#خاندان آل سعود
Explore tagged Tumblr posts
Text
شاہی بچانے کے گر سیکھنے کےلیئے شاہوں کی خفیہ ملاقاتیں
شاہی بچانے کے گر سیکھنے کیلئے شاہوں کی خفیہ ملاقاتیں
ویب سائیٹ ڈی کلاسیفائیڈ یو کے: کے مطابق حالیہ دس برسوں میں ہر پندرہ بیس روز بعد گلف کے عرب شاہی خاندان جن میں سعودی عرب کا آل سعود خاندان، بحرین کا شاہی خاندان، عمان کا شاہی خاندان اور دیگر ملکوں کے ولی عہد اور شہزادے برطانیہ کے شاہی خاندان کے ساتھ ہر پندرہ دنوں بعد ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
ان ملاقاتوں کا بڑا مقصد برطانیہ کے شاہی خاندان 2011 میں آنے والی عرب بہار کے دوران اپنے اپنے اقتدار کو خطرے میں سمجھ کر اسے بچانے کے لیئے دنیا کے قدیم برطانوی شاہی خاندان سے اقتدار بچانے کے مشورے اور مدد حاصل کرنے کے لیے برطانیہ میں حاضریاں دیتے رہے۔
ویب سائیٹ کلاسیفائیڈ کے مطابق گلف کے عرب شاہی خاندانوں کی برطانوی شاہی خاندان سے ملاقاتوں کی تفصیلات ابھی تک ایک راز ہیں۔ برطانوی شاہی خاندان کی آرکائیو کو سرکاری طور پر خفیہ رکھا جاتا ہے۔ اور اس بارے میں برطانوی حکومت کی فائلیں بھی ان شاہی ملاقاتوں کی تفصیلات سے بے بہرہ ہیں۔
from Blogger https://ift.tt/3bAyhAP via IFTTT
1 note
·
View note
Text
سعودی عرب کے آل سعود سے متعلق وہ حقائق، جو آپ کو جاننے چاہییں
اب السعود کے شاہی خاندان کے شہزادوں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ آل سعود ہی نے تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ملک کو سعودی عرب کا نام دیا۔ سعودی عرب کے حکمران خاندان کے شہزادوں اور شہزادیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ السعود خاندان کا تعلق اٹھارویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے ایک مقامی شیخ سعود بن محمد سے ملتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کا نام دو صدیاں پہلے پیدا ہونے والے مقامی حکمران پر رکھا گیا ہے۔ شیخ سعود کے بیٹے محمد نے 1744ء میں شعلہ بیان مذہبی عالم محمد بن عبدالوہاب سے اتحاد کر لیا۔ محمد بن عبدالوہاب ہی نے ’خالص اسلام کی واپسی‘ کا نعرہ لگایا اور یہاں سے وہابی نظریات کے پرچار کا آغاز ہوا۔
بعدازاں سعود بن محمد کی نسل کو 1818ء میں عثمانی افواج (ترکی) کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ لیکن اس کے چھ برس بعد ہی سعود خاندان نے صحرائی طاقت کے مرکز ریاض پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1902ء میں عبدالعزیز بن سعود نے ریاض سے اپنے حریف راشدی قبیلے کو بے دخل کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مزید مستحکم بنا لیا۔ اس کے بعد عبدالعزیز نے مختلف قبیلوں سے لڑائی جاری رکھی اور انہیں شکست دیتے ہوئے بہت سے علاقوں کو متحد کر دیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور 1913ء میں خلیجی ساحل کا کنڑول حاصل کر لیا۔ دوسری جانب 1918ء میں سلطنت عثمانیہ کو سعودی عرب میں شکست ہوئی اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف لڑنے والے حسین بن علی آخری شریفِ مکہ قرار پائے۔ شریفِ مکہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں 967ء میں قائم کیا گیا تھا۔ شریف مکہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیادی ذمہ داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کا انتظام و انصرام ہوتا تھا۔
حسین بن علی کے شریف مکہ بننے کے بعد 1924ء میں عبدالعزیز بن سعود نے اپنے حملے تیز کر دیے اور آخر کار 1925ء حسین بن علی کو بھی اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ عبدالعزیز بن سعود نے 1932ء میں آج کے سعودی عرب کی بنیاد رکھتے ہوئے خود کو بادشاہ قرار دیا۔ اس کے بعد عبدالعزیز بن سعود کی طاقت میں اس طرح بھی اضافہ ہوا کہ انہوں نے بہت سے قبائلی سرداروں کی بیٹیوں سے شادیاں کیں۔ آج اس شاہی خاندان کے مجموعی افراد کی تعداد تقریباﹰ پچیس ہزار ہے جبکہ اثرو رسوخ رکھنے والے شہزادوں کی تعداد تقریبا دو سو بنتی ہے۔ اس قدامت پسند ریاست میں تیل کی پیداوار کا آغاز 1938ء میں ہوا، جس کے بعد سعودی عرب کا شمار دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہونے لگا۔ عبدالعزیز بن سعود کے بیٹوں کی مجموعی تعداد پینتالیس بنتی ہے۔ نو نومبر 1953ء میں سعودی ریاست کے بانی عبدالعزیز کا انتقال ہوا اور اس کے بعد سعود کو ان کا جانشیں مقرر کیا گیا۔
دو نومبر 1964ء کو شاہ سعود کرپشن اور نااہلی کے الزامات کے تحت معزول کر دیا گیا اور ان کے سوتیلے بھائی شاہ فیصل نے اقتدار سنبھالا۔ شاہ سعود کی وفات 1969ء کو جلاوطنی میں ہوئی۔ جدید سعودی عرب کے معمار کا خطاب حاصل کرنے والے شاہ فیصل کو مارچ 1975ء میں ان کے ایک بھتیجے نے قتل کر دیا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ قاتل کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ اسلام آباد میں واقع فیصل مسجد اور پنجاب کے شہر فیصل آباد کا نام سعودی شاہ فیصل کے نام پر ہی رکھا گیا۔ اس کے بعد سعودی عرب کی حکمرانی شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی شاہ خالد کے حصے میں آئی اور وہ 1982ء میں اپنی وفات تک حکمران رہے۔ اس کے بعد شاہ فہد حکمران بنے اور انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی عمر سے دو سال چھوٹے شاہ عبداللہ کو ولی عہد مقرر کر دیا تھا۔ 1995ء میں شاہ فہد پر فالج کا حملہ ہوا، جس کے بعد عملی طور پر زیادہ تر فرائض شاہ عبداللہ ہی سرانجام دیتے رہے۔ 2005ء میں شاہ فہد انتقال کر گئے اور ان کی جگہ شاہ عبداللہ نے لی۔ سن 2015 میں تیئس جنوری کو انتقال کرنے والے شاہ عبداللہ کی جگہ اُن کے سوتیلے بھائی سلمان بن عبدالعزیز نے لی۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note
·
View note
Photo
مجتهد درباره مجروحیت بن سلمان دست به افشا زد افشاگر اخبار پشت پرده خاندان آل سعود تاکید کرد که حرف و حدیث ها در خصوص مجروحیت بن سلمان در جریان حادثه محله «الخزامی» افزایش یافته است.
0 notes
Text
تازہ ترین سعودی اینٹی کرپشن صفائی میں 200 سے زائد گرفتار
تازہ ترین سعودی اینٹی کرپشن صفائی میں 200 سے زائد گرفتار
سعودی عرب نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی بااختیار اینٹی کرپشن باڈی کی جانب سے تازہ ترین کارروائی کرتے ہوئے تقریبا a ایک درجن سرکاری وزارتوں میں 207 ملازمین کی گرفتاری کا اعلان کیا۔
حراست میں لیے گئے افراد کے نام نہیں بتائے گئے اور یہ واضح نہیں کہ گرفتاریاں کب کی گئیں۔ مملکت کے قومی انسداد بدعنوانی کمیشن ، جسے ‘نازاہا’ کے نام سے جانا جاتا ہے ، نے پیر کو دیر سے گرفتاریوں کا اعلان کیا۔
ولی عہد کی انسداد بدعنوانی کا خاتمہ 2017 کے آخر میں شروع ہوا۔ اس نے اسے طاقت کو مستحکم کرنے میں مدد دی ہے اور سلطنت کو 106 بلین ڈالر کے اثاثے بنائے ہیں۔ سعودی شہریوں نے طویل عرصے سے شکایت کی ہے کہ وہ حکومت میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کرتے ہیں اور عوامی فنڈز کو ضائع کیا جاتا ہے یا جو اقتدار میں ہیں ان کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ اس تازہ ترین دور میں 460 سے زائد افراد سے تفتیش کی گئی اور اس کے نتیجے میں 207 سعودی شہریوں اور رہائشیوں کو بدعنوانی ، اختیارات کے غلط استعمال اور دھوکہ دہی کے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا۔
کمیشن نے کہا کہ ان ملزمان کو پراسیکیوشن کے حوالے کیا جائے گا۔ ان کا تعلق نیشنل گارڈ اور وزارتوں ، بشمول دفاع ، داخلہ ، صحت اور انصاف سے ہے۔
اپریل میں ، کمیشن نے کہا کہ سرکاری شعبے کے 176 افراد کو اسی طرح مبینہ کرپشن کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔
مملکت کی انسداد بدعنوانی کا خاتمہ 2017 کے اواخر میں اس وقت ہوا جب شہزادہ محمد نے 300 سے زائد شہزادوں ، عوامی شخصیات اور تاجروں کو نشانہ بنایا جنہوں نے مل کر حکمران آل سعود خاندان اور اس کے وسیع سرپرستی نیٹ ورک کو گھیرے میں لے کر اشرافیہ ڈھانچے کی علامت بنائی۔
اس سال بے مثال انداز میں ، اس کی افواج نے ملک کی طاقتور ترین شخصیات کو گرفتار کیا اور انھیں ریاض کے متمول رٹز کارلٹن ہوٹل میں ہفتوں اور مہینوں تک بے دخل رکھا۔ جسمانی زیادتی کی اطلاعات کے بعد کئی کو بعد میں جیلوں یا دیگر حراستی سہولیات میں منتقل کر دیا گیا۔ اگرچہ مملکت نے کبھی حراست میں لیے گئے افراد کے ناموں کی تصدیق نہیں کی ، ان میں ارب پتی شہزادہ الولید بن طلال اور سعودی تعمیراتی تاجر بکر بن لادن شامل تھے۔
پچھلے سال ، دو ��زید اعلیٰ عہدے داروں کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور مقدمے کی سماعت کی گئی۔ ان میں لیفٹیننٹ جنرل فہد بن ترکی بن عبدالعزیز ، ایک شہزادہ تھا جو یمن میں سعودی آپریشنز کی نگرانی کرتا تھا ، اور اس کا بیٹا ، شہزادہ عبدالعزیز بن فہد بن ترکی ، جو سعودی عرب کے جوف علاقے کے نائب گورنر تھے۔
. Source link
0 notes
Photo
جهان زیر سایهی ترور؛ مهمترین رویدادهای بینالمللی دههی گذشتهhttps://khoonevadeh.ir/?p=239000
روزنامه جامجم - زهرا ساختمانیان: ورود به سال ۲۰۲۰ میلادی، مجالی برای مرور حوادث و رخدادهای مهمی است که طی یک دهه اخیر در کشورهای مختلف به وقوع پیوسته است؛ حوادثی که تأثیرگذاری برخی از آنها، تنها محدود به حوزه جغرافیایی و سیاسی آن کشور نبوده و دیگر بازیگران حوزه روابط بینالملل را نیز درگیر کرده است.
فراتر از آن، مرور این حوادث کنار یکدیگر، بیانگر آن است که طی ده سال اخیر (از سال ۲۰۱۰ تاکنون) جهان سیاست چه روزهای پرافت و خیزی را سپری کرده و این تحولات میتواند چه تأثیری در راهبرد پردازی، تصمیمگیری و حتی رفتارسنجی کشورها از اکنون تا یک دهه آینده داشته باشد. دامنه تأثیرگذاری بسیاری از حوادثی که از آنها نام خواهیم برد، تنها محدود به یک دهه سپری شده نبوده و قطعاً به دهه آینده نیز تسری پیدا خواهد کرد. امروز در صفحه بین الملل این حوادث مهم را دنبال میکنیم.
آمریکا
کاسترو با این هیبتش حالا ۳ سال میشود که دیگر پیش ما نیست.
مرگ مرد اول کاراکاس
هوگوچاوز، رئیس جمهور سابق ونزوئلا در ۵ مارس سال ۲۰۱۳ میلادی و در ۵۸ سالگی، به دلیل ابتلا به سرطان در کاراکاس درگذشت. چاوز، شصت و چهارمین رئیسجمهور ونزوئلا بود. وی به عنوان رهبر حزب بولیواری چپ و انقلاب بولیواری شناخته میشد. تکیه چاوز بر الگوهای سوسیالیستی بهخصوص در حوزه اقتصاد، ضدیت وی با ج��انیسازی نئولیبرالیستی و ایستادگی وی در برابر ایالات متحده، از ویژگیهای خاص رئیس جمهور سابق ونزوئلا بود.
زندانی و آزادی رئیس جمهور سابق برزیل
لولا داسیلوا، از موفقترین رهبران سیاسی و اقتصادی در آمریکای لاتین وکشور برزیل محسوب میشود. وی از ابتدای سال ۲۰۰۳ میلادی تا سال ۲۰۱۱ رئیس جمهور این کشور آمریکای لاتین بود. مارس ۲۰۱۶ پلیس با مراجعه به خانه لولا داسیلوا در حومه سائوپائولو، وی را دستگیر کرد. پلیس علت دستگیری او را وجود مدارکی مبنی بر دریافت سود غیرقانونی از شرکت نفتی پتروبراس اعلام کرد. داسیلوا توسط دادگاه در سال ۲۰۱۸ به ۱۲ سال حبس به دلیل پولشویی محکوم شد، اما نوامبر سال ۲۰۱۹ از a زندان آزاد شد.
مرگ بانی جنگ خلیج فارس
۳۰ نوامبر ۲۰۱۸، جورج اچ دبلیو بوش، رئیس جمهور پیشین ایالات متحده و بانی جنگ خلیج فارس، در ۹۴ سالگی درگذشت. او سالهای ۱۹۸۹ تا ۱۹۹۳ رئیس جمهور آمریکا بود. در سال ۱۹۹۱، بوش در رأس ائتلافی متشکل از برخی کشورهای غربی ـ عربی برای جلوگیری از اشغال کویت توسط عراق، جنگ خلیج فارس را علیه صدام به راه انداخت.
وداع با چریک پیر
۲۵ نوامبر ۲۰۱۶، فیدل کاسترو، رهبر سابق کوبا در نود سالگی درگذشت. کاسترو که رکورددار قرار گرفتن در معرض ترور بود در سالهای آخر، از قدرت کناره گیری کرده بود و برادرش رائول همه کاره کوبا بود. پس از مرگ کاسترو، روابط کوبا و آمریکا توسعه بیشتری پیدا کرد.
آسیا
مهاتیر محمد با ۹۴ سال سن حال مسنترین سیاستمدار دنیاست.
مرگ رهبر کره شمالی و انتقال قدرت به اون
کیم جونگ ایل، رهبر سابق کره شمالی در ۱۷ دسامبر سال ۲۰۱۱ میلادی و در ۷۰ سالگی درگذشت. کیم جونگ ایل، رئیس کمیسیون دفاع ملی کره شمالی، فرمانده کل ارتش خلق کره شمالی و فراتر از آن، دبیر کل حزب کمونیست کره بود. کیم جونگ ایل پس از مرگ پدرش کیم ایل سونگ در سال ۱۹۹۴ میلادی، جانشین او شده بود.
مرگ پادشاه
۲۳ ژانویه سال ۲۰۱۵ میلادی، ملک عبدا... پادشاه سابق عربستان سعودی پس از طی دورهای بیماری درگذشت. ملک عبدا... فرزند دوازدهم ملک عبدالعزیز، بنیانگذار عربستان سعودی و ششمین پادشاه این کشور از خاندان آل سعود در سالهای ۲۰۰۵-۲۰۱۵ بود. ملک عبدا... در زمان سلطنتش، روابط نزدیکی با ایالات متحده و بریتانیا داشت و میلیاردها دلار تجهیزات نظامی از آنها خرید.
ملاعمر: زندگی پنهان، مرگ پنهان
ملامحمد عمر، رهبر طالبان بنابر ادعای این گروه، در ماه میسال ۲۰۱۳ میلادی در بیمارستانی در افغانستان درگذشت. ملاعمر از سال ۱۹۹۶ میلادی تا سال ۲۰۰۱، رهبر حکومت طالبان در افغانستان بود. از ملاعمر کمتر تصویر و عکسی در فضای رسانهای موجود است. حتی منابع خبری و رسانهای افغان و طالبان، بر سر اعلام سن ملاعمر در زمان درگذشت با یکدیگر اختلاف داشتهاند.
نسل کشی مسلمانان در میان��ار
از ۹ اکتبر سال ۲۰۱۶ میلادی تا کنون، کشتار، شکنجه و آزار مسلمانان روهینگیا در میانمار ادامه داشته است. این اقدام، در سایه حمایت اعضای دائمی شورای امنیت سازمان ملل از دولت و ارتش میانمار و گروههای بودایی صورت میگیرد. مسلمانان در حالی که دهههاست ساکن میانمار هستند، از داشتن حق شهروندی محروم بوده و صرفا دارای کارت هویتی هستند.
پایان بن لادن
دوم میسال ۲۰۱۱ میلادی، اسامه بن لادن رهبر القاعده و یکی از مهرههای وابسته به دستگاههای امنیتی ایالات متحده و عربستان سعودی، توسط گروه فرماندهی مشترک عملیات ویژه نیروهای نظامی ایالات متحده آمریکا در ابیت آباد پاکستان کشته شد. اوباما رئیس جمهور وقت این کشور، دستور قتل وی را صادر کرد. پس از آن نیز جسد بن لادن به دریا انداخته شد تا کمترین نشانهای از او باقی نماند.
