#صافات
Explore tagged Tumblr posts
Text
هتل آپارتمان صافات مشهد یکی از هتل آپارتمان های با کیفیت خوب و نزدیک به حرم مطهر در مشهد مقدس می باشد و در زمره هتل آپارتمان های قیمت مناسب می باشد. این هتل آپارتمان در خیابان امام رضا 18 واقع شده است و کمتر از 20 دقیقه پیاده تا ورودی باب الرضا حرم مطهر فاصله زمانی دارد.
0 notes
Text
سبحان الخالق
سبحانه....ابدع فخلق فصور
سبحان الله
📌تخيل إن العصفورة والنسر والحمامة والبومة في جزء بسيط من مخها في حته قد بذرة البطيخ بيتم عمل الحسابات المعقدة دي كلها!
السرعة، الارتفاع، الحمولة، الوزن، الاتجاهات، البوصلة، التوقيتات، رادارات للبحث عن الغذاء والهرب من الأعداء، عدادات الهبوط والاقلاع
عدادات الطيران المرتفع والمنخفض، وكل ده من غير برج مراقبة ولا راديو ولا قمر صناعي ولا GPS ولا اي حاجه!
ويأتي احد الملحدين يقولك صدفة
او الحمامة طورت نفسها !!
ياخي ثكلتك امك
( اولم يروا الى الطير فوقهم صافات ويقبضن ما يمسكهن الا الرحمن انه بكل شيء بصير)
سوره الملك ١٩
_________ ___________________منقول
سبحانك ربى ما اعظمك
T
61 notes
·
View notes
Text
{ أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ}
( أولم يروا إلى الطير فوقهم صافات ) تصف أجنحتها في الهواء ( ويقبضن ) أجنحتها بعد البسط ( ما يمسكهن ) في حال القبض [ والبسط ] أن يسقطن ( إلا الرحمن إنه بكل شيء بصير )"
..البغوي-رحمه الله..
telegram.me/mn1406
2 notes
·
View notes
Text
لم تر أن الله يسبح له من في السماوات والأرض والطير صافات كل قد علم صلاته وتسبيحه والله عليم بما يفعلون .
3 notes
·
View notes
Text
منظر مهيب لقدرة الله سبحانة تذكر قوله تعالى آية ١٩ سورة الملك (أولم يروا الى الطير فوقهم صافات ويقبضن مايمسكهن الا الرحمن إنه بكل شي بصير) تشكلات مذهلة لطيور الـ زرزور تعرف هذه الظاهرة بإسم ((همهمة )) المثير أن العلماء حاولوا تطوير خواريزميات بالكومبيوتر لمحاولة فهم كيف تفعل الطيور ذلك لكنهم لم يصلوا لأي نتيجة ، وكل ما استطاعوا حسابه هو أن تلك الطيور تكون قادرة على ان تتخذ في الثانية 100 مليون عملية تفكير كي لاتصطدم ببعضها ولم تحدث حادثة واحدة قط.
(تبارك الله أحسن الخالقين)
11 notes
·
View notes
Video
youtube
اولم يروا الي الطير فوقهم صافات#احمد محمد احمد#shorts
0 notes
Text
تیزر مستند هنر مرموز - هنجار موسیقی
🔴Strange Art documentary teaser_The norm of music
#music#musician#documentary#teaser#pop#rock#psy#psycho#rapmusic#rap#rapper#تیزر#تیزر تبلیغاتی#مستند#رپ#راک#بلوز#صافات#metal#hiphop
6 notes
·
View notes
Text
(أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ) و إنما خص الله الطير بالذكر لانها تكون بين السماء و الارض فاذا طارت فهي خارجة عن جملة من في السماوات و الارض و لذا نص على هذه الحال(صافات).. كل ما و من يسير وفق منهج الله وعلى نور من الله لا يسعه الا ان يكون مسبحاً لله طائعاً خاضعاً له..مغبون من يختار درب الظلمات، وكل الحرمان بأن يلهج كل شيء بالتسبيح و تصمت انت.
جمعتكم عامرة بذكر الله 💚
54 notes
·
View notes
Text
سورة الملك تدعوك للتأمل في آيات الله ﷻ وبديع صنعه
انظر السماء: ﴿ولقد زينا السماء﴾
تأمل الأرض: ﴿جعل لكم الأرض ذلولا﴾
شاهد الطير: ﴿صافات ويقبضن﴾
تفكر في رزقك: ﴿أمن هذا الذي يرزقكم﴾
تبصّر في نفسك: ﴿هو الذي أنشأكم﴾
فتبارك الذي بيده المُلك والأمر.
