#جیونی
Explore tagged Tumblr posts
pazmobile · 3 years ago
Photo
Tumblr media
|‌... مشخصات و قیمت ... با اولین نگاه به این گوشی می توانید بگویید که شبیه گوشی آیفون 13 و 13 پرو است نکته برجسته دیگر این دستگاه این است که اولین گوشی غیر هوآوی است که به سیستم عامل هارمونی مجهز شده است و قیمت آن 83 دلار است 😬🤩😊 . . مشخصات جیونی 13 پرو 🔷️ نمایشگر 6.26 اینچ ال سی دی با وضوح +HD و نسبت نمایشگر به بدنه 90.3 درصد 🔶️ تراشه Unisoc T310 + رم 4 گیگابایت + 128/32 گیگابایت حافظه داخلی + باتری 3500 میلی آمپر + پورت تایپ سی 🔻 ماژول دوربین دوگانه مجهز به سنسورهای 13 مگاپیکسل + 2 مگاپیکسل + دوربین سلفی 5 مگاپیکسل 🔹️🔸️در چهار رنگ آبی - طلایی - بنفش - و مشکی #اپل #آیفون #آیفون۱۳ #آیفون۱۳پرومکس #جیونی #جیونی۱۳پرو #گوشی_طرح_آیفون #گوشی_طرح_اپل #موبایل #موبایل_گوشی #گوشی #گوشی_هوشمند #گوشی_جدید #هارمونی #هواوی #سامسونگ #سامسونگ_موبایل #شیائومی #شیاومی #پازموبایل #موبایل_پاز #pazmobile (at esfehan) https://www.instagram.com/p/CZZkTWyN8eA/?utm_medium=tumblr
1 note · View note
45newshd · 5 years ago
Text
بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے عظیم الجثہ وہیل کی باقیات مل گئیں
بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے عظیم الجثہ وہیل کی باقیات مل گئیں
کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے عظیم الجثہ وہیل کی باقیات مل گئیںماحولیات کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 31 فٹ لمبی وہیل کی ہلاکت ماہی گیروں کی جانب سے بچھائے گئے ایک جال میں پھنسنے کے باعث واقع ہوئی ہے اس کی باقیات جیونی کے علاقے گنز سے ملی ہیں تنظیم کے ٹیکنیکل مشیر محمد معظم نے بتایا کہ 26 نومبر کو انھیں اطلاع ملی تھی کہ ماہی گیروں کے جال میں وہیل…
View On WordPress
0 notes
techratocom · 7 years ago
Text
جیونی اس ۱۱ با یک نمایشگر فول ویژن ۶ اینچی آمولد به تنا رسید
http://dlvr.it/PrjSfW
0 notes
omega-news · 3 years ago
Text
سمندری طوفان شاہین بلوچستان میں ، ساحلی علاقوں میں تیز ہوا کے ساتھ وقفے وقفے سے بارش
سمندری طوفان شاہین بلوچستان میں ، ساحلی علاقوں میں تیز ہوا کے ساتھ وقفے وقفے سے بارش
بحیرہ عرب میں بننے والے سمندری طوفان شاہین کا اثر بلوچستان میں نظر آگیا. سمندری طوفان شاہین کے زیرِ اثر بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں تیز ہوا کے ساتھ وقفے وقفے سے بارش جاری رہی ۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان کے ساحلی علاقے بدستور بحیرہ عرب میں موجود طوفان شاہین کے زیر اثر ہیں، لسبیلہ، گوادر، آواران، جیونی اور اورماڑا میں مسلسل دوسرے روز کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش کا سلسلہ جاری رہا، بارش کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
بلوچستان کے ساحلی علاقے بدستور طوفان کے زیراثر، محکمہ موسمیات کا ایک اور الرٹ جاری - اردو نیوز پیڈیا
بلوچستان کے ساحلی علاقے بدستور طوفان کے زیراثر، محکمہ موسمیات کا ایک اور الرٹ جاری – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  کراچی /  کوئٹہ: بلوچستان کے ساحلی علاقے بدستور بحیرہ عرب میں موجود طوفان ’شاہین‘ کے زیر اثر ہیں جب کہ اس حوالے محکمہ موسمیات نے نیا الرٹ جاری کردیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے ساحلی علاقے بدستور بحیرہ عرب میں موجود طوفان ’ شاہین‘ کے زیر اثر ہیں، لسبیلہ، گوادر، آواران، جیونی اور اورماڑا میں مسلسل دوسرے روز کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارش کا سلسلہ جاری ہے، بارش کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dnanewshd · 5 years ago
Photo
Tumblr media
بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے عظیم الجثہ وہیل کی باقیات مل گئیں کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان کے ساحلی علاقے جیونی سے عظیم الجثہ وہیل کی باقیات مل گئیںماحولیات کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 31 فٹ لمبی وہیل کی ہلاکت ماہی گیروں کی جانب سے بچھائے گئے ایک جال میں پھنسنے کے باعث واقع ہوئی ہے اس کی باقیات جیونی کے علاقے گنز سے ملی ہیں تنظیم کے ٹیکنیکل مشیر محمد معظم نے بتایا کہ 26 نومبر کو انھیں اطلاع ملی تھی کہ ماہی گیروں کے
0 notes
pullen-kharan-news · 5 years ago
Text
Tumblr media
سی پیک کے فوجی منصوبے بلوچوں کے ساتھ ساتھ بھارت اور مغرب کو بھی متاثر کریں گے: حیربیار مری
( پھلین خاران نیوز )
بلوچ قوم دوست رہنماء اور فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیربیار مری نے کہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت تشکیل دئیے جانے والے “نیشنل کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی”بلوچستان کو چینی فوجی ٹھکانے میں تبدیل کرنے کا ایک اور قدم ہے ۔
