#بائیو این ٹیک ویکسینز
Explore tagged Tumblr posts
Text
سگریٹ نوشی کرنے والوں پر ویکسین اثر انداز نہیں ہوتی
سگریٹ نوشی کرنے والوں پر ویکسین اثر انداز نہیں ہوتی
ٹوکیو: جاپانی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے اینٹی باڈیز ویکسین لگوانے کے باوجود بھی انتہائی کم درجے پر ہوتا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جاپان کے ماہرین نے کرونا ویکسین کی مکمل خوراکیں لگوانے والے 378 ورکرز کو اپنی تحقیق کا حصہ بنایا، جن کی عمریں 32 سے 54 سالوں کے درمیان تھیں۔ تحقیق کے دوران ماہرین کے سامنے یہ بات آئی کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد ویکسین…
View On WordPress
0 notes
Text
وہ شخص جس نے کورونا ویکسین کو محض چند گھنٹوں میں ڈیزائن کیا
برطانیہ، کینیڈا و سعودی عرب کے بعد امریکا نے بھی فائزر و بائیو این ٹیک کی کورونا ویکسین کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ 2 ڈوز میں استعمال کرائی جانے والی اس ویکسین کو انسانی آزمائش کے 3 مراحل کے بعد بیماری سے بچانے میں 95 فیصد تک موثر قرار دیا گیا اور یہ اتنی تیزی سے منظوری حاصل کرنے والی دنیا کی پہلی ویکسین بھی ہے۔ آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بائیو این ٹیک کے شریک بانی اوغور شاہین نے اس ویکسین کو جنوری میں محض چند گھنٹوں میں ڈیزائن کر لیا تھا۔ یہ بات وال اسٹریٹ جرنل نے ایک پوڈ کاسٹ رپورٹ میں بتائی اور بائیو این ٹیک کے ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ اوغور شاہین نے ایک دن کے اندر ہی ویکسین کا ڈیزائن بنا لیا تھا۔ اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔ اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہو چکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
ایم آر این اے ویکسین کیسے کام کرتی ہیں؟ میسنجر آر این اے ایسا جینیاتی میٹریل ہوتا ہے جو خلیات کو بتاتا ہے کہ پروٹین کو کیسے تیار کرنا ہے۔ فائزر کی ویکسین میں کورونا وائرس کے ایم آر این اے کا چھوٹا حصہ انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے، یہ آر این اے وائرس کے اسپائیک پروٹین کا کوڈ ہوتا ہے، جو جسم کے اندر وائرس کو حملے میں مدد دیتا ہے، جس سے اینٹی باڈی متحرک ہو کر وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔ تو ایم آر این اے ویکسین جسم میں اسپائیک پروٹین کے عمل کو تیز کر کے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے لیے کمپنیوں کو بس ویکسین ڈیزائن کرنے کے لیے محض کورونا وائرس کے جینیاتی سیکونس کی ضرورت تھی اور اسی وجہ سے ان کا کام برق رفتاری سے آگے بڑھا۔
اوغور شاہین 24 جنوری کو طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ایک مقالے کو پڑھ رہے تھے جس میں چین کے ایک خاندان کے بارے میں بتایا گیا تھا جو ووہان گئے اور کووڈ 19 کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ تھی کہ خاندان کے ایک رکن میں وائرس تھا اور تشخیص بھی ہوئی مگر علامات ظاہر نہیں ہوئیں، یعنی ایسے افراد بھی وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں اور پورے چین تک اسے پہنچا سکتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی کمپنی کی توجہ کورونا وائرس ویکسین پر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا اور اگلے ہفتے اپنی کمپنی کو آگاہ کیا کہ اب زیادہ تر آپریشن ویکسین کی تیاری اور آزمائش کے لیے ہوں گے۔ اوغور شاہین نے چینی محققین کی جانب سے 11 جنوری کو شائع کیے جانے والے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو استعمال کر کے 10 مختلف ویکسینز کو ویک اینڈ کے دوران کمپیوٹر میں ڈیزائن کیا، جن میں سے ایک کو بعد میں بڑے ٹرائلز کے لیے منتخب کیا گیا اور اب مختلف ممالک میں اس کے استعمال کی منظوری بھی دی جاچکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس ویکسین کو چند گھنٹوں کے اندر ڈیزائن کیا گیا تھا۔ مگر بایو این ٹیک ایک چھوٹی کمپنی تھی اور اس کے پاس بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹرائل کے لیے لاکھوں ڈوز تیار کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ تو فروری میں اوغور شاہین نے فائر کے ویکسین ریسرچ کی سربراہ کیتھرین جینسین سے رابطہ کیا، جن کے ساتھ بائیو این ٹیک نے 2018 میں ایک فلو ویکسین کے لیے کام کیا تھا۔ کیتھرین جینسین نے اوغور شاہین کو بتایا کہ یہ وبا ایک آفت ہے جو مزید بدتر ہو گی، آپ کے ساتھ کام کر کے ہمیں خوشی ہو گی۔ مارچ کے وسط میں دونوں کمپنیوں نے شراکت داری کا اعلان کیا۔ فائزر نے ویکسین کی تیاری میں لاجسٹکس، ڈوز کی تیاری اور تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے انتظام کو سنبھالا جبکہ بائیو این ٹیک نے ویکسین کے ڈیزائن کو دیکھا۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق 9 نومبر کو دونوں کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی ویکسین 90 فیصد تک موثر ہے، جب فائزر کے سی ای او نے یہ بات کمپنی کے اعلیٰ عہدیداران کو بتائی تو اپنی کرسیوں سے اچھل پڑے تھے۔ تیسرے ٹرائل کے حتمی نتاج اس سے بھی زیادہ بہتر تھے جن کے مطابق یہ ویکسین بیماری سے تحفظ کے لیے 95 فیصد تک موثر ہے جبکہ لوگوں میں مضر سائیڈ ایفیکٹس بھی نظر نہیں آئے۔ اس نئی ٹیکنالوجی کے فوائد تو کئی ہیں مگر ایک نقصان یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے 2 انجیکشن کی ضرورت ہو گی جو 3 ہفتوں کے وقفے میں لگائے جائیں گے جبکہ ویکسین کو منفی 70 ڈگری سینٹ�� گریڈ درجہ حرارت میں منتقل کرنا ہو گا جس کے لیے ڈرائی آئس اور خصوصی فریزر کی ضرورت ہو گی۔ ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ویکسین کتنے عرصے تک لوگوں کو کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرے گی اور کیا اس کو لگانے کے بعد وائرس سے متاثر افراد سے دیگر تک اس کی منتقلی کی روک تھام بھی ہوسکے گی یا نہیں۔