[ متدبر ]
14 notes
·
View notes
Text
تأمل قليلاً في الصورة وانظر إلى العدد الكبير والمعقد فيها من العدادات والشاشات من أجل أن تطير فقط تخيل أن العصفور والنسر والحمامة والبومة لديهم جزء بسيط في المخ بحجم بذرة البطيخ ويتم فيها عمل كل !! هذه الحسابات المعقدة السرعة ، الارتفاع ، الحمولة ، الوزن ، الاتجاهات ، البوصلة ، التوقيتات ، رادارات للبحث عن الغذاء والهرب من الأعداء عدادات الهبوط والاقلاع ، عدادات الطيران المرتفع والمنخفض وكل هذا من غير برج مراقبة ولا راديو ولا قمر ! GPS صناعي ولا ..!!
ويأتي أحد الملحدين ويقول لك كل هذا مجرد صدفة او أن الحمامة قد طورت نفسها : قال تعالى ( أولم يروا إلى الطير فوقهم صافات ويقبضن ما يمسكهن إلا الرحمن إنه بكل شيء بصير ) .
(" صنع الله الذي أتقن كل شيء إنه خبير بما تفعلون")
4 notes
·
View notes
Text
#معاني_من_سورة_الملك.
-تبارك: تعاظم
-ليبلوكم: ليختبركم
-طباقاً: طبقات فوق بعضها دون تماس.
-تفاوت: اختلاف أو نقص.
-فطور: تصدع أو خلل.
-ينقلب: يرجع.
-خاسئاً: ذليلاً.
-مصابيح: نجوم.
-رجوماً للشياطين: أى جعل النجوم تستخدم لحرق الشياطين التى تسترق السمع من السماء(وهذا كان يحدث قبل مجئ سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم.)
-شهيقاً: صوتاً قبيحاً شديداً.
-ذلولاً: ساكنة لا تضطرب.
-مناكبها: أقطارها.
-حاصباً: حجارة من السماء.
-صافات ويقبضن: المقصود حال الطيور عندما تبسط وتقبض أجنحتها عند الطيران.
-لجوا فى عتو ونفور: أى تمادوا فى الطغيان والاستكبار.
-مكباً: أى مُنَكِّساً رأسه.
-زلفة: أى عندما رأوا جهنم قريبة منهم.
-سيئت : اسودت
غوراً: أى ذاهباً فى الأرض إلى أسفل بحيث لا يمكن استخراجه.(الغائر مضاد النابع).
13 notes
·
View notes
Text
من لطائف القران (ما يمسكهن الا الله)(ما يمسكهن الا الرحمن)
قوله تعالى في سورة الملك
أولم يروا إلى الطير فوقهم صافات ويقبضن ما يمسكهن إلا الرحمن انه بكل شيء بصير
قال بعض المفسرين
وإنما قال في « النحل » ما يمسكهن إلا الله [ الآية : 79 ] وفي هذه السورة ما يمسكهن إلا الرحمن لأن التسخير في جو السماء محض الآلهية ، وأما صافات وقابضات فكان إلهامها كيفية البسط والقبض على الوجه المطابق للمنفعة من رحمة الرحمن فناسب ذكر الرحمة هنا
اللهم اذقنا حلاوة القران
من لطائف القرآن
ملتقى أهل التفسير
2 notes
·
View notes
Text
{ أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ}
( أولم يروا إلى الطير فوقهم صافات ) تصف أجنحتها في الهواء ( ويقبضن ) أجنحتها بعد البسط ( ما يمسكهن ) في حال القبض [ والبسط ] أن يسقطن ( إلا الرحمن إنه بكل شيء بصير )"
..البغوي-رحمه الله..
