#انڈسٹری چھوڑ دی
Explore tagged Tumblr posts
Text
آخری فلم میں275کروڑ لینےوالےاداکار نےانڈسٹری چھوڑ دی
آخری فلم میں275کروڑ لینےوالےتامل فلموں کے سپر اسٹار اداکار تھلاپتی وجے نے فلم انڈسٹری کو خیرباد کہتے ہوئے سیاست میں شمولیت اختیار کرلی۔ خیال رہےکہ تھلاپتی وجےکا شمار بھارت کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ وجے نے فلم انڈسٹری سے مکمل کنارہ کشی کا اعلان ایسے وقت کیا ہے جب بتایا جا رہا تھا کہ ان کی آنے والی فلم تھلاپتی 69 ان کی آخری فلم ہوگی جس کے لیے انہوں نے 275 کروڑ…
0 notes
Text
گلزار
مختصر تعارف
مشہور بھارتی شاعر گلزار کا پیدائشی نام سمپورن سنگھ کلرا ہے۔آپ 18اگست1939میں ڈسٹرکٹ جہلم،دینا(موجودہ پاکستان)میں پیدا ہوئے۔ گلزار صاحب نے بھارتی فلم انڈسٹری کی یاد گار فلمیں لکھیں اور ڈائرکٹ بھی کیں۔گلزار نے اپنے کیرئر کے آغاز میں موٹر مکینک کا کام بھی کیاتا ہم بعد ازاں اپنی محنت اور لگن کے باعث آسام یونیورسٹی کے چانسلر بھی تعینات کئے گئے۔ گلزار کو متعدد بار حکومتی اور فلمی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے ۔فلم ڈایئلاگ لکھاری کی حیثیت سے ان کی ایوارڈ یافتہ مشہور فلموں میں "نمک حرام،کوشش،آنند"اور بطورہدایتکار"آندھی،موسم ،ماچس"جیسی یادگار اور بے مثال فلمیں شامل ہیں۔ حکومت ہندوستان کی طرف سے انہیں پدما بھوشن، ساہیتیااکیڈمی ایوارڈاور اندرا گاندھی جیسے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے ۔جبکہ بھارتی فلم انڈسٹری کی جانب سے انہیں دادا صاحب پھالکے،متعدد فلم فئیر اور کئی بار نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے ۔ان کے لکھے گئے گانے "جے ہو "کو گریمی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے ۔
گلزار کی شاعری
وادی کشمیر ( کتاب - رات پشمینے کی )
الجھن ( کتاب - رات پشمینے کی )
کھلونے ( کتاب - رات پشمینے کی )
سدھارتھ کی ایک رات ( کتاب - رات پشمینے کی )
شام سے آنکھوں میں نمی سی ہے ( کتاب - رات پشمینے کی )
سکیچ ( کتاب - رات پشمینے کی )
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے ( کتاب - رات پشمینے کی )
ریڈ ( کتاب - رات پشمینے کی )
رات کی تعمیر ( کتاب - رات پشمینے کی )
قرآن ہاتھوں میں لے کے ( کتاب - رات پشمینے کی )
وغیرہ
1
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں
رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں
جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں
دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں
ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے
ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں
2
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا
ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا
4 notes
·
View notes
Text
گرل فش!!!ایک ایسی کہانی جو شاید آپکی زندگی کو تبدیل کر دے۔۔
بزرگ مہنگا ٹکٹ خریدنا چاہتے تھے‘ ایجنٹ انھیں سستا ٹکٹ دینا چاہتا تھا‘ وہ دونوں مسلسل تکرار کر رہے تھے‘ ایجنٹ بتا رہا تھا‘ سر یہ بھی فرسٹ کلاس ہے‘ یہ آپ کو چار لاکھ روپے سستی پڑے گی لیکن بزرگ کا کہنا تھا‘ بیٹا میں نے
آپ سے سستی ٹکٹ کا مطالبہ نہیں کیا‘ مجھے ایسی فرسٹ کلاس چاہیے جس میں بیڈ لگا ہو‘ میں ہوائی سفر کے دوران بیڈ کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں‘ ایجنٹ انھیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ’’سر یہ سیٹ بھی پورا بیڈ بن جاتی ہے‘ آپ اسے بھی انجوائے کریں گے۔