خانم رئیس جمهور در زندان
۱۰ مارس ۲۰۱۷ میلادی، «پارک گئون هه» رئیس جمهور سابق کره جنوبی رسما برکنار شد. او پس از وقوع اعتراضات گسترده از سمت خود کنار رفت. خانم رئیس جمهور مظنون به دریافت رشوه و سوء استفاده از قدرت برای تثبیت موقعیت لی جای یونگ، معاون مدیر عامل شرکت سامسونگ بوده است. فراتر از آن، پس از بررسیهای بیشتر، پارک گئون هه، به برداشت پول از بودجه سازمان اطلاعات کره جنوبی و مشارکت در گزینش نامزدهای حزب حاکم برای انتخابات در زمانی که در مسند ریاست جمهوری حضور داشت نیز محکوم شد. وی در مجموع به ۳۲ سال حبس محکوم شد که در حال تحمل آن است.
بازگشت نخست وزیر محبوب
دهم ماه می ۲۰۱۸، ماهاتیر محمد، کسی که از او به عنوان معمار مالزی جدید یاد میشود، توانست با پیروزی ائتلاف انتخاباتی خود، بار دیگر به رأس معادلات سیاسی و اجرایی کوالالامپور باز گردد. ماهاتیر محمد پیشتر از سال ۱۹۸۱ تا سال ۲۰۰۳ به عنوان چهارمین نخستوزیر مالزی فعالیت کرد که طولانیترین دوره تصدی این مقام بوده است. او هم اکنون با داشتن ۹۴ سال، پیرترین نخست وزیر جهان محسوب میشود.
ظهور و سقوط داعش
سال ۲۰۱۳ بود که داعش به عنوان یک گروه تروریستی خشن در جهان معروف شد و شروع کرد به اشغال عراق، سوریه و هر جایی که دستش میرسید. این گروه طی پنج سال جنایات بیشماری را رقم زد و باعث کشته، زخمی و آواره شدن دهها هزار نفر شد. نهایتا سال گذشته و باحضور نیروهای ایرانی، پرونده داعش پیچیده شد.
اقیانوسیه
نژادپرستان علیه مسلمانان
۱۵ مارس سال ۲۰۱۹، برنتون ترنت با سلاح نیمه خودکار وارد مسجد نور در کرایستچرچ شد و روی حاضران آتش گشود که این حمله ۴۲ شهید برجای گذاشت. پس از چند دقیقه او به مرکز اسلامی لینوود در نزدیکی مسجد رفت و در آنجا نیز به سوی کسانی که در آن مرکز بودند تیراندازی کرد. در این مرکز نیز ��فت نفر از مسلمانان به شهادت رسیدند. در نیوزیلند مجازات اعدام لغو شده و حداکثر مجازات در این کشور حبس ابد است.
وقتی استرالیا هم طعم ناامنی را چشید
از سال ۲۰۱۴ میلادی تاکنون، چندین بار شاهد وقوع عملیاتهای تروریستی در استرالیا بوده ایم پس از بحران گروگانگیری در ۱۵ دسامبر ۲۰۱۴ در سیدنی (که ۹ کشته و زخمی بر جای گذاشت)، خطرناکترین اقدام تروریستی، مربوط به توطئه بمبگذاری در فرودگاه سیدنی در ۳۰ جولای ۲۰۱۷ بود که توسط پلیس خنثی شد.
تراژدی پناهجویان در نائورو
از سال ۲۰۱۸ میلادی، اخبار و گزارشهایی تکان دهنده در خصوص وضعیت وخیم و اسفبار پناهجویان در استرالیا و نائورو منتشر شد. مقامات استرالیایی ادعا کردهاند هدف از این اقدام، جلوگیری از ورود پناهجویان به داخل خاک استرالیا بوده است. همچنین دولت استرالیا اعلام کرده است که وضعیت اسفبار و بلاتکلیف پناهجویان در نائورو، باید درس عبرتی برای سایر کسانی باشد که میخواهند برای مهاجرت راهی استرالیا شوند.
آفریقا
ماندلا احتمالا مهمترین چهرهای است که آفریقا در این دهه از دست داد.
مرگ پیرترین رئیس جمهور جهان
رابرت موگابه، رئیس جمهور پیشین زیمبابوه در ۶ سپتامبر سال ۲۰۱۹ میلادی و در ۹۵ سالگی درگذشت. او از سال ۱۹۷۵میلادی، اتحادیه ملی آفریقایی زیمبابوه-جبهه میهنی (زانو-پیاف) را رهبری میکرد. موگابه ۹۳ ساله که پیرترین رئیسجمهور جهان بود در ۱۴ نوامبر ۲۰۱۷ توسط ارتش زیمبابوه دستگیر و بازداشت خانگی شد. دستگیری موگابه به ۳۷ سال حکومت وی بر زیمبابوه، پایان داد و او ناچار به استعفا از مسند ریاست جمهوری شد.
بیداری اسلامی، کابوس غرب
وقوع بیداریاسلامی در جهان اسلام از سال ۲۰۱۱ میلادی، آن هم در حالی که زمینههای آن از سالها قبل و به دنبال رشد آگاهی مسلمانان منطقه و خصوصا نسل جوان آنها فراهم شده بود، بسیاری از محاسبات پیشین غرب در قبال دنیای اسلام را دگرگون ساخته است. این قیامها از نیمه دوم سال ۲۰۱۱ میلادی آغاز شد. اولین آن در تونس بود و پس از آن در مصر، لیبی، یمن و بحرین ادامه یافت.
عاقبت خونین دیکتاتور لیبی
معمر قذافی دیکتاتور سابق لیبی و عامل کشتار هزاران نفر از شهروندان لیبیایی در طول ۳۴ سال حضور در قدرت، ۲۰ اکتبر ۲۰۱۱ میلادی به قتل رسید. پس از وقوع بیداری اسلامی در لیبی، قذافی ناچار به فرار از طرابلس شد. وی پس از ماهها درگیری و فرار از دست انقلابیون لیبی، در شهر محل زادگاه خود، سرت دستگیر شد و اندکی بعد به دست انقلابیون کشته شد. از سال ۱۹۷۷ میلادی تا سال ۲۰۱۱ نیز قذافی به صورت مستمر در رأس قدرت حضور داشت.
درگذشت دبیر کل
کوفیعنان، دبیر کل پیشین سازمان ملل متحد در تاریخ ۱۸ اوت ۲۰۱۸ در ۸۰ سالگی درگذشت. کوفی عنان عملا نخستین دبیرکل سازمان ملل متحد بود که قبلا سالها در داخل خود این سازمان و در پستهای مختلف خدمت کرده بود. در جریان جنگ بوسنی و هرزگوین، کوفی عنان به عنوان رهبر گروه صلح بان در بوسنی از سوی سازمان ملل انتخاب شد. وی در بین اعضای مجمع عمومی سازمان ملل، به کم حاشیه بودن و البته در برخی موارد انفعال شهرت داشت.
مرگ قاتل آپارتاید
نلسون ماندلا، رهبر محبوب آفریقای جنوبی که به آزادیخواهی و مبارزه در برابر حکومت آپارتاید آفریقای جنوبی مشهور بود، در ۵ دسامبر سال ۲۰۱۳ میلادی و بر اثر کهولت سن درگذشت. ماندلا، نخستین رئیسجمهور آفریقای جنوبی بود که سال ۱۹۹۴ و در یک انتخابات دموکراتیک عمومی پیروز شد. ماندلا در طول ۲۷ سال زندان- که بیشتر آن را در یک سلول در جزیره روبن سپری کرد- به مشهورترین چهره مبارزه علیه آپارتاید در آفریقای جنوبی تبدیل شد.
اروپا
اوکراین در سالهای اخیر با مشکلات زیادی دست و پنجه نرم کرده. زندانی و آزاد شدن تیموشنکو یکی از نشانههای بحران این کشور است.
بازگشت پوتین به اتاق ریاست جمهوری
آگوست سال ۲۰۱۲ میلادی، دوران حضور دیمیتری مدودف، رئیس جمهور سابق روسیه در قدرت به پایان رسید و همین موضوع، مجال و بستر قانونی لازم برای بازگشت ولادیمیر پوتین به قدرت را فراهم کرد. از آن زمان تا کنون، پوتین با محبوبیتی بالا در روسیه، همچنان رئیس جمهور این کشور است و مدودف نیز در کنار وی، پست نخست وزیری را در دست دارد.