telegram.me/mn1406
0 notes
Photo
غلط کار کونرمی سے سمجھانا چاہئے سوال:…ہم چند مسلمان کا رکن ہیں، جو اپنا اپنا وطن چھوڑ کر فرانس میں مقیم ہیں، ہم آپ میں خوف الہی اور اتباع سنت کی بنیا دپر جمع ہوئ�� ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم نے ایک ہال بھی حاصل کر لیا ہے جس میں ہم روزانہ کی پانچ نمازیں پڑھتے ہیں اور ہم نے اپنا ایک امام بھی مقرر کرلیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی کے اس نے اس ذمہ داری کا بھاری بوجھ اٹھایا جو اس کے کندھوں پرڈال دی گئی ہے۔ روزانہ کی پانچ نمازوں کے علاوہ یہاں وقتا وقتا وعظ و نصیحت پرمبنی درس بھی ہوتاق ہے۔ ہمار موجودہ مسئلہ یہ ہے کہ اس جماعت میں کچھ اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب ہم نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو نماز سے فورا بعد ہر شخص تینتیس (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ تینتیس (۳۳) مرتبہ الحمد اللہ اور تینتیس بار اللہ اکبر پڑھتا ہے یہ اس حدیث پر عمل کرنے کی نیت سے ہوتا ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : (( جَائَ الْفُقَرَائُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا ذَہَبَ أَہْلُ الدُّثُورِ مِنَ الْأَمْوَالِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَا وَالنَّعِیمِ الْمُقِیمِ یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّی وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ وَلَہُمْ فَضْلٌ مِنْ أَمْوَالٍ یَحُجُّونَ بِہَا وَیَعْتَمِرُونَ وَیُجَاہِدُونَ وَیَتَصَدَّقُونَ قَالَ أَلَا أُحَدِّثُکُمْ إِنْ أَخَذْتُمْ أَدْرَکْتُمْ مَنْ سَبَقَکُمْ وَلَمْ یُدْرِکْکُمْ أَحَدٌ بَعْدَکُمْ وَکُنْتُمْ خَیْرَ مَنْ أَنْتُمْ بَیْنَ ظَہْرَانَیْہِ إِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلَہُ تُسَبِّحُونَ وَتَحْمَدُونَ وَتُک��بِّرُونَ خَلْفَ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ فَاخْتَلَفْنَا بَیْنَنَا فَقَالَ بَعْضُنَا نُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ وَنَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ وَنُکَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِینَ فَرَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ تَقُولُ سُبْحَانَ اللّٰه وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَاللّٰه أَکْبَرُ حَتَّی یَکُونَ مِنْہُنَّ کُلِّہِنَّ ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ )) غریب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ’’مالدار لوگ اونچے درجے اور ہمیشہ کی نعمتیں لے گئے۔ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی نماز پڑھتے ہیں ، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں اور ان کے پاس ضرورت سے زائد مالہے جس سے وہ حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میں تم ایک بات نہ بتاؤں اگر تم اس پر عمل کرو گے تو ان لوگوں کے مقام تک پہنچجاؤ گے جو تم سے آگے بڑھ گئے ہیں اور تمہارے بعد کوئی تمہارے درجے تک نہیں پہنچ سکے گا ابور تم ان لوگوں میں بہترین ہوگے جن کے درمیان تم رہتے ہو، مگر جس نے ایسا ہی عمل کیا۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سبحان اللہ، الحمد اللہ اور اللہ اکبر کہو۔‘‘ یہ طریقہ جو حدیث میں آتا ہے اس کے مطابق ہر نمازی خاموشی سے یہ اذکار پڑھتا ہے اس کے بعد ہم سب مل کر سورۂ فاتح اور درود ابراہیمی پڑھتے ہیں اور آخر میں یہ پڑھتے ہیں: ((سُبْحَانَ رَبَّکَ رَبَّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُونَ وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِینْ وَالْحَمْدُ اللّٰہِ رَبَّ الْعَالَمِینَ)) ’’ ہم میں سے کچھ بھائی کہنے لگے: ’’ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ تم نے باجماعت یہ چیزیں پڑھتے کی بدعت ایجاد کی ہے تمہیں اس کا گناہ ہوگا اور قیامت تک جو بھی اس پر عمل کرے گا اس کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔‘‘ اب ہمیں اس بار میں فتوی دیجئے کہ کیا مل کر سورۂ فاتحہ ،درود ابراہیمی اور سورۂ صافات کی آخری تین آیتیں (آیت نمبر: ۱۸۰، ۱۸۱، ۱۸۲) پڑھنا سنت حسنہ ہے یا بدعت ہے؟ معاملہ یہیں تک نہیں رہا بلکہ ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نما ز میں بھی شریک نہیں ہوتے کہتے ہیں : ’’ہم اس وقت تک تمہارے ساتھ نماز نہیں پڑھیں گے جب تک تم یہ بدعت نہ چھوڑ دو ۔ ہمیں ضرور فتوی دیجئے تاکہ ہمارا موجودہ اختلاف ختم ہوجائے۔ اگر ہم غلطی پر ہیں تو ہم یہ کام بالکل چھوڑ دیں گے اور جو ہوسکا اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں گے اور اگر ہم صحیح موقف پر ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ وہ ان بھائیوں کو ہدایت دے اور مسلمانوں کے اس اختلاف کو ختم کرے جس سے ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ہے اور وہ بکھر کروہ گئے ہیں۔ جواب:…اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَس��وْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: آپ نے جوبیان کیا ہے کہ آپ مل کر سورت فاتحہ اور دورد ابراہیمی پڑھتے ہیں اور آخر میں یہ آیات پڑھتے ہیں: ((سُبْحَانَ رَبَّکَ رَبَّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُونَ وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِینْ وَالْحَمْدُ اللّٰہِ رَبَّ الْعَالَمِینَ)) ’’ یہ کام جائز نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل منقول نہیں‘‘ جن بھائیوں نے مذکورہ بالا بدعت کی وجہ سے آپ کے ساتھ نماز پڑھنا ترک کر دی ہے،ان کو ایسا نہیں کرنا چاہے تھا۔ بلکہ ان کا فرض تھا کہ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر اپنا فرض ادا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ اچھے طریقے سے نصیحت بھی کرتے رہتے ۔ اللہ تعالیٰ سب کی حالت درست کرے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوفَیقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَصَحھبِہِ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ، رکن : عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان ، نائب صدر : عبدالرزاق عفیفی، صدر : عبدالعزیز بن باز۔ ٭٭٭ فتویٰ (۸۹۴۶) فتاوی ابن باز ( ج ۲ ص ۳۳۱، ۳۳۲ ) #B200305 ID: B200305 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
دعا کی ضرورت اور افادیت
انسان زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف طرح کی مشکلات، تکالیف اور بیماریوں کا سامنا کرتا ہے۔ بہت سے لوگ اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں‘ اسی طرح بہت سے لوگ نفسیاتی عارضوں اور تکلیف دہ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ بہت سے لوگ مالی مشکلات کا بھی شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر کئی مرتبہ غم اور مایوسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ پردیس میں مشکلات کا شکار ہونے کی وجہ سے ذہنی بحرانوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں انسان دوسرے انسانوں کی مدد اور سہاروں کو تلاش کرتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کئی مرتبہ دوست احباب، اعزہ واقارب اور رشتہ داروں کی معاونت کے باوجود ان مسائل پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان جب پوری طرح بے بس ہو جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کرنے کی وجہ سے اللہ اس کے مصائب اور مشکلات کو دور فرما دیتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں دعا کی اہمیت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں واضح کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 186 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتا دیں) بے شک میں قریب ہوں‘ میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے ۔ پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان کی آیت نمبر 77 میں دعا کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ''آپ کہہ دیجئے کہ نہیں پروا کرتا تمہاری میرا رب اگر نہ ہو تمہارا پکارنا (اس کو)‘‘۔ دنیا میں خواہ انسان کتنا ہی صاحبِ وسائل اور صاحبِ حیثیت کیوں نہ ہو‘ وہ ہر انسان کی ضرورت کو پورا کرنے میں قادر نہیں ہوتا؛ چنانچہ بڑے سے بڑا متمول انسان بھی مانگنے والوں کی کثرت کی وجہ سے اکتا جاتا ہے جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر مانگنے والے کو اس کی ضرورت کے مطابق عطا فرماتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے دعا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سورہ مومن کی آیت 60 میں ارشاد فرمایا: ''اور فرمایا تمہارے رب نے: تم مجھے پکارو میں قبول کروں گا تمہاری (دعا، پکار) کو‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں دعاؤں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی سب سے افضل ہستیوں یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی مختلف دعاؤں کا بھی ذکر کیا ہے جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام مختلف تکالیف اور آزمائشوں کے مواقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں ہی آکر دعائیں مانگا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بڑھاپے کے عالم میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے اولاد ِ صالحہ کے لیے دعا مانگی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اولاد سے نواز دیا۔ جس کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ صافات کی آیات 100 تا 101 میں یوں کیا ہے: ''(اور کہا ابراہیم علیہ السلام نے ) اے میرے رب تو عطا فرما مجھے (ایک لڑکا) نیکوں میں سے۔ تو ہم نے خوشخبری دی اسے ایک بردبار لڑکے کی‘‘۔