بشکریہ ڈان نیوز
1 note
·
View note
Text
امریکی صدرکا کورونا کی ویکسین کی 50 کروڑ سے زیادہ خوراکیں خریدنے کا اعلان
امریکی صدرکا کورونا کی ویکسین کی 50 کروڑ سے زیادہ خوراکیں خریدنے کا اعلان
امریکی صدر جوبائیڈن نے کورونا کی ویکسین کی 50 کروڑ سے زیادہ خوراکیں خریدنے کا اعلان کیا ہے، جنھیں آئندہ سال تک ترقی پذیر ملکوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس سے قبل امریکہ نے آئندہ سال جون تک ترقی پذیر ملکوں میں تقسیم کے لیے فائزر اور بائیو این ٹیک ویکسین کے 50 کروڑ خوراکیں خریدنے کا اعلان کیا تھا۔ آج کے اعلان کے بعد خریدی جانے والے ویکسینز کی خوراکوں کی کل تعداد ایک ارب ہو جائے گی، جسے دنیا کے کم…
View On WordPress
0 notes
Text
COVID-19 ویکسین سرٹیفیکیشن کم از کم معیار پر پورا اترنا ضروری ہے۔
COVID-19 ویکسین سرٹیفیکیشن کم از کم معیار پر پورا اترنا ضروری ہے۔
یوکے ٹریول پالیسی: بھارت کی ویکسین سرٹیفیکیشن 18 منظور شدہ ممالک کی فہرست میں شام�� نہیں ہے۔
لندن:
برطانیہ کی حکومت نے کہا ہے کہ تمام ممالک سے COVID-19 ویکسین سرٹیفیکیشن کو ��کم سے کم معیار” پر پورا اترنا چاہیے اور یہ کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے بین الاقوامی سفری اصولوں کے لیے “مرحلہ وار نقطہ نظر” پر کام کر رہا ہے۔
یہ کوویشیلڈ کی پیروی کرتا ہے ، سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے آکسفورڈ/آسٹرا زینیکا ویکسین تیار کی ہے ، جسے بدھ کے روز یوکے کی توسیعی مشورے کے اہل کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
لیکن ہندوستان کے ویکسین سرٹیفیکیشن کے 18 منظور شدہ ممالک کی فہرست میں شامل نہ ہونے کے باعث ، برطانیہ جانے والے ہندوستانی مسافروں کو غیر ویکسین کے طور پر سمجھا جاتا رہے گا اور اس وجہ سے پہنچنے پر 10 دن کے لیے قرنطینہ میں رہنے کی ضرورت ہے۔
اس عمل پر بہت زیادہ الجھن کے بعد ، برطانیہ کے حکومتی ذرائع نے بدھ کی رات کہا کہ ملک کی منظور شدہ فہرستوں میں اضافے یا تبدیلیوں کو “باقاعدہ غور” کے تحت رکھا جا رہا ہے ، لیکن کسی ملک کی ویکسین سرٹیفیکیشن کی منظوری کے لیے مطلوبہ معیار کے بارے میں مزید وضاحت نہیں کی گئی۔
“ہماری حالیہ توسیع شدہ انباؤنڈ ویکسینیشن پالیسی کے ایک حصے کے طور پر ، ہم بین الاقوامی سفر کے مقاصد کے لیے درج ذیل ویکسینز فائزر بائیو ٹیک ، آکسفورڈ آسٹرا زینیکا ، موڈرینا اور جانسن (جے اینڈ جے) کو تسلیم کرتے ہیں۔ یوکے حکومت کے ترجمان نے کہا۔
“ہماری اولین ترجیح صحت عامہ کی حفاظت ، اور محفوظ اور پائیدار طریقے سے سفر کو دوبارہ کھولنا ہے ، یہی وجہ ہے کہ تمام ممالک سے ویکسین سرٹیفیکیشن پبلک ہیلتھ اور وسیع تر تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے کم از کم معیار کو پورا کرنا ضروری ہے۔ ہم بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ کام جاری رکھتے ہیں ، بشمول ہندوستان ، ہمارے مرحلہ وار نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کے لئے ، “ترجمان نے کہا۔
وہ مسافر جو مکمل طور پر ویکسین یا بھارت جیسے ملک میں ویکسین نہیں لیتے ہیں ، جو کہ اس وقت برطانیہ کی حکومت کی تسلیم شدہ فہرست میں شامل نہیں ہیں ، انہیں لازمی طور پر روانگی سے پہلے ٹیسٹ لینا چاہیے ، انگلینڈ پہنچنے کے بعد دن دو اور دن آٹھ پی سی آر ٹیسٹ کے لیے ادائیگی کرنی چاہیے اور خود کو الگ تھلگ رکھنا چاہیے۔ 10 دن ، منفی پی سی آر ٹیسٹ کے بعد پانچ دن کے بعد “ٹیسٹ ٹو ریلیز” کے آپشن کے ساتھ۔
کوویشیلڈ بھارت میں زیر انتظام دو اہم COVID-19 ویکسینوں میں سے ایک ہونے کے باوجود بھارت کی ویکسینیشن سرٹیفیکیشن کو تسلیم نہ کیے جانے کے حوالے سے شور مچانے کے حوالے سے ، برطانیہ کے حکومتی ذرائع صرف یہ کہیں گے کہ اس کے اندرونی ویکسینیشن پروگرام کو دوسرے ممالک اور علاقوں تک پہنچانا ہمیشہ مقصود تھا۔ ایک “مرحلہ وار نقطہ نظر” ، جو امریکہ اور یورپ کے ساتھ پائلٹوں کی کامیابی پر مبنی ہے۔
4 اکتوبر سے ، انگلینڈ کا سرخ ، امبر اور سبز ممالک کا ٹریفک لائٹ نظام جو کوویڈ 19 کے خطرے کی سطح پر مبنی ہے اسے سرکاری طور پر ختم کرنا ہے۔ تاہم ، اس کے باوجود کہ کوویشیلڈ کو اب برطانیہ کے اہل ویکسین فارمولیشنز میں تسلیم کیا جا رہا ہے ، یہ کوویشیلڈ ویکسین والے ہندوستانی مسافروں کو برطانیہ کے دورے کی منصوبہ بندی کرنے میں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
بھارتی حکومت نے اس طرح کے اقدام کی شدید مذمت کا اظہار کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر ہندوستان سے ویکسین کے مسافروں کے ساتھ “امتیازی سلوک” کیا جاتا رہا تو وہ “باہمی اقدامات” کریں گے۔
بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن کی میزبانی میں ایک عالمی COVID سربراہی اجلاس میں ، وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ “ویکسین سرٹیفکیٹ کی باہمی شناخت” کے ذریعے بین الاقوامی سفر کو آسان بنایا جانا چاہیے۔
(سوائے سرخی کے ، یہ کہانی این ڈی ٹی وی کے عملے نے ترمیم نہیں کی ہے اور یہ ایک سنڈیکیٹڈ فیڈ سے شائع کی گئی ہے۔)
. Source link
0 notes
Text
کووڈ ویکسین ماں کے دودھ کا حصہ نہیں بنتی،
کووڈ ویکسین ماں کے دودھ کا حصہ نہیں بنتی،
بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کی کووڈ 19 کے خلاف ویکسینیشن سے ان کے بچوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ایم آر این اے ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسینز (موڈرنا اور فائزر۔بائیو این ٹیک ویکسینز) کے متحرک اجزا دودھ میں دریافت نہیں ہوئے۔ محققین نے اس مقصد کے لیے بچوں کو دودھ پلانے والی 7 خواتین کی…
View On WordPress
0 notes
Text
فائزر اور موڈرنا ویکسینز سے طویل المعیاد تحفظ مل سکتا ہے:امریکی تحقیق
فائزر اور موڈرنا ویکسینز سے طویل المعیاد تحفظ مل سکتا ہے:امریکی تحقیق
فائزر اور موڈرنا ویکسینز سے طویل المعیاد تحفظ مل سکتا ہے:امریکی تحقیق نیویارک ، 29جون ( آئی این ایس انڈیا ) فائزر-بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی تیار کردہ ویکسینز سے جسم میں بننے والے مدافعتی ردعمل کا تسلسل برقرار رہتا ہے اور اس سے ممکنہ طور پر کئی برس تک کورونا وائرس سے تحفظ مل سکتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔اس دریافت سے ان شواہد میں اضافہ ہوا…
View On WordPress
0 notes
Text
جانسن اینڈ جانسن کی کووڈ ویکسین کی منظوری
جانسن اینڈ جانسن کی کووڈ ویکسین کی منظوری
عالمی ادارہ صحت نے جانسن اینڈ جانسن کی سنگل ڈوز کووڈ 19 ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی ہے۔ اس طرح یہ تیسری ویکسین بن گئی ہے جس کی منظوری عالمی ادارہ صحت نے دی ہے، اس سے قبل فائزر/بائیو این ٹیک کی ویکسین اور آکسفورڈ/ایسٹرازینیکا کی تیار کردہ ویکسین کی منظوری دی گئی تھی۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کی منظوری دیئے جانے کے بعد عالمی سطح پر کورونا ویکسینز کی فراہمی…
View On WordPress
0 notes
Text
کورونا ویکسینز کے استعمال سے بیماری کی شدت 80 فیصد کم ہوسکتی ہے:برطانوی ماہرین
کورونا ویکسینز کے استعمال سے بیماری کی شدت 80 فیصد کم ہوسکتی ہے:برطانوی ماہرین
برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کےخلاف�� فائزر۔بائیو این ٹیک اور آکسفورڈ ۔ایسٹرا زینیکا ویکسینز کا استعمال شدید بیماری کےخطرے کو 80 فیصد تک کم کرسکتا ہے۔ برطانوی ادارہ برائے صحت عامہ کےاعداد و شمار کے مطابق ویکسینیشن کے تین سے چار ہفتوں بعد نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں جس کے تحت فائزر۔بائیو این ٹیک کی ویکسین کے اثرات 57 تا 61 فیصد جبکہ آکسفورڈ ۔ایسٹرا زینیکا کے اثرات 60 تا 73 فیصد سامنے آئے…
View On WordPress
0 notes
Text
ایمریٹس اسکائی کارگو نے فائزر کی کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ پہنچادی - اردو نیوز پیڈیا
ایمریٹس اسکائی کارگو نے فائزر کی کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ پہنچادی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کراچی: ایمریٹس اسکائی کارگو نے فائزر کی کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ متحدہ عرب امارات پہنچا دی۔ ایمریٹس اسکائی کارگو نے فائزر بائیو این ٹیک کی کورونا ویکسینز پہلی بار متحدہ عرب امارات میں دبئی ہیلتھ اتھارٹی کیلیے پہنچا کر ایک مزید سنگ میل عبور کرلیا ہے، یہ ویکسینز برسلز سے ایمریٹس کی پرواز ای کے 182 سے روانہ ہوئی اور مقامی وقت کے مطابق دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر رات سوا…
View On WordPress
0 notes
Text
کرونا وائرس کی ویکسین پر انسانی تجربات شروع ہو گئے ہیں
کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے سائنس دانوں نے ویکسین تیار کرنے کی اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور ان دنوں برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور اسڑا زینکا اپنی ایک ویکسین کے انسانوں پر تجربات کے مرحلے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ادارے تقریباً دس ہزار رضاکار بھرتی کر رہے ہیں جن میں ہر عمر کے افراد شامل ہوں گے۔ امریکہ نے کرونا وائرس کی ویکسین پر تجربات کا سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے فنڈز دیے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 10260 رضاکاروں کی بھرتی کا کام شروع ہو گیا ہے، جنہیں ویکسین دے کر یہ مشاہدہ کیا جائے گا کہ انسان کا معدافتی نظام اس پر کیا ردعمل ظاہر کرتا ہے اور یہ کہ اس کا استعمال کتنا محفوظ ہے۔
ماہرین کی ٹیم انسان پر ویکسین کے تجربات کے لیے زیادہ تر ایسے افراد کو تلاش کر رہے ہیں جن کا تعلق ہیلتھ کیئر سے ہو یا وہ عوامی خدمات کے لیے کام کرنے والے کارکن ہوں، تاکہ ویکسین کے متعلق واضح طور پر بتا سکیں۔ اس سلسلے کے ابتدائی تجربات 23 اپریل کو شروع ہوئے تھے اور ایک ہزار سے زیادہ رضاکاروں کو ویکسین کے انجکشن دیے گئے تھے جن کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان تھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے کہا ہے کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں 56 سال سے زیادہ عمر کے افراد اور 5 سے 12 سال کی عمروں کے بچوں کو شامل کیا جائے گا۔ اسڑازینکا کے ایکزیکٹو مینی پینگالس کہتے ہیں کہ نئی ویکسین پر انسانی تجربات بہت برق رفتاری سے ایڈوانس مراحل میں داخل ہوئے ہیں، جس کی وجہ آکسفورڈ کی شاہکار سائنسی تحقیق ہے۔
