#ا��امارات
Explore tagged Tumblr posts
Text
قومی ایئرلائن کی بدحالی

قومی اہمیت کے حامل اداروں کی تباہی اور بربادی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اِن اداروں کی اس تباہی میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کے علاوہ اِن اداروں کے افسروں اور ملازمین نے بھی ان کی پامالی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ سب نے انھیں لوٹنے اور برباد کرنے میں خوب کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ایئر لائن کسی زمانے میں دنیا کی بہترین ایئر لائن تصور کی جاتی تھی اور ’’ باکمال لوگ اور لاجواب سروس‘‘ کے لوگو اور سلوگن کے ساتھ یہ دنیا میں اپنا نام بھی کما ��ہی تھی۔ ہم بلاشبہ اپنی اس ایئرلائن میں فخر بھی کیا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور آج یہ حال ہے کہ اسے زندہ رکھنے کے لیے اربوں روپے کے ٹیکے لگائے جارہے ہیں۔ اس کے فلیٹ میں صرف 21 طیارے رہ گئے ہیں اور جن میں سے صرف 16 طیارے فنکشنل ہیں۔ باقی ناکارہ ہو کر ہینگرز میں کھڑے ہیں۔ ہماری اس ایئر لائن نے اپنی ماہرانہ قابلیت کی وجہ سے کبھی امارات ایئر لائن کی بھی تربیت کی تھی، جس ایئرلائن کو اس نے چلنا سکھایا تھا وہ آج کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہماری اپنی ایئر لائن تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کمپنی یا ادارے کو تباہ کرنا ہو تو اس میں ضرورت سے زیادہ اسٹاف بھر دیا جائے۔
پاکستان اسٹیل ملز کو اسی طرح تباہ و برباد کر دیا گیا ۔ 1988 میں جب جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالا آمرانہ دور کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کا موقعہ ملا تو اس نے اپنے ساتھ کی گئی ضیا دور کی زیادتیوں کا بدلا اس طرح لیا کہ قومی تحویل میں شامل ہر ادارے میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کر کے اسے خساروں سے دوچار کر دیا۔ پیپلز پلیسمنٹ بیورو بنا کر اپنے چاہنے والے کارکنوں اور افراد کو کسی میرٹ کے بغیر صرف سیاسی بنیادوں پر ملازمت دے کر اداروں کو ایسی تباہی سے دوچار کر دیا کہ سب کے سب یا تو آج برباد ہو چکے ہیں یا پھر عنقریب ہونے والے ہیں۔ میرٹ کے بغیر بھرتیوں پر نااہل افراد کو بھرتی کر کے ایک طرف مالی بوجھ کا اضافہ کیا تو دوسری جانب اِن نااہل افراد نے جو صرف مال کمانے کی غرض سے اِن اداروں میں شامل ہوئے تھے دونوں ہاتھوں سے اسے نوچنے اور لوٹنے لگے۔ پاکستان اسٹیل ملز کو ہر ایک نے لوٹا۔ افسروں اور ملازمین نے بھاری بھاری تنخواہوں کے علاوہ تمام مراعات سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ صحت اور دیگر مفت سہولتوں سے خود بھی فیض یاب ہوتے رہے بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی نوازتے رہے۔

اسپتالوں اور ڈاکٹروں نے بھی پینل حاصل کر کے جعلی بلوں میں خوب مال کمایا۔ اسی طرح ملک بھر کے ٹھیکیداروں نے بھی من مانے ریٹس پر ٹینڈر حاصل کیے اور افسروں اور مزدور یونین کے اہل کاروں کو بھاری رشوتیں دیکر انھیں پاس بھی کروا لیا۔ نتیجہ بالآخر وہی ہوا جو ایسے اداروں کا ہوا کرتا ہے۔ اچھے بھلے چلتے ہوئے ادارے کس طرح تباہ وبرباد کیے جاتے ہیں یہ اسٹیل ملز کی موجودہ حالت دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اسٹیل ملز بے شک پیپلزپارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کی کاوشوں کا نتیجہ تھی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسے تباہ بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے ہی کیا۔ وہ آج بھی اس کی نج کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قوم اپنی جیب سے ہر سال ان اداروں کے خسارے پورے کررہی ہے اور پیپلزپارٹی غریبوں اور مزدوروں کی ہمدرد بن کر ہر الیکشن میں ووٹ بھی حاصل کرتی رہی ہے۔ اِن سسکتے اداروں کو چلانے کے لیے ہماری ہر حکومت قومی خزانے سے ہر سال اربوں روپے خرچ کرتی ہے اور یہ ادارے ہیں کہ مسلسل برباد ہوتے جارہے ہیں۔ آج بھی اگر کوئی حکومت پی آئی اے اور اسٹیل ملزکی نج کاری کی بات کرتی ہے اور سب سے پہلے اس کی مخالفت پاکستان پیپلز پارٹی ہی کرتی ہے۔
پی آئی اے کے پاس اب نئے طیارے خریدنے کے لیے بھی پیسہ نہیں۔ 16 طیاروں پر مشتمل فلیٹ کے ساتھ یہ ایک قومی ایئرلائن کہلاتی ہے جب کہ دنیا کی بیشتر پرائیویٹ ایئرلائنز کے پاس بھی اس سے زیادہ طیاروں کے فلیٹ ہیں۔ ہم کس طرح اپنی اس قومی ایئرلائن پر فخر کر سکتے ہیں جب کہ ہم بہت سی دوسری ایئر لائنوں کے سیکڑوں طیاروں پر مشتمل فلیٹ دیکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ ہم جلد سے جلد اس کی نج کاری کر دیں اس سے پہلے کہ کوئی اسے لینے والا بھی نہ ہو۔ ملازمین کو یہ خوف ہے کہ وہ اس طرح بے روزگار ہو جائیں گے تو انھیں یہ جاننا ہو گا کہ نج کاری کرنے سے وہ مزید تباہی سے بچ سکتے ہیں کیونکہ اسے خریدنے والا اُسے بند نہیں کرے گا، بلکہ پیسہ لگا کراس میں نئے طیاروں کو بھی شامل کرے گا اور اس طرح نہ صرف اُن کی نوکریاں بھی محفوظ ہونگی بلکہ ملازمت کے نئے مواقع بھی نکلیں گے۔ محنت سے کام کرنے والوں کو کوئی بھی نہیں نکالے گا۔ سرکاری اداروں میں مزدور یونینز ہمیشہ ورکروں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر حکومتوں کو بلیک میل کیا کرتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے اس عمل سے اداروں کو مزید تباہ و برباد بھی کیا کرتی ہیں۔ اسے چاہیے کہ ورکروں کو نیک نیتی سے کام کرنے پر راغب کرے ناکہ کام چوروں اور نااہل افراد کی حوصلہ افزائی کیا کرے ۔
ہمیں یہ جان لینا ہو گا کہ جب تک خسارے میں چلنے والے اداروں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتے کبھی بھی غیرملکی قرضوں سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔ واپڈا، گیس کمپنیاں ، ریلوے ، اسٹیل ملز، پی آئی اے سمیت نجانے کتنے ادارے ہیں جن کے خسارے ہر سال قومی خزانے سے پورے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اس طرز عمل پر سنجیدگی سے غور کرے اور اگر وہ ملک اور قوم سے مخلص ہے تو ایسے اداروں کو منافع بخش بنانے کی کوئی تجاویز پیش کرے ناکہ انھیں پرائیوٹائز کرنے کی مخالفت کرے۔ آج ہمارے یہاں ایک نہیں بلکہ تین چار نجی ایئرلائنز کام کر رہی ہ��ں اور کسی کی حالت ہماری اس قومی ایئرلائن کی مانند نہیں ہے۔ تو آج اگر اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نج کاری کر دی جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ یقینا قوم کے مفاد میں ہی ہو گا۔ ملک اور قوم اپنی آمدنی سے اِن اداروں کے خسارے پورے کرنے سے نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ یہ ادارے بھی مکمل تباہ و برباد اور نیست و نابود ہونے سے بچ جائیں گے۔