اسی طرح جب سیدنا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں موجود تھے تو انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا مانگی جس کو اللہ نے قبول فرما کر آپ علیہ السلام کے غم کو دور فرما دیا اور رہتی دنیا تک اہلِ ایمان کے غموں کو بھی دور کرنے کے نوید سنائی۔ اس دعا کا ذکر سورہ انبیاء کی آیات 87 تا 88 میں یوں کیا گیا ہے: ''اور (یاد کیجئے) مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو جب وہ چلا گیا ناراض ہو کر‘ پس اُس نے سمجھا کہ ہرگز نہیں ہم تنگی کریں گے اس پر تو اس نے پکارا اندھیروں میں کہ کوئی معبود نہیں تیرے سوا ‘ تو پاک ہے‘ بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ تو ہم نے دعا قبول کر لی اس کی اور ہم نے نجات دی اسے غم سے اور اسی طرح ہم نجات دیتے ہیں ایمان والوں کو‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں سیدنا ایوب علیہ السلام کی بیماری کے بعد ان کی دعا کا ذکر کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرما کر ان کی تکلیف کو دور فرما دیا تھا اور ان کو اپنی نعمتوں سے بہرہ ور فرما دیا تھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیات 83 تا 84 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''جب اس (ایوب علیہ السلام) نے پکارا اپنے رب کو کہ بے شک پہنچی ہے مجھے تکلیف اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے رحم کرنے والوں میں۔ تو ہم نے دعا قبول کر لی اس کی‘ پس ہم نے دور کر دی جو اس کو تکلیف تھی ۔ اور ہم نے دیے اسے اس کے گھر والے اور ان کی مثل (اور لوگ بھی) ان کے ساتھ رحمت کرتے ہوئے اپنی طرف سے اور (یہ) نصیحت ہے عبادت کرنے والوں کے لیے‘‘۔ اللہ نے قرآنِ مجید میں اس واقعہ کو بھی بیان کیا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام سیدہ مریم علیہا السلام کی کفالت کیا کرتے تھے اور آپ صاحب اولاد نہ تھے۔ آپؑ جب سیدہ مریم علیہا السلام کے پاس آتے تو محراب میں ان کے پاس بے موسم پھلوں کو دیکھتے، ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے سیدہ مریم سے اس حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ پھل اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھیجے ہیں۔ اس منظر کو دیکھ سیدنا زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کے عالم میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے اولاد کی دعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑھاپے میں ان کو اولاد کی نعمت سے نواز دیا تھا۔
یہ واقعہ سورہ آل عمران کی آیات 37 تا 39 میں یوں بیان ہوا ہے: ''اور سرپرست بنایا اس کا زکریا کو جب کبھی داخل ہوتے زکریا علیہ السلام اس کے پاس حجرے میں (موجود) پاتے اس کے پاس کھانے پینے کی اشیا (یہ دیکھ کر ایک مرتبہ ) پوچھا: اے ''مریم ‘‘ کہاں سے (آتا ہے) تیرے پاس یہ (سب کچھ؟) وہ بولیں: یہ اللہ کی طرف سے ہے، بے شک اللہ رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے بے حساب۔ اسی جگہ(اسی موقع پر) دعا کی زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے (اور) کہا: اے میرے رب! عطا کر مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ (صالح) اولاد بلاشبہ تو دعا سننے (قبول کرنے) والا ہے۔ تو آواز دی اسے فرشتوں نے اس حال میں کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے عبادت گاہ میں کہ بے شک اللہ خوشخبری دیتا ہے آپ کو یحییٰ کی (جو) تصدیق کرنے والے ہیں اللہ کے ایک کلمہ (عیسیٰ علیہ السلام) کی اور (وہ) سردار اور عورتوں سے بے غبت ہوں گے اور نبی ہوں گے نیک لوگوں میں سے‘‘۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت وکردار میں ہم سب کے لیے نمونہ موجود ہے کہ ہمیں بھی اپنی مشکلات اور تکالیف میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارنا ہے۔
