#حر��جی
Explore tagged Tumblr posts
Photo
اٹک ؛اٹک پولیس کے زیر اہتمام انسد اد منشیا ت کے حوالے سے واک کا اہتمام اٹک ؛اٹک پولیس کے زیر اہتمام انسد اد منشیا ت کے حوالے سے واک کا اہتمام کیا گیا،ڈی پی او نے واک کی قیادت کی،واک کا آ غاز ڈی پی او آفس سے ہوا اور فوارہ چوک پہنچ کر اختتام پذیر ہوا، پولیس افسران،تاجران، وکلا ء، طلباء، اور سول سوسا ئٹی کے افراد کی واک میں شرکت ، ڈی پی او نے واک کے اختتام پر میڈیا سے بات چیت کر تے ہوئے کہا کہ،منشیا ت کے خلاف اٹک پولیس جہاد کر رہی ہے،سماجی دشمن عناصر کا ہر صورت خاتمہ کر یں گے،منشیات فرشوں کے خلاف پولیس موثر کاروائیاں کر رہی ہے،منشیات کے فروغ کے خلاف شہری ہمار اساتھ دیں،منشیات کے خلاف آگاہی مہم کو تیز کیا گیا ہے،آگاہی مہم کے سلسلے میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے خلاف لیکچر دیئے جائیں گے،سپریم کورٹ، حکومت پنجاب اور آئی جی پنجاب کی حکم پر آگاہی مہم کا آغاز کیا گیا ہے،والدین اپنے بچوں کو ایسی سرگرمیوں سے دور رکھیں،ہم نے منشیات کے خلاف کام کر کے آنے والی نسلوں کو بچانا ہے واک کے اختتام پر ملک کی سلامتی،استحکام پاکستان،پولیس اور دیگر اداروں کیلئے دعا کرائی ۔ اٹک بار ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات میں ملک اسرار احمد تیسری مرتبہ بھاری اکثریت سے 226 ووٹ حاصل کر کے صدر منتخب ہو گئے اور ان کا تمام پینل بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا ان کے مد مقابل میڈیم فیاض اقبال 141 ووٹ حاصل کر سکیں ، جنرل سیکرٹری کیلئے رانا استفاد علی خان 214 ووٹ حاصل کر کے کامیاب اور ان کے مد مقابل اختر ریاض قریشی 153 ووٹ حاصل کر سکے ، نائب صدر کیلئے محمد اشفاق المعروف صوفی اشفاق 203 ووٹ حاصل کر کے کامیاب رہے جبکہ ان کے مد مقابل سردار تنویر نواز خان 167 ووٹ حاصل کر سکے ، جوائنٹ سیکرٹری کیلئے ذیشان منیر شیخ 178 ووٹ حاصل کر کے کامیاب اور ان کے مد مقابل شعیب اقبال 171 ووٹ حاصل کر سکے ، فنانس سیکرٹری کیلئے مجتبیٰ احمد 187 ووٹ حاصل کر کے کامیاب اور ان کے مد مقابل فہیم اعجاز ملک 165 ووٹ حاصل کر سکے ، لائبریری سیکرٹری کیلئے مبین بٹ 186 ووٹ حاصل کر کے کامیاب جبکہ ان کے مد مقابل افتخار الحق 161 ووٹ حاصل کر سکے ۔ اٹک؛ تحصیل بار ایسو سی ایشن پنڈی گھیب کے انتخابات فیاض احمد طارق گروپ اور شیخ اسلم گروپ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ، انتخابات میں صدر شہزاد اقبال بھٹی ، جنرل سیکرٹری سردار صفتین خان ، نائب صدر انوپ سنگھ جگی اور جوائنٹ سیکرٹری عاطف علی قریشی منتخب ہو گئے پہلے گنتی میں جنرل سیکرٹری کی نشست پر مدثر احمد اور سردار صفتین خان کے ووٹ برابر تھے بعد میں گنتی پر سردار صفتین خان 31 ووٹ حاصل کر کے جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے ، فنانس سیکرٹری کی سیٹ پر بلامقابلہ فیاض احمد طارق گروپ کا امیدوار کامیاب ، لائبریرین کی سیٹ پر شیخ اسلم گروپ کا امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہو گئے ۔ اٹک ؛ تحصیل بار کونسل حسن ابدال کے انتخابات میں محمد سجاد حیدر اعوان 29 ووٹ حاصل کر کے صدر ، شہباز ملک 27 ووٹ حاصل کر کے جنرل سیکرٹری ، وقار عالم جدوں 28 ووٹ حاصل کر کے نائب صدر منتخب ہو گئے ۔ اٹک ؛ تحصیل بار کونسل فتح جنگ کے الیکشن ، نقی شاہ 43 ووٹ حاصل کر کے صدر تحصیل بار کونسل فتح جنگ منتخب ہو گئے جبکہ ان کے مد مقابل ناصر جمال 38 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے دیگر منتخب ہونے والوں میں نائب صدر مصطفی خان ، جنرل سیکرٹری ملک ثاقب ، جوائنٹ سیکرٹری چوہدری عامر شہزاد ، فنانس سیکرٹری چوہدری احمد جاوید ، لائبریرئن مبین بٹ شامل ہیں ۔ اٹک ؛تحصیل بار کونسل جنڈ کے انتخابات میں ملک ساجد اور ملک ممتاز خان جنہوں نے 30/30 ووٹ برابر حاصل کیے وہ 6/6 ماہ کیلئے صدر منتخب ہو گئے ہیں نائب صدر سردار اعجاز خان ، جوائنٹ سیکرٹری عنصر عزیز بلا مقابلہ منتخب ہو گئے جبکہ جنرل سیکرٹری میڈیم نجمہ شاہین ، فنانس سیکرٹری طارق عزیز ، لائبریرئن عبدالجبار منتخب ہوئے ۔ اٹک ؛ اٹک پولیس میں سزا اور جزا ء کا عمل ختم ہونے سے پولیس افسران اور اہلکار بے مہار بن گئے تھانہ اٹک خورد کی چوکی گوندل میں حساس ادارے کے ملازم کا موٹر سائیکل چوری ہونے پر درج کی جانے والی ایف آئی آر میں غلطیاں اور قانونی سقم ، ایف آئی آر درج کرنے والے ٹی اے ایس آئی اظہر اقبال نے ایف آئی آر میں نام و سکونت اطلاع دہندہ مستغیث کی جگہ ، مدعی کے نام کی بجائے 2 دفعہ اپنا نام اور عہدہ جن میں ایک جگہ اپنے آپ کو تھانہ صدر اٹک اور دوسری جگہ پولیس چوکی گوندل میں تعینات ہونا ظاہر کیا ہے درج کر لیا اس طرح کی غلطیاں آئے روز اٹک پولیس کے افسران ایف آئی آر ، ضمنیاں اور تفتیش میں کرتے ہیں جس کی بناء پر عدالت سے ملزمان انہی غلطیوں اور شک کا فائدہ اٹھا کر بری ہو جاتے ہیں اٹک پولیس میں کسی بھی قسم کی غلطی کی سزا کا تصور تقریباً ناپید ہو چکا ہے اور پولیس افسران کی جانب سے جھوٹی ، بے بنیاد ایف آئی آر پر بھی افسران کاروائی کی بجائے الٹا مظلوموں کو عتاب کا نشانہ بناتے ہیں پولیس کے خلاف درخواستیں مہینوں پڑی رہتی ہیں اور ان پر کسی قسم کی کاروائی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وزیر اعظم عمران خان ، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب اٹک پولیس کے معاملات کیلئے اعلیٰ سطحی انکوائری تشکیل دیں تو بہت سے حقائق سامنے آ سکتے ہیں جن میں ایلیٹ فورس کے ایس او پی کی واضح خلاف ورزی بھی موجود ہے ۔ اٹک ؛اٹک قلعہ میں تعینات پاک آرمی کے ملازم کا موٹر سائیکل خریداری کے دوران نامعلوم چور چرا کر لے گئے مقدمہ درج ، تفصیلات کے مطابق مغلیہ دور حکومت میں دریائے سندھ کے کنارے پنجاب اور کے پی کے کے سنگم میں واقع تاریخی اٹک قلعہ میں تعینات پاک آرمی کے ملازم جاوید اقبال ولد الحاج محمد بنارس ساکن گوجرخان نے تھانہ اٹک خورد میں ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ وہ اٹک سے اٹک قلعہ جا رہے تھے راستہ میں حاجی شاہ چوک میں نماز کی ادائیگی کے بعد انہوں نے جنرل سٹور سے خریداری کی 8 سے 10 منٹ بعد واپس آئے تو موٹر سائیکل غائب تھا اے ایس آئی پولیس چوکی گوندل تھانہ اٹک خورد نے زیر دفعہ 381-A ت پ کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے ۔ اٹک ؛ ملک بھر میں جاری بارش کا سلسلہ اٹک میں بھی جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب سے وقفہ وقفہ سے جاری ہے ہلکی بارش نے موسم کو مزید سرد کر دیا ہے کچھ علاقوں میں بعض اوقات تیز بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے سردی اور بارش کے سبب درجہ حر ارت نقطہ انجماد سے نیچے گر گیا ہے سردی کی شدت کے اس موسم میں اٹک ، حسن ابدال ، حضرو ، کامرہ فتح جنگ ، پنڈی گھیب اور جنڈ کے شہری سوئی گیس کے عدم پریشر کے سبب شدید مشکلات سے دو چار ہیں ضلع اٹک کے ساتھ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی میں سے 4 کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہے جن میں ایک کرنل ملک محمد انور خان وزیر مال پنجاب کے عہدے پر فائز ہیں جبکہ 2 غیر منتخب مشیر جن میں مشیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اور مشیر اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری شامل ہیں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سوئی گیس کی دونوں کمپنیوں کے ایم ڈی تبدیل کرنے کے بعد سے ضلع بھر میں سوئی گیس کے عدم پریشر کی صورتحال محکمہ سوئی گیس کی جانب سے پریشر کم کر کے عوام کو حکومت کے خلاف کرنے کی سازش نظر آ رہی ہے ۔ اٹک ؛ ڈی پی او اٹک نے کانسٹیبل محمد جاوید کی بیٹی کی بارات میں خصوصی شرکت کی اس موقع پر پولیس ملازمین سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اٹک پولیس ایک فیملی کی طرح ہے اور ہماری خوشیاں اور غم سانجھے ہیں انہوں نے کانسٹیبل جاوید کو بیٹی کی شادی کی مبارک باد دی اور اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر کر نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔ اٹک؛ ڈمپرٹرک کی بریک فیل گرلز ہائی سکول جنڈ کی طالبات بڑے حادثہ سے بچ گئیں ، گرلز ہائی سکول جنڈ کے قریب گلی میں چڑھائی پر ڈمپرٹرک کی بریک فیل ہوگئی جس سے پیچھے آنے والی سوزوکی پک اپ اور رکشہ سے ٹکرا کر گھر کی دیوار میں گھس گیا سوزوکی اور رکشہ میں سوار 6 طالبات زخمی ہوگئیں ڈمپرٹرک ٹکرانے کی وجہ سے تعمیر شدہ مکان کو کافی نقصان پہنچا ، گرلز ہائی سکول جنڈ کی زخمی ہونے والی طالبات فضاء حسنین ، عنبرین ظفر ، اقصی خالد ، ناطمہ بی بی،مہرین فاطمہ اور ماہرہ اعجاز فوری طور پر ٹی ایچ کیو ہسپتال جنڈ منتقل کر دیا گیا ڈاکٹر کے مطابق طالبات کو طبی امداد دے دی گئی ہے پانچ بچیاں نارمل زخمی ہوئی ہیں ایک بچی کو آنکھ کے قریب سٹیچ لگائے گئے ہیں ۔ اٹک ؛ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے 27 سالہ نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، ملک نعیم ولد ملک امین ساکن ساملانوالہ تحصیل فتح جنگ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے زخمی کر دیا اور نالہ ڈھوک حمیداں ��ے قریب پھینک دیا ، ریسکیو 1122 نے زخمی حالت میں ملک نعیم کو ہسپتال منتقل کیا تاہم وہ راستہ میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا ، پولیس نے پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد لاش ورثاء کے حوالہ کر دی ، پولیس نے نامعلوم قاتلوں کے خلاف مقدمہ قتل درج کر لیا ۔
0 notes
Text
زرداری کی واپسی
سابق صدر آصف علی زرداری اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کاٹ کر واپس وطن پہنچ گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ چند روز کے لئے یہاں قیام کریں گے اور اپنی مرحومہ اہلیہ کی برسی کی تقریب سے خطاب کرنے کے بعد دبئی روانہ ہو جائیں گے کہ ۔۔۔’’گوشے میں ’’قفس‘‘ کے مجھے آرام بہت ہے‘‘۔۔۔ زرداری صاحب ایک دھواں دھار تقریر کرنے کے بعد بیرون ملک روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے فوجی قیادت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ تم تو تین سال کے لئے آتے ہو، لیکن ہمارا قیام یہاں مستقل ہے۔ اس وقت ڈاکٹر عاصم اور زرداری صاحب کے کئی قریبی افراد کے خلاف کارروائیاں جاری تھیں اور فضا میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے زرداری صاحب کا گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔
گورنر ہاؤس کراچی کے ایک اعلیٰ ترین سطح کے اجلاس میں جنرل راحیل شریف اور ان کے درمیان (مبینہ طور پر) ایسے جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا جنہیں کسی طور خوشگوار نہیں کہا جا سکتا ۔ زرداری سٹپٹائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے دل کی بھڑاس نکال لی۔ بادل کی طرح گرجے، بارش کی طرح برسے اور پھر ہوا کی طرح یہ جا اور وہ جا۔ اس تقریر کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان سے وزیراعظم نوازشریف کا براہِ راست رابطہ منقطع ہو گیا۔ عمران خان کے دھرنا نمبر ایک کے دوران پیپلزپارٹی نے ڈٹ کر ان کی مخالفت کی تھی۔ پارلیمنٹ کی طاقت سے نادیدہ قوتوں کو نوشتہ دیوارپڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ آتشیں تقریر کے بعد نواز، زرداری طے شدہ ملاقات منسوخ ہو گئی۔ فواد حسن فواد کو معذرت کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔ وزیراعظم اس تقریر کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے کہ حریف یہ طوفان اٹھا سکتے تھے کہ انہوں نے اس پر زرداری کی پیٹھ ٹھونکی ہے۔ ملاقات سے معذرت نے زرداری صاحب اور وزیراعظم کے درمیان فاصلے پیدا کر دیئے۔ اس سے پہلے وہ ایک دوسرے سے بے تکلفانہ مل سکتے یا ٹیلی فون پر بات کر سکتے تھے۔ اس کے بعد یہ ممکن نہ رہا۔ زرداری صاحب اس سبکی کو پی تو گئے، لیکن بھلا نہیں پائے۔ دونوں کے درمیان اب رابطہ بلاواسطہ نہیں رہا۔
زرداری صاحب کو بقول بلاول ان کے ڈاکٹروں نے سفر کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اور بات کہ مذکورہ ڈاکٹروں کے نام کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ اہلِ سیاست سے ڈاکٹروں کا تعلق بھی خوب ہے، یہ ہر مشکل وقت میں ان کے کام آتے ہیں۔ ایسی ایسی بیماریاں ایجاد کر لیتے ہیں جو صرف اہلِ سیاست کو لاحق ہوتی ہیں اور اپنے اثرات چھوڑے بغیر رخصت بھی ہو جاتی ہیں۔ اس موضوع پر سیاست یا تاریخ کے طالب علم پی ایچ ڈی کے کئی مقالے تحریر کر سکتے ہیں کہ کس سیاستدان کو کس وقت کیا ناقابل بیان (یا ناقابل علاج) بیماری لاحق ہوئی۔ ایک معینہ عرصے تک اس سے چمٹی رہی اور اس کے بعد کبھی پلٹ کر بھی اس کی طرف نہیں آئی۔ہمارے ہاں ڈاکٹروں نے ایسے ایسے امراض دریافت کر لئے ہیں جن کی بدولت مریض کا چلنا پھرنا ممکن نہیں رہتا، اس کا بیرون ملک جانا بھی ضروری ہوجاتا ہے، وہ عدالت میں حاضر ہونے کے قابل نہیں ہوتا، لیکن حالات بدلتے ہی رفو چکر ہو جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ان کے معالجین نے انہیں پاکستان کی کسی عدالت میں پیش ہونے کے ناقابل ��نایا، بیرون ملک بھجوایا اور اب وہ وہاں چوکڑیاں بھرتے پھر رہے ہیں۔ جب وطن واپسی کی بات کی جائے تو کمر پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں کہ نگوڑی سے پوچھ کر بتاؤں گا۔
زرداری صاحب کا معاملہ پرویز مشرف سے خاصا مختلف ہے۔ جس نے بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہے، جانتا ہے کہ وہ ہمیشہ پرہیز یافتہ اشیاء استعمال کرتے ہیں اور ادویات بھی ان کی خوراک کا حصہ ہیں۔ جیل سے یوں وہ نہیں گھبراتے کہ کئی سال پسِ دیوار زنداں رہ کر مجید نظامی مرحوم تک سے ’’مردِ حر‘‘ کا خطاب پا چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے تو ابھی اس مکتب میں قدم نہیں رکھا۔ دیکھیں راحیل شریف صاحب کے جانے کے بعد ان کی حفاظت کون کرتا ہے؟۔۔۔ عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ زرداری صاحب واپس آئے ہیں تو سب کچھ بدل چکا ہے۔ آرمی چیف ، کور کمانڈر کراچی، ڈی جی رینجرز سندھ، ڈی جی آئی ایس پی آر۔۔۔ زرداری صاحب نے بھی کراچی پہنچ کر بدلی ہوئی تقریر کی۔
ایک مدبر سیاستدان کی طرح ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے، لوگوں کو امید دلائی اور پاکستان کے اچھے مستقبل کی نوید دی، لیکن ان کی آمد سے پہلے رینجرز نے ان کے ایک انتہائی قریبی دوست کے دفتر پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کر لیا۔ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ اس سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بہت کچھ بدلنے کے باوجود سب کچھ نہیں بدلا۔ ادارے اپنے ہاتھ دکھانے پر بضد ہیں۔ نام بدلنے سے کام نہیں بدل پایا۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ سندھ حکومت اپنے اطوار بدل لے۔ سرکاری ملازمین (بشمول آئی جی سندھ) کو ذاتی ملازم سمجھنا چھوڑ دے۔ ان سے کاروباری مفادات کی رکھوالی کی توقع نہ قائم کرے ۔ سیاسی اور غیر سیاسی افراد اور اداروں سے اگر یہ بات عرض کر دی جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ ماضی کو دہرانے سے دونوں گریز کریں، وگرنہ سیاست بھی ہاتھ ملے گی اور وہ بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، جو دفاعِ وطن کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں۔
مجیب الرحمٰن شامی
#PPP#Pakistan Politics#Pakistan Peoples Party#Pakistan#Mujeeb Ur Rehman Shami#Bilawal Bhutto#Asif Zardari
0 notes
Text
زرداری کی واپسی
سابق صدر آصف علی زرداری اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جلاوطنی کاٹ کر واپس وطن پہنچ گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ چند روز کے لئے یہاں قیام کریں گے اور اپنی مرحومہ اہلیہ کی برسی کی تقریب سے خطاب کرنے کے بعد دبئی روانہ ہو جائیں گے کہ ۔۔۔’’گوشے میں ’’قفس‘‘ کے مجھے آرام بہت ہے‘‘۔۔۔ زرداری صاحب ایک دھواں دھار تقریر کرنے کے بعد بیرون ملک روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے فوجی قیادت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ تم تو تین سال کے لئے آتے ہو، لیکن ہمارا قیام یہاں مستقل ہے۔ اس وقت ڈاکٹر عاصم اور زرداری صاحب کے کئی قریبی افراد کے خلاف کارروائیاں جاری تھیں اور فضا میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے زرداری صاحب کا گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔
گورنر ہاؤس کراچی کے ایک اعلیٰ ترین سطح کے اجلاس میں جنرل راحیل شریف اور ان کے درمیان (مبینہ طور پر) ایسے جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا جنہیں کسی طور خوشگوار نہیں کہا جا سکتا ۔ زرداری سٹپٹائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے دل کی بھڑاس نکال لی۔ بادل کی طرح گرجے، بارش کی طرح برسے اور پھر ہوا کی طرح یہ جا اور وہ جا۔ اس تقریر کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ان سے وزیراعظم نوازشریف کا براہِ راست رابطہ منقطع ہو گیا۔ عمران خان کے دھرنا نمبر ایک کے دوران پیپلزپارٹی نے ڈٹ کر ان کی مخالفت کی تھی۔ پارلیمنٹ کی طاقت سے نادیدہ قوتوں کو نوشتہ دیوارپڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ آتشیں تقریر کے بعد نواز، زرداری طے شدہ ملاقات منسوخ ہو گئی۔ فواد حسن فواد کو معذرت کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔ وزیراعظم اس تقریر کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے کہ حریف یہ طوفان اٹھا سکتے تھے کہ انہوں نے اس پر زرداری کی پیٹھ ٹھونکی ہے۔ ملاقات سے معذرت نے زرداری صاحب اور وزیراعظم کے درمیان فاصلے پیدا کر دیئے۔ اس سے پہلے وہ ایک دوسرے سے بے تکلفانہ مل سکتے یا ٹیلی فون پر بات کر سکتے تھے۔ اس کے بعد یہ ممکن نہ رہا۔ زرداری صاحب اس سبکی کو پی تو گئے، لیکن بھلا نہیں پائے۔ دونوں کے درمیان اب رابطہ بلاواسطہ نہیں رہا۔
زرداری صاحب کو بقول بلاول ان کے ڈاکٹروں نے سفر کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اور بات کہ مذکورہ ڈاکٹروں کے نام کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ اہلِ سیاست سے ڈاکٹروں کا تعلق بھی خوب ہے، یہ ہر مشکل وقت میں ان کے کام آتے ہیں۔ ایسی ایسی بیماریاں ایجاد کر لیتے ہیں جو صرف اہلِ سیاست کو لاحق ہوتی ہیں اور اپنے اثرات چھوڑے بغیر رخصت بھی ہو جاتی ہیں۔ اس موضوع پر سیاست یا تاریخ کے طالب علم پی ایچ ڈی کے کئی مقالے تحریر کر سکتے ہیں کہ کس سیاستدان کو کس وقت کیا ناقابل بیان (یا ناقابل علاج) بیماری لاحق ہوئی۔ ایک معینہ عرصے تک اس سے چمٹی رہی اور اس کے بعد کبھی پلٹ کر بھی اس کی طرف نہیں آئی۔ہمارے ہاں ڈاکٹروں نے ایسے ایسے امراض دریافت کر لئے ہیں جن کی بدولت مریض کا چلنا پھرنا ممکن نہیں رہتا، اس کا بیرون ملک جانا بھی ضروری ہوجاتا ہے، وہ عدالت میں حاضر ہونے کے قابل نہیں ہوتا، لیکن حالات بدلتے ہی رفو چکر ہو جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ان کے معالجین نے انہیں پاکستان کی کسی عدالت میں پیش ہونے کے ناقابل بنایا، بیرون ملک بھجوایا اور اب وہ وہاں چوکڑیاں بھرتے پھر رہے ہیں۔ جب وطن واپسی کی بات کی جائے تو کمر پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں کہ نگوڑی سے پوچھ کر بتاؤں گا۔
زرداری صاحب کا معاملہ پرویز مشرف سے خاصا مختلف ہے۔ جس نے بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہے، جانتا ہے کہ وہ ہمیشہ پرہیز یافتہ اشیاء استعمال کرتے ہیں اور ادویات بھی ان کی خوراک کا حصہ ہیں۔ جیل سے یوں وہ نہیں گھبراتے کہ کئی سال پسِ دیوار زنداں رہ کر مجید نظامی مرحوم تک سے ’’مردِ حر‘‘ کا خطاب پا چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے تو ابھی اس مکتب میں قدم نہیں رکھا۔ دیکھیں راحیل شریف صاحب کے جانے کے بعد ان کی حفاظت کون کرتا ہے؟۔۔۔ عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ زرداری صاحب واپس آئے ہیں تو سب کچھ بدل چکا ہے۔ آرمی چیف ، کور کمانڈر کراچی، ڈی جی رینجرز سندھ، ڈی جی آئی ایس پی آر۔۔۔ زرداری صاحب نے بھی کراچی پہنچ کر بدلی ہوئی تقریر کی۔
ایک مدبر سیاستدان کی طرح ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے، لوگوں کو امید دلائی اور پاکستان کے اچھے مستقبل کی نوید دی، لیکن ان کی آمد سے پہلے رینجرز نے ان کے ایک انتہائی قریبی دوست کے دفتر پر چھاپہ مار کر بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کر لیا۔ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ اس سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بہت کچھ بدلنے کے باوجود سب کچھ نہیں بدلا۔ ادارے اپنے ہاتھ دکھانے پر بضد ہیں۔ نام بدلنے سے کام نہیں بدل پایا۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ سندھ حکومت اپنے اطوار بدل لے۔ سرکاری ملازمین (بشمول آئی جی سندھ) کو ذاتی ملازم سمجھنا چھوڑ دے۔ ان سے کاروباری مفادات کی رکھوالی کی توقع نہ قائم کرے ۔ سیاسی اور غیر سیاسی افراد اور اداروں سے اگر یہ بات عرض کر دی جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ ماضی کو دہرانے سے دونوں گریز کریں، وگرنہ سیاست بھی ہاتھ ملے گی اور وہ بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، جو دفاعِ وطن کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں۔
مجیب الرحمٰن شامی
#PPP#Pakistan Politics#Pakistan Peoples Party#Pakistan#Mujeeb Ur Rehman Shami#Bilawal Bhutto#Asif Zardari
0 notes
Text
عطاری در شیراز
عطاری در شیراز در این پست بر آن شدیم تا لیست جامع و کامل از عطاری های شیراز به همراه شماره تماس و ادرس همچنین ادرس انان بر روی گوگل مپ که به راحتی از طریق جی پی اس از مقصد خود تا عطاری مورد نظر را طی نمایید و در وقت و هزینه خود صرفه جویی نمایید.shirazjo
عطاری در شیراز سابقه طولانی دارد و از انجاییکه استان فارس معدن گیاهان دارویی و ادویه جات می باشد لازم دانسته ایم که علاوه بر اعلام و نمایش ادرس عطاری در شیراز اطلاعات مختصری نیز دراختیار شما عزیزان شیراز جو قرار دهیم.لذا خواهشمندیم تا انتها پست را برای نمایش ادرس عطاری در شیراز مشاهده نمایید.