آپ اپنا پیسہ بلاوجہ ضائع نہ کریں‘‘
لیکن بزرگ ڈٹے رہے‘ ان کا کہنا تھا‘ میں مہنگی ترین سیٹ ہی لوں گا‘ میں یہ تکرار مزے سے دیکھ رہا تھا‘ تکرار کے آخر میں فیصلہ ہو گیا‘ ایجنٹ نے بزرگ کو سیٹ دے دی‘ وہ سیٹ انھیں ساڑھے تیرہ لاکھ روپے میں پڑی‘ یہ بہت بڑی رقم تھی لیکن بزرگ نے چیک بک نکالی‘ دستخط کیے اور چیک ایجنٹ کے حوالے
کر دیا‘ میں اس فضول خرچی پر حیران ہو گیا۔
میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی شخص کو اتنا مہنگا ٹکٹ خریدتے دیکھا تھا چنانچہ میں نے ان سے معذرت کی اور عاجزی سے پوچھا ’’سر آپ کیا کرتے ہیں‘‘ وہ میری طرف مڑے‘ غور سے مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولے ’’میں کچھ نہیں کرتا‘ میں ریٹائر لائف گزار
رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ ریٹائر ہونے سے پہلے کیا کرتے تھے‘‘ وہ بڑے پیار سے بولے ’’میری کپڑے کی دکان تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’دکان یا فیکٹری‘‘ وہ بولے ’’پندرہ بائی بیس فٹ کی چھوٹی سی دکان‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ آپ کا کل کاروبار تھا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہاں سو فیصد‘ میں نے راولپنڈی
میں چالیس سال کپڑا بیچا‘‘۔
میں نے پوچھا ’’آپ کے پاس پھر لمبی چوڑی زمین جائیداد ہو گی‘‘ وہ فوراً بولے ’’ہرگز نہیں‘ بس ایک آبائی گھر تھا اور دو دکانیں تھیں‘ دکانیں دونوں بیٹوں نے لے لی ہیں‘ مکان میں نے آدھا بیچ دیا ہے اور آدھا بچوں کو دے دیا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ بچوں کے ساتھ
رہتے ہیں‘‘ بولے ’’ہرگز نہیں‘ میں دو سال سے ہوٹل میں رہ رہا ہوں‘ سال میں ایک بار ملک سے باہر جاتا ہوں‘ ریستورانوں میں کھانا کھاتا ہوں اور بس‘‘ میری حیرت آسمان کو چھونے لگی۔
میں نے عرض کیا ’’پھر آپ نے اتنا مہنگا ٹکٹ کیوں خریدا‘ میں نے آج تک امیر سے امیرترین لوگوں کو بھی ایک سفر پر
ساڑھے تیرا لاکھ روپے کا ٹکٹ خریدتے نہیں دیکھا اور آپ بظاہر امیر بھی نہیں ہیں چنانچہ میں آپ کی فضول خرچی پر حیران ہوں‘‘ بزرگ نے قہقہہ لگایا اور پھر زندگی کا ایک نیا رخ میرے سامنے رکھ دیا۔
وہ بولے ’’میں راولپنڈی میں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا‘ دکان اچھی چل رہی تھی‘ دو بیٹے اور
دو بیٹیاں تھیں‘ بیوی نیک اور گھریلو تھی‘ میں فیصل آباد کے ایک مل اونر سے کپڑا خریدتا تھا اور وہ کپڑا پرچون میں بیچ دیتاتھا‘ میں ہفتے میں ایک بار فیصل آباد جاتا تھا‘ میری اس آمدورفت کی وجہ سے وہ مل اونر میرا دوست بن گیا‘ وہ جب بھی راولپنڈی آتا تھا‘ وہ پی سی میں ٹھہرتا تھا‘ مجھے
دعوت دیتا تھا اور میں اس کے ساتھ کھانا کھاتا تھا‘ وہ گرِل فش بڑی رغبت سے کھاتا تھا‘ وہ مجھے بتایا کرتا تھا وہ دن میں ایک بار سالمن فش ضرور کھاتا ہے‘ میں نے اس کے ساتھ سالمن فش کھانی شروع کی تو میں بھی اس کا عادی ہو گیا۔
میں بھی فش کھانے لگا‘ ہم دونوں دوست تھے لیکن پھر اس بے چارے
کا ڈاؤن فال شرع ہو گیا‘ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ پیدا ہو گیا‘ حکومت نے ٹیکس بڑھا دیے‘ فیکٹریوں میں یونینز بنی بن گئیں‘ را مٹیریل بھی مہنگا ہو گیا اور اغواء برائے تاوان اور بھتہ خوری بھی شروع ہو گئی‘ بنگلہ دیش نے اس دور میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ٹیکس فری کر دیا‘ میرا دوست