ڈاکٹر منصور نورانی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Photo

سحر التفريق بين الزوجين سحر التفريق بين الزوجين والطلاق سحر التفريق والطلاق سحر التفريق السفلي سحر التفريق بدم الحيض سحر التفريق بالثوم سحر التفريق بالقطران سحر التفريق والطلاق بالصور سحر التفريق بين شخصين
0 notes
Text
لیبیا میں خانہ جنگی کی نئی لہر
اقوامِ متحدہ اور عالمی قوتوں نے لیبیا میں مسلح دستوں کے دارالحکومت طرابلس پر چڑھائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق حکومتی کی حامی فوجوں اور باغیوں کے رمیان طرابلس کے قریب جھڑپیں جاری ہیں۔ دنیا کے امیر ترین جی سیون ممالک نے لیبیا کے باغیوں سے کہا ہے کہ وہ طرابلس پر چڑھائی فوراً روک دیں۔ اقوامِ متحدہ نے بھی اسی طرح کا اعلان کیا ہے۔ اپنے آپ کو لیبیئن نیشنل آرمی (العسكري القوی فی ليبيا) کہلانے والے باغی مسلح دستوں کے سربراہ خلیفہ حفتر نے طرابلس پر چڑھائی کا حکم دیا تھا۔
لیبیا میں یہ بد امنی اس پس منظر میں پیدا ہوئی جب اقوامِ متحدہ کی لیبیا سے متعلق ایک کانفرنس ہونے جارہی ہے جس میں لیبیا میں ممکنہ نئے انتخابات سے متعلق فیصلہ ہونا ہے۔ طرابلس میں اس وقت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت قائم ہے اور اس حکومت کو اقوامِ متحدہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ طرابلس میں اقوامِ متحدہ کی تعینات افواج کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا گیا ہے۔ سنہ 2011 میں کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے لیبیا میں مسلسل خانہ جنگی یا شورشیں چلی آرہی ہے۔
لیبیا کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ لیبیئن نیشنل آرمی کے سربراہ حفتر اپنے زیرِ کمان افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ طرابلس پر چڑھائی کر دیں۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گُتریس طرابلس میں موجود تھے۔ جنرل حفتر نے مسٹر گُتریس سے اس وقت بات کی تھی جب وہ بن غازی میں تھے۔ اطلاعات کے مطابق انھوں نے کہا تھا کہ ان کی فوج اُس وقت تک اپنی کارروائی نہیں روکے گی جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہے۔ لیبیئن نیشنل آرمی نے کارروائی کر کے طرابلس کے جنوب میں سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قصبے پر قبضہ کر لی�� تھا۔
اب خبریں آرہی ہیں کہ جنرل حفتر کے دستوں نے طرابلس کے ایئر پورٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایئر پورٹ سن 2014 سے بند پڑا ہوا ہے۔ طرابلس کے مشرق میں مصراتہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہاں سے حکومت کی وفادار فوج کو دارالحکومت کے دفاع کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی وفادار فوج نے کہا ہے کہ اُس نے باغیوں کے کئی ارکان کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس برس کے آغاز میں باغیوں نے لیبیا کے جنوب میں واقع تیل کے کنوؤں پر قبضہ کر لیا تھا۔
ردِّعمل کیا ہے؟
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل مسٹر گُتریس نے ایک ٹویٹ میں بہت ’افسوس اور تشویش کے ساتھ‘ امید کا اظہار کیا ہے کہ دارالحکومت کو میدانِ جنگ بننے سے بچانے کے ابھی بھی رستے موجود ہیں۔ جی 7 کے ممالک نے بھی خانہ جنگی کی نئی لہر پر ردِّعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ فوجی کاروائی کو روک دیا جائے۔ ’ہم لیبیا میں فوجی کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں ہم خطے کی تمام ممالک سے کہتے ہیں کہ لیبیا میں انتخابات اور ایک پائیدار استحکام کے لیے مدد کریں۔‘ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ایک بند دروازے میں اجلاس کیا تھا۔ ادھر روس میں وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کریملن جنرل حفتر کی کاروائی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ ’لیبیا کے لیے پرامن سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے۔‘
اقوام متحدہ کے ایک خصوصی ایلچی عسان سلامے نے کہا ہے کہ 14 سے لے کر 16 اپریل کو ہونے والی کانفرنس میں ابھی تک وقت ہے تاہم حالات کی ابتری کی صورت میں دوسرے اقدام لینے کی مجبوری ہو سکتی ہے۔ جنرل حفتر کے دستوں کو ملی جلی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ جنوب میں ان کی حامی فوج کو کامیابی ملی ہے لیکن مغرب میں انھیں پسپائی ہوئی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس وقت انھیں اپنا سیاسی قد بنانے میں کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور آیا وہ طرابلس پر واقعی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ لیبیا میں کرنل قضافی کے خلاف بغاوت پر واپس آئے تھے۔ اس کے بعد وہ شوترشوں سے بھرے ہوئے لیبیا کے سب سے زیادہ طاقتور جنرل کے طور پر اُبھرے۔
دنیا بھر میں ان کے خلاف مذمتی بیانات کے باوجود انھیں خطے کے کئی ممالک کی حمایت ملی ہے جن میں مصر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ لیبیا میں سیاسی حل کی تمام کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ جنرل حفتر نے سنہ 1969 میں کرنل قذافی کو اقتدار پر قبضہ کرنے میں مدد دی تھی۔ اس کے بعد ان کے قذافی سے تعلقات خراب ہو گئے اور وہ امریکہ چلے گئے۔ وہ سنہ 2011 میں واپس آئے اور قذافی کی مخالف فوج کے کمانڈر بن گئے۔ گذشتہ برس دسمبر میں انھوں نے طرابلس میں وزیراعظم فیاض السراج سے ملاقات کی تھی لیکن کانفرنس میں ان سے سرکاری طور ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ ا
بشکریہ بی بی سی اردو
2 notes
·
View notes
Text
ا ا سره د افغان دیپلوماتانو د همکارۍ نه کولو تړون
که چیرې ا ا په رسمیت وپیژندل شي دغه ډيپلوماتان لرې کیږي او ا ا خپل نوي استازي ټاکي
په روسیه کې د افغانستان سفیر ویلي: “ټول افغان ډیپلوماتانو ګډه پریکړه کړې چې له طالبانو سره همکاري نه کوي.” په مسکو کې د افغانستان سفیر په یوه بیان کې ویلي، “ټول افغان ډیپلوماتانو په ګډه پرېکړه کړې چې دوئ له طالبانو سره همکاري نه کوي” دا پداسې حال کې ده که امارات په رسمیت وپیژندل شي دغه کسان لرې کوي او که په رسمیت ونه پیژندل شي د دغه خلکو دندې خپله ختمیږي نو تر ډیره به دغه کسانو ته اړتیا نه وي…