احادیث مبارکہ میں دعا کی قبولیت کے بہت سے خوبصورت واقعات موجود ہیں جن میں سے ایک پُراثر واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے: حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی (اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے) ۔ اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ ان تینوں لوگوں نے باری باری اللہ تعالیٰ سے اپنے اپنے نیک عمل کا ذکر کر کے دعا مانگی تو پہلے شخص کی دعا کے بعد پتھر کچھ ہٹ گیا۔ دوسرے شخص کی دعا کے بعد پتھر دو تہائی ہٹ گیا اور تیسرے شخص کی دعا کے بعد غار کا منہ کھل گیا اور تینوں شخص غار سے باہر آگئے۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر آن اور لحظہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سننے والے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات یقینا اپنے بندوں کے لیے کافی ہے۔ اس حقیقت کا ذکر سورہ زمر کی آیت 36 میں کچھ یوں ہوا ہے: ''کیا اللہ کافی نہیں ہے اپنے بندے کو‘‘۔ چنانچہ ہمیں بھی ہر آن اور ہر لحظہ اپنے پروردگار کو پکارتے رہنا چاہیے۔ اگر ہم مصائب اور تکالیف میں اس کو پکاریں گے تو یقینا ہمارا پروردگار ہماری دعاؤں کو سن کر تکالیف کو دور فرما دے گا۔ ہمارا معاشرہ اس وقت ایمانی اعتبار سے اس حد تک تنزلی کا شکار ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی تکالیف کو دور کرنے کے لیے مادی اسباب اور ذرائع کا استعمال تو کرتی ہیں لیکن اپنے پروردگار کے سامنے اپنی مشکلات کو دور کروانے کے لیے دعا کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتی اور اس طرزِ عمل کے نتیجے لوگوں کی مشکلات اور تکالیف برقرار رہتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ مادی تدابیر کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو رہتے ہیں‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی مشکلات اور غموں کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو مشکلات اور پریشانیوں میں دعا کرنے والا ب��ا دے، آمین !
علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
0 notes
Text
#AyahOfTheDay
👉🏻 #Dua Of Yunus A.S In The Belly Of The Whale - وہیل مچھلی کے پیٹ میں یونس علیہ السلام کی دعا
• Chapter No. 21 Al-Anbiyaa - الأنبياء ( The Prophets ), Verse No. 87
• Type: Meccan
• Total Ayat: 112
• Total Ruku: 07
• Revelation order: 73
وَذَا ٱلنُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَٰضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِى ٱلظُّلُمَٰتِ أَن لَّآ إِلَٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ
English - Tafsir Jalalayn
And, mention, Dh'l-Nn, the one of the whale, namely, Jonah son of Amittai (Ynus bin Matt) when he went off enraged ([Dh'l-Nn] is substituted by [the clause idh dhahaba mughdiban]) by his people, that is, furious with them because of what he had suffered at their hands -- even though he had not been granted permission [by God to go off as he did] -- thinking that We had no power over him, that is, that We could [not] compel him to [submit to] Our decree in the way that We did by imprisoning him inside the stomach of the whale; or that We could [not] make circumstances difficult for him. Then he cried out in the darknesses, [through] the darkness of the night, the darkness of the sea and the darkness of the whale's stomach, that: `There is no god except You! Glory be to You! I have indeed been one of the wrongdoers', for leaving my people without [Your] permission.
Urdu - Tafsir Ahsanul Bayaan
مچھلی والے (١) (حضرت یونس علیہ السلام) کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیے اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔ بالا آخر وہ اندھیروں (٢) کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا۔
٨٧۔١ مچھلی والے سے مراد حضرت یونس علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انہیں عذاب الٰہی کی دھمکی دے کر، اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے تھے، جس پر اللہ نے ان کی گرفت اور انہیں مچھلی کا لقمہ بنا دیا، اس کی کچھ تفصیل سورۃ یونس میں گزر چکی ہے اور کچھ سورہ صافات میں آئے گی۔
٨٧۔٢ ظلمات، ظلمۃ کی جمع ہے بمعنی اندھیرا ۔ حضرت یونس علیہ السلام متعدد اندھیروں میں گھر گئے۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔
#RahmaniGROUP
👉🏻Take Your Beliefs From The Qur'an And Sunnah, Sahih-Hadith...
✿ Join Our WhatsApp Group:
To Subscribe: Save +919731230908 & Text Us With, Your Name & City On WhatsApp ( •Separate Group For Sisters ).
0 notes