بنگلہ دیش گیا‘ بنگالی بزنس مین کے ساتھ ’’جوائنٹ وینچر‘‘ کیا اور اپنی فیکٹری بنگلہ دیش شفٹ کر دی‘ وہ بنگلہ دیش میں کامیاب ہو گیا لیکن پھر دونوں پارٹنرز کے درمیان اختلاف ہوا۔
معاملہ عدالت تک گیا اور بنگلادیش کی عدالت نے بنگالی بزنس مین کے حق میں فیصلہ دے دیا یوں وہ بیچارا
محل سے فٹ پاتھ پر آگرا‘ وہ واپس پاکستان آ گیا‘ فیصل آباد میں اس دوران اس کی پراپرٹی پر قبضہ ہو چکا تھا‘ وہ یہاں بھی کورٹ کچہریوں میں الجھ گیا‘ بیوی یہ اتار چڑھاؤ برداشت نہ کر سکی‘ وہ بیمار ہوئی اور انتقال کر گئی‘ اس نے لاہور میں ایک انڈسٹریل یونٹ لگایا‘ وہ یونٹ بیٹے کے حوالے کیا‘
بیٹے نے وہ برباد کر دیا‘ دوسرے بیٹے کو کاروبار میں ڈالا‘ وہ بھی ناکام ہوا اور بیوی بچوں کو لے کر کینیڈا شفٹ ہو گیا۔
بڑا بیٹا ناکامی کے بعد نشے کا عادی ہو گیا‘ وہ نشے کے ہاتھوں اسپتال پہنچ گیا‘ بیٹی کی شادی کی‘ سسرال نے گھر مانگ لیا‘ اس نے اپنا واحد گھر بیٹی کو دے دیا‘ یار دوست
بھاگ گئے اور عزیز رشتے دار سائیڈ پر ہو گئے اور یوں وہ بے چارہ پوری دنیا میں بے دست و پا ہو گیا۔میں اس کے عروج وزوال کا عینی شاہد تھا‘ وہ خوددار تھا‘ اس نے مجھ سے ملنا بھی ترک کر دیا تھا لیکن میں اسے ڈھونڈ ڈھانڈ کر مل لیتا تھا‘ ہم گرِل فش کھاتے تھے‘ پرانا وقت یاد کرتے تھے اور
ہنس رو کر اپنے اپنے ٹ��کانے پر آ جاتے تھے‘ وہ زندگی کے بوجھ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا لیکن پھر ایک ایسا وقت آ گیا جب کرائے کا مکان بھی اس کے بس کی بات نہ رہا۔
وہ حقیقتاً کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا اور پھر ایک دن وہ غائب ہو گیا‘ میں اسے تلاش کرتا رہا لیکن وہ نہ ملا‘ میں اپنے کام کاج
میں مصروف ہو گیا‘ مجھے ایک دن ایدھی فاؤنڈیشن سے فون آیا‘ مجھے بتایا گیا آپ کا ایک عزیز شدید علالت میں ہمارے پاس موجود ہے‘ آپ سے ملنا چاہتا ہے‘ میں تشویش کے عالم میں ایدھی فاؤنڈیشن پہنچ گیا‘ وہ مجھے اولڈ پیپل ہوم میں لے گئے‘ میں اندر داخل ہوا تو وہ علالت کے عالم میں بستر پر پڑا
تھا‘ داڑھی بڑھی ہوئی تھی‘ شوگر‘ بلڈ پریشر اور دل کا مرض بے قابو ہو چکا تھا اور وہ حقیقتاً ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔
وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور آہستہ آوازمیں بولا ’’یار شکور صاحب گرِل فش کھانے کا بہت دل کر رہا ہے‘ میں نے فش
کے لالچ میں ان کو آپ کا نمبر دے دیا تھا‘‘ میں آنکھیں پونچھتا ہوا اٹھا‘ پی سی گیا‘ گرِل فش پیک کرائی اور اس کے پاس آ گیا‘ اس نے بڑی مدت بعد اچھا اور صاف ستھرا کھانا کھایا‘ میں اس کے بعد روزانہ اس کے پاس جاتا‘ ہم گرِل فش کھاتے اور دھوپ میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے‘ میں نے اسے اپنے
گھر لانے کی کو شش کی لیکن اس نے انکار کر دیا‘ بہرحال قصہ مختصر وہ بہتر ہو گیا‘ وہ اب چل پھر بھی سکتا تھا اور اپنے کام بھی خود کر سکتا تھا‘ اس نے اس کے بعد اپنی باقی زندگی ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے وقف کر دی۔
وہ اولڈ پیپل ہوم میں رہتا تھا‘ بیماروں کی خدمت کرتا تھا‘ نماز پڑھتا تھا اور
اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا تھا‘ ہم دونوں ہفتے میں ایک بارہوٹل جاتے تھے‘ گرِل فش کھاتے تھے اور کافی پیتے تھے‘ یہ روٹین اس کے مرنے تک جاری رہی‘ میں اسے ایک رات واپس چھوڑ کر آیا‘ وہ بستر پر لیٹا اور پھر دوبارہ نہ اٹھ سکا‘ ہم نے اس کے بچوں سے رابطے کی کوشش کی لیکن
کامیاب نہ ہو سکے‘ ہمارے پاس کینیڈا والے بیٹے کا نمبر نہیں تھا‘ دوسرا بیٹا اسپتال میں زیر علاج تھا‘ اسے ہوش نہیں تھا‘ بیٹی خاوند اور بچوں کے ساتھ چھٹیاں منانے کے لیے یورپ گئی ہوئی تھی۔
ہمارے پاس اس کا رابطہ نمبر نہیں تھا‘ عزیز رشتے دار اور دوست احباب کو بلانے سے اس نے روک دیا تھا‘
وہ وصیت کر کے مرا تھا میری موت کی کوئی اناؤنسمنٹ نہیں ہو گی اور میرے کسی عزیز رشتے دار کو اطلاع نہیں دی جائے گی چنانچہ اجنبی لوگوں نے اس کا جنازہ پڑھا‘ اجنبیوں نے اسے قبر میں اتارا اور اجنبی قبرستان میں اسے دفن کر دیا گیا‘ میں دوبارہ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گیا‘ میں نے ایک دن
اپنے بڑے بیٹے کو ڈانٹ دیا‘ بیٹا بپھر گیا اور بولا ’’آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے؟‘‘ یہ فقرہ سیدھا میرے سینے میں لگا۔
مجھے اپنا مرحوم دوست یاد آ گیا اور احساس ہوا‘ یہ سب مایا ہے‘ یہ سارا مایا ختم ہو جائے گا‘ مال وہ ہے جو آپ نے استعمال کر لیا اور خوشی وہ ہے جو آپ نے محسوس کر لی اور
بس‘ میری بیوی فوت ہو چکی تھی‘ ��چے شادی شدہ تھے‘ میں نے دونوں بیٹوں کو ایک ایک دکان دے دی‘ مکان بازار میں آ چکا تھا‘ میں نے آدھا مکان بیچ دیا‘ مجھے بارہ کروڑ روپے ملے‘ میں ہوٹل میں شفٹ ہو گیا‘ میں اب آدھا دن ایدھی فاؤنڈیشن میں کام کرتا ہوں‘ صبح شام ایکسرسائز کرتا ہوں‘
سوئمنگ کرتا ہوں‘ گرِل فش کھاتا ہوں‘ سوٹ پہنتا ہوں‘ ہوٹل کی گاڑی استعمال کرتا ہوں‘سال میں ایک بار مہنگا ترین ٹکٹ لے کر ملک سے باہر جاتا ہوں اور چِل کر رہا ہوں۔
وہ خاموش ہو گئے‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا اور وہ مسکراتے رہے‘ میں نے عرض کیا ’’آپ جس طرح رقم اڑا رہے ہیں یہ
بارہ کروڑ کب تک آپ کا ساتھ دیں گے‘‘ بزرگ نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’سال کا ایک کروڑ روپے خرچ آتا ہے‘ میرا خیال ہے میں بارہ کروڑ سے پہلے فوت ہو جاؤں گا‘ میں نے عرض کیا ’’اور آپ اگر بچ گئے‘ اللہ نے اگر آپ کو لمبی زندگی دے دی تو؟‘‘ انھوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’میں بھی اپنے دوست کی
طرح ایدھی فاؤنڈیشن شفٹ ہو جاؤں گا‘ آپ جیسے کسی دوست کی مدد سے ہفتے میں ایک دن گرِل فش کھاؤں گا اور موت کے فرشتے کا انتظار کروں گا‘‘۔ جاوید چوہدری کا کالم اکتوبر 2017
"منقول"
3 notes
·
View notes
Text
ان کی جگہ اگر آپ ہوتے تو ؟
سولہویں صدی کے مشہور فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارت کا بھی یہ خیال تھا کہ جانور بالکل گھڑی کی طرح مکینکل ہوتے ہیں، انھیں دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا۔ ہر مذہب نے کچھ جانوروں کے گوشت کے استعمال کی اجازت دی اور کچھ کا گوشت ممنوع قرار دیا۔ ہر مذہب نے ضرورت کے سوا جانوروں کو خوامخواہ قید کرنے اور بغرضِ تفریح تکلیف و ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا اور پالتو جانوروں سے مہربانی کا سلوک اختیار کرنے کی تاکید کی اور اس مہربانی کے اجر کا مژدہ بھی سنایا۔ اور پھر سائنسی طور پر یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ہر جاندار زندگی کے دائرے کا اہم اور لازمی جزو ہے۔ اگر کوئی ایک حیاتیاتی نسل خطرے میں پڑتی ہے تو پورا سرکل آف لائف کمزور ہو کر بالاخر ٹوٹ پھوٹ بھی سکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عیسائی یورپ میں تجارتی انقلاب آنے تک بلی کو شیطان کا روپ مان کر اسے جگہ جگہ بھوسے کے ساتھ باندھ کر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب بلیاں کم ہو گئیں تو چوہے بڑھ گئے اور چوہوں کے ذریعے چودھویں اور پندھرویں صدی میں جو طاعون پھیلا، اس سے یورپ کی ایک تہائی آبادی لقمہِ اجل بن گئی۔ اس کے بعد کسی نے بلی کو شیطان کی خالہ نہیں کہا۔
رومن بادشاہ تو عوام کی توجہ روزمرہ مسائل اور اپنی نااہلی سے ہٹانے کے لیے انھیں جانوروں کی لڑائی کے تماشے میں مصروف رکھتے تھے لیکن جدید ، روشن خیال ، پڑھی لکھی خدا ترس دنیا میں آج جانوروں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے ہوتے ہوئے رومن دور فرشتوں کا زمانہ لگتا ہے۔ سن انیس سو اڑتیس میں امریکا میں فوڈ، ڈرگ اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ کے تحت مصنوعات کو انسانی استعمال سے قبل جانوروں پر آزمانے کا عمل لازمی قرار پایا۔ چنانچہ صرف امریکی لیبارٹریز میں سالانہ لگ بھگ ستر ملین چوہے، کتے، بلیاں ، خرگوش، بندر، پرندے وغیرہ تحقیق و ترقی کے نام پر اذیت ناکی اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ خرگوشوں کی آنکھوں میں متعدد کاسمیٹکس مصنوعات تجرباتی طور پر داخل کر کے انھیں اندھا کیا جاتا ہے۔ اسے ڈریز ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ اور پھر انھیں ناکارہ قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔
چین فر کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے۔ فیشن انڈسٹری کی بھوک مٹانے کی خاطر سالانہ ساڑھے تین ملین جانور صرف اس لیے مار دیے جاتے ہیں کہ ان کے نرم بال فر کی مصنوعات میں استعمال ہو سکیں۔ مثلاً چالیس انچ کا ایک فر کوٹ بنانے میں اوسطاً پنتیس خرگوشوں، یا بیس لومڑیوں یا آٹھ سیلز کی کھال درکار ہوتی ہے۔ قراقلی ٹوپی بنانے کے لیے جو نرم فر مٹیریل چاہیے وہ بھیڑ کے اس بچے کی کھال سے ہی مل سکتا ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے ماں کا پیٹ چاک کر کے نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ فی زمانہ سنتھیٹک میٹریل سے بھی اتنے ہی گرم کپڑے اور دیگر مصنوعات بن سکتی ہیں اور بن بھی رہی ہیں۔ فر کو تو جانے دیں جانوروں کی تو کھال بھی ان کے لیے مصیبت ہے۔ جوتے، پرس ، بیلٹس ، جیکٹس وغیرہ بنانے کے لیے یورپی یونین میں سالانہ بڑی چھپکلیوں ، مگرمچھوں اور سانپوں کی لگ بھگ ایک کروڑ کھالیں امپورٹ کی جاتی ہیں۔
گائے کا دودھ یقیناً اہم انسانی غذا ہے۔ لیکن اب سے تیس پینتیس برس پہلے تک گائے کی اوسط عمر بیس سے پچیس برس ہوا کرتی تھی۔ اب اسے چار سے پانچ برس ہی زندہ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا دودھ بڑھانے کے لیے مسلسل ہارمونل انجکشن دیے جاتے ہیں اور مصنوعی طریقوں سے لگاتار حاملہ رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا ہو سکیں۔ یوں وہ کچھ ہی عرصے میں سوائے ہلاکت کے کسی کام کی نہیں رہتی۔ مرغی عالمی سطح پر گوشت کی ساٹھ فیصد مانگ پوری کرتی ہے۔ لیکن بیس فیصد مرغیاں گندگی اور پنجروں میں گنجائش سے زیادہ ٹھونسے جانے اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہی مر جاتی ہیں۔ انڈے دینے والی مرغیوں کا گوشت عام طور سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ جب وہ بانجھ ہو جاتی ہیں تو انھیں ہزاروں کی تعداد میں زندہ دفن کر دیا جاتا ہے۔
