#س��نما
Explore tagged Tumblr posts
mansourwanders · 3 years ago
Photo
Tumblr media
'مجموعه کتیبه های ولادت حضرت زهرا (س) مزین به عبارت "یَا فٰاطِمَةُ الْزَهْرٰا" و برش هایی از شعر "فیض نخست و خاتمه نور جمال فاطمه" ____________________ فیض نخست و خاتمه نور جمال فاطمه چشم دل ار نظاره در مبدأ و منتهی کند صورت شاهد ازل معنی حسن لم یزل وهم چگونه وصف آیینه حق نما کند مطلع نور ایزدی مبدأ فیض سرمدی جلوه او حکایت از خاتم انبیا کند لیله قدر اولیا، نور نهار اصفیا صبح جمال او طلوع از افق عُلا کند بَضعه سید بشر امّ ائمه غُرَر کیست جز او که همسری با شه لافتی کند؟ وحی نبوّتش نسب، جود و فتوّتش حسب قصّه ای از مروّتش سوره «هل اتی» کند سروده؛ آية الله حاج شیخ محمد حسین غروى اصفهانى ____________________ کتیبه ی میانی: ابعاد:۷۰*٢٠٠سانتیمتر/قیمت: ٢٠٠ تومان کتیبه های طرفین: ابعاد:۱۵۰*۴۸ سانتیمتر/قیمت هرکدام:۱۵۰ تومان *قیمت مجموعه: ۵۰۰ تومان ◽تکنیک منحصر: چاپ کتیبه ها به صورت تمام چاپ انجام شده است. مشاهده و خرید تمامی محصولات از سایت http://moukebart.com #ولادت_حضرت_زهرا_سلام_الله_علیها #روز_مادر @moukebart' https://ift.tt/3fwEYGt
1 note · View note
emergingpakistan · 5 years ago
Text
چین میں کمیونسٹ پارٹی کا ستر سالہ اقتدار— تاریخ پر ایک نظر
عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کے حوالے سے وسیع پیمانے پر جشن منایا جا رہا ہے۔ سالگرہ کی مرکزی تقریب بیجنگ کے تاریخی تیانمان سکوائر میں منعقد کی گئی۔ اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اور چینی صدر شی جن پنگ نے اہم خطاب کیا جس کے بعد فوجی پریڈ اور عوامی پریڈ کا انعقاد کیا گیا۔ اپنے خطاب میں صدر شی جن پنگ نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت چینی قوم کو نہیں ہلا سکتی۔ کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کے شانہ بشانہ کھڑے شی جن پنگ کا کہنا تھا: ’ایسی کوئی طاقت نہیں ہے جو اس عظیم قوم کی اساس کو ہلا سکے۔ 
ایسی کوئی طاقت نہیں جو چینی عوام اور چینی قوم کو آگے بڑھنے سے ر��ک سکے۔‘ جہاں چین بھر میں سالگرہ کا عظیم الشان جشن منایا جا رہا ہے وہیں ہانگ کانگ اور جنوب مغربی صوبے سنکیانگ میں عوام کمیونسٹ پارٹی کی مطلق العنان طاقت سے خائف ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیسے ایک جماعت 70 سالوں سے اقتدار پر اپنی مضبوط گرفت نہ صرف قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ کمیونسٹ پارٹی نے اس آمریت نما جمہوریت میں اپنی قوت میں بے مثال اضافہ بھی کر لیا ہے۔ اس کا جواب شاید یہ ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے سوویت یونین میں اپنے کامریڈز کے برعکس خود کو ایک بدلتی دنیا میں ڈھالتے ہوئے 70 سالوں سے اقتدار پر مستحکم کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کا 70 سالہ اقتدار— تاریخ پر ایک نظر عوامی جمہوریہ چین اپنی 70 ویں سالگرہ منا رہا ہے، اس موقعے پر ہم تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ کیسے یہ جماعت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔  تقریباً تین دہائیوں تک چین کا اپنا طرزِ حکمرانی تھا جیسے ’ماؤ ازم‘ کہتے ہیں۔ عوامی جمہوریہ کے بانی ماؤ زے تنگ کے دور میں حکومت نے صنعتوں پر قبضہ کیا اور کسانوں کو اجتماعی طور پر منظم کیا گیا۔ 1958 میں ’گریٹ لیپ فارورڈ‘ دور کا آغاز ہوا جس میں زرعی اور صنعتی پیداوار بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے اور مزدوروں میں تحریک پیدا کی گئی تاہم اس کا اختتام قحط سے لاکھوں افراد کی ہلاکت پر ہوا۔ ماؤ نے 1966 میں ثقافتی انقلاب کا آغاز کیا جو اپنے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے کی تحریک تھی۔ یہ تحریک بھی ایک مصیبت میں تبدیل ہو گئی اور نوجوانوں پر مشتمل ’ریڈ گارڈز‘ نے ملک بھر میں تباہی مچا دی۔
ماؤ کی موت کے دو سال بعد پارٹی نے ماؤ ازم ترک کر دیا اور 1978 میں عظیم قائد ڈینگ ژیاؤپنگ کی رہنمائی میں ’اصلاحات اور نئے آغاز‘ کی پالیسی کا اجرا کیا۔ مارکیٹ پالیسیوں کے ایک سلسلے کے بعد معیشت نے ترقی کی منازل طے کیں، جس سے ملک میں نجی سرمایہ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی ریل پیل ہو گئی۔ امریکہ کے ولیمز کالج میں چینی سیاست میں ماہر پروفیسر سیم کرین نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’کمیونسٹ پارٹی کی ایک خاص سوچ ہے، جس کے مطابق کسی بھی حکومت کی بقا معاشی کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے اور معاشی کارکردگی کو عالمی معیشت کے ساتھ باہمی روابط کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ اس سوچ نے لاکھوں افراد کو غربت سے نکالا ہے جبکہ چین میں اب سینکڑوں ارب پتی موجود ہیں اور علی بابا اور ٹین سینٹ جیسی دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں کے مالک چینی افراد ہیں۔
چین کے اس سوشلزم نظام کے تحت ملک میں معاشی انقلاب برپا ہو گیا جہاں اب بڑے شہروں کی سڑکوں پر فراری گاڑیاں فراٹے بھرتی ��ظر آتی ہیں اور چینی شہری گوچی جیسے لگژری سٹورز پر خریداری کر سکتے ہیں۔ لیکن اس دوران ایک چیز نہیں بدلی اور وہ یہ کہ کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) نے کبھی معیشت کی لگام کو ڈھیلا نہیں چھوڑا۔ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق شی جن پنگ نے گذشتہ ہفتے اپنے بیان میں واضح کیا تھا کہ ملک کے تاریخی کارنامے پوری طرح سے ظاہر کرتے ہیں کہ صرف کمیونسٹ پارٹی ہی چین کی قیادت کر سکتی ہے۔ چین میں آج کمیونسٹ پارٹی کی جڑیں نجی کمپنیوں میں موجود ہیں اور سرکاری کمپنیاں آج بھی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ علی بابا کے ارب پتی بانی جیک ما بھی کمیونسٹ پارٹی کے نو کروڑ چھ لاکھ ارکان میں سے ایک ہیں۔
اگر کارل مارکس آج زندہ ہوتے اور جدید چین کو دیکھتے تو ان کے کیا تاثرات ہوتے؟ کرین نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’اگر مارکس آج زندہ ہو جائیں تو میرے خیال میں وہ کہیں گے کہ یہ ’سوشلسٹ‘ نہیں ہیں یعنی وہ ’کمیونزم‘ کے تاریخی راستے پر گامزن نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اسے مضبوط آمرانہ عناصر کے ساتھ ایک ’سخت ریاستی سرمایہ دارانہ نظام‘ میں تبدیل کر لیا ہے۔‘ ماؤ کی موت کا مطلب ایک شخص کی حکمرانی کا خاتمہ تھا۔ ڈینگ نے 1997 میں ان کی موت کے بعد ’اجتماعی قیادت‘ اور ’منظم جانشینی‘ کے نظام کی حمایت کی۔ جیانگ زیمین نے دو بار صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ان کے جانشین ہوجن تاؤ نے بھی اس نئی روایت کی تعمیل کی۔ لیکن موجودہ چینی صدر شی جن پنگ، ماؤ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سب سے طاقتور رہنما بننا چاہتے ہیں۔
’گریٹ ہیلسمین‘ کی طرح صدر شی نے بھی اپنی ذات اور شخصیت کی پذیرائی کے لیے سرکاری میڈیا کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ملک کے بانی کے پاس ’ماؤ زیڈونگ‘ سوچ تھی جبکہ موجودہ قیادت نے آئین میں چینی ساختہ سوشلزم کے ذریعے نئے دور کے لیے شی جن پنگ کی سوچ کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ ماؤ کے پاس ’چھوٹی سی سرخ کتاب‘ تھی لیکن صدر شی کے پاس اس کا 21 ویں صدی کا ورژن ہے جو ایک موبائل ایپلیکیشن ’سٹڈی شی‘ کی صورت میں موجود ہے، جس میں ان کی تعلیمات موجود ہیں۔ صدر شی نے بدعنوانی کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت ان کی اپنی پارٹی کے 15 لاکھ سے زیادہ عہدیداروں کو سزا دی گئی ہے۔ عام شہریوں کے لیے یہ ایک مقبول اقدام ہے لیکن مبصرین کے خیال میں یہ حریفوں سے نمٹنے کی ایک چال تھی۔ ماہرین کے مطابق شی جن پنگ صدارتی مدت کی حد کو ختم کر کے تاحیات صدر بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ معیشت کھولنے کو سیاسی اصلاحات کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔ چین میں اس سال ایک اور سالگرہ منائی جائے گی تاہم کمیونسٹ پارٹی اس بات کو یقینی بنانا چاہے گی کہ اس کو یاد نہ کیا جائے، یہ تیانمان سکوائر پر جمہوریت نواز مظاہرین پر وحشیانہ جبر کی 30 ویں سالگرہ ہے۔ صدر شی جن پنگ کی حکومت نے معاشرے پر بھی اپنی گرفت سخت کر دی ہے۔ ان کے طویل دورِ اقتدار میں سیاسی کارکنوں کو نظر بند کیا گیا ہے، انٹرنیٹ پر سنسرشپ عائد ہے یہاں تک کہ نوبیل امن انعام یافتہ سیاسی مخالف لیو زیاؤبو کو اُس وقت بھی رہا نہیں کیا گیا جب وہ جیل میں کینسر سے مر رہے تھے۔ شہریوں کی نگرانی کے لیے حکام چہرے کی شناخت جیسی ٹیکنالوجی کا تیزی سے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب سنکیانگ خطے میں مسلم اویغور نسلی گروہ نے بڑی مشکل سے یہ سیکھا ہے کہ حکومت کی مخالفت کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ وہاں دس لاکھ سے زیادہ افراد کو حراستی کیمپوں میں اس لیے رکھا گیا ہے تاکہ نام نہاد دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note · View note
mwhwajahat · 3 years ago
Text
دھاگے جیسی بیٹری جسے ایک کلومیٹر جتنا لمبا بنایا جاسکتا ہے
دھاگے جیسی بیٹری جسے ایک کلومیٹر جتنا لمبا بنایا جاسکتا ہے
ٹیکنالوجی کے تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل لچکدار بیٹریوں کا ہی ہوگا۔ اس ضمن میں میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی ) کے ماہرین نے ایک دھاگہ نما بیٹری بنائی ہے جو 140 میٹرطویل ہے اور اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی ہے۔ اس س قبل انہوں نے 20 میٹر طویل دھاگہ بیٹری بنائی ہے۔اب کمپیوٹر اور برقی آلات ہمارے جسم کا حصہ یوں بن چکے ہیں کہ اب انہیں برقی پہناوے ’ویئرایبل‘ کہا جاتاہے۔ یہی وجہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
دھاگے جیسی بیٹری جسے ایک کلومیٹر جتنا لمبا بنایا جاسکتا ہے - اردو نیوز پیڈیا
دھاگے جیسی بیٹری جسے ایک کلومیٹر جتنا لمبا بنایا جاسکتا ہے – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین بوسٹن: ٹیکنالوجی کے تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل لچکدار بیٹریوں کا ہی ہوگا۔ اس ضمن میں میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی ) کے ماہرین نے ایک دھاگہ نما بیٹری بنائی ہے جو 140 میٹرطویل ہے اور اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی ہے۔ اس س قبل انہوں نے 20 میٹر طویل دھاگہ بیٹری بنائی ہے۔ اب کمپیوٹر اور برقی آلات ہمارے جسم کا حصہ یوں بن چکے ہیں کہ اب انہیں برقی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
asliahlesunnet · 3 years ago
Photo
Tumblr media
نماز کی شرائط اور ارکان جب ہم امریکہ پہنچے تو قطب نما کے مطابق نماز ادا کرتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے رہے ہیں ۔ اب کیا ہونا چاہیے؟ سوال: جب ہم امریکہ پہنچے توقطب نما کے مطا بق نماز ادا کرتے رہے۔ حالانکہ یہ قبلہ کا رخ نہ تھا۔ وہاں ہمارے کچھ مسلمان بھائی تھے ۔ انہوں نے ہمیں بتلایا کہ جدھر منہ کر کے ہم نماز ادا رکرتے رہے ہیں یہ قبلہ کا رخ نہیں ہے۔ پھر انہوں نے صحیح رخ کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ میرا سوال یہ ہے کہ قبلہ کا صحیح رخ پہنچاننے سے قبل جو نمازیں ادا کرچکے ہیں وہ صحیح ہیں یا نہیں؟ محمد۔ع ۔ی۔امریکہ جواب: جب مومن کسی صحرا میں ہو یا ایسی بستی میں جہاں قبلہ کارخ مشتبہ ہو رہا ہو ، پھر وہ صحیح رخ معلوم کرنے کے لیے پوری کوشش کرنے کے بعد اپنے اجہتاد کے مطابق نماز ادا کر لے۔ پھر اس کے بعداس پر یہ واضح ہوجائے کہ اس نے نماز غیر قبلہ کی طرف ادا کی ہے تو اب وہ اپنے بعد والے اجہتاد کے مطا بق عمل کر ے۔ کیونکہ اس نے وہ نمازیں حق کی تلاش اور اجہتاد کے بعد ادا کی تھیں اور یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے عمل سے ثابت ہے جبکہ قسبلہ کی سمت بیت المقدس سے کعبہ المشرفہ کی طرف بدلی تھی۔ جو اسی بات پر دلالت کرتی ہے۔ تو فیق تو اللہ تعالیٰ ہی دینے والا ہے۔ میں نے ہوائی جہاز میں فرض نماز بیٹھ کر اشارے سے ادا کی اور میں قبلہ کارخ نہیں پہنچانتا تھا اب اس کا کیا حکم ہے؟ سوال: مجھے ایک مہم پر جانا پڑا اور نماز کا وقت ہوگیا۔ میں اس وقت ہوائی جہاز میں تھا اور س کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ میں نے بیٹھے بیٹھے سر کے اشارویں سے نماز ادا کر لی۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میرا رخ کس طرف ہے مجھے امید ہے کہ آپ میری نماز کی صحت کے متعلق مستفید فرمائیں گے اور اگر اس طرح نماز درست نہ ہو تو کیا میرے لیے یہ گنجائش ہے کہ میں نماز کو ہوائی جہاز سے اترنے تک موخر کرلوں۔؟ معمس۔ ع۔ جدہ جواب: مسلم پر واجب ہے کہ جب وہ ہوائی جہاز یاصحرا میں ہو تو علامات قبلہ اہل خبرو نظر سے پوچھ کر قبلہ پہچاننے میں اجہتاد کر ے۔ تاکہ علی وجہ البصیرت قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کر سکے ۔ پھر اگر اسے اس کا علم نہ ہو سکے تو قبلے رخ کی جستجو میں اجہتاد کرے اور اس طر ف منہ کر کے نماز ادا کرے۔ یہ اس کے لیے کافی ہے خواہ بعد میں یہ معلوم ہو کہ اد نے قبلہ کی تلاش میں خطا کی ہے کیونکہ اس نے پوری کوشش کر لی اور جہاں تک ممکن تھا اللہ سے ڈرتا رہا۔ اس کے لیے اجہتاد کے بغیر نماز فریضہ اد ا کرنا درست نہیں خواہ وہ صحرا میں ہو یا ہوائی جہاز میں ، اور اگر اس نے اجہتاد کے بغیر نماز ادا کی تو اس کا اعادہ ضروری ہے کیونکہ اس صورت میں نے تووہ اللہ سے ڈرا ور نہ ہی ممکن حد تک اس نے کوشش کی۔۔ رہا سائل کا نماز بیٹھ کر ادا کرنے کا سوال ، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جبکہ وہ کھڑے ہوکر نماز ادا نہ کر سکتا ہو جیسے کشتی یا بحری جہاز میں نماز ادا کرے والا اگر کھڑا ہو کر پڑھنے سے عاجز ہو تو بیٹھ کر ادا کر سکتا ہے اور اس مسئلہ میں حجت اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ ’’ اللہ تعالیٰ سے ڈرو،، جہاں تک تم سے ہوسکے۔‘‘ (التغابن:۱۶) اور ہوائی جہاز سے اترنے تک نماز کو موخر اس صورت میں کر سکتا ہے جبکہ نماز کے وقت گنجائش ہو ۔ اور یہ سب مسائل فرض نمازوں سے متعلق ہیں۔ رہے نوافل توان میں قبلہ رخ ہونا واجب نہیں خواہ وہ ہوائی جہاز میں ہو یا بس میں یاکسی جانور پر سوار ہو ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ اپنے اونٹ پرنفل پڑھ لیا کرتے تھے۔ جدھر وھی وہ جارہا ہوتا لیکن آپ حالت احرام میں یہی بات پسند فرماتے تھے کہ ایک دفعہ رخ ہو جائیں پھر اس کے بعد جدھر سواری جاتی آپ اپنی نماز پوری فرمالیتے تھے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جو کچھ ثابتے ہوتا ہے واہ اسی دلالت کرتا ہے۔ فتاوی ابن باز ( ج ۱ ص ۵۷، ۵۸ ) #B100026 ID: B100026