View On WordPress
0 notes
Link

PAKISTAN
PAKISTAN NAVY
C-2021
پاکستان نیوی میں بطور
نہ میں شمولیت اختیارکر
پاکستان کے ہر شہریوں کے لئے ملازمت کے مواقع
میزان ( جگر کی )
ایمنی و کار ڈرائیر کیمری-H)
یاری مرورگر شما گرية لمرتيل
اہلیت کی شراط:
تعلی پالیسی ریگایان ( کنگری .C)
میل ساخن آمی)
معمولی طور پرم ازم60 محمد میر
10= 20 سالي
قبل اسنيور (کلیار کی۔۴)
مادتخفی)
مجموئی اور ورکر کنونی بیر
2016 بالی
های پایا
مارک (مانی)
معمولی طور پرم ازم 60فید بر
17عا های
فردی بده
وانا (167.5 م)
مولی طور پر مارو انجمنیر
2010 موالي
یکم نومبر 2021
لیا اور کتری )
ملک (سات) مولی طور پرم از 60 نمد میر
کسی ایک کھیل میں هارد (اسکولی سیکلیٹ)
16 طلا2 سال
برداری شده
کل 1
/
2-6(75 ,16B پٹی میٹر)
میاگرا جیپ ڈرائیونگ اسٹس
واے 4 سالي
شادی شد یار غیر شادی شده
العمار�� 162 سینٹی میٹر)
17تا های
تميز مودم)
ولی اگر 170 میلی متر)
وانت های (162.5 سنٹی میر)
گئی 7 (170م)
آن ها (162.5 مئی میلر)
طریقه انتخاب اور بھرتی کا پروگرام
انٹرویو اور طبی معائنه
ملازمت کے دوران سهولیات
جریان 09ے 22ی 2021
PET سے کامیاب امیدواران کاشی معانی اور ریاست اور تمبر 2021 کے | موج وفادار اور اس کے علاو ملازمت کے دوران ریٹائرمنٹ پر پیشش مراعات اور روایات . ریکروٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ ، نیول ہیڈ کوارٹرز کو براہ راست بھیجی گئی درخواستیں
• امام داران اور ان کی پاکستان ایک یا همان loinpaknavy.gov.pk وزن در این دوران مجری دفاتر میں ہوگا۔ جس کی اطلاع متعلقه برای دفتر سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ چندانی تندرج ذیل ہیں۔
زیر غور نہیں لائی جائیں گی۔
• تمام امیدواران کیلئے ضروری ہے کہ انٹری ٹیسٹ والے این جریان ساپ پروئی کی ہدایات کے عمل کی تیاری کرائیں
و ملازمت کے دوران مفت کھانا ، پانی اور یونیفارم
• پاکستان نیوی کے حاضر سرویں بار بار ڈی پی اوز اسیر سویلین کے بچوں کو
تحریری امتحان (E-TESTING)
پرسنلٹی ٹیسٹ
و دوران ملازمت انشورنس کا تحفظ
ہدایت کی جاتی ہے کہ مور 22 می 2021 تک اپنے والد کے مندرجہ ذیل
• 202001 تمام راه های دوران ایک بات اور دریای عمان میں امن اور پر رہا ہوں ۔ طبی معانی اور انٹرویو میں موزوں قرار دیئے جانے والے امیدواروں کا الٹی میٹ ، شادی کے بعد بسیار باش، الناس اور دیگرمراعات
کاغذات متعلق بھرتی دفتر میں جمع کرائیں
• پارلمان انگریزی پر پانی اوراس کی ساری اور معلومات عامہ
اگست اور ستمبر 2021 میں متعاقہ بھرتی دفتر میں ہوگا۔
ہوائی جہاز اور ریلی کے سر میں50 فیصد رعایت
ا ا ا ا نگر یزلی پیتزای سخی اور معلومات عامہ
• والدین، بیوی اور بچوں کا اثری یوگی کے ہسپتالوں میں مفت علاج
الف: ریٹائرڈ کیلئے ڈسچارج سلپ اور اور فارم به
.قال: ثمان کا سیکھیں اور محاولات عامه
عارضی انتخاب
• کورسز اور پیشین پیروان ملک جانے کے مواقع
ب: حاضر سروس کے لیے اتھارٹی لی اور ادرارم به
وہی خان کی تاریت اوريت متعلق کار پاره ای SMS کے ڈر سے برام زیارتوال کرے
دار اس امید مردوں کو ان کے بارے میں محلات بارداری SMS / ویب سائد 1801
2021 وقمع کرانیول ہیڈ کوارٹر میں اوپن میرٹ کے ذریعے عاری انتخاب ہوگا
سب میرین وائیں ایسی تھی (نیوی) اور ایوی ایشن ( ایر کرو) برانچ کے لئے 40 فیصدا شانی
بعدازاں موصول ہونے والی ایسی کوئی بھی درخواست قابل قبول نہیں ہوگی
امل شاه شناسنامه اردوان 1
۴Eمی نیکی کرو اور ملی مین اپنے ہو جاتا۔
الاؤنس اور راشن
بہترین تعلیمی سہولیات
مندرجه ذیل رعایت کا اطلاق هوگا
• PMR8SC کاروان او مظفر آبادی کا اندانی استان ها و پلی میٹر میں دردی کا نشانان تین میں سیکورٹ کا لاہور
نظامی، قمارا کوئی میر اور گھر اور پشاور میں ہوگا۔
حتمی انتخاب
• ریٹائرمنٹ کے بعد بی بی فاؤنڈیشن میں ملازمت کے مواقع
اس کی رایت عمر کی بالائی مدمگابایت |
جسمانی استطاعت کا امتحان (PET) ابتدائی برتی عارضی ہوگی ۔ عارضی بھرتی شدہ پیار کا طبی معائن ٹر ینگ سینا کراچی میں
امام علی بن گیا مالدار 15 نحمده
نااهليت
تعلم بن گیا یونیفارم میلین ارگاناندا
شارٹ لسی امیدواروں سے جسمانی استطاعت کا امتحات متعلقہ ریکروٹمنٹ سینٹرز میں لیا جائے گا ہوگا
۔ صرف کمل طور پر موزوں سیارزی ملازمت کے بل کھے جائیں گے حتمی متقابل • مسلح افواج کے ترمیمی اداروں سے گائے اور ریاست کیے گئے
PTI کیلئے
اسکے بعد برانچارٹری میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
و سرکاری ملازمت سے برطرف شده
25 گوناردو 1245 من شي
قمري
.کسی قانونی عدالت سے اخلاقی جرم کی بنا پر مزایافت
15 مرتی بیابانی در شیلی 15مرتبہ ایل ایا من ملي
ٹریننگ کا آغاز
• العلیمی استان میں تعریف کرتا
15 مرت سے ایک منٹ می 15 من این من ملي
وشواسل فارم میں مطلوب معلومات کو چھپانا یا المعلومات دینا
مر جاناتان مند ملی و مرتی ناہ من شي ٹریننگ کا آغاز نومبر 2021
و دوہری شہریت کے حالی خطرات
معلومات برائے رجسٹریشن سینڑز: آن لائن رجسٹریشن کے لئے پاکستان نیوی کی ویب سائٹ www.joinpaknavy.gov.pk وزٹ کریں۔
) راولپنڈی
پشاور
سیالکوٹ
فیصل آباد
کراچی
) تيره اسماعیل خان
ایبٹ آباد
گواتر
ان کا کلی :TCS آقایانی نخلدا پیشانی والے اور پشاور کیا
لارستانی در دین یانی عملیات اقبال انتقال | بولی اور انتقال کر تقسیم بدور فیملی *
باقی 5/
26ای با ای وادقی PWA
ده که در این دید در کارایی التشيلي A و با کمی از ورود را برای یک انگلی پھر نی نیند بھی
بیانات اور گوادر پدر از پویا بیا کولی گوید
پاینده ولی در امارات ها تامین معاش کا دنيا بجدة
فون: own3d01aa6
الیا
د مالي
امالي
ملانیا
منوی (Ethnic)
مه
آمیگه
مالقات
(
(Ethic)
أمایا
میکاگویه های
ماه ها بینهایت
الاء 15 نیمه ی
هایی ک�� نمیدهد
میا 5 شه هيد
ما البیوی
اماني
FATAPATA
أمایا
رجسٹریشن کی آخری تاری22ی 2021
سکه
سوات
توان A900
051-6061
أن "
3312318-091
الي
في
021-48506704
اعلانات
في 04-240-0ية
0946.723470
052-426763
ماي 14
1920 من
ایشیاء
086-4211874-57
فن : 662602-01
ما
أعمال
-میل
فن:
الم
اول
nro-peshawarpaknuvy.gov.koruwalpindipakavy.gov.pl
-slalkopainavy.gov.pk
Trufaisalabadgapatnavy, goepk
rg-karachigapatnavy .pop
nro-dikhanpakravy.gov
rewal@panavy govo-sukkupaknavy.gov.pk
trabbots
nro-Gwadar@peknavyo.