شارک کے بازوؤں کا ( شارک فن) سوپ ایک مہنگی سوغات ہے اور ایک اچھے ریسٹورنٹ میں ڈھائی سو ڈالر فی پیالہ تک قیمت وصول کی جاتی ہے۔ لیکن شارک کے بازو کاٹ کر باقی شارک کو سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بغیر بازوں کے وہ تیرنے سے معذور ہو جاتی ہے اور سمندر کی تہہ میں اترتی چلی جاتی ہے۔ لگ بھگ دو سو ٹن وزنی بلیو وہیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اب سے سو برس پہلے تک کرہِ ارض کے سمندروں میں دو لاکھ بلیو وہیلز تھیں۔ مگر آگ لگے ان کی چربی کو کہ آج دس ہزار سے بھی کم رہ گئی ہیں۔ انڈونیشیا کے جزیرہ نارتھ سالویزی کی ٹومو ہون مارکیٹ میں بندر، چمگادڑ، بلی، کتے ، سور ، چوہے ، اژدھے زندہ روسٹ کر کے لٹکا دیے جاتے ہیں۔ اور ان کے ہم جولی دیگر جانور پنجروں میں بند سامنے سامنے اپنی باری گن رہے ہوتے ہیں۔
بل فائٹنگ کے کھیل میں ہر سال لگ بھگ چالیس ہزار بھینسے مر جاتے ہیں۔ ایک ��ھینسا جس کے جسم میں بل فائٹر کے کئی فاتحانہ نیزے گڑے ہوں مرنے میں ایک گھنٹہ لگاتا ہے۔ اسپین کے مدینسیلی قصبے میں ہر سال نومبر میں ٹورو جبیلو ( جلتا ہوا بھینسا ) کا تہوار منایا جاتا ہے۔ جنگلی بھینسے کے نوکیلے سینگوں پر ڈامر کی تہہ لیپ کر اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔ بھینسا شعلوں کی شدت سے بچنے کے لیے دیواروں سے ٹکریں مارتا ہوا گلیوں اور سڑکوں پر تماشائیوں کی تالیوں اور شور میں دیوانہ وار بھاگتا رہتا ہے اور جلتا ڈامر ٹپک ٹپک کر اسے گردن تک جھلسا دیتا ہے اور پھر وہ چار سے پانچ گھنٹے میں سسک سسک کے مر جاتا ہے۔ کیا ہمیں روزانہ لوہے کے پنجروں میں ٹھنسی مرغیاں ، موٹر سائیکل کے پیچھے دہرے کر کے بندھے بکرے ، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے والے ٹرکوں میں معلق چارپائیوں میں ٹانگیں پھنسائے بکرے اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کھڑی بھینسیں، وزن کے زور پر ہوا میں معلق پیٹے جانے والے گدھے ، گلے میں رسی ڈال کر کھینچے جانے والے ڈنڈے کے خوف سے ناچتے بندر ، چڑیا گھر کے کنکریٹ سے پنجے کھرچ کر زخمی ہونے والے شیر ، نتھنوں میں نکیل ڈالے کرتب دکھانے پر مجبور ریچھ ، لاکھوں روپے کی شرط پر لہولہان لڑائی کے منہ نچے کتے اور ایک دوسرے کی گردن نوچنے اور آنکھیں پھوڑنے والے مرغ دکھائی نہیں دیتے۔
سوچیے اگر آپ ان میں سے کسی جانور کی شکل میں جنمے جاتے تو۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes
·
View notes
Text
یہ کون تھا ؟
جنازے میں صرف پچاس ساٹھ لوگ تھے، سلام پھیرا گیا، مولوی صاحب نے دعا کرائی اور لوگوں نے تعزیت کے لیے لواحقین کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا،
مرحوم کا ایک ہی بیٹا تھا، وہ لندن میں تھا، وہ وقت پر پاکستان نہ پہنچ سکا چنانچہ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس سے پرسا کیا جا سکتا، لوگوں نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر گرمی کی وجہ سے ایک ایک کر کے چھٹنے لگے،