انہوں نے کہا پاکستان اور چین اپنے فوجی اور اسٹریٹیجک مقاصد کے پہلوؤں کو ڈھکنے کیلئے اس کو معاشی منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔
انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ بلوچستان کی موجودہ سیاسی اور سماجی حالات کی وجہ سے سی پیک معاشی طور پر ایک ناممکن منصوبہ ہے اور اس کا اندازہ پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ اچھی طرح سمجھ چُکی ہے۔
بلوچ رہنماء نے مزید کہا کہ اگست 2019 میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اشارتاً ” نیشنل کوسٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی ” کے قیام میں لائے جانے کی منظوری کا ذکر کیا تھا جب کہ پاکستان کی اپنی پارلمنٹ میں موجود جماعتیں اس کو غیر آئینی قرار دیکر اس کے قیام کی مخالفت کررہی ہیں (این سی ڈی اے) کے قیام سے پوری (سندھ بلوچستان)ساحلی پٹی براہ راست پاکستانی پنجابی (وفاقی حکومت) کے کنٹرول میں ہوگا۔
حیر بیار مری نے مزید کہا کہ پاکستان ایک طرف ہندوستان کے 370 آرٹیکل کے خاتمے پر مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے اور دوسری طرف اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔این سی ڈی اے اور سی پیک کا قیام پاکستانی فوج کی بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو براہ راست کنٹرول کرنے کی کوشش ہے جہاں لاکھوں پنجابی اور ہان چینی لوگ فوجی اڈوں کی حفاظت اور علاقے کو مستقل کالونی بنانے کے لئے آبادیاتی تبدیلیاں لانے کیلئے آباد کئے جائیں گے جہاں اس وقت خفیہ طور پر بحری اور آبدوزی مراکز کی تعمیر ہورہی ہے۔
چینی کمیونسٹ حکومت، بلوچستان کی ساحلی پٹی کو دوسرے بلوچ علاقوں سے کاٹ کر اس کا مکمل کنٹرول حاصل کرسکتا ہے، ایک قابل عمل معاشی منصوبے کیلئے ضروری ہے کہ علاقے کے معاشی اور سماجی حالات اچھے ہوں جو بلوچستان میں اس وقت نہیں پنپ سکتے جب تک بلوچستان سُنی پنجابیوں کے قبضے میں ہے، جب کہ یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو بلوچستان کے باقی حصوں سے الگ کر کے ساحلی علاقوں میں فوجی اڈے قائم کئے جائیں۔
بلوچ رہنماء نے مزید کہاکہ جس طرح روس نے مشرقی یورپ کے مرکز کلیننگارڈ میں فوجی اڈے بنارکھے ہیں ایسے حالات میں چین ٹھیک اُسی طرح بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں فوجی اڈے بنا سکتا ہے۔ پاکستان گوادر اور بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں کو چینی کلیننگارڈ میں بدل رہا ہے جہاں پہلے سے بڑی تعداد میں فوجی تنصیبات موجود ہیں اور جیونی، سونمیانی کے علاوہ دیگر ساحلی علاقوں میں مزید فوجی اڈے اور چھاؤنیاں بنائی جارہی ہیں۔
حیربیار مری نے مزید کہا کہ کچھ آزادی پسند بلوچ اور بھارتی صحافیوں نے سی پیک کے ناکام ہونے کا دعویٰ کیا، جو ایک غلط خوش فہمی ہے کیونکہ سی پیک کی کامیابی بلوچستان کی آزادی کی تحریک کا خاتمہ کریگی اور بلوچ اپنی ہی سرزمین پر اقلیت بن کر رہ جائے گا، اور بلوچستان کی قومی جدوجہد کی کامیابی سی پیک کو ختم کردے گی۔ کچھ بلوچ سیاسی جماعتیں اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ سی پیک منصوبے کو ناکامی سے دو چار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، وہ اپنے آپ کو اور چند بھارتی کالم نگاروں کو غلط یقین دھانی کرا رہے ہیں کہ سی پیک ناکام ہوگیا، چینی استعماری کمیونسٹوں کے عزائم کو شکست دینا اتنا آسان نہیں ہے۔
خطے میں پاکستان اور چین گٹھ جوڈ اور انکے اپنے ہمسایوں کے خلاف فوجی و جنگی عزائم سے ہر کوئی باعلم ہے۔ جب سی پیک کے فوجی احداف پورے ہونگے جو جیونی اور اورماڑہ میں فوجی اڈے اور مراکز کا قیام ہے اس کے علاوہ سونمیانی کے ساحل پر خفیہ آبدوز مرکز کا قیام بھی سی پیک کے فوجی احداف میں شامل ہے جس کے قیام سے پاکستان اور چین انڈیا کا مکمل بحری گھیراؤ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
حیربیار مری نے تنبیح کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ سی پیک کے اثرات کے سب سے پہلے شکار ہونگے جس کے بعد انڈیا اور مغربی ممالک اس سے شدید متاثر ہونگے۔
0 notes
mypakistan · 8 years ago
Text
پاکستان کی مشہور بندرگاہیں
سون میانی
یہ بندرگاہ ضلع لسبیلہ کے ساحل پر واقع ہے، جو کراچی سے بذریعہ خشکی 45 میل کے فاصلے پر ہے۔ انگریزوں سے پہلے پورے وسط ایشیاء میں اس کا شہرہ تھا۔ یہاں سے بڑی بڑی بادبانی کشتیاں جن کو بلوچی میں ’’بوجھی‘‘ کہتے ہیں، ہندوستان، عرب، افریقا اور خلیج فارس کی بندرگاہوں تک جاتی آتی تھیں۔ راجہ داہر کے خلاف کارروائی کے لیے عربوں نے اسی بندرگاہ پر اپنا لشکر اتارا تھا۔ 19ویں صدی کے آغاز تک بلخ و بخارا افغانستان و ایران کا تجارتی مال کا رواں کے ذریعے اس بندرگاہ میں آتا اور یہاں سے ترکمان اور بلوچی گھوڑے بردباری اور اونٹ سبھی سونمیانی سے باہر بھیجے جاتے۔ اُن دنوں، بولان اور مولہ کے راستے غیر محفوظ خیال کیے جاتے تھے۔ 1805ء میں پرتگالی بحری قزاقوں نے یہ بندرگاہ لوٹ کر اسے آگ لگا دی۔ گل جنید نے جو کلمتی ہوت بلوچوں کا سردار اور ماہر جہاز ران تھا، ان بحری قزاقوں سے یہاں کئی لڑائیاں لڑی۔ برطانوی تسلط کے بعد اس بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی۔ انگریزوں نے کراچی کی بندرگاہ کو جدید بنیادوں پر ترقی دی اور ریل کے ذریعے اسے اندرون ملک بڑے بڑے شہروں سے ملا دیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی سرحدوں کا تعین ہوا، جس سے کارواں کی آمدروفت رک گئی، جس کے نتیجے میں بندرگاہ آہستہ آہستہ اُجڑ گئی ۔آج کل سون میانی ماہی گیری کے لیے مشہور ہے۔ یہاں بڑے بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوسکتے کیونکہ ساحل کے نزدیک پانی کی گہرائی کم ہے۔ 
