#آصف نے کہا۔
Explore tagged Tumblr posts
emergingpakistan · 1 year ago
Text
عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟
Tumblr media
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو ایک نیا دھچکا لگا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں حزب اختلاف کے اہم رہنما عمران خان کو اس سال کے آخر میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا ہے۔ اس قانونی جنگ کے بارے میں کئی اہم سوالات ہیں جن کا جواب عمران خان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا؟ قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد کوئی شخص کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔ نااہلی کی مدت کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ قانونی طور پر اس نااہلی کی مدت سزا کی تاریخ سے شروع ہونے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہو سکتے ہیں لیکن سپریم کورٹ اس صورت میں تاحیات پابندی عائد کر سکتی ہے اگر وہ یہ فیصلہ دے کہ وہ بے ایمانی کے مرتکب ہوئے اور اس لیے وہ سرکاری عہدے کے لیے ’صادق ‘ اور ’امین�� کی آئینی شرط پورا نہیں کرتے۔ اس طرح کا فیصلہ 2018 میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف دیا گیا تھا۔ دونوں صورتوں میں عمران خان کو نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات سے باہر ہونے کا سامنا ہے۔ عمران خان کا الزام ہے کہ ان کی برطرفی اور ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن میں عسکری عہدیداروں کا ہاتھ ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج اس سے انکار کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے رہنماؤں کی مثالیں موجود ہیں جو جیل گئے اور رہائی کے بعد زیادہ مقبول ہوئے۔ نواز شریف اور ان کے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف دونوں نے اقتدار میں واپس آنے سے پہلے بدعنوانی کے الزامات میں جیل میں وقت گزارا۔ سابق صدر آصف علی زرداری بھی جیل جا چکے ہیں۔ 
Tumblr media
عمران خان کے لیے قانونی راستے کیا ہیں؟ عمران خان کے وکیل ان کی سزا کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کریں گے اور سپریم کورٹ تک ان کے لیے اپیل کے دو مراحل باقی ہیں۔ سزا معطل ہونے کی صورت میں انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ان سزا معطل کر دی جاتی ہے تو عمران خان اب بھی اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کو مجرم ٹھہرانے کے فیصلے کو بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں دیا گیا اور انہیں اپنے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن سزا سنانے والی عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم نے جو گواہ پیش کیے ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ بار بار طلب کیے جانے کے باوجود کئی ماہ تک عدالت میں پیش ہونے سے عمران خان کے انکار کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت تیز کر دی تھی۔ تاہم توشہ خانہ کیس ان پر بنائے گئے 150 سے زیادہ مقدمات میں سے صرف ایک ہے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات میں دو بڑے مقدمات شامل ہیں جن میں اچھی خاصی پیش رفت ہو چکی ہے انہیں زمین کے معاملے میں دھوکہ دہی اور مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امکان یہی ہے کہ انہیں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں لے جایا جائے گا کیوں کہ وہ تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے جیل جانے کے بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت اب سابق وزیر خا��جہ شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں۔ نو مئی کے تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد کئی اہم رہنماؤں کے جانے سے پارٹی پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہے اور بعض رہنما اور سینکڑوں کارکن تاحال گرفتار ہیں۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مقبول ہے لیکن سروے کے مطابق یہ زیادہ تر عمران خان کی ذات کے بدولت ہے۔ شاہ محمود قریشی کے پاس اس طرح کے ذاتی فالوورز نہیں ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابق وہ کرکٹ کے ہیرو کی طرح تنظیمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے پر پابندی کے بعد بھی عمران خان نے اپنے حامیوں کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا فورمز جیسے ٹک ٹاک ، انسٹاگرام، ایکس اور خاص طور پر یوٹیوب تقریبا روزانہ یوٹیوب تقاریر کے ذریعے رابطہ رکھا تھا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی تو وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