navy.gov.pk
ملتان
کونته
خضدار
لاهور
رحیم یار خان
اور ابر8الف رحمانی این تیم ملی هم با نمانا
17ی شیر می توان این
ج 1.330794
حیدر آباد
میں فی 4، پانی والی مینا و
فون
14 وتهاني | إنتلی بولی بگوید
اولين 246
9201-
061
کاکی
022-3403745
065-358124-5 dl
مع انه در این باب الضمان
الی
) شهید بے نظیر آباد
گلگت
مظفر آباد
مایکل نمایش خیلی عالی تمام
کی نیول شوی وای کیم چوپال کے 22.223 پرشدها جمالية به
نمی کرد. في بالهم وتراپی
الزمرد کا کام 4885
الی 05811522556
ان 25%20% 30 وUSB32922
تومان G125
244.03
الان no
-
plain
@
pakany gopi
از
لم «90 (muaafaaaaeaaaana
کوردم اما به یاد بیانا
فنانة 7704974-053
وغيرها رو داری ٹیلی و پیرید
قمري 10,222229
-596140
42]
انی
nro-khuda aknavy.goxok
nroquetta pakavy.gov.pk
nromultanpakravy.gov.pk
PID (0) 6099/20
Arorahimrahnaapninav gopi | m-hyderabnaBrotray.gov.pk
nrolahore pakravy.goupk
nro-khiarianooshnny gov.pk
webmarring: 100
0 notes
Text
مسجد اقصی ۔۔۔۔ ایک پرچم کی کہانی
مسجد اقصی کا صحن لہو ہو چکا ، اوپر نگاہ اٹھی تو قبۃ الصخراء کے ساتھ ایک نوجوان فلسطینی پر چم لہرا رہا تھا ۔ پھر مجھے نہ زخمی یاد رہے نہ شہداء ، میں اسی پرچم کے رنگوں میں الجھ کر رہ گیا ۔ دل کو کچھ ایسی کہانیاں یاد آ گئیں کہ میرا دل بھی لہو ہو گیا ۔ آئیے آپ کو یہ کہانی سناتا ہوں تا کہ آپ کا دل بھی مسجد اقصی کے صحن کی طرح لہو ہو جائے ۔
زیادہ پرانے وقتوں کی بات نہیں ، یہ 10 جون 1916 کی بات ہے ۔ تب سلطنت عثمانیہ جیسی بھی تھی قائم تھی اور القدس مسلمانوں کے پاس تھا ۔ اس روز شریف مکہ حسین بن علی اور برطانیہ کے لیفٹیننٹ کرنل ہنری مک موہن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی ۔ْ اس بغاوت کو ’الثورۃ العربیہ الکبری ‘ کا نام دیا گیا ۔
جب بغاوت کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی جزئیات طے ہو چکیں تو اگلا مرحلہ اس عرب بغاوت اور مزاحمت کا پرچم تیار کرنا تھا ۔ یہ پرچم ایک برطانوی سفارت کار کرنل مارک سائیکس نے تیار کیا ۔ مارک سائیکس صیہونیوں کے بہت قریب تھے اور جس اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیل قائم کیا گیا اس اعلان کو حقیقت بنانے میں کرنل صاحب کا بڑا اہم کردار تھا۔
سر مارک سکائیس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا جو پرچم تیار کیا اس میں چار رنگ شامل تھے ۔ اس میں سیاہ ، سفید اور سبز یعنی تین رنگوں کی تین افقی پٹیاں تھیں اور ایک تکون تھی جس کا رنگ رخ تھا ۔
سیاہ رنگ عباسی سلطنت کی یادگار کے طور پر لیا گیا ، سفید رنگ کو اموی سلطنت سے نسبت دی گئی اور سبز رکنگ فاطمی خلافت کی یادگار کے طور پر رکھا گیا ۔ تکون کا سرخ رنگ ہاشمی خاندان یعنی اشراف مکہ کی نسبت سے لیا گیا یو ں سمجھ لیجیے کہ یہ رنگ شریف مکہ حسین بن علی کی ممکنہ سلطنت کے اعتراف کے طور پر چناگیا جو جو شریف مکہ اور مک موہن معاہدے کی روشنی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنا تھی ۔
پرچم بھی تیار ہو گیا اور بغاوت بھی شروع ہو گئی ۔ یہاں تک کہ ایک وقت وہ آیا کہ یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا ۔ عثمانی افواج لڑیں اور یروشلم کے اطراف میں شہید ہونے والے فوجیوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق 25 ہزار تھی ۔ لیکن یہ افواج بے بس ہو گئیں ۔ اس بے بسی کی بہت ساری وجوہات میں سے دو وجوہات کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے ۔
پہلی وجہ عرب بغاوت تھی ۔ ایک طرف برطانوی اور اس کی اتحادی افواج یروشلم پر حملہ آور تھیں ۔ دوسری جانب عرب بغاوت نے ترکوں کی سپلائی لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیا ۔
دوسری وجہ ہندوستان سے گئے فوجی تھے جو اتنی وافر تعداد میں تھے کہ اس نے اتحادی افواج کو افرادی قوت سے بے نیاز کر دیا تھا ۔ فیلڈ مارشل اچنلک نے بعد میں اعتراف بھی کیا کہ ہندوستان کے فوجی ہمیں میسر نہ ہوتے تو ہم دونوں جنگ عظیم ہار گئے ہوتے ۔ جب یروشلم میں مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی تو پنجاب کے پیروں کی گدیاں سرکار انگلشیہ کی فتح کا جشن منا رہی تھیں۔
یہاں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان سے جانے والے صرف ہندو اور سکھ فوجی تھے تو اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے ۔ اس کام میں مسلمان فوجی بھی پیش پیش تھے کیونکہ ہندوستان میں یہ فتوی آ چکا تھا کہ مسلم دنیا کی قیادت پر ترکوں کا کوئی حق نہیں ۔ یہ حق تو شریف مکہ کا ہے ۔
چنانچہ 11 دسمبر 1917 کو جب یروشلم مسلمانوں سے چھن گیا اور جنرل ایلن بے ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو فاتحین کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان سے تشریف لے گئے تھے اور نعرہ تکبیر بلند فرما رہے تھے اور کچھ وہ تھے جو ہندوستان سے تشریف نہیں لے گئے تھے وہیں آس پاس کے علاقوں کے عرب تھے اور ’الثورۃ العربیہ الکبری ‘ کا پرچم تھامے ہوئے تھے ۔ وہی چار رنگوں والا پرچم جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ۔
شریف مکہ اب حجاز کے حاکم بنے اور بادشاہ حجاز کہلانے لگے تاہم ان کا خیال تھا یہ منصب ان کے لیے ناکافی ہے اور انہیں’ ملک العرب ‘ یععنی سارے عرب کا بادشاہ ہونا چاہیے تھا ۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو انہوں نے خود کو خلیفہ قرار دے ڈالا۔ پورے چائو سے’ الثورۃ العربیہ الکبری ‘ چلانے والے شریف مکہ چند ماہ ہی حکومت کر سکے پھر جلاوطن ہوئے اور مر گئے۔ا
تفاق دیکھیے کہ عرب بغاوت کے ذریعے یروشلم سے مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کی روہ ہموار کرنے والا یہ شخص یروشلم ہی میں دفن ہے ۔ کیا عجب اس کی روح راتوں کو مسجد اقصی کے نواح میں بھٹکتی ہو اور دیکھتی ہو کہ میرے نامہ اعمال نے مسلمانوں کو آج کیا دن دکھائے ہیں ۔
شریف مکہ کی اولاد کا اقتدار بعد میں اردن تک محدود ہو کر رہ گیا ۔ ان کا ایک بیٹا شاہ عبد اللہ اول اردن کا بادشاہ بنا ۔ ایک روز بادشاہ سلامت مسجد اقصی میں داخل ہوئے تو ایک فلسطینی نے تین گولیاں ان کے وجود میں اتار دیں ۔ وہ جاں بحق ہو گئے ۔ یہ مسجد اقصی قانونی طور پر آج بھی اردن ہی کے زیر انتظام ہے لیکن اردن کے بادشاہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ۔ خدا جانے یہ بے بسی انہیں اپنی وہ غلطیاں یاد دلاتی ہے یا نہیں جو بعد میں اسرائیل کے قیام کا پیش خیمہ بنیں ۔
آج مسجد اقصی کا صحن لہو تھا اور قبۃ الصخرا کے ساتھ کھڑا ایک فلسطینی نوجوان فلسطین کا پرچم تھامے ہوئے تھا ۔ اس پرچم کو دیکھا تو یہ ساری کہانی یاد آ گئی کیونکہ یہ وہی پرچم تھا جو عرب بغاوت کا پرچم تھا ۔ اسی پرچم کے سائے میں برطانوی جنرل ایلن بے یروشلم پر قابض ہوا تھا ۔ اسی پرچم کے سائے میں یروشلم پر مسلمانوں کا صدیوں کا اقتدار ختم ہوا تھا ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جزوی تبدیلیوں کے ساتھ عرب بغاوت کا یہی پرچم آج بھی مصر ، اردن ، سوڈان ، کویت ، امارات، شام ، لیبیا اور یمن کا قومی پرچم ہے۔
ْقصور سلطنت عثمانیہ کا تھا یا عرب بغاوت والوں کا ، یہ ایک الگ بحث ہے ۔ لیکن اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اسی بغاوت نے یروشلم سے مسلمانوں کا اقتدار ختم کرانے میں اہم کردار کیا تھا ۔
آج اسرائیلی فوج مسجد اقصی میں نمازیوں پر تشدد کر رہی ہے اور مسلمان وہی پرچم تھام کر مزاحمت کر رہے ہیں جس پرچم تلے انہوں نے یروشلم سے اپنے اقتدار کا خود اپنے ہی ہاتھوں خاتمہ کیا تھا ۔
0 notes
Text
اسرائیل کی پانچوں انگلیاں گھی میں
جب دو روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے پر راضی ہو گئے ہیں تو اس کے فوراً بعد اماراتی وزیرِ خارجہ انور گرگیش نے خوشخبری دی کہ ہمارے اس فیصلے سے فلسطینی مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عمل رک گیا ہے مگر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے وضاحت کی کہ غربِ اردن کو ضم کرنے کا فیصلہ کالعدم نہیں ہوا صرف ملتوی ہوا ہے۔ البتہ جن فلسطینیوں کی بھلائی کے لیے امارات نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کا ’’ کڑوا گھونٹ ‘‘ پیا۔ وہی مورکھ فلسطینی اس تاریخی فیصلے کے فوائد سمجھنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ غزہ پر حکمران حماس ہو کہ غربِ اردن پر حکمران الفتح کی فلسطین اتھارٹی۔ دونوں نے اس فیصلے کو مسترد کر کے اسے فلسطینی کاز کی پیٹھ میں ایک اور چھرے سے تعبیر کیا ہے۔
سینئر فلسطینی رہنما محترمہ حنان اشراوی نے ٹویٹ کیا ’’ کاش کوئی بھی اپنی دھرتی چرائے جانے کے کرب سے دوچار نہ ہو ، کاش کسی کو بھی نظربندی جیسے حالات میں زندہ رہنے کی اذیت نہ سہنا پڑے ، کاش کوئی بھی اپنی نگاہوں کے سامنے اپنا ہی گھر منہدم ہوتے یا اپنا ہی کوئی پیارا ہلاک ہوتے نہ دیکھے ، کاش کوئی بھی اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں فروخت ہو جانے کے عذاب سے نہ گذرے ‘‘۔ متحدہ عرب امارات کا اسرائیل سے باضابطہ تعلقات کے قیام کا فیصلہ اہم ضرور ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی رہ جائیں۔ یہ آنکھیں تو تب ہی پھٹ چکی تھیں جب اردن نے اکتوبر انیس سو تہتر میں اسرائیل کو مشترکہ عرب حملے کی پیشگی اطلاع دے دی تھی۔ یہ آنکھیں تب ہی باہر نکل آئی تھیں جب انور سادات نے اکتالیس برس پہلے یروشلم میں اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے تحت اپنے مقبوضہ علاقے تو واگذار کروا لیے مگر فلسطینیوں کو اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے کہا جہاں رہو خوش رہو۔
کہنے کو امارات پہلا خلیجی اور اردن و مصر کے بعد تیسرا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل سے باضابطہ سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ مگر غیر رسمی طور پر دیکھا جائے تو سوائے کویت کے اومان ، امارات ، بحرین وغیرہ کے کئی برس سے اسرائیل سے کئی حساس و معمول کے شعبوں میں غیررسمی تعاون اور تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو سعودی عرب کی خاموش تائید حاصل ہے ۔ اومان پہلا خلیجی ملک ہے جس کا اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے دو برس پہلے دورہ کیا۔ قطر کے اگرچہ اسرائیل سے باضابطہ تعلقات نہیں لیکن اس حد تک ورکنگ ریلیشن شپ ضرور ہے جس کے سبب قطر غزہ کے فلسطینیوں کی کئی برس سے مالی مدد کر رہا ہے۔ خلیج کے ہی ایک اور ملک ایران کے رضا شاہ پہلوی کے دور میں انیس سو پچاس سے اسرائیل سے مکمل سفارتی و عسکری تعلقات تھے۔ مگر انیس سو اناسی میں شاہی دور کے خاتمے کے بعد ایرانی پالیسی نے یوٹرن لیا۔ البتہ عراق کے ساتھ دس سالہ جنگِ خلیج میں سی آئی اے نے نہ صرف صدام حسین کی مواصلاتی مدد کی بلکہ اسرائیلی کمپنیوں کے ذریعے ایران کو بھی میزائل ، فاضل پرزے اور دیگر رسد فراہم کی۔ اس قصے کو امریکی سفارتی تاریخ میں ایران گیٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے کبھی بھی اسرائیل سے براہِ راست تعلقات نہیں رہے۔ البتہ سوویت افغان خانہ جنگی کے دور میں ��ی آئی اے کی امدادی پائپ لائن قائم ہونے سے پہلے اسرائیل نے اپنے مال خِانے میں موجود وہ روسی اسلحہ سی آئی اے کے توسط سے مجاہدین تک پہنچایا جو اس نے سڑسٹھ اور تہتر کی جنگوں میں شامی اور مصری افواج سے چھینا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد یہ تھا کہ سوویت قیادت کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ مجاہدین نے یہ اسلحہ افغان کیمونسٹ فوجیوں سے چھینا ہے۔
دو ستمبر دو ہزار پانچ کو پاکستانی وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے انقرہ میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ سلوان شلوم سے باضابطہ ملاقات کی۔ لگ بھگ ہفتے بھر بعد نیویارک میں صدر پرویز مشرف کے اعزاز میں اسرائیل کی سب سے طاقتور پشتی بان ورلڈ جیوش کانگریس نے عشائیہ دیا۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کو اپنے لیے براہِ راست عسکری خطرہ نہیں سمجھتا البتہ پاکستانی عوام کو فلسطینیوں اور ان کی مجوزہ ریاست کے تصور سے جذباتی لگاؤ ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں ریاستی سطح پر غیررسمی انداز میں کئی بار یہ مباحثہ چھیڑنے کی کوشش کی گئی کہ بدلی ہوئی دنیا میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں کیا قباحت ہے۔ آخری بار یہ سوال گزشتہ برس وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اٹھایا تھا۔غالباً مذہبی سیاسی لابی فی الحال اس مہم جوئی میں خاموش مددگار بننے کے موڈ میں نہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کو دوغلا پن قرار دیا ہے۔ حالانکہ ترکی پہلا مسلمان ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے اسرائیل کے سفارتی تعلقات مارچ انیس سو انچاس سے ہیں (ایران اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلمان ملک تھا )۔ اگر شمالی افریقہ کی بات کی جائے تو مصر اور ماریطانیہ اگرچہ دو ممالک ہیں ، جن کے اسرائیل سے بظاہر باضابطہ سفارتی تعلقات ہیں، مگر شمالی افریقہ میں اسرائیل کے سب سے پرانے مراسم مراکش سے ہیں۔ مراکش میں یہودی پندرھویں صدی میں اسپین سے مسلم سلطنت کے خاتمے کے بعد سے آن کر بسے۔ انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں مراکش کے موجود شاہ محمد ششم کے والد شاہ حسن ثانی نے لگ بھگ پچاس ہزار مراکشی یہودیوں کی اسرائیل نقلِ مکانی میں سہولت دی اور تہتر کی جنگ سے پہلے تک دونوں ممالک میں سفارتی و تاریخی تعلقات قائم تھے۔
اسلامی سربراہ کانفرنس کے رکن کئی افریقی ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کبھی بحال ہو جاتے ہیں تو کبھی خراب جاتے ہیں۔ اسرائیل ان ممالک کی نہ صرف زرعی و آبی و عسکری شعبوں میں مدد کرتا ہے بلکہ متعدد افریقی ممالک کے تارکینِ وطن اسرائیل میں محنت مزدوری بھی کرتے ہیں۔ ویسے اسرائیل کے اردگرد کے موجودہ حالات اس کے نقطہِ نظر سے قدر مثالی ہیں کہ اسرائیل کو اپنے مفاداتی تحفظ کے لیے اضافی پتہ تک توڑنے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل کا مسلسل دشمن شام اپنی ہی خانہ جنگی کے ہاتھوں برباد ہو چکا ہے۔ لبنانی ریاست پر سے جنتا کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اردن میں نہ پہلے سیاسی سکت تھی نہ اب ہے۔ ��صر کہنے کو عرب دنیا کا سب سے گنجان اور طاقتور عسکری ملک ہے لیکن یہ ریاستی قد کسی بیرونی دشمن کے بجائے خود مصری شہریوں کو ڈرانے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
خلیج میں ایران ایک طرف اور دیگر خلیجی ریاستیں ، امریکا اور اسرائیل دوسری طرف۔ قطر ایک طرف اور دیگر برادر خلیجی ریاستیں دوسری طرف۔ یمن ایک طرف اور سعودی و عرب و امارات دوسری طرف۔ لیبیا عملاً مغربی و مشرقی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ تریپولی میں قائم حکومت کو اقوامِ متحدہ اور ترکی کی حمایت میسر ہے۔ جب کہ بن غازی میں باغی جنرل خلیفہ ہفتر کی سپاہ کو کرائے کے روسی فوجیوں ، فرانسیسی ، اماراتی و مصری حکومتوں کی امداد حاصل ہے۔ یہ جنگ دراصل لیبیا کے تیل کی جنگ ہے۔ قذافی کے بعد سے لیبیا کے پنجر پر ہر طرح کے لگڑ بگے اور مردار پسند گدھ بیٹھے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں مصر ، یونان ، اسرائیل اور فرانس کے مابین تیل و گیس کی تلاش کے لیے سمجھوتہ ہوا ہے مگر اس علاقے پر ترکی کا بھی معاشی دعویٰ ہے۔
