#سرمہ لگانے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں
Explore tagged Tumblr posts
Photo
محض خوشبو سونگھنے اورناک میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا سوال ۴۲۱: روزہ دار کے خوشبو سونگھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :روزہ دار کے لیے خوشبو سونگھنے میں کوئی حرج نہیں، خوشبو خواہ تیل کی صورت میں ہو یا بخور کی صورت میں۔ اگر بخور کی صورت میں ہو تو اس کے دھوئیں کو نہ سونگھیں کیونکہ دھوئیں میں ذرات ہوتے ہیں، جو پیٹ تک پہنچ جاتے ہیں، جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ پانی اور اس کے مشابہ دیگر چیزوں کے پیٹ میں پہنچ جانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ناک میں کھینچے بغیر محض خوشبو کے سونگھنے میں کوئی حرج نہیں۔ سوال ۴۲۲: خوشبو کا دھواں سونگھنے اور ناک میں دوائی کا قطرہ ڈالنے میں یہ فرق کیوں ہے کہ پہلی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور دوسری صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا؟ جواب :دونوں میں فرق یہ ہے کہ خوشبو کے دھوئیں کو ناک سے کھینچا ہے، وہ گویا اسے قصد وارادے سے اپنے پیٹ میں داخل کر رہا ہے لیکن جو دوائی کا قطرہ ناک میں ڈالتا ہے اس سے اس کا قصد اسے پیٹ تک پہنچانا نہیں، اس کا مقصد صرف ناک کے نتھنے میں دوائی کا قطرہ ڈالنا ہے۔ سوال ۴۲۳: روزہ دار کے لیے ناک، آنکھ اور کان میں دوائی کا قطرہ ڈالنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :ناک میں ڈالے جانے والا قطرہ اگر معدہ تک پہنچ جائے، تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حدیث حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ((بَالِغْ فِی الْاِسْتِنْشَاقِ اِلاَّ اَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا))( سنن ابی داود، الطہارۃ، باب فی الاستنثار، ح: ۱۴۲ وسنن النسائی الطہارۃ، باب المبالغۃ فی الاسستنشاق، ح: ۸۷۔) ’’ناک میں پانی چڑھانے میں خوب مبالغے سے کام لو اِلاَّ یہ کہ تم روزہ دار ہو۔‘‘ لہٰذا روزہ دار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ناک میں ایسا قطرہ ڈالے جو اس کے معدے تک پہنچ جائے اور ناک میں ڈالے جانے والا دوائی کا جو قطرہ معدے تک نہ پہنچے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ آنکھ میں ڈالنے والے قطرے، سرمہ لگانے اور کان میں ڈالے جانے والے قطرے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ اس کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے اور نہ یہ منصوص علیہ کے معنی میں ہے۔ آنکھ کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، اسی طرح کان بھی جسم کے دیگر مساموں کی طرح ہے۔ اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص پاؤں کی اندرونی جانب کوئی چیز لگائے اور وہ اپنے گلے میں اس کا ذائقہ محسوس کرے، تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ یہ بھی کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، لہٰذا جو شخص آنکھ میں سرمہ ڈال لے یا آنکھ میں دوائی کا قطرہ ڈال لے یا کان میں قطرہ ڈال لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا خواہ وہ اس کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان علاج کے لیے یا بغیر علاج کے تیل استعمال کرے، تو اس کے روزے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اسی طرح اگر کوئی دمہ کا بیمار ہو اور وہ سانس میں آسانی کے لیے ان ہیلر استعمال کر لے، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس سے دوائی کے اجزا معدے تک نہیں پہنچتے، لہٰذا وہ کھانے یا پینے والا شمار نہیں ہوگا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۸۸، ۳۸۹ ) #FAI00342 ID: FAI00342 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
آنکھ میں دوا ڈالنے اور سرمہ لگانے سے روزہ فاسد ہوگا کہ نہیں
آنکھ میں دوا ڈالنے اور سرمہ لگانے سے روزہ فاسد ہوگا کہ نہیں