اورماڑا
یہ بندرگاہ پہلے ریاست لسبیلہ میں شامل رہی ہے، مگر آج کل مکران ڈویژن کا حصہ ہے۔ 1938ء تک برٹش انڈیا سٹیم نیو یگشین کمپنی کے جہاز ہر پندرھواڑ لے یہاں ساحل سے قریباً تین میل کے فاصلے پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ بیرون ممالک خصوصاً سری لنکا اور جاپان سے تجارتی سامان آتا اور یہاں سے زیادہ تر خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں دساور کو جاتیں ،مگر اب وہ صورتحال باقی نہیں رہی ہے۔
پسنی 
یہ بندرگاہ کراچی سے براستہ خشکی دو سو میل کے فاصلے پر ہے، پہلے یہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی، لیکن 1931ء میں خان قلات میر محمود خان دوم کی وفات کے بعد ان کے جانشین میر احمد یار خان کو اپنے اختیارات کا علم ہوا، تو انہوں نے بیرون ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے پسنی کی بندرگاہ قلات کی دوسری بندرگاہوں کے مقابلے میں زیادہ کار آمد ثابت ہوئی چنانچہ سندھ اور بلوچستان کے تاجروں جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، یہاں سے تجارتی مال درآمدو برآمد کرنے کی طرف توجہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہی گیروں کی یہ چھوٹی سی گمنام بستی وسط ایشیاء میں شہرت حاصل کر گئی۔ جاپان سے ریشمی سوتی اور اونی کپڑے اور کیوبا سے چینی بڑی مقدار میں درآمد ہونے لگی اور یہاں سے خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں وغیرہ ہندوستان کی بندرگاہ اور کولمبو کو برآمد کی جانے لگی۔ اس درآمد و برآمد سے ریاست قلات کی آمدنی میں چار پانچ لاکھ روپے سالانہ کا اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ پسنی سے درآمد شدہ مال مکران، ساراوان، جھالاوان اور کچھی کے علاقوں میں راہداری اور سنگ بھی وصول کیا جانے لگا ،جس کی مجموعی آمدنی پندرہ بیس لاکھ روپے سالانہ سے کم نہ تھی۔ ان دنوں 1939ء میں پسنی کی آبادی دس ہزا ر نفوس پر مشتمل تھی، جن میں اکثریت ’’میلا‘‘ شاہی بلوچوں کی تھی۔ 
1898ء میں مکران کی بغاوت فرو کرنے کے لیے انگریزی فوج کرنل مین کے زیر کمان اس بندرگاہ میں اتری تھی۔ یہ فوج ذحانی جہاز میں کراچی سے روانہ ہو کر پسنی پہنچی اور پھر یہاں سے کوچ کر کے 30جنوری 1898ء کو کپروش کے مقام پر بلوچ مجاہدوں سے جا ٹکرائی۔ اس لڑائی میں میر بلوچ خان نو شیروانی اور کئی دوسرے نامی گرا��ی بلوچ شہید ہوئے۔ 1942ء میں پسنی میں ایک شدید زلزلہ آیا۔ سمندری موجوں نے تمام شہر تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ قائم ہوا، تو پسنی بھی دوسری بندرگاہوں کی طرح مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔ 
جیونی 
یہ بندرگاہ خلیج گوادر کے دائیں کنارے واقع ہے۔ دشت ندی یہاں سمندر میں گرتی ہے۔ اس کے بیس میل شمال مغرب سے ایرانی بلوچستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ جیونی، بلوچستان کی موزوں ترین بندرگاہ ہے۔ اس بندرگاہ پر چودھویں صدی عیسوی تک جدگالوں کا قبضہ رہا ہے۔ اس کے شمال مغرب میں ایرانی بلوچستان کا علاقہ دشتواری ہے،جہاں جدگال قبائل آباد ہیں۔ سردار جیون خان جدگال کا صدر مقام ہونے کی مناسبت سے ان کا نام جیونی پڑگیا۔ کلمت بندر پسنی اور اورماڑا کے درمیان یہ بندرگاہ یعنی خلیج کے سرے پر واقع ہے اور ماکولہ کی شمالی پہاڑیوں کے ذریعے طوفانی ہواؤں سے محفوظ ہے۔ بڑے بڑے جہاز یہاں لنگر انداز نہیں ہوسکتے، لیکن ماہی گیر کشتیوں کے لیے ساحل بلوچستان پر یہ محفوظ ترین ٹھکانہ ہے۔ شکار کے خاص موسم، آڑنگا میں کراچی اور خلیج فارس کی دوسری بندرگاہوں سے ماہی گیر یہاں آکر کھر ماہی یعنی کاڈ کا شکار کرتے ہیں۔ کلمت بندر کے مغرب میں گزدان کی مشہور چراگاہ ہے، جہاں ایک خاص قسم کی گھاس بکثرت اُگتی ہے اور مقامی آڑنگا کے دنوں میں خشکی سے آنے والی شمالی ہوائیں اس گھاس کا بیج سمندر میں پھیلا دیتی ہیں جو کچھ مچھلیوں کی من بھاتی خوراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مچھلیاں غول در غول سمندر کے اس حصے میں آپہنچتی ہیں اور انہیں شکار کرنے کے لیے ماہی گیروں کے جتھے ادھر اُمنڈ آتے ہیں۔ سُر بندر بلوچستان کی جنوبی پٹی پر ساحل مکران، بحیرہ عرب کے ساتھ 754 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
گو ساحلی آبادیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے کوئی پختہ سڑک موجود نہیں ،لیکن روزانہ کی پروازوں کی بدولت ان دیہاتوں اورڈیروں کا آپس میں رابطہ قائم رہتا ہے۔ بحیرۂ عرب کا نیلگوں پانی جب گوادر، پسنی اور ارماوا کے چمکتے ریتلے ساحلوں سے ٹکراتا ہے، تو یہ منظر بے حد خوبصورت ہوتا ہے ۔ اس ساحلی پٹی پر الگ تھلگ ساحلی علاقے میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ علاقے اپنی خوبصورتی اور قدیم روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ جب کوئی سیاح ان علاقوں میں آنکلتا ہے تو وہ ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ آوارہ پھرتے ہوئے اونٹ کھجور کے درختوں کے خوبصورت جھنڈ، چھوٹی چھوٹی ندیاں اور ٹھنڈی گدگداتی اور آلودگی سے پاک ہوا یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان صدیوں پہلے کی کسی الف لیلیٰ کی داستان کا حصہ ہے۔ 
اس علاقے کو قدرت کے کئی قسم کے امتزاج کی سر زمین کہا جا سکتا ہے۔ اس علاقے میں صحرا اور بنجر پہاڑ بھی ہیں اور ندی نالے بھی۔ یہاں کے لوگ بے حد جفاکش اور محنتی ہیں۔ یہاں ان کی قدیم تہذیبی روایات بے حد مشہور ہیں گوادرکی پر اسرار پہاڑیوں سے پرے کھجور کے درختوں کے جھرمٹ میں گھرا گرم چشموں کے قریب ایک غیر معمولی اور انوکھا قصبہ سربندر ہے، جو اپنی مثال آپ ہے۔ گوادر کی سڑک پندرہ میل دور رہ جاتی ہے اور قصبے تک پہنچنے کے لیے بلند و بالا پہاڑیوں کے پر پیچ اور خم کھانے والے راستے سے آنا پڑتا ہے، جو بے حد شکستہ اور خراب ہے ۔ جیپ بے حد آہستگی سے یہ خطرناک راستہ طے کرتی ہے۔ 
 شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گاہیں سے مقتبس)
0 notes
risingpakistan · 8 years ago
Text
پاکستان کی مشہور بندرگاہیں
سون میانی
یہ بندرگاہ ضلع لسبیلہ کے ساحل پر واقع ہے، جو کراچی سے بذریعہ خشکی 45 میل کے فاصلے پر ہے۔ انگریزوں سے پہلے پورے وسط ایشیاء میں اس کا شہرہ تھا۔ یہاں سے بڑی بڑی بادبانی کشتیاں جن کو بلوچی میں ’’بوجھی‘‘ کہتے ہیں، ہندوستان، عرب، افریقا اور خلیج فارس کی بندرگاہوں تک جاتی آتی تھیں۔ راجہ داہر کے خلاف کارروائی کے لیے عربوں نے اسی بندرگاہ پر اپنا لشکر اتارا تھا۔ 19ویں صدی کے آغاز تک بلخ و بخارا افغانستان و ایران کا تجارتی مال کا رواں کے ذریعے اس بندرگاہ میں آتا اور یہاں سے ترکمان اور بلوچی گھوڑے بردباری اور اونٹ سبھی سونمیانی سے باہر بھیجے جاتے۔ اُن دنوں، بولان اور مولہ کے راستے غیر محفوظ خیال کیے جاتے تھے۔ 1805ء میں پرتگالی بحری قزاقوں نے یہ بندرگاہ لوٹ کر اسے آگ لگا دی۔ گل جنید نے جو کلمتی ہوت بلوچوں کا سردار اور ماہر جہاز ران تھا، ان بحری قزاقوں سے یہاں کئی لڑائیاں لڑی۔ برطانوی تسلط کے بعد اس بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی۔ انگریزوں نے کراچی کی بندرگاہ کو جدید بنیادوں پر ترقی دی اور ریل کے ذریعے اسے اندرون ملک بڑے بڑے شہروں سے ملا دیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی سرحدوں کا تعین ہوا، جس سے کارواں کی آمدروفت رک گئی، جس کے نتیجے میں بندرگاہ آہستہ آہستہ اُجڑ گئی ۔آج کل سون میانی ماہی گیری کے لیے مشہور ہے۔ یہاں بڑے بحری جہاز لنگر انداز نہیں ہوسکتے کیونکہ ساحل کے نزدیک پانی کی گہرائی کم ہے۔ 
اورماڑا
یہ بندرگاہ پہلے ریاست لسبیلہ میں شامل رہی ہے، مگر آج کل مکران ڈویژن کا حصہ ہے۔ 1938ء تک برٹش انڈیا سٹیم نیو یگشین کمپنی کے جہاز ہر پندرھواڑ لے یہاں ساحل سے قریباً تین میل کے فاصلے پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ بیرون ممالک خصوصاً سری لنکا اور جاپان سے تجارتی سامان آتا اور یہاں سے زیادہ تر خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں دساور کو جاتیں ،مگر اب وہ صورتحال باقی نہیں رہی ہے۔
پسنی 
یہ بندرگاہ کراچی سے براستہ خشکی دو سو میل کے فاصلے پر ہے، پہلے یہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی، لیکن 1931ء میں خان قلات میر محمود خان دوم کی وفات کے بعد ان کے جانشین میر احمد یار خان کو اپنے اختیارات کا علم ہوا، تو انہوں نے بیرون ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے پسنی کی بندرگاہ قلات کی دوسری بندرگاہوں کے مقابلے میں زیادہ کار آمد ثابت ہوئی چنانچہ سندھ اور بلوچستان کے تاجروں جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، یہاں سے تجارتی مال درآمدو برآمد کرنے کی طرف توجہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہی گیروں کی یہ چھوٹی سی گمنام بستی وسط ایشیاء میں شہرت حاصل کر گئی۔ جاپان سے ریشمی سوتی اور اونی کپڑے اور کیوبا سے چینی بڑی مقدار میں درآمد ہونے لگی اور یہاں سے خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں وغیرہ ہندوستان کی بندرگاہ اور کولمبو کو برآمد کی جانے لگی۔ اس درآمد و برآمد سے ریاست قلات کی آمدنی میں چار پانچ لاکھ روپے سالانہ کا اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ پسنی سے درآمد شدہ مال مکران، ساراوان، جھالاوان اور کچھی کے علاقوں میں راہداری اور سنگ بھی وصول کیا جانے لگا ،جس کی مجموعی آمدنی پندرہ بیس لاکھ روپے سالانہ سے کم نہ تھی۔ ان دنوں 1939ء میں پسنی کی آبادی دس ہزا ر نفوس پر مشتمل تھی، جن میں اکثریت ’’میلا‘‘ شاہی بلوچوں کی تھی۔ 