تاہم، آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انسان پر ویکسین کے تجربات کے نتائج سامنے آنے میں دو سے چھ مہینے تک لگ سکتے ہیں۔ برطانیہ کی دوا ساز کمپنیوں نے پہلے ہی برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں، جس سے بڑے پیمانے پر ویکسین تیار کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اور جب یہ شواہد مل جائیں گے کہ ویکسین کا استعمال انسان کے لیے محفوظ ہے اور وہ کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ہے، تو دنیا بھر میں اس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ اسٹرازینکا کے چیف ایکزیکٹو پاسکل سوریاٹ نے پچھلے مہینے کہا تھا کہ اس بارے میں حتمی نتائج کہ ویکسین کس حد تک مؤثر ہے، جون یا جولائی میں سامنے آئیں گے۔
یونیورسٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر تحقیقی کام تیزی سے جاری تیز رہا تو ہمیں جلد ہی اس قدر مواد مل جائے گا جس سے دو تین مہینوں کے اندر ہی یہ نتیجہ نکالا جا سکے گا کہ ویکسین کتنی مؤثر ہے۔ لیکن اگر یہ رفتار کم رہی تو نتائج سامنے آنے میں چھ ماہ تک لگ سکتے ہیں۔ صحت کے عالمی ادارے نے 15 مئی کو انسانوں پر تجربات کے لیے آٹھ ویکسینز کی منظوری دی تھی۔ ان میں ماڈرینا انک، انوویا، فائزر انک اور بائیو این ٹیک شامل ہیں۔ جب کہ چین کی دو کمپنیوں کین سنیو اور سینو ویک کی تیار کردہ ویکسنز کو بھی انسانی تجربات کے لیے منظوری مل گئی ہے۔
دوسری جانب ایک سائنسی طبی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوویڈ 19 کی ویکسین کے ابتدائی نتائج اگرچہ مثبت ہیں۔ تاہم، وہ اتنے زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے ویکسین کے ابتدائی انسانی ٹیسٹ کیے ہیں، جس پر مدافعتی نظام نے اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ لیکن بعض مریضوں پر اس کا منفی اثر ہوا اور سائیڈ ایفکٹس دیکھے گئے۔ اس وقت وائرس کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں 100 سے زیادہ ویکسینز تیاری کے مراحل ہیں، جب کہ صحت کے عالمی ادارے نے 8 کو انسانی تجربات کے لیے منظور کر لیا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note
·
View note
Text
یو اے ای و بحرین، چین کی کورونا ویکسین کو منظور کرنے والے پہلے ممالک بن گئے
یورپی ملک برطانیہ جہاں امریکی میڈیسن کمپنی فائزر و جرمنی کمپنی بائیو این ٹیک کی کورونا ویکسین کی منظوری دینے والا پہلا ملک بنا تھا۔ وہیں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) چین کی کورونا ویکسین کی منظوری دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ ساتھ ہی عرب ملک بحرین نے بھی امریکی و جرمنی کمپنیوں کی کورونا ویکسین کے بجائے چینی کورونا ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی۔ طبی جریدے نیچر کے مطابق یو اے ای فوڈ اینڈ ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی نے 9 دسمبر کو چین کی کورونا ویکسین کے استعمال کی منظوری دی تھی۔ متحدہ عرب امارات کی منظوری کے بعد اس کے پڑوسی ملک بحرین نے بھی چین کی کورونا ویکسین کے استعمال کی اجازت دی تھی۔ دونوں ممالک نے اسلامی دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب کے برعکس امریکی و جرمن کمپنیوں کی ویکسین کے بجائے چین کی ویکسین کی منظوری دی۔ جب کہ ایک اور عرب ملک کویت نے سعودی عرب کی طرح چین کے بجائے امریکی و جرمن کمپنیوں کی ویکسین کے استعمال کی اجازت دی۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے چین کی کورونا ویکسین کے استعمال کی اجازت دیے جانے کے بعد 12 دسمبر کو ویکسین کا عام استعمال شروع کیا گیا۔
متحدہ عرب امارات خلیج ٹائمز کے مطابق یو اے ای میں سب سے پہلے ابو ظہبی میں 12 دسمبر کو ویکسین کو عام افراد کو لگانا شروع کیا گیا اور ابتدائی طور پر نجی ہسپتال نے ویکسینیشن کے عمل کا آغاز کیا۔ ابوظہبی کے حکام نے شہر کے 18 مختلف مقامات پر موجود سرکاری و نجی ہسپتالوں و طبی مراکز میں ویکسین لگانے کی سہولت فراہم کر دی۔ ساتھ ہی حکام نے ویکسین لگانے کے لیے خصوصی ٹیم بھی بنائی ہے جو یومیہ 5 ہزار افراد کو ویکسین کے ٹیکے لگانے کے اہل ہے۔ ابو ظہبی کی انتظامیہ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مذکورہ طبی مراکز، ہسپتالوں اور کورونا قرنطینہ سینٹرز کے باہر بنائے گئے اسٹیشنز پر ویکسین لگوانے جائیں یا پھر ویکسین لگوانے کے لیے آن لائن یا فون کے ذریعے رجسٹریشن کروائیں۔ یو اے ای کی طرح بحرین نے بھی امریکی و جرمن ویکسین کے بجائے چین کی ویکسین کی منظوری دی اور بتایا کہ جلد ان کے ہاں عام افراد کو ویکسین لگانے کا آغاز کر دیا جائے گا۔