یوں اب خلیج ، شام اور لیبیا کے بعد مشرقی بحیرہ روم میں بھی ایک نیا محاذ کھل گیا ہے اور ترکی بمقابلہ عرب مع اسرائیل و یورپ و امریکا ایک نئی رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ رہی بات فلسطینیوں کی تو اسرائیل بھلے غربِ اردن کے باقی ماندہ علاقے ضم کرے یا نہ کرے۔ بوٹ تلے دبے سانس کی قلت کا شکار فلسطینیوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ رہا ٹرمپ تو نومبر کے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے اگر اسے امید کا ایک اضافی تنکہ بھی مل جائے تو کیا برا ہے۔ اور تازہ تنکہ یہی اماراتی اسرائیلی سفارت کاری کی شعبدہ کاری ہے۔ نیتن یاہو ویسے ہی کرپشن کے مقدمات اور ممکنہ گرفتاری کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں کہیں سے بھی ذرا سی خوشخبری بھی اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ مورل آف دی اسٹوری : حالات کو جیسے بھی الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ اس وقت اسرائیل خطے کا واحد ملک ہے جس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
امارات مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کومضبوط بنانا چاہتا ہے:انور قرقاش

متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نےکہا ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین مکمل دوطرفہ تعلقات کا آغاز امارات کی قیادت کا جرات مندانہ فیصلہ ہے۔ العربیہ ٹی وی کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئےانور قرقاش نے واضح کیا کہ اسرائیل کا مغربی کنارے کا الحاق ایک ایسا مسئلہ تھا جو خطے کے امن کے لئے خطرہ بن سکتا تھا۔ ہم نے اسرائیل سے معاہدہ کر کے غرب اردن کے علاقوں کا الحاق روک دیا۔ وزير الدولة الإماراتي للشؤون الخارجية #أنور_قرقاش: اتفاقنا مع #إسرائيل ينزع فتيل أزمة ضم الأراضي الفلسطينية وينقذ حل الدولتين#العربية pic.twitter.com/rALgODoqwk — ا لـ ـعـ ـر بـ ـيـ ـة (@AlArabiya) August 13, 2020 انہوں نے اشارہ کیا کہ متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات شروع کر دے گا۔ امارات کے فیصلے سے فلسطینیوں کو بھی فایدہ پہنچے گا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اماراتی فیصلے کا مقصد فلسطینیوں کی مدد کے لیے مواصلاتی چینلز تلاش کرنا ہے۔ متحدہ عرب امارات امن عمل میں دو ریاستی حل کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ابو ظبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے نائب سپریم کمانڈر الشیخ محمد بن زاید النہیان نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین مکمل دو طرفہ تعلقات کو شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ اماراتی قیادت کاکہنا ہے کہ اس تاریخی سفارتی کامیابی سے مشرق وسطی کے خطے میں امن میں اضافہ ہو گا۔ امریکی صدر، اسرائیلی وزیراعظم اور امارات کے ولی عہد نے تل ابیب اور ابو ظبی میں معاہدے کو جرات مندانہ اور حقیقی امن کی طرف اہم پیش رفت قرار دیا۔ Read the full article
0 notes
Text
#uae#uaetourism#coronavid19#uaelife#uaem#coronavirus#covid19#uaeinstagram#covid2020#کرونا را شکست میدهیم#کرونایی#کرونا#بیماری کرونا#امارات اقتصادي uae uaejobs#uae امارات تلگراف#كوويد19 امارات uae
0 notes
Text
ا ا ا د شمالي ولايتونو اکثره چوکۍ شمالیوالو ته ورکړل شوي
ا ا ا د شمالي ولايتونو اکثره چوکۍ شمالیوالو ته ورکړل شوي!
د اسلامي امارات د الفتح پوځ قومندان وایي طالب مشرانو په شمال کې ټولې څوکۍ مجاهدینو ته سپارلي دي د باختر دولتي خبري آژانس د خبر له مخې د ٢٠٩ اتل قول اردو قوماندان عطاء الله عمري وويل چې د طالبانو مشرانو په شمال کې ټولې څوکۍ د شمال مجاهدينو ته سپارلې دي. هغه ویلي: موږ له شته امکاناتو څخه ښه ګټه پورته کړې او له هر ډول قومي او سمتي مسایلو څخه ډډه کوو، په دې ستر امتحان کې به مونږ بریالي یو انشاءالله.

View On WordPress
0 notes
Photo

عالمی میڈیا سے شہہ سرخیاں نیوز ویب سائٹ اے آر ڈی: جرمن دفتر ِ خارجہ نے اسپین کے علاقوں آراگون، کاتالونیا اور نوارا کی مجبوری نہ ہونے کی صورت میں سیر وسیاحت نہ کرنے پر عوام کو خبردار کیا ہےنیوز ویب سائٹ زیت: جرمنی میں تقریباً ہر چار افراد میں سے ایک غیر ملکی نژاد ہےدوئچے ویلے: اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس بحران کے باعث سال کے پہلے پانچ ماہ میں شعبہ سیاحت کو 320 ارب ڈالر کا آمدنی سے خسارہ ہو ا ہےالرایہ القطریہ: لیبیا حکومتی اعلی کونسل کے چیئرمین خالد الا مشری:’ترکی کے ساتھ طے پانے والا ہمارا معاہدہ خفتر قوتوں کو پسپا کرنے پر مبنی ہے۔‘‘الا امارات الا یوم: امریکی صدر ڈونلڈ رمپ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں کسی خفیہ حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیںوی ٹی وی، ونیزویلا: وزیر خارجہ میولود چاوش اولو اور ان کے ونیزویلی ہم منصب جیورج ایریزا نے دونوں ممالک کے مابین تعاون پر مبنی منصوبوں پر نظرِ ثانی کی ہےالا پائس، اسپین: ریئل میڈرڈ کے فاروڈ پلیئر ماری آنو کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ نے نے یورپی فٹ بال حلقوں میں تشویش پیدا کی ہےالا یونیورسل، میکسیکو: کینیڈا نے “Remdesivir” دوائی کو کووڈ۔19 کے علاج معالجہ میں استعمال کیے جانے کی منظوری دے دیفرانس 24: چین، ہانگ کانگ اور تین مغربی ممالک کے مابین مجرمین کے تبادلے کا معاہدہ کٹھائی میں پڑ گیالے سوئر، بیلجیم: بیلجیم میں اوسط یومیہ کووڈ۔19 کے مریضوں کی تعداد 328 تک ہو گئیلینتا، روس: بیلا رس کے صدر الیگزنڈر لوکا شینکو کا کہنا ہے کہ انہوں نے بلا کسی مشکل کے کووڈ۔19 وائرس کو شکست دی ہےروسی نیوز ایجنسی ، طاس: کریملن کے ترجمان پیسکووف کا کہنا ہے کہ عنقریب الیگزنڈر لوکو شینکو سے ملاقات کرنے والے صدر ولا دیمر پوتن کی صحت ٹھیک ہے اور یہ اپنے صدارتی امور پر فائز ہیںازوسطیہ : یوکیرین نے سیواستوپول بحری بیڑے کے دن کی مناسبت سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کرنے والے روس کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے شکایت کی ہے خبرکا ذریعہ : ٹی آر ٹی نیوز
0 notes
Text
کوئی تو یہ فرض ادا کرے
بجٹ کے بعد ملکی سیاست میں اتنی تیزی کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے کہ مجھ جیسے گوشہ نشیں کا ان تیز رفتار سیاسی حالات کا ساتھ نبھانا مشکل ہو رہا ہے۔ اقتدار کی لڑائیوں کو دیکھتے ہوئے ایک عمر گزر گئی لیکن میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ پیارے پاکستان میں کچھ بھی نہیں بدل سکا، وہی اقتدار کے بھوکے لوگ ہیں یا ان کے سیاسی جانشین ہیں جو شروع دن سے ہم پر مسلط ہو گئے تھے اور آج تک مسلط چلے آرہے ہیں۔ خوش قسمتی سے اگر غلطی سے درمیان میں کوئی نیک نام آبھی گیا تو ان مسلط لوگوں نے پہلے تواسے اپنے ڈھب میں ڈھالنے کی کوشش کی اور اگر وہ ان کے جال میں پھنس گیا تو کام بن گیا لیکن اگر وہ ان کے داؤ پیچ سے بچ نکلا تو اسے اپنی شاطرانہ چالوں اور حربوں سے ناکام کر کے نکال دیا گیا۔ یہ وہ سیاسی داؤ جگادری ہیں جو اپنے مطلب اور مفادات کے اسیر ہیں اور ان مفادات کے حصول کے لیے وہ سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں چاہے اس کا انھیں وقتی طور پر نقصان ہی کیوں نہ ہو لیکن انھیں بالآخر اس بات کا علم اور یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ جائیں گے۔ مجھے نواب ملک امیر محمد خان یاد آرہے ہیں جنھوں نے فہم و فراست اور تدبر کے بل بوتے پر آدھے پاکستان کے گورنر کی ذمے داریاں جس خوش اسلوبی سے سر انجام دیں اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا اور ان صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان میں انتظامیہ کو چلانے کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ گورنر نواب امیر محمد خان کالا باغ ہر افسر کو جانتے تھے اور انھیں معلوم تھا کہ ان سے کام لینے کا کیا طریقہ کار ہے اور کسی کو کس طرح قابو کیا جا سکتا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک افسر پکڑا گیا، نواب صاحب نے کٹہرے میں کھڑا کر دیا، اتنے میں ایک صاحب نے عرض کیا کہ آپ کے دوست کا بیٹا ہے۔ نواب صاحب نے اسے گلے سے لگا کر کہا کہ تم تو میرے بھتیجے ہو، جاؤ اور اتنا کام کرو کہ تمہارا چچا شرمندہ نہ ہو۔ یہ افسر ڈپٹی کمشنر تھا، اس نے اپنے ضلع کو جنت بنا دیا ۔ ان کے دور حکومت میں ایک چیف سیکریٹری نے افسری کے زعم میں کچھ خود سری کی کوشش کی۔
نواب صاحب نے احترام کے ساتھ اسے چائے پر بلایا اور بلوچستان کے چند دور دراز مقامات کا ذکر کیا کہ قیام کے لیے کیسے رہیں گے ۔ وہ افسر پیچ و تاب کھاتا نواب صاحب کی چائے زہرمار کر کے رخصت ہو گیا لیکن اس کی افسری نکل گئی۔ لیکن اب ان جیسے لوگ کہاں، وہ اپنے مفادات کو نہیں پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھتے تھے، نواب صاحب کے دور حکومت میں ان کے بیٹوں کو گورنر ہاؤس کے قریب سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ ان کے بعد ہم نے دیکھا کہ باپ اگر کسی اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ گیا ہے تو اس کے بیٹے اس عہدے کے اختیارات استعمال کر کے احکامات جاری کرتے رہے ہیں یعنی اصل عہدیدار وہ تھے اور ان کی جی حضوری کے لیے لوگ لائنوں میں لگے رہتے تھے۔ بہر حال یہ آج کے پاکستان کی سیاست ہے اور نواب صاحب کا دور ایک ابھرتے، پاکستان کی سیاست کا دور تھا جس کو ان کے بعد آنے والے بونے لوگوں نے کئی نئے نام دیے کوئی اسے روشن پاکستان کہتا رہا اور کوئی اسے نیا پاکستان کا نام دیتا ہے، کسی نے کشکول توڑنے کی بات کی تو کسی نے قرض اتارنے کے دعوے کیے، کوئی اسے غریبوں کا پاکستان کہتا رہا اور اپنی امارات میں اضافہ کر گیا لیکن عملاً کچھ بھی نہ ہوا اور حالات جوں کے توں رہے اور ان کاریگر لوگوں نے پاکستان کے عوام کو نئے پرانے پاکستان کے چکر میں الجھا کر ان کا اصل پاکستان بھی ان سے چھین لیا۔ میں عرض کر رہا تھا کہ سیاسی حالات میں تبدیلی کے لیے نقارے بجائے جا رہے ہیں اور ان نقارچیوں کو ہم سب دیکھ رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہ نقارے بجا چکے ہیں، یہ کوئی نئے ��ہرے مہرے نہیں ہیں، پرانے لوگوں کے نئے چہرے ہیں جو جانشین کا نام دے کر ہماری قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں لیکن ان کا اصل وہی ہے ۔ ہم سب کئی دہائیوں سے ان کو دیکھ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آیندہ بھی کئی دہائیوں تک یہی چہرے دیکھے جاتے رہیں گے۔ دراصل قوم کو ان لوگوں نے ذہنی طور پر غلام بنا لیا ہے اور جب معاملات غلامی کی حد تک پہنچ جائیں تو تبدیلی ناممکن ہو جاتی ہے۔ مغلوں کے بعد برصغیر کے عوام کو انگریزوں نے غلامی کے چنگل میں جس طرح جکڑے رکھا، یہ غلامی ہمارے اندر رچ بس گئی ہے اور آزادی کی کئی دہائیوں کے بعد بھی ہم انگریزوں کے بنائے گئے نظام اور ان کے پروردہ لوگوں سے اپنے آپ کو آزاد کرانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
آزاد ملک میں نئی نسلوں کے جوان ہونے کے بعد اگر اس نوجوان نسل نے تھوڑا بہت آزاد ہونے کی جدو جہد کی ہے تو اسے بھی ان کاریگر لوگوں نے اپنے شاطرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے عملاً ناکام بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور نوجوانوں میں مایوسی پیدا کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے جواں جذبوں اور جذباتی عمل کی ان کی سیاست کے سامنے کوئی وقعت نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کا نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری پڑھی لکھی نوجوان نسل ان کاریگر لوگوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گی اور اپنے جذبوں کو جواں رکھے گی۔ کیونکہ نوجوان نسل ہی قوم کا مستقبل ہوتی ہے اور ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے مستقبل کو مایوسیوں اور اندھیروں میں دھکیلنے کے بجائے ان میں روشن مستقبل کی امید پیدا کریں نہ کہ ہم اپنے ملک کا مستقبل اپنی سیاست اور مفادات کی نظر کر دیں جو پہلے سے ہوتا آرہا ہے۔ کوئی تو ہو جو یہ فرض ادا کرے لیکن بدقسمتی سے مجھے اپنے لیڈروں میں کوئی یہ فرض ادا کرنے والا نظر نہیں آتا۔ وماعلینا الالبلاغ
عبدالقادر حسن
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
پرونده قتل صادق برمکی؛ مرگ پرابهام دانیال زین العابدین در زندان میاندوآب
دانیال زین العابدین، یکی از متهمان پرونده جنجالی قتل صادق برمکی به صورت پرابهامی در زندان میاندوآب جان باخت. پیکر وی امروز پنجشنبه ۱۴ فروردین به خانواده اش تحویل داده شد. علیرغم اصرار مراجع قضایی مبنی بر نسبت دادن مرگ این متهم به خودکشی در زندان، فرضیه های متفاوتی از جمله قتل وی مطرح شده است. آقای زین العابدین در شهریورماه ۹۶ از بابت اتهام قتل به همراه سه تن دیگر بازداشت شد. بر اساس رای صادره توسط دادگاه بدوی در خردادماه ۱۳۹۷، کمال اصغری، دانیال دیوانی آذر و دانیال زین العابدین، به اعدام و نفر چهارم این پرونده به تحمل ده سال حبس محکوم شدند. این احکام در آذر ماه ۹۷ به تایید دیوان عالی کشور رسید. حکم اعدام علیه دانیال زین العابدین در حالی صادر شد که وی در زمان بازداشت تنها ۱۷ سال سن داشت. به گزارش خبرگزاری هرانا، ارگان خبری مجموعه فعالان حقوق بشر در ایران، دانیال زینالعابدین یکی از متهمان پرونده قتل صادق برمکی در زندان میاندوآب به صورت پرابهامی جان خود را از دست داد. یک منبع نزدیک به خانواده صادق برمکی، در این خصوص به گزارشگر هرانا گفت: “صبح امروز شخصی با مادر صادق برمکی تماس گرفته و ضمن معرفی خود تحت عنوان مرجع قضایی، از خودکشی دانیال زین العابدین یکی از چهار متهم پرونده قتل صادق برمکی خبر داده است”. این در حالی است که سازمان حقوق بشر ایران، به نقل از نزدیکان این متهم گزارش داده است که روز یکشنبه ۱۰ فروردین ۹۹، در پی وقوع درگیری و شورش زندانیان در زندان مهاباد، دانیال و چند زندانی دیگر از جمله یکی از هم پروندهایهایش که تاکنون هویت وی مشخص نشده، به سلولهای انفرادی و سپس در روز دوشنبه این زندانیان از زندان مهاباد به زندان میاندوآب منتقل شدند. دانیال بامداد روز سهشنبه ۱۲ فروردین طی تماسی تلفنی با خانوادهاش، از ضرب و شتم شدید خود توسط ماموران زندان خبر داده و از خانواده درخواست کمک و پیگیری کرده بود. اما باتوجه به بسته بودن راهها، خانواده نتوانستهاند جهت شکایت قضایی به میاندوآب بروند و در نهایت روز جاری، پنجشنبه ۱۴ فروردین از زندان میاندوآب جهت تحویل جنازه دانیال با خانوادهاش تماس گرفته شد.

علیرغم اینکه مسئولین زندان مدعی خودکشی او هستند، اما طبق گزارش سازمان حقوق بشر ایران مبنی بر وضعیت جسمی وخیم هم پروندهای دانیال بر اثر ضرب و شتم در واقعه سرکوب زندانیان که اکنون در بیمارستان میاندوآب بستری است، به این گمانه زنی دامن میزند که وی در زندان به قتل رسیده باشد. پزشکی قانونی هنوز در خصوص این پرونده اظهار نظر نکرده است. لازم به یادآوری است سید دانیال زین العابدین، فرزند سیدرضا، متولد ۱۹ مرداد ماه ۱۳۷۹، در شهریور ماه ۹۶ از بابت اتهام قتل به همراه سه تن دیگر بازداشت شد. ۲۲ خردادماه ۱۳۹۷، وکیل پرونده صادق برمکی از ابلاغ کتبی حکم دادگاه این متهمان خبر داد. بر اساس احکام صادره، کمال اصغری، دانیال دیوانی آذر و دانیال زین العابدین، به اعدام و نفر چهارم پرونده به تحمل ده سال حبس محکوم شد. این احکام در آذر ماه ۹۷ به تایید دیوان عالی کشور رسید. در متن حکم صادره در دادگاه بدوی که مورد تایید دیوان عالی قرار گرفته است آمده بود : “پس از انجام تحقیقات کافی و انجام دادرسی دقیق و با اتفاق نظر اعضای دادگاه در خصوص متهمان ردیف اول تا سوم با توجه به کیفرخواست صادره، فیلم ضبط شده از جنایت، اظهارات و بعضا اقاریر صریح برخی متهمان در مراحل مختلف رسیدگی، برگ معاینه جسد و گواهی پزشکی قانونی و سایر دلایل و امارات موجود در پرونده، بزهکاری کلیه متهمان را محرز و مسلم می داند و دفاعیات متهم ردیف اول (دانیال) مبنی بر اینکه “قرص خورده بودم و حال خوبی نداشتم و نمی دانستم که چه کاری می کنم” و متهم ردیف دوم (کمال) مبنی بر اینکه “از ترس دانیال این کارها را مرتکب شده و ترسیدم چنانچه به حرف وی گوش ندهم مرا بکشد” و متهم ردیف سوم (سید دانیال) مبنی بر اینکه” من در سوزاندن مرحوم نقشی نداشتم” و دفاعیات وکیل وی دایر بر اینکه “موکلش از رشد کافی عقلی ��رخوردار نیست ” و نیز دفاعیات حسین ج مبنی بر اینکه “از موضوع قتل بی اطلاع بوده و ساطور و تبر را به این دلیل به آنها داده که می خواسته اند به صحرا بروند و برای خرد کردن گوشت به آن نیاز داشته اند” به نظر دادگاه غیر موجه تشخیص داده می شود چرا که اولا همه متهمین در وضعیتی بوده اند که آگاه به افعال ارتکابی خود بوده اند و چنین نبوده که اراده آنها زایل شده باشد ثانیا ترس از دیگری موجب جواز قتل انسان بی گناه نمی باشد ثالثا متهم ردیف سوم هرچند از نظر سنی کوچکتر از سایرین است لیکن نحوه ی گفتار و دفاعیات و استدلال وی نشان می دهد که حداقل از نظر عقلی از سایر متهمان رشیدتر بوده است رابعا علم و اطلاع و وحدت قصد حسین ج کاملا مشهود و برای دادگاه محرز است. لذا دادگاه با تمسک به آیه ی شریفه “یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم: القصاص فی قتلی” و استناد به مواد ۱۲۵،۱۲۶،۱۲۷،۱۶۰،۲۹۰،۳۰۱،۳۵۲،۳۷۲،۳۷۳و ۳۸۵ قانون مجازات اسلامی مصوب ۱۳۹۲ و مواد ۶۲۱ و ۶۳۸ کتاب پنجم از قانون مجازات اسلامی مصوب ۱۳۷۵ حکم به محکومیت متهمین ردیف اول تا سوم به اعدام به روش حلق آویزی (البته پس از پرداخت فاضل دیه از سوی اولیای دم قبل از انجام قصاص به محکومین) و محکومیت حسین ج به تحمل ده سال و یک روز حبس تعزیری صادر و اعلام می نماید.” این افراد در حالی به اعدام محکوم شدند که پیش تر مسئولان این پرونده جنایی اظهار نظر کرده بودند”چهار جوان دستگیر شده در حالی از این صحنههای دلخراش فیلم گرفتند که هیچ کدام به دلیل شرب خمر، حالت عادی نداشتند.” حادثه سوزاندن جوان ۱۹ ساله در مهاباد اشاره به رویدادی دارد که در ۳۱ شهریور ۹۶ به وقوع پیوست. قتل و آتش زدن صادق برمکی، جوان مهابادی توسط کمال اصغری، دانیال دیوانی آذر و دانیال زین العابدین و انتشار تصاویر و سلفیها با جنازه وی توسط عاملان قتل در شبکههای اجتماعی بازخورد گستردهای داشت. Read the full article
0 notes
Text
امارات: بیوی نے جھگڑے پر خاوند کی اُنگلیاں توڑ ڈالیں
عدالت نے شوہر اور بیوی دونوں کو جیل بھیج دیا اور 15 سو درہم کا جرمانہ بھی عائد کر دیا فجیرہ متحدہ عرب امارات کی ریاست فجیرہ کی مقامی عدالت میں ازدواجی جھگڑے کا ایک منفرد کیس سامنے آیا ہے جس میں خاتون نے جھگڑے کے دوران خاوند کے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں توڑ ڈالی ہیں۔ عدالت نے خاتون کو ایک ماہ قید کی سزا سُنا دی اور اس پر 15 سو درہم کا جرمانہ بھی عائد کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خاتون کے خاوند کو بھی ایک ماہ قید اور 15سو درہم جرمانے کی سزا سُنائی ہے۔ کیونکہ خاوند نے بھی جھگڑے کے دوران بیوی پر ہاتھ اُٹھایا تھا۔سرکاری استغاثہ کی جانب سے دونوں میاں بیوی کو جھگڑا کرنے اور پُرتشدد حرکتیں کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ملزمہ بیوی نے عدالت میں اپنی صفائی میں کہا کہ ان دونوں کے دوران جھگڑا ہوا ، دونوں نے ایک دوسرے کی مار پیٹ کی۔ خاتون کا مزید کہنا تھا کہ اس نے جان بُوجھ کر شوہر کے ہاتھ کی اُنگلیاں نہیں توڑیں، بلکہ جب وہ لڑائی کے دوران ایک موقع پر اپنے کمرے میں جانے کے لیے گھُسی اور شوہر کو اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے دروازہ بند کرنا چاہا تو اسی دوران شوہر کا ہاتھ دروازے کے درمیان آنے سے اُس کی اُنگلیاں کُچلی گئیں، اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس واقعے کے بعد وہ مقامی پولیس اسٹیشن گئی اور خاوند کے خلاف رپورٹ درج کرائی تو پتا چلا کہ اُس کا خاوند اس معاملے میں پہلے ہی رپورٹ درج کرا کے اس پر بازی لے گیا تھا۔ اس موقع پر خاتون کی وکیل نے ا س کی میڈیکل رپورٹ بھی پیش کی جس میں بتایا گیا تھا کہ ملزمہ کی مار پیٹ کے باعث وہ اتنی زخمی ہے کہ اگلے 20 روز تک کوئی کام نہیں کر سکتی۔دوسری جانب شوہر کا کہنا تھا کہ دراصل اس واقعے سے پہلے بھی اس اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا تھا، جس کے بعد وہ علیحدگی کی خاطر عائلی عدالت چلے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ذہنی طور پر ایک دوسرے سے دُور ہو گئے تھے۔ اسی کیفیت میں یہ پُرتشدد واقعہ ہوا۔ پہلے پہلے انہوں نے اُونچی آواز میں ایک دوسرے سے خوب بحث کی ، تلخی بڑھنی پر دونوں ہاتھا پائی پر اُتر آئے جس دوران انہوں نے ایک دوسرے کی کھُل کر پٹائی کی۔تاہم عدالت نے دونوں کو پُرتشدد رویہ اپنانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے قید اور جرمانے کی سزا سُنا دی۔ فیصلے کے خلاف میاں بیوی نے اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کر دی ہے۔ Read the full article
0 notes
Photo

از اول ژوئن 2020 به امارات متحده عربی برگردید. کسانی که مایل به بازگشت هستند باید درخواست الکترونیکی را برای خدمات "صدور اجازه ورود برای ساکنان خارج ا
0 notes
Text
اسلامي امارات ملګرو ملتونو څخه غواړي چې د دوئ استازی ومني
اسلامي امارات ملګرو ملتونو څخه غواړي چې د دوئ استازی ومني.
د افغانستان اسلامي امارات په ملګرو ملتونو غږ کړی چې د افغانستان چوکۍ ته دې د دوئ استازی سهیل شاهین ومني زیاتوي مونږ په ټول هیواد واکمن یو، پولې لرو او هم خلک مونږ سره دي نو دا حق دې ورکړل سي د ملګرو ملتونو تیره غونډه کې د افغانستان څوکۍ خالي وه او د ا ا استازی یې ونه منه نړیوالو د ا ا لپاره ځینې شرایط وړاندي کړي چې په پوره کیدو به یې افغانستان په رسمیت وپیژني، ذبيح الله مجاهد بیا نړیوالو څخه…

View On WordPress
0 notes