عطاری چیست
عطاری به فروشگاه هایی گفته می شود که گیاهان دارویی و ادویه جات را عرضه می کنند. از انجاییکه در عطاری ها بوی خوش ادویه ها و دارو ها گیاهی پخش می شود و عطر خاص خودشان را دارند به این فروشگاه ها عطاری گفته شده.
عَطّاری ها داروخانه و عطرفروشیهاي سده هاي میانه در جهان اسلام بودهاند که امروزه نيز ارزش داروشناسي خود را بيشتر بر پايهٔ ادويه و داروهاي طب سنتي و گياهي نگه داشتهاند.
در ایران حدود ۸۰۰۰ گونه گیاهی موجود است که از این تعداد ۲۳۰۰ گونه جزء گیاهان معطر و دارویی هستند و از این تعداد ۴۵۰ گونه در عطاری های ایران به فروش میرسد.
با اقتباص از وی کی پدیا
ادویه در عطاری
ادویه مواد گیاهی استفاده شده به منظور عطر و طعم دهی به مواد غذایی هستند و از برخی از آنها برای مقاصد خوراکی یا دارویی نیز استفاده میشود. ادویه در زبان عربی جمع مکسر دواء است و چاشنی معادل فارسی آن میباشد.
ادویهها همچنین به عنوان ماده نگهدارنده استفاده شدهاند و برای انسان در بسیاری از زمینههای دیگر مفید هستند. یک ادویه میتواند دانه خشک شده، میوه، ریشه، پوست یا مواد مغذی گیاهی در مقادیر ناچیز به عنوان افزودنی مواد غذایی برای عطر و طعم و رنگ باشد یا به عنوان یک ماده نگهدارنده باشد که باکتریهای مضر را میکشد یا از رشد آنها ممانعت به عمل میآورد. ادویه ممکن به منظور عطر و طعم دهی به غذا یا برای پنهان کردن طعمهای دیگر استفاده شود. در آشپزخانه، ادویه جات از سبزیجات که برگ دار، قسمتهای گیاه سبز مورد استفاده برای طعم دهی یا به عنوان چاشنی هستند، متمایز هستند.
ادویه را بخشی از یک گیاه معطر تعریف می کنند که می تواند تنه درخت دارچین ، میوه فلفل سیاه و یا دانه جوزهندی باشد و بصورت درسته، خرد یا پودر شده برای عطر و رنگ بخشیدن به غذا مورد استفاده قرار می گیرد.
منابع: تبیان – وی کی پدیا
عطاری شیراز
ردیفنام عطاریآدرس عطاری های شیرازشماره تماس
1عطاری چهل گیاهشیراز، خیابان
قصردشت
، بین سه راه خلدبرین و عفیف آباد071-36260663
2عطاری سلامت ( گلبرگ )شیراز، بلوار استقلال، بعد از چهارراه هوابرد،
روبروی موسسه ثامن الحجج، جنب شیرینی مانا طبقه اول071-38212295
3عطاری چاوششیراز، خیابان معدل، روبروی هنرستان معدل071-32359093
09176954432
4عطاری علی بیگیشیراز، خیابان لطفعلی خان زند، نرسیده به مسجد نصیر الملک، جنب محضر 76 دستغيب071-33332047
5عطاری عدلوشیراز، خیابان انقلاب، چهارراه گمرک071-32324003
6عطاری شجاعیشیراز، بزرگراه دکتر حسابی، قبل از شهرک آرین071-36352939
7دارو گیاهیشیراز، چهارراه زند، خیابان سعدی، کوچه 2، پلاک 8709176756572
8عطاری ابن سیناشیراز، سعدیه جنوبی، بلوار بوستان، جنب آرامگاه سعدی071-37314660
9عطاری سبحانیشیراز، بلوار زینبیه، خیابان لطفعلی خان زند، بعد از مسجد نصیر الملک071-32222830
10عطاری پائیزانشیراز، خیابان انقلاب، نبش خیابان زول انوار09177001599
11عطاری سیدعلاالدین حسینشیراز، بلوار سیبویه، خیابان حسینی071-37385043
12عطاری جمشیدیانشیراز، خیابان لطفعلی خان زند، نبش خیابان احمدی071-32227956
13عطاری پارساشیراز، بلوار ابو نصر، خیابان 14071-37319121
14عطاری سید حسن طباطباییشیراز، بلوار سیبویه، نرسیده به خیابان حضرتی09176403860
15مرکز گیاهان داروییشیراز، بلوار گلستان، میدان قائم، بلوار هجرت، نرسیده به شهید فروغی071-32282654
16عطاری و سقط فروشی محمدشیراز، خیابان حافظ، پایین تر از خیابان ساحلی071-32247063
17عطاری بابونهشیراز، بالاتر از کنار گذر هجرت، خیابان حر، نبش خیابان 4071-32287053
18خانه گیاهان دارویی قانونشیراز، بلوار استقلال، پارک قوری به سمت چهارراه هوابرد،
حد فاصل خیابان شبان و کوچه 39071-38300709
19عطاری قائمشیراز، بلوار عدالت جنوبی، خیابان فتح المبین، بین کوچه 5 و 7071-38244225
20عطاری سنتی 110شیراز، بلوار عدالت جنوبی، نبش کوچه 56.071-38241862
21عطاری ایرانشیراز، بلوار سرباز جنوبی، خیابان ایثارگران، نبش آبیاری071-38309908
22عطاری کوثرشیراز، بازار انقلاب، یاس 2، پلاک 30071-32294186
23عطاری شفاءشیراز، بلوار رحمت، بلوار سفیر جنوبی، نبش کوچه 7071-38250240
24عطاری حسینیشیراز، بلوار عدالت، بلوار عرفان غربی، نبش کوچه 309173393985
25عطاری امینشیراز، بلوار رحمت، خیابان نهضت سوادآموزی، نبش کوچه 11071-37517279
26عطاری سقراطشیراز، خیابان کریم خان زند، هفت تیر، حدفاصل معدل و هدایت.071-32357424
27گیاهان دارویی ساقه سبزشیراز، چهارراه سینماسعدی، خیابان شوریده شیرازی،
بعد از چهارراه مشیر نو، نبش کوچه 3071-32331736
28عطاری تاراشیراز، بلوار صنایع09179360412
29عطاری سید شیرازیشیراز، بلوار پاسداران(زرهی)، ابتدای خیابان جهان آرا، سمت چپ.071-38439750
30عطاری سلامت سبزشیراز، پل معالی آباد، خیابان شهید کبار، بلوار بهشت،
مجتمع تجاری ارکیده، پلاک 48071-36242457
31عطاری حیاتیشیراز، بلوار عدالت جنوبی، خیابان دستغیب، نبش کوچه 11071-38264540
32عطاری ایرانیشیراز، بلوار رحمت، خیابان امام خمینی، نبش کوچه 47071-38240390
33عطاری بقراطشیراز، آبیاری، خیابان قدمگاه غربی، نبش کوچه 13.071-38201459
34عطاری نیلوفر آبیشیراز، پارک آزادی، غرفه های انتهای پارک071-32291444
35عطاری شفا بخششیراز، چهارراه خیرات، نبش وصال شمالی071-32355194
36عطاری عدلشیراز، بلوار میرزای شیرازی، نرسیده به فلکه قصرالدشت، ابتدای کوچه 1071-36307072
37عطاری اخوان همتیشیراز، بلوار مدرس، بلوار فضیلت جنوبی، نبش کوچه 13071-37351240
38عطاری برادران امام رضاییشیراز، چهارراه سینماسعدی، خیابان شوریده شیرازی، بعد از چهارراه مشیر نو071-32335278
39عطاری سارگلشیراز، شهرک گلستان، بلوار علامه امینی، بالاتر از خیابان آلاله، روبروی بلوار جهاد.071-36221551
40عطاری حکیمشیراز، بلوار ارتش، خیابان کارگر، نبش کوچه 34071-37363634
41عطاری ثامنشیراز، چهارراه سینماسعدی، ابتدای 20 متری، سمت چپ، جنب کوچه 6، ساختمان آنا071-32332233
42عطاری گلستان2شیراز، بلوار عدالت جنوبی، خیابان دستغیب، نبش کوچه09176411732
43عطاری ممتحنشیراز، بلوار رحمت، خیابان مسلم ابن عقیل، بین کوچه 1 و 3071-37506242
44عطاری شجاعیشیراز، بلوار میرزای شیرازی، پل معالی آباد به طرف تاچارا، نرسیده به بانک تجارت071-36246932
45عطاری صالحیشیراز، خیابان شهید دوران، داخل خیابان شهید کشوری، سمت راست09179099961
46عطاری مهدیشیراز، بلوار بعثت، نبش کوچه 18071-36480129
47عطاری حسینیشیراز، گلدشت معالی آباد، خیابان لادن، خیابان شهید اکرام زاده، بالاتر از خیابان نیلوفر071-36391943
48عطاری گونشیراز، بلوار پاسداران(زرهی)، بالاتر از خیابان آقایی0917737571
49عطاری پند شنوشیراز، گلدشت معالی آباد، خیابان لادن، خیابان شهید اکرام زاده، کوچه 4.071-36362564
50عطاری خیامشیراز، بلوار رحمت، خیابان بنی هاشمی، نبش کوچه 4609170201095
51عطاری شفابخششیراز، خیابان قصردشت، رحمت آباد، بالاتر از کوچه 28071-36276434
52عطاری گلزارشیراز، بلوار رحمت، بلوار ابوذرغفاری، بین کوچه 81 و 79071-37505551
53عطاری سنتی هزار و یکشیراز، بازار وکیل جنوبی ، پلاک 95071-32226071
ادرس عطاری شیراز
برای راحتی و تسریع در درسترسی به عطاری شیراز بر روی لینک کلیک نمایید تا به صفحه گوگل مپ هدایت شوید و ادرس دقیق را در نقشه مشاهده نمایید.