1898ء میں مکران کی بغاوت فرو کرنے کے لیے انگریزی فوج کرنل مین کے زیر کمان اس بندرگاہ میں اتری تھی۔ یہ فوج ذحانی جہاز میں کراچی سے روانہ ہو کر پسنی پہنچی اور پھر یہاں سے کوچ کر کے 30جنوری 1898ء کو کپروش کے مقام پر بلوچ مجاہدوں سے جا ٹکرائی۔ اس لڑائی میں میر بلوچ خان نو شیروانی اور کئی دوسرے نامی گرامی بلوچ شہید ہوئے۔ 1942ء میں پسنی میں ایک شدید زلزلہ آیا۔ سمندری موجوں نے تمام شہر تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ قائم ہوا، تو پسنی بھی دوسری بندرگاہوں کی طرح مرکزی حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔ 
جیونی 
یہ بندرگاہ خلیج گوادر کے دائیں کنارے واقع ہے۔ دشت ندی یہاں سمندر میں گرتی ہے۔ اس کے بیس میل شمال مغرب سے ایرانی بلوچستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ جیونی، بلوچستان کی موزوں ترین بندرگاہ ہے۔ اس بندرگاہ پر چودھویں صدی عیسوی تک جدگالوں کا قبضہ رہا ہے۔ اس کے شمال مغرب میں ایرانی بلوچستان کا علاقہ دشتواری ہے،جہاں جدگال قبائل آباد ہیں۔ سردار جیون خان جدگال کا صدر مقام ہونے کی مناسبت سے ان کا نام جیونی پڑگیا۔ کلمت بندر پسنی اور اورماڑا کے درمیان یہ بندرگاہ یعنی خلیج کے سرے پر واقع ہے اور ماکولہ کی شمالی پہاڑیوں کے ذریعے طوفانی ہواؤں سے محفوظ ہے۔ بڑے بڑے جہاز یہاں لنگر انداز نہیں ہوسکتے، لیکن ماہی گیر کشتیوں کے لیے ساحل بلوچستان پر یہ محفوظ ترین ٹھکانہ ہے۔ شکار کے خاص موسم، آڑنگا میں کراچی اور خلیج فارس کی دوسری بندرگاہوں سے ماہی گیر یہاں آکر کھر ماہی یعنی کاڈ کا شکار کرتے ہیں۔ کلمت بندر کے مغرب میں گزدان کی مشہور چراگاہ ہے، جہاں ایک خاص قسم کی گھاس بکثرت اُگتی ہے اور مقامی آڑنگا کے دنوں میں خشکی سے آنے والی شمالی ہوائیں اس گھاس کا بیج سمندر میں پھیلا دیتی ہیں جو کچھ مچھلیوں کی من بھاتی خوراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مچھلیاں غول در غول سمندر کے اس حصے میں آپہنچتی ہیں اور انہیں شکار کرنے کے لیے ماہی گیروں کے جتھے ادھر اُمنڈ آتے ہیں۔ سُر بندر بلوچستان کی جنوبی پٹی پر ساحل مکران، بحیرہ عرب کے ساتھ 754 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
گو ساحلی آبادیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے کوئی پختہ سڑک موجود نہیں ،لیکن روزانہ کی پروازوں کی بدولت ان دیہاتوں اورڈیروں کا آپس میں رابطہ قائم رہتا ہے۔ بحیرۂ عرب کا نیلگوں پانی جب گوادر، پسنی اور ارماوا کے چمکتے ریتلے ساحلوں سے ٹکراتا ہے، تو یہ منظر بے حد خوبصورت ہوتا ہے ۔ اس ساحلی پٹی پر الگ تھلگ ساحلی علاقے میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ علاقے اپنی خوبصورتی اور قدیم روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ جب کوئی سیاح ان علاقوں میں آنکلتا ہے تو وہ ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ آوارہ پھرتے ہوئے اونٹ کھجور کے درختوں کے خوبصورت جھنڈ، چھوٹی چھوٹی ندیاں اور ٹھنڈی گدگداتی اور آلودگی سے پاک ہوا یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان صدیوں پہلے کی کسی الف لیلیٰ کی داستان کا حصہ ہے۔ 
اس علاقے کو قدرت کے کئی قسم کے امتزاج کی سر زمین کہا جا سکتا ہے۔ اس علاقے میں صحرا اور بنجر پہاڑ بھی ہیں اور ندی نالے بھی۔ یہاں کے لوگ بے حد جفاکش اور محنتی ہیں۔ یہاں ان کی قدیم تہذیبی روایات بے حد مشہور ہیں گوادرکی پر اسرار پہاڑیوں سے پرے کھجور کے درختوں کے جھرمٹ میں گھرا گرم چشموں کے قریب ایک غیر معمولی اور انوکھا قصبہ سربندر ہے، جو اپنی مثال آپ ہے۔ گوادر کی سڑک پندرہ میل دور رہ جاتی ہے اور قصبے تک پہنچنے کے لیے بلند و بالا پہاڑیوں کے پر پیچ اور خم کھانے والے راستے سے آنا پڑتا ہے، جو بے حد شکستہ اور خراب ہے ۔ جیپ بے حد آہستگی سے یہ خطرناک راستہ طے کرتی ہے۔ 
 شیخ نوید اسلم
(پاکستان کی سیر گاہیں سے مقتبس)
0 notes
paya8m2000 · 4 years ago
Text
گوشی هوشمند جیونی ام ۳۰ با باتری ۱۰ هزار میلی‌آمپر ساعت رونمایی شد
رسانه کلیک – گوشی جیونی ام ۳۰ با باتری ۱۰ هزار میلی‌آمپر ساعت رونمایی شد. این گوشی به دلیل طراحی زیبا و مشخصات سخت‌افزاری مطلوب ارزش خرید آن را بیشتر می‌کند. کاربرانی که قصد دارند یک گوشی هوشمند به همراه مشخصات سخت‌‌افزاری مطلوب هستند که تراشه‌ قوی‌تر نسبت به رقبا داشته باشد، از یک دوربین با […]
نوشته گوشی هوشمند جیونی ام ۳۰ با باتری ۱۰ هزار میلی‌آمپر ساعت رونمایی شد اولین بار در رسانه کلیک. پدیدار شد.
منبع : گوشی هوشمند جیونی ام ۳۰ با باتری ۱۰ هزار میلی‌آمپر ساعت رونمایی شد
0 notes
techratocom · 7 years ago
Text