بحرین خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بحرین نے چین کی کورونا ویکسین کے عام استعمال کی منظوری دے دی اور جلد ہی اس کا استعمال بھی شروع کر دیا جائے گا۔ بحرین اور یو اے ای ان ممالک میں بھی شامل ہیں جہاں چین کی کورونا ویکسین کی آزمائش بھی ہوئی تھی اور دونوں ممالک نے رواں ماہ کے آغاز میں ویکسین کی کامیاب آزمائش کے نتائج بھی جاری کیے تھے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے چین کی ویکسین کے جاری کیے گئے نتائج میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ویکسین کورونا سے 86 فیصد تک محفوظ رکھتی ہے۔ بحرین اور یو اے ای کی برعکس ان کے پڑوسی ملک کویت نے جرمن و امریکن کمپنیوں کی ویکسین کے استعمال کی مںظوری دی۔
کویت عرب اخبار خلیج ٹائمز کے مطابق کویت کی حکومت نے 13 دسمبر کو فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کی منظوری دی۔ کویت نے اس وقت کورونا ویکسین کی منظوری دی جب تین دن قبل ہی سعودی عرب نے فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کی منظوری دی تھی۔ گلف نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ کویت حکومت کے مطابق دسمبر کے آخر تک انہیں فائزر و بائیو این ٹیک ویکسین کے ڈوز مل جائیں گے اور حکومت نے یومیہ 10 ہزار افراد کو ویکسین لگانے کے انتظامات مکمل کر رکھے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ دسمبر کے اختتام سے قبل سعودی عرب کو بھی فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کے ڈوز مل جائیں گے اور وہاں بھی جلد عام افراد کو ویکسین لگائے جانے کا آغاز ہو گا۔ عرب ممالک سے قبل برطانیہ میں رواں ماہ 8 دسمبر کو فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین عام افراد کو لگانے کا آغاز ہوا تھا۔ برطانیہ میں ویکسین کے عام استعمال کے ایک دن بعد ہی کینیڈا نے مذکورہ ویکسین کے استعمال کی منظوری دی تھی۔ جس کے بعد سعودی عرب اور پھر امریکا نے بھی فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کے استعمال کی منظوری دی تھی۔
علاوہ ازیں سنگاپور نے بھی 14 دسمبر کو فائزر و بائیو این ٹیک کی ویکسین کے استعمال کی منظوری دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن دو ویکسینز کے استعمال کی منظوری دنیا کے مختلف ممالک میں دی گئی ہے، ان ویکسینز کی تیاری کرنے والی کمپنیوں کے ممالک یعنی جرمنی اور چین نے تاحال ویکسینز کے استعمال کی منظوری نہیں دی۔ چین کی کمپنی کی جانب سے بنائی گئی ویکسین کے استعمال کی منظوری متحدہ عرب امارات اور بحرین نے تو دے دی ہے مگر تاحال چین نے اس کے استعمال کی منظوری نہیں دی۔ اسی طرح امریکا و جرمن کمپنیوں کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کی منظوری اگرچہ امریکا نے دے دی ہے، تاہم تاحال جرمنی نے ویکسین کے استعمال کی منظوری نہیں دی۔ دنیا بھر میں 15 دسمبر کی صبح تک امریکا، برطانیہ، کینیڈا و سنگاپور سمیت 9 ممالک نے دو طرح کی کورونا ویکسین کے استعمال کی منظوری دی تھی۔ باقی ممالک میں عرب ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت و بحرین شامل ہیں اور صرف دو ہی ممالک یو اے ای و بحرین نے چین کی کورونا ویکسین جب کہ باقی تمام ممالک نے امریکن و جرمنی کمپنی کی کورونا ویکسین کے استعمال کی منظوری د�� رکھی ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
کورونا وائرس کی ویکسین کی فراہمی، کئی بین الاقوامی تحقیقاتی کمپنیاں میدان میں
کورونا وائرس کی ویکسین کی فراہمی کے لیے کئی بین الاقوامی تحقیقاتی کمپنیاں میدان میں ہیں۔ ان ویکسینز میں ایک امریکی کمپنی فائزر اور جرمنی کے ادارے بائیو این ٹیک کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے۔ دوسری امریکا کے ہی ادارے ماڈرنا اور تیسری برطانوی یونیورسٹی آکسفورڈ نے دوا ساز کمپنی آسٹرا زینیکا کے ساتھ مل کر بنائی ہے۔ برطانیہ میں کل لگائی جانے والی کورونا وائرس ویکسین سے الرجی کے 2 ممکنہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ برطانوی ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی نے ہدایت دی ہے کہ سخت الرجی کی ہسٹری والوں کو فی الحال فائزر ویکسین نہیں لینی چاہیے۔ برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزش��ہ روز ویکسین لگوانے والوں میں سے دو افراد پر ویکسین نے الرجک ری ایکشن کیا۔ ویکسین لگوانے والے دونوں افراد کا تعلق طبی عملے سے ہے اور ری ایکشن کا شکار دونوں افراد کو پہلے سے الرجی کی شکایت تھی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
چینی کورونا ویکسین درمیانی مرحلے کے ٹرائل میں کامیاب قرار
چین میں تیار ہونے والی ایک کورونا 19 ویکسین درمیانی مرحلے کے ٹرائلز میں بیماری کی روک تھام کے حوالے سے کامیاب رہی ہے۔ چین میں اس وقت کئی کورونا ویکسینز کی تیاری پر کام ہو رہا ہے جن میں سے کچھ کو ایمرجنسی استعمال کی منظوری کے بعد لاکھوں شہریوں کو استعمال بھی کرائی جا چکی ہیں۔ اب سینویک بائیوٹیک کی کی ویکسین کے انسانی ٹرائل کے اولین 2 مراحل کے نتائج جاری کیے گئے ہیں۔ نتائج کے مطابق 700 افراد پر ہونے والے ٹرائلز میں رضا کاروں کو ویکسین استعمال کرانے پر برق رفتار مدافعتی ردعمل حرکت میں آیا۔ چینی ویکسین کے نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب گزشتہ چند دن میں 3 ویکسینز کے آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے۔