از اینه تا انتهای این نوشته با ما همراه بودید خرسندیم با نظرات زیبای خود ما را در ارائه خدمات بهتر یاری نمایید.با تشکر سایت شیرازجو
بیشتر بخوانید:
دکتر دندانپزشک در شیراز
دندان پزشکی شیراز
دندانپزشکی قصردشت شیراز https://shirazjo.ir/%d8%b9%d8%b7%d8%a7%d8%b1%db%8c-%d8%af%d8%b1-%d8%b4%db%8c%d8%b1%d8%a7%d8%b2%d9%85%d8%b9%d8%b1%d9%81%db%8c-10-%d8%b9%d8%b7%d8%a7%d8%b1%db%8c-%d8%a8%d8%b1%d8%aa%d8%b1-%d8%b4%db%8c%d8%b1%d8%a7%d8%b2/
0 notes
Photo
پیاری بنانا ریاست کو خط اظہر سید کیسی ہو! ہمارے ہاں سب اچھا نہیں ، وہی ہمیشہ کا پروپیگنڈہ ۔آج زرداری کو دھمکایا تو ہے نواز شریف والی جی آئی ٹی بنانے کی دھمکی دے کر ۔اگر تو مان گیا تو ٹھیک ورنہ محنت کچھ زیادہ کرنا پڑے گی۔ یہ پیٹریاٹ والوں کو بھول گیا ہے شائد اس وقت تو بی بی بھی زندہ تھی ۔دس پندرہ اس کے اور بیس پچیس ن لیگ کے حکومت تو بنوا ہی دیں گے لیکن اس کا کیا بنے گا عقل کو ہاتھ ڈالے حمایت کا اعلان کر دے تاکہ نئی حکومت بن سکے ورنہ بنوا تو ہم لیں گے۔ یہ بھول رہا ہے میڈیائی اثاثوں کو، ان کا کاٹا تو پانی نہیں مانگتا ۔دیکھا نہیں الیکشن سے دو روز پہلے کیسے نواز شریف کے خلاف این آر او اور مودی کا یار کی کامیاب مہم چلائی اور پھر الیکشن کمیشن کا سسٹم کس طرح بند ہوا۔شکر نہیں کرتا احسان فراموش، جی ڈی اے سے بال بال بچا ہے اور بچا بھی کہاں ہے ہم نے رحم کیا ہے ۔ کیوں بھول جاتا ہے کیا سینٹ الیکشن میں بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور کراچی سے اضافی سیٹیں لے سکتا تھا ؟ کیا کسی نے نوٹس لیا ،کوئی سو موٹو ہوا ؟ جب تک ہم نہ چاہیں کوئی پتہ نہیں ہل سکتا جتنا جلد سمجھ جائے اس کیلئے بہتر ہے ملکی مفادات کا ہم سے اچھا کوئی محافظ ہو ہی نہیں سکتا ۔ہم ہیں تو پیاری بنانا ریاست تم ہو اور تم میں رہنے والے سکون کی نیند سوتے ہیں ۔ پیاری انہیں خوف کھانا چاہے۔ بھٹو کی پھانسی بھول گئے کیسے ججوں نے حکم دیا تھا۔ زرداری جو خود کو مرد حر کہتا ہے وہ بھی ہمارا احسان ہے ہمارے کہنے پر عدالتوں نے گیارہ سال جیل میں رکھا اور ضمانت نہیں دی اگر ضمانت مل جاتی تو کون مرد حر کہتا۔ابھی کل ہی کی بات ہے الیکشن سے پہلے منی لانڈرنگ پر گرفتاری ہونے والی تھی کیسے عظمی سے کلین چٹ لے کردی تھی آرام سے الیکشن لڑا پچھلے الیکشن سے زیادہ سیٹیں بھی دلا دیں ۔احسان فراموش کہیں کا۔اب نخرے کر رہا ہے اور نئے وزیراعظم کیلئے ہمارے نئے فخر کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے ۔اس کی یہ جرات کیا یہ ہماری بے پناہ طاقت سے واقف نہیں ۔ابھی تو جے آئی ٹی کی صرف دھکمی ملی ہے کل بن بھی جائے گی پھر کیا کرے گا۔ ہم عقل کل ہیں اس ریاست کے سمندر بھی ہمارے اور فضائیں بھی زمین کے اوپر بھی کوئی ہمارا مدمقابل نہیں ۔جسٹس منیر بھی ہمارا تھا اور مولوی مشتاق انوارالحق بھی ہمارا۔جسٹس ارشاد تو اتنا اچھا تھا تین سال آئیں میں ترمیم کا حق بھی دے دیا تھا۔افتخار چوہدری کو دیکھا نہیں کیسے بھاگ کر ہمارے پی سی او کا حلف لیا تھا۔یہ سب ہمارے ہیں آج موقع دیں تو پھر قطار میں کھڑے ہونگے حلف لینے کیلئے۔ جسٹس افتخار نے بغاوت نہیں کی تھی بعد میں اصل میں اندر کا آپسی جھگڑا تھا ورنہ ہے کیسی کی طاقت اور مجال ہمیں آنکھیں دکھا سکے ۔ پیاری کچھ مشکلات بھی ہیں تمہیں پتہ ہے تم سے کبھی کچھ نہیں چھپایا ۔کامیاب تو کرا لیا لیکن بدنامی بھی خوب ہوئی خیر اس سے فرق تو کوئی نہیں پڑتا لیکن پھر بھی بدنامی تو بدنامی ہی ہے۔میڈیائی اثاثوں کے باوجود نگوڑے سوشل میڈیا نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔الیکشن کمیشن نے کاغذات جمع کرانے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع کی بہت سارے لوگوں نے ٹکٹ واپس کر کے جیپ کا نشان لے لیا ۔اندر تو اندر باہر والے بھی جان گئے پردے کے پیچھے کون تھا۔حنیف عباسی کا فیصلہ الیکشن سے پہلے کرنے کا حکم کیا دیا سب کی انگلیاں ہماری طرف آٹھ گئیں ۔توہین عدالت میں تین دانے فارغ کرائے سارے مل کر ہماری طرف دیکھنے لگے۔ پیاری ہم تم پر جانیں قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ہمارے ایوب نے اگر فاطمہ جناح کو بھارت کا دوست کہا تھا تو وقت کی ضرورت تھی۔آخر گیارہ سال حکومت میں بھارت کو تین دریا بھی تو دئے اور بدلے میں ڈیم بنائے ۔بھارت چین 1962 جنگ میں چینیوں کے کہنے پر بھی کشمیر نہیں لیا اور 1965 میں کوشش کی ۔امریکیوں کو ملک کے بہترین مفاد میں بڈ بیر کا ہوائی اڈہ بھی تو دیا ۔ ہمارے جنرل یحیی نے کتنے شفاف الیکشن کرائے تھے ۔ ہمارے جنرل ضیا نے کس طرح بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گیارہ سال حکومت کی ۔سوویت یونین کو ختم کر دیا۔ ہمارے جنرل مشرف نے کس طرح 11 سال ملک کی خدمت کی اور امریکیوں کا معاشی بھٹہ بٹھا دیا کوئی دن جاتا ہے امریکی جنرل بھی سوویت جنرلوں کی طرح سڑکوں پر میڈل فروخت کرتے نظر آئیں گے۔ہم اتنے اچھے ہیں تو زرداری ماں کیوں نہیں جاتا۔نواز شریف بھی عجیب نکلا ڈیل ہو جاتی تو شہباز شریف وزیراعظم ہوتا ۔کہتا تھا ووٹ کو عزت دو ۔اس نے ہمیں بہت بدنام کرایا ہے ۔اس کی ضد کی وجہ سے اداروں کا تقدس بھی متاثر ہوا ہے کوئی عدالتوں پر طعن زنی کرتا ہے کوئی الیکشن کمیشن پر اور کوئی خلائی مخلوق کا نام لیتا ہے ہم کوئی احمق ہیں جو جانتےنہیں خلائی مخلوق کون ہے ۔پیاری دل پریشان ہے ایک نواز شریف جیل میں بیٹھ کر مسلہ بن گیا ہے دوسرا زرداری بھاگنے کے چکر میں ہے تم ہی بتاؤ ہم کیا کریں ۔ صرف تمہارا اظہر سید
0 notes
Photo
سعوی حکومت اور عوام ہمیشہ پاکستان پر فخر محسوس کر تی ہے امام کعبہ الشیخ ڈا کٹرصا لح بن محمد بن طالب کا موٹر وے پولیس ٹریننگ کالج شیخوپورہ میں خطاب لاہور(یو این این) پاکستان کی فورسز نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے لئے قوت کا سبب ہے سعوی حکومت اور عوام ہمیشہ پاکستان پر فخر محسوس کر تی ہے ۔ موٹروے پولیس عظیم تر ین کام عوام کے سفری راستوں میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے اورہمارے لیے باعث فخر ہے ۔ آپ کی اس نیکی کے بدلے اللہ آپ کی حفاظت کرے اور آسا نیاں پیدا کر ے ۔ موٹروے پولیس کو اس عظیم کام کرنے پر مبارک باد پیش کر تا ہوں ۔ ان خیالات کا اظہار امام کعبہ الشیخ ڈا کٹرصا لح بن محمد بن طالب نے موٹروے پولیس ٹر یننگ کالج شیخو پورہ میں ایک تقر یب سے خطاب کر تے ہوئے کیا۔ سعودی سفیر نواف بن سعدالمالک ۔ وفاقی وزیر مواصلات حافظ عبدالکر یم ، آئی جی موٹروے پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام ، ایڈ یشنل آئی جی خالد محمود، ایڈیشنل آئی جی غلام رسول زاہد، ڈی آئی جی مرزا فاران بیگ ، ڈی آئی جی احمد ارسلان ملک ، ڈی آئی جی محبوب اسلم ، ایس ایس پی کامران عادل ، ایس ایس پی مسرور عالم ، ایس ایس پی سیلمان ، ایس ایس پی شہر یار ، ایس ایس پی حشمت کمال بھی اس مو قع پر موجود تھے ۔ امام کعبہ الشیخ ڈا کٹرصا لح بن محمد بن طالب نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہامحنت سے کام کرنے والوں کے درمیان میں آکر ناقابل یقین خو شی ہو رہی ہے ، پاکستان کی فورسز نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے قوت کا باعث ہے ۔ موٹروے پولیس کے کام کو دیکھ کر مجھے فخر محسوس ہورہا ہے بلاشبہ آپ لوگوں کے سفر میں آسانیاں پیدا کرنے کے علاوہ انکی حفاظت کر کے عظیم ترین کام کر رہے ہیں۔ موٹروے پولیس کی کامیابی ہم سب کے لئے باعث فخر ہے ۔ ہم ہر طر ح سے اس بات کے متمنی ہیں پاکستان دن رات تر قی کر ے ۔ امام کعبہ نے مزید کہاآپ مسلمانوں کے لیے امن کی حفاظت کر تے ہیں اللہ آپ کی حفا ظت کر ے ۔ آپ نے انتہائی قلیل مدت میں بہت بڑا نام پیدا کیا ہے ۔ سعودی عرب کے عوام اور حکومت پاکستان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان سعودی عرب کا دوسرا گھر ہے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ دو آنکھوں پر جہنم حرام ہے ایک وہ جس میں اللہ کے خوف سے آنسو نکلیں اور ایک وہ جو راستوں کی حفاطت کر تی ہے موٹروے پولیس بھی یہی کام کر تی ہے اور یہ ایک جہاد کی قسم ہے ۔ اما م کعبہ نے اس مو قع پر وفاقی وزیر مواصلات حافظ عبدالکر یم اور آئی جی موٹروے پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام کا بھی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا ۔ وفاقی وزیر مواصلات حافظ عبدالکر یم نے اپنے خطاب میں کہا ہم امام کعبہ کو عوام اور پاکستانی حکومت کی طر ف سے خوش آمدید کہتے ہیں ۔ موٹروے پولیس کے نوجوان محنت اور اخلا ص سے کام کرنے کی وجہ سے حادثات میں 70%سے زائد کمی واقع ہوئی ہے ۔موٹروے پولیس میں رشوت صفر ہے یہ ہم سب کے قابل فخر ہے انہوں نے مذید کہا پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کو عز ت کا نگاہ سے دیکھتا ہے کیوں کہ وہ حر مین کی حفاطت کر تا ہے اور اللہ کے مہمانوں کی خدمت کر تا ہے ۔ پاکستان پر جب بھی کو ئی آفت آئی سعودی عرب نے ہمیشہ ساتھ دیااور دوستی کا حق ادا کیا ۔
0 notes
Photo
