لی، اسی جماعت کو وفاق میں حکومت سازی کا سنہرا موقع مل جائے گا۔
اگر جمہوری ممالک کی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو کئی جمہوری ممالک نے غیر معمولی حالات میں انتخابات ملتوی یا موخر کیے تھے۔ انڈیا میں 1973 کی ایمرجنسی کی آڑ میں ایک سال اور ریاستی انتخابات 10 سال ملتوی ہوئے۔ انڈیا کے الیکشن قوانین کے مطابق ضمنی انتخابات کے لیے مدت کا تعین مقرر نہیں کیا گیا اور ضمنی انتخابات متعین سال کے بعد کرائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق 60 روز میں انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا حالیہ فیصلہ حکومتی اور اپوزیشن حلقے اپنی اپنی پسند کی تشریح کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو اصولی طور پر نئی مردم شماری کے آئینی اور قانونی پہلوئوں کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے تھا اب جو دو صوبوں میں انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقعے پر جو آئینی، قانونی افراتفری دیکھنے میں آئے گی اس سے پاکستان مزید سیاسی گرداب کا شکار ہو جائے گا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات اور صوبہ سندھ اور بلوچستان کے انتخابات نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوں گے۔
نئی مردم شماری کے بغیر انتخابات متنازع ہی رہیں گے، کیونکہ مشترکہ مفادات کونسل، جو ملک کا آئینی ادارہ ہے، اس کی سفارش پر نئی مردم شماری کا فیصلہ ہوا تھا، اور اس کی عمران خان نے بطور وزیراعظم منظوری دی تھی، اور عمران خان نے ہی فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ کے انتخابات ساتویں مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ حکومتی حلقوں کو سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں چار اور تین کے فارمولا سے باہر نکالنا ہو گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ ججوں کا فیصلہ آ چکا ہے جو حتمی اور آئینی ہے اور اسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک ایک طویل عرصے سے مردم شماری کے روایتی اور پرانے طریقہ کار کو ترک کر کے ڈیجیٹل مردم شماری کا موثر نظام اپنا چکے ہیں، مگر پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں رواں ہفتہ پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز یکم مارچ سے ہوا ہے۔ یاد رہے کہ مردم شماری کرنا وقت طلب کام تو ہے ہی، مگر اس کے نتائج مرتب کرنے میں وقت بھی زیادہ درکار ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ماضی میں ہونے والی ہر خانہ مردم شماری کے لیے حکومت کو بڑے پیمانے پر سوال نامے چھپوانے پڑے اور روایتی طریقہ کار کے تحت کی جانے والی مردم شماری کا سب سے مشکل اور متنازع مرحلہ ہاتھ کی لکھائی سے بھرے گئے فارمز کو پڑھنا ہوتا ہے، جو ہمیشہ متنازع ہی رہی۔ اس کے مقابلے پر ڈیجیٹل مردم شماری سے تمام متنازع امور کا ازالہ ہو جائے گا۔ اگر نومبر 2023 میں قومی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو پھر نئے قومی انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں پر منعقد کیے جائیں، بادی النظر میں ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اگر ڈیجیٹل مردم شماری کا حتمی نوٹی فیکیشن جاری ہونے میں غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے تو پھر اگلے قومی انتخابات گذشتہ مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے کیونکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 51 (5) کہتا ہے کہ ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں آخری منظور شدہ مردم شماری کے سرکاری نتائج کے مطابق آبادی کی بنیاد پر مختص کی جائیں گی۔ اب جب کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہو رہے ہیں، لہٰذا مردم شماری کا مسئلہ زیر غور نہیں آئے گا۔ 2017 کی مردم شماری اور 2018 کی حلقہ بندیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
کنور دلشاد
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
#Election commission#Pakistan#Pakistan Elections#Pakistan Judiciary#Pakistan Politics#PDM#Politics#PTI#World
0 notes