جیونی ام ۷ اولین گوشی تمام صفحه جیونی است که از یک تراشه میان رده بهره می‌برد
http://dlvr.it/PqrmZr
0 notes
gcn-news · 4 years ago
Text
کل عید الفطر ہو گی یا نہیں،وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجینے دو ٹوک اعلان کردیا
Tumblr media
اسلام آباد(جی سی این رپورٹ)وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی وزارت کے تیار کردہ چاند کے کیلینڈر کے مطابق کل پاکستان میں عیدالفطر کا پہلا دن ہوگا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج سانگھڑ، پسنی، جیونی، بدین اور ٹھٹھہ میں 7 بج کر 36 منٹ سے لے کر 8 بج کر 14 منٹ کے درمیان چاند دیکھا جاسکتا ہے۔وزیر سائنس نے کہا کہ پشاور میں مفتی پوپلزئی نے کل کی عید کا اعلان کیا ہے حالانکہ پشاور میں آج بھی چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک کو آئین اور قانون کے تناظر میں چلانا ہوتا ہے لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی کہ ہم ہر وقت مختلف مذہبی گروہوں کو ایڈجسٹ کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ فرقہ ورانہ گروہ طاقتور ہوگئے ہیں اور اپنا اپنا حصہ مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عید پر جو تنازع پیدا ہوتا ہے وہ اس نفاق کا اظہار ہے کہ ریاست کو جن معاملات میں آئین قانون اور عقل کو ترجیح دینی چاہیئے اس پر ہم ایڈجسٹ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔فواد چوہدری نے کہ مسجد قاسم علی خان پشاور کے شہاب الدین پوپلزئی ہر سال رمضان اورعید کے چاند کا علیحدہ اعلان کرتے ہیں اور رویت ہلال کمیٹی یہ علیحدہ اعلان کرتی ہے حالانکہ چاند دیکھنا ہمارا مسئلہ نہیں رہ گیا۔کیوں کہ اب تو یہ مرحلہ آگیا ہے کہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ جو مشنز چاند پر روانہ کریں گے وہ زیادہ عرصے تک چاند پر رہ سکیں گے اور کئی لوگ عید بھی چاند پر مناسکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام عقل کا دین ہے اور جو مذہب شروع ہی لفظ اقرا یعنی پڑھ سے ہو اور مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی تلقین کی جاتی ہوں وہ مذہب علم عقل دلیل سے کیسے روک سکتا ہے۔وزیر سائنس کا کہنا تھا کہ جو افراد یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا سائنس، ٹیکنالوجی، علم سے کوئی تعلق نہیں ہم ان کی اس کی دلیل کو مسترد کرتے ہیں، اسلام علم اور عقل کا دین ہے اور احادیث کی روشنی میں اسلام مستقبل میں دیکھنے والا دین ہے جبکہ قرآن تمام علوم کا ماخذ ہے اس لیے میں یہ بات مسترد کرتا ہوں چاند کی رویت کا ٹیکنالوجی سے تعلق نہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کا ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ اس تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے اور ملک میں ایک عید منائیں گے۔انہوں نے کہا کہ مولوی صاحبان اگر کہتے ہے کہ اس کا ٹیکنالوجی سے کوئی تعلق نہیں تو جو عینک پہنتے ہیں وہ بھی ٹیکنالوجی ہےتو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ عینک پہن کر دیکھنے کو حلال اور دوربین سے دیکھنے کو حرام کہیں، کیوں کہ اس عدسہ استعمال ہوتا ہے جو جدید شکل میں مختلف دوربینوں میں استعمال ہوتا ہے۔وزیر سائنس نے بتایا کہ ہم نے چاند کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں اسپیس ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں، ریاضی دانوں، محکمہ موسمیات کو شامل کیا اور علما کی رائے بھی لی گئی اور طریقہ کار وضع کیا۔فواد چوہدری نے بتایا کہ پاکستان میں 8 رصد گاہیں ہیں ان میں کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور، گلگت بلتستان، مظفرآباد اور جیونی میں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب کہا جاتا ہے کہ 29 یا 30 کا چاند ہے اس کا مطلب کیا ہے کہ چاند کو زمین کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں 29 دنوں سے زیادہ لگ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نیا چاند ہوگیا ہے یہ اس وقت ہوتا ہے کہ چاند سورج اور زمین ایک لائن میں آجاتے ہیں اور زمین سے چاند نظر نہیں آتا اس لیے اسے کہتے ہیں کہ نیا چاند ہوجاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سورج اور چاند کی گردش اور سورج کی روشنی کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ غروب آفتاب اور چاند کے طلوع میں 38 منٹ کا فرق ہوگا تو وہ نظر آئے گا۔اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ چاند کا نظر آنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ امام احمد بن حنبل، ڈاکٹر طاہر القادری اور ڈاکٹر جاوید خامدی کہتے ہیں کہ اگر ٹیکنالوجی کے ذریعے تعین کیا جارہا ہے تو چاند کا نظر آنا ضروری نہیں۔