تدفین کا وقت آیا تو قبرستان میں صرف چھ لوگ تھے، مستنصر حسین تارڑ، یہ مرحوم کے عزیز ترین دوست تھے۔ یہ وہاں موجود تھے، دوسرا شخص مرحوم کا پبلشر تھا، یہ پچھلی دو دہائیوں سے ان کی کتابیں چھاپ رہا تھا لہٰذا یہ بھی وہاں رک گیا اور باقی چار لوگ گھریلو ملازم تھے، یہ آخری وقت تک صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے،
میت اٹھائی گئی، قبر میں رکھی گئی، مٹی ڈالی گئی، تازہ مٹی میں درخت کی سبز شاخ بھی ٹھونک دی گئی،
گورکن نے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، تدفین میں مصروف لوگوں نے بھی ہاتھ جھاڑے اور دعا میں شامل ہو گئے اور یوں ملک کے سب سے بڑے ادیب، بڑے ناول نگار کا سفر حیات اختتام پذیر ہو گیا، ایک کہانی تھی جو4 جولائی 2015ء کو ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں دفن ہو گئی۔
یہ کون تھا؟ یہ " عبداللہ حسین " تھے،
وہ عبداللہ حسین جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں، پاکستان نے 68 سالوں میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک ناول نگار پیدا کیا اور وہ ناول نگار عبداللہ حسین تھے،
عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، اصل نام محمد خان تھا، سولہ سال کی عمر میں ہندوستان کی تقسیم دیکھی، قیام پاکستان کے دوران انسان کا ایسا بھیانک چہرہ سامنے آیا کہ مذہب، انسانیت اور اخلاقیات تینوں سے اعتبار اٹھ گیا اور وہ مذہب اور انسانیت دونوں کے باغی ہو گئے
تقسیم کے واقعات نے عبداللہ حسین کے ذہن پر خوفناک اثرات چھوڑے، وہ 1952ء میں داؤدخیل کی سیمنٹ فیکٹری میں بطور انجینئر کام کرتے تھے، انھوں نے وہاں قلم اٹھایا اور ’’اداس نسلوں‘‘ کے نام سے اردو زبان کا ماسٹر پیس تخلیق کر دیا،
یہ ناول محض ایک ناول نہیں تھا، یہ ان نسلوں کا نوحہ تھا جنھوں نے تقسیم ہند کے دوران پرورش پائی اور یہ کندھوں پر اداسی کی صلیب اٹھا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں، یہ ناول ایک تہلکہ تھا، یہ تہلکہ پاکستان میں بھی چھپا اور سرحد پار ہندوستان میں بھی۔
’’اداس نسلیں‘‘ آج تک اردو کا شاندار ترین ناول ہے، یہ ناول عبداللہ حسین نے 32 سال کی عمر میں لکھا، صدر پاکستان ایوب خان نے انھیں 34 سا کی عمر میں ادب کا سب سے بڑا اعزاز ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ دیا
یہ برطانیہ شفٹ ہو گئے، یہ 40 سال برطانیہ رہے، برطانیہ میں قیام کے دوران مزید دو ناول لکھے، دو ناولٹ بھی تخلیق کیے اوردرجنوں افسانے بھی لکھے، عبداللہ حسین نے ایک ناول انگریزی زبان میں بھی لکھا، یہ سارے افسانے، یہ سارے ناولٹ اور یہ سارے ناول ماسٹر پیس ہیں۔
یہ چند سال پہلے لندن سے پاکستان شفٹ ہوئے اور لاہور میں اپنی بیٹی کے گھر میں رہائش پذیر ہو گئے، عطاء الحق قاسمی صاحب ان کے بہت بڑے فین ہیں، یہ ان تک پہنچے اور یہ انھیں کھینچ کھانچ کر ادبی سرگرمیوں میں لے آئے،
عرفان جاوید نے بھی ان پر بہت محنت کی، یہ ان کا طویل انٹرویو کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور یہ ان کی میزبانی اور مہمان نوازی کا لطف بھی اٹھاتے رہے، یہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ادبی میلوں میں بھی شریک ہوتے رہے۔
یہ خون کے سرطان میں مبتلا تھے، بیماری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ 4 جولائی 2015ء کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے،