امریکا، جرمنی اور روس میں تیاری کے مراحل سے گزرنے والی 3 ویکسینز میں انہیں بیماری سے تحفظ کے لیے 90 فیصد سے زیادہ موثر قرار دیا گیا۔ چین میں اس وقت 4 ویکسینز انسانی ٹرائل کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں جن میں سے ایک سینویک کی ویکسین بھی ہے۔ طبی جریدے دی لانسیٹ میں اس ویکسین کورونا ویک کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے۔ نتائج کے مطابق یہ ٹرائل اپریل سے مئی کے دوران ہوئے تھے، جس میں شامل لوگوں میں کووڈ کے خلاف تیزفتار مدافعتی ردعمل حرکت میں آیا، تاہم نتائج میں ویکسین سے تحفظ کی شرح نہیں دی گئی۔ نتائج لکھنے والے ایک محقق زو فینگسائی نے بتایا کہ ٹرائل کے پہلے مرحلے میں 144 جبکہ دوسرے مرحلے میں 600 افراد شامل تھے، جس کا مطلب ہے کہ یہ ویکسین ایمرجنسی استعمال کے لیے موزوں ہے۔ ان افراد کی عمر 18 سے 59 سال کے درمیان تھی۔
پہلے مرحلے میں ویکسین لینے والے 96 میں سے 23 نے معتدل سائیڈ ایفکیٹس کو رپورٹ کیا، جیسے انجیکشن کے مقام پر تکلیف، بس ایک فرد کو شدید ری ایکشن ہوا، مگر 3 دن میں علاج کے بعد ٹھیک ہو گیا۔ دوسرے مرحلے کے ٹرائل کے دوران رضاکاروں میں ویکسین انجیکشن کے بعد بہت تیزی سے اینٹی باڈیز بنی تھیں، مگر اینٹی باڈیز کی سطح اس بیماری کو شکست دینے والے مریضوں کے مقابلے میں کم تھی۔ اس ویکسین کے زیادہ بڑے پیمانے پر ہونے والے تیسرے مرحلے کا کوئی ڈیٹا ابھی تک جاری نہیں ہوا۔ چین میں تو اب کورونا وائرس کی وبا پر لگ بھگ مکمل قابو پایا جا چکا ہے، اسی چینی ویکسینز کے ٹرائل پاکستان سمیت مختلف ممالک میں ہو رہے ہیں۔ سینویک کی ویکسین کے تیسرے مرحلے کا ٹرائل انڈونیشیا، برازیل اور ترکی میں جاری ہے۔
برازیل میں اس ویکسین کا ٹرائل گزشتہ ہفتے ایک رضاکار کی ہلاکت کے بعد کچھ دیر کے لیے روکا گیا مگر بعد میں دریافت ہوا کہ اس کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں۔ عام طور پر کسی ویکسین کے پہلے اورر دوسرے مراحل میں اس کے محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے جبکہ دیکھا جاتا ہے کہ تیسرے مرحلے میں کس حد تک موثر ہو سکتی ہے، یہی نتائج سینویک نے جاری کیے۔ چین کی یہ ویکسین فائزر/بائیو این ٹیک اور موڈرینا کی ویکسینز سے مختلف ہے جس کی تیاری کے لیے زیادہ روایتی طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے۔ اس ویکسین میں وائرس کا کیمیائی طور پر ناکارہ کیا جانے والا ورژن استعمال کیا گیا ہے۔ نتائج میں بتایا گیا کہ رضاکار کو ویکسین کا ایک ڈوز استعمال کرانے کے 14 دن کے اندر وائرس سے لڑنے والی اینٹی باڈیز بن گئیں۔ کمپنی کے مطابق یہ خاصیت اسے ایمرجنسی استعمال کے لیے موزوں بناتی ہے، بالخصوص کسی جگہ وبا پھیلنے یا طبی ورکرز کے لیے۔ ابھی تک کسی بھی ویکسین کے نتائج میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کا استعمال کتنے عرصے تک لوگوں کو بیماری سے تحفظ فراہم کر سکے گا۔
سینویک کے ایک ترجمان نے 18 نومبر کو واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کمپنی کی جانب سے فوری طور پر تیسرے مرحلے کی افادیت کی شرح کے ابتدائی نتائج جاری نہیں کیے جارہے ہیں، کیونکہ ابھی تک ٹرائل میں شامل رضاکاروں میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد زیادہ نہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج کے لیے ہمیں کیسز کی ایک مخصوص تعداد کا انتظار کرنا ہو گا، جس کے بعد ہی ڈیٹا کا تجزیہ ہو سکے گا، ابھی ہمارے پاس یہ ڈیٹا نہیں، تو اس کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ اس کے مقابلے میں موڈرینا اور فائزر اپنے تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج جلد جاری کرنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ امریکا میں اس وبا کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ 10 دن میں فائزر اور بائیو این ٹیک، روس اور موڈرینا کی ویکسینز کے انسانی ٹرائل کے تیسرے مرحلے کے ابتدائی جاری ہوئے، جن میں وہ بیماری سے بچانے کے لیے 90 فیصد سے زیادہ موثر ثابت ہوئیں۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
فائزر اور جانسن اینڈ جانسن سےموڈرنا ویکسین زیادہ مؤثر کیوں ہے؟
فائزر اور جانسن اینڈ جانسن سےموڈرنا ویکسین زیادہ مؤثر کیوں ہے؟
ویب ڈیسک : امر یکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی نئی تحقیق کے مطابق کورونا کیخلاف موڈرناویکسین فائزراورجانسن اینڈ جانسن کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ہے۔
انٹر نیشنل ایجنسی کا کہنا ہے امر یکی سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی نئی تحقیق کے مطابق موڈرنا کی کووڈ ویکسین بیماری سےمتاثر افراد میں اسپتال کے داخلے کی روک تھام کے لیے مؤثر ترین ہے۔ تحقیق میں مارچ سے اگست 2021 کے دوران 18 امریکی ریاستوں کے 21 اسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والے 36 سو سے زیادہ کورونا مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ویکسی نیشن مکمل ہونےکے4 ماہ بعد تک موڈرنا اور فائزر ویکسینز کی اسپتال میں داخلے کی روک تھام کے حوالے سے افادیت لگ بھگ ایک جیسی تھی۔
5 ماہ کے عرصے کے دوران موڈرنا، فائزر، بائیو این ٹیک اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینز کی افادیت کا موازنہ کیا گیا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ موڈرنا ویکسین کے استعمال سے اسپتال میں داخلے کا خطرہ 93 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ فائزر ویکسین میں یہ شرح 88 فیصد اور جانسن اینڈ جانسن ویکسین میں 71 فیصد دریافت کی گئی۔