googlynewstv · 13 hours ago
Text
طاقتور بحریہ سمندری تجارت کے تحفظ کی ضامن ہے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ طاقتور بحریہ سمندری تجارت کے تحفظ کی ضامن ہے۔ پاک بحریہ کی امن مشقوں کے تیسرے روز کراچی میں محفوظ سمندر،خوشحال مستقبل کے عنوان سے پہلے امن ڈائیلاگ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس میں امن ڈائیلاگ میں شریک ممالک کی بحری افواج کے چیف آف نیول سٹاف اوردیگر عہدیدار شریک ہوئے۔وزیردفاع خواجہ آصف تقریب کےمہمان خصوصی تھے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا امن ڈائیلاگ کی افتتاحی…
0 notes
urdufontexstories · 23 days ago
Text
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس:عمران خان کا بیان سامنے آگیا
(ارشاد قریشی)190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی کا 342 کا بیان سامنے آگیا،بانی پی ٹی آئی نے عدالت 79 سوالات کے جوابات  گزشتہ روز جمع کروائے تھے ،ملزم عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ نواز شریف ، آصف زرداری ، شہباز شریف ، قاضی فائز عیسیٰ کا اے آر یو کا ریکارڈ نیب نے ضائع کر دیا،مریم نواز ، اسحاق ڈار کا اے آر یو کا ریکارڈ بھی نیب نے ضائع کر دیا۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے بیان میں کہا ہے…
0 notes
dpr-lahore-division · 3 months ago
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390 ْقدرت اللہ/آصف
ہینڈآؤٹ نمبر4404
دیوالی: پی ایچ اے نے مندروں کو برقی قمقموں سے سجا دیا
لاہور یکم نومبر:…… پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی نے ہندوؤں کے مذہبی تہوار دیوالی کے موقع پر لاہور کے مندروں کو دیدہ زیب برقی قمقموں سے سجا دیا۔
آج یہاں جاری ایک بیان میں ترجمان نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے احکامات پر پی ایچ اے نے کرشن مندر بند روڈ، والمیکی مندر نیلا گنبد اور جین مندر کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجا دیا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ یہ روشنیاں پی ایچ اے کی طرف سے ہندو برادری کو تحفہ ہیں۔ روشنیوں کا تہوار کے نام سے جانی جانے والی دیوالی دنیا بھر میں آباد ہندو برادری کا سب سے بڑا مذہبی تہوار ہے۔ دیوالی کے موقع پر مندروں میں خصوصی عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محمد طاہر وٹو نے ہندو برادری کو دیوالی کے پرمسرت موقع پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ پی ایچ اے مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کی پالیسی پر کاربند ہے۔ اس سے قبل پی ایچ اے مسیحی تہوار ایسڑ کے موقع پر گرجا گھروں کو بھی پھولوں اور برقی قمقموں سے سجا چکا ہے۔
0 notes
meta-bloggerz · 7 months ago
Text
قومی امور میں سیاسی جماعتوں کا اتفاقِ رائے ناگزیر :صدر زرداری
سلام آباد(سٹاف رپورٹر)صدرمملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ اہم قومی امور پر تمام سیاسی جماعتوں کیساتھ مشاورت اور اتفاقِ رائے ناگزیر ہے ۔ ان خیا لات کا اظہار انہوں نے سابق وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور سے ملاقات میں کیا ۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی سیاسی، سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ، صدر نے کہا کہ کہمسائل کے حل، سیاسی و معاشی استحکام کیلئے تمام سیاسی…
0 notes
risingpakistan · 9 months ago
Text
اٹھائیس مئی : ڈاکٹر عبدالقدیر کا ذکر کیوں نہیں؟
Tumblr media