*ھندو ھوں مگر دشمن شبیر نہیں ہوں* میں اگرچہ ایک ھندو ھوں اور یونان کی راجدھانی ایتھنز سے ایک دور دراز جگہ پر رھتا ھوں لیکن کسی کےساتھ بھی ظلم و زیادتی کی صورت میں میری ھمدردیاں مظلوم کے ساتھ ھی ھوتی ھیں چاھے کشمیر ھو یا فلسطین ---------------------------- ایک ھندو کے فون سے پہلے تو میں گبھرایا لیکن رام لال کی سوچ سے مجھے ایک اچھے انسان کی خوشبو محسوس ھوئی " " " " " " " تو میں نے استفسار کیا جناب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ھوں ؟؟ ؟؟ ؟؟ ؟؟ وہ بولا کہ مجھے آپکا نمبر ظاھراً آپ کی کسی تحریر کے ذریعے سے ملا ھے🌹🌹🌹 دراصل, آپ سوشل اور پرنٹ میڈیا کی طاقت کو مجھ سے زیادہ جانتے ھیں اسی لیے اگرچہ آج تک میں مالی مشکلات کیوجہ سے ھندوستان نہیں جا سکا 🌷لیکن جب بھی میڈیا پر اجتماع کھمبہ میلہ میں دریائے گنگا جمنا میں سادھوں کو آشنان کرتے دیکھتا ھوں تو مجھے اپنے گناہ بھی دھلتے محسوس ھوتے ھیں----------------------- 🌷اسپین جانا تو ناممکن ھے لیکن وھاں ھونے والے tomato fight ٹماٹروں والے جشن کی تصویروں اور ویڈیو کو جب دیکھتا ھوں تو لگتا ھے کہ جیسے ابھی مجھے بھی ایک ٹماٹر لگ جائے گا ______________ 🌷حولی اور دیوالی کے اجتماع میں رنگوں اور روشنیوں کو دیکھوں اور اپنا بدن رنگا رنگ ھوتا محسوس نہ ھو کیسے ممکن ھے ،، ،، ،، ،، 🌷 کرسمس (مسیحیت کا اجتماع) میں اگرچہ آپ نے شرکت تو نہیں کی ھو گی لیکن میڈیا پر اس کی تصاویر سے آپ کو بھی ایک اپنائیت کا احساس ھوتا ھو گا ----------------------------------- 🌷میکسیکو اور فرانس میں running of bulls بیلوں کے آگے دوڑنے والے اجتماع کی جب میڈیا پر تصاویر دیکھوں تو یوں لگتا ھے جیسے ابھی مجھے بھی ایک بیل کا سینگھ لگ جائے گا °°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°° 🌷ولینٹاین ڈے پر ایک دوسرے کو پھول دینے والی تصویر سے دور ھونے کے باوجو گلاب کے پھول کی خوشبو دماغ کو معطر کرتی محسوس ھوتی ھے ................................... 🌷Balloon Fiesta ھو یا lantern festival میڈیا اور تصاویر اور ویڈیو کی طاقت کی وجہ سے یوں لگتا ھے کہ ھم بھی فضاء میں لیمپ اور غبارے چھوڑ رھے ھیں ___________________ میں نے اس کی بات کو کاٹا اور پوچھا رام لال جی معذرت لیکن آپ مجھے یہ سب کیوں بتا رھے ھیں 🙏🙏🙏🙏🙏🙏 وہ ہچکچاتے ھوئے بولا ! مولانا صاحب دراصل پہلے تو شیعہ کے بارے میں میری معلومات فقط چھریاں چاقو زنجیروں اور تلواروں کی حد تک ھی تھیں کیونکہ میں نے جب نیٹ پر یہ کلمہ لکھا تو زیادہ تر یہی نظر آیا لیکن چند دن پہلے مجھے ایک مختلف قسم کی معلومات ملی ھیں 🌹دنیا میں سب سے بڑا انسانی اجتماع🌹 عراق میں 25 میلین سے زیادہ انسان جمع 😳 اس سے پہلے تو ھم ھندو لوگ فخر سے کہتے تھے کہ بزرگترین اجتماع دنیا میں ھمارا میلہ کھمنبہ ھوتا ھے لیکن جب آپ لوگوں کے چہلم امام حسین کے اجتماع کی جزئیات کا علم ھوا تو مجھے آپ کا مقام اپنے سے بڑا نظر آیا کیونکہ ھمارا اجتماع ھر سال نھی ھوتا جبکہ آپ حسین ابن علی سے اظھار عشق کیلے ھر سال چہلم پر اکھٹے ھوتے ھیں 💐💐💐 اسکے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان آپ لوگوں کی عبادت کیلئے دنیا کی سب سے لمبی 80 کلومیٹر کی صف (نماز جماعت) , 400 کلومیٹر کا طولانی ترین جلوس, کسی ملک کی آدھی آبادی کی شرکت, وہ جگہ جہاں دنیا میں سب سے زیادہ خدمت کی جاتی ہے ایثار و خلوص کی معراج, عشق و محبت کی انتہا, دنیا کی ھر نعمت جس کا تصور کریں مفت آمادہ اور تیار اور یہ سب عام لوگوں کی طرف سے حکومت کے تعاون کے بغیر , دنیا کے 60 سے زیادہ ملکوں کے لوگوں کی شرکت وہ بھی کسی پرامن ملک میں نہیں بلکہ عراق جیسا ناامن ملک, دھشت کی علامت داعش کی موجودگی اور دھمکیاں, بم دھماکے , قتل و غارت______________________ لیکن اس کے باوجود میڈیا کا اس اجتماع کو کوریج نہ دینا ایک بڑا سوالیہ نشان تھا وہ اخبارات اور رسائل جو نام نھاد اسلام کے دعوی دار دھشتگردوں کی چھوٹی سی بھی حرکت کو بڑا بنا کر پیش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوشش کرتے ھیں انکو عراق میں عشق خلوص محبت ایثار فداکاری خدمت کی اس عظیم درسگاہ کی تصویر سے آنکھیں چرائے بیٹھے رھنے کا حکم کیوں اور کس نے دیا ھیں ! ! ! ! ! ! ! ! ! عالمی میڈیا کے , میڈیا کوریج دینے کے اپنے ھی بنائے ھوئے تین بنیادی اصول یعنی 🌷 کثرت 🌷 🌷 استثنیٰ 🌷 🌷حیرت اور تعجب 🌷 نجف اور کربلا میں مسلمانوں کے اس اجتماع میں کیوں بدل جاتے ھیں؟ کیا یہ تینوں کے تینوں اصول مکمل طور پر کربلا میں موجود نہیں ؟ وہ کونسا ڈر اور خوف ہے جسکی وجہ سے آپ دنیا کی آنکھ سے اس اجتماع کو چھپانا چاھتے ھیں--------------------------------- اور پھر اچانک مجھے اپنے اس سوال کا جواب بھی مل ھی گیا کیونکہ جیسے جیسے اس اجتماع کی تصاویر اور ویڈیو کو دیکھتا جاتا اپنے اندر ایک عجیب احساس کو محسوس کرتا جاتا اور وہ یہ تھا کہ ❤❤❤❤❤❤ میں خود جب اس اجتماع کو دیکھ رہا تھا تو یوں لگا جیسے ھزاروں کلومیٹر دور ھونے کے باوجود میں بھی اس اجتماع کے راہ کا راھی ھوں اور سپاہی ھوں , معذوری کے باوجود چلنے والوں کا ھمسفر, ان مظلوموں کا ساتھی , حتی چھوٹےچھوٹے بچوں کو خدمت کرتے دیکھ کر میرے چھوٹے بیٹے کے چہرے کے تاثرات بھی بدلنے لگے اور وہ بولا کہ باپو میں بھی یہاں جا کر ان بچوں کی طرح خدمت کرنا چاھتا ھوں , جب بڑی بڑی شخصیات امراء اور حتی حکومتی اور فوجی جرنیلوں تک جو زائرین کے جوتے پالش کرتے , بدن اور پاوں کو مالش کرتے دیکھا تو حیرت زدہ ھو گیا کہ 🌷 اے حسین ابن علی تیرے اندر وہ کونسی کشش اور مقناطیسیت ھے جو بڑے سے بڑے انسان کو زائرین کی خدمت پر اس طرح مجبور کر دیتی ھے کہ لوگ زایرین کے پاوں تک چومتے نظر آتے ھیں ❤❤❤❤❤❤ جب وہ لیبک یا حسین کی صدا بلند کرتے تو میرے جسم کے ایک ایک حصے سے یا حسین یا حسین کی آواز بلند ھوتی محسوس ھوئی اور آخر میں جب امام حسین کے مزار مبارک کی تصویر اور ویڈیو دیکھی تو پورا بدن جیسے اس ضریح مبارک سے لپٹ گیا ھو اور آنکھوں سے آنسووں کی برسات اور یہ امید کہ عاشقان امام حسین میں میرا نام بھی لکھ دیا جاے 😪😪😪😪 وہ روتا جاتا اور اسکی سسکیوں کی آواز میرے دل پر عجیب اثر ڈالتی جاتی اور میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ھو گیا کہ محبت امام حسین میں میرا خلوص زیادہ ھے یا رام لال😭 کا میں سوچ رہا تھا کہ دشمن آخر کیوں امام حسین اور حسینت کی اس خبر کو میڈیا پر نہیں آنے دیتا🤔, کیونکہ انکو ڈر ھے کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ کوئی رام لال عاشق حسین بن جائے❤, ھاں ھاں کہیں ایسا نہ ھو یورپ,امریکہ,آفریقہ یا ایشیا کا کوئی عسیائی کرس��ن یا یہودی اس شمع حسینی کا پروانہ نہ بن جائے🌷🌷🌷🌷 کوئی سرخ ,سیاہ, سفید یا گندمی رنگ والا شخص لبیک یا حسین کے فلک شگاف نعرے لگا کر استعمار کے ایوانوں کو نہ ھلا دے , کوئی عرب سلفی وھابی اپنے یزیدی آقاوں سے بغاوت کر کہ حر نہ بن جائے, کوئی آفریقہ میں شیخ زکزاکی نہ بن جاے,خوف ھے انکو کہ کہیں کوئی مقصد امام حسین سمجھ کر امام حسین کی طرح وقت کے ظالم سے ٹکرا نہ جائے , یا کم از کم اور کچھ نہیں تو کہیں حسین کی محبت میں حسین کے شیعوں سے پیار نہ کرنا شروع کر دے اور استعمار کو تو بشریت کو تشیع سے دور رکھنا ھے ! لیکن یاد رکھیں کہ ! انسان کو بیدار تو ھو لینے دو ھر قوم پکارے گی ھمارے ھیں حسین ⠀ التماس دعا ✍
0 notes
Text
محبت کا دن
محبت کا دن
شا ئد اس لیئے کہ لفظ محبت میں بہت کشش ہےیا پھر اس دور میں محبت و خلو ص کی تلا ش میں انسان ا ند ھا ہو کر رہ گیا ہے کہ جہا ں اسے اس لفظ کا شور سنا ئ د یتا ہے وہ پا گلو ں کیطر ح اسکا پیچھا کر نا شر و ع کر د یتا ہے یہا ں تک کہ ا ند ھی تقلید سے بھی گر یز نہیں کر تا جہا ں محبت نے د نیا میں امن و امان قا ئم کیا ہے و ہیں اس نا م محبت نے ہستے بستے ا نسا نو ں کے در میان جنگیں بھی کروا ئیں ہیں محبت پا کیزہ ہو محبت مثبت ہو محبت مثا لی ہو تو اور با ت ہے جس محبت میں بر با دی ہو نقصان ہو منفی طر یقے سے کی جا ئے تو وہ نہ صرف معا شر ے کے لیئے بے فا ئدہ اور نقصان دہ ہے بلکہ آپ اور میں سب ہی اسکی لپیٹ میں آ جا تے ہیں جسطر ح و یلنٹا ئن ڈے نا می محبت کے دن نے ہمیں ا پنی لپیٹ میں لے ر کھا ہے ہما رے بز رگو ں کے نز دیک جو دن شر م و حیا کے دن ہوا کر تے تھے آ جکل کی نو جوان نسل میں وہ دن عیا شی اور ا نجوا ئے منٹ کے دن سمجھے جا تے ہیں اور اس بے حیا ئی اور بے شر می کو ہم نو جوا نو ں کے را ئٹ کے لقب سے پکا رتے ہیں کتنے شرم کی با ت ہے کہ آ جکل کے ہما رے ما ڈرن بزرگ جو در ا صل لا علم اور حقیقت سے ا نجان ہیں ا پنے بچو ں کو و یلنٹا ئن ڈے منا نے پر ا سپو ر ٹ کر تے ہیں ان کے لیئے اس دن کی چند مثا لیں ہیں جن سے وہ سبق حا صل کر سکتے ہیں یہ مثا لیں نہ تو فر ضی ہیں اور نہ ہی کو ئی بنا ئی ہو ئی کہا نیا ں ہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ا یسے قصے ہیں جو اسی ملک پا کستان سے لیئے گئے ہیں پہلا قصہ ا قصی نا می ایک لڑ کی کا ہے جسکی عمر بمشکل پند رہ سال ہو گی لیکن وہ و قت سے پہلے ہی ٹی وی ا نٹر نیٹ اور مو با ئل کی بدو لت ا تنی بڑ ی ہو گئی تھی کہ ا پنے فیصلے خود کر نے لگی تھی وا لد ین ا سکی حر کا ت و سکنا ت سے بے خبر ا پنی د نیا میں مگن تھے ٢٠١٤ میں ١٤ فر ور ی کے دن جب وہ بن سنور کر گھر سے با ہر نکلی تو ا سکے کئی لڑ کے دو ست یعنی بو ئے فر ینڈز اسے ملے انہو ں نے جب اسکی جا نب د یکھا تو ا سکی خو بصو رتی کو د یکھ کر ان کی نیت خرا ب ہو گئی لہذا و یلنٹا ئن ڈے تھا اسکے بو ئے فر ینڈز نے اسے گلا ب کے سا تھ گفٹ پیش کئے تو اسکی خو شی کا ٹھکا نہ نہ ر ہا جن میں سے فہد نا می ایک لڑ کے نے اسے ڈ نر پرلے جا نے کے لیئے کہا اور وہ فو را مان گئی کینڈل لا ئٹ ڈ نر کے دوران کا فی رو مینٹک با تیں اور عہد و پیمان ہوئے اور پندر ہ فرور ی کے دن جب وہ گھر وآپس آ ئی تو وہ ز ند ہ نہیں تھی بلکہ مر دہ حا لت میں سمندر سے ملی پو سٹ ما ر ٹم کر وا نے کے بعد پتا چلا کہ اس کو تشدد کر کے مرا گیا ہے اور تحقیق سے با ت سا منے آ ئی کہ فہد جو اسکا بو ئے فر ینڈ تھا اس سے نا جا ئز تعلق بنا نا چا ہتا تھا وہ نہ ما نی تو اسکے ا نہی بو ا ئے فر ینڈز نے جو اسے محبت کے دن پر پھو ل پیش کر تے تھے اسے ا جتما عی ز یا د تی کے بعد قتل کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔یہ تو تھا محبت کے دن کا اور آ جکل کی ��حبت کا ایک قصہ ۔۔۔۔۔۔