آنکھ میں دوا ڈالنے اور سرمہ لگانے سے روزہ فاسد ہوگا کہ نہیں ؟ کیا فرماتے علمائے کرام کہ حالت صوم میں آنکھ میں دوا ڈالنے اور سرمہ لگانے سے روزہ فاسد ہوگا کہ نہیں ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدید تحقیق کے مطابق آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ بینوا توجروا المستفتی : قطب عالم بچلے پوروا گونڈا بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــ آنکھ میں دوا ڈالنے اور…
View On WordPress
#آنکھ میں دوا ڈالنے اور سرمہ لگانے سے روزہ فاسد ہوگا کہ نہیں ؟#روزہ کی حالت میں ٓانکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں#سرمہ لگانے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں#ٓٓٓAankh me dawa dalne se roza tootega ya nahi
0 notes
Photo
https://goo.gl/W1mBko
روزے کے بارے میں بنیادی احکام
ترک اور انکار صوم روزہ،بہت بڑی نیکی ہے۔ماہِ رمضان کا ایک روزہ بھی کسی شخص نے بلا عذر ترک کردیا تو اس کے عمر بھر کے روزے بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتے(بحوالہ جامع ترمذی و سنن ابوداؤد)۔روزہ کاترک کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔روزہ رکھ کر بغیر عذر توڑ دینا،اس سے بھی بڑا گناہ ہے اور روزے کی فرضیت کا انکار تو کفر ہے۔ بغیر عذر روزہ توڑ دینے سے کیا مراد ہے؟روزے کی حالت میں اگرکسی شخص کو کوئی ایسی بیماری،تکلیف یا حادثہ پیش آجائے،جس سے اس کی جان کو خطرہ ہو تو روزہ توڑا جا سکتا ہے۔یہ ایک معقول اور شرعی عذر ہے۔ محض بھوک پیاس کی شدت اور نقاہت کا احساس اس بات کے لیے کوئی جواز نہیں کہ روزہ دار روزہ توڑ دے۔امام غزالیؒ نے تو یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ روزے کی حالت میں بھوک پیاس کی شدت ہی انسان کو ثواب کا مستحق بناتی ہے۔ان کے نزدیک تو افطار کے بعد بھی کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ قیام اللیل ،تہجد اور دیگر اعمال و وظائف میں سہولت رہے۔بلاشبہ امام غزالی کے اس قول میں بڑی حکمت ہے۔ فدیۂ صیام اگرکوئی شخص روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائے ۔ یہ کھانا اسی معیار کا ہونا چاہیے جس معیار کا وہ اپنے گھر میں خود کھاتا ہے۔ ایک روزے کے عوض بطور فدیہ ،صدقہ فطر کی مقدار بھی دی جا سکتی ہے۔یہ رعایت صرف جسمانی لحاظ سے کمزور ،بیمار اور ضعیف مسلمانوں کے لیے ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص محض تساہل کی وجہ سے روزہ ترک کردیتا ہے اور ایک نہیں ہزار مسکینوں کو اس کے فدیے میں کھانا کھلاتا ہے تو یہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتو مالدار روزہ ہی نہ رکھیں اور انہیں یہ احساس ہی نہ ہو کہ بھوک پیاس اوراحتیاج کیا چیز ہے۔ نواقض ِروزہ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ان کو مفسداتِ صوم بھی کہا جاتا ہے۔ان کی دو قسمیں ہیں،ایک وہ جن میں صرف قضا واجب ہے اور ایک وہ جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔ وہ اعمال جن میں صرف قضا واجب ہے اس غلط فہمی میں کچھ کھا پی لیا کہ سحری کا وقت باقی ہے جبکہ سحری کا وقت ختم ہو چکا تھایا غروبِ آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیاہے کچھ کھاپی لیا۔ دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا،مگر روزے کی نیت نہیں کی یا نصف النہار کے بعد نیت کی۔ نصف النہار سے قبل نیت کر لی تو روزہ درست ہوگا۔ نیت کے لیے الفاظ کی ادایگی ضروری نہیں، محض دل کی نیت کافی ہے۔ روزے میں کسی نے ارادتاً منہ بھرکر قے کی۔اگر قے منہ بھر کر نہ کی تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ بھولے سے کچھ کھا پی لیا اور پھر یہ سمجھا کہ روزہ تو ٹوٹ ہی گیا اب کھانے میں کیا حرج ہے اور خوب پیٹ بھر کر کھا لیا۔ بھولے سے کچھ کھا نے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ روزے میں کان کے اندر کوئی دوا یاتیل ڈال لیا۔ وہ اعمال جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں کھانے پینے کی کوئی چیز قصداً کھالی،یا بطور دوا کوئی چیز کھا لی۔ جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل کیا جس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا،لیکن اس عمل کے بعد ارادے سے روزہ توڑ دیا، مثلاً سرمہ لگایا،سر میں تیل ڈالا اور پھر یہ سمجھ کر روزہ توڑ دیا کہ سرمہ لگانے اورسر میں تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ روزے کی حالت میں جنسی خواہش پوری کر لی۔ وہ امور جن سے روزہ مکروہ نہیں ہوتا روزے میں بھولے سے کچھ کھاپی لیا،خواہ پیٹ بھر کر کھایا ہو اور خوب سیر ہو کر پیا ہو۔ روزے کی حالت میں سوتے ہوئے غسل کی حاجت ہو گئی۔ سرمہ لگانا،سر میں تیل ڈالنا،خوشبو سونگھنا،بدن کی مالش کرنا وغیرہ۔ تھوک اور بلغم نگل لینا۔ بے اختیار مکھی نگل لی،حلق میں گردوغبار پہنچ گیا یادھواں چلا گیا،خواہ وہ دھواں تمباکو وغیرہ کا ہو۔ کان میں خود بخود پانی چلا گیا،یا دوا چلی گئی۔ بے اختیار قے ہوگئی،چاہے منہ بھر کر ہی ہو۔ مسواک کرنا،خواہ مسواک بالکل تازہ ہی ہواور اس کی کڑواہٹ بھی منہ میں محسوس ہو۔بغیر پیسٹ کے برش کرلیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔ گرمی کی شدت میں کلی کرنا،منہ دھونا،نہانا،یا تر کپڑا سر یا بدن پر رکھنا۔ روزے کا کفارہ روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرے۔یہ نہ کرسکے تو ساٹھ مسلسل روزے رکھے،یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ صدقۃ الفطر جیسا کہ بیان ہوا ہے فطر کا معنٰی روزہ کھولنا ہے۔روزے کے دوران انسان سے کچھ بھول چوک اور غلطی بھی ہوجاتی ہے۔کہیں کوتاہی ہو جاتی ہے،جس سے روزہ ٹوٹتا تو نہیں مگرکوئی ایسی حرکت ہوسکتی ہے جو روزے کے مقام رفیع سے فروتر ہو۔اس کمی کوتاہی کی تلافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کا حکم دیا ہے۔اس کی حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے نتیجے میں رمضان کے دوران غرباومساکین کی ضروریات پوری ہوتی ہیںنیز عید کے دن وہ بھی کھاتے پیتے لوگوں کی طرح عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔گویا یہ اسلام کے اس فلسفۂ اجتماعیت کا عملی مظہر ہے جو اہل ایمان کو ایک لڑی میں پروتا ،ایک صف میں کھڑا کردیتا اور اخوت کی شیرینی پورے معاشرے میںگھول دیتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت صحیح حدیث کی کتابوں میں ملتی ہے،جس کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:صدقہ ٔ فطر واجب ہے،جو روزے دار کو لغو حرکات اور اخلاق سے گری ہوئی باتوں سے پاک کر دیتا ہے نیز یہ مساکین کے طعام کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پس جو شخص نماز عید سے پہلے یہ صدقہ ادا کردے،اس کا صدقہ مقبول ہے۔نماز عید کے بعد صدقۂ فطر ادا نہیں ہوتا،البتہ وہ عام صدقہ شمار ہوجاتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص صدقۂ فطر ادا نہیں کرتا وہ نمازعید ادا کرنے کے لیے ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔ صدقۂ فطر کھاتے پیتے لوگوں پر واجب ہے۔رمضان کے دوران ادا کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے تا کہ ضرورت مند ماہ مقدس میں اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔صدقۂ فطر صرف روزہ داروں پر ہی نہیں،گھر کے مالک کی طرف سے چھوٹے بچوں ، غلاموں (آج کے دور میں گھر کے خدام وغیرہ)،عید کے روز گھر میں وارد یا پہلے سے مقیم مہمان یا اسی روز پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے بھی واجب ہے۔ صدقۂ فطر کی مقدار صدقۂ فطر کی مقدار ایک کلو اور تقریباً ایک سو بیس گرام گیہوں ہے۔ دیگر اجناس مثلاً جو اور کھجور وغیرہ اس سے دگنی مقدار میں دینا ضروری ہے۔غلہ یا جنس دینا ہی ضروری نہیں،اس کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔علما ہر سال صدقۂ فطر کی رقم کا تعین کر کے عوام الناس کو مطلع کردیتے ہیں،اس لیے یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے۔
0 notes