حمله خونین نژادپرستانه در اسکاندیناوی
۲۲ جولای سال ۲۰۱۱ میلادی، شاهد وقوع دو حمله نژادپرستانه در کشور نروژ بودیم. در نخستین حمله، شاهد انفجار یک بمب دست ساز در مرکز شهر اسلو (پایتخت نروژ) بودیم. در حمله دوم که ساعاتی پس از حمله اول صورت گرفت، یک فرد نژاپرست نروژی به نام آندرس برویک وارد کمپ نوجوانان حزب کارگر نروژ در جزیره اوت اویا شد و دهها عضو کم سن و سال این حزب را به رگبار بست. در مجموع این دو حمله (که عامل هر دوی آنها یک نفر بوده است) ۷۷ نفر جان خود را از دست دادند. آندرس برویک، پس از این جنایات، تنها به ۲۱ سال زندان (بر اساس قوانین نروژ) محکوم شد و در زندان نیز از بهترین امکانات ممکن برخوردار است.
دست مریزاد داعش به دولتهای اروپایی
داعش در نوامبر سال ۲۰۱۵ و مارس سال ۲۰۱۶، حملات گستردهای را در فرانسه و بلژیک علیه شهروندان این دو کشور صورت داد. در پاریس ۱۳۰ نفر کشته و ۳۶۸ نفر مجروح شدند. در حملات بلژیک نیز سه انفجار در بروکسل، پایتخت بلژیک رخ داد که دو انفجار آن در فرودگاه بروکسل و دیگری در ایستگاه مترو به وقوع پیوست. در این انفجارها ۳۴ نفر کشته و ۱۳۶ نفر زخمی شدند.
فراز و فرود تیموشنکو در اوکراین
یولیا تیموشنکو، نخست وزیر پیشین اوکراین از سال ۲۰۰۷ تا ۲۰۱۰ میلادی، در ۱۱ اکتبر ۲۰۱۱ به اتهام تخطی از حدود اختیارات قانونی خود و صدور دستور امضای قرارداد انرژی میان اوکراین و روسیه به هفت سال زندان محکوم شد ۲۱ فوریه ۲۰۱۴ در پی ادامه درگیریهای مخالفان و موافقان دولت اوکراین و تسخیر کاخ ریاست جمهوری توسط مخالفان، پارلمان این کشور به آزادی تیموشنکو از زندان رأی مثبت ��اد و در ۲۲ فوریه وی از زندان آزاد شد.
تروری که همه را شوکه کرد
آندره کارلوف سفیرسابق روسیه در ترکیه، ۱۹ دسامبر ۲۰۱۶ در شهر آنکارا و هنگامی که از یک رخداد هنری بازدید میکرد، به ضرب گلوله کشته شد. کارلوف در حاشیه بازدید از این نمایشگاه هنری، مشغول سخنرانی بود که مردی مسلح به او تیراندازی کرد و از حاضران خواست محل را ترک کنند. سپس مرد مسلح دوباره بالای سر سفیر روسیه رفته و چند تیر دیگر به او شلیک کرد. قاتل نیز دقایقی بعد از ترور کشته شد.
بحران مهاجران سوری
متعاقب تشدید بحرانهای امنیتی در کشور سوریه که ناشی از حضور تروریستهای تکفیری و شدت گرفتن اقدامات آنها علیه شهروندان این کشور، میلیونها نفر از جنگ زدگان و آوارگان راهی کشورهای مجاور و متعاقبا کشورهای اروپایی شدند. این روند از سال ۲۰۱۵ میلادی تاکنون به صورت مستمر ادامه داشته است.
منبع : برترینها
0 notes
Text
سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود نے کل کتنی شادیاں کیں ، انکے کتنے بچے تھے اور سعودی شاہی خاندان کے شہزادوں کی کل تعداد آج کیا ہے ؟ حیران کن حقائق
سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود نے کل کتنی شادیاں کیں ، انکے کتنے بچے تھے اور سعودی شاہی خاندان کے شہزادوں کی کل تعداد آج کیا ہے ؟ حیران کن حقائق ریاض (ویب ڈیسک) سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن سعود کی بائیس بیویاں تھیں۔ ان میں سے ستّرہ بیویوں کے ہاں پینتالیس بیٹے پیدا ہوئے۔ اب السعود کے شاہی خاندان کے شہزادوں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے۔آل سعود ہی نے تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ملک کو سعودی عرب کا نام دیا۔ مشہور جرمن ویب سائٹ ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔سعودی عرب کے حکمران خاندان کے شہزادوں اور شہزادیوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ السعود خاندان کا تعلق اٹھارویں صدی میں جزیرہ نما عرب کے ایک مقامی شیخ سعود بن محمد سے ملتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کا نام دو صدیاں پہلے پیدا ہونے والے مقامی حکمران پر رکھا گیا ہے۔شیخ سعود کے بیٹے محمد نے 1744ء میں شعلہ بیان مذہبی عالم محمد بن عبدالوہاب سے اتحاد کر لیا۔ محمد بن عبدالوہاب ہی نے ’خالص اسلام کی واپسی‘ کا نعرہ لگایا اور یہاں سے وہابی نظریات کے پرچار کا آغاز ہوا۔بعدازاں سعود بن محمد کی نسل کو 1818ء میں عثمانی افواج (ترکی) کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ لیکن اس کے چھ برس بعد ہی سعود خاندان نے صحرائی طاقت کے مرکز ریاض پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1902ء میں عبدالعزیز بن سعود نے ریاض سے اپنے حریف راشدی قبیلے کو بے دخل کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مزید مستحکم بنا لیا۔ اس کے بعد عبدالعزیز نے مختلف قبیلوں سے لڑائی جاری رکھی اور انہیں شکست دیتے ہوئے بہت سے علاقوں کو متحد کر دیا۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور 1913ء میں خلیجی ساحل کا کنڑول حاصل کر لیا۔دوسری جانب 1918ء میں سلطنت عثمانیہ کو سعودی عرب میں شکست ہوئی Read the full article
0 notes
Text
محمد بن سلمان با چراغ سبز آمریکایی ها ولیعهد شد، جنگ قدرت در خاندان آل سعود شدت می یابد
کارشناس مسائل غرب آسیا با تاکید بر اینکه سلمان بن عبدالعزیز پادشاه عربستان پسرش محمدبن سلمان را با تضمین آمریکایی ها به عنوان ولیعهد خود منصوب کرد، گفت: با این انتصاب جنگ قدرت در داخل خاندان آل سعود شدت خواهد یافت.
from https://bit.ly/2JisNNc via محمد بن سلمان با چراغ سبز آمریکایی ها ولیعهد شد، جنگ قدرت در خاندان آل سعود شدت می یابد
0 notes
Text
مسجد قبلتین : بیت المقدس سے کعبہ شریف کی طرف تبدیلی کی یادگار
مدینہ منورہ کو تاریخی م��اجد کا شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ شہر مدینہ کی تاریخ سیرت طیبہ کی خوبصورت یادوں سے معطر رہتی ہے اور اس کے چپے چپے پر ایسے مقامات آج بھی ڈیڑھ ہزار سال قبل نبی اکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم اور آپ ﷺ کے اصحاب کبار کی یاد دلاتے ہیں۔ انہی تاریخی مساجد میں ایک مسجد قبلتین کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مسجد الحرۃ الوبرہ کی بلندی پر واقع ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے رپورٹ میں ناظرین کے لیے مسجد قبلتین کی تازہ تصاویر حاصل کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ مسجد قبیلہ بنو سواد بن غنم بن کعب نے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ھجرت کے دوسرے سال میں تعمیر کی تھی۔ اس کی تعمیر میں گارے، کچی اینٹوں اور کھجور کے تنوں کا استعمال کیا گیا تھا۔
اس مسجد کی ایک خاص تاریخی اہمیت ہے۔ وہ یہ کہ اس میں تبدیلی قبلہ کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ نے اپنے نبی کو بیت المقدس سے قبلہ خانہ کعبہ کی طرف موڑنے کا حکم نماز کےاندر دیا۔ یہ پندرہ شعبان کا دن اور ھجرت کے دوسرے سال کا واقعہ ہے۔ آپ علیہ السلام بنی سلمہ کے ام بشر کی تعزیت کے لیے آئے۔ انہوں نےآپ کے لیے کھانا تیار کیا۔ اس دوران ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز ظہر کی دو رکعتیں ادا کی جا چکیں تو حضرت جبریل امین آیت (قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ] لے کر نازل ہوئے۔
آپ ﷺ نے نماز کے اندر ہی قبلہ کا رخ تبدیل کیا۔ اس کے بعد سے یہ مسجد ’م��جد قبلتین‘ مشہور ہوئی۔ آپ ﷺ نے اس مسجد میں نماز ظہر کا کچھ حصہ بیت المقدس اور کچھ حصہ خانہ کعبہ کی طرف مڑ کر ادا کیا۔ سنہ 87ھ بہ مطابق 706ء کو مدینہ منورہ کے گورنر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مسجد کی تعمیر نو کی۔ اس کے بعد 800 سال تک یہ مسجد ایسی ہی رہی اور 893ھ بہ مطابق 1488ء میں شاھین الجمالی نے اس کی تجدید کی۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے اس کی مرمت کا کام جاری رہا۔ موجودہ سعودی خاندان کے دور حکومت میں 1350ھ کو شاہ عبدالعزیز آل سعود کے حکم پر اس مسجد کی مزید توسیع کی گئی جس کے بعد اس کا رقبہ 425 مربع میٹر تک پھیل گیا۔
بشکریہ العربیہ اردو
0 notes
Text
شاہ عبداللہ کی وفات اور مشرق وسطیٰ....