انہوں نے کہا کہ تاہم دیکھنے کے لیے ہم نے ایک رویت ایپ بنائی ہے جس میں آپ دیکھ سکیں گے چاند اس وقت کہاں موجود ہے، چاند 22 مئی رات 10 بج کر 39 منٹ پر پیدا ہوگیا ہے اور 23 مئی کو سانگھڑ، بدین، جیونی، پسنی اور ٹھٹہ میں 7 بج کر 36 منٹ سے لے کر 8 بج کر 14 منٹ تک چاند دیکھا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر 20 گھنٹے ہوگی اور دنیا کے تمام ممالک کل عید منا رہے ہیں اور ہماری وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مطابق بھی پاکستان میں کل عید منائی جانی ہے تاہم محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ موسم کی خرابی کے باعث چاند نہیں دیکھا جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے کوئی زبردستی نہیں ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی پاکستان میں بیٹھ کر کہے کہ میں سعودی عرب، ایران، ترکی یا ملائیشیا کے قوانین پر عمل کروں گا نہیں بلکہ ہم پاکستانی قوانین پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کے دفتر کو تجاویز ارسال کردی گئیں ہیں اب دفتر وزیراعظم جو فیصلہ کرے گا ہم اس پر عمل کریں گے لیکن ہمارے اعداد و شمار کے مطابق پوری مسلم دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کل عید الفطر ہوگی۔وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی وزارت کے تیار کردہ چاند کے کیلینڈر کے مطابق کل پاکستان میں عیدالفطر کا پہلا دن ہوگا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج سانگھڑ، پسنی، جیونی، بدین اور ٹھٹھہ میں 7 بج کر 36 منٹ سے لے کر 8 بج کر 14 منٹ کے درمیان چاند دیکھا جاسکتا ہے۔وزیر سائنس نے کہا کہ پشاور میں مفتی پوپلزئی نے کل کی عید کا اعلان کیا ہے حالانکہ پشاور میں آج بھی چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک کو آئین اور قانون کے تناظر میں چلانا ہوتا ہے لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی کہ ہم ہر وقت مختلف مذہبی گروہوں کو ایڈجسٹ کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ فرقہ ورانہ گروہ طاقتور ہوگئے ہیں اور اپنا اپنا حصہ مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عید پر جو تنازع پیدا ہوتا ہے وہ اس نفاق کا اظہار ہے کہ ریاست کو جن معاملات میں آئین قانون اور عقل کو ترجیح دینی چاہیئے اس پر ہم ایڈجسٹ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔فواد چوہدری نے کہ مسجد قاسم علی خان پشاور کے شہاب الدین پوپلزئی ہر سال رمضان اورعید کے چاند کا علیحدہ اعلان کرتے ہیں اور رویت ہلال کمیٹی یہ علیحدہ اعلان کرتی ہے حالانکہ چاند دیکھنا ہمارا مسئلہ نہیں رہ گیا۔کیوں کہ اب تو یہ مرحلہ آگیا ہے کہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ جو مشنز چاند پر روانہ کریں گے وہ زیادہ عرصے تک چاند پر رہ سکیں گے اور کئی لوگ عید بھی چاند پر مناسکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام عقل کا دین ہے اور جو مذہب شروع ہی لفظ اقرا یعنی پڑھ سے ہو اور مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی تلقین کی جاتی ہوں وہ مذہب علم عقل دلیل سے کیسے روک سکتا ہے۔وزیر سائنس کا کہنا تھا کہ جو افراد یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا سائنس، ٹیکنالوجی، علم سے کوئی تعلق نہیں ہم ان کی اس کی دلیل کو مسترد کرتے ہیں، اسلام علم اور عقل کا دین ہے اور احادیث کی روشنی میں اسلام مستقبل میں دیکھنے والا دین ہے جبکہ قرآن تمام علوم کا ماخذ ہے اس لیے میں یہ بات مسترد کرتا ہوں چاند کی رویت کا ٹیکنالوجی سے تعلق نہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کا ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ اس تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے اور ملک میں ایک عید منائیں گے۔انہوں نے کہا کہ مولوی صاحبان اگر کہتے ہے کہ اس کا ٹیکنالوجی سے کوئی تعلق نہیں تو جو عینک پہنتے ہیں وہ بھی ٹیکنالوجی ہےتو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ عینک پہن کر دیکھنے کو حلال اور دوربین سے دیکھنے کو حرام کہیں، کیوں کہ اس عدسہ استعمال ہوتا ہے جو جدید شکل میں مختلف دوربینوں میں استعمال ہوتا ہے۔وزیر سائنس نے بتایا کہ ہم نے چاند کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں اسپیس ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں، ریاضی دانوں، محکمہ موسمیات کو شامل کیا اور علما کی رائے بھی لی گئی اور طریقہ کار وضع کیا۔فواد چوہدری نے بتایا کہ پاکستان میں 8 رصد گاہیں ہیں ان میں کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور، گلگت بلتستان، مظفرآباد اور جیونی میں ہیں۔ کا کہنا تھا کہ جب کہا جاتا ہے کہ 29 یا 30 کا چاند ہے اس کا مطلب کیا ہے کہ چاند کو زمین کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں 29 دنوں سے زیادہ لگ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نیا چاند ہوگیا ہے یہ اس وقت ہوتا ہے کہ چاند سورج اور زمین ایک لائن میں آجاتے ہیں اور زمین سے چاند نظر نہیں آتا اس لیے اسے کہتے ہیں کہ نیا چاند ہوجاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سورج اور چاند کی گردش اور سورج کی روشنی کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ غروب آفتاب اور چاند کے طلوع میں 38 منٹ کا فرق ہوگا تو وہ نظر آئے گا۔اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ چاند کا نظر آنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ امام احمد بن حنبل، ڈاکٹر طاہر القادری اور ڈاکٹر جاوید خامدی کہتے ہیں کہ اگر ٹیکنالوجی کے ذریعے تعین کیا جارہا ہے تو چاند کا نظر آنا ضروری نہیں۔انہوں نے کہا کہ تاہم دیکھنے کے لیے ہم نے ایک رویت ایپ بنائی ہے جس میں آپ دیکھ سکیں گے چاند اس وقت کہاں موجود ہے، چاند 22 مئی رات 10 بج کر 39 منٹ پر پیدا ہوگیا ہے اور 23 مئی کو سانگھڑ، بدین، جیونی، پسنی اور ٹھٹہ میں 7 بج کر 36 منٹ سے لے کر 8 بج کر 14 منٹ تک چاند دیکھا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر 20 گھنٹے ہوگی اور دنیا کے تمام ممالک کل عید منا رہے ہیں اور ہماری وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مطابق بھی پاکستان میں کل عید منائی جانی ہے تاہم محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ موسم کی خرابی کے باعث چاند نہیں دیکھا جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے کوئی زبردستی نہیں ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی پاکستان میں بیٹھ کر کہے کہ میں سعودی عرب، ایران، ترکی یا ملائیشیا کے قوانین پر عمل کروں گا نہیں بلکہ ہم پاکستانی قوانین پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کے دفتر کو تجاویز ارسال کردی گئیں ہیں اب دفتر وزیراعظم جو فیصلہ کرے گا ہم اس پر عمل کریں گے لیکن ہمارے اعداد و شمار کے مطابق پوری مسلم دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کل عید الفطر ہوگی۔ Read the full article
0 notes
dailyswail · 5 years ago
Text
بلوچستان کےساحلی علاقے جیونی سےاکتیس فٹ لمبی مردہ وہیل برآمد
بلوچستان کےساحلی علاقے جیونی سےاکتیس فٹ لمبی مردہ وہیل برآمد
بلوچستان کےساحلی علاقے جیونی سےاکتیس فٹ لمبی وہیل مردہ حالت میں ملی ہے۔۔۔ماہرین ماحولیات کےمطابق وہیل کی موت ماہی گیروں کی جانب سے جال میں پھسنےکےباعث واقع ہوئی۔۔۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اکتیس فٹ لمبی وہیل کی ہلاکت ماہی گیروں کی جانب سے بچھائے گئے ایک جال میں پھنسنے کے باعث واقع ہوئی ہے۔
مردہ وہیل  کی باقیات جیونی کے علاقے گنز سے ملی ہیں۔۔۔تنظیم کے ٹیکنیکل مشیر محمد معظم کےمطابق چھبیس نومبر کو…
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
وفاقی پلاننگ ڈویژن نے جیونی شاہزینک ڈیم کی منظوری دے دی - اردو نیوز پیڈیا
وفاقی پلاننگ ڈویژن نے جیونی شاہزینک ڈیم کی منظوری دے دی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  کوئٹہ: وفاقی پلاننگ ڈویژن نے جیونی شاہزینک ڈیم کی منظوری دے دی ہے جس کی تکمیل سے علاقے میں پانی کی کمی کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی۔ رکن قومی اسمبلی و سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر محمد اسلم بھوتانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جیونی میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے احکامات جاری کردیئے ہیں ، جس کے تحت پلائننگ ڈویژن نے جیونی شاہزنیک ڈیم کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 5 years ago
Text
بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کردیا گیا، نوٹی فکیشن جاری
بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کردیا گیا، نوٹی فکیشن جاری
بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کردیا گیا ہے جب کہ مکران کوسٹل ہائی وے پر پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فیکشن کے مطابق ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ کی لیویز فورس کو پولیس کے ماتحت کردیا گیا، تمام بی ایریا ختم کرکے اُنہیں اے ایریا میں تبدیل کردیا گیا ہے جب کہ کوئٹہ میں بھی لیویز کو پولیس میں ضم کردیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق لسبیلہ سے لے کر جیونی…
View On WordPress
0 notes
jehanbeen-blog · 5 years ago
Text
بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کردیا گیا، نو��ٹی فکیشن جاری
بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کردیا گیا، نوٖٹی فکیشن جاری
لسبیلہ سے جیونی ایرانی بارڈر تک پولیس تعینات رہے گی فوٹو: فائل
کوئٹہ:  
بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کردیا گیا ہے جب کہ مکران کوسٹل ہائی وے پر پولیس اہلکار تعینات ہوں گے۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فیکشن کے مطابق ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ کی لیویز فورس کو پولیس کے ماتحت کردیا گیا، تمام بی ایریا ختم کرکے اُنہیں اے ایریا میں تبدیل کردیا گیا ہے جب کہ کوئٹہ میں…
View On WordPress
0 notes