0 notes
sindhishia · 4 years ago
Photo
Tumblr media
*اسان جي معاشري ۾ وڌندڙ براين خاص ڪري نياڻين جي لڄا لٽ جا سبب* سڀ کان اھم ۽ مک سبب منھنجي نظر ۾ تعليم ۽ تربيت جو فقدان آهي ڇو جو تعليم ئي انسان جي فڪر کي بلند ڪري صحيح رستي تي گامزن ڪرڻ جو بهترين سبب آهي ۽ ھا تعيلم سان گڏوگڏ تربيت جو ھجڻ نھايت لازمي آهي توھان کوڙ سارا تعليم يافته ڏنا ھوندا جيڪي معاشري ۾ نہ رڳو پاڻ بدعمل بد اخلاقي ڪندا آهن ويتر ٻين نوجوانن کي بہ برن عمل جي رغبت ڏياريندا آھن انجو سبب تعليم سان گڏ تربيت جو فقدان آهي افسوس سان چوڻو ٿو پوي تہ اسانجي تعليمي ادارن ۾ جديد دور جي تقاضائن جي مطابق تعليم کي تہ بھتر کان بھتر ڪرڻ جي ڪوشش ڪئي پئي وڃي پر تربيت تي ڪنھن جو ڌيان ڪونھي نتيجي ۾ اسان جا ٻار وڏا ٿي ڊگريون تہ حاصل ڪري ٿا وٺن پر براين کان بداعمالين کان ڪون ٿا بچن، ضرورت ان ڳالھ جي آھي تہ تعليم سان گڏوگڏ تربيت ۽ تربيت ڪندڙن جو مڪمل انتظام ڪيو وڃي. *ھڪ ٻيو اھم ۽ مک سبب دين کان دوري آهي دين جي تعليمات تي عمل نہ ھجڻ ئي وڏو سبب آهي جنهن جي نتيجي ۾ اسان جي معاشري ۾ برايون وڌنديون ٿيون وڃن ھر روز ڪا نہ ڪا حوا جي نياڻي ڪنهن وحشي جي لڄالٽ جو شڪار بڻجي ٿي وڃي انڪري والدين کي گذارش اھا آھي پنھنجي گھرن ۾ نياڻين توڙي پٽن کي دين اسلام جي احڪامن تي عمل ڪرايو، ٽي وي ڊرامن جي بيھودا پروگرامن کان پنهنجي اولاد کي بچايو. نياڻين کي حجاب مطلب مڪمل شرعي پردو سيکاريو ۽ عمل ڪرايو ڇو جو پردي ۾ ئي عزت بہ آھي تہ الله پاڪ جي حڪم تي عمل ڪرڻ جو اجر ۽ ثواب بہ، اگر پردو نہ ڪرائيدو تہ پوءِ ظاھري ڳالھ آ توهان جي نياڻي ٻاھر انسان نما ڪنهن نہ ڪنھن جانور جي نظر ۾ اچي ويندي ۽ پوء جانور پنھجي حوس کي پوري ڪرڻ لاء ضرور ڪا حرڪت ڪندو، اسانجي معاشري ۾ نياڻين سان بدسلوڪي يا خود نياڻين جو غلط قدم کڻي گھران فرار ٿيڻ جي ھڪ ٻي وجہ فطرت جي تقاضا آهي اھا انھن جي وقت تي فطري ضرورت کي پورو نہ ڪرڻ آھي ڇو انسان مرد ھجي يا عورت الله پاڪ ان ۾ جنسي سڪون لاء خاص عمر ۾ پھچڻ تي شھوت رکي آھي پوء جيڪڏهن اھا ضرورت پوري نہ ٿيندي تہ ضرور اھي غلط قدم کڻڻ تي مجبور ٿيندا لھذا والدين انھي نقطي جي طرف بہ توجہ ڪن ۽ پنهنجي اولاد جي بروقت شادي جو بندوبست ڪري انھن جي ان فطري ضرورت کي پورو ڪن تہ جيئن ھو غلط قدم کڻڻ تي مجبور نہ ٿين ۽ پٽن کي بہ گھٽ ۾ گھٽ اھڙو پابند بڻايو جو ٻي ڪنهن جي نياڻي کي اک کڻي نہ ڏسن ڇو دنيا مڪافات عمل جو ميدان آهي ٻين لفظن ۾ جھڙي ڪرڻي تھڙي ڀرڻي مطلب اگر توهان ٻئي ڪنھنجي نياڻي جي عزت محفوظ رکندو تہ توھان جي نياڻي بہ محفوظ رھندي* ھڪ آخري سبب جيڪو ايترو اھم نہ آهي قانون تي عمل نہ ٿيڻ گناہ گار (مجرم) کي س https://www.instagram.com/p/CHdWzkcFTQA/?igshid=gdl8k2yyo9bx
0 notes
gcn-news · 5 years ago
Text
شمشیر بے نیام، قسط نمبر 26
Tumblr media
آزاد نے کمرے کا دروازہ ذرا کھولا اور باہر دیکھا ۔اس غلام گردش کے اگلے سرے پر��یک پہرہ دار کھڑا رہتا تھا۔ وہ سائے کی طرح کھڑا نظر آ رہا تھا۔صاف پتا چلتا تھا کہ اس طرف اس کی پیٹھ ہے۔ آزاد اپنے کمرے سے نکلی اور دبے پاؤں اسود کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ہلکی روشنی والا ایک فانوس جل رہا تھا۔اسود پیٹھ کے بل بستر پر پڑا خراٹے لے رہا تھا۔مؤرخ بلاذری نے اس دور کی تحریروں کے دو حوالے دے کر لکھا ہے کہ جب آزاد اسود کو دیکھ کر واپس آئی تو اس کاانداز ایسا تھا،جیسے ایک شعلہ آیا ہو۔یہ انتقام اور نفرت کا شعلہ تھا۔’’آؤ فیروز !‘‘اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’وہ بے ہوش پڑا ہے۔‘‘فیروز آزاد کے ساتھ کمرے سے نکل گیا اور دبے پاؤں آزاد کے پیچھے اسود کے کمرے میں داخل ہوا۔اسود جنگلی سانڈ جیسا انسان تھا ۔کمرے میں شراب اور گناہوں کا تعفن تھا۔جانے ایسے کیوں ہوا ،اسود بیدار ہو گیا۔ اپنے وزیر اور اپنی حسین ایرانی بیوی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا ۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ آزاد کو وہ قابلِ اعتماد سمجھتا تھا۔فیروز کو دیکھ کر اسے کچھ شک ہوا ہو گا۔’’اس وقت کیا مصیبت آ گئی ہے؟‘‘اسود نے نشے سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔فیروز نے ایک لمحہ ضائع نہ کیا۔تلوار کھینچی اور پوری طاقت سے اسود کی گردن پر وار کیا۔اسود نے گردن بچا لی اور تلوار ا اس کے ننگے سر پر لگی۔اسود کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلیں اور بستر سے لڑھک کر دوسری طرف گرا۔غلام گردش میں دوڑتے قدموں کی دھمک سنائی دی۔ آزاد تیزی سے باہر نکلی اور دروازہ بند کر لیا۔پہرہ دار دوڑا آ رہا تھا۔آزاد نے تیزی سے آگے بڑھ کرپہر دار کو روک لیا ۔کمرے سے اسود کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں ۔’’واپس اپنی جگہ چلے جاؤ۔‘‘آزاد نے پہرہ دار کو تحکمانہ لہجے میں کہا۔’’رحمٰن الیمن کے پاس فرشتہ آیا ہوا ہے۔وحی نازل ہو رہی ہے ۔جاؤ ادھر نہ آنا۔‘‘ مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ پہرہ دار نے احترام سے سر جھکا لیا اور چلا گیا۔آزاد اندر آئی تو دیکھا کہ اسود فرش سے اٹھ کر بستر پر گر رہا ہے ،اور فیروز دوسرے وار کیلئے آگے بڑھ رہا ہے ۔اسود بستر پرگر پڑا ۔اس کا سر پلنگ کے بازوپر تھااور سانڈوں کی طرح ڈکار رہا تھا۔’’تم اسے مار نہیں سکو گے فیروز ۔‘‘آزاد نے آگے بڑھ کر کہااور اسود کے بال جو لمبے تھے۔ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کو کھینچے اور وہ خود فرش پر بیٹھ گئی۔’’ اب فیروز، گردن کاٹ دو۔‘‘فیروز نے ایک ہی وار سے اسود کی گردن صاف کاٹ کر سر جسم سے الگ کر دیا۔فیروز کے ساتھیوں قیس عبدیغوث اور داذویہ کو معلوم تھا کہ آج رات کیا ہونے والا ہے۔فیروز نے اسود کا سر اٹھایا اور ان دونوں کے ہاں جا پہنچا۔محافظوں اور پہرہ داروں کو رحمٰن الیمن کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے محل کو محاصرے میں لے لیا۔آزاد فیروز کے ساتھ رہی۔ محل میں بھگدڑ مچ گئی۔حرم کی عورتوں کا ہجوم چیختا چلاتا باہر کو بھاگا۔ ادھر رسول اﷲﷺ کے بھیجے ہوئے قیس بن ہبیرہ اور دبر بن یحنس سرکردہ ��سلمانوں کو بغاوت پر آمادہ کر چکے تھے اور دن رات زمین دوز سرگرمیوں سے مسلمانوں کے حوصلے بحال کر چکے تھے۔اگلی صبح صادق میں کچھ وقت باقی تھا ۔محل کی چھت سے اذا ن کی آواز بلند ہوئی ۔لوگ حیران ہوئے کہ محل میں اذان؟لوگ محل کی طرف دوڑے ۔اسود کی فوج حکم کی منتظر تھی لیکن حکم دینے والا قیس عبدیغوث تھا۔وہی سپہ سالار تھا ۔اس نے فوج کو باہر نہ آنے دیا۔اسود کا سر محل کے باہر لٹکا دیا گیا ۔محل کی چھتوں سے للکار بلند ہو رہی تھی ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں اوراسود عنسی کذاب ہے ۔‘‘اسود کے پیروکاروں پر خوف طاری ہو گیا اور مسلمان مسلح ہو کر نکل آئے اور انہوں نے یمنیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔مصر کے مشہور صحافی اور سابق وزیرِ معارف محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب’’ ابو بکرؓ۔ صدیق اکبرؓ‘‘میں فیروز کی زبانی ایک روایت پیش کی ہے۔ فیروز نے کہا تھا۔’’اسود کو قتل کر کے ہم نے وہاں کا انتظام پہلے کی طرح رہنے دیا۔ یعنی جس طرح اسود کے تسلط سے پہلے تھا ۔ہم نے قتل کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ معاذؓ بن جبل کو بلایا کہ وہ ہمیں با جماعت نما زپڑھائیں ۔ہم بے انتہا خوش تھے کہ ہم نے اسلام کے اتنے بڑے دشمن کو ختم کر دیا ہے ۔لیکن اچانک اطلاع ملی کہ رسولِ خداﷺ وصال فرما گئے ہیں ۔اس خبر سے یمن میں ابتری سی پھیل گئی۔‘‘فیروز کو مسلمانوں نے صنعاء کا حاکم مقررکردیا۔ یہ واقعہ مئی ۶۳۲ء کا ہے۔قیس بن ہبیرہ اور دبر بن یحنس جون ۶۳۲ء کے دوسرے ہفتے میں یہ خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے کہ جھوٹا نبی اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور یمن پر اسلامی پرچم لہرا دیا گیا ہے لیکن مدینہ سوگوار تھا ۔۵ جون ۶۳۲ء )۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری( رسولِ خداﷺ وصال فرما گئے تھے۔رسول اﷲﷺ کے وصال کی خبر جوں جوں پھیلتی گئی،یہ جنگل کی آگ ہی ثابت ہوئی۔جہاں پہنچی وہاں شعلے اٹھنے لگے۔یہ شعلے بغاوت کے تھے۔ایک تو اسلام کے دشمن تھے جنہوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز کردیں۔دوسرے وہ قبائل تھے جنہوں نے صرف اس لئے اسلام قبول کیا تھا کہ ان کے سردار مسلمان ہو گئے تھے۔ایسے قبیلے اتنے زیادہ نہیں تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کر لیا تھا۔باقی تمام قبیلے اسلام سے نہ صرف منحرف ہو گئے بلکہ انہوں نے مدینہ کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کر دیا اور مدینہ پر حملہ کی باتیں کرنے لگے۔ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے باغی قبیلوں کو پیغام بھیجے کہ وہ اسلام کو نہ چھوڑیں ۔قاصد جہاں بھی گئے وہاں سے انہیں جواب ملا کہ ہمارا قبولِ اسلام صرف ایک شخص)رسولِ کریمﷺ(کے ساتھ معاہدہ تھا۔وہ شخص نہیں رہا تو معاہدہ بھی نہیں رہا۔اب ہم آزاد ہیں اور ہم اپنا راستہ اختیار کریں گے۔تیسرا اور سب سے خطرناک فتنہ جھوٹے مدعیان نبوت کا تھا۔رسولِ کریمﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ان کی پشت پناہی رومی،ایرانی اور یہودی کر رہے تھے۔ان جھوٹے نبیوں میں ایک خوبی مشترک تھی ۔وہ شعبدے باز اور جادوگر تھے۔شعبدے بازی اور جادو گری میں یہودی ماہر تھے۔اَسوَد عنسی کا ذکر ہو چکا ہے۔وہ بھی شعبدہ باز تھا۔نبوت کے دوسرے دو دعویدار طلیحہ اور مسیلمہ تھے۔مسیلمہ خاص طور پر شعبدے بازی میں مہارت رکھتا تھا۔ایسے شعبدے پہلے کوئی نہ دکھا سکا تھا۔مثلاًوہ پرندے کے پر اس کے جسم سے الگ کر کے دکھاتا پھر پرندے اور پروں کو اکھٹے ہاتھوں میں لے کر اوپر پھینکتا تو پر پرندے کے ساتھ ہوتے اور وہ پرندہ اڑ جاتا۔مسیلمہ بد صورت انسان تھا۔اس کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے یہ انسان کا نہیں حیوان کا چہرہ ہو۔خدوخال بھی حیوانوں جیسے تھے۔اس کا قد چھوٹا تھا۔چہرے کا رنگ زرد تھا لیکن اس کے جسم میں غیر معمولی طاقت تھی۔اس کی آنکھیں غیر قدرتی طور پر چھوٹی اور ناک چپٹی تھی۔یہ ایک بھدے آدمی کی تصویر ہے جسے کوئی بد صورت انسان بھی پسند نہیں کر سکتا۔مگر جو عورت خواہ وہ کتنی ہی حسین اور سرکش کیوں نہ ہوتی ،اس کے قریب جاتی تو اس کی گرویدہ ہو جاتی اور اس کے اشاروں پر ناچنے لگتی تھی۔مسیلمہ نے رسول اﷲﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کیا تھا،اور دو قاصدوں کے ہاتھ ایک خط ان الفاظ میں لکھا تھا:’’مسیلمہ رسول اﷲ کی جانب سے،محمدرسول اﷲ کے نام! آپ پر سلامتی ہو۔بعدہٗ واضح ہو کہ میں رسالت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہوں ۔لہٰذہ نصف زمین میری ہے اور نصف قریش کی ۔مگر قریش انصاف نہیں کر رہے۔‘‘رسول اکرمﷺ نے خط پڑھا اور قاصدوں سے پوچھا کہ مسیلمہ کے اس عجیب و غریب پیغام کے متعلق ان کی کیا رائے ہے؟’’ہم وہی کہتے ہیں جو خط میں لکھا ہے۔‘‘ایک قاصد نے جواب دیا۔’’خداکی قسم!‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’اگر قاصدوں کے قتل کو میں روا سمجھتا تو تم دونوں کے سر تن سے جدا کر دیتا۔‘‘ آپﷺ نے مسیلمہ کو اس خط کے جواب میں لکھوایا:’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم!محمد رسول اﷲﷺ کی جانب سے ،مسیلمہ کذاب کے نام۔زمین اﷲ کی ہے،وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔‘‘اس کے بعد مسیلمہ کو سب’’ کذاب‘‘ کہنے لگے اور اسلام کی تاریخ نے بھی اسے ’’مسیلمہ کذاب‘‘ ہی کہا ہے۔رسولِ خداﷺ ان دنوں بسترِ علالت پہ تھے۔آپﷺ نے ضروری سمجھا کہ جس شخص نے یہ جسارت کی ہے کہ رسولِ کریمﷺ سے زمین کا مطالبہ کر دیا ہے ،اس کی سرگرمیوں اور لوگوں پراس کے اثرات کو فوراً ختم کیا جائے۔آپﷺ کی نگاہ ایک شخص نہاراً الرّجال پر پڑی۔اس شخص نے اسلام قبول کرکے دین کی تعلیم حاصل کی تھی۔قرآن کی آیات پر اسے عبور حاصل تھااور وہ عالم و فاضل کہلانے کے قابل تھا۔رسولِ مقبولﷺ نے اسے بلا کر ہدایات دیں کہ وہ یمامہ جائے اور لوگوں کو اسلامی تعلیم دے۔آپﷺ نے الرّجال کو اچھی طرح سمجھایا کہ مسیلمہ کے اثرات زائل کرنے ہیں تاکہ خون خرابے کے بغیر ہی یہ شخص گمنام اور اس کا دعویٰ بے اثر ہو جائے۔رسول اﷲﷺ کے حکم کی تعمیل میں الرّجال روانہ ہو گیا۔مسیلمہ بن حبیب جو مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہوا تھا۔رات کو اپنے درب��ر میں بیٹھاتھا۔شراب کا دور چل رہا تھا۔دربار میں اس کے قبیلے کے سرکردہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔وہ سب اسے اﷲ کا رسول مانتے تھے۔اس نے اپنے مذہب کو اسلام ہی کہا تھا۔لیکن کچھ پابندیاں ہٹا دی تھیں مثلاً اس نے اپنی ایک آیت گھڑ کر اپنے پیروکاروں کو سنائی کہ اس پر وحی نازل ہو ئی ہے کہ شراب حلال ہے ۔دیگر عیش و عشرت کو بھی اس نے حلال قرار دے دیا ہے۔اس کا دربار جنت کا منظر پیش کر رہا تھا۔نہایت حسین اور جوان لڑکیاں اس کے دائیں بائیں بیٹھی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں۔مسیلمہ کسی لڑکی کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اور کسی کے گالوں کو تھپک کر بات کرتا تھا۔ایک آدمی دربار میں آیا ،وہ بیٹھا نہیں کھڑا رہا۔سب نے اس کی طرف دیکھا ۔مسیلمہ نے جیسے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھی ہو ۔اسے معلوم تھا کہ وہ کسی کے کہے بغیر بیٹھ جائے گا مگر وہ کھڑا رہا۔’’کیاتو ہم پر پہرہ دینے آیا ہے؟‘‘مسیلمہ نے اسے کہا۔’’یا تو اﷲ کے رسول کے حکم کے بغیربیٹھ جانا بد تہذیبی سمجھتا ہے۔‘‘’’اﷲ کے رسول!‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ایک خبر لایا ہوں……مدینہ سے ایک آدمی آیا ہے۔وہ بہت دنوں سے یہاں ہے اور وہ ان لوگوں کو جنہوں نے کبھی اسلام قبول کیا تھا،بتاتا پھر رہا ہے کہ سچا رسول محمدﷺ ہے اور باقی سب کذاب ہیں ۔میں نے خود اس کی باتیں سنی ہیں ۔اس کا نام نہاراً الرّجال ہے۔‘‘ نہاراً الرّجال؟‘‘دربارمیں بیٹھے ہوئے دو آدمی بیک وقت بولے پھر ایک نے کہا۔’’وہ مسلمانوں کے رسولﷺ کا منظورِ نظر ہے ۔میں اسے جانتا ہوں ۔اس کے پاس علم ہے۔‘‘’’ایسے شخص کو زندہ نہ چھوڑیں ۔‘‘دربار میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے گرج کر کہا۔’’اے خدا کے رسول! ‘‘ایک اور آدمی نے اٹھ کر کہا۔’’کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ میں اس بد بخت کا سر کاٹ کر تیرے قدموں میں رکھ دوں؟‘‘’’نہیں۔‘‘مسیلمہ کذاب نے کہا ۔’’اگروہ عالم ہے اور اس نے محمد)ﷺ( کے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہے تو میں اسے کہوں گا کہ میرے دربار میں آئے اور مجھے جھوٹا ثابت کرے۔میں اسے قتل نہیں ہونے دوں گا ……اسے کل رات میرے پاس لے آنا۔اسے یقین دلانا کہ اسے قتل نہیں کی جائے گا۔‘‘الرّجال کو مسیلمہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اسے اﷲ کے رسول مسیلمہ بن حبیب نے اپنے ہاں مدعو کیا ہے۔’’کیا وہ میرے قتل کا انتظام یہیں نہیں کر سکتا تھا؟‘‘الرّجال نے کہا۔’’میں اسے اﷲ کا رسول نہیں مانتا ۔مجھ پہ یہ لازم نہیں کہ میں اس کا حکم مانوں۔‘‘’’وہ جہاں چاہے تمہیں قتل کرا سکتا ہے۔‘‘مسیلمہ کے ایلچی نے کہا۔’’اس میں یہ طاقت بھی ہے کہ پھونک مار دے تو تیرا جسم مردہ ہو جائے ۔وہ تجھے زندہ دیکھنا اور رخصت کرنا چاہتا ہے۔‘‘مسلمانوں نے الرجال سے کہا کہ وہ اس کذاب کے ہاں نہ جائے۔ ’’یہ میری زندگی اور موت کا سوال نہیں۔‘‘الرجال نے کہا۔’’یہ صداقت اور کذاب کا سوال ہے۔اگر ایک کذاب کو صدق سے بہرہ ور کرنے میں میری جان چلی جاتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔‘‘’’میں آؤں گا۔‘‘الرجال نے کہا۔’’آج ہی رات آؤں گا۔مسیلمہ سے کہنا کہ تواگر سچا نبی ہے تو اپنے وعدے سے پھر نہ جانا۔‘‘ایلچی نے مسیلمہ کذاب کو الرجال کا جواب بتایا۔الرجال یمامہ کے قلعے میں رہتا تھا۔مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ مسیلمہ اپنے خاص مہمانوں کیلئے بڑا خوشنما خیمہ نصب کرایا کرتا تھا۔��س کی ساخت مکان جیسی ہوتی تھی ۔یہ خیمہ اندر سے بڑے دلفریب طریقوں اور کپڑوں سے سجایا جاتا تھا۔صحرا کی راتیں سرد ہوتی تھیں۔اس لیے مسیلمہ خیمہ میں بڑا خوبصورت آتشدان رکھوادیا کرتا تھا۔اس آتشدان میں وہ کوئی چیز یا ایسی جڑی بوٹی رکھ دیا کرتا تھا،جس کی خوشبو عطر کی طرح کی ہوتی تھی،لیکن یہ خوشبو اس پر ایسا اثر کرتی تھی جیسے اس خیمے میں سونے والے کو ہپناٹائز کرلیاگیا ہو۔مسیلمہ کا شکار بے ہوش یا بے خبر نہیں ہوتا تھا،بلکہ وہ مسیلمہ کے اشاروں پر ناچنے لگتا تھا۔خود مسیلمہ پر اس کا یہ اثر نہیں ہوتا تھا۔مسیلمہ کذاب کو جب یہ اطلاع ملی کہ الرجال آ رہا ہے تو اس نے اپنا مخصوص خیمہ نصب کرایا اور اس میں وہ تمام انتظامات کرا دیئے جو وہ کرایا کرتا تھا۔اس نے رات کیلئے آتش دان بھی رکھوادیا۔ الرجال آیا تومسیلمہ نے باہر آ کر اس کا استقبال کیا۔’’تم ایک رسول کے بھیجے ہوئے آدمی ہو۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’اور میں بھی رسول ہوں۔اس لیے تمہارا احترام میرا فرض ہے۔‘‘’’میں صرف اسے رسول مانتا ہوں جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔‘‘الرجال نے کہا۔’’اور میں تمہیں یہ کہتے ہوے نہیں ڈروں گا کہ تم کذاب ہو۔‘‘مسیلمہ مسکرایا اور الرجال کو خیمے میں لے گیا۔ تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ خیمے میں مسیلمہ اور الرجال کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔کیسی سودے بازی یا کیسا شعبدہ یا جادو تھا کہ اگلی صبح جب الرجال خیمے سے نکلا تو تو اس کے منہ سے پہلی بات یہ نکلی کہ’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیلمہ اﷲ کا سچا رسول ہے،اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘اس نے یہ بھی کہا ’’میں نے محمد)ﷺ( کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسیلمہ سچا نبی ہے۔‘‘الرجال کی حیثیت صحابی کی سی تھی اس لیے مسلمانوں نے اس پر اعتبار کیا،الرجال بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا ۔الرجال کا اعلان سن کر بنو حنیفہ کے لوگ جوق در جوق مسیلمہ کو اﷲ کارسول مان کر اس کی بیعت کو آگئے۔؁مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسیلمہ نے یہ سوچ کر الرجال کو قتل نہیں کرایا تھا کہ وہ عالم ہے اور صحابی کا درجہ رکھتا ہے ۔اگر اسے ہاتھ میں لے لیا جائے تو بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔چنانچہ اس شخص کو ہاتھ میں لینے کیلئے آتشدان کا اور اپنی زبان کا جادو چلایا اور الرجال کو اپنا دستِ راست بنالیا۔الرجال نے مسیلمہ کی جھوٹی نبوت میں روح پھونک دی۔اکثر ماں باپ اپنے نوزائیدہ بچوں کو رسولِ کریمﷺ کے پاس لاتے اور آپﷺ بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔الرجال نے مسیلمہ کذاب کو مشورہ دیا کہ وہ بھی نوزائیدہ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا کرے۔مسیلمہ کو یہ بات اچھی لگی،اس نے کئی نوزائیدہ بچوں اور بچیوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ بچے جب سنِ بلوغت میں داخل ہوئے تو ان کے سروں کے بال اس طرح جھڑ گئے کہ کسی مرد یا عورت کے سر پر ایک بھی بال نہ رہا۔اس وقت تک مسیلمہ کو مرے ہوئے زمانہ گزر گیاتھا۔اس دوران ایک عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔اس کا نام سجاّع تھا۔وہ الحارث کی بیٹی تھی۔اسے اُمِ سادرہ بھی کہا جاتا تھا۔اس کی ماں عراق کے ایک قبیلے سے تھی اور باپ بنو یربوع سے تعلق رکھتا تھا۔الحارث اپنے قبیلے کا سردار تھا۔سجاع بچپن سے خودسر اورآزاد خیال تھی۔وہ چونکہ سرداروں کے خاندان میں جنی پلی تھی اس لئے دوسروں پر حکم چلانا اس کی سرشت میں شامل تھا۔وہ غیر معمولی طور پر ذہین اور عقلمند نکلی۔ایک دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ غیب دان بھی تھی اور وہ آنے والے وقت کو قبل از وقت جان لیتی تھی۔اس کے متعلق اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے ۔لیکن یہ بات سب نے متفقہ طور پر کہی ہے کہ سجاع قدرتی طور پر شاعرہ تھی ہر بات منظوم کرتی تھی۔اس کی زبان میں چاشنی تھی ۔اس کی ماں کا قبیلہ عیسائی تھا اس لئے سجاع نے بھی عیسائیت کو ہی پسند کیا۔سجاع کے کانوں میں یہ خبریں پڑیں کہ طلیحہ اور مسیلمہ نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگ ان کی بیعت کر رہے ہیں تو اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔وہ جوان ہو چکی تھی۔خدا نے اسے دیگر اوصاف کے علاوہ حسن بھی دیاتھا۔اس کے سراپا اور چہرے پر ایسا تاثر تھا کہ لوگ اس سے مسحور ہو کر اسے نبی مان لیتے تھے۔بہت سے لوگ اس کی شاعری سے متاثر ہوئے۔وہ صرف نبی بن کے کہیں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔اس نے اپنے پیروکاروں کی ایک فوج تیار کرلی،اور بنی تمیم کے ہاں جا پہنچی،ان قبائل کے جو سردار تھے،وہ رسولِ اکرمﷺ کے مقرر کیے ہوئے تھے۔یہ تھے زبرقان بن بدر، قیس بن عاصم، وکیع بن مالک اور مالک بن نویرہ۔سجاع نے مالک بن نویرہ کو اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ وہ مدینہ کو تہہ تیغ کرنے آئی ہے اور بنی تمیم اس کا ساتھ دیں- مالک بن نویرہ نے اسے بتایا کہ کئی قبیلے اسے پسند نہیں کرتے۔پہلے انہیں زیر کرنا ضروری ہے۔سجاع زیرکرنے کا مطلب کچھ اور سمجھتی تھی۔اس کے پاس اچھا خاصا لشکر تھا۔مالک نے اس میں اپنی فوج شامل کردی اور قبیلوں کی بستیوں پر حملہ آور ہوئے۔قبیلے ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے گئے لیکن سجاع نے انہیں یہ کہنے کے بجائے کہ اسے نبی مانیں ان کے گھر لوٹ لیے اور ان کے مویشی چھین لیے ۔اس مالِ غنیمت سے اس کا لشکر بہت خوش ہوا۔ اس کی لوٹ مار کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔سجاع ایک مقام نباج پہنچی اور اس علاقے کی بستیوں میں لوٹ مار شروع کر دی۔لیکن یہ قبیلے متحد ہو گئے اور سجاع کو شکست ہوئی۔وہ ایک اور حملہ کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ایک مجبوری کا سامنا تھا۔اس کے لشکر کے کئی سرداروں کو نباج کے قبیلوں نے پکڑ کر قید میں ڈال دیا تھا۔سجاع نے اپنا ایلچی ان قیدیوں کی رہائی کیلئے بھیجا۔ ’’پہلے اس علاقے سے کوچ کرو۔‘‘قبیلوں کے سرداروں نے ایلچی سے کہا۔’’تمہیں تمہارے قیدی مل جائیں گے۔‘‘سجاع نے یہ شرط قبول کرلی اور اپنے سرداروں کو آزاد کراکے اس علاقے سے نکل گئی۔اس کے سرداروں نے اس سے پوچھا کہ اب کدھر کا ارادہ ہے؟’’یمامہ۔‘‘سجاع نے کہا۔’’وہاں مسیلمہ بن حبیب کوئی شخص ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کررکھا ہے۔اسے تلوار کی نوک پر رکھنا ضروری ہے۔‘‘’’لیکن یمامہ کے لوگ جنگ و جدل میں بہت سخت ہیں۔‘‘ایک سردار نے اسے کہا۔’’اور مسیلمہ بڑا طاقتور ہے۔‘‘سجاع نے کچھ اشعار پڑھے جن میں اس نے اپنے لشکر سے کہا تھا کہ ہماری منزل یمامہ ہے۔مسیلمہ کذاب نے اپنے جاسوسوں کو دور دور تک پھیلایا ہوا تھا۔اسے یہ اطلاع دی گئی کہ ایک لشکر یمامہ کی طرف بڑھاآ رہا ہے۔مسیلمہ نے یہ معلوم کرا لیا کہ یہ سجاع کا لشکر ہے۔اس نے الرجا ل کو بلایا۔’’کیاتم نے سنا کہ سجاع کا لشکر آ رہا ہے الرجال؟‘‘مسیلمہنے کہا۔’’لیکن میں ان سے لڑنا نہیں چاہتا۔تم جانتے ہو کہ اس علاقے میں مسلمانوں کی فوج موجود ہے جس کا سالار عکرمہ ہے۔کیا ہمارے لیے یہ بہتر نہیں ہو گا کہ سجاع اور عکرمہ کی لڑائی ہو جائے اور جب دونوں لشکر آپس میں الجھے ہوئے ہوں ،اس وقت ہم اُس پر حملہ کر دیں؟‘‘’’اگر ان کی ٹکر نہ ہوئی تو تم کیا کرو گے؟‘‘الرجال نے کہا۔’’پھر میں سجاع کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کروں گا۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔صورت وہی پیدا ہو گئی۔سجاع اور عکرمہ ؓکی فوجیں ایک دوسرے سے بے خبر رہیں اور سجاع یمامہ کے بالکل قریب آ گئی۔مسیلمہ نے اپنا ایک ایلچی سجاع کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ سجاع اس سے ملنے اس کے پاس آئے تاکہ دوستی کا معاہدہ کیا جا سکے۔سجاع نے جواب بھیجا کہ وہ آ رہی ہے۔لیکن مسیلمہ کو قبل از وقت اطلاع مل گئی کہ سجاع اپنے لشکر کو ساتھ لا رہی ہے۔اس نے سجاع کو پیغام بھیجا کہ کہ لشکر کو ساتھ لانے سے میں یہ سمجھوں گا کہ تم دوستی کی نیت سے نہیں آ رہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہو کہ اپنے چند ایک محافظوں کوساتھ لے آؤ۔’’یا رسول !‘‘مسیلمہ کے ایک درباری نے اسے کہا۔’’سنا ہے کہ سجاع کا لشکر اتنا بڑا ہے کہ یمامہ کی وہ اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔‘‘’’اور یہ بھی سنا ہے۔‘‘اک اور نے کہا۔’’ وہ قتل و غارت کرکے اور لوٹ مار کرکے آگے چلی جاتی ہے۔اس سے وہی محفوظ رہتا ہے جو اس کی نبوت کو تسلیم کرلیتا ہے۔‘‘ ’’کیا تم مجھے ڈرا رہے ہو؟‘‘مسیلمہ نے پوچھا۔’’کیا تم یہ مشورہ دینا چاہتے ہو کہ میں اپنی نبوت سے دستبردار ہو کر اس کی نبوت کو تسلیم کرلوں؟‘‘’’نہیں اﷲ کے رسول۔‘‘اسے جواب ملا۔’’ہمارا مطلب احتیاط سے ہے۔وہ کوئی اپنا ہاتھ نہ دکھا جائے۔‘‘مسیلمہ نے قہقہہ لگایا اور کہا۔’’تم شاید میری صورت دیکھ کر مشورہ دے رہے ہو۔کیا تم مجھے کوئی ایسی عورت دکھا سکتے ہو جو میرے پاس آئی ہو اور میری گرویدہ نہ ہو گئی ہو……سجاع کو آنے دو۔وہ آئے گی ۔جائے گی نہیں ……اور وہ زندہ بھی رہے گی۔‘‘وہ آ گئی اور وہ لشکر کے بغیر آئی۔یمامہ کے لوگوں نے اسے دیکھا اور آوازیں سنائی دیں۔’’اتنی خوبصورت اور طرحدار عورت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی……اگر نبوت حسن پر ملتی ہے تو اس عورت کو نبوت مل سکتی ہے۔‘‘اس کے ساتھ چالیس محافظ تھے ۔جو اعلیٰ نسل کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ایک سے ایک خوبصورت جوان تھا۔کمر سے تلواریں لٹک رہی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔سجاع جب قلعے کے دروازے پر پہنچی تودروازہ بند تھا۔اسے دیکھ کر بھی کسی نے دروازہ نہ کھولا۔’’کیا ایسا آدمی خدا کا رسول ہو سکتاہے جو مہمان کو بلا کر دروازہ بند رکھتا ہے؟‘‘سجاع نے بلند آواز سے کہا۔’’کیا وہ نہیں جانتا کہ وہ اس عورت کی توہین کر رہا ہے جسے خدا نے نبوت عطا کی ہے؟‘‘’’معزز مہمان!‘‘ قلعے کے اوپر سے آواز آئی۔’’تم پر سلامتی ہو۔ہمارے رسول نے کہا ہے کہ محافظ باہر رہیں اور مہمان اندر آ جائے۔‘‘’’دروازہکھول دو۔‘‘سجاع نے دلیری سے کہااور اپنے محافظوں سے کہا ۔’’تم سب قلعے سے دور چلے جاؤ۔‘‘’’لیکن ہم ایک اجنبی پر کیسے اعتبار کر سکتے ہیں؟‘‘محافظ دستے کے سردار نے کہا۔’’اگر سورج غروب ہونے تک میں واپس نہ آئی تو اس قلعہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دینا۔‘‘سجاع نے کہا۔’’اور اس شہر کے ایک بچے کو بھی زندہ نہ چھوڑنا۔میری لاش کو مسیلمہ اور اس کے خاندان کے خون سے نہلاکہ یہیں دفن کر دینا……لیکن مجھے یقین ہے کہ میں قلعہ سے کچھ لے کر نکلوں گی۔‘‘محافظ چلے گئے اور دروازہ کھل گیا۔مگر اس کے استقبال کیلئے مسیلمہ موجود نہیں تھا۔اس کے حکم پر دروازے پر کھڑے دو گھوڑ سوار اسے قلعے کے صحن میں لے گئے۔ جہاں ایک چوکور خیمہ نصب تھا۔اس کے اردگرد درخت اور پودے تھے اور نیچے گھاس تھی۔سجاع کو خیمے میں داخل کر دیا گیا۔اندر کی سجاوٹ نے اسے مسحور کر دیا مگر مسیلمہ وہاں نہیں تھا۔وہ بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعد مسیلمہ خیمہ میں داخل ہوا۔سجاع نے اسے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔اس مسکراہٹ میں تمسخر تھا۔سجاع نے اتنا بد صورت آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا۔اتنے چھوٹے قد کا آدمی شاذونادر ہی کبھی نظر آتا تھا۔ ’’کیا تم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘سجاع نے اس سے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’دعویٰ کرنا کچھ اور بات ہے۔‘‘مسیلمہ نے سجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔’’یہ سچ ہے کہ میں خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔میں محمد )ﷺ(کو رسول نہیں مانتا۔لیکن اس نے اپنی رسالت منوالی ہے۔لوگ اس لیے مان گئے ہیں کہ قبیلہ قریش کی تعداداور طاقت زیادہ ہے۔انہوں نے اب دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘طبری نے چند ایک حوالوں سے لکھا ہے کہ مسیلمہ نے سجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔اس کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ تھی۔بہت عرصہ بعد سجاع نے کسی موقع پر کہا تھا کہ’’ اس نے اتنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈالیں تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ٹھگنا سا یہ بد صورت آدمی پُراسرار سا ایک اثر بن کر آنکھوں کے راستے میرے وجود میں اتر رہا ہے۔مجھے اطمینان سا ہونے لگا کہ یہ شخص مجھے قتل نہیں کرے گا۔کچھ اور وقت گزرا تو اس احساس نے جیسے مجھے بے بس کر دیا کہ میں اس کے وجود میں سما جاؤں گی اور میرا وجود ختم ہو جائے گا۔‘‘’’اگر تم نبی ہو تو کوئی الہامی بات کرو۔‘‘سجاع نے کہا۔’’تم نے کبھی سوچا ہے کہ تم کس طرح پیدا ہوئی تھیں؟‘‘مسیلمہ نے ایسے انداز سے کہاجیسے شعر پڑھ رہا ہو۔’’تم نے شاید یہ بھی نہیں سوچا کہ جس طرح تم پیدا ہوئی تھیں اس طرح تم بھی انسانوں کو پیدا کرو گی مگر تنہا نہیں……مجھے خدا نے بتایا ہے۔اس نے قرآن کی آیات کی طرز کے الفاظ بولے۔وہ ایک زندہ وجود سے زندہ وجود پیدا کرتا ہے۔پیٹ سے ۔انتڑیوں سے۔خدا نے مجھے بتایا ہے کہ عورت مانند ظرف کے ہے جس میں کچھ ڈال کر نکالا جاتا ہے ورنہ ظرف بیکار ہے۔‘‘سجاع مسحور ہوتی چلی گئی۔مسیلمہ شاعروں کے لب و لہجے میں باتیں کرتا رہا۔سجاع نے محسوس ہی نہ کیا کہ مسیلمہ ا سکے جذبات کو مشتعل کر رہا ہے اور وہ یہ بھی محسوس نہ کر سکی کہ سورج غروب ہو چکا ہے۔’’مجھے یقین ہے کہ تم آج رات یہیں رہنا چاہو گی۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’اگر چہرے دیکھنے ہیں تو تم دن ہو میں رات ہوں ،مگر تم نے اس پر بھی غور نہیں کیاہو گا کہ دن پر رات کیوں غالب آ جاتی ہے اور دن اپنا سورج رات کی تاریک گود میں کیوں ڈال دیتا ہے؟یہ ہر روز ہوتا ہے۔اس کا وقت مقررہے۔رات سورج کی چمک دمک کو کھا نہیں جاتی۔بڑ ے پیار سے اسے جگا کر دوسرے افق پر رکھ دیتی ہے۔‘‘’’ہاں مسیلمہ! ‘‘سجاع نے کہا۔’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں مان لوں کہ تم سچے نبی ہو۔اتنا بد صورت آدمی اتنی خوبصورت باتیں نہیں کر سکتا۔کوئی غیبی طاقت ہے جو تم سے اتنی اچھی باتیں کرا رہی ہے۔‘‘وہ چونک پڑی اور بولی۔’’سورج غروب ہو گیا ہے ،اگر میں نے قلعے کی دیوار پر کھڑے ہو کر اپنے محافظوں کو یہ نہ بتایا کہ میں زندہ ہوں تو تمہاری بستیوں کی گلیوں میں خون بہنے لگے گا۔‘‘مسیلمہ نے اسے اپنے دو محافظوں کے ساتھ قلعے کی دیوار پر بھیج دیا اور خیمے میں رکھا ہوا آتش دان ��لانے کا حکم دیا۔��انوس بھی روشن ہو گئے۔مسیلمہ نے آتش دان میں چھوٹی سی کوئی چیز رکھ دی۔کمرے میں خوشبو پھیلنے لگی۔ سجاع واپس خیمہ میں آئی تو اس پر خمار سا طاری ہونے کیا۔وہ عام سی عورتوں کی طرح رومان انگیز باتیں کرنے لگی۔’’کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم میاں بیوی بن جائیں؟‘‘مسیلمہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔’’اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔‘‘سجاع نے مخمور سی آواز میں جواب دیا۔صبح طلوع ہوئی تو سجاع اس انداز سے باہر نکلی جیسے دلہن اپنی پسند کے دولہا کے ساتھ ازدواجی زندگی کی پہلی رات گزار کر نکلی ہو۔قلعے میں شادیانے بجنے لگے۔سجاع کے لشکر تک یہ خبر پہنچی کہ سجاع نے مسیلمہ کے ساتھ شادی کرلی ہے۔یہ شادی اسلام کیلئے بہت بڑا خطرہ بن گئی۔ارتداد کے دو لشکر متحد ہو گئے لیکن یہ اتحاد جلدی بکھر گیا کیونکہ مسیلمہ نے سجاع کو دھوکا دیا اور وہ دل برداشتہ ہو کر عراق اپنے قبیلے چلی گئی۔مسیلمہ نے اپنے لیے ایک بہت بڑے خطرے کو ختم کر دیا تھا ۔سجاع کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ نبوت کے دعویٰ سے دستبردار ہو گئی۔بعد میں وہ مسلمان ہو گئی اور کوفہ چلی گئی تھی۔اس نے بڑی لمبی عمر پائی اور متقی اور پارسا مسلمان کی حیثیت سے مشہور رہی۔ (جاری ھے) Read the full article
0 notes
pdfurdunovels-blog · 5 years ago
Photo
Tumblr media
Radha By Muhammad Tariq Khan رادھا مصنف محمد طارق خان
رادھا
قسط نمبر 1
مصنف محمد طارق خان
میں کئی دن سے محسوس کر رہا تھا کوئی نادیدہ وجود ہے جوہر وقت میرے آس پاس رہتا ہے خاص کر تنہائی میں۔ چلتے ہوئے لگتا کوئی میرے ساتھ چل رہا ہے۔ اکثر میرے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ، مڑ کر دیکھتا تو کوئی نہ ہوتا۔ گھر سے باہر یہ احساس مزید قوی ہو جاتا۔ رات کے کسی پہر اچانک میری آنکھ کھل جاتی، کمرے سے باہر قدموں کی چاپ سنائی دیتی جیسے کوئی چل پھر رہا ہے۔ دروازہ کھول کر دیکھتا تو کوئی نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ ایک اور تبدیلی بھی میں نے محسوس کی۔ ہر وقت میرے اردگرد گلاب کی مہک موجود رہا کرتی۔ آفس میں۔۔۔گھر میں۔۔۔راہ چلتے ہوئے مسلسل گلاب کی مسحور کن خوشبو میرے آس پاس رہا کرتی۔
یہ سب میرے ملتان سے واپس آنے کے بعد شروع ہوا تھا۔ ہوا یوں کہ ہیڈ آفس نے مجھے ملتان بھیجا۔ وہاں کا ایک بھاری زمیندار ہمارے بینک کی برانچ میں اکاؤنٹ کھولنا چاہتا تھا لیکن اس کے کچھ تحفظات تھے۔ مجھے اسے مطمئن کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ضلع خانیوال کے نواح میں اس کی سینکڑوں ایکڑ اراضی تھی۔ دیہات کے لوگ علی الصبح جاگنے کے عادی ہوتے ہیں اسی لیے ان کا ہر کام بہت صبح شروع ہو جاتا ہے۔ مذکورہ زمیندار علی نواز ڈاھا نے صبح چھ بجے کا ٹائم دیا تھا۔ اسی لیے میں رات ہی کو روانہ ہوگیا۔ بس فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا ۔تقریباً سارے مسافر سو رہے تھے ۔کئی تو باقاعدہ خراٹے نشر کر رہے تھے۔ میری سیٹ ڈرائیور کے بالکل پیچھے تھی۔ دوران سفر مجھے نیند نہیں آتی لیکن نہ جانے اس د�� کیسے مجھ پر غنودگی چھا گئی۔
اچانک ڈرائیور نے بریک لگائے ،سو میل فی گھنٹہ سے زیادہ تیز رفتار سے چلنے والی بس تقریباً الٹتے الٹتے بچی۔ میرا سر زور سے ڈرائیور کی سیٹ کی پشت سے ٹکرایا اور آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے۔ جو مسافر سو رہے تھے وہ سیٹوں سے نیچے آرہے۔ ٹائروں کے زمین کے ساتھ رگڑ کھانے کی زوردار آواز کے ساتھ ربڑ کے جلنے کی بو بھی محسوس ہوئی۔
مسافر ڈرائیور کو برا بھلا کہنے لگے۔ بس سڑک کے بیچوں بیچ آڑھی ترچھی رکی ہوئی تھی۔ رات کا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا تھا۔ بس کا انجن بند ہونے کی وجہ سے اس کی لائٹس بھی آف ہو چکی تھیں۔ ڈرائیور دونوں ہاتھ سٹیرنگ پر رکھے یوں ساکت بیٹھا تھا جسے انسان نہیں پتھر کا مجسمہ ہو۔
’’کیا بات ہے استاد! نیند آگئی تھی۔۔۔؟‘‘ میرے ساتھ بیٹھا مسافر جو سیٹ سے لڑھک کے نیچے جا گرا تھا اٹھتے ہوئے بولا۔‘‘یا نشہ کررکھا ہے، ابھی بس الٹ جاتی تو ایک بھی زندہ نہ بچتا۔‘‘ اس نے ڈرائیور کو ڈانٹا۔
دیگر مسافربھی ڈرائیور کو کوس رہے تھے۔ لیکن وہ سب سے بے نیاز سڑک کوگھور رہا تھا۔ بس کا مالک پچھلی سیٹ پر سو رہا تھا۔ جلدی سے لنگڑاتا ہوا آگے آیا شاید اسے بھی چوٹ لگی تھی۔ اس نے جھک کر ڈرائیور کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ یوں اچھلا جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ پھر خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
’’کیا بات ہے استاد کیا ہوا؟‘‘ اسنے ڈرائیور کی حالت کے پیش نظر آہستہ سے پوچھا۔
’’وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔وہاں سامنے ‘‘ ڈرائیور کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔
’’وہاں کیا۔۔۔شاید تجھے نیند آگئی ہوگی‘‘ اس نے ناگواری سے کہا ’’چل پیچھے آجا۔۔۔میں چلاتا ہوں۔ کئی بار کہا ہے نیند آئے تو بتا دیا کر شرمایا نہ کر۔۔۔چل پیچھے۔ اللہ کا شکر ہے بچت ہوگئی ورنہ تو نے تو مروانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔‘‘
’’سائیں رمضان! میں اللہ پاک کی قسم کھاتا ہوں میں جاگ رہا تھا۔ نیند آئے تومیں کبھی ڈرائیورنگ سیٹ پر نہیں بیٹھتا۔ وہاں سڑک کے درمیان ایک جوان لڑکی کھڑی تھی۔ روشنی پڑی تو میں نے بریک لگائے۔ پر میرے خیال وہ۔۔۔وہ بس کے نیچے آگئی ہے۔‘‘ وہ بری طرح گھبرایا ہوا تھا۔
’’اللہ خیر ۔۔۔رمضان جلدی سے نیچے اتر گیا۔ اس کی دیکھا دیکھی کئی مسافر بھی اتر گئے۔ میں بھی نیچے آگیا۔ رات کی تاریکی میں کچھ دیکھنا مشکل تھا۔ سڑک کی دونوں طرف شاید کھیت تھے کیونکہ دور دور تک کسی عمارت کا ہیولہ تک نظر نہ آرہا تھا۔
اچانک مجھے گلاب کی خوشبو محسوس ہوئی میرا وجود جیسے معطر ہوگیا۔’’شاید قریب ہی گلاب کے پودوں کا فارم ہوگا۔‘‘ میرے دل میں خیال آیا۔
رمضان بس سے ٹارچ نکال لایا تھا اور اس کی روشنی سڑک پر ڈال رہا تھا۔ وہ تھوڑی دور چل کر گیا پھر واپس آگیا۔’’چلو۔۔۔چلو بیٹھوکچھ بھی نہیں ہوا‘‘ اس نے مسافروں سے کہا اورسب پر چڑھ گیا۔ جن میں سے کئی موقع سے فائدہ اٹھا کر رفع حاجت کے لیے سڑک کے کنارے بیٹھ گئے تھے۔ خیر ان کے آنے پر رمضان نے ’’چلو استاد‘‘ کا نعرہ لگایا، ڈرائیور نے بس سٹارٹ کی تو گھر رررگھرررکی آواز آئی لیکن انجن سٹارٹ نہ ہو��۔ کئی بار کوشش کرنے پر بھی نتیجہ وہی رہا۔ ’’ستیاناس۔۔۔‘‘ رمضان بڑبڑایا اور نچیے اتر کر اس نے بونٹ اٹھا دیا کافی دیر ٹارچ کی روشنی میں جائزہ لیتا رہا کچھ پرزوں کو اس نے ٹھوک بجا کر دیکھا۔’’چل استاد! سلف مار‘‘ اس کی چیختی آواز باہر سے سنائی دی۔ لیکن ہر کوشش بے سود ثابت ہوئی۔‘‘
نیچے آکر خود ہی دیکھ اس مصیبت کو‘‘ اس نے ڈرائیور کی کھڑکی کے پاس آکر کہا۔ دسمبر کا مہینہ تھا یخ بستہ موسم میں ا س بے چارے کی قلفی جم گئی تھی۔
’’نن۔۔۔نہیں میں نیچے نہیں اتروں گا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ سڑک کے درمیان ایک نوجوان لڑکی کھڑی تھی۔ بریگ لگانے کے باوجود بس اس کے اوپر سے گزر گئی۔‘‘ اس کی گھبراہٹ کسی طور کم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔ اس بار رمضان بھی پریشان ہوگیا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی میں بس کے آگے والے حصے کوغور سے دیکھا، جھک کر بمپر کو دیکھنے کے بعد اس کا منہ بن گیا۔‘‘تو پاگل تو نہیں ہوگیا استاد! اگرکوئی لڑکی بس سے ٹکرائی ہوتی تو اس کا خون بس کے باڈی پر ضرور لگتا سمجھ میں آئی بات۔۔۔چل نیچے اتر کر انجن دیکھ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔‘‘ اسنے ڈرائیور کو برا بھلا کہتے ہوئے نیچے آنے کو کہا۔ مسافروں کے اصرار پر وہ کپکپاتا ہوا نیچے اتر تو گیا لیکن خوفزدہ نظروں سے دائیں بائیں دیکھا رہا تھا جیسے اس لڑکی کی روح اسے بھی کھا جائے گی۔ مالک کے ڈانٹنے پر وہ چلا تو گیا تھا پر خوف کی اس حالت میں اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہتا تو ممکن نہ تھا۔
رمضان نے اس کی سیٹ سنبھال کر انجن سٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن لا حاصل۔ مسافر بھی پریشان ہوگئے۔ آدھی رات کا وقت ۔۔۔ویران سڑک۔۔۔کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ خاص کر وہ مسافرجن کے ساتھ خواتین تھیں بری طرح ڈرے ہوئے تھے۔
اچانک بجلی زور سے چمکی اورایک لمحے کے لیے آنکھوں کو خیرہ کر گئی۔ اس کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔’’مصیبت پر مصیبت‘‘ رمضان بڑبڑایا۔ ڈرائیور جلدی سے بھاگتا ہوا اندر آیا اور ڈرائیونگ سیٹ کے پاس سٹول نما سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کھڑکیاں دروازے بند ہونے کے باوجود یخ بستہ ہوا نے کپکپا کر رکھ دیا۔ بس خاص نئی اور آرام دہ تھی انجن کی خرابی سمجھ سے باہر تھی۔ شاید ڈیڈ بریک لگانے کی وجہ سے کوئی تار وغیرہ اکھڑ گئی تھی۔ میں نے جب سے سگریٹ نکال کر سلگایا جس سے سردی کا احساس کچھ کم ہوگیا۔ بجلی کی کڑک سے کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہورہے تھے۔
’’وہ دیکھو۔۔۔سامنے‘‘ اچانک ڈرائیور زور سے چلایا۔ سب چونک گئے۔ وہ انگلی سے سامنے سڑک کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
’’کیا ہے سامنے۔۔۔کیا پاگل ہوگیا ہے؟‘‘ رمضان جو پہلے ہی جھنجھلایا ہواتھا ڈرائیور پر برس پڑا۔
’’میں سچ کہہ رہاہوں بجلی چمکی تو میں نے خود دیکھا سامنے وہی لڑکی کھڑی تھی،‘‘ وہ خوفزدہ ہو کر سیٹ سے اٹھ کر پیچھے آنے لگا۔
’’یہ نشہ تونہیں کرتا ۔۔۔؟‘‘ ایک مسافرنے ناگوار لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں بھائی! نشہ تو دور کی بات یہ تو سگریٹ اور چائے بھی نہیں پیتا۔ پانچ وقت مسجد میں نماز پڑھتا ہے۔‘‘ رمضان کہنے گا۔ ڈرائیور کو نہ جانے کیا دکھائی دیتا تھا کہ وہ بری طرح خوفزدہ ہو چکا تھا۔ جبکہ اصل خطرہ یہ تھا کہ سامنے یا پیچھے سے آنے والی کوئی اور گاڑی اندھیرے کی وجہ سے ہماری بس سے ٹکرا نہ جائے۔ میں نے اسکا اظہار رمضان سے کیا تو وہ ٹارچ جلا کر بس کی پچھلی سیٹ پر اس طرح رکھ آیا کہ اس کا رخ باہر کی طرف تھا۔ پیچھے کا مسئلہ تو حل ہوگیا پر سامنے سے ٹکرانے کا خدشہ ابھی بھی موجود تھا
(جاری ہے)
 To read remaining All Episodes and Next Episode Follow the Link
 https://www.youtube.com/channel/UCIN7S4sNeV79Ppnlb6v8Smw
To read remaining Part of Episode and Next Episode Follow the Link
بقیہ قسط پڑھنے کے لۓ لنک پر کلک کریں
https://freedailyurdupdfnovels.blogspot.com/
0 notes
emergingkarachi · 5 years ago
Text
پرانے کراچی کا جہانگیر پارک
جہانگیر پارک سے باہر نکلتے تومرکزی دروازے کے سامنے ایک اور ہی جہاں آباد تھا ۔ وہاں بڑے مزے دار اور دلکش نظارے ہوتے تھے ۔ پارک کی چار دیواری کے باہر جنگلے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے پتھارے اور اڈے لگے ہوئے تھے جہاں تیل سے لے کر کان کی میل اور دانت نکالنے والے میسر ہوتے تھے ۔ کوئی مہنگا سودا بھی نہیں ہوتا تھا۔ بس پتھارے دار کا تھوڑا چالاک اور چرب زبان ہونا ضروری تھا اور یہ خاصیت ان کے پاس ضرورت سے زیادہ ہی موجود تھی ۔ کچھ تو لوگ بھی سیدھے سادے تھے اور اکثروہ خود ہی ان کے شیطانی چکر میں پھنس جاتے تھے۔ 
زمین پر چٹائیاں بچھا کر بیٹھے ہوئے یہ لوگ کھوئی ہوئی صحت لوٹانے کے بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے ۔ ان کے پاس درجنوں کے حساب سے شیشے کے مرتبان سجے ہوتے تھے جن میں کچھ دیسی جڑی بوٹیاں، تیل اور محلول وغیرہ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ بڑے چھپکلی نما جیتے جاگتے جانور سامنے فرش پر الٹے لٹائے ہوتے تھے جو ہوا میں ٹانگیں چلاتے رہتے تھے۔ اس قسم کے طبیب ایک قطار میں جہانگیر پارک کے جنگلے کی دیوار کے ساتھ فرش پر چادریں بچھائے بیٹھے ہوتے تھے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن انہی میں ایک ادھیڑ عمر مکرانی خاتون نے بھی اسی قسم کی بیماریوں کے علاج کی دکان سجائی ہوئی تھی اور وہ بھی ہو بہو یہی کچھ کیا کرتی تھی۔ 
وہ ’’ حاجت مندوں ‘‘سے وہی سلوک کرتی جو اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے پڑوسی کرتے تھے اور کچھ پیسوں کے عوض کی خالی شیشی میں وہ تیل ڈال کر دیا کرتی تھی ۔ اسی دیوار کے ساتھ ہی ایک دندان ساز بھی بیٹھا ہوتا تھا ، جو نہ صرف دانت کا کیڑا نکالتا بلکہ ایک روپے کی ادائیگی پرتکلیف دہ داڑھ بھی نکال پھینکتا تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے پوری طاقت کے ساتھ مریض کا سر پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے سیدھا ہی اس کی دکھتی ہوئی داڑھ پر جمبور رکھ کر اسے دبوچ لیتا اور پھر پورا زور لگا کر داڑھ کو دائیں بائیں گھما کر باہر کھینچ لیتا۔ یہ دندان ساز موقع پاتے ہی منجن بھی بیچ لیتا تھا جو بقول اس کے ہمالیہ کے برفانی پہاڑوں پر پائی جانے والی کچھ خاص جڑی بوٹیوں سے تیار کیا جاتا تھا ،اور یہ خاندانی نسخہ اس کے کسی بزرگ کو ایک بابے کی معرفت ملا تھا جو یہ نسخہ اسے بتا کر پہاڑوں میں جا چھپا تھا ۔ 
یہ پائوڈر نما منجن پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں دو آنے کا مل جاتا تھا ۔دانتوں کا کیڑا نکالنا بھی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، کیونکہ ا س کام کے لیے وہ بایاں ہاتھ ہی استعمال کرتا تھا ۔ وہ کسی بھی پیلے پیلے سال خوردہ سے دانتوں والے شکار کو پھانسنے کے لیے اسے پاس بلا کر کہتا کہ ذرا اپنے دانت دکھاؤ ۔ وہ ایسا ہی کرتا اور اپنا بھاڑ سا منہ کھول کر اس کے آگے کر دیتا ۔ وہ اس کے دانتوں اور مسوڑھوں پر اپنا گندا سا ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنا محفوظ فیصلہ سنا دیتا کہ اس کی ایک یا دو داڑھوں میں کیڑا لگا ہوا ہے جس کو فوری طور پر در بدر کرنا ضروری ہے ورنہ یہ ساری داڑھ کو کھا جائے گا ۔
وہ اسے یہ پیشکش بھی کر دیتا کہ اگر وہ آٹھ آنے کا انتظام کر لے تو وہ نہ صرف یہ کہ اس کا کیڑا نکا لے گا بلکہ اس کی تسلی اور تشفی کے لیے یہ عمل سب حاضرین محفل کو بھی دکھائے گا ۔ چنانچہ مطلوبہ نقدی وصول کر کے وہ ایسا ہی کرتا تھا ۔ وہ مریض کے منہ میں ایک گھونٹ ہلکا سا سرخ پانی ڈال کر ایک بار پھر اپنی انگلی سے اس کے دانتوں اور مسوڑھوں کی مالش کرتا، پھر اس کے منہ کے سامنے مومی کاغذ کا ایک ٹکڑا رکھ دیتا اور کہتا کہ منہ میں جو کچھ بھی ہے وہ اسے یہاں اُگل دے ۔ اس کاغذ میں اُگلے ہوئے رنگین تھوک میں سے وہ تنکے کی مدد سے سفید رنگ کا ایک چھوٹا سا کیڑا برآمد کرتا اور سب سے پہلے مریض کو اور پھر آس پاس کھڑے ہوئے متجسس لوگوں کو اس کا دیدار کرواتا ۔
یہ ایک ننھا سا دیمک کی طرح کا کیڑا ہوتا جو حرکت بھی کرتا تھا ۔ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کیڑا دیکھا تھا ۔ میں خود گھر جا کر اپنے طور پر بھی اپنے دانتوں میں یہ کیڑا تلاش کرتا رہا کیونکہ میری بھی ایک داڑھ سیاہ ہو گئی تھی اور اس کے کہنے کے مطابق اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کیڑا ابھی اس کے اندر ہی کہیں چھپا بیٹھا ہوا تھا جس کو صرف اس کی دوا ہی نکال سکتی ہے ۔ یہ تو بہت بعد میں جا کر علم ہواکہ دنیا میں ایسا کوئی کیڑا ہوتا ہی نہیں بلکہ دانتوں کی سڑن سے یہ نقصان ہوتا تھا ۔ فال نکالنے والے اس وقت بھی بالکل اسی طرح فال نکالتے تھے جس طرح آج کرتے ہیں ۔ پنجرے میں دو طوطے ہوتے تھے۔ ایک تو اندر کسی پوستی کی طرح اونگھتا رہتا جبکہ دوسرا ہر وقت ڈیوٹی پر موجود رہتا اور ایک سیکنڈ کے نوٹس پر چھلانگ مار کر چھوٹی سی چھڑی پر چڑھ کر بیٹھ جاتا ۔
اس کو ترتیب سے بچھائے ہوئے کچھ لفافوں کے قریب چھوڑ دیا جاتا۔ وہ ان لفافوں کے ارد گرد تھوڑی سی چہل قدمی کر کے کوئی سا ایک لفافہ چونچ سے اٹھا کر مالک کو تھما دیتا جو فوراً ہی اس میں سے کارڈ نکال کر فال نکلوانے والے کو فر فر پڑھ کر سنا دیتا۔ اس میں درج ایک دو پریشانیوں، گھریلو جھگڑوں، کچھ روزگار کے مسائل اور جادو ٹونے کا بتا کر آخر میں اسے پریشان نہ ہونے کی تلقین کرتا اور جلد ہی اس کی سب مشکلیں ختم ہونے کی خوش خبری دیتا ۔ اس کے علاوہ اس کے مستقبل قریب میں ہی لکھ پتی بن جانے کی اطلاع بھی ہوتی تھی۔ وہیں کہیں ایک نجومی بھی اڈہ لگائے بیٹھا ہوتا تھا جس نے پیچھے بورڈ پر اپنے آپ کو پروفیسر ظاہر کیا ہوا تھا اور دوتین عجیب و غریب ڈگریاں بھی لکھوا رکھی تھیں جو شاید وہ خود بھی نہ پڑھ سکتا ہو ۔
اس کے ہاتھ میں ایک محدب عدسہ ہو تا تھا ۔ اس نجومی کو ��پنے سوا ہر ایک کی قسمت کاحال معلوم ہوتا تھا۔ وہ عدسے کی مدد سے سائل کے ہاتھوں کی ساری لکیروں کا بغور جائزہ لے کرایک ایسی لکیر کو دریافت کرتا جو سامنے بیٹھے ہوئے معصوم مگر اچھی خبر سننے کے منتظر شخص کو پریشان کیے ہوئے ہوتی تھی ۔ وہ اس کو نجوم کا سبق پڑھاتا اورمختصراً دل اور دماغ کی لکیروں کے علاوہ نوکری اور شادی کی لکیریں بھی دکھاتا تھا۔ غیر شادی شدہ شخص کو بھی وہ دو تین شادیاں بتا دیتا تھا ، اور پھر بار بار اسے یاد دلاتا کہ یہ وہ نہیں کہہ رہا بلکہ اس کے ہاتھ کی لکیریں بولتی ہیں ۔
(’’ایسا تھا میرا کراچی‘‘ سے اقتباس)
محمد سعید جاوید
0 notes
dailyshahbaz · 5 years ago
Photo
Tumblr media
خدائی خدمتگار زمرود بابا جرنیل کی ڈائری – نورالامین یوسفزئی یہ ڈائری (1934ء تا 1977ئ) ہمارے ایک قومی ہیرو اور باچاخان(فخرافغان) کے ایک ایسے فعال باشعور اور زیرک پیروکار کی قومی، عوامی اور سیاسی زندگی کی ایک ایسی زندہ اور مستند دستاویز ہے جسے ہم غاصب فرنگی کے خلاف عدم تشدد کے ہتھیار سے لڑی جانی والی جنگ اور باچاخان کی قومی اور اصلاحی تحریک کا ایک روشن باب اور شفاف آئینہ کہہ سکتے ہیں، جس میں ’’زمرود بابا‘‘ کی تقریباً نصف صدی پر محیط قومی اور تاریخی سفر کے تمام واقعات، حالات، حادثات اور اس تحریک کے ساتھ وابستہ تمام نمائندہ کردار اپنی تمام تر جزیات اور حرکیات کے ساتھ دیکھ اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ جرنیل بابا(پیدائش 1898ء ،وفات 1982ئ) کی یہ ڈائری سال 1934ء سے لیکر سال 1977ء تک کے تمام اہم تاریخی واقعات، قومی تحریک کی تمام عملیات، تصورات اور حرکیات اپنے مقدس دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ ایک تربیت شدہ، روشن فکر پشتون مشر کی حیات مطہر کا آئینہ دار بھی ہے اورعلمبردار بھی جو کہ ’’خدائی خدمتگار‘‘ تحریک کی تمام محبتیں، قومی یکجہتی اور پشتون بھائی چارے کی تمام نزاکتیں بھی رکھتی ہے اور قومی ہیروز کی جہد مسلسل اور اس جدوجہد کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں، دکھوں اور تلخیوں کی دکھ بھری داستان بھی۔ یہ وہ ملی دستاویز ہے جس کے مندرجات پر ہمارے سر فخر سے بھی بلند ہونے لگتے ہیں اور جس سے ہم استقامت، استقلال اور صداقت کا درس بھی لے سکتے ہیں۔زمرود بابا کی یہ ڈائری چودہ چھوٹے بڑے رجسٹرز اور کاپیوں میں بکھری پڑی تھی جس میں زمانے کے دست برد نے بھی اپنا کام کیا تھا اور یوں اس مقدس تاریخی دستاویز میں ترتیب و تدوین کاکام بھی تھا اور اسکے ساتھ ساتھ زبان کی صحت اور املا کی مشکل بھی درپیش تھی۔ اسکے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال بھی رکھنا تھا کہ بابا کا اپنا اسلوب اور کتاب میں موجود تاریخی واقعات کے تسلسل اور صحت پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔ کام مشکل تو تھا مگر دوسری جانب یہ واقعات اس قدر سچے ، اس قدر دلچسپ اور اس قدر روح فرسا اور زندہ تھے کہ میں نے اپنے کمپوزر عزیزالرحمان کی خاطر بابا کے تمام روزنامچوں کو اُن کاپیوں سے نقل کرتے وقت لطف بھی اُٹھایا، میری پشتون رگوں میں تازہ افغان خون نے جوش بھی مارا اور یوں جرنیل زمرود بابا کے خلوص، صداقت اور قومی حمیت نے یہ مشکل کام اتنا آسان اور دلچسپ بنا دیا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا اور بظاہر یہ ناممکن کام پایہ تکمیل تک پہنچا۔ ہ��ارے اکثر عوام دوست دانشور انسانی تاریخ پر یہ اُنگلی اُٹھاتے ہیں کہ یہ تاریخ ’’اکثریت‘‘ کی نہیں ’’اقلیت‘‘ کی تاریخ ہے، یہ تو محض بادشاہوں اور سپہ سالاروں کی داستان ہے، اس میں تو وہ ’’عام آدمی‘‘ کہیں نظر نہیں آتا جو کہ بڑے بڑے تاریخی واقعات اور انقلابات کا اصل سرمایہ ہوتا ہے لیکن یہ تاریخ(ڈائری) ایک ایسے عام سیاسی کارکن اور نڈر پشتون کی لکھی ہوئی سچی تاریخ ہے جس میں وہ خود بھی اپنی تمام فعالیتوں کے ساتھ موجود ہے اور تحریک آزادی میں ’’خدائی خدمتگار ‘‘تحریک کے تقریباً تمام (خاص طور پر صوابی کے حوالے سے) عام اور خاص کرداراور اُن کی جدوجہد تاریخ کے حوالے کی گئی ہے۔ وہ عام پشتون (جو کہ حقیقت میں بہت خاص ہے) جسکی تربیت اپنے دور کے ایک بہت بڑے مصلح اور عظیم رہنما نے کی ہے اور جس نے قومی تاریخ اپنی قربانیوں اپنی نہ تھکنے والی جدوجہد اور اپنے غیرت مند خون سے لکھی ہے۔ جس تاریخ کا ہر جملہ اور ہر لفظ حق، صداقت، حرکت، حرارت، خدمت اور ملی مروت کا آئینہ دار اورعلمبردار ہے،۔بابا کی اس ڈائری کو ہم حقیقی معنوں میں تقسیم سے پہلے غیر منقسم ہندوستان اور تقسیم کے بعد ’’پاکستان‘‘ کی سچی اور سچی پاک سٹڈی کہہ سکتے ہیں جس میں جنگ آزادی کے تمام واقعات، حادثات، سامراج کے تمام شاطرانہ کرداروں کے ساتھ محفوظ ہے اور اس آئینے میں ہم جنگ آزادی کے حقیقی ہیروز اور اُن کی بے لوث قربانیوں کی حقیقی داستان بھی پڑھ سکتے ہیں۔ا س آئینے میں ہم اپنے ’’ہیروز‘‘ کے ساتھ ساتھ اُن انسان نما درندوں، قومی دشمنوں اور سامراج کے دلالوں کے سیاہ چہرے اپنی تمام تر سیاہ کاریوں سمیت دیکھ سکتے ہیں۔ اس آئینے میں ہمیں پاکستان بننے کے بعد اس ملک میں حکمرانوں کے آمرانہ رویوں اور اُن آمرانہ رویوں کے خلاف ملک میں حقیقی جمہوریت اور محکوم قوموں کے حقوق اور شناخت کے علمبرداروں کے خوبصورت چہرے اور مخلصانہ جدوجہد بھی نظر آرہی ہے۔ آزادی کے بعد سامراج جاتے جاتے جو کچھ کرکے گیا وہ تو ایک الگ دردناک اور عبرتناک داستان ہے جسکی وجہ سے ’’آزادی‘‘ کا ایجنڈا ادھورا رہ گیا، کہ پاکستان ایک کثیرالقومی ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ڈال دیا گیا ، مگر اس ملک کے حکمرانوں نے اس کثیرالقومی ریاست میں ’’زراور زور‘‘ کی پالیسی سے اُن تمام تاریخی اقوام کو ایک قوم بنانے کے غیر فطری فارمولے پر عمل کرنا شروع کیا اور بجائے اسکے کہ ملک کے جغرافیے میں آباد اُن تاریخی اقوام، انکی زبانوں اور انکی ثقافتوں کو پیار سے اپناتے، اُنکو ترقی دیتے اور پڑوس میں آباد ان اقوام کے خونی رشتوں کو ایک حقیقت جان کر پڑوس میں پیار، محبت کا رشتہ نبھاتے، اُنہوں نے ان اقوام کو ختم کرنے کا تہیہ کیا اور انگریز استعمار سے بھی زیادہ آمرانہ رویہ اختیار کیا۔ اگر چہ اُنکے اس غیر فطری روئیے کا انجام اس ملک کے ’’دولخت‘‘ ہونے کی صورت میں دنیا نے دیکھ لیا، پاکستان کیسے بنا، اس نئے ملک میں کس کی دلچسپی تھی یہ تو ازخود ایک بہت تفصیل طلب اور بمعنی بحث ہے مگر پاکستان بننے کے بعد اُن گورے آقاؤں کے ’’سیاہ دلالوں‘‘ نے اس سر��مین کے حقیقی اور حلال بچوں کے ساتھ کیا کیا ، اس ڈائری میں قارئین وہ تمام مظالم اور اُن مظالم کی دردناک داستان خود پڑھ اور محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ڈائری اُس تاریخی المیے کا مکمل عکس اور آئینہ ہے۔ فخرافغان نے خود بھی اپنی جیون کتھا اور اپنی خودنوشت پشتوزبان میں تحریر کی۔اُن کے فرزند نے بھی خدائی خدمتگار تحریک کی مکمل تاریخ اپنی چار جلدوں پر مشتمل کتاب میں محفوظ کی اورباچاخان نے اپنے تمام تعلیم یافتہ ساتھیوں کو بھی بار بار اس بات کی ترغیب دی کہ وہ اپنی جدوجہد کی کہانی اپنی مادری (قومی) زبان میں لکھیںکہ اس طرح ایک طرف قوم کے بچوں کو اپنی حقیقی تاریخ کا پتہ چل سکے گا اور دوسری جانب ہماری زبان کا علمی سرمایہ بھی بڑھ سکے گا اور ہمارے جرنیل بابا نے بھی اپنے قومی رہبر و مصلح کے اس قول پر لبیک کہا ہے۔ ا س ڈائری کی ایک بنیادی انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ایسے عام ورکر کی ڈائری ہے جو کہ ایک عام کارکن سے ہوتے ہوئے جرنیل کے منصب تک پہنچا ، اس کے ساتھ ساتھ اس نے سیکرٹری اور ناظم کی ذمہ داریاں بھی احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ اسکی دوسری بڑی انفرادیت یہ ہے کہ اس ڈائری میں خدائی خدمتگار تحریک کا تنظیمی ڈھانچہ اور اُس ڈھانچے میں اسکی عسکری اور غیر عسکری تنظیموں کا خاکہ بھی موجود ہے اور کانگریس کی مانیٹرنگ کمیٹیوں کا مکمل چوکاٹ بھی ہم اس ڈائری کی مدد سے پڑھ سکتے ہیں۔ خدائی خدمتگار تحریک کی عسکری ، خود خدائی خدمتگار، سرخ پوش اور بعد میں خان عبدالغنی خان کے پختون زلمی کا انتظامی خاکہ، تمام عہدوں اور دائرہ کار کا تعین بھی کرسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ ڈائری صوابی کی سطح پر قومی تحریک کی تمام نمائندہ عسکری اور سول کرداروں اور اُن کرداروں کی جدوجہد بھی اپنے دامن میں محفوظ کرچکی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ یونین کونسل اور دیہات کی سطح پر تمام تنظیموں اور اُن تنظیموں کے نمائندہ کرداروں کو بھی تاریخ کے حوالے کرچکی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ مقامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ اُس وقت کی ضلعی اور صوبائی تنظیموں کا احوال بھی جرنیل بابا کی ڈائری میں محفوظ ہے۔ صرف یہی نہیں اُس وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والے بعض اہم واقعات اور حادثات بھی اس ڈائری کا حصہ ہیں اور زیادہ قابل ستائش بات یہ ہے کہ وہ تمام تاریخی واقعات اور حادثات بابا کی ڈائری میں تورایخ کے ساتھ محفوظ ہیںیہاں تک کہ انگریزی تاریخوں کے ساتھ ساتھ اُس میں دیسی تواریخ بھی درج ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ اس آدمی نے اپنے دیگر ساتھیوں سمیت اپنے تمام انسانی اور بشری تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر ایک جنون اور ایک جذبہ عشق کے ساتھ یہ کٹھن سفر طے کیا ہے یہاں تک کہ ایک موقع پر اپنی بیوی سے یہ کہہ کر اجازت طلب کررہے ہیں کہ قوم کو میری ضرورت ہے، تم مجھے اجازت دو کہ میں قوم کے سامنے سرخرو ہو سکوں۔ اپنی تمام سیاسی عمر اور جدوجہد میں اس شخص نے مسلسل بلاخوف و خطر اور ایک جنون کے ساتھ قوم کی آزادی ، فلاح، اتفاق و اتحاد اور آگہی کی جنگ لڑی ہے اور ہر محاذ پر سرخرو ہو کر نکلے ہیں۔ انہوں نے بعض لوگوں کی طرح محض اندھیروں کا رونا نہیں رویا ہے بلکہ اپنے ہاتھ میں خدائی خدمتگاری کی روشن مشعل اُٹھا کر اپنے حصے کی شمع روشن کی ہے۔ (جاری)
0 notes
mansourwanders · 3 years ago
Photo
Tumblr media
'مجموعه کتیبه های شهادت حضرت زهرا (س) مزین به عبارت "یَا فٰاطِمَةُ الْزَهْرٰا" و برش هایی از شعر "فیض نخست و خاتمه نور جمال فاطمه" ________________________ فیض نخست و خاتمه نور جمال فاطمه چشم دل ار نظاره در مبدأ و منتهی کند صورت شاهد ازل معنی حسن لم یزل وهم چگونه وصف آیینه حق نما کند مطلع نور ایزدی مبدأ فیض سرمدی جلوه او حکایت از خاتم انبیا کند لیله قدر اولیا، نور نهار اصفیا صبح جمال او طلوع از افق عُلا کند بَضعه سید بشر امّ ائمه غُرَر کیست جز او که همسری با شه لافتی کند؟ وحی نبوّتش نسب، جود و فتوّتش حسب قصّه ای از مروّتش سوره «هل اتی» کند سروده؛ آية الله حاج شیخ محمد حسین غروى اصفهانى ________________________ کتیبه ی میانی: ابعاد:۷۰*٢٠٠سانتیمتر/قیمت: ٢٠٠ تومان کتیبه های طرفین: ابعاد:۱۵۰*۴۸ سانتیمتر/قیمت هرکدام:۱۵۰ تومان *قیمت مجموعه: ۵۰۰ تومان ◽تکنیک منحصر: چاپ کتیبه ها به صورت تمام چاپ انجام شده است. مشاهده و خرید تمامی محصولات از سایت http://moukebart.com #شهادت_حضرت_زهرا_سلام_الله_علیها #فاطمیه @moukebart' https://ift.tt/3mCyJEU
0 notes
etymopedia · 5 years ago
Photo
Tumblr media
‏‎معاني #الفصول_الاربعة ١- #الشتاء : من الجذر #شتى من الثنائي #شا ومنه #شوا بمعنى #النار، بالعبرية اش #אש ، والاثيوبية إسَتي #እሳት ، ويقاررها بالعامية سوى ومنه استوى شويَ والاصل من الجذر #س ومنه #اس . ٢- #ربيع : من الجذر #ربع اي اقام بالمكان ، والاصل من الثنائي #رب من #ب ومنه نب ونبت اي نما ، كون في الربيع تبدأ النباتات بالطلوع والنمو . ٣- #صيف : جذره الاصلي #ص و #ض ومنه ضوا ومنه #الضوء ، كون هذا الفصل يزداد فيه ضوء الشمس وتزداد شدة الحر . ٤- #خريف : من الجذر #خرف كونه نهاية الفصول وتسقط فيه اوراق الاشجار ، هو من الثنائي #خر خرر خَرَّ اي سقط . في حين ب #العبرية العكس حيث الشتاء حورف #חורף خريف، والخريف ستين #סתיו اي شتاء . اما الربيع ابيب #אביב من #اب اي الغلال والخضار ، و الصيف قوص #קיץ اي القيظ اي الحر . #اتموبيدياEtymopedia ‎‏ https://www.instagram.com/p/B2cujAqBolG/?igshid=r1xmhe76735l
1 note · View note
humlog786-blog · 6 years ago
Text
اقبال اور گوئٹے
Tumblr media
گوئٹے کا زمانہ اٹھارہویں صدی کا زمانہ تھا اور یہ وہ دور تھا جب سارے یورپ میں عقلیت اور استدلال کے ہاتھوں مذہب کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں۔ عقلیت پسندی کا یہ طوفان در اصل ایک منفی نوعیت کا طوفان تھا۔ اور یہ کلیسائی تعصب کے رد عمل کے طور پر ظہور پذیر ہوا تھا۔ عقلیت پسندی کے اس طوفان کے مقابلے میں دو فلسفی کانٹ( 1804 - 1724ء) اور روسیو (1778 - 1712ء) کہسار بن کر ابھرے۔ کانٹ کے بارے میں تو اقبال کا یہ فقرہ کہ اس کی کتاب نے استدلالیوں کے سارے کام کو ملیامیٹ کر دیا۔ پہلے ہی نقل کیاج اچکا ہے۔ روسیو کا کارنامہ بھی کچھ کم وقیع نہیں۔ اس نے بھی استدلال کے مقابلے میں وجدانی یقین کی برتری کا احساس دلایا۔ اور یہ نقطہ نگاہ پیش کیا کہ یورپ کا جدید تمدن ہی جسے سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے یورپ کے تمام دکھوں اور مسائل کی جڑ ہے۔ اس لئے بچاؤ کا واحد راستہ یہی ہے کہ انسان فطرت کو واپس لوٹے۔ انسان فطرتاً آزاد اور امن پسند واقع ہوا ہے۔ لیکن اس نے شہری تہذیب کی زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑ کر اپنی زندگی کو وبال بنا لیا ہے۔ گوئٹے روسیو کے اس نظریے سے بہت متاثر ہوا اور اس نظریے کے ساتھ ہی ساتھ جرمنی میں جو رومانی تحریک چلی تھی۔ گوئٹے اس میں شامل ہو گیا۔ رومانی تحریک نے وجدانی یقین، جذبے اور احساس کی شدت پر زور دیا۔ اس تحریک کا مقصد در اصل جذبے اور شدت احساس کے ذریعے سے انسان کے لئے تہذیبی اور سماجی بندھنوں سے آزادی حاصل کرنا تھا لیکن سماجی بندھنوں سے آزادی انسان کے لئے خطرناک بھی تو ثابت ہو سکتی ہے۔ دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی ہے موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں گوئٹے پر یہ نکتہ فاش ہوا تو اس نے رومانی تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی اور آزادی فطرت کے عوض قوانین فطرت کی جانب راغب ہوا اور اسے اس پابندی ہی میں انسانی سر بلندی نظر آئی۔ اس سلسلے میں وہ یونانیوں کے فن سنگ تراشی سے بہت متاثر ہوا جس میں فطرت کے ازلی ضابطے کی ایک طرح سے پابندی موجود تھی۔ اس کے خیال میں عیسائیت کی اخلاقی تہذیب اور قدیم جمالیاتی تہذیب کے امتزاج کی بدولت محدود قومیت سے بلند تر عالمگیر انسانیت کا جو احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسے دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں کو اپنی منزل مقصود بنانا چاہئے۔ گوئٹے کی یہ ذہنی کشمکش اس کے ڈرامے "فاؤسٹ" میں موجود ہے۔ ڈرامے کے شروع میں فاؤسٹ ایک عظیم عالم کی حیثیت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ فاؤسٹ اپنی ساری توجہ علم کی تحصیل میں صرف کرتا ہے لیکن اس کا دل نامطمئن رہتا ہے۔ وہ عشق اور فطرت کے حسن سے بے خبر ہے۔ تمام عمر وہ علم ہی کے ذریعے سے فطرت کے راز جاننے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے لیکن اس کی یہ کوشش رائگاں جاتی ہے۔ آخر کار فاؤسٹ پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ محض علم اور عقل کی بدلوت انسان حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ یہ اصل میں عقلیت پسندی کے خلاف گوئٹے کے اپنے دور کی بغاوت ہے جو اس نے فاؤسٹ کی شخصیت میں پیش کی ہے۔ فاؤسٹ کو ایک ایسی زندگی کی تلاش تھی جو محض خیالی تصورات کا مرقع نہ ہو اور جس میں وہ فقط سوچتا ہی نہ رہے بلکہ احساس مروت حاصل کرے اور ذہنی طور پر اطمینان سے رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ اول اول جادو کا سہارا لیتا ہے۔ اور اسمیں کسی حد تک اپنے لئے تسکین کا سامان پاتا ہے لیکن یہ تسکین عارضی ثابت ہوتی ہے۔ پھر وہ روح ارضی کو بلاتا ہے۔ لیکن اس کی نا پختگی کے باعث روح ارضی اس سے کنارہ کرجاتی ہے۔ چنانچہ وہ نا امید ہو کر مرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ وہ محض ایک کیڑے کی زندگی بسر کرنا نہیں چاہتا اور کہتا ہے کہ ایک حقیر زندگی بسر کرنے سے تو مرجانا بہتر ہے لیکن ایسٹر کی ایک صبح اس کے دل میں محبت اور گداز کے خوابیدہ سوتوں کو بیدار کر دیتی ہے اور وہ اس حقیقت کو پالینے کے لئے جو ساری دنیا پرحکمران ہے بے تاب ہو جاتا ہے اور اس خیال سے کہ وہ اس حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ وہ ایک بار پھر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی عالم میں وہ بائیبل کا سہارا لیتا ہے اور اس میں پڑھتا ہے۔۔ ابتدا میں کلام تھا، کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام ہی خدا تھا۔۔ ۔ یہ پڑھتے ہی وہ اس فکر میں غرق ہو جاتا ہے کہ کیا لفظ "کلام" صحیح طور پر "کلام الٰہی" کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ چنانچہ لفظ کلام کو موزوں نہ پا کر وہ اس کی جگہ "خیال" یا "قوت" کا لفظ رکھنا چاہتا ہے اور انجام کار اس کی جگہ "عمل" کا لفظ رکھ دیتا ہے۔ اور یوں پڑھتا ہے۔ "ابتدا میں عمل تھا، عمل خدا کے ساتھ تھا اور عمل ہی خدا تھا۔ " اقبال کے نزدیک فاؤسٹ کا یہ انداز فکر در اصل قدیم ہندو حکما کے نظریہ عمل ہی کا پرتو ہے۔ اپنےا س خیال کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: "ہندو قوم کے دل و دماغ میں عملیات اور نظریات کی ایک عجیب طریق سے آمیزش ہوئی ہے۔ اس قومکے موشگاف حکماء نے قوت عمل کی حقیقت پر دقیق بحث کی ہے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انا کی حیات کا یہ مشہور تسلسل جو تمام آلام و مصائب کی جڑ ہے، عمل سے متعین ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ انسانی انا کی موجودہ کیفیات اور لوازمات اس کے گزشتہ طریق عمل کا لازمی نتیجہ ہے اور جب تک یہ قانون عمل کرتا رہے گا وہی نتائج پیدا ہوتے رہیں گے۔ انیسویں صدی کے مشہور جرمن شاعر کا ہیرو فاؤسٹ جب انجیل یوحنا کی پہلی آیت میں لفظ کلام کی جگہ لفظ عمل پڑھتا ہے۔۔ ۔ (ابتداء میں کلام تھا، کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام ہی خدا تھا۔۔ ۔ ") تو حقیقت میں اس کی دقیقہ رس نگاہ اسی نکتہ کو دیکھتی ہے جس کو ہندو حکماء نے تقدیر کی مطلق العنانی اور انسانی حریت اور بالفاظدیگر جبرواختیار کی گتھی کو سلجھایا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ فلسفیانہ لحاظ سے ان کی جدت طرازی داد و تحسین کی مستحق ہے اور بالخصوص اس وجہ سے کہ وہ ایک بہت بڑی اخلاقی جرات کے ساتھ ان تمام فلسفیانہ نتائج کو بھی قبول کرتے ہیں جو اس قضیے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ جب انا کا تعین عمل سے ہے تو انا کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ ترک عمل ہے۔ یہ نتیجہ انفرادی اور ملی ہلو سے نہایت خطرناک تھا اور اس بات کا مقتضیٰ تھا کہ کوئی مجدد پیدا ہو جو ترک عمل کے اصل مفہوم کو واضح کرے۔ نبی نوع انسان کی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا۔ اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایت دلفریب پیرائے میں اپنے ملک اور قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترک عمل سے مراد ترک کلی نہیں ہے کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے بلکہ ترک عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے متعلق دل بستگی نہ ہو۔ شری کرشن کے بعد شری رام فوج بھی اسی رستے پر چلے مگر افسوس ہے کہ جس عروس معنی کو شری کرشن اور شری رام فوج بھی بے نقاب کرنا چاہتے تھے شری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر محجوب کر دیا اور شری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمر سے محروم رہ گئی۔ " فاؤسٹ در اصل عمل ہی کو حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بناتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گوئٹے کے نزدیک کائنات میں ایک ابدی حسن کار فرما ہے جو انسان کو مادی زندگی کی پستیوں سے روحانی زندگی کی بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ ان روحانی بلندیوں کی جھلک سچے عاشق کو اپنی محبوبہ میں نظر آتی ہے۔ فاؤسٹ کے کردار کے ذریعے سے گوئٹے نے یہ بات اپنے قاری کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اگرابلیس کے زیر اثر پست نفسیاتی خواہشات میں الجھ کر نہ رہ جائے تو وہ اس مجازی عشق کے ذریعے سے عشق حقیقی تک پہنچ سکتا ہے۔ اقبال کے یہاں بھی ابلیس کا تصور گوئٹے کے تصور ابلیس سے مختلف نہیں۔ آدم کی پیدائش کو گوئٹے کا میفسٹو اوراقبال کا ابلیس دونوں ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میفسٹو فاؤسٹ کو اپنے دام فریب میں الجھاکر اسے جادو کی شراب پلاتا ہے جس کے اثر سے فاؤسٹ جوان ہو جاتا ہے اور جادوگروں کے معمل میں ایک حسین و جمیل دوشیزہ پر عاشق ہو جاتا ہے اور اس کے بعد فاؤسٹ گرجا گھر سے واپس آتی ہوئی لڑکی گریٹسن کو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ گریٹسن اس پر دل و جان سے فدا ہو جاتی ہے۔ فاؤسٹ گریٹسن کی ماں کو اپنے رستے سے ہٹانے کے لئے اسے گریٹسن ہی کے ہاتھ سے زہر کھلوادیتا ہے اور مفیسٹو کے ساتھ مل کر اس کے بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ گریٹسن اپنے نوزائیدہ بچے کو تالاب میں غرق کر دیتی ہے اور اسے اس جرم میں قید کر دیا جاتا ہے۔ جیل خانے میں وہ اپنی موت کا انتظار کرتی ہے۔ گوئٹے نے اس ساری تفصیل میں میفسٹو کا کردار اور آدم کے ساتھ اس کا تعلق انتہائی فن کارانہ طریقے سے بیان کیا ہے۔ انسان کی تخلیق گوئٹے کے میفسٹوا اوراقبال کے ابلیس دونوں کو ناگوار ہے۔ نظم تسخیر فطرت کا حصہ بعنوان "انکار ابلیس" اقبال کے نظریہ ابلیس کے اسی پہلو کا اجاگر کرتا ہے۔ گوئٹے کے مذکورہ ڈرامہ فاؤسٹ کا اقبال کی نظر میں کیا مقام ہے۔ یہ پیام مشرق کی نظم جلال وگوئٹے سے ظاہر ہے۔ اس میں گوئٹے کے کمال فن کا اعتراف رومی کرتے ہیں۔ کسی فن کار کے اعترافِ فن کا یہ انداز اعتراف کرنے والے کی اپنی عظمت کی دلیل ہے اور یہ انداز ہمیں اقبال کے یہاں اکثر نظر آتا ہے۔ اس مختصر سی نظم کا انتخاب شاید اس کے تاثر کو کم کر دے۔ اس لئے یہ مکمل صورت میں یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ نکتہ دان المتی را در ارم صحبتے افتاد با پیر عجم شاعر کو ہم چوں آن عالی جناب نیست پیغمبر ولے دارد کتاب خواند بروانائے اسرار قدیم قصہ پیمانِ ابلیس وحکیم گفت رومی اے سخن را جاں نگار تو ملک صید استی ریزداں شکار فکر تو در کنج دل خلوت گزید ایں جہانِ کہنہ را باز آفرید سوزوساز جاں بہ پیکر دیدہ در صدف تعمیر گوھر دیدۂ ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست داند آن کو نیک بخت و محرم است زیر کیز ابلیس و عشق از آدم است اس نظم کے ساتھ ہی گوئٹے کے ڈرامے "فاؤسٹ" کا نثر میں ذکر کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: "اس ڈرامے میں شاعر نے حکیم فاؤسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کی قدیم روایت کے پیرائے میں انسان کے امکانی نشو و نما کے تمام مدارج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کمال فن تصور میں نہیں آ سکتا۔ یہ اقبال کی طرف سے گوئٹے کے اعتراف فن کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے گوئٹے کے دیوان کے جواب میں پیام مشرق لکھی اور اس میں نظم و نثر دونوں میں گوئٹے کی شاعری کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس خراج تحسین میں انہوں نے گوئٹے کے ساتھ اپنی فکری مماثلت کا ذکر بڑے والہانہ انداز سے کیا ہے اور اس فرق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جو انہیں اپنے اور گوئٹے کے ماحول میں نظر آیا:   پیر مغرب شاعر المانوی آں قتیل شیوہ ہائے پہلوی بست نقش شاہدان شوخ و شنگ داد مشرق را سلامے از فرنگ در جوابش گفتہ ام پیغام مشرق ماہ تا بے ریختم بر شام شرق تاشنا سائے خودم خود بیں نیم با تو گویم او کہ بودومن کیم اوزافرنگی جواناں مثل برق شعلہ من از دم پیران شرق او چمن زادے، چمن پروردۂ من دمیدم از میں مردٔ ہر دو دانائے ضمیر کائنات ہر دو پیغام حیات اندر ممات ہر دو خنجر صبح خند آئینہ فام او برہنہ من ہنوز اندر نیام ہر دو گوہر ارجمند و تاب دار زادہ دریائے ناپیدا کنار اوزشوخی در تہہ قلزم تپید تا گریباں صدف را بردرید من بآگوش صدف تا بم ہنوز در ضمیر بحر نایابم ہنوز پیام مشرق کے دیباچے میں اقبال گوئٹے کے سوانح نگار بیل سوشکی کے حوالے سے لکھتے ہیں: "بلبل شیراز کی نغمہ پردازیوں میں گوئٹے کو اپنی ہی تصویر نظر آتی تھی۔ اس کو کبھی کبھی یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ شاید میری روح ہی حافظہ کے پیکر میں رہ کر مشرق کی سر زمین میں زندگی بسر کر چکی ہے۔ وہی زمینی مسرت، وہی آسمانی محبت، وہی سادگی، وہی عمق، وہی جوش و حرارت، وہی وسعت مشرب، وہی کشادہ دلی، اور وہی قیود و رسوم سے آزادی، غرض ہر بات میں ہم اسے حافظ کا مثیل پاتے ہیں۔ جس طرح حافظ لسان الغیب اور ترجمان اسرار ہے اسی طرح گوئٹے بھی ہے اور جس طرح حافظہ کے بظاہر سادہ الفاظ میں ایک جہان معنی آباد ہے۔ اسی طرح گوئٹے کے بے ساختہ پن میں حقائق و اسرار جلوہ افروز ہیں۔ دونوں نے امیر و غریب سے خراج تحسین وصول کیا۔ دونوں نے اپنے اپنے وقت کے عظیم فاتحوں کو اپنی شخصیت سے متاثر کیا(یعنی حافظ نے تیمور کو اور گوئٹے نے نپولین کو) اور دونوں عام تباہی اور بربادی کے زمانے میں طبیعت کے اندرونی اطمینان و سکون کو محفوظ رکھ کر اپنی قدیم ترنم ریزی جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔ " بانگ درا، میں آپ گوئٹے کو غالب کا ہم نواقرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے گلشن ویمر میں ترا ہم نواخوابیدہ ہے ویمر میں گوئٹے کے علاوہ ہر ڈر، شیلر اور ویلنیڈ بھی رہتے تھے لیکن اقبال ویمر کا ذکر گوئٹے ہی کے تعلق سے کرتے ہیں۔ اور پیام مشرق میں اپنے اس شعر صبا بگلشن ویمر پیام ما برساں کہ چشم نکتہ دراں خاک آن دیار افروخت کے حاشیے پر ویمر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "جرمنی میں ایک شہر ہے جہاں گوئٹے نے اپنی زندگی کا بہت سا حصہ بسر کیا اور بعد انتقال وہیں دفن ہوا۔ " گویا گلشن ویمر کے ساتھ اقبال کا تعلق خاطر محض گوئٹے کی وجہ سے ہے، ہر ڈر، شیلر اور ویلنیڈ کی وجہ سے نہیں۔   ماخوذ از کتاب: اقبال اور مغربی مفکرین - مضامین جگن ناتھ آزاد Read the full article
0 notes
modern-tiles · 6 years ago
Photo
Tumblr media
’’علامہ اقبال کی’’ قصرِ شرف النسائ‘‘ ایک یادگار نظم‘‘ اتوار 19 مئی 2019ء آخر جب مغلیہ سلطنت جاتی رہی اور سِکھی زمانہ آیا تو سکھوں نے اس تلوار و قرآن کو اندر سے نکالا۔ کہتے ہیں کہ کئی ہزار روپے کی مالیت کا وہ قرآن اور تلوار تھی‘‘ تو کیا شرف النساء کی داستان پر ایک دیو مالائی کہانی کا گمان نہیں ہوتا کہ گئے زمانوں کا قصہ ہے شہر لاہور کے گورنر کی بیٹی اپنے لئے ایک برج نما مقبرہ تعمیر کروایا۔ اس کی چوکور طرز تعمیر کے چاروں اور چار چار سرو کے درختوں کی تزئین کروائی کہ سرو کا درخت چمن زاروں کی زینت ہوتا ہے وہاں یہ قبرستانوں میں بھی آرائش کی خاطر لگایا جاتا ہے۔ گویا سرو بیک وقت زندگی اور موت کی علامت ہے۔ اس برج کی بلندی پر ایک دروازہ جہاں تک رسائی کے لئے سیڑھیاں نہیں ہیں بلکہ وہ شہزادی ایک زینہ استعمال کرتی ہے جسے آسانی سے اوپر کھینچ لیا جاتا ہے اور یوں وہ دنیا سے کٹ جاتی ہے۔ ایک مکمل بلند تنہائی میں چلی جاتی ہے وہ ایک خصوصی منقش سنہری حروف میں خطاطی کیا گیا قرآن پاک کھولتی ہے۔ قرآن کے پہلو میں ایک برہنہ مرصع تلوار رکھ دیتی ہے اور پھر تلاوت میں مگن ہو جاتی ہے اس کی وصیت کے مطابق اس مقام پر اسے اسی قرآن پاک اور مرصع تلوار کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے۔ کیا یہ گمان کی سرحدوں سے پرے کی ایک ایسی داستان نہیں ہے جس کی حقیقت ایک سراب لگتی ہے ‘اس کو س مینار کی مانند ان زمانوں میں اس سرو والے چوکور برج مقبرے کے آس پاس دور دور تک ویرانیاں ہوں گی جن میں کہیں کہیں دیگر مغل مقابر اور باغات دکھائی دیتے رہیں گے۔ البتہ سرو والا مقبرہ ان سب میں ساخت اور آرائش کے اعتبار سے نمایاں نظر آتا ہو گا۔ وہ لاہور کے گورنر کی بیٹی تھی وہ تنہا تو اس ویرانے میں نہ آتی ہو گی۔ مسلح محافظ اس کے ہمراہ ہوتے ہوں گے جو اس کے بالائی منزل پر چلے جانے کے بعد مقبرے کے آس پاس موجود رہتے ہوں گے تو پھر وہ قرآن پاک کی تلاوت کے دوران پہلو میں ایک ننگی تلوار کیوں رکھتی تھی۔ کیا وہ تلوار کسی بھید کی علامت تھی جو قرآن سے منسلک تھا۔ یقینا ایسا تھا ورنہ وہ اپنے قرآن اور تلوار کے ہمراہ دفن ہونے کی وصیت کیوں کرتی۔ آثار قدیمہ کا محکمہ بھی تو اس داستان سے واقف ہو گا تو اس کی تفصیل تعارفی بورڈ پر کیوں درج نہ کی گئی۔ جب کبھی میں قدیم آثار کے بارے میں ان کی تحقیق اور تاریخ درج کرتا ہوں تو مجھے خدشہ رہتا ہے کہ اس تفصیل سے قاری کہیں اکتاہٹ کا شکار نہ ہو جائے چنانچہ میں کسی ایسی تاریخی حقیقت کی کھوج میں رہتا ہوں جس کا اضافہ بیانیے میں قاری کی دلچسپی کا باعث بن جائے جیسے شیخ اسماعیل عرف میاں وڈا کی کچی قبر پر اگنے والی گھاس کی تاثیر یا کوس مینار کے حوالے سے خالہ جان کے محاورے کا تذکرہ ۔ اس طور شرف النساء کے سرو والے مقبرے کے بارے میں کھوج کرتے ہوئے ڈاکٹر انیس احمد کے توسط سے میں ’’جاوید نامہ‘‘ میں درج علامہ اقبال کی نظم’’قصرِ شرف النسائ‘‘ تک جا پہنچا اور یہ میری کم علمی اور بے خبری کے لئے تو ایک خبر تھی کہ یہ نظم سرو والے مقبرے میں دفن شرف النساء کے بارے میں تھی اور اس حیرت بھری داستان کی منظوم ترجمانی تھی۔ اگرچہ یہ شاہکار نظم اس لائق ہے کہ پوری کی پوری درج کر دی جائے لیکن میں چیدہ چیدہ شعر اپنی پسند کے مطابق فارسی اور اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرتا ہوں اور اردو ترجمے کے لئے بھی میں ڈاکٹر انیس احمد کی فارسی دانی پر انحصار کرتا ہوں۔ گفت ایں کاشانۂ شرف النسأست مرغ باش یا ملائک ہم نواست خاک لاہور از مزارش آسماں کس ندند رازِ رورا درجہاں آں سراپا ذوق و شوق و دردوداغ حاکمِ پنجاب را چشم و چراغ در کمر تیغِ دو رُو قرآں بدست تن بدن ہوش و حواس اللہ مست خلوت و شمشیر و قرآن و نماز اے خوش آں عُمرے کہ رفت اندر نیاز وقت رخصت با تو دارم ایں سخن تیخ و قرآں راجُدا از من مکن دل باں حرفے کے مے گویم بند قبرمن بے گ��بد و قندیل بہ! مومناں را تیغ با قرآں بس است تربت مارا ہمیں ساماں بس است عمر ہادر زیر ایں زریں قباب بر مذارش بود شمشیر و کتاب پیر رومی نے کہا یہ شرف ان کا کاشانہ ہے اور اس کی چھت کا پرندہ فرشتوں کا ہمنوا ہے۔ ہمارے سمندر نے ایسا گوہر پیدا نہیں کیا اور نہ کسی ماں نے ایسی بیٹی۔ اس کا فقر ایسا نقش ہے کہ تاقیامت رہے گا۔ کیونکہ قرآن وجود کو پاک کرتا ہے وہ اس کی تلاوت سے ایک لمحہ فارغ نہ رہتی۔ کمر میں دو دھاری تلوار رکھتی اور اس کے تن بدن ہوش و حواس اللہ مست رہتے۔ مرتے وقت ماں سے کہا تو اگر میرا راز جانتی ہے تو اس قرآن اور تلوار کو دیکھ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے محافظ ہیں اور کائنات زندگی کے محور ہیں۔ میری قبر بے گنبد و قندیل بہتر ہے خاک لاہور اس کے مزار سے آسماں ہوئی کوئی اس راز کو اس جہاں میں نہیں جانتا مومن کے لئے قرآن کے ساتھ تیغ کافی ہے میری قبر کے لئے یہی سامان کافی ہے لیجیے علامہ اقبال نے تو اس نظم میں بہت سے مقدمے وا کر دیے۔ وہ جو الجھنیں تھیں انہیں سلجھا دیا۔ ذرا غور کیجیے وہ سرو والے مقبرے کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ خاک لاہور اس مزار سے آسماں ہوئی (جاری ہے) یعنی وہ اس کی بُرج نما بلندی کو بیان کر رہے ہیں اور جب فرماتے ہیں کہ شرف النسا کا کاشانہ ایسا ہے کہ اس کی چھت کا پرندہ فرشتوں کا ہمنوا ہے تو یہاں بھی اس کی اونچائی کو بیان کر رہے ہیں۔ اس کی چھت کو پرندے سے تشبیہ دینا کیسا بے مثل اظہار ہے۔ اسی طرح وہ قرآن اور تلوار کو ایک دوسرے کے محافظ قرار دے کر انہیں کائنات زندگی کا محور ٹھہراتے ہیں۔ میں صدق دل سے یقین رکھتا ہوں کہ علامہ اقبال متعدد بار سرو والا مقبرہ دیکھنے اور اس کی بلندی اور رومانی کیفیت محسوس کرنے کے لئے آتے ہوں گے۔ تادیر یہاں قیام کیا ہو گا کہ عمیق ذاتی مشاہدے کے بغیر’’قصر شرف النسائ‘‘ ایسی موثر نظم لکھی ہی نہیں جا سکتی۔ کیا سینکڑوں ماہرین اقبال میں سے کسی ایک نے تحقیق کی ہے کہ وہ کیسے اور کب سرو والا مقبرہ دیکھنے آئے تھے۔ کیا احباب کے ساتھ تشریف لائے تھے یا تنہا آئے تھے۔ یہ تشنگی کوئی تو دور کرے۔ میری شدید خواہش ہے کہ کوئی ایسا سبب بن جائے کہ سیڑھی کے ذریعے اس دروازے تک پہنچوں جس کی چھت ایک پرندہ ہے۔ دروازہ کھول کر دیکھوں تو سہی کہ شرف النسا کی قبر بے گنبد و قندیل کیسی ہے اور کس حال میں ہے لیکن شائد یہ بے ادبی ہو وہ خاتون اتنی بلندی پر اس لئے دفن ہوئی کہ کوئی غیر نظر اس کی قبر پر بھی نہ پڑے۔ اس خواہش میں جہاں ایک تجسس پنہاں ہے وہاں ایک ڈر بھی جاگزیں ہے۔ کیا پتہ جب میں زینے پر قدم رکھتا اس بلند دروازے تک پہنچوں اور اس کے کواڑ واکروں تو‘ شرف النساء کا شائبہ وہاں موجود ہو۔ قرآن پاک کے اوراق پر جھکا ہوا اور برابر میں ایک برہنہ تلوار رکھی ہو۔ کیا پتہ ہو‘ اس لئے مخل ہونا جائز نہیں: بر مزارش بود شمشیرو کتاب
0 notes
mwhwajahat · 6 years ago
Photo
Tumblr media
پیرمحل ؛ ماہ ِ رمضان فضیلتوں اور برکتوں کا وہ مبارک مہینہ ہےاپنے اہل و عیال ، رشتے دار ، پڑوسیوں اور مستحق ، غریب و نا دار لو گوں کے ساتھ صلہ رحمی کا بر تا ؤ کریں الطاف حسین شہزاد ضلعی صدر جسٹس اینڈ پیس کونسل پیرمحل ؛ ماہ ِ رمضان فضیلتوں اور برکتوں کا وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ رب العز ت کے فضل و کر م کے طفیل اس کی نازل کر دہ رحمتیں بنی نوع انسانی پر ہمہ وقت سایہ فگن رہتی ہیں اور دریا ئے رحمت بلا تفریق عا بد وں اور گنا ہ گاروں کو اپنی آغو ش میں سمیٹ لیتا ہے ۔ ان خیالا ت کا اظہار الطاف حسین شہزاد ضلعی صدر جسٹس اینڈ پیس کونسل نے اپنے بیان میں کیاانہوں نے کہا کہ روزے کا بنیادی مقصد ریاکاری،بدکاری،غیبت،عیب جوئی،مکروفریب ، تعصب،بغض وحسد اور جھوٹ جیسے روحانی امراض سے خود کو بچانا اور دوسروں کا خیال رکھنا ہے،ماہ رمضان ہمارے لئے یہی پیغام لاتا ہے کہ ہم جس حالت میں بھی ہوں جہاں بھی ہوں ایک دوسرے کیلئے رحمت و شفقت کا پیکر بن جائیں ،دوسروں کی ضرورتوں کا بھی اسی طرح احساس کریں جس طرح اپنی ضرورتوں کا کرتے ہیں، ماہ مقدس میں رائی برابر نیکی کا اجر بھی پہاڑ کے برابر ہے لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس مہینے میں فضل و کرم ، خیر و برکت ، رحمت و نعمت اور نیکیوں کا نزول وحصول ہمارے عمل سے مشروط ہے ا للہ تعالی اس ماہ مقد س میں اپنے بندوں کو آزما تا ہے خصوصاً ان کی صلہ رحمی کو ،لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم اس ماہ مبارک میں روزہ و نما ز کے ساتھ صلہ رحمی کو بھی اولیت دیں اور اپنے اہل و عیال ، رشتے دار ، پڑوسیوں اور مستحق ، غریب و نا دار لو گوں کے ساتھ صلہ رحمی کا بر تا ؤ کریں انہوں نے کہا کہ معا شرے کے اہل ثروت اور مخیر حضرات سے اپیل کر تا ہوں کہ وہ مستحق ، غریب و نا دار افراد کی کھل کر مدد کر یں اور نہیں جو کچھ دینے کی توفیق ہو وہ رمضان المبارک کے پہلے دوسرے عشرے میں دید یں تاکہ مستحقین ماہ رمضان کی ضروریا ت اور عید سعید کی تیار ی بروقت کر سکیں اوراس طرح وہ خو د اور ان کے بچے بھی عام افراد کی طرح عید کی خوشیاں منا سکیں ۔ صاحب استطاعت وہ غرباء مساکین اور روزہ داری کا اہتمام نہ کر سکنے والے لوگوں کو روزے رکھوائیں ، اور افطاری کا بھی اہتما م کریں ، جس سے اللہ تعالی ان کی دنیا و آخرت سنوار دے گا اور روزے میں تلاوت قرآن پاک کے ساتھ ساتھ استحکام پاکستان اور ملک کی مسلح افواج کے جملہ شہدا کی درجات کی بلندی کیلئے بھی خصوصی دعائوں کا اہتمام کرنا چاہیے
0 notes
risingpakistan · 6 years ago
Text
پاکستان میں ہر دوسرا بچہ غذائیت کی کمی کا شکار، اس کا حل کیا ہے ؟
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو سالانہ لاکھوں ٹن گندم اور چاول بیرونی ممالک کو فروخت کرتے ہیں لیکن جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں ہر دوسرا بچہ غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ ملک میں 44 فیصد بچوں کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے پاکستانی بچوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں بنتی ہے۔ آبادی اور صحت سے متعلقہ امور کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں بہت زیادہ شرح پیدائش، غربت، غذائیت کے مسئلے، خواندگی کی غیر تسلی بخش شرح اور بہت زیادہ مہنگائی سمیت کئی امور ایسے ہیں، جن کے فوری حل تلاش کیے جانا چاہیں۔ خاص طور پر اس لئے کہ یہ سب عوامل مل کر پاکستان کی نئی نسل کو مسلسل غیر صحت مند بناتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کی شرح پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ 
پاکستان کے قومی ادارہ صحت اور برطانیہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس چھٹے سب سے بڑے ملک میں چوالیس فیصد بچوں کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے پاکستانی بچوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں بنتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر صرف چھ ماہ سے لے کر تیس ماہ تک کی عمر کے بچوں کی مثال لی جائے ، تو ان میں غذائیت کی کمی کی شرح پچاسی فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس عمر کے شیر خوار بچوں میں سے صرف پندرہ فیصد بچوں کو کافی غذائیت والی خوراک دستیاب ہوتی ہے۔ پاکستان کی بیس کروڑ سے زائد کی آبادی میں غربت یا بہت زیادہ غربت کے شکار شہریوں کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔ 
کئی ملین گھرانوں میں بچے بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے میں خاندان کے سربراہ کی مدد کر سکیں۔ جن خاندانوں میں پیٹ بھر کر تین وقت کے کھانے کی دستیابی بھی مسئلہ ہو، وہاں کسی کو کھانے کی غذائیت پر توجہ دینے کی ضرورت کہاں محسوس ہو سکتی ہے؟۔ اس بارے میں اسلام آباد میں ماہر غذائیات ڈاکٹر احسان اللہ کا کہنا ہے کہ انسانی صحت کے لیے ایسی غذا ضروری ہوتی ہے، جو متوازن ہو اور جسم کو ایسی غذائیت دے، جس کی مدد سے مدافعتی نظام مضبوط ہو اور ممکنہ بیماریوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ انسانی جسم میں پٹھوں، خون کی رگوں، ریشوں اور ہڈیوں، سب کی اپنی اپنی غذائی ضروریات ہوتی ہیں۔ ان کی نشو و نما کے لیے صرف توانائی یا کیلوریز ہی نہیں بلکہ کیلشیم، پروٹینز، نشاستہ، معدنیات اور امراض سے بچاؤ کے لیے وٹامنز وغیرہ سب درکار ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق غذائیت کی کمی چھوٹے بچوں کی غیر تسلی بخش نشو و نما میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین کو خوراک اور غذائیت میں فرق کا علم ہی نہیں۔ جس کے پاس خوراک ہی کافی نہیں، وہ غذائیت کے بارے میں کیسے سوچے گا ؟ اور جس کے پاس کافی خوراک ہے ، وہ نہیں جانتا کہ صحت مند کھانے کا مطلب زیادہ کھانا نہیں ہوتا بلکہ بہتر غذائیت والی خوراک ہوتا ہے۔ عام والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے کی بہتر نشو ونما کے لیے بس پیٹ بھر کر کھانا لازمی ہوتا ہے، حالانکہ بہتر صحت کے لیے خوراک سے زیادہ اہم اس کی غذائیت ہوتی ہے۔ غذائیت کی کمی کے شکار پاکستانی بچوں میں وہ بھی ہوتے ہیں، جو کم خوراکی کا شکار ہوتے ہیں اور وہ بھی جو خوش خوراک تو ہوتے ہیں لیکن جنہیں کم غذائیت کا سامنا پھر بھی رہتا ہے۔ کم غذائیت کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے خون میں نشاستے، نمکیات اور کولیسٹرول کی سطح غیر متوازن ہو جاتی ہے۔
کم غذائیت کے مسئلہ پر بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ارشد محمود کہتے ہیں کہ انیس سو نوے میں بھی اس حوالے صورت حال کافی خراب تھی۔ پھر دو ہزار گیارہ میں ایک نیشنل نیوٹریشن سروے کرایا گیا تو ثابت ہوا تھا کہ قریب پینتالیس فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار تھے۔ اب گزشتہ چند برسوں سے صوبائی حکومتوں نے ایک کثیرالجہتی غذائی حکمت عملی اپنائی تو ہے لیکن وہ بھی ناکافی ہے۔ ارشد محمود کے مطابق اس پالیسی پر بھی ترجیحی بنیادوں پر کام نہیں کیا جا رہا۔ سرکاری بجٹ میں فنڈز کی کمی اتنی ہے کہ جو مالی وسائل دستیاب ہوتے ہیں، وہ بھی زیادہ تر ڈونر فنڈنگ کے تحت ہی جاری کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں اور بڑوں دونوں میں غذائیت کی کمی کے کئی محرکات ہیں۔
ان میں محرومی، غربت، ناخواندگی، سماجی رویے اور کم عمری کی شادیاں سبھی کچھ شامل ہے۔ ایک طرف عام لوگوں کو خوراک اور غذائیت کے فرق تک کا علم نہیں تو دوسری طرف کئی علاقوں، خاص کر خیبر پختونخوا اور سندھ جیسے صوبوں میں بچیوں کی شادیاں کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہیں۔ تو جو بچیاں خود کم خوراکی یا کم غذائیت کا شکار رہی ہوں یا شادی کے بعد بھی ہوں، وہ صحت مند بچوں کو کیسے جنم دے سکتی ہیں؟۔ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کی امراض زچہ و بچہ کے شعبے کی سینئر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر فرحت ارشد کا کہنا ہے کہ بچوں کے غذائیت سے متعلق مسائل حل کرنے کے لیے پہلے خواتین پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ اچھی اور صحت مند خوراک سے کسی بھی خاتون میں بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے ۔ 
اس کے حمل اور زچگی کے مراحل صحت مندی سے گزرتے ہیں۔ ماں صحت مند ہو گی تو بچہ بھی صحت مند ہو گا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی صحت پر توجہ کم دی جاتی ہے، حالانکہ اگلی نسل کی صحت مندی میں ماں کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ پاکستانی عورتوں میں یہ بہت غلط رجحان بھی زور پکڑ چکا ہے کہ ان میں سے بہت سی اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں۔ نوجوان مائیں ڈبے کے یا بازاری دودھ پر انحصار کرنے لگی ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی ماں شروع کے کم از کم چھ ماہ تک بچے کو اپنا دودھ پلائے تو شیر خوار بچہ غذائیت کی کمی کا شکار بھی بالکل نہیں ہو گا اور کئی بیماریوں کے خلاف اس کا جسمانی مدافعتی نظام بھی بہت بہتر ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی حاملہ عورت کے لیے صحت مند خوراک انتہائی ضروری ہوتی ہے ۔ لیکن پاکستان میں بہت سی نوجوان حاملہ خواتین کو خون کی کمی کا سامنا بھی رہتا ہے ۔ اس میں غربت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ سندھ میں تھر کے علاقے کی صورتحال سب سے زیادہ تشویشناک ہے ۔ گزشتہ برس تھر میں غذائیت کی شدید کمی کے باعث پانچ سو بچے موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
بشکریہ دنیا نیوز  
0 notes