ا فسو س کہ ہم ا یسے وا قعا ت کے بعد بھی نہیں سو چتے ۔۔۔۔۔۔۔۔خیر اب دو سرا قصہ بھی پیش نظر ہے زر ی اپنے وا لد ین ا پنے وا لد ین کی ا کلو تی بیٹی تھی گھر میں وا لد ین کسی چیز کی کمی نہ ہو نے د یتے تھے ذا ت کے پٹھان تھے غیرت مند اور ا صول پر ست ان کے نز د یک تو محبت بھی وہ ہو تی ہے جو ا صول سے کی جا ئے دو سر ی صو رت میں وہ محبت نہیں گنا ہ ہو تا ہے جس پر ا نسان مو ت کا مستحق رہ جا تا ہے با قی تما م صو ر تیں ختم ہو جا تیں ہیں زر ی حسن و جما ل میں بے مثا ل تھی وہ صو بہ سر حد کے شہر ی تھے پشا ور میں ر ہا ئش تھی میٹرک کلا س کی سید ھی سا دھی لڑ کی تھی کہ ا نکے خا ندان کا ایک لڑ کا جس نا م گل تھا جب ا نگلیڈ سے پڑھ لکھ کر آ یا تو ١٤ فروری نا می اس ڈے کو بہت ما نتا تھا جب ایک دن زر ی سکو ل سے آ رہی تھی تو گل کی اس پر نظر پڑی تو وہ د یکھتا ہی رہ گیا وہ بلکل ا یسی تھی جیسے آ سمان سے کو ئی پر ی ا تری ہو مگر ا پنے حسن و جما ل سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔۔ گل اسے د یکھتے ہی اسکی جا نب بڑ ھا ا پنا تعارف کروایا اسکا تعارف پو چھا اورآگے با ت بڑ ھا نے کی کو شش کر نے لگا بد قسمتی سے و یلنٹا ئن ڈےبھی آ گیا و یلنٹا ئن ڈے کو اس نے زری کو ڈھیرو ں پھو ل چا کلیٹ اور گفٹ د یئے اور اسے دور کسی پا رک میں بہلا پھسلا کر لے گیا عین اسو قت جب ان دو نو ں کے ہا تھو ں میں ہا تھ تھے تو زر ی کے چچا نے ا نھیں د یکھ لیا اور د یکھتے ہی دو نو ں کو گو لی سے ا ڑا د یا ا نجا م کار یہ کہ یہا ں بھی محبت نفر ت کی آ گ میں خا ک ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔اور جنا ب وا لی وہ محبت ہی کیا جو نفر ت کی آ گ میں خاک ہو جا ئے بلکہ محبت تو وہ ہو تی ہے جو نفرت کی آ گ میں بھی گلزار بن جا ئے ،،،،،،،،،،،،لہذا محبت کے دن کا ا یک اور قصہ مختصر بیان کر تی ہو ں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔د عا لو گ آ ٹھ بہنیں تھیں وہ بھی وا لدین پر بو جھ ۔۔۔۔۔۔۔ ہوا یو ں کہ پنجا ب کے ایک گا و ں کی ر ہا ئشی د عا جس کی عمر ٢١ سا ل تھی بہنو ں میں تیسرے نمبر پر تھی اور بھا ئی ا یک ہی تھا سب سے بڑا با رعب حکمرا نی کر نے وا لا لہذا خود کشی سے کچھ دن پہلے وہ بہا نے بہا نے سے گھر سے با ہر جا تی اور بے چین سی گھر میں وا پس آ جا تی گھر میں اسکی بہنو ں نے اسے نو ٹس تو کیا مگر کچھ نہ کہا وہبھی چپ چا پ سی بیٹھی ر ہتی اور کسی سے کچھ نہ کہتی کہ ایک دن ا چا نک وہ پو ا ئز ن لے کر مر گی یعنی اس نے خود کشی کر لی وہ دن تھا چو دہ فر وری ٢٠١٥۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قصہ یہ تھا کہ جس لڑکے سے چکر چلا یا تھا ١٤ فرو ری کو وہ لڑ کا اسے بر با د کر کے شہر بھا گ گیا تھا وہ ا پنی بر با دی کو نہ چھپا س کتی تھی جسکی و جہ سے اسے خود کشی کر نا پڑی سوا ل یہ ا ٹھتا ہے کہ اس ان پڑھ جا ہل د یہا تی لڑکی کو اس محبت کے دن کا کیسے علم ہوا تو جنا ب عا لی اس کا بندو بست ہما ری گو ر نمنٹ نے کیبل کے ذر یعے کر د یا ہے ۔۔۔۔۔۔جی ہا ں اب د یہا تو ں میں بھی یہ بیما ری عا م پا ئی جا تی ہے یہ تو تھا محبت کے دن کا تیسرا قصہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب چو تھا قصہ بھی ملا حظہ فر ما ئیے میر ی ا یک جا ننے وا لی نے بتا یا کہ ہما ری ایک آ نٹی تھی کا فی خو بصورت اور شو خ و چنچل قسم کی اسکے دو بچے تھے سارا دن وہ ٹی وی پر ا نٹر نیٹ اور مو با ئل پر لگی ر ہتی بچے ا دھر ا دھر ہمسا ئیو ں کے گھر میں چھو ڑ د یتی یا رو تے د ھو تے ر ہتے ایک دن ایسا ہوا کہ ایک شخص ان کے در وا زے پر آ یا جو کہ آ نٹی کیطر ح ا د ھیڑعمر تھا حلیئے سے کا فی ما ڈرن لگ ر ہا تھا تھر ی پیس سو ٹ پہنا ہوا تھا پو چھنے لگا یہ ر ضیہ کا گھر ہے ہم نے بتا یا بلکل ر ضیہ کا گھر ہے دروا زہ کھٹکھٹا یا تو آ نٹی ر ضیہ صا حبہ گھر سے با ہر نکلی تو ا نکل نے کچھ پھو ل اور گف ٹ آنٹی کو تھما د یئے کہ اسی دوران اس کے شو ہر انکل ضمان بھی کسی کام سے گھر آ ئے اور سب کچھ د یکھ کر حیران رہ گئے وہ غصے سے پھٹ پڑے اور و ہیں پر دروا زے میں ر ضیہ کو طلا ق دے دی جا نتے ہیں آپ وہ کو نسا دن تھا ۔۔۔۔۔۔ جی ہا ں ۔۔۔۔۔۔۔۔چو دہ فروری یعنی و یلنٹا ئن ڈے ۔۔۔۔۔۔۔۔محبت کا دن تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔آ خر ی قصہ مختصر بیا ن کر تی چلو ں جو کہ کچھ ا سطر ح ہے ثا نیہ ایک ا میر تر ین با پ کی بیٹی تھی جبکہ حار ث اسکا ایک غریب یا متو سط گھرا نے سے تعلق ر کھنے وا لا دو ست تھا ثا نیہ یو نہی محبت کے دن اسے گفٹ اور پھو ل تھما کر کہتی حا ر ث د یکھو میں ا پنے سا رے فر ینڈز کو د یتی ہو ں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو نا اسکے با و جود حا ر ث کے دل میں ثا نیہ کے لیئے محبت نا می جذبہ ا بھر نے لگا ثا نیہ کے لا کھ کہنے کے با و جود حار ث ثا نیہ پر مر نے لگا اور حا ر ث کے لا کھ کہنے کے با و جود ثا نیہ اسے ١٤ فر ور ی کو گفٹ اور پھو ل ضرور پیش کر تی جب حا ر ث اسکی محبت میں بر ی طر ح ا نو لو ہو گیا تو رہ نہ سکا ثا نیہ کا اسے ملنا نا ممکن تھا لہذا اس نے فر ط جذ با ت میں آ کر خود کشی کر لی ۔۔۔۔۔۔۔۔لہذا یہ تھیں وہ چند مثا لیں محبت کے دن کی جو ہما رے معا شر ے نے قا ئم کیں یہ تو چند قصے تھے جو کہ میر ے ذر یعے سے آپ تک پہنچے ور نہ سے تو ہر سا ل سینکڑو ں ا یسے وا قعا ت ا یسے پیش آ تے ہیں جنکا تعلق خا لصتا اس دن سے ہے اب آ پ ہی فیصلہ کیجیئے کیا یہ محبت کا دن ہے ؟ا گر محبت کا دن ہے تو کیا محبت معا شر ے میں بد ا منی نقصان اور بر ا ئیا ں پھیلا نے کا نا م ہے ؟ کیا آ پ کے خیا ل میں ا یسے دن کو ا سپو ر ٹ کر نا عقلمند ی ہے ؟کیا ہمیں و یلنٹا ئن ڈے منا نا چا ہیئے ؟کیا ہما را معا شرہ اس دن کو تسلیم کر تا ہے ؟سب سے ا ہم با ت مسلما نو ں کے لیئے۔۔۔۔۔۔۔ کہ کیا ا سلا م اس دن کو منا نے کی ا جا ز ت د یتا ہے ؟کیا ایسی بے ہو د گی اور خطر نا ک بیما ری کے پھیلنے پہ ہمیں خا مو ش ر ہنا چا ہیئے ؟ ذرا سو چیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدارا ذرا سو چیئے ۔۔۔۔۔۔ کیا یہ محبت کا دن ہے ؟
via Blogger http://ift.tt/2llW00y
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad Date: 15 April 2017 Time: 8.40am to 8.45am آکاشوانی اورنگ آباد علاقائی خبریں تاریخ: ۱۵؍اپریل ۲۰۱۷ء وقت : صبح ۴۰-۸ سے ۴۵-۸
ملک کی معیشت کو بد عنوا نی اور کالے دھن سے نجات دلانے کے لیے ’’ڈِجی دھن اِسکیم‘‘ آگے بھی جاری رہیگی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ بات کہی۔ نیتی آ یوگ کی جانب سے بھارت رتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی جینتی کے موقع پر کل ناگپور میں منعقدہ ڈِجی دھن میلے سے وزیر اعظم خطاب کر رہے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ ڈِجی دھن اِسکیم دن بدن مقبول ہو تی جا رہی ہے اور غریب افراد بھی کیش لیس اور آن لائن لین دین طریقوں کو اپنارہے ہیں۔ اِس سے پہلے مودی نے ناگپور کی دِکشا بھومی جاکر ڈاکٹر با با صاحب امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اِس موقع پر گور نر سی۔ وِدّیا ساگر رائو ،وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑ نویس ،ٹرانسپورٹ کے مرکزی وزیر نتن گڈ کری ،رام داس آٹھولے اور دیگر شخصیات موجود تھیں۔ اِس موقع پر وزیر اعظم نے دو خصو صی ڈاک ٹکٹ بھی جا ری کیئے۔ اِس دوران بھیم ایپ کو آدھار نمبر سے جوڑ نے والے نظام کا بھی افتتاح عمل میں آ یا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گر میوں کی چھٹیوں میں عام لو گوں تک بھیم ایپ کی معلو مات پہنچا نے کے لیے نو جوان آگے آئیں۔ بھیم ایپ کی تشہیر کر نے والے نو جوانوں کے لیے وزیر اعظم نے خصو صی اِسکیم کا بھی اعلان کیا۔ اِس موقع پر خوش قسمت گاہک اِسکیم اور ڈِجی دھن بیو پار اِسکیم کے تحت انعا م جیتنے والوں کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا۔ لاتور کی انجینئر نگ کی طالبہ شردّھا مینگ شیٹّے نے ایک کروڑ روپیوں کا انعام جیتا۔ ہمارے نمائندے سے بات کر تے ہوئے شر دّھا نے سبھی سے کیش لیس لین دین نظام کو اپنا نے کی بھی اپیل کی۔ تقریب میں مراٹھواڑہ کے کئی تا جروں کو بھی انعامات سے نوازا گیا۔ *************************** دستور کے معمار اور بھارت رتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کی 126؍ ویں جینتی کل جوش و خروش سے منا ئی گئی۔ وِدھان بھون میں ڈِپٹی اِسپیکر مانک رائو ٹھاکرے نے با با صاحب کے مجسمے پر گلہائے عقیدت پیش کیئے۔ اورنگ آباد میں ڈِویژنل کمِشنر ڈاکٹر پُرشوتّم بھا پکر نے اپنے دفتر میںڈاکٹر با با صاحب امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مراٹھواڑہ کے سبھی ضلع کلکٹر دفا تِر میں ڈاکٹر امبیڈکر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ *************************** اورنگ آباد میں بھی سبھی سیاسی جماعتوں کے کار کنوں پر مشتمل جینتی اُتسو کمیٹی کی جانب سے کل بھڑ کل گیٹ پر نصب ڈاکٹربابا صاحب امبیڈکر کے مجسمے پر گلہائے عقیدت پیش کیئے گئے۔ اِس موقع پر مجسمے پر ہوائی جہاز سے پھول بر سائے گئے۔ شام کرانتی چوک سے جلوس بھی نکالے گئے ۔ لاتور میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے ڈاکٹر امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کیاگیا۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ نے بھی اِس موقع پر جلو س نکالا۔ پر بھنی میں منعقدہ تقریب میں بھی عوام کی بڑی تعداد نے شر کت کی۔ ناندیڑ میں لڑ کیوں کی جا نب سے ٹو وہیلر ریلی نکالی گئی۔ مراٹھواڑہ کے دیگر شہروں عثمان آباد،ہنگولی ،بیڑ اور جالنہ میں بھی ڈاکٹرامبیڈکر کی جینتی کے موقع پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ *************************** پاکستان میں قید بھارتی بحر یہ کے سا بق افسر کُلبھوشن جادھو کی رہائی کے لیے بین الاقوا می سطح پر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ مملکتی وزیر دفاع سبھاش بھامرے نے یہ بات کہی۔ بھا مرے کل ناسک میں وزیر اعظم آواس یو جنا کے افتتاح کے موقع پر نا مہ نگاروں سے گفتگو کرر ہے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی جانب سے اِسطرح کی حر کتیں جاری رہی تو بھارت کی امن کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ اِس بیچ بھار نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ بھار تی شہری کُلبھوشن جادھو کی سزائے موت کے فیصلے کے ساتھ ساتھ فرد جرم کی تصدیق شدہ نقل دستیاب کر وائی جائے اور بھارتی سفا رتکا روں کو اُن سے ملنے دیا جائے۔ اسلام آباد میں بھار تی ہائی کمشنر گو تم بمبا ولے نے جا دھو کے کیس کے سلسلے میں پاکستان کی خار جہ سیکریٹری تہمینہ جنجوا سے ملا قات کی۔ پاکستان کی ایک فو جی عدالت نے مبینہ طور پر جا سو سی کر نے کی بناء پر ��ا دھو کو موت کی سزا سنائی ہے۔ بمبا ولے نے PTI کو بتا یا کہ پا کستان نے پچھلے ایک سال میں13؍ بار قونصل خانے کے اہلکا روں کو جا دھو سے ملنے دینے کی بھارتی در خواست نا منظور کی ہے۔ بمبا ولے نے کہا کہ پاکستان کی خار جہ سیکریٹری کے ساتھ ملا قات کے دوران اُنھوں نے ایک بار پھر جا دھو تک رسائی کی در خواست کی ہے۔ *************************** اقلیتوں سے متعلق امور کے مرکزی وزیر مملکت مختار عباس نقوی نے یہ بات دہرائی کہ مرکز عاز مین حج کو سمندر کے راستے سعودی عرب میں جدہ بھیجنے کا سلسلہ بحال کرنے کے امکان پر غور کر رہا ہے۔ کل ممبئی کے حج ہائوس میں ایک حج تر بیتی پروگرا م سے خطاب کر تے ہوئے نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 2018 کے لیے حج پالیسی مرتب کر نے کی غرض سے سر کار نے اعلیٰ سطح کی جو کمیٹی بنائی ہے وہ عاز مین حج کو سمندر کے راستے جدہ بھیجنے کا سلسلے پھر سے شروع کر نے کے امکان تلاش کر رہی ہے۔ نقوی نے کہا کہ عازمین حج کو بحری جہاز کے ذریعے بھیجنے سے عازمین کو فائدہ ہو گا کیو نکہ اِس سے ہوائی جہاز کے کرا یوں کے مقابلے اُنکے سفر کا خرچ تقریباً آدھا ہو جائے گا۔ نقوی نے بتا یا کہ اِس سلسلے میں جہاز رانی کی وزا رت کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ *************************** پر بھنی ضلع کے پور نا تعلقے میں کر فیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ کل ڈاکٹر با با صاحب امبیڈکر جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے در میان پتھر ائو اور آگ زنی کے واقعات پیش آئے تھے جِسکے بعد انتظا میہ کو کر فیو نافذ کر نا پڑا۔ پور نا کے شیو ا جی نگر علاقے میں دو گروہوں کے بیچ ہوئے اختلا فات مار پیٹ اور پتھرائو میں بدل گئے۔ مشتعل ہجوم نے کئی گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کر دیا۔صورتحال پر قا بو پا نے کی کوشش کر رہے پولس ملازمین پر بھی ہجوم نے پتھرائو کیا جسمیں کئی پولس ملازمین زخمی ہو گئے جِسکے بعد پولس نے کر فیو نافذ کر نے کا فیصلہ کیا۔ پولس ذرائع نے بتا یا کہ فی الحال صورتحال پوری طرح قابو میں ہے۔ ***************************
0 notes
Text
قابلِ معافی حرم زدگیاں....وسعت اللہ خان
اتنے ممالک میں اتنے لوگوں کو سزائے موت دینے کے باوجود یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ جن ممالک میں سزائے موت کا قانون موجود نہیں وہاں سنگین جرائم کا تناسب ان ممالک سے زیادہ ہے جہاں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔ بہرحال مجھ جیسے لوگوں کی تقابلی پسند ناپسند کی ریاستی فہم و فراست کے آگے کیا اوقات۔
اگر سزائے موت اتنی ہی اچھی ہے تو پھر غدار ، قاتل ، ریپسٹ ، دہشت گرد اور منشیات کا اسمگلر ہی کیوں۔ان سے بھی زیادہ خوفناک مگر مچھ صرف اس لیے کیوں زندہ پھر رہے ہیں کیونکہ ان کے سنگین جرائم سزائے موت کی مروجہ قانونی فہرست و تشریح کے روایتی دائرے میں شامل نہیں۔ حالانکہ انھی سنگین جرائم کے مرتکبین کو دراصل ایک عادل معاشرے میں سب سے کڑی سزا کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
مثلاً وہ فرد یا گروہ جو جعلی ادویات بناتا اور بیچتا اور کھلاتا ہے کسی منشیاتی اسمگلر سے کتنا مختلف ہے ؟ وہ شخص جو کوالیفائیڈ طبیب نہ ہونے کے باوجود بے شمار زندگیوں سے کھیلتا ہے جنہوں نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ایسا مجرم کسی بھی سیریل قاتل سے کس قدر مختلف ہے۔
اس ریسٹورنٹ کا مالک جو اپنی نہ ختم ہونے والی لالچ کا بلیک ہول بھرنے کے لیے مشکوک ، مضرِ صحت یا مردار گوشت مضرِ صحت مصالحوں اور تیل میں پکوا کر بے خبر گاہکوں کو معیاری اور صحت مند کھانے کا دھوکا دے کر من مانے پیسے وصول کرتا ہے اس میں اور کسی خاموش قاتل میں کیا فرق ہے۔
مسافروں سے بھری بس پر بم مارنے والے ایک دھشت گرد اور اس گوالے میں کیا فرق ہے جو خالص دو��ھ کے فریب میں گاہکوں کو وہ کیمیکل زدہ آمیزہ پلاتا ہے جو رفتہ رفتہ ان گنت شیر خواروں اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگیاں سکیڑتا چلا جاتا ہے اور جو زندہ رہ جاتے ہیں، وہ طرح طرح کے سرطانوں یا جلدی و اندرونی امراض میں مبتلا زندہ لاش ہوجاتے ہیں اور پھر ان ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن میں سے بہت سے محض ایسی دوا ساز کمپنی��ں کے دلال ہیں جن کا منشور ہی یہ ہے کہ جتنے امراض اور مریض بڑھیں گے، اتنی ہی چاندی ہو گی، اتنی ہی سی ٹی سکین مشینیں لگیں گی، اتنی ہی پیتھالوجیکل لیبارٹریز پھلیں پھولیں گی ، اتنے ہی جا بے جا آپریشن کرنے کو ملیں گے ، اتنے ہی پروموشنل ٹورز اور قیمتی تحائف کا ڈھیر لگے گا اور اتنا ہی دکھی انسانیت کا نام و کام روشن ہوتا چلا جائے گا۔
کسی کا گھر بارود سے اڑا دینے والے دشمن اور اس بلڈر میں کیا فرق ہے جو ’’ اپنا گھر پیارا گھر ’’کے نعرے پر ہر وہ خواب بیچتا ہے جس کی کوئی بھی بے گھر سفید پوش تمنا کر سکتا ہے اور پھر ایسا بلڈر اپنے شکار کو ریت اور مٹی کے وہ شاندار قید خانے منہ مانگی قیمت پر تھما دیتا ہے جو ایک اوسط درجے کے جھٹکے ، زلزلے یا طوفان کا تیسرا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرپاتے اور خوابوں کے اس جعلی محل کے مکین اپنی ہی کمائی اور قرضوں سے خریدی گئی رہائشی قبر پر سر پکڑے بیٹھ جاتے ہیں۔
وہ عدالتی نظام جو جیل میں بند کسی بھی منتظرِ انصاف کو پندرہ ، بیس اور پچیس برس سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد ایک دن اچانک بے گناہی اور بریت کا مژدہ سنائے اور اس خرکار میں کیا فرق ہے جو بغرضِ تاوان و جبری مشقت سادہ لوح بے گناہوں کا خون چوسے اور آخر میں گنے کے پھوک جیسا ایک زندہ پنجر راستے پے پھینک دے۔
عام ٹارگٹ کلر تو اپنے بہیمانہ جرم کی سزائے موت پائے مگر پولیس مقابلوں کے نام پر ٹارگٹ کلنگ کرنے والا ریاستی شاباشی ، انعام و اکرام اور ترقی کا مستحق ٹھہرے۔گھر کے تمام بچوں اور خواتین کو رسوں سے باندھ کر پورا گھر صاف کرنے والا ، یا کنپٹی پر پستول رکھ کے کار چھیننے والا تو ڈاکو کہلائے مگر مالیاتی اداروں کو کروڑوں اربوں سے محروم کرنے اور پھر یہ کروڑوں اربوں رائٹ آف کروانے والے محسنینِ قوم ہونے کی داد سمیٹیں اور دو ارب کی شفاف ڈکیتی میں سے ایک ارب واپس کر کے اور معزز ہو جائیں۔
ناانصافی، استحصال اور ظالمانہ نظام کے خلاف ہتھیار اٹھانے والا تو غیر ملکی ایجنٹ ، وطن دشمن ، غدار اور دہشت گرد کہلائے اور سولی کا حقدار ہوجائے۔مگر ملکی اقتدارِ اعلی سینہ ٹھونک کر رہن رکھوانے والا ، آیندہ نسلوں کو گروی کروا کے خون چوس ساہوکاروں سے لیے گئے قرضوں کو آمدنی سمجھتے ہوئے حسب ِخواہش و منشا اڑانے والا یا قومی زیور کہلانے والے اداروں کو دادا جی کا مال سمجھ کر اونے پونے اپنے من پسند غیر ملکیوں یا ملکیوں کو بیچنے والا نجات دھندہ کا تمغہ پائے۔