28 مئی کو مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت یاد آتے ہیں۔ یہ 28 مئی ہی کی شام تھی، وہ میرے ٹاک شو میں فون پر شریک ہوئے، میں نے انہی کا ایک شعر پڑھا : گزر تو خیر گئی ہے مری حیات قدیر ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے اور پوچھا کہ ’قوم تو آپ سے محبت کرتی ہے، وہ تو اہل کوفہ میں شامل نہیں؟‘ ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور کہا کہ ’قوم کو تو پتہ ہے وفا والے کون ہیں اور کوفہ والے کون ہیں ۔ پھر کہنے لگے کہ ایک اور شعر بھی ہے: اس شہرلازوال میں اک مجھ کو چھوڑ کر ہر شخص بےمثال ہے اور باکمال ہے‘ لیکن پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر اے کیو خان کو جو گھاؤ لگے ان کے داغ اس قوم کے شعورِ اجتماعی سے کبھی مٹ نہیں پائیں گے۔ اس واقعے کے 20 سال گزر گئے ہیں مگر لوگوں کو آج بھی ڈاکٹر صاحب کے اچانک ٹیلی ویژن پر نمودار ہو کر اعتراف کرنا یاد ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی سپلائی کا رنگ چلا رہے تھے۔ ڈاکٹر اے کیو خان ہماری مجموعی ناقدری کا شکار ہوئے۔ 28 مئی کا دن منانا ہے تو ڈاکٹر خان سے پس مرگ ایک معذرت بھی واجب ہے۔ یہ فرض کون ادا کرے گا؟
28 مئی 1998 کو ہم نے ایٹمی دھماکے کیے اور 28 مئی 2024 کو ہم نے عام تعطیل کی۔ یعنی یہ بات سمجھتے سمجھتے ہمیں پورے 26 سال لگ گئے کہ 28 مئی ایک ایسا دن ہے جس پر ہمیں تعطیل کا اعلان کرنا چاہیے۔ 28 مئی یقینا ایک قابل فخر دن ہے۔ تاہم ہمیں اپنی فیصلہ سازی کے اس معیار پر فکر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا محترم احسن اقبال نے یوم اقبال پر تعطیل کی سمری پر اقبال کا ہی ایک غلط شعر لکھ کر اس سمری کو رد کر دیا کہ نہیں ہے بندہ حُر کے لیے جہاں میں فراغ ۔ سوال یہ ہے کہ اب بندہ حُر کو فراغت کیسے نصیب ہو گئی کہ اس نے 26 سال پرانی قضائیں لوٹانے کا فیصلہ کر لیا؟ یہ ایک قومی دن ہے۔ اسے سیاسی ضرورت کی نظر نہیں ہونا چاہیے ۔ سیاسی چیلنج کا جواب لمحۂ موجود کی کارکردگی سے دیا جاتا تو اچھا تھا۔ 26 سال پرانے واقعے پر اچانک رجز پڑھ لینے سے کام نہیں بنے گا۔ 28 مئی مسلم لیگ ن کی زندگی میں پہلی بار نہیں آیا کہ ماحول میں وارفتگی سی گندھ گئی ہے۔ اقتدار کے کتنے ہی موسم ن لیگ پر ایسے گزرے کہ 28 مئی آیا اور اہل دربار میں سے کسی کو توفیق نہ ہو سکی کہ ای سیون کے قید خانے میں ڈاکٹر اے کیو خان کو اس دن کی مناسسبت سے چند پھول ہی بھجوا دیے جاتے۔
Tumblr media
اہل دربار اشتہار چھپواتے تو اے کیو خان کا نام تک نہ ہوتا، قوم کا شعور اجتماعی جسے ہیرو سمجھتا ہے، ایک رسمی سا تذکرہ بھی اس شخص کا نہ ہوتا۔ محسن کشی کی یہ رسم اب بھی جاری ہو گی۔ کسی سائنس دان کا کہیں تذکرہ نہیں ہو گا۔ دربار میں قصیدے کی بزم سجے گی تو سارے سہرے نواز شریف صاحب کے کہے جائیں گے۔ ماضی کو چھوڑ دیجیے، آج بھی کیا صدر، وزیر اعظم یا کسی وزیر محترم کو یہ توفیق ہو پائے گی کہ اے کیو خان کی قبر پر چند پھول ہی رکھ آئے کہ ہم جو دن منا رہے ہیں اس کوہ کنی میں سر فہرست لکھے ناموں میں ایک نام آپ کا بھی ہے؟ ایٹمی قوت ڈیٹرنس کا کردار ادا کرتی ہے لیکن فیصلہ سازی کا بحران درپیش ہو تو ایٹمی قوت کے ہوتے ہوئے بھی بحران قومی وجود سے لپٹ جاتے ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے اور ان سے ان کے حصے کا کریڈٹ چھینا نہیں جا سکتا، لیکن کیا دوسروں سے ان کے حصے کا کریڈٹ چھینا جا سکتا ہے؟ بھٹو سے، ضیا الحق سے، ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کے رفقا سے؟ کئی ہیرو تو وہ ہوں گے جو گم نام ہوں گے اور کیا عجب کہ حقیقی ہیرو وہی ہوں؟
بنانے والے جاں پر کھیل کر ملک کو ایٹمی قوت بنا گئے۔ سوال اب کے فیصلہ سازوں کا ہے۔ فیصلہ سازی میں اگر تسلسل اوربصیرت نہ ہو تو سارا سفر دائروں کی مسافت بن جاتا ہے۔ ایٹمی قوت ڈیٹرنس کا کردار ادا کرتی ہے لیکن فیصلہ سازی کا بحران درپیش ہو تو ایٹمی قوت کے ہوتے ہوئے بھی بحران قومی وجود سے لپٹ جاتے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہیں لیکن کشمیر کو انڈیا نے ناجائز اور غیر قانونی طور پر اپنا حصہ قرار دے لیا ہے۔ یہ جرات وہ ان دنوں میں بھی نہیں کر سکا تھا جب ہم ایٹمی قوت نہیں تھے۔ اسی طرح ہم ایک ایٹمی قوت ہیں لیکن ایک خوف ناک معاشی بحران دامن گیر ہو ��کا ہے۔ ایک ایک ارب ڈالر کے لیے کہاں کہاں ہمیں ناک رگڑنا پڑ رہی ہے اور کون جانے پس پردہ کہاں کہاں کمپرومائز کرنے پڑ رہے ہوں۔ ہمیں معیشت اور بصیرت کی دنیا میں بھی ایک 28 مئی کی ضرورت ہے۔ کیا وطن عزیز میں کوئی فرہاد ہے جو یہ کوہ کنی کر سکے؟ یا ہم 26 سال پرانی کامیابی پر ہی رجز پڑھتے رہیں گے تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note · View note
urduintl · 11 months ago
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، بنچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے، سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کر لی ہے آج نہیں مگر پھر کسی روز دوبارہ شاید اپنا فیصلہ سنانے بیٹھیں۔
بتایا جارہا ہے کہ آج کی سماعت میں صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی کے دلائل دیئے، اس دوران انہوں نے کہا کہ ’بھٹو کیس کے وقت لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نئے الیکشن کے لیے معاملات طے ہو چکے تھے‘۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟‘ اس پر رضا ربانی نے کہا کہ ’معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبالِ جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیرِ حراست ان افراد کے بیانات لیے گئے، اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چیف جسٹس پاکستان، قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا ٹرائی اینگل تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی برییت سے تینوں کی جاب جا سکتی تھی‘۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’رضا ربانی آپ کہہ سکتے ہیں کہ حسبہ بل میں عدالتی رائے بائنڈنگ تھی‘؟ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ ’حسبہ بل میں کتنے جج صاحبان تھے؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’حسبہ بل کے صدارتی ریفرنس میں بھی 9 جج صاحبان تھے‘، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہم بھی 9 ہی جج ہیں، کوئی اختلاف بھی کر سکتا ہے‘۔ اس بات پر رضا ربانی نے کہا کہ ’اس وقت جج جج نہیں تھے، مختلف مارشل لاء ریگولیشن کے تحت کام کر رہے تھے، مارشل لاء ریگولیشن کے باعث ڈیو پراسس نہیں دیا گیا، بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو کی نظر بندی کو چیلنج کیا تھا، اسی روز مارشل لاء ریگولیشن کے تحت چیف جسٹس یعقوب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا‘۔
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔
‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
مضبوط اتحادی حکومت بنے تو ٹھیک ورنہ اپوزیشن میں بیٹھا جائے، پیپلز پارٹی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اہم فیصلے
پاکستان پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بلاول کو وزیراعظم کی بجائے اپوزیشن لیڈر بنانے کی تجویزدے دی، سینئر لیڈر شپ کا کہا ہے کہ مضبوط اتحادی حکومت بنتی ہے تو بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنایا جائے، کمزور اتحادی حکومت کے بجائے اپوزیشن لیڈر  بہتر ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا۔پارٹی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے؟
Tumblr media
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔ آخر یہ ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ کیس کیوں اور کس آرٹیکل کے تحت دائر کیا گیا اور اس کیس میں پوچھے گئے 5 اہم سوالات کیا ہ��ں؟ یہ تمام تفصیلات درج ذیل ہے۔
آرٹیکل 186 ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس یا ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ قومی آئین کا آرٹیکل 186 کیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدرِ مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کے لیے عدالت عظمیٰ کو بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدرِ مملکت کو بھجوا دے گی۔
Tumblr media
ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس 12 برس قبل 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت بھٹو کی عدالتی حکم سے پھانسی کے فیصلے پر ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس کیس کی پہلی سماعت 2 جنوری 2012ء کو جبکہ آخری 12 نومبر 2012ء کو ہوئی۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔ آخری سماعت کے 8 چیف جسٹس اپنی ملازمت پوری کر چکے مگر کسی نے بھی اس صدارتی ریفرنس کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہونے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ میں کرنا غیر آئینی تھا۔
صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے 5 اہم سوال مذکورہ کیس میں سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے پوچھے گئے سوالات یہ ہیں۔ 1۔ ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ 2- سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ 3- سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ 4- سزائے موت قرآنی احکامات کے مطابق درست ہے؟ 5- فراہم کردہ ثبوت اور شہادتیں سزا سنانے کے لیے کافی تھیں؟
واضح رہے کہ سابق صدر زرداری کے اس صدارتی ریفرنس کے سوالوں کے جوابات کی تلاش کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا 9 رکنی لارجر بینچ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
globalknock · 1 year ago
Text
ملک بحران کا شکار ہے، سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے، آصف زرداری
راچی: پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ملک بحران کا شکار ہے، سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے۔ سابق صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد کروائے گا ۔ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کروانے کا پابند ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر ہمیں پورا اعتماد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت ایس آئی ایف سی کے منصوبوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
بنگلہ دیش اور پاکستان کا سیاسی بحران : ایک تقابل
Tumblr media
بنگلہ دیش میں انتخابات ہو چکے ہیں اور پاکستان میں ہونے ہی والے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے سیاسی منظر نامے میں کہاں کہاں اور کتنی مماثلت ہے؟ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک میں حزب اختلاف کے لیے سازگار ماحول نہیں ہے۔ اپوزیشن دونوں جگہ بےبسی کے عالم میں ہے، بادی النظر میں دونوں میں بہت سی مماثلت ہے لیکن اس مماثلت کی مبادیات وہ نہیں جو نظر آ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی اصل خرابی وہاں کے انتخابی عمل میں نہیں ہے۔ یہ خرابی وہاں حسینہ واجد کے یک جماعتی اقتدار کے تصور میں ہے۔ یہ جمہوری رویہ نہیں ہے۔ یہ جمہوری فاشزم ہے۔ وہ کسی سیاسی حریف کے وجود کو برداشت کرنے کی قائل نہیں۔ ان کے خیال میں خیر کا منبع ان کی ذات اور ان کی جماعت ہے اور حریفوں کو ہر سطح پر کچل دینا ہی ملک کی حقیقی خدمت ہے۔ پاکستان کی اصل خرابی بھی انتخابی عمل کے نشیب و فراز میں نہیں، یہ عمران خان کے یک جماعتی اقتدار کے تصور میں ہے۔ وہ بھی کسی سیاسی حریف کے وجود کو کسی بھی سطح پر برداشت کرنے کے روادار نہیں تھے۔ ان کے ہاں بھی خیر اور شر کو جانچنے کا معیار ان کی ذات ہے۔ جو ان کے ساتھ ہیں وہ خیر کے ساتھ ہیں، جو ان کے ساتھ نہیں ہیں وہ بدی کی قوت ہیں۔
کبھی خیال آتا ہے کہ یہ فاشزم شاید اس خطے کے مزاج میں ہے۔ کیونکہ مودی کا اقتدار بھی اسی رویے کا عکاس ہے۔ پھر یہ کہ خود پاکستان میں صرف عمران خان کا دامن اس آزار سے آلودہ نہیں، بلکہ نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر قائدین بھی درجہ بدرجہ اسی جمہوری فاشزم ہی کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ملک میں سیاسی جماعتیں ایک ادارہ نہیں بن سکیں اور پی ڈی ایم بھی عملاً پاکستان ڈیموکریٹک مونارکس کا منظر پیش کرتی ہے۔ بر صغیر کے اس آزار کا سماجی مطالعہ ہونا چاہیے۔ جمہوریت میں کسی گروہ کو مقبولیت حاصل ہو جائے مگر وہ کسی دوسرے کے وجود کا قائل نہ ہو تو یہ رویہ پاپولر جمہوری فاشزم کہلاتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں معاشرے اسی بحران سے اور اسی چیلنج سے دوچار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک ملک میں یہ طرز عمل حصول اقتدار کے جتن کر رہا ہے اور دوسرے ملک میں یہ رویہ بقائے اقتدار کی کوششوں میں مصروف ہے۔ افتاد طبع اور ترجیحات یکساں ہیں۔ حسینہ واجد اقتدار کی چوتھی مدت کی شروعات کر رہی ہیں اور ان کے حریفوں پرعرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ عمران خان کے اقتدار کا پہلا دور دیکھ کر تصور کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اوپر تلے دو تین ادوار اقتدار میں گزارتے تو مخالفین پر کیا بیتتی اور سماج کو کیسے امتحان سے گزرنا پڑتا۔
Tumblr media
اقتدار سے الگ ہونا حسینہ واجد کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے، طویل دورانیے کا یک جماعتی اقتدار ہی ان کا مقصود ہے جس میں اختیارات کا گھنٹہ گھر ان کی ذات ہو اور وہ اس کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کو تیار ہیں۔ عمران خان کے ہاں بھی سیاست کا ایسا کوئی تصور نہیں پایا جاتا جس میں اقتدار کے منصب پر ان کے علاوہ کوئی اور ہو۔ چنانچہ جب وہ اقتدار میں آئے تو ان کے مداح عجیب سے بےنیازی اوڑھ کر اعلان کیا کرتے تھے کہ آئین اور قانون اپنے پاس رکھیے، خان پانچ سالوں کے لے نہیں، دس پندرہ سال کے لیے آیا ہے اور پھر اقتدار سے الگ ہوئے تو ان کا رد عمل سب کے سامنے ہے۔ بنگلہ دیش کے جمہوری بحران کی جوہری طور وجہ یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اقتدار حسینہ واجد کے پاس رہے اور پاکستان کے حالیہ بحران کی جوہری وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے کیوں نکالا گیا۔ عدم اعتماد ہوا تو یہ امریکی سازش قرار پایا اور اقتدار نہ رہا تو جس صاحب منصب کو قوم کا باپ قرار دیا جاتا تھا، اسی باپ کو حریف قرار دے دیا۔ کسی دن حسینہ واجد اقتدار سے الگ ہوئیں تو ان کے رد عمل میں ایسی ہی تندی کا پایا جانا باعث حیرت نہیں ہو گا۔
دونوں کرداروں کا عمومی رویہ بھی ایک جیسا ہے۔ ایک کے لیے چیلنج اس کے سیاسی حریف ہیں اور اس نے ان کا ناطقہ بند کر دیا ہے دووسرے کا غم و غصہ یہ ہے کہ اس کے یک جماعتی شخصی اقتدار کے دوام میں ادارے اس کے سہولت کار کیوں نہیں بنے۔ فاشزم اور جمہوریت کا فرق ہر دو جگہوں پر نمایاں ہے۔ چنانچہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن نے بنگلہ دیش کی ریاست کو سینگوں پر نہیں لیا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ ہمارا رہنما ہماری ریڈ لائن ہے، کسی نے یہ نہیں کہا اسے اقتدار نہیں ملتا تو بنگلہ دیش کے باقی رہنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں، کسی نے اوورسیز بنگالیوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بنگلہ دیش پیسے بھیجنے بند کر دو۔ کسی نے یہ اعلان نہیں کیا کہ ہم اقتدار میں نہیں تو ہماری بلا سے، بھلے بنگلہ دیش پر ایٹم بم مار دو۔دونوں ملکوں کے انتخابی عمل سے جڑی مماثلت اصل میں مماثلت معکوس ہے۔  بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی لاشیں ہتھ کڑیوں اور بیڑیوں میں برآمد ہوتی ہیں، پاکستن میں اپوزیشن دیسی مرغی کھا رہی ہے اور ٹریڈ مل پر دوڑ رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن کا ہدف ریاست نہیں ہے، پاکستان کی اپوزیشن سے کسی کو امان نہیں۔
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش کی اپوزیشن دودھ کی دھلی ہے یا پاکستان کی پی ڈی ایم دودھ کی دھلی ہے۔ سیاست کی قباحتیں دونوں طرف موجود ہیں۔ تاہم بحران کی حقیقی وجہ یہ قباحتیں نہی ہیں۔ بحران کی اصل وجہ یک جماعتی جمہوری فاشزم ہے جو کسی بھی حال میں ہو، اسے کسی دوسرے کا وجود برداشت نہیں۔ یہی اصل مماثلت ہے۔ دونوں ممالک کے لیے جمہوریت یا انتخابی عمل چیلنج نہیں، اصل چیلنج یک جماعتی جمہوری فاشزم ہے۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
googlynewstv · 10 days ago
Text
پیپلز پارٹی مخالف میڈیا کا صدر زرداری سے گلہ جائز کیوں نہیں؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ میڈیا کی جانب سے یہ گلہ کرنا جائز نہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ میڈیا مخالف پیکا قانون پر دستخط کیوں کیے۔ ایک تو بطور صدر یہ ان کی آئینی ذمہ داری تھی اور دوسرا ماضی میں میڈیا نے بھٹو خاندان اور آصف زرداری کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے بعد ان سے کوئی امید روا نہیں رکھی جانی چاہیے تھی۔   اپنی ت��زہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید…
0 notes
pakistanpolitics · 2 years ago
Text
سیاسی پارٹیوں میں مطلق العنانی
Tumblr media
ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں میراث ہے نہ مطلق العنانی بلکہ جمہوریت ہے۔ جہاں امیر جماعت کی من مانی کی بجائے پارٹی مشاورت سے کام ہوتا ہے اور مقررہ مدت کے بعد طریقہ کار کے مطابق امیر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور امارت کے حصول کے لیے کوئی رہنما از خود امیدوار نہیں بنتا بلکہ جماعت کے مجوزہ طریقے کے مطابق خفیہ ووٹنگ کے ذریعے مرکزی امیر منتخب کر لیا جاتا ہے جو حلف اٹھانے کے بعد من مانے فیصلے کر کے عہدیدار مقرر نہیں کرتا جب کہ باقی کسی جماعت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ پارٹی قائم کرنے والا ہی سربراہ ہوتا ہے اور وہ پارٹی میں اپنی مرضی ہی کے عہدیدار نامزد کرتا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی تقرری اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ممکن نہیں ہوتی۔ ہر پارٹی اپنے امیدواروں کی نامزدگی کے لیے پارلیمانی بورڈ ضرور بناتی ہے اور پارلیمانی بورڈ اپنی سفارشات ہی پیش کر سکتا ہے حتمی فیصلہ پارٹی سربراہوں کا ہی ہوتا ہے۔ آصف زرداری کو پیپلز پارٹی، نواز شریف کو مسلم لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو جے یو آئی بنی بنائی ملی۔ مسلم لیگ کو پاکستان بنانے کا اعزاز تو حاصل ہے مگر جتنے گروپ مسلم لیگ میں بنے اور کامیاب بھی رہے۔
غیر سول آمروں نے جب بھی اقتدار سنبھالا انھوں نے اپنی مرضی کی مسلم لیگ بنوائی اور اقتدار میں شریک کیا۔ جنرل ایوب کی مسلم لیگ کنونشن کا تو کوئی وجود نہیں رہا۔ بھٹو کے بعد ان کی بیگم پی پی کی چیئرمین بنی تھیں۔ جنھیں فارغ کر کے بے نظیر بھٹو نے پارٹی سنبھال لی تھی جن کی شہادت کے بعد آصف زرداری ہی پیپلز پارٹی کے وارث تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بنے گا اور وہ خود چیئرمین بن گئے مگر پارٹی میں وہی اہم فیصلے کرتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوائی گئی جس کی حکومت تین سال ہی میں جنرل ضیا نے ختم کر دی تھی جو بعد میں جونیجو لیگ کہلائی جس کے نواز شریف سربراہ بنے جو اب (ن) لیگ کہلاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) قائم کر کے اس کی حکومت بنوائی جس نے 5 سال حکومت کی اور اس کے تین وزیر اعظم رہے، اگر بے نظیر کی شہادت نہ ہوتی تو مسلم لیگ (ق) 2008 میں دوبارہ حکومت بناتی۔ (ق) لیگ کی سربراہی میاں اظہر اور چوہدری شجاعت کے پاس تھی اس کے حقیقی سربراہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے۔ (ق) لیگ سکڑ کر چوہدریوں تک رہ گئی ہے۔ 
Tumblr media
پیر پگاڑا مرحوم کی بنائی ہوئی مسلم لیگ (ف) بھی وراثت میں موجودہ پیر پگاڑا کو ملی ہے جو سندھ کے چند اضلاع اور پگاڑا خاندان تک محدود ہے۔ مسلم لیگ کے سب سے زیادہ گروپ بنے اور (ن) لیگ اب نواز شریف کی سربراہی میں کام کر رہی ہے اور انھی کی مرضی اور پالیسی کے مطابق چلائی جا رہی ہے اب میاں صاحب نے اپنی بیٹی مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بھی بنا دیا ہے۔ میاں صاحب کے بھائی شہباز شریف کی حکومت پر اب (ن) لیگ کے سینئر رہنما بھی تنقید کر رہے ہیں اور نواز شریف دو سال سے لندن میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے فیصلے کر رہے ہیں اور (ن) لیگ اب باپ بیٹی کے گرد گھومتی ہے اور (ن) لیگ میں دکھاؤے کے الیکشن بھی نہیں کرائے جا رہے۔ پیپلز پارٹی میں بھی من مانیوں کا راج ہے جو اب بھٹو خاندان سے ختم ہو کر زرداری خاندان کی ذاتی جاگیر بن چکی ہے اور پی پی کے سینئر رہنماؤں پر 32 سالہ بلاول زرداری کی حکمرانی ہے کیونکہ وہ وراثتی چیئرمین ہیں۔ جے یو آئی کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں اہم سیاسی پارٹی ہے جو پنجاب میں اہمیت کی حامل نہیں اور کے پی کے سے تعل�� رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کام کر رہی ہے، جہاں دکھاؤے کے الیکشن ہوتے ہیں۔ جے یو آئی کے سینئر رہنماؤں نے بلوچستان میں جے یو آئی کا نظریاتی گروپ ضرور بنایا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی عمران خان نے بنائی تھی اور پی پی اور (ن) لیگ سے نالاں اچھی شہرت کے حامل سیاستدانوں اور ممتاز وکلا نے عمران خان سے اچھی توقعات وابستہ کر کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی مگر جب انھوں نے قریب جا کر عمران خان کی من مانیاں اور پارٹی میں آمریت دیکھی تو ان رہنماؤں نے پی ٹی آئی چھوڑنا شروع کر دی تھی جس کا عمران خان پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ ان کے اصول بدلتے رہے اور انھوں نے مخلص اور نظریاتی رہنماؤں کو نظرانداز کر کے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اہمیت دینا اور الیکٹیبلز رہنماؤں کو بالاتروں کی مدد سے پی ٹی آئی میں لینا شروع کر دیا تھا کیونکہ عمران خان ہر قیمت پر اقتدار چاہتے تھے۔ انھوں نے عوام سے جھوٹے وعدے کر کے انھیں سہانے خواب دکھائے، بالاتروں کو متاثر کر کے ان کی حمایت حاصل کی اور اقتدار میں آ کر جو من مانی کی وہ دنیا نے دیکھ لی۔ عمران خان بیانیے تبدیل کرنے کے ماہر نکلے اور ساری پارٹیوں میں قائدین کی من مانیاں جاری ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
صدر وزیراعظم کا پاکستان سے کرپشن  کے خاتمے کا عزم
(24  نیوز)صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم نے  کرپشن کے خلاف عالمی دن پر  کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومت کے عزم کو دہرایا اور تمام شہریوں پر زور دیا کہ وہ شفاف اور جوابدہ معاشرے کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے کرپشن کے خلاف عالمی دن پر پیغام میں کہا  کہ کرپشن کے خاتمہ کےلئے سخت احتسابی اقدامات کے نفاذ اور طرز حکمرانی میں شفافیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،کرپشن…
0 notes
dpr-lahore-division · 4 months ago
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1103
وزیراعلی مریم نواز کا چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری پر وزیراعظم شہباز شریف، تمام قائدین، جمہوری اتحادی قوتوں، اتحادی جماعتوں اور عوام کو مبارکباد
صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان سمیت تمام قائدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں: مریم نوازشریف
سیاست نہیں ریاست اور عوام کے مفاد کو ترجیح دی، پارلیمنٹ کو بالادستی اور خودمختاری کا حق دلایا، ترمیم جمہوریت اور آئین دوستوں کے اتحاد کی تاریخی نشانی ہے
یہ ترمیم نہیں، حفاظتی دیوار ہے تاکہ کوئی ’ڈیم فول‘ آئین، پارلیمنٹ، منتخب حکومتوں اور اداروں کے وقار سے من مانی نہ کرے
آئینی ترمیم کے نتیجے میں صرف وہ جج آئیں گے جو آئین اور عوام کے حقوق کے پاسدار ہوں گے، مٹھی بھر شرارتی کرداروں سے نجات قوم کی حیات ہے
عدلیہ نظریہ سہولت اور نظریہ ضرورت کی تلوار سے منتخب وزرائے اعظم کے مینڈیٹ اور منصب کا قتل کرنے والے کرداروں سے پاک ہوگی
عوام کی خوش حالی، بلاتاخیر انصاف کی فراہمی کے حقیقی مقاصد حاصل ہوں گے، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف کے سیاسی وژن کو سلام پیش کرتے ہیں
لاہور-21 اکتوبر:……وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری پر وزیراعظم شہباز شریف، تمام قائدین، جمہوری اتحادی قوتوں، اتحادی جماعتوں اور عوام کو مبارکباد دی ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان سمیت تمام قائدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، سیاست نہیں ریاست اور عوام کے مفاد کو ترجیح دی، پارلیمنٹ کو بالادستی اور خودمختاری کا حق دلایا۔ یہ ترمیم نہیں، حفاظتی دیوار ہے تاکہ کوئی ’ڈیم فول‘ آئین، پارلیمنٹ، منتخب حکومتوں اور اداروں کے وقار سے من مانی نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم جمہوریت اور آئین دوستوں کے اتحاد کی تاریخی نشانی ہے۔ 1973 کے آئین کی خالق جماعتوں نے ایک بار پھر دستور پاکستان کو مزید موثر، بہتر اور مظبوط بنانے کا تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ اپوزیشن سے مل کر ہونے والی ترمیم میں عوامی رائے بھی شامل ہے جس سے عدلیہ کا وقار، ساکھ اور کردار بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی روشنی میں People Specific ترمیم ہوئی، ریلیف پاکستان اور عوام کو ملے گا۔ آئینی ترمیم کے نتیجے میں صرف وہ جج آئیں گے جو آئین اور عوام کے حقوق کے پاسدار ہوں گے۔ مٹھی بھر شرارتی کرداروں سے نجات قوم کی حیات ہے۔ عدلیہ نظریہ سہولت اور نظریہ ضرورت کی تلوار سے منتخب وزرائے اعظم کے مینڈیٹ اور منصب کا قتل کرنے والے کرداروں سے پاک ہوگی۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں جمہوریت اور منتخب حکومتوں پر شب خون مارنے والوں کے خلاف پہلی بار خود عدلیہ بطور ادارہ مضبوط ہوگی جس سے عدلیہ کی ساکھ بہتر اور تاریخ میں لگے داغ دھل سکیں گے۔ میرٹ پر قابل ججوں کی شفاف تعیناتی عدلیہ کی آزادی اور آئین کی حفاظت کی ضمانت بنے گی۔ عوام کی خوش حالی اور بلاتاخیر انصاف کی فراہمی کے حقیقی مقاصد حاصل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نوازشریف کے سیاسی وژن کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار، سید خورشید شاہ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، شیری رحمان، نوید قمر، کامران مرتضیٰ سمیت آئینی ترمیم کرنے والی تمام ٹیم کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔
٭٭٭٭
0 notes