اسلامی دنیا کے اہم ملک سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ شاہ عبداللہ کا نو سال پر محیط اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے علیل شاہ عبداللہ 22 اور 23 جنوری کی درمیانی شب خالق حقیقی سے جاملے۔شاہ عبداللہ کئی عرصے سے پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے اور گزشتہ کئی دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھے۔ 90 سالہ شاہ عبداللہ نے اپنی زندگی میں ہی مملکت سعودی عرب کے معاملات اپنے سوتیلے بھائی ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز کو سونپ دئیے تھے۔ جو 48سال تک ریاض کے گورنر رہے ہیں۔79 سالہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز صرف20 سال کے تھے تو انہیں وزیر بنا دیا گیا تھا۔
اپنے بھائی شہزادہ نائف کی وفات کے بعد 2012 میں ولی عہد مقرر ہوئے اور شاہ عبداللہ مرحوم کی خرابی صحت کے باعث مختلف تقریبات میں ان کی نمائندگی کرتے رہے۔ شاہ عبداللہ کی موت کی خبرنے پوری اسلامی دنیا کو غمگین کردیا۔ حافظ عبدالکریم بتا رہے تھے کہ شاہ عبداللہ کی موت پر سعودی عرب کی گلیاں ویران ہیں۔ پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ شاہ عبداللہ کو ایک اچھے بادشاہ کے طور پر لیا جاتا تھا۔ شاہ عبداللہ کو جمعہ کی نماز کے بعد ریاض میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف، مصر کے وزیر اعظم ابراہیم ملہب، سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان موجود تھے۔
شاہ عبداللہ کو تو شاہی خاندان کے فرمانرواؤں نے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ایک بے نشان قبر میں دفنا دیا ہے مگر شاہ عبداللہ کی موت کے عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا شاہ سلمان مشرقِ وسطی کے حوالے سے سعودی عرب کی سابق پالیسیاں جاری رکھیں گے؟ کیا خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے سعودی عرب کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے؟ تیل کے حوالے سے نئے سعودی حکمران کی کیا پالیسی ہوگی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کا ہر شخص متلاشی ہے۔ آج کے کالم میں ان سوالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔
سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان نے عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک بیان جاری کیا کہ ’سیکورٹی اور استحکام برقرار رکھنے اور سلطنت کی تمام برائیوں سے حفاظت کرنے میں اللہ میری مدد کرے۔' اس بیان سے نئے بادشاہ کی ترجیحات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے نئے بادشاہ اندرونی اور بیرونی طور پر کئی معاملات کو مزید بہتر بنانے کے لئے کام کریں گے۔ اس حساس وقت میں سعودی شاہی خاندان کے جانشینی کا عمل خوش اسلوبی سے حل ہوچکا ہے۔ مگر نئے بادشاہ کو غیر معمولی رفتار سے کچھ ممکنہ مسائل سے نمٹنا ہو گا۔
شاہ سلمان کی جانب سے اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن کو ولی عہد مقرر کر نا دانشمندانہ اقدام تھا۔ اس کے بعد نیا نائب ولی عہد مقرر کرنے کا اعلان سامنے آیا۔ نائب ولی عہد وزیر داخلہ محمد بن نائف کو مقرر کیا گیا ہے اور یہ شہزادوں کی نئی نسل کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے تخت تک جانے والی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔ محمد بن نائف شہزادہ نائف کے بیٹے ہیں ۔جو شاہ عبداللہ اور شاہ سلمان کے بھائی تھے۔ 2012 تک وہ سعودی عرب کے ولی عہد رہے اور انہی ہی کی وفات کے بعد شاہ سلما ن کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔ پھر شاہ سلمان نے اپنے بیٹے کو وزیر دفاع بھی مقرر کردیا۔
شاہ سلمان کے دور میں پہلی بار آل سعود کی تیسری نسل اقتدار کا حصہ بن رہی ہے۔ کیونکہ شاہ عبداللہ کا خیال تھا کہ ابھی اقتدار ہم بھائیوں میں رہے۔ اور تیسری نسل کو اقتدار میں کچھ عرصے بعد شریک کیا جائے اور شاید اس سے بہتر موقع نہیں تھا۔
حالیہ رونما ہونے والے واقعات سے شاہی خاندان کی اکثریت مطمئن ہو گی۔ خاندان کے درمیان کچھ معاملات خوش اسلوبی سے طے کرانے میں ہمسایہ ملک کے سربراہ کا بھی کردار ہے۔ جنہوں نے چند روز قبل عمرے کی غرض سے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جب شاہ عبداللہ وینٹی لیٹر پر تھے۔
بادشاہ سلمان کو جن نئے چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ اس میں سیکورٹی بہت اہم ہے۔ ان کی اولین ترجیح ملک میں سیکورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر بنانا ہوگی۔داعش کے خطرے سے سعودی عرب کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ جس کا وہ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھی تذکرہ کرچکے ہیں۔ شدت پسندوں کو سعودی عرب کے اندر حملوں سے باز رکھنے کی پالیسی کے تحت اسلامی رہنماؤں اور پڑھانے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ عراق کے حوالے سے بھی شاہ سلمان کی پالیسی میں تبدیلی آنے کا کوئی خاص امکان موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت وزیر دفاع انہی کے صاحبزادے ہیں اور وزیر داخلہ شہزادہ نائف کے فرزند ہیں۔ اس لئے سعودی عرب میں شاہ سلمان کا دور ایک اچھے دور کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
شاہ سلمان اپنے پیشرو عبداللہ کی طرح وہاں زمینی فوج نہ بھیجنے کے فیصلے پر قائم رہیں گے کیونکہ سعودی رہنماؤں کی رائے کے مطابق ملکی فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔یمن کے حوالے سے بھی سابق پالیسی جاری رہے گی مگر یمن میں القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر مشرق وسطیٰ کے لئے خطرہ ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب خطے میں امن کی کوششوں کو جاری رکھنے کے لئے اقدامات کی کوشش کرے گا۔ لیکن بادشاہ سلمان خطے کے تنازعات میں مداخلت کرنے پر کم مائل ہوں گے اور خطے کے دوسرے ممالک میں دخل اندازی کو ترجیح نہیں دیں گے۔
شاہ سلمان کا دور اصلاحات کے دور کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے ۔بادشاہ کے اندرونی طور پر درپیش مسائل میں سے ایک حقوق انسانی ہیں اور توقع ہے کہ ان کے بارے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ اپنے پیشرو عبداللہ کے اقدامات کو واپس لیں گے۔اس کے علاوہ سلطنت کی تیل کے بارے میں پالیسی پر بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔سعودی عرب تیل کی پیداوار میں کٹوتی نہ کرنے کی پالیسی کو جاری رکھے گا ۔پیٹرولیم کی وزارت پر علی نائمی کو برقرار رکھنےسے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ پالیسی ہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کم قیمتوں کو برداشت کر سکتے ہیں جس میں امریکہ میں شیل پیٹرول کی صنعت کے لئے مشکل حالات پیدا کرنے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اوپیک کی مارکیٹ متاثر ہو رہی ہے۔لیکن یہ طے ہے کہ شاہ سلمان کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی میں اہم تبدیلیاں رو نما ہوسکتی ہیں۔
حذیفہ رحمان
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
شاہ عبداللہ کی وفات اور مشرق وسطیٰ....
اسلامی دنیا کے اہم ملک سعودی عرب کے چھٹے بادشاہ شاہ عبداللہ کا نو سال پر محیط اقتدار اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے علیل شاہ عبداللہ 22 اور 23 جنوری کی درمیانی شب خالق حقیقی سے جاملے۔شاہ عبداللہ کئی عرصے سے پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے اور گزشتہ کئی دنوں سے وینٹی لیٹر پر تھے۔ 90 سالہ شاہ عبداللہ نے اپنی زندگی میں ہی مملکت سعودی عرب کے معاملات اپنے سوتیلے بھائی ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز کو سونپ دئیے تھے۔ جو 48سال تک ریاض کے گورنر رہے ہیں۔79 سالہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز صرف20 سال کے تھے تو انہیں وزیر بنا دیا گیا تھا۔
اپنے بھائی شہزادہ نائف کی وفات کے بعد 2012 میں ولی عہد مقرر ہوئے اور شاہ عبداللہ مرحوم کی خرابی صحت کے باعث مختلف تقریبات میں ان کی نمائندگی کرتے رہے۔ شاہ عبداللہ کی موت کی خبرنے پوری اسلامی دنیا کو غمگین کردیا۔ حافظ عبدالکریم بتا رہے تھے کہ شاہ عبداللہ کی موت پر سعودی عرب کی گلیاں ویران ہیں۔ پورے ملک کی فضا سوگوار ہے۔ شاہ عبداللہ کو ایک اچھے بادشاہ کے طور پر لیا جاتا تھا۔ شاہ عبداللہ کو جمعہ کی نماز کے بعد ریاض میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف، مصر کے وزیر اعظم ابراہیم ملہب، سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان موجود تھے۔
شاہ عبداللہ کو تو شاہی خاندان کے فرمانرواؤں نے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ایک بے نشان قبر میں دفنا دیا ہے مگر شاہ عبداللہ کی موت کے عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطی پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا شاہ سلمان مشرقِ وسطی کے حوالے سے سعودی عرب کی سابق پالیسیاں جاری رکھیں گے؟ کیا خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے سعودی عرب کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے؟ تیل کے حوالے سے نئے سعودی حکمران کی کیا پالیسی ہوگی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کا ہر شخص متلاشی ہے۔ آج کے کالم میں ان سوالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔
سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان نے عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک بیان جاری کیا کہ ’سیکورٹی اور استحکام برقرار رکھنے اور سلطنت کی تمام برائیوں سے حفاظت کرنے میں اللہ میری مدد کرے۔' اس بیان سے نئے بادشاہ کی ترجیحات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے نئے بادشاہ اندرونی اور بیرونی طور پر کئی معاملات کو مزید بہتر بنانے کے لئے کام کریں گے۔ اس حساس وقت میں سعودی شاہی خاندان کے جانشینی کا عمل خوش اسلوبی سے حل ہوچکا ہے۔ مگر نئے بادشاہ کو غیر معمولی رفتار سے کچھ ممکنہ مسائل سے نمٹنا ہو گا۔
شاہ سلمان کی جانب سے اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن کو ولی عہد مقرر کر نا دانشمندانہ اقدام تھا۔ اس کے بعد نیا نائب ولی عہد مقرر کرنے کا اعلان سامنے آیا۔ نائب ولی عہد وزیر داخلہ محمد بن نائف کو مقرر کیا گیا ہے اور یہ شہزادوں کی نئی نسل کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے تخت تک جانے والی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔ محمد بن نائف شہزادہ نائف کے بیٹے ہیں ۔جو شاہ عبداللہ اور شاہ سلمان کے بھائی تھے۔ 2012 تک وہ سعودی عرب کے ولی عہد رہے اور انہی ہی کی وفات کے بعد شاہ سلما ن کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔ پھر شاہ سلمان نے اپنے بیٹے کو وزیر دفاع بھی مقرر کردیا۔
شاہ سلمان کے دور میں پہلی بار آل سعود کی تیسری نسل اقتدار کا حصہ بن رہی ہے۔ کیونکہ شاہ عبداللہ کا خیال تھا کہ ابھی اقتدار ہم بھائیوں میں رہے۔ اور تیسری نسل کو اقتدار میں کچھ عرصے بعد شریک کیا جائے اور شاید اس سے بہتر موقع نہیں تھا۔
حالیہ رونما ہونے والے واقعات سے شاہی خاندان کی اکثریت مطمئن ہو گی۔ خاندان کے درمیان کچھ معاملات خوش اسلوبی سے طے کرانے میں ہمسایہ ملک کے سربراہ کا بھی کردار ہے۔ جنہوں نے چند روز قبل عمرے کی غرض سے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جب شاہ عبداللہ وینٹی لیٹر پر تھے۔
بادشاہ سلمان کو جن نئے چیلنجوں کا سامنا ہوگا۔ اس میں سیکورٹی بہت اہم ہے۔ ان کی اولین ترجیح ملک میں سیکورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر بنانا ہوگی۔داعش کے خطرے سے سعودی عرب کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ جس کا وہ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بھی تذکرہ کرچکے ہیں۔ شدت پسندوں کو سعودی عرب کے اندر حملوں سے باز رکھنے کی پالیسی کے تحت اسلامی رہنماؤں اور پڑھانے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ عراق کے حوالے سے بھی شاہ سلمان کی پالیسی میں تبدیلی آنے کا کوئی خاص امکان موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت وزیر دفاع انہی کے صاحبزادے ہیں اور وزیر داخلہ شہزادہ نائف کے فرزند ہیں۔ اس لئے سعودی عرب میں شاہ سلمان کا دور ایک اچھے دور کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
شاہ سلمان اپنے پیشرو عبداللہ کی طرح وہاں زمینی فوج نہ بھیجنے کے فیصلے پر قائم رہیں گے کیونکہ سعودی رہنماؤں کی رائے کے مطابق ملکی فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔یمن کے حوالے سے بھی سابق پالیسی جاری رہے گی مگر یمن میں القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر مشرق وسطیٰ کے لئے خطرہ ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب خطے میں امن کی کوششوں کو جاری رکھنے کے لئے اقدامات کی کوشش کرے گا۔ لیکن بادشاہ سلمان خطے کے تنازعات میں مداخلت کرنے پر کم مائل ہوں گے اور خطے کے دوسرے ممالک میں دخل اندازی کو ترجیح نہیں دیں گے۔
شاہ سلمان کا دور اصلاحات کے دور کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے ۔بادشاہ کے اندرونی طور پر درپیش مسائل میں سے ایک حقوق انسانی ہیں اور توقع ہے کہ ان کے بارے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ اپنے پیشرو عبداللہ کے اقدامات کو واپس لیں گے۔اس کے علاوہ سلطنت کی تیل کے بارے میں پالیسی پر بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔سعودی عرب تیل کی پیداوار میں کٹوتی نہ کرنے کی پالیسی کو جاری رکھے گا ۔پیٹرولیم کی وزارت پر علی نائمی کو برقرار رکھنےسے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ پالیسی ہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کم قیمتوں کو برداشت کر سکتے ہیں جس میں امریکہ میں شیل پیٹرول کی صنعت کے لئے مشکل حالات پیدا کرنے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اوپیک کی مارکیٹ متاثر ہو رہی ہے۔لیکن یہ طے ہے کہ شاہ سلمان کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی میں اہم تبدیلیاں رو نما ہوسکتی ہیں۔
حذیفہ رحمان
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
بوی جنگ در منطقه
بوی جنگ در منطقه
احمد خادم المله- مدیر مسئول-خاورمیانه ظرف یک هفته پر تنش می شود به گونه ای که رسانه های خبری از تحولات جدید بوی جنگ استشمام می کنند .
(more…)
View On WordPress
#اقلیم کردستان#ایران و متحدانش#بوی جنگ در منطقه#پساداعش#حمایت اسرائیل#حوثی ها#خاندان آل سعود#خاورمیانه#راهبرد جدید ترامپ#سعد حریری#عربستان سعودی
0 notes
Text
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے متعدد فوجی افسران، شاہی خاندان کے دو افراد کو بدعنوانی کے الزام میں عہدے سے ہٹا دیا
سعودی عرب کے شاہ سلمان نے متعدد فوجی افسران، شاہی خاندان کے دو افراد کو بدعنوانی کے الزام میں عہدے سے ہٹا دیا
10 منٹ قبل
،AFP
سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز نے شاہی حکم جاری کرتے ہوئے مشترکہ افواج کے کمانڈر اور الجوف خطے کے نائب گورنر کو وزارت دفاع میں بدعنوانی کے الزام میں عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔
شاہی حکم نامے میں شہزادہ فہد بن ترکی بن عبد العزیز آل سعود کو مشترکہ افواج کے کمانڈر کے عہدے سے برخاست کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن…
View On WordPress
0 notes
Text
وزیراعظم عمران خان نے سندھ کو کہا کہ لاک ڈاؤن کا مطلب ہے کہ لوگ بھوکے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے سندھ کو کہا کہ لاک ڈاؤن کا مطلب ہے کہ لوگ بھوکے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان یکم اگست 2021 کو اسلام آباد میں پاکستانی عوام سے براہ راست ٹیلی فون کال کے دوران سوالات کے جوابات دے رہے ہیں۔– پی ٹی آئی آفیشل
وزیر اعظم عمران خان ملک بھر میں کال کرنے والوں سے براہ راست لیتے ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ویکسینیشن ، سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے وائرس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ نور مقتدم کے قاتل کو نہیں بخشا جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کا اتوار کو سندھ حکومت کے لیے ایک پیغام تھا ، اس کے پس منظر میں صوبے بھر میں لاک ڈاؤن لگانے کے فیصلے کے پس منظر میں ، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدام کا انتخاب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ بھوکے ہیں۔
وزیر اعظم کا بیان اس وقت آیا جب انہوں نے ملک بھر کے ��ہریوں سے براہ راست کالیں کیں۔ ہم لاک ڈاؤن لگا کر اپنی معیشت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ […] ہم نے سمارٹ لاک ڈاؤن لگا کر صحیح فیصلہ کیا۔ “
وزیر اعظم نے عوام کو یاد دلایا کہ وائرس کے وسیع پیمانے پر ڈیلٹا کی وجہ سے کورونا وائرس کے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) کا مشاہدہ کریں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کس طرح ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنا حل نہیں ہے اور بھارت کی مثال دی جہاں غریب لوگوں کے لیے حالات خراب ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکومت نے صرف بالائی اور اشرافیہ طبقات کے بارے میں سوچا۔ […] ہم مکمل لاک ڈاؤن لگا کر اپنی معیشت کو تباہ نہیں کر سکتے۔ “
وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا واحد طریقہ لوگوں کو ویکسین لگانا تھا ، کیونکہ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ حکومت نے اب تک 30 ملین جابز کو کامیابی سے چلایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہاٹ سپاٹ کے طور پر پہچانے جانے والے علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا جا سکتا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ سکولوں کو اس وقت تک دوبارہ نہیں کھولنا چاہیے جب تک کہ تمام اساتذہ کو ویکسین نہ مل جائے۔
“جن سکولوں نے اپنے اساتذہ کو ویکسین نہیں دی انہیں بند کر دینا چاہیے۔”
‘آزاد میڈیا ایک نعمت ہے’
نوکریوں کے کوٹے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ صوبوں کے مقابلے میں مرکز کا دائرہ اختیار کم ہے ، اس لیے وہ تمام صوبوں کو ہدایت دے گا کہ وہ مستحق افراد کو نوکری کا کوٹہ الاٹ کریں۔
انہوں نے کہا کہ وہ رہنما جو آزاد میڈیا سے خوفزدہ ہیں وہی ہیں جو کرپٹ ہیں یا ان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ ہے۔
“اگر میرے پاس لندن میں اپارٹمنٹس ہوتے۔ [or had been involved in corrupt activities]، میں بھی آزاد میڈیا سے خوفزدہ ہوتا۔
“میں صرف اس وقت میڈیا کی مخالفت کرتا ہوں جب جعلی خبریں پھیلائی جائیں ، ورنہ آزاد میڈیا کسی بھی ملک کے لیے نعمت ہے۔”
پریمیئر نے حکومت کے اہم احساس پروگرام کے مستقبل پر بھی روشنی ڈالی۔
ایک سوال کے جواب میں ، وزیر اعظم نے کہا کہ وہ پہلے ملک میں کھیلوں کی ترقی میں وقت نہیں لگا سکتے تھے لیکن اب – اپنی حکومت کے آخری دو سالوں کے دوران – وہ ملک میں کھیلوں کی ترقی کی نگرانی کریں گے۔
نور مقتدم کے قاتل کو نہیں چھوڑا جائے گا
وزیر اعظم نے نورمقدم قتل کیس پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ پہلے دن سے تحقیقات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کا اعادہ کرنا چاہیے کہ حملہ آور کا خاندان کتنا ہی طاقتور ہو یا وہ امریکی شہری ہو ، اگر وہ مجرم ثابت ہوا تو اسے نہیں چھوڑا جائے گا۔
اس نے افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا کے کیس کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ اس نے اس کیس کی نگرانی اس طرح کی جیسے ��ہ اپنی بیٹی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا ، “میں نے افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کے معاملے میں پولیس کے کام کی تعریف کی۔”
الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں۔
وزیراعظم نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات میں دھاندلی ثابت نہیں کر سکے کیونکہ امریکہ ای وی ایم کا استعمال کرتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ایک سال سے اپوزیشن کو انتخاب کے لیے مدعو کر رہے تھے ، لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی اور اس حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
25 جولائی کے آزاد جموں و کشمیر انتخابات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امپائرز اور موجودہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی تھی۔ پولیس اور انتخابی عملے کو بھی ان کے ذریعے اٹھایا گیا۔
ان سب کے باوجود انتخابات میں دھاندلی کیسے ہوئی؟
وزیر اعظم نے کہا کہ سیالکوٹ ان کا گڑھ ہے ، لیکن وہ وہاں ضمنی الیکشن بھی ہار گئے ، دھاندلی کے خاتمے کا واحد راستہ ای وی ایم ایس تھا۔
لوڈشیڈنگ پر روشنی ڈالتے ہوئے ، انہوں نے تسلیم کیا کہ اس سے لوگوں کو پریشانی ہوئی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ پانی کی قلت کی وجہ سے ملک کی بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی کیونکہ ڈیموں کو اس سال 35 فیصد کم پانی ملا۔
گاڑیوں پر ٹیکس۔
وزیر اعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مالی سال 2021-22 کے بجٹ کے دوران کاروں پر ٹیکس کم کیا گیا تھا ، اور وہ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اب تک ریٹس میں کمی کیوں نہیں ہوئی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے ایک ہزار سی سی کاروں پر ٹیکس کم کیا تھا تاکہ انہیں کم قیمت پر خریدا جا سکے کیونکہ عام شہری ان کا استعمال کرتے ہیں ، لیکن اگر ریٹ کم نہیں ہوئے تو میں ان کو چیک کروں گا۔
وزیر اعظم نے “اپنے پیسے” سے متعلق ایک سوال بھیجا – ڈیلروں کو ادا کی جانے والی پریمیم – وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کو ، جس پر انہوں نے کہا: “جناب وزیر اعظم ، ہم نے ڈیلروں کو کم قیمتوں کا نوٹیفکیشن دے دیا ہے۔ ، لیکن اس شخص نے اپنے پیسوں کے بارے میں پوچھا ہے ، جو کہ بلیک مارکیٹ کا خطرہ ہے ، کیونکہ طلب سپلائی سے زیادہ ہے۔ “
اظہر نے کہا کہ کار مینوفیکچررز بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پیداوار کو تیز کر رہے ہیں ، ٹویوٹا اور ہونڈا موٹرسائیکلیں بلند سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کے آئی اے ، ہنڈائی ، ایم جی اور فوٹون جیسے نئے داخلے بھی طلب کو پورا کرنے میں مدد کریں گے۔
انہوں نے کہا ، “مجھے یقین ہے کہ سپلائی اور مانگ کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا کیونکہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ کاروں کی مانگ بڑھ رہی ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی خوشحالی ہے۔” بلیک مارکیٹ
این آر او مانگنے والے لیڈروں کو کرپٹ کر دیتے ہیں۔
وزیر اعظم نے ایک ایسے معاشرے کو نوٹ کیا جہاں بدعنوانی عروج پر تھی ، ترقی نہیں کر سکتی تھی اور جن قوموں نے اس لعنت پر قابو پایا تھا وہ خوشحال ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی ملک کی معیشت تب تباہ ہوتی ہے جب نچلی سطح پر کرپشن ہوتی ہے ، بلکہ جب ملک کے وزیر اعظم اور وزراء اس خطرے میں ملوث ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم نے نوٹ کیا کہ ترقی پذیر ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان تقسیم وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے ، کیونکہ کرپٹ حکمران ترقی یافتہ ممالک میں اپنی “چوری” کی دولت کو روک رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کے غریب لوگوں کا پیسہ بیرون ملک بھیجا جا رہا ہے اور لونڈو میں مے فیئر جیسی جائیدادوں میں لگایا جا رہا ہے جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ پاکستان اور قانون کی حکمرانی کے لیے ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ کرپٹ رہنما ان سے قومی مصالحت آرڈیننس (این آر او) مانگ رہے تھے ، جیسا کہ انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف سے کیا تھا۔