بیگم کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے، وہ برطانیہ میں ہی رہ گئیں،
بیٹا لندن میں رہتا تھا، وہ جنازے پر نہ پہنچ سکا، عطاء الحق قاسمی نے احباب کو اطلاع دی، یوں پچاس ساٹھ لوگ ملک کے سب سے بڑے ادیب کی آخری رسومات میں شریک ہو گئے، یہ المیہ عبداللہ حسین کی موت کے المیے سے بھی بڑا المیہ تھا۔
ہم لوگ اس المیے سے دو سبق سیکھ سکتے ہیں، ایک سبق ہم عام لوگوں کے لیے ہے اور دوسرا ریاست کے لیے۔ ہم لوگ بہت بدقسمت ہیں، ہم کام، شہرت اور دولت کی دھن میں خاندان کو ہمیشہ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، ہم کیریئر بناتے رہتے ہیں، شہرت سمیٹتے رہتے ہیں اور اس دوڑ ک�� دھوپ ہمارے خاندان کی موم کو پگھلاتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب زندگی کی شام ہوتی ہے تو ہمارے طاقوں میں پگھلی ہوئی موم کی چند یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا،
میں بے شمار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے بچوں کے بچپن کو اس لیے انجوائے نہ کر سکے کہ یہ بچوں کے اعلیٰ مستقبل کے لیے سرمایہ جمع کر رہے تھے۔
بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنی پوری جمع پونجی لگا کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھجوا دیا، بچے جہاں گئے وہ وہاں سے واپس نہ آئے اور یوں ان کے جنازے ملازمین ہی نے پڑھے اور ملازمین ہی نے انھیں دفن کیا،
میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو پوری زندگی شہرت جمع کرتے کرتے مر گئے اور ان کے جنازے میں ان کا کوئی عزیز، رشتے دار اور دوست تھا اور نہ ہی وہ لوگ جو زندگی میں ان کے ہاتھ چومتے تھے اور اپنی ہتھیلیوں پر ان کے آٹو گراف لیتے تھے۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو امن، انصاف، خوش حالی اور مطمئن زندگی کے لیے خاندان کو ملک سے باہر لے گئے، آخر میں خود واپس آ گئے، خاندان وہیں رہ گیا اور جب انتقال ہوا تو بچوں کو چھٹی ملی اور نہ ہی فلائیٹ
اور میں ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جو زندگی میں غرور کا غ ہوتے تھے، جنھوں نے زندگی اقتدار کا الف اور شہرت کی ش بن کر گزاری لیکن جب یہ مرے تو دس دس سال تک کوئی ان کی قبر پر فاتحہ کے لیے نہ آیا، کسی نے ان کے سرہانے دیا تک نہ جلایا
چنانچہ پہلا سبق یہ ہے، آپ اپنی اولاد، اپنے خاندن کو کبھی تعلیم، روزگار، کام، شہرت، اقتدار اور سیکیورٹی کے نام پر اپنے آپ سے اتنا دور نہ کریں کہ یہ آپ کے جنازے میں شریک نہ ہو سکیں اور آپ کی قبریں دس دس سال تک ان کے قدموں کو ترستی رہیں۔
دوسرا سبق ریاست کے لیے ہے، ادیب، شاعر، دانشور، موسیقار، اداکار اور کھلاڑی معاشرے کی ’’م‘‘ ہوتے ہیں، یہ م نہ ہو تو معاشرہ معاشرہ نہیں عاشرہ بن جاتا ہے، ہم اگر بحیثیت ریاست عبداللہ حسین جیسے لوگوں کو عزت نہیں دیں گے تو پھر یہ ریاست اور یہ معاشرہ دونوں بنجر ہو جائیں گے
چنانچہ میری وزیراعظم اوروزراء اعلیٰ سے درخواست ہے، آپ تخلیقاروں کی عزت افزائی کے لیے فوری طورپر تین اقدامات کریں،
ایک، آپ صدر اور گورنر صاحبان کی ذمے داری لگا دیں۔یہ دانشوروں ،مصوروں ،ادیبوں ،اداکاروں اورکھلاڑیوں کے جنازوں میں شریک ہوں گے اور یہ وہاں پھولوں کی چادر بھی چڑھائیں گے،
دو، آپ ملک کے تمام بزرگ دانشوروں کی فہرست بنائیں اور ان دانشوروں کو مختلف یونیورسٹیوں میں تقسیم کردیں، یہ یونیورسٹیاں ان دانشