#سنا��ات
Explore tagged Tumblr posts
Text
اتحادی حکومت کو کیوں لایا گیا؟
جب تک پی ٹی آئی بر سرا قتدار رہی تو مسلم لیگ (ن) کی دونوں خواتین یعنی محترمہ مریم نواز اور مریم اورنگزیب صاحبہ کھل کر عمران خان کو مہنگائی کا طعنہ دیتی رہیں۔ خصوصاََ جب پیٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھائے جاتے تھے تو طعنہ دیتی تھیں کہ حکومت عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے جبکہ عمران حکومت نے ساڑھے 3 سال میں 75 روپے دام بڑھائے تھے اور ڈالر بھی 183 روپے پر رکا ہوا تھا مگر جیسے ہی پی ڈی ایم کی راتوں رات حکومت لائی گئی تو صرف چند ہفتوں میں پیٹرولیم مصنوعات کے دام 85 روپے بڑھائے گئے تو دونوں کے منہ سے مہنگائی کا واویلا ختم ہو گیا۔ مگراس نئی مہنگائی کا ذمہ دار بھی عمران خان اور ان کی حکومت کو ٹھہرایا جاتا ہے اور آئی ایم ایف کی ہٹ دھرمیوں کو بھی عمران خان کا مرہون منت قرار دے کر اپنے آپ کو معصوم بنا کر عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ گویا 25 کروڑ عوام مسلم لیگ (ن) کو بے گناہ سمجھ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان جنہوں نے اسی مہنگائی کے خلاف پی ڈی ایم کو دن رات متحرک کر رکھا تھا شاید اس نئی مہنگائی کے خلاف اپنا منہ سی لیا ہے اور سیاسی بیانوں سے اجتناب کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مرد میدان وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ دھڑ ادھڑ پی ٹی آئی کے وزیروں، ان کے رشتے داروں کے خلاف مقدمات بنا کر پی ٹی آئی کی نئی حکمت عملی کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر اسلام آباد ہائی کو رٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ ان کو لگام نہ دیتے تو وہ جیل بھرنے کا ریکارڈ توڑ ڈالتے، کمال حکمت عملی سے میاں نواز شریف نے آئی ایم ایف اور مہنگائی سے نمٹنے کے لئے اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو لندن میں اپنے پاس روک رکھا ہے جو مکمل صحت یاب ہیں اور بیچارے صنعتکار مفتاح اسماعیل کو تن تنہا میدان میں اتارا ہوا ہے جو مسلم لیگ (ن) کے ماضی کے گناہ چھپانے میں لگے ہوئے ہیں اور پیٹرول، ڈیزل، بجلی کے دام بڑھانے میں کافی شہرت پا چکے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف ہر طرف ہاتھ پائوں مار کر قرضے لینے کی تگ ودو میں ہیں اور مسلسل قوم کو ڈالروں کے لالی پاپ دینے میں لگے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود ڈالر 215 تک پہنچ چکا ہے اور پی ٹی آئی کے ناکام وزیر خزانہ شوکت ترین جو اپنا سندھ بینک دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکے۔ وہ آئی ایم ایف کو ورغلا کر ڈالر 250 روپے اور ڈیزل 300 روپے فی لیٹر ہو جانے کی نوید سنا کر اپنی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے میاں نواز شریف کا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی طرح ’’ہماری حکومت کیوں ختم کی‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنے ہی لانے والوں کو للکار رہے ہیں۔ دوسری جانب عوام بجلی کی آنکھ مچولی سے بیزار ہو کر سڑکوں پر آرہے ہیں۔ صنعتکار، دکاندار، ریسٹورنٹ مالکان رات 9 بجے تک کاروبار بند کرانے کے خلاف اس حکومت کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں۔ پورا ملک معاشی افراتفری سے بیزار ہو چکا ہے، مگر موجودہ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔
چند لیٹر پیٹرول کا کوٹہ اشرافیہ اور بیوروکریٹس کا کم کر کے 20 فیصد ان کی تنخواہوں میں اضافہ یہ کیسی بچت کی کہانی دکھائی جا رہی ہے اور یہ بوجھ کون برداشت کرے گا، یقینا غریب عوام بھگتیں گے۔ میں حیران ہوں کہ ساڑھے 3 سال سے ہمارے میڈیا کے معزز اراکین، اینکرز ہر سطح پر پی ٹی آئی حکومت کو دن رات مہنگائی، ناکامیوں کا طعنہ دے کر اب کہاں جا کر اس بے لگام مہنگائی پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ یہ نئے قرضے جو احسن اقبال صاحب پی ٹی آئی حکومت سے پوچھتے تھے کہ کون ادا کرے گا وہ آج اپنے وزیر اعظم سے نہیں پوچھتے کہ چین، قطر، سعودی صنعتکاروں اور بینکوں سے قرضے لیں گے تو کون ان کو ادا کرے گا۔ یہ اگلے سال اگست تک رہنے کی نوید سنانے والے یہ سوا سال کس کس کے کندھوں پر بیٹھ کر عوام کو ستائیں گے۔ کیا طعنوں اور ماضی کی حکومت پر الزام تراشیوں سے قوم کو سڑکوں پر لانے سے روک لیں گے۔
قوم اس حکومت کو لانے والوں سے سوال کر رہی ہے کہ کس وجہ سے اب ان کو آزمایا جا رہا ہے جو 35 سال سے دونوں ہاتھوں سے قوم کو لوٹ رہے تھے۔ قوم کیا ان سب کھیلوں اور کرپشنزسے واقف نہیں مگر چپ ہے کیونکہ وہ لانے والوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔ یہی مصلحت ہے اور مجبوری بھی ہے۔ یہ گورنمنٹ جو کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے لائی گئی تھی۔ 2 دن قبل ایک خبر جاری ہوئی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پیٹرول پر 10 فیصد کی شرح سے ری��ولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ ان کارگوز پر لاگو نہیں ہو گی جن کی ایل سی کھل چکی ہے، جس پیٹرول پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی ہے اس پرریگو لیٹری ڈیوٹی کا اطلاق نہیں ہو گا۔ ریگو لیٹری ڈیوٹی سے چین سے کسٹمز فری در آمد ات پر ٹیکس وصول ہو سکے گا، ریگو لیٹری ڈیوٹی کا نفاد 30 جون سے ہو گا۔ افسوس کہ اس اضافہ پر کوئی واویلا کرنے والا بھی دستیاب نہیں ہے اور لگتا ہے کہ سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔ خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Photo
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/ce2b53d1970f6c3290982fee01b6cea9/tumblr_pj9akoc7dH1xopcejo1_540.jpg)
آصف نے کہا۔ @MantoIsManto @MantoSays #Literature #Writer #urdu #aajkalpk ’’کام چور نوکر تو قریب قریب سبھی ہوتے ہیں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر باقاعدہ چور ہوتے ہیں‘‘ اور اس نے اپنے ایک نئے نوکر کی داستان سنائی جو بے حد مستعد تھا۔ اس قدرمستعد کہ بعض اوقات آصف کے آواز نہ دینے پربھی بھاگا بھاگا آتا تھا اور اس سے پوچھتا۔ ’’کیوں صاحب آپ نے بلایا مجھے؟‘‘ آصف نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے نوکروں میں اس قدرپھرتی، چالاکی اور مستعدی پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب راجہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ آسو تم بہت خوش قسمت ہو کہ بیٹھے بٹھائے تمہیں ایسا نوکر مل گیا تو۔ ‘‘ راجہ غلام علی نے بات کاٹ کرکہا۔ ’’بخدا مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کم بخت چور ہو گا!‘‘ آصف راجہ سے مخاطب ہوا۔ ’’میرا اپنا اندازہ یہ تھا کہ وہ یا تو چور ہے یا پہنچا ہوا ولی۔ اس کے بین بین وہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ میں نے راجہ صاحب سے کہا، قبلہ اگر آپ اس نوکر کو ایک ایسا دفینہ سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے مجھے مل گیا ہے تومیں آپ کی دوستی کی ��اطر قربانی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ بڑے شوق سے یہ سوغات اپنے گھرلے جاسکتے ہیں۔ ‘‘ راجہ نے کہا۔ ’’میں نے انکار نہیں کیا تھا۔ ‘‘ ’’درست ہے!‘‘ آصف مسکرایا۔ ’’غلطی میری تھی، اگر میں نے اس وقت وہ نعمت غیر مترقبہ آپ کو سونپ دی ہوتی تو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے مجھے چالیس روپے اور ایک عدد ریلوے پاس کا داغِ مفارقت برداشت نہ کرنا پڑتا۔ ‘‘ راجہ ہم سے مخاطب ہوا۔ ’’آصف سے ذرا ساری داستان سنو۔ کافی دلچسپ ہے!‘‘ آصف نے کہا ’’معاف فرمائیے۔ مجھے یہ داستان غم سناتے کوئی فرحت حاصل نہیں ہوتی۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’بات یہ ہے منٹو۔ کہ چغد پن اصل میں میں نے کیا۔ وہ بہت چالاک تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن اپنی ہوشیاری مجھے کافی اعتماد تھا۔ صبح سویرے اٹھ کر جب میں نے میز کی ٹرے دیکھی تو اس میں خلاف معمول میرا ریلوے پاس نہیں تھا۔ اس کے خانے میں دس دس کے چار نوٹ تھے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ساتھ ہی غائب تھے۔ نوکر میری توقع کے مطابق موجود تھا۔ چنانچہ میں نے اِدھر اُدھر تلاش شروع کی۔ میز کے نچلے دراز میں پاس مع روپوؤں کے فائلوں کے نیچے موجود تھا۔ میں نے اُسے وہیں رکھ دیا۔ یہ تم سمجھ سکتے ہو کیوں؟‘‘ میں نے ا ثبات میں سرہلایا۔ ’’بہت اچھی طرح۔ ‘‘ راجہ مسکرانے لگا۔ آصف نے اس کی طرف دیکھا۔ ’’راجہ صاحب مسکرا رہے ہیں۔ اس لیے کہ میں نے خود کو چغد ثابت کیا۔ لیکن واقعہ یہ ہے۔ ‘‘ وہ مجھ سے مخاطب ہوا ’’بات یہ ہوئی منٹو کہ میں نے ایک پلان بنایا۔ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ اس نوکر نے جس کا نام مومن تھا کس نیت سے وہ روپے فائلوں کے نیچے چھپائے تھے۔ اور ناشتے سے فارغ ہوکر وہ بڑے اطمینان سے اپنا کام کرنا چاہتا تھا اور میں بھی اسے بڑے اطمینان سے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ پلان یہ تھا کہ میں حسب معمول نہانے کے لیے غسل خانے میں جاؤں اور تھوڑا سا دروازہ کھلا رکھوں اور اسے دیکھتا رہوں۔ غسل خانے سے اس کمرے پر جس میں وہ میز پڑا تھا بڑی آسانی سے نگاہ رکھی جاسکتی تھی۔ یہ پلان اس قدر واضح اور مکمل تھا کہ میں نے دل ہی دل میں اس مردِ مومن کو گرفتار کرکے بعد میں اپنی روایتی گناہ بخش طبیعت کے باعث اسے چھوڑ بھی دیا تھا۔ ‘‘ راجہ ہنسا۔ آصف بھی ہنسا۔ ’’ہاں تو منٹو میں نہانے کے لیے غسل خانے میں چلا گیا۔ دروازہ پلان کے مطابق میں نے تھوڑا سا کھلا رکھا۔ مگر نہانے میں کچھ ایسا مشغول ہوا کہ سب کچھ بھول گیا۔ معلوم نہیں غسل خانے میں آدمی کام کی باتیں بھول کر کیوں ایسی دنیا میں کھو جاتا ہے جہاں اور سب کچھ ہوتا ہے مگرکوئی غسل خانہ نہیں ہوتا!‘‘ میں نے مسکرا کرکہا۔ ’’فقرہ خوبصورت ہے، گو کچھ معنی نہیں رکھتا۔ ‘‘ آصف نے ذرا تیزی سے کہا۔ ’’کیوں معنی نہیں رکھتا۔ اگر غسل خانے کے بجائے میں پینٹری میں گیا ہوتا یا دوسرے کمرے کو میں نے اپنا محاذ بنایا ہوتا تو یقیناً اپنے مجوزہ آپریشن میں کامیاب رہتا۔ بخدا مجھے تو اس دن سے نفرت ہو گئی ہے دنیا کے تمام غسل خانوں سے۔ ‘‘ راجہ مسکرایا۔ ’’آج کل آپ غسل آفتابی فرماتے ہیں۔ ‘‘ آصف بھی مسکرایا۔ ’’غسل آبی ہو، آفتابی ہو یا مہتابی۔ مجھے سب سے نفرت ہو گئی ہے۔ تو اس دن سے تیمم پر گزارہ کررہاہوں۔ باہر نکل کر کنگھی کرتے ہوئے جب مجھے اپنا پلان یاد آیا تو دوڑ کر دوسرے کمرے میں گیا۔ فائلوں کے نیچے پاس غائب تھا۔ خدا کی قسم منٹو مجھے ان چالیس روپوں کا افسوس نہیں تھا۔ صدمہ اس بات کا تھا کہ سارا پلان غسل خانے کی بدولت غارت ہو گیا۔ اور پاس ضائع ہو گیا۔ خواجہ ظہیر جو اس وقت تک خاموش تھا بولا ’’آصف صاحب نے اس روز جھنجھلاہٹ میں ٹکٹ کے بغیر سفر کیا اور دھر لیے گئے۔ واپسی پر آپ کا ارادہ تھا کہ چار پانچ دوستوں سمیت انتقام لینے کے لیے ٹکٹ کے بغیر سفر کریں مگر آپ کی روایتی دور اندیشی کام آگئی اور آپ اس خطرناک عزم سے باز رہے۔ ‘‘ راجہ نے سگرٹ سلگایا اور اپنے موٹے موٹے گدگدے گالوں پر ہاتھ پھیر کر ایک لمبی داستان سنانے کے لیے خود کو تیار کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ’’چور نوکروں کا ذکر آیا ہے تو مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ ‘‘ میں نے ان کی بات کاٹی ’’اتفاق کی بات ہے کہ یہ دلچسپ واقعہ آپ اتنی مرتبہ اس قدر غیر دلچسپ طریقے پربیان فرما چکے ہیں کہ اب اس غریب کی ساری وقوعیت ختم ہو چکی ہے۔ اور دلچسپی۔ ‘‘ راجہ کے گال تھرتھرائے ’’چلو ہٹاؤ۔ ‘‘ خواجہ ظہیر نے مجھ سے اجازت لی ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک واقعہ سناؤں۔ ممکن ہے آپ کو اس میں دلچسپی کا کوئی پہلو مل جائے۔ ‘‘ خواجہ ظہیر عام طور پر شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہونیوالی گفتگو میں حصہ نہیں لیا کرتا تھا اور اپنا وہی تجربہ معرض بیان میں لایا کرتا تھا۔ جو اس پر کافی اثر انداز ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا ’’آپ تکلف سے کام نہ لیں خواجہ صاحب۔ بے تکلف ارشاد فرمائیں۔ ‘‘ خواجہ ظہیر نے قدرے تکلف سے کہنا شروع کیا ’’دس روپے کی چوری بظاہر بالکل معمولی چوری ہے۔ گھر میں آئے دن نوکرایسی چوریوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ میں دہلی میں تھا۔ فتح پور میں میرا مکان تھا۔ میرا خیال ہے بمبئے جاتے ہوئے آپ ایک دفعہ وہاں ٹھہرے بھی تھے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا ’’جی ہاں۔ ٹھہرا کیا تھا پورے دس روز قیام کیا تھا۔ ‘‘ ’’تو آپ نے غلام قادر کو ضرور دیکھا ہو گا۔ ادھیڑ عمر کا تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں۔ ‘‘ مجھے یاد آگیا۔ ’’جی ہاں۔ جی ہاں میں اب اسکی تصویر اپنی آنکھوں کے سامنے لاسکتا ہوں۔ مگر وہ تو۔ وہ تو اچھا خاصا۔ میرا مطلب ہے ایماندار آدمی معلوم ہوتا تھا۔ ‘‘ خواجہ ظہیر نے کہا ’’میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ آپ سارا واقعہ سن لیجیے اس لیے آپ یقیناً کوئی نہ کوئی نتیجہ برآمد کرلیں گے۔ واقعہ یوں ہے۔ میری بیوی کی عادت ہے کہ جب میں تنخواہ لاکر اس کے حوالے کرتا ہوں تو اس میں سے کچھ روپے نکال کر کسی کپڑے کی تہہ میں رکھ دیتی ہے یا کسی الماری کے کسی کونے میں چھپا دیتی ہے اور بھول جاتی ہے۔ ‘‘ راجہ نے مسکراکر کہا۔ ’’آپ تو عیش کرتے ہوں گے؟‘‘ خواجہ ظہیر نے راجہ سے مختصراً ’’جی نہیں‘‘ کہا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’وہ بھولتی نہیں۔ دل میں یہ فرض کرلیتی ہے کہ ��ھول گئی ہے۔ اس کو پس انداز کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ آتا ہے۔ ‘‘ آصف نے میری طرف دیکھا۔ ’’منٹو۔ یوں کہیں خواجہ صاحب کہ ان کی بیگم صاحبہ پس انداز کا ترجمہ کردیتی ہیں۔ ‘‘ خواجہ ظہیر مسکرایا۔ ’’جی ہاں۔ کچھ ایسا ہی سمجھیے۔ تو قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ اس نے دس کا ایک نوٹ بک شیلف کے نیچے رکھ دیا اور بھول گئی۔ ‘‘ ’’اپنے نہ بھولنے والے انداز میں‘‘ آصف نے اپنا سگریٹ سلگایا اور ظہیر کو پیش کیا۔ ظہیر نے سگریٹ لے کرشکریہ ادا کیا اور واقعہ کی تفصیل بیان کرنے لگا۔ ’’اپنے نہ بھولنے والے انداز میں وہ دس روپے کے اس نوٹ کو بھول چکی تھی۔ د وہ کس پوزیشن میں پڑا ہے، کب سے پڑا ہے یہ اس کو اچھی طرح یاد تھا۔ اس لیے جب وہ غائب ہوا تو اس نے مجھ سے اس کے بارے میں استفسار کیا۔ آصف نے ازراہِ مذاق پوچھا ’’کیا وہ ہر روز صبح اٹھ کر کونے کھدرے دیکھ لیا کرتی ہیں جہاں انھوں نے حسب توفیق کچھ نہ کچھ بھولا ہوتا ہے؟‘‘ ظہیر نے جواب دیا۔ ’’ہر روز صبح اٹھ کرنہیں۔ لیکن دن میں ایک مرتبہ سرسری طور پر دیکھ لیا کرتی ہیں۔ چنانچہ جب ان کو اس نوٹ کی گمشدگی کا علم ہوا تو سب سے پہلے اُن کو مجھ پر شبہ ہوا۔ ‘‘ راجہ نے پوچھا۔ ’’آپ کبھی کبھی خود کو یہ دھوکا دینے کے لیے آپ نے ایسی چوری کی ہے جس کا علم آپ کی بیگم صاحب کو۔ آپ۔ آپ خود کو یہ دھوکا۔ ‘‘ منٹو صاحب نے فقرے کو صحیح اور با مطلب کرنے کی کوشش کی۔ مگر ناکام رہا۔ ’’منٹو۔ تم سمجھ گئے نا میرا مطلب؟‘‘ میرے بجائے خواجہ ظہیر نے جواب دیا۔ ’’ایسی چوریاں کون خاوند نہیں کرتا۔ کبھی کبھی بوقت ضرورت اس جرم کا ارتکاب کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ اس موقعہ اس کا شبہ غلط تھا۔ مجھے ضرورت تھی اس لیے کہ ایک دوست کو سینما لے جانا تھا۔ لیکن میں نے وہ نوٹ اٹھا کر پھر اس خیال سے وہیں رکھ دیا تھا کہ دو تین روز کے بعد اس کی شدید ضرورت پڑنے والی تھی۔ میں نے چنانچہ اپنی بیوی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ مجھے اس نوٹ کی چوری کا کوئی علم نہیں۔ ‘‘ راجہ نے پوچھا ’’ان کو یقین آگیا؟‘‘ ’’جی نہیں‘‘ آصف نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا ’’وہ بیوی ہی نہیں جسے خاوند کی بات پر یقین آجائے۔ لیکن پھر بھی میں نے اپنی سی کوشش کی اور بالآخر اس کو یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ نوٹ میں نے نہیں چرایا تھا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ چوری اگر میں نے نہیں کی تو کس نے کی تھی۔ کیونکہ یہ تو مسلمہ امر تھا کہ نوٹ خود بخود غائب نہیں ہوا۔ چرایا گیا ہے اور دو اور دوچار بنانے سے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ میرے دفتر جانے کے بعد کسی نے اس پر ہاتھ صاف کیا ہے کیونکہ دفتر جاتے ہوئے میں نے اسے چرانے کا خیال کیا تھا۔ اور اسے کسی دوسرے وقت پر اٹھا دیا تھا۔ ‘‘ راجہ مسکرایا۔ ’’بزرگوں نے وہ ٹھیک کہا ہے۔ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔ ‘‘ خواجہ ظہیر نے راجہ کی بات سنی مگر بزرگوں کے اس کہے کے متعلق اپنے خیال کا اظہار نہ کیا ’’گھر میں دو نوکر تھے، ایک ملازم قادر۔ دوسرا صادق۔ صادق دو دن سے چھٹی پر تھا۔ اس کی ماں بیمار تھی۔ بس ایک غلام قادر ہی تھا جس پر شک کیا جاسکتا تھا۔ مگر۔ ‘‘ اس نے براہ راست مجھ سے مخاطب ہو کرکہا۔ ’’جیسا کہ آپ نے ابھی ابھی فرمایا تھا وہ اچھا خاصا ایمان دار آدمی معلوم ہوتا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہم اپنے شک کا اظہار کیسے کریں۔ نوکروں کو ڈانٹنے ڈپٹنے، مارنے پیٹنے اور ملازمت سے برطرف کرنے کا کام میرے ذمے ہے۔ ‘‘ راجہ نے ازراہ مذاق کہا۔ ’’بڑا اہم پورٹ فولیو آپ کے ذمے ہے۔ ‘‘ ’’جی ہاں، بہت اہم۔ لیکن بڑا نازک۔ وہ ملازم خود رکھتی ہیں لیکن برطرفی مجھ سے کراتی ہیں‘‘ یہ کہہ کر خواجہ ظہیر مسکرایا۔ راجہ صاحب کے گال بھی مسکرائے ’’جس کا کام اسی کو ساجھے۔ کوئی اور کرے تو خدا معلوم کیا باجے‘‘ آصف نے کہا ’’ڈنکا‘‘ ’’ڈنکا ہی ہو گا۔ ‘‘ جلدی سے کہہ کر وہ خواجہ ظہیر سے مخاطب ہوا ’’آپ ذرا جلدی اپنی داستان ختم کیجیے۔ مجھے اپنی ڈنکا کے ساتھ ایک جگہ جانا ہے۔ ‘‘ آصف بے تحاشا ہنسا۔ ’’اپنی ڈنکا کے ساتھ؟‘‘ راجہ کے گال بوکھلا گئے۔ ’’آئی ایم سوری۔ اپنی بیوی کے ساتھ!‘‘ سب ہنسنے لگے۔ میں نے خواجہ ظہیر سے کہا۔ ’’راجہ صاحب کو اپنی بیوی کے ساتھ جانا ہے۔ اس لیے آپ یہ داستان جلدی ختم کردیجیے تاکہ یہ راستے میں اسے سنا سکیں!‘‘ خواجہ مسکرایا۔ ’’بہت بہتر۔ ‘‘ پھر تھوڑی دیر رک کر اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’معاملہ بہت ٹیڑھا تھا۔ غلام قادر کو ملازم ہوئے صرف ایک مہینہ ہوا تھا۔ اس دوران میں اس نے مجھے اور میری بیوی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیاتھا۔ بڑا اطاعت گزار قسم کا آدمی تھا۔ ان دنوں سخت گرمیوں کے باعث برف کی بہت قلت تھی۔ ملتی تھی تو آٹھ آنے سیر مگر غلام قادر دو آنے کی اتنی ساری لے آتا تھا۔ صادق کو بہت تاؤ آتا تھا۔ جب میری بیوی اس سے کہتی کہ دیکھو غلام قادر کتنا اچھا ہے۔ تم تو اول درجے کے چور ہو تو وہ بھنا جاتا اور اسے گالیاں دیتا کہ وہ یہ سب کچھ اسے نکلوانے کے لیے کرتا ہے۔ جب پہلی مرتبہ وہ دو آنے کی توقع سے بہت زیادہ برف لایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اتنی سستی تم کہاں سے لے آئے، تو اس نے جواب دیا کہ صاحب برف وال�� اپنی دکان بڑھا رہا تھا جتنی بچی تھی، سب کی سب اس نے مجھے دے دی۔ جواب معقول تھا۔ لیکن دوسرے روز وہ پھر دو آنے کی اتنی ہی برف لایا اور قریب قریب ہر روز لاتا رہا، کیونکہ میری بیوی نے اب سودا سلف لانے کا کام اسی کے سپرد کردیا تھا۔ اس کو میرے لڑکے سے بہت محبت تھی۔ ہر دوسرے تیسرے دن اس کو چاکلیٹ وغیرہ لے دیتا تھا۔ دو تین مرتبہ وہ میری بیوی کے لیے چنگیر بھر بھر کے موتیے کے پھول بھی لایا۔ اس پر چوری کا شک ہو سکتاتھا، لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کا اظہار کیسے کیا جائے اور اس کی تصدیق کیونکر ہو۔ میں طبعاً بہت نرم ہوں، لیکن بیوی کی خاطر مجھے اکثر نوکروں کوڈانٹ ڈپٹ کرنی پڑتی ہے۔ جب چوری کا پتہ لگانے کے لیے مجھے بار بار اکسایا گیا تو میں نے ایک دن غلام قادر سے پوچھ گچھ کا تہیہ کرلیا۔ ‘‘ خواجہ نے ڈبیا سے ایک سگریٹ نکالا۔ راجہ نے گھڑی میں وقت دیکھا اور کہا ’’اللہ بیوی سے بچائے۔ ‘‘ خواجہ نے سگریٹ سلگایا۔ ’’چنانچہ میں نے اُس کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا، دیکھو غلام قادر وہ دس روپے کا نوٹ جو تم نے بک شیلف کے نیچے سے اٹھایا تھا۔ واپس کردو۔ ‘‘ راجہ نے کہا۔ ’’یہ طریقہ خوب تھا۔ ‘‘ خواجہ ظہیر نے راجہ کی بات کی طرف دھیان نہ دیا۔ ’’اس نے کسی قدر گھبرا کر جواب دیا۔ صاحب کون سا دس روپے کا نوٹ۔ مجھے بالکل معلوم نہیں۔ اس پر میں نے اس کو ڈ انٹا۔ مگر وہ پھر بھی نہ بولا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ مجھے شکست ہورہی ہے تو میں نے زور کا ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ یہ اس کی توقع کے خلاف تھا۔ ایک دو سیکنڈ کے لیے چنانچہ وہ بالکل مبہوت ہو گیا۔ میں نے ایک اور جڑ دیا اور بڑے سنگین لہجے میں اس سے کہا۔ دیکھو غلام قادرتم نے اگر سچ نہ بولا تو میں پولیس کے حوالے کردوں گا۔ اس نے جواب دیا۔ صاحب میں نے چوری نہیں کی۔ آپ مجھے پولیس کے حوالے کردیجیے!‘‘ راجہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ’’بڑا پکا چور تھا۔ ‘‘ خواجہ ظہیر نے نفی میں اپنا سر ہلایا۔ ’’جی نہیں۔ وہ پکا چور تھا نہ کچا۔ میں نے جب دیکھا کہ میرا وار خالی گیا ہے تو بڑی پریشانی ہوئی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اس سے کیا کہوں۔ میں نے آغاز ہی انتہا سے کیا تھا۔ اب کیا کرتا۔ دو بڑے زناٹے کے تھپر میں نے اس کو مارے تھے۔ وہ بے گناہ بھی ہو سکتا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ چنانچہ میں نے صدق دل سے معافی مانگی۔ اور کہا دیکھو غلام قادر۔ مجھ سے زیادتی ہوئی ہے لیکن بات یہ ہے کہ وہ دس روپے کا نوٹ غائب ضرور ہوا ہے۔ میں نے اٹھایا نہیں۔ تم انکار کرتے ہو۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ یا تو ہم دونوں سچے ہیں یا دونوں جھوٹے۔ بیگم صاحبہ تمہارا کہنا مان لیں گی۔ لیکن مجھ پر ان کا شک بہت مضبوط ہو جائیگا۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری نیت تھی وہ نوٹ اٹھانے کی۔ بلکہ میں نے اٹھایا بھی تھا مگر پھر وہیں رکھ دیا تھا کہ جب بہت اشد ضرورت ہو گی تو لے لوں گا۔ ‘‘ میں اسی جذباتی رو میں کچھ اور بھی کہنے والا تھا کہ غلام قادر مضبوط لہجے میں بولا۔ ’’وہ نوٹ میں نے اٹھایا تھا صاحب۔ ایک لحظے کے لیے میں چکرا گیا۔ ‘‘ راجہ نے کہا۔ ’’بات چکرانے ہی والی تھی!‘‘ خواجہ ظہیر نے سگریٹ فرش پر پھینک کر بوٹ کے تلے سے بجھایا۔ ’’جی ہاں۔ میں نے غلام قادر کی طرف دیکھا اور حیرت سے پوچھا، تم نے۔ تم نے یہ چوری کیوں کی؟۔ غلام قادر نے جواب دیا۔ کیا کرتا صاحب۔ بیگم صاحبہ نے تنخواہ نہیں دی۔ کہتی تھیں کہ میں ہمیشہ نوکر کی ایک مہینے کی تنخواہ دبا کر رکھا کرتی ہوں تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔ اور۔ اور۔ اس نے رُک رُک کر کہا۔ مجھے عادت ہے۔ مالکوں کی خدمت کرنے کی۔ ان کے سوا میرا کون ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میلے جھاڑن سے ان کو پونچھتے ہوئے وہ کمرے سے چلا گیا۔ ‘‘ راجہ نے پوچھا۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ خواجہ ظہیر نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔ ’’کچھ نہیں۔ وہ گھر ہی سے چلا گیا تھا!‘‘ (سعادت حسن منٹو)
0 notes
Photo
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/5b2d40d4bd71da1d82b5af3fd86ae8a1/tumblr_p8mdsakWay1t0g3mfo1_400.jpg)
رواں ماہ ایکسپورٹرز کو 100 ارب کے ریفندز ادا کر دئیے جائینگے کراچی:وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایکسپورٹرز کو خوشخبری سنا دی۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے اس ماہ کے آخر تک ایکسپورٹرز کو 100 ارب روپے کے ریفندز ادا کر دئیے جائینگے۔قونصل آف ٹیکسٹائیل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے صنعتکاروں سے ملاقات میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے حکومتی کوششوں کے سبب ملکی برآمدات میں بہتری آ رہی ہے۔آئیندہ ماہ کے اختتام تک ایکسپورٹرز کو ریفنڈ کی مد میں 100ارب روپے تک کی رقم جاری کر دی جائے گی۔وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ برآمد ات میں اضافے کے لئے ایکسپورٹ سیکٹر کی خام مال درآمد پر دیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جس صنعتکاروں کو فائدہ ہو گا، مسلم لیگ نواز کی حکومت میں ملک کی معاشی صورتحال میں تیزی سے بہتری آئی، آئندہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو تجارتی و صنعتی پالیسیوں کو مزید بہتر بنائے گے۔
0 notes
Photo
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/7773716ca0b50fef99a88644718d832a/tumblr_p4ydkgoIMM1uyn3lxo1_500.jpg)
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ پر عمران خان سے ایک ہفتے کے اندر جواب طلب کرلیا اسلام آباد (نمائندہ جنگ/نیوز ایجنسیز ) عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی بنی گالا کی رہائش کے نقشے کی منظوری اورمبینہ جعلی این او سی کے اجراء سے متعلق ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ پر عمران خان سے ایک ہفتے کے اندر جواب طلب کرلیا ہے ،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایم این ایز کی پرچیوں پرگیس کنکشن دینے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ شکایات موصول ہوئی ہیں ایم این ایزکی چٹ پر کنکشن دیئےجارہےہیں۔چیف جسٹس نے وزیر کیڈ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہ اختیار ہے پرچی لکھ کربھیجیں، گیس کنکشن دے کرآپ نے ووٹ لینے ہیں، جس پر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ گیس کنکشن وزیر اعظم کی ہدایت پردیئےجاتے ہیں، ایم این ایز کے کہنے پر کنکشن نہیں دیئےجاتے۔سپریم کورٹ نے محکمہ سوئی گیس سے منگل تک تفصیلات مانگ لیں اور کہا کہ تفصیلات کے ساتھ بیان حلفی جمع کرائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے غیر قانونی تعمیر ات کی ہیں یا انہیں گرانا ہےتو وہ متعلقہ ادارے خود دیکھ لیں گے، ہماری تشویش تو لوگوں کو فراہم کئے جانے والے پانی سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل رات ٹی وی پر آپ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے امتحان لینے جائیں گے، آپ کونسا امتحان لینے کیلئے یہاں تشریف لائے ہیں؟ آپ جو رات کہہ رہے تھے وہ میں نے خود سنا ہے،ذراخیال کیا کریں، طارق فضل نے کہا کہ اگر عدالت اجازت دے توکچھ عرض کروں ؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تشریف رکھیں ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی دستاویزات پر اسلام آباد انتظامیہ کاجواب آ گیاہے ،چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری سے پوچھا کہ کیا آپ کو جواب کی کاپی مل گئی ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے جواب نہیں ملا ہے لیکن میڈیا کو مل گیا ہے، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اب ہم کیا کر سکتے ہیں، میڈیا بھی سپریم کورٹ کاحصہ ہے، سپریم کورٹ میں جو کچھ بھی ہوتاہے، میڈیاکو سب معلوم ہے، میڈیاکو بعض اوقات ہم سے زیادہ معلوم ہوتاہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بعض میڈیا والوں نے مجھے قسمیں دی ہیں کہ رپورٹ دے دو لیکن میں نے انہیں رپورٹ نہیں دی بلکہ براہ راست دفتر میں جمع کرائی تھی ، معلوم نہیں یہ رپورٹ میڈیا کے ہاتھ کیسے لگ گئی ۔
0 notes
Photo
اقامہ بن لادن جی ہاں "سسیلین مافیا" کے خلاف خوفناک ثبوت سامنے آگیا ہے۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والے اس ثبوت کا نام ہے اقامہ۔ تقریباً ڈیڑھ سال سے پاناما کے معاملے پر اس قوم کو سولی پر چڑھائے رکھنے کے بعد اپوزیشن قیادت خفیہ اداروں والی جے آئی ٹی اور عدلیہ کو ایک وزیر اعظم کے خلاف اقامہ مل ہی گیا۔یہ اقامہ تو اسامہ سے بھی بڑی دریافت ہے۔ شاید اسی لیے تو اسامہ بن لادن ملنے کے بعد کوئی نا اہل نہیں ہوا اور اقامہ بن لادن کی دریافت وزیر اعظم کی نااہلی پر منتج ہوئی۔ مان لیتے ہیں کہ اسامہ اور اقامہ دونوں ہی پہلے سے" ہمارے "پاس نہیں تھے۔ اسامہ کو امریکہ نے دریافت کیا اور اقامہ کو جے آئی ٹی نے۔ ذرا سوچیے اگر یہ اقامہ بھی نہ ملتا تو پھر کیا ہوتا؟ ذرا اس سے بھی پہلے جائیے اگر پاناما ہی نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟ پہلے منظم دھاندلی نے طویل عرصہ سے اس قوم اور اسکی منتخب حکومت کو عالم نزاع میں رکھا اور پھر صحافیوں کی عالمی تنظیم نے پاناماکا بھانڈا پھوڑ دیا۔ " اللہ دے بندہ لے" عالمی میڈیا میں خبر کا مطلب تو یہی ہوتا ہے ناں کہ ہمارے ملک کی سیاسی قیادت بدعنوان اور مافیا ثابت ہو چکی؟ہاں اگر اسی عالمی میڈیا میں ہماری فوجی حکومتوں اور انکے دور کی عدلیہ سے متعلق کچھ آ جائے تو وہ ملک اور ریاست پاکستان کے خلاف ایک سازش قرار پاتی ہے۔ وکی لیکس میں جو کچھ ہماری حکومتوں اور اداروں کے بارے میں آشکار ہوا ہے اس کے بعد تو ہمیں کسی سووموٹو کاروائی اور عملدرآمد بینچ کی بھی ضرورت نہیں۔ ایسے میں ڈوب کر مرنے کے لیے کالاباغ ڈیم نہیں چلو بھر پانی کی ضرورت ہے۔ مگر کیا ہے کہ "قانون اندھا ہے"۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں قانون ساز اور قانون دان دونوں ہی اندھے ہیں۔ یہ اندھا پن بھی بے وجہ نہیں ہے۔ جب چناؤزندگی اور بینائی کے بیچ ہو تو بینائی کیا بیچتی ہے۔ پاناما سے پہلے ایک ایگزیکٹ کمپنی کا سکینڈل بھی آیا تھا جس پر کالے بوٹوں اور کالے کوٹوں نے اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ گونگا بہرہ ہونے میں ہی غنیمت جانی۔ اسکی وجہ واضح تھی کہ اس سکینڈل میں نہ صرف یہ کہ کوئی وزیر اعظم ملوث نہیں تھا بلکہ اس کمپنی کے پیچھے جن قوتوں کے ہاتھ تھے ان پر چوہدری نثار جیسے "امن پسند" وزیر داخلہ ٹھوس کاروائی کرنے کی بجائے محض کاغذی کاروائی ہی ڈال سکتے تھے۔ اور جب مدعی سست ہو گیا اور گواہان خاموش تو پھر ایسے احتساب میں سووموٹو کی لچ تلنے کی کسے جرات پڑتی۔ "عظمی" اور "عالیہ" اس معاملے میں "وقار" سے پھڈا نہیں مول لے سکتی تھی۔اس ملک میں اگر ایگزیکٹ کمپنی کے کاروبار اور فنڈنگ پر ایک ایسی ہی جے آئی ٹی بنا دی جاتی تو اس میں سے کیا کیا نہیں نکلتا۔ اس کمپنی اور اسکے چینل کے پیچھے جو فرشتے ہیں ان پر جے آئی ٹی ذرا بنا کر تو دکھائیں تو جناب پاناما جے آئی ٹی میں فوج کو ملوث کرکے پاناما کا جو پہاڑ کھودا گیا اس میں سے اقامہ کا چوہا بر آمد کر کے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ کسی بھی عدالتی فیصلے کو تاریخی بنانے کیلئے اس سے زیادہ آسان طریقہ اور کیا ہو گا۔ وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے بارہا کہا کہ کپیٹل ایف زی ای کمپنی سے متعلق معلومات اور دستاویز ات کو وزیر اعظم کے بیان ریکارڈ کرتے وقت انکے سامنے رکھا ہی نہیں گیا۔ معاملہ وزیر اعظم نواز شریف کے دو ہزار تیرہ میں حلف اٹھانے کے بعد دو ماہ کی تنخواہ کا تھا جو اس کمپنی کی دستاویزات کے مطابق انکے لیے قابل وصول تھی۔ تنخواہ کی وصولی تو ثابت نہ ہوئی مگر محض دس ہزار درہم کی تنخواہ کا " قابل وصول" ہونا بھی نیب قانون میں جرم تصور کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو اس معاملے پر مزید تحقیق اور نواز شریف کو طلب کر کے انکا ذاتی بیان بھی ضروری تھا جو نہیں ہوا۔ مختصر یہ کہ عدالت نے وہ عنایت کر دیا جو درخواست گزار نے مانگا ہی نہیں تھا اور اسے سزا سنا دی جسے سنا ہی نہیں گیا۔ اس معاملے پر وزیر اعظم نا اہل ہو گیا جو معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے باقاعدہ طور پر آیا ہی نہیں۔ اخبارات اسے پاناما کا فیصلہ کہہ رہے ہیں اور دنیابھر کا میڈیا وزیر اعظم کی نا اہلی کو پاناما سے جوڑ رہا ہے۔ شاید مقصود بھی ایسا ہی ہوگا۔یہ سب غلط ہے پاناما کیس میں تحریک انصاف اور دوسرے درخواست گذاروں کی اس استدعا کو مسترد کر دیا گیا جس میں لندن فلیٹوں اور ان سے متعلق مبینہ غلط بیانی کی بنیاد پر وزیر اعظم کی نا اہلی مانگی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف وزیر اعظم کی پاناما معاملے میں نا اہلی کا مقدمہ فی الوقت ہار چکی ہے۔ پاناما کا معاملہ اب احتساب عدالتوں میں بھی�� دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ پاناما پر جے آئی ٹی رپورٹ میں " اضافی ٹھوس شواہد" آگئے تھے تو نا اہلی بوجہ پاناما کا فیصلہ کیوں کر کیا گیا ؟ وجہ صاف ظاہر ہے ایک سیاسی معاملے کی سماعت کی غلطی کے بعد نا اہلی بوجہ پاناما سیاسی انتشار کا سبب بنتی اور الزام درست طور پر عدلیہ کے سر جاتا۔ نواز شریف جیسے سیاست دان کی نااہلی کا مکمل کریڈٹ عمران خان جیسے سیاستدان کو دینا بھی خفیہ ہاتھوں کیلئے خطرناک تھا۔ عمران خان کی شکل میں ایک نیا نواز شریف اب کسی کو نہیں بننے دیا جائیگا۔"چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے"۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ پانچ ججوں نے پانچ صفر سے نواز شریف کو نا اہل کیا ہے۔ اس سے زیادہ گمراہ کن بات نہیں ہو سکتی۔ پہلی بات جب دو ججوں نے لندن فلیٹوں پر اختلافی نوٹ کے ذریعے نواز شریف کو "گاڈ فادر" قرار دے کر نا اہل کیا تھا تو تین ججوں نے فوری نا اہلی کے اس فیصلے کو اس وقت بھی مسترد کردیا اور پھر آج بھی انہوں نے پاناما کیس کے لندن فلیٹوں کی بنیاد پر نواز شریف کی نا اہلی سے انکار کیا ہے اور معاملہ احتساب عدالتوں میں بھیج دیا ہے۔ اب اگر عدالت پاناما جیسے بنیادی مسئلے پر نا اہلی سے انکار کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کو نا اہل بھی نہ قرار دیتی تو عدلیہ کا " وقار" خطرے میں پڑ جاتا۔ تو جناب وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی بوجہ اقامہ در اصل تین ججوں کا فیصلہ ہے دوسرے دو ججوں کی طرف سے ان کی نا اہلی بوجہ پاناما تین ججوں نے مسترد کر کے معاملہ احتساب عدالتوں کو بھیج دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلے دو ججوں نے نا اہلی بوجہ اقامہ والے حکم پر دستخط کر کے اپنے نا اہلی بوجہ پاناما کے مسترد شدہ فیصلے کو عزت بخشنے کی کوشش کی ہے۔ ان دو ججوں کو چاہیے تھا کہ وہ نا اہلی بوجہ اقامہ والے حکم پر دستخط کر تے وقت ایک وضاحت ضرور تحریر کرتے کہ چونکہ وہ عمل در آمد جے آئی ٹی پورٹ اور اقامے کے معاملے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے اور انہوں نے خاص کر کپیٹل ایف زی ای کمپنی پر دلائل سنے ہی نہیں تو اس لیے وہ وزیر اعظم کی نا اہلی بوجہ اقامہ کے فیصلے میں شامل نہیں ہو سکتے اور یوں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نااہلی بوجہ اقامہ کا فیصلہ تین دو کا ہے نہ کہ پانچ صفر کا۔ بیس سال بعد کوئی " صادق" نامی بچہ اس تاریخی فیصلے کو سکول میں بیٹھا یوں یاد کرے گا۔" میرے دادا کہتے تھے کہ انہوں نے ایک حکم لکھ کر وزیر اعظم کو اسکے گھر سے نکال دیا تھا"۔ اس کے سامنے بیٹھا " امین" نامی بچہ بولے گا "کتاب میں تو لکھا ہے کہ ماضی میں فوجی آمروں اور انکی کینگرو عدالتوں نے گٹھ جوڑ کر کے وزیر اعظموں کو پھانسی دی اور انکو حکومت سے نکال باہر کیا"۔ بشکریہ نوائے وقت
0 notes
Photo
![Tumblr media](https://64.media.tumblr.com/66914ec219dfcc67d6a36cfc341fe611/tumblr_onzle1gGF41vksfn2o1_500.jpg)
عدالت، زمین قبضے اور بحریہ ٹاﺅن اے وحید مراد سپریم کورٹ میں درخواست گزارمحمود نقوی بولا، پانچ لاکھ ایکڑ زمین کا معاملہ ہے، پہلے بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف درخواست دی تھی، اب چاہتا ہوں کہ اسی قیمت پر بحریہ ٹاون کو بھی زمین دی جائے جس پر ڈی ایچ اے کو دی جاتی ہے۔ ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کو بھی فی ایکڑ ایک لاکھ روپے میں دی گئی تھی۔ اللہ کی قسم میں بکا نہیں ہوں، نہ مجھے کوئی خرید سکتا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ نئی درخواست بعد میں پڑھیں، پہلے اپنی وہ درخواست پڑھیں جس پر یہ عدالتی کارروائی شروع ہوئی تھی۔ درخواست گزار نے پڑھنا شروع کیا کہ سندھ کے تمام اداروں نے مل کرملیر ��اون کے علاقے گڈاپ میں پانچ لاکھ ایکڑ زمین غیر قانونی طورپرایک شخص ملک ریاض کو دی ہے۔ پھربولا، دراصل زمین غیر قانونی طورپردی گئی تھی مگر اب چونکہ لوگوں نے کروڑوں روپے اداکرکے گھر بنالیے ہیںاور یہ کھربوں کا منصوبہ ہے تو عدالت اس کو جائز قراردے، صرف ان سے ڈی ایچ اے کی طرح ایک لاکھ فی ایکڑ وصول کرکے خزانے میں جمع کی جائے۔ سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نے عدالت کو بتایاکہ زمین محکمہ مال کی ملکیت تھی،اس نے ہموار کرنے کیلئے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کی ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے پوچھا ، کیا ملیراتھارٹی یہ زمین آئے کسی کو بھی بیچ سکتی ہے؟۔وہ دستاویز ات کہاں ہیں جن میں یہ معاہدہ درج ہے، کس شرائط کے تحت اور کون سے قانون کے مطابق یہ زمین محکمہ مال نے ملیراتھارٹی کو دی؟۔سندھ کے وکیل بولے، یہ 1912کاقانون ہے سندھ کالونائزیشن اینڈ ڈسپوزل آف گورنمنٹ لینڈ جس کے تحت زمین حوالے کی جاتی ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا، عدالت یہ دیکھے گی کہ کیا محکمہ مال نے قانون کے مطابق زمین ملیراتھارٹی کے حوالے کی؟۔سندھ کے وکیل نے کہا، اس بارے میں ملیراتھارٹی اور بحریہ ٹاﺅن ہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ ان کے درمیان کن شرائط پر معاہدہ ہوا۔ عدالت میں محکمہ مال کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے اوربتایاکہ زمین کے حصول کیلئے ملیراتھارٹی نے 2014میں درخواست کی تھی، اس حوالے سے تین قوانین ہیں، ایک وہی 1912کا قانون، دوسرا مغربی پاکستان زمین حوالگی کاقانون اور تیسراملیرڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قانون، جس کے تحت وہ زمین کا تبادلہ کرکے اس کو قابل استعمال بناسکتاہے، عدالت کو تمام تفصیل سے آگاہ کریں گے مگر تیاری کیلئے موقع دیاجائے۔ ملیر اتھارٹی کے وکیل رشید اے رضوی بولے، ہم نے زمین قانون کے مطابق ہی بحریہ ٹاﺅن کے حوالے کی تھی ،کل تیرہ ہزار ایکڑ کی ڈویلپمنٹ کا طے ہواتھا،بعد میں مالیت پر تنازعہ سامنے آیاجو اب طے ہورہاہے۔ جسٹس مقبول باقر بولے، وہ تو آپ کے چہرے پر چھائی خوشی سے معلوم ہورہاہے کہ ’دل تبدیل کردیاہے‘۔ بحریہ ٹاﺅن کے وکیل علی ظفر آئے بڑھے اور بولے،ملیرڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس زمین کو ہموار کرکے قابل استعمال بنانے کیلئے رقم نہیں تھی، ہمارے حوالے کرنے کی منظوری سندھ حکومت نے بھی دی تھی۔ اب اگر ملیراتھارٹی کو مزید رقم کی بھی ضرورت ہے تو ہم منہ مانگے پیسے دینے کو تیارہیں۔ بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے وکیل اعتزازاحسن بھی آئے بڑھے اور بولنے لگے تو جسٹس اعجازافضل نے کہا، آپ کو بھی سن لیں گے فی الوقت معاملے کی بنیاد کاجائزہ لینا ضروری ہے، اس کیلئے محکمہ مال سندھ کے وکیل نے مہلت طلب کی ہے، مقدمہ انیس اپریل تک ملتوی کرتے ہیں۔ پھر بحریہ ٹاﺅ ن کی جانب سے راولپنڈی اسلام آبادمیں جنگلات و سرکاری زمین پر قبضے کا مقدمہ شروع ہوا۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 22اگست 2014 کو ایک فیصلہ دیاتھا جس پر نظرثانی اپیل دائر کی گئی ہے۔ کل 684 ایکڑ زمین پر ناجائز تجاوز کا معاملہ ہے، یہ محکمہ جنگلات کی زمین تخت پڑی کے علاقے میں واقع ہے، محکمہ مال کی اس پر تین رپورٹس آئی ہیں۔جسٹس اعجازافضل بولے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ محکمہ جنگلات کی زمین ہے تو پھر تجاوز کیسے کہہ رہے ہیں، یہ تو قبض�� ہوگا۔ پنجاب حکومت کے وکیل نے کہاکہ عدالتی حکم کے بعد 8 سوکنال اراضی واگزار کرائی گئی مگر بعد میں اس پر بھی دوبارہ قبضہ کرلیاگیا۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ کہاں سے پڑھ رہے ہیں؟۔ وکیل نے کہاکہ یہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی رپورٹ ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہ رپورٹ کہاں ہے، ریکارڈ سے دکھائیں کب اور کیسے قبضہ ہوا؟ واگزار کس نے کب کیا؟اور کس سے کیا، پھر کون قابض ہوا، اس کی ایف آئی آرکہاں درج ہے؟۔پنجاب سرکار کے وکیل آئیں بائیں شائیں کرنے لگے ۔ اس موقع پر درخواست گزار محکمہ جنگلات کا ریٹائرڈ ملازم ستر سال کی عمر میں عدالت میں کھڑا ہوا، ملک شفیع نے بتایا کہ یہ مقدمہ ڈیڑھ سال بعد سماعت کیلئے لگاہے،آخری سماعت پر تمام چیزیں کھل کرسامنے آگئی تھیں مگر جسٹس جواد خواجہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مقدمہ نہ لگا۔ملک شفیع نے کہاکہ یہ صرف راولپنڈی کی 684ایکڑ زمین کامعاملہ نہیں، اس کے علاوہ بھی 714ایکڑ زمین ہے جس پر قبضہ کیاگیا،ڈیڑھ کھرب روپے کی زمین ہے ، یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے۔ اس وقت جب ہم اس عدالت میں تمیر کے ہزاروں کنال جنگلات پر قبضہ جاری ہے، میری زندگی کو خطرہ لاحق ہے، میری بیوی اور بچے کہتے ہیں کہ چھوڑو، ان مقدموں کو ہمیں کیا ملناہے،مگر میں صرف ��للہ کیلئے اور اس ملک کیلئے یہاں کھڑاہوں، کسی سے کوئی جھگڑا نہیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے زمین کی نشاندہی کیلئے سروے آف پاکستان، محکمہ مال راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت تین اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی مگر آج تک کسی نے بھی عمل نہیں کیا۔ اسی وقت اعتزاز احسن، علی ظفر، زاہد بخاری سمیت کئی وکیل اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھے اور بولے کہ ہم سب ملک ریاض کے دفاع کیلئے پیش ہو رہے ہیں، ہمیں بھی سن لیا جائے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ حوصلہ رکھیں، ابھی ہم کوئی فیصلہ نہیں کررہے، صرف سرکاری اداروں سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کی جانب سے زمین کی نشاندہی کی رپورٹ کہاں ہے؟۔ عدالت نے حکم دیا کہ کل راولپنڈی اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنرز اور کلکٹرز پیش ہوکر بتائیں کہ جنگلات کی زمین کانقشہ اور اس کی نشاندہی کی کیا صورتحال ہے۔ (یہ وہی کچھ ہے جو عدالت میں دیکھا اور سنا، میرا ذاتی تبصرہ شامل نہیں ، اس لیے کہ یہ خبر کوئی اخبار یا ٹی وی نہیں چلائے گا)
0 notes