دورِ انگریزی میں رواج تھا کہ جو جو برادریاں ، طبقات اور قبائل قابو میں نہ آتے یا انگریز بہادر کے خیال میں ان کا کردار مشکوک ہوتا ۔ ان سب کو اجتماعی بلیک لسٹ کر کے حقہ پانی بند کردیا جاتا۔ تاکہ وہ راہ راست پر آنے کی انگریزی تعریف پر پورے اترنے پر آمادہ ہوجائیں۔ مثلاً سندھ میں پوری حر جماعت دہشت گرد قرار پائی ، بلوچستان کا مری قبیلہ سالم باغی گردانا گیا۔ فاٹا کے کئی قبائل پر سیاہ نشان لگا دیا گیا ۔ میواتیوں کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ میواتی ہو اور ڈاکو نہ ہو تو کیسا میواتی۔ روہیلے ناقابلِ اعتبار ٹھہرے۔ وسطی پنجاب میں ماجھے کے کئی قبائل کو رسہ گیری کا تمغہ پہنایا گیا ۔
دور بدلا تو کردار و انداز بھی بدل گئے۔ وہ دن گئے جب سیاست میں ایک گندی مچھلی کو باقی مچھلیوں سے الگ کرکے دیکھنے کا رواج تھا ۔ اب سیاست دان من حیث الطبقہ گھٹیا ، غبی، مشکوک اور بد دیانت بتائے جاتے ہیں ۔ مشکوک قبائل کی فہرست وقت کے ساتھ ساتھ گھٹنے کے بجائے اور لمبی ہو گئی۔ غیر ملکی ایجنٹوں کی تعداد راتوں رات دوگنی تگنی ہوگئی۔
مگر جن شخصیات و طبقات و تنظیموں اور اداروں نے ’’ سرِ تسلیم ِ خم کیا ہے، جو مزاجِ یار میں آئے ’’ کو اپنا منشورِ نجات بنا لیا ان کو سات خون ، سات غداریاں ، سات عوام دشمنیاں، سات جعلسازیاں، سات دو نمبریاں، سات مالی و اخلاقی بے اعتدالیاں اور سات بہت کچھ معاف ۔ ان کا ہر جرم خطا ، دوسروں کی ہر
خطا جرم۔۔۔
تین بار امریکی صدارت پے فائز رہنے والے فرینکلن ڈی روز ویلٹ سے جب یہ شکوہ کیا گیا کہ ویسے تو آپ کے دل میں سارے جہاں کا درد ہے لیکن نکاراگوا پر حکمران سموزا خاندان کی زیادتیاں اور سیاسی ، معاشی و انتظامی حرم زدگیاں آپ کو کیوں نظر نہیں آتیں۔روز ویلٹ نے بہت ایمانداری سے جواب دیا کہ یہ درست ہے کہ سموزا خاندان باسٹرڈ ہے مگر وہ ہمارا باسٹرڈ ہے۔
مشتاق یوسفی کے بقول حرام زدگی پیدائشی ہوتی ہے مگر حرم زدگی زورِ بازو سے کمائی جاتی ہے۔
آج کے لیے بس اتنا ہی۔ مجھے احساس ہے کہ میں کہیں سے کہیں نکل گیا لیکن میں اکیلا تو نہیں جو کہیں سے کہیں نکل گیا؟
#Wusatullah Khan#World#Urdu Columns#Pakistan Politics#Pakistan culture#Pakistan#Corruption in Pakistan
0 notes
Text
قابلِ معافی حرم زدگیاں....وسعت اللہ خان
اتنے ممالک میں اتنے لوگوں کو سزائے موت دینے کے باوجود یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ جن ممالک میں سزائے موت کا قانون موجود نہیں وہاں سنگین جرائم کا تناسب ان ممالک سے زیادہ ہے جہاں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔ بہرحال مجھ جیسے لوگوں کی تقابلی پسند ناپسند کی ریاستی فہم و فراست کے آگے کیا اوقات۔
اگر سزائے موت اتنی ہی اچھی ہے تو پھر غدار ، قاتل ، ریپسٹ ، دہشت گرد اور منشیات کا اسمگلر ہی کیوں۔ان سے بھی زیادہ خوفناک مگر مچھ صرف اس لیے کیوں زندہ پھر رہے ہیں کیونکہ ان کے سنگین جرائم سزائے موت کی مروجہ قانونی فہرست و تشریح کے روایتی دائرے میں شامل نہیں۔ حالانکہ انھی سنگین جرائم کے مرتکبین کو دراصل ایک عادل معاشرے میں سب سے کڑی سزا کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
مثلاً وہ فرد یا گروہ جو جعلی ادویات بناتا اور بیچتا اور کھلاتا ہے کسی منشیاتی اسمگلر سے کتنا مختلف ہے ؟ وہ شخص جو کوالیفائیڈ طبیب نہ ہونے کے باوجود بے شمار زندگیوں سے کھیلتا ہے جنہوں نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ایسا مجرم کسی بھی سیریل قاتل سے کس قدر مختلف ہے۔
اس ریسٹورنٹ کا مالک جو اپنی نہ ختم ہونے والی لالچ کا بلیک ہول بھرنے کے لیے مشکوک ، مضرِ صحت یا مردار گوشت مضرِ صحت مصالحوں اور تیل میں پکوا کر بے خبر گاہکوں کو معیاری اور صحت مند کھانے کا دھوکا دے کر من مانے پیسے وصول کرتا ہے اس میں اور کسی خاموش قاتل میں کیا فرق ہے۔
مسافروں سے بھری بس پر بم مارنے والے ایک دھشت گرد اور اس گوالے میں کیا فرق ہے جو خالص دودھ کے فریب میں گاہکوں کو وہ کیمیکل زدہ آمیزہ پلاتا ہے جو رفتہ رفتہ ان گنت شیر خواروں اور ان کے اہلِ خانہ کی زندگیاں سکیڑتا چلا جاتا ہے اور جو زندہ رہ جاتے ہیں، وہ طرح طرح کے سرطانوں یا جلدی و اندرونی امراض میں مبتلا زندہ لاش ہوجاتے ہیں اور پھر ان ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن میں سے بہت سے محض ایسی دوا ساز کمپنیوں کے دلال ہیں جن کا منشور ہی یہ ہے کہ جتنے امراض اور مریض بڑھیں گے، اتنی ہی چاندی ہو گی، اتنی ہی سی ٹی سکین مشینیں لگیں گی، اتنی ہی پیتھالوجیکل لیبارٹریز پھلیں پھولیں گی ، اتنے ہی جا بے جا آپریشن کرنے کو ملیں گے ، اتنے ہی پروموشنل ٹورز اور قیمتی تحائف کا ڈھیر لگے گا اور اتنا ہی دکھی انسانیت کا نام و کام روشن ہوتا چلا جائے گا۔
کسی کا گھر بارود سے اڑا دینے والے دشمن اور اس بلڈر میں کیا فرق ہے جو ’’ اپنا گھر پیارا گھر ’’کے نعرے پر ہر وہ خواب بیچتا ہے جس کی کوئی بھی بے گھر سفید پوش تمنا کر سکتا ہے اور پھر ایسا بلڈر اپنے شکار کو ریت اور مٹی کے وہ شاندار قید خانے منہ مانگی قیمت پر تھما دیتا ہے جو ایک اوسط درجے کے جھٹکے ، زلزلے یا طوفان کا تیسرا جھٹکا بھی برداشت نہیں کرپاتے اور خوابوں کے اس جعلی محل کے مکین اپنی ہی کمائی اور قرضوں سے خریدی گئی رہائشی قبر پر سر پکڑے بیٹھ جاتے ہیں۔
وہ عدالتی نظام جو جیل میں بند کسی بھی منتظرِ انصاف کو پندرہ ، بیس اور پچیس برس سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے بعد ایک دن اچانک بے گناہی اور بریت کا مژدہ سنائے اور اس خرکار میں کیا فرق ہے جو بغرضِ تاوان و جبری مشقت سادہ لوح بے گناہوں کا خون چوسے اور آخر میں گنے کے پھوک جیسا ایک زندہ پنجر راستے پے پھینک دے۔
عام ٹارگٹ کلر تو اپنے بہیمانہ جرم کی سزائے موت پائے مگر پولیس مقابلوں کے نام پر ٹارگٹ کلنگ کرنے والا ریاستی شاباشی ، انعام و اکرام اور ترقی کا مستحق ٹھہرے۔گھر کے تمام بچوں اور خواتین کو رسوں سے باندھ کر پورا گھر صاف کرنے والا ، یا کنپٹی پر پستول رکھ کے کار چھیننے والا تو ڈاکو کہلائے مگر مالیاتی اداروں کو کروڑوں اربوں سے محروم کرنے اور پھر یہ کروڑوں اربوں رائٹ آف کروانے والے محسنینِ قوم ہونے کی داد سمیٹیں اور دو ارب کی شفاف ڈکیتی میں سے ایک ارب واپس کر کے اور معزز ہو جائیں۔
ناانصافی، استحصال اور ظالمانہ نظام کے خلاف ہتھیار اٹھانے والا تو غیر ملکی ایجنٹ ، وطن دشمن ، غدار اور دہشت گرد کہلائے اور سولی کا حقدار ہوجائے۔مگر ملکی اقتدارِ اعلی سینہ ٹھونک کر رہن رکھوانے والا ، آیندہ نسلوں کو گروی کروا کے خون چوس ساہوکاروں سے لیے گئے قرضوں کو آمدنی سمجھتے ہوئے حسب ِخواہش و منشا اڑانے والا یا قومی زیور کہلانے والے اداروں کو دادا جی کا مال سمجھ کر اونے پونے اپنے من پسند غیر ملکیوں یا ملکیوں کو بیچنے والا نجات دھندہ کا تمغہ پائے۔
دورِ انگریزی میں رواج تھا کہ جو جو برادریاں ، طبقات اور قبائل قابو میں نہ آتے یا انگریز بہادر کے خیال میں ان کا کردار مشکوک ہوتا ۔ ان سب کو اجتماعی بلیک لسٹ کر کے حقہ پانی بند کردیا جاتا۔ تاکہ وہ راہ راست پر آنے کی انگریزی تعریف پر پورے اترنے پر آمادہ ہوجائیں۔ مثلاً سندھ میں پوری حر جماعت دہشت گرد قرار پائی ، بلوچستان کا مری قبیلہ سالم باغی گردانا گیا۔ فاٹا کے کئی قبائل پر سیاہ نشان لگا دیا گیا ۔ میواتیوں کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ میواتی ہو اور ڈاکو نہ ہو تو کیسا میواتی۔ روہیلے ناقابلِ اعتبار ٹھہرے۔ وسطی پنجاب میں ماجھے کے کئی قبائل کو رسہ گیری کا تمغہ پہنایا گیا ۔
دور بدلا تو کردار و انداز بھی بدل گئے۔ وہ دن گئے جب سیاست میں ایک گندی مچھلی کو باقی مچھلیوں سے الگ کرکے دیکھنے کا رواج تھا ۔ اب سیاست دان من حیث الطبقہ گھٹیا ، غبی، مشکوک اور بد دیانت بتائے جاتے ہیں ۔ مشکوک قبائل کی فہرست وقت کے ساتھ ساتھ گھٹنے کے بجائے اور لمبی ہو گئی۔ غیر ملکی ایجنٹوں کی تعداد راتوں رات دوگنی تگنی ہوگئی۔
مگر جن شخصیات و طبقات و تنظیموں اور اداروں نے ’’ سرِ تسلیم ِ خم کیا ہے، جو مزاجِ یار میں آئے ’’ کو اپنا منشورِ نجات بنا لیا ان کو سات خون ، سات غداریاں ، سات عوام دشمنیاں، سات جعلسازیاں، سات دو نمبریاں، سات مالی و اخلاقی بے اعتدالیاں اور سات بہت کچھ معاف ۔ ان کا ہر جرم خطا ، دوسروں کی ہر
خطا جرم۔۔۔
تین بار امریکی صدارت پے فائز رہنے والے فرینکلن ڈی روز ویلٹ سے جب یہ شکوہ کیا گیا کہ ویسے تو آپ کے دل میں سارے جہاں کا درد ہے لیکن نکاراگوا پر حکمران سموزا خاندان کی زیادتیاں اور سیاسی ، معاشی و انتظامی حرم زدگیاں آپ کو کیوں نظر نہیں آتیں۔روز ویلٹ نے بہت ایمانداری سے جواب دیا کہ یہ درست ہے کہ سموزا خاندان باسٹرڈ ہے مگر وہ ہمارا باسٹرڈ ہے۔
مشتاق یوسفی کے بقول حرام زدگی پیدائشی ہوتی ہے مگر حرم زدگی زورِ بازو سے کمائی جاتی ہے۔
آج کے لیے بس اتنا ہی۔ مجھے احساس ہے کہ میں کہیں سے کہیں نکل گیا لیکن میں اکیلا تو نہیں جو کہیں سے کہیں نکل گیا؟
#Wusatullah Khan#World#Urdu Columns#Pakistan Politics#Pakistan culture#Pakistan#Corruption in Pakistan
0 notes