ماضی کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے ملکی اداروں کو تباہ کر دیا ہے کیونکہ کوئی بھی ادارہ اپنے شعبے میں ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اپنا کام کر سکتا ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ایک مثالی ادارہ تھا۔ […] اور ایک وقت تھا جب پاکستانی ٹیلی ویژن [dramas] ہندوستان میں دیکھا گیا ، “انہوں نے اپنی موجودہ حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی
وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود سے پاکستان میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل پر بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ نے مجھے یقین دلایا تھا کہ وہ ان کو حل کریں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ازبکستان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی درخواست پر وفاقی حکومت وہاں پر ایک پاکستانی بینک کے قیام پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے حکومت کی انتخابی اصلاحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ نو ملین پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں اور ہم انہیں ووٹ کا حق دیں گے۔
میں پاکستان کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کرنا چاہتا ہوں جو اب چندہ نہیں مانگے گا ، انہوں نے مزید کہا کہ وہ بیرون ملک عزت حاصل کرنے کے لیے گرین پاسپورٹ کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔
“جب قومیں اپنی عزت کرنا شروع کردیتی ہیں تو دوسرے ان کا احترام کرتے ہیں۔”
Source link
0 notes
Text
عطوان بررسی کرد: آیا جاده یکطرفه ریاض ــ واشنگتن به بنبست رسیده است؟
عطوان بررسی کرد: آیا جاده یکطرفه ریاض ــ واشنگتن به بنبست رسیده است؟
به گزارش گروه بینالملل خبرگزاری تسنیم به نقل از روزنامه رأیالیوم، اینکه یک مسئول ارشد سعودی با شفافیت مطلق و صراحت کامل درباره حقایق تلخ کشورش صحبت کند موضوع نادر و کمسابقهای است؛ اقدامی که روز گذشته «محمد الجدعان» وزیر دارایی عربستان طی مصاحبه با شبکه العربیه با صحبت درباره اوضاع آشفته مالی و اقتصادی این کشور انجام داد.الجدعان هنگامی که درباره اقدامات سختگیرانه و دردناک عربستان برای مقابله با شیوع کرونا صحبت میکرد بسیار صریح و روشن اعلام کرد که پیامدهای کرونا بر این کشور موجب بروز کسری قابلتوجهی در بودجه آن و کند شدن روند اجرای برخی پروژههای دولتی شده است. وزیر دارایی عربستان میان صحبتهای خود برای نخستین بار افشا کرد که این کشور قصد دارد برای جبران کسری بودجه خود 60 میلیارد دلار قرض بگیرد و 32 میلیارد دلار از ذخایر ارزی خود برداشت کند که در مجموع به 112 میلیارد دلار میرسد.این مقام سعودی درباره اقدامات سختگیرانه و دردناکی که عربستان برای مقابله با این بحران مالی که خطرناکترین بحران مالی نظام سعودی از زمان تأسیس آن از 80 سال قبل است٬ حرفی نزد؛ اما پیشبینی میشود که در پی آن «دولت رانتی» عربستان نابود شود که بزرگترین قربانی ��ین اتفاق شهروندان آن خواهند بود.با توجه به این که سعودیها همواره عادت به پنهانکاری درباره فجایع داخلی خود دارند٬ زمانی که وزیر دارایی عربستان درباره لزوم کاهش هزینهها و توقف اجرای پروژههای مهم در این کشور صحبت میکند؛ بهمعنای بروز یک وضعیت اضطراری اقتصادی در عربستان و افزایش نرخ بیکاری و احتمالاً کاهش میزان دستمزدها٬ بالا رفتن قیمت خدمات عمومی و ضروری مانند آب و برق و بهداشت و آموزش٬ اعمال مالیات بر درآمد، افزایش مالیات بر ارزش افزوده با هدف افزایش درآمدهای دولت و کاهش کسری بودجه است.بحران دیگری که کشورهای حوزه خلیج فارس و بهویژه عربستان با آن روبهرو هستند٬ کاهش درآمدهای نفتی مرز کمتر از نصف آن و نیز کاهش درآمدهای غیرنفتی بر اثر سیاستهای اتخاذشده بهمنظور مقابله با بحران کرونا است. در سایه این شرایط ارزش سهام عربستان به بیش از 6.8 درصد در روز سقوط کرده که مؤسسه اعتباردهی بینالمللی «مودیز» رتبه چشمانداز آینده عربستان را از پایدار به منفی تغییر داده است.درواقع باید بگوییم که دوران رونق اقتصادی٬ هزینههای گزاف٬ معاملات صدها میلیارد دلاری سلاح٬ تأمین بودجه مالی جنگهای یمن و سوریه و لیبی٬ در عربستان به پایان رسیده است که همچنین تأثیرات منفی زیادی بر جایگاه سیاسی و اقتصادی این کشور در جهان عرب خواهد گذاشت.اما در زمان حاضر دو تهدید خطرناک پیشِروی عربستان قرار دارد: اول احتمال ورشکستگی کامل این کشور و تبدیل شدن از یک کشور طلبکار به یک کشور بدهکار که در نتیجه کاهش شدید قیمت نفت اتفاق میافتد و دوم فروپاشی روابط آن با همپیمان بزرگش یعنی آمریکا.عربستان در ارزیابیهای خود درباره اوضاع نفت جهانی دوبار مرتکب اشتباه شد؛ بار اول زمانی که با تحریک آمریکا بازارهای نفت جهان را با نفتهای مازاد خود پر کرد تا به اقتصاد روسیه و ایران آسیب بزند و این امر منجر به کاهش قیمت هر بشکه نفت از 110 دلار به کمتر از 30 دلار شد٬ و دوم هنگامی که با رد درخواست روسیه مبنی بر کاهش تولیدات نفتی در سایه شیوع کرونا٬ یک جنگ نفتی را با این کشور آغاز کرده با سرازیر کردن نفت خود به بازار جهانی منجر به سقوط کامل قیمت نفت و رسیدن آن به منفی صفر شد.بهنظر میرسد عربستان نمیداند که این حجم از کاهش قیمت نفت موجب میشود تا این کشور که جهان عرب بهعنوان یک گاو شیرده به آن نگاه میکند مهمترین سلاح و درآمدهای مالی خود را که ابزاری برای جلب دوستی برخی کشورها و سرپوش گذاشتن بر جنایتهایش است از دست بدهد.این اقدامات عربستان موجب شده تا «دونالد ترامپ» رئیس جمهور آمریکا به حدی از گستاخی برسد که در مکالمه تلفنی با «محمد بن سلمان» ولیعهد سعودی٬ وی را ��هدید کند که در صورت پایان ندادن به این جنگ نفتی در سریعترین زمان ممکن همه نظامیان آمریکا (3000 نیرو) را از پایگاههای عربستان بیرون میبرد و بهطور کامل از حمایت این کشور دست میکشد.ائتلاف آمریکایی ــ سعودی یک جاده یکطرفه است که از ریاض به واشنگتن یعنی از پولهای عربستان به خزانهداری آمریکا کشیده شده است؛ پولهایی که از راه معاملات گران سلاح و سرمایهگذاریهایی که به رشد اقتصاد ایالات متحده کمک میکند از جیب سعودیها میرود، بنابراین در صورتی که دلارهای عربستان قطع شود٬ این ائتلاف نیز قطعاً فرومیپاشد.عربستان سعودی پس از آسیب فراوانی که با جنایت ترور «جمال خاشقجی» روزنامهنگار منتقد سعودی و قتلعام بیش از 100 هزار یمنی به وجهه خود وارد کرد٬ این روزها درصدد آن است که با اقدامات ظاهری چون لغو مجازات شلاق و توقف اعدام نوجوانان زیر 18 سال تا حدی وجهه ناقض حقوق بشری خود را تا حدی بهبود بخشد. اما اینگونه اصلاحات ظاهری وضعیت آشفته داخلی و خارجی عربستان را بهبود نمیبخشد و شاید اینگونه اقدامات چند سال قبل میتوانست برای سعودیها مفید باشد؛ اما اکنون شرایط تغییر کرده و چهره ضدبشری عربستان برای همه آشکار شده است.سؤال بزرگی که در این میان مطرح میشود آن است: دولت عربستان در قبال اقدامات سختگیرانه و دردناکی که وزیر دارایی آن اعلام کرد چهچیزی به ملت خود میدهد و تکلیف آینده کودکان این کشور چه خواهد شد؟خاندان آلسعود در گذشته به ملت عربستان میگفت که به آنها امنیت و رونق و پایداری را در مقابل وفاداریشان به نظام سعودی میدهد؛ اما اکنون شرایط عربستان بهکلی تغییر کرده، رونق اقتصادی آن از بین رفته است و ثبات امنیتی سعودیها نیز بهدلیل 6 سال ویرانگریشان در جنگ یمن که موجب شد موشکهای انصارالله به عمق عربستان برسد در هالهای از ابهام قرار دارد.در زمان حاضر نمیدانیم مشاوران مقامات سعودی برای اتخاذ سیاستهای اخیرشان چهکسانی هستند؛ اما آنچه مسلم است این است که مشاورههای اقتصادی و سیاسی و رسانهای آنها آسیبی به عربستان زده که چهره این کشور را در جهان عربی و اسلامی نابود کرده و بهویژه پس از اقدام آن به عادیسازی با رژیم اشغالگر صهیونیستی مهمترین ارکان این کشور یعنی سرپرستی حرمین شریفین (مسجد الحرام و مسجد النبی(ص)) و مراسم حج را در معرض تهدید قرار داده است.انتهای پیام/+
برای مشاهده مطلب و دانلود این کتاب کلیک کنید
#به گزارش گروه بینالملل خبرگزاری تسنیم، عدنان الزرفی پس از گذشت بیش از 20 روز در جلب نظر گروههای سیاسی عراق برای تصدی پست نخست وزیری ناکام#داستان و رمان
0 notes
Text
خبرگزاری رویترز گزارش داد: 'نارضایتی' در خاندان آلسعود نسبت به بنسلمان پس از حملات آرامکو
خبرگزاری رویترز گزارش داد: ‘نارضایتی’ در خاندان آلسعود نسبت به بنسلمان پس از حملات آرامکو
حق نشر عکس Getty Images
خبرگزاری رویترز و به نقل از برخی اعضای خاندان سلطنتی عربستان و افراد بانفوذ این کشور نوشته که آنان نسبت به نوع مدیریت و رهبری محمد بنسلمان، ولیعهد این کشور، پس از بزرگترین حملات صورت گرفته به تاسیسات و زیرساختهای نفتی در تاریخ عربستان ابراز “نا امیدی” کردهاند.
به نوشته رویترز، برخی از…
View On WordPress
0 notes