مگر 5 ویں مہینے میں فائزر کی افادیت 91 فیصد سے گھٹ کر 77 فیصد تک پہنچ گئی، مگر موڈرنا کی افادیت میں 5 ویں مہینے میں محض ایک فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ حقیقی دنیا کے ڈیٹا میں ویکسین سے ملنے والے تحفظ کی شرح کچھ حد تک مختلف ہوسکتی ہے، مگر تمام ویکسینز سے اسپتال میں داخلے کے خطرے سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 313648615783074, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
Text
بل گیٹس دنیا کے ہر فرد تک کورونا ویکسین پہنچانے کے لیے پرعزم
رواں ہفتے فائزر اور بائیو این ٹیک کے ساتھ روس کی جانب سے ویکسینز کے انسانی ٹرائل کے تیسرے اور آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے، جن میں انہیں کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے بہت زیادہ موثر قرار دیا۔ ان اعلانات کے بعد اب بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے دنیا میں ہر ایک تک کورونا ویکسینز کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے مزید 7 کروڑ ڈالرز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 12 نومبر کو جاری بیان میں ملینڈا گیٹس نے کہا 'کووڈ 19 ہر جگہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہر ایک کو مساوی بنیادوں پر ٹیسٹوں، ادویات اور ویکسینز تک رسائی اس وقت حاصل ہو، جب وہ دستیاب ہو، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہوں'۔ اس فاؤنڈیشن کی جانب سے 5 کروڑ ڈالرز کوویکس ایڈوانس مارکیٹ کمیٹمنٹ گروپ کو دینے کا وعدہ کیا گیا جبکہ 2 کروڑ ڈالرز کی امداد کولیشن آف ایپیڈیمک پریپرڈینس انوویشنز کو دی جائے گی۔ بل اینڈ ملینڈا فاؤنڈیشن کے مطابق یہ دونوں ادارے ایک عالمی گروپ کووڈ 19 ٹولز ایکسیلریشن کی قیادت کر رہے ہیں جو دنیا بھر میں ہر ایک تک کووڈ 19 ٹیسٹوں، علاج اور ویکسینز کی مساوی رسائی کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس سے قبل اگست میں بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے دنیا کے سب سے بڑے ویکسین تیار کرنے والے ادارے سے شراکت داری کی تھی تاکہ ترقی پذیر ممالک تک کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین کو سستی قیمت میں فراہم کیا جاسکے۔ بل گیٹس نے اس موقع پر اعلان کیا تھا کہ وہ اور ان کا فلاحی ادارہ کورونا ویکسینز کو تقسیم کرنے کے لیے 15 کروڑ ڈالرز خرچ کرے گا۔
اس مقصد کے لیے گیٹس فاؤنڈیشن اور بھارت سے تعلق رکھنے والے سیرم انسٹیٹوٹ کے درمیان شراکت داری ہو رہی ہے، جس کی جانب سے کم اور ��توسط آمدنی والے ممالک میں کورونا ویکسین کے 10 کروڑ ڈوز 3 ڈالر (5 سو پاکستانی روپے سے زائد) فی ڈوز کے حساب سے تقسیم کیے جائیں گے۔ اس شراکت داری کے تحت جب بھی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کسی ویکسین کو تیار اور استعمال کی منظوری مل جائے گی، تو 2021 کی پہلی ششماہی میں اس کے ڈوز تیار کرنے کا کام شروع ہو جائے گا۔ یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب امیر ممالک جیسے امریکا اور برطانیہ کی جانب سے ادویات ساز کمپنیوں کی جانب سے تیار کی جانے والی ویکسینز کی پروڈکشن اور تقسیم کرنے کے حقوق خریدنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ گیٹس فاؤنڈیشن سیرم فاؤندیشن کے ساتھ کام کر کے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گا کہ کسی منظور شدہ ویکسین زیادہ قیمت کی وجہ سے غریب ممالک کی پہنچ سے دور نہ ہو جائے۔
ویسے تو اس حوالے سے ویکسینز ابھی تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہیں مگر ادویات ساز کمپنیوں نے ایک ڈوز کی قیمت کا عندیہ دیا ہے۔ جیسے آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے دنیا بھر میں اپنی ویکسین فی ڈوز 3 ڈالرز میں فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کے مقابلے میں امریکا کی کمپنی موڈرینا کی جانب سے 2 ڈوز پروگرام کی لاگت 74 ڈالرز (لگ بھگ ساڑھے 12 ہزار پاکستانی روپے) لگائی گئی ہے۔ گیٹس فاؤنڈیشن کے اس منصوبے میں ویکسین الائنس گاوی کو بھی شامل کیا گیا جو ترقی پذیر ممالک کو ویکسینز فراہم کرنے والا ادارہ ہے اور اس سے سیرم انسٹیٹوٹ کو پروڈکشن گنجائش بڑھانے میں مدد ملے گی۔ بل گیٹس کا کہنا تھا کہ ہر ایک تک اس کی رسائی کو جلد از جلد یقینی بنانے کے لیے زبردست پروڈکشن گنجائش اور عالمی تقسیم کاری نیٹ ورک کی ضرورت ہے، اس شراکت داری سے دنیا کو یہ دونوں مل سکیں گے، یعنی سیرم انسٹیٹوٹ کا پروڈکشن سیکٹر اور گاوی کی سپلائی چین'۔
سیرم ویکسینز تیار کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے جو ہر سال مختلف ویکسینز کے ڈیڑھ ارب ڈوز تیار کرتا ہے۔ جولائی کے شروع میں بل گیٹس نے ایک آن لائن خطاب کے دوران کہا تھا کہ ورونا وائرس کے علاج کے لیے ادویات اور مستقبل میں ویکسین زیادہ پپیسے دینے والوں کی بجائے وہاں فراہم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا 'اگر ہم ادویات اور ویکسینز کو زیادہ ضرورت مند افراد اور مقامات کی بجائے زیادہ بولی لگانے والوں کو دے دیں گے تو ہمیں زیادہ طویل، غیرمنصفانہ اور جان لیوا وبا کا سامنا ہو گا'۔ انہوں نے کہا 'ہمیں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو مساوانہ طریقے سے ادویات اور ویکسینز کی سپلائی کے مشکل فیصلہ کر سکیں'۔ بل گیٹس اپریل میں اربوں ڈالرز ویکسیین کی تیاری پر خرچ کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت تیار ہونے والے کووڈ 19 ویکسین کے لیے 75 کروڑ ڈالرز دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ بل گیٹس کی جانب سے فراہم کیے جانے والے کروڑوں ڈالرز ویکسین کی 30 کروڑ ڈوز کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔
اپریل میں انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے ��لاف تیار کی جانے والی 7 بہترین ویکسینز کے لیے فیکٹریوں کی تعمیر پر اربوں ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔ بل گیٹس نے کہا کہ تیاری کے مراحل سے گزرنے والی متعدد ویکسینز میں سے 7 بہترین کا انتخاب اور ان کی تیاری کے لیے فیکٹریاں تعمیر کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا 'اگرچہ ہم آخر میں ان میں سے 2 کا ہی انتخاب کریں گے، مگر ہم تمام ویکسینز کے لیے الگ الگ فیکٹریوں کی تعمیر پر سرمایہ لگائیں گے، ہو سکتا ہے کہ اربوں ڈالرز ضائع ہو جائیں مگر آخر میں موثر ترین ویکسین کی فیکٹری کے لیے وقت ضرور بچ جائے گا'۔ ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کی تیاری اور فیکٹری کی بیک وقت تعمیر کرنا، ویکسین کو تیزی سے تیار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کئی ماہ ضائع ہونے سے بچالیں گے کیونکہ اس وقت ہر مہینہ قیمتی ہے۔
بل گیٹس نے ایک بلاگ پوسٹ میں ویکسین کی تیاری اور تقسیم کے عمل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے لکھا کہ ایک ویکسین کی تیاری میں 18 ماہ لگتے ہیں مگر ان کے خیال میں کورونا وائرس کے خلاف ویکسن جلد از جلد 9 ماہ یا زیادہ سے زیادہ 2 سال میں تیار ہو جائے گی۔ انہوں نے لکھا 'ابھی 115 مختلف کووڈ 19 ویکسینز تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہیں، میرے میں ان میں سے 8 سے 10 زیادہ بہتر نظر آرہی ہیں اور ہمارا ادارہ ان سب پر نظر رکھے گا'۔ بل گیٹس نے کہا کہ بہترین ویکسینز کے لیے مختلف اقسام کی حکمت عملی پر عمل کیا جانا چاہیے تاکہ جسم کو کووڈ 19 کے خلاف تحفظ مل سکے۔ مگر کووڈ 19 کی ویکسین کے حوالے سے اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ آج تک کسی کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ تاہم مائیکرو سافٹ کے بانی کا کہنا تھا کہ حالات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک ایک ویکسین تیار نہیں ہو جاتی۔ انہوں نے کہا 'انسانیت کے لیے اس سے زیادہ فوری کام کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ کورونا وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کی جائ، اگر ہم معمول کی زندگی پر لوٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک محفوظ اور موثر ویکسین تیار کرنا ہو گی'۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
سنہ 2021 سے قبل کورونا کی پہلی ویکسین کی امید نہیں، عالمی ادارہ صحت
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ماہر کا کہنا ہے کہ محققین کورونا وائرس کے انسداد کے لیے ویکسین تیار کرنے کی جانب مثبت پیشرفت کر رہے ہیں لیکن 2021 کے اوائل سے قبل ان کے استعمال کی امید نہیں کی جاسکتی۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسیز پروگرام کے سربراہ مائیک ریان نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت ویکسین کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے، لیکن تب تک وائرس کا پھیلاؤ روکنا ضروری ہے۔ دنیا بھر میں وبا کے یومیہ کیسز کی تعداد ریکارڈ سطح کے قریب پہنچ گئی ہے۔ مائیک ریان نے کہا کہ 'ہم اچھی پیشرفت کر رہے ہیں، متعدد ویکسین ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں ہیں اور اب تک قوت مدافعت بڑھانے کے حوالے سے کوئی ویکسین ناکام نہیں ہوئی ہے۔'
تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'حقیقی طور پر اگلے سال کے اوائل میں ان ویکسین کو عوامی سطح پر لایا جاسکے گا۔' انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت ممکنہ ویکسینز تک رسائی اور ان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اس کے حوالے سے منصفانہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پورے عالم کی بھلائی کے لیے ہے، وبا کی ویکسین کے لیے کسی امیر غریب کا فرق نہیں ہونا چاہیے اور یہ سب کے لیے ہونی چاہیے۔' مائیک ریان نے اسکولوں کو کورونا کے مقامی سطح پر منتقلی پر قابو پانے تک دوبارہ تدریسی عمل کے آغاز سے متعلق تنبیہ کی۔
واضح رہے کہ یہ بات سامنے آئی تھی کہ امریکی حکومت نے پی فائزر انکارپوریشن اور جرمن کمپنی بائیو این ٹیک ایس ای کی جانب سے تیار کی جانے والے کورونا ویکسین کے 10 کروڑ ڈوز 1.95 ارب ڈالرز میں خرید لیے ہیں۔ کمپنیوں کی جانب سے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ امریکی حکومت کو مزید 50 کروڑ ڈوز خریدنے کی بھی اجازت دی جائے گی۔ خیال رہے کہ متعدد ممالک میں کسی حد تک روک تھام کے بعد کورونا کی وبا نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے، بالخصوص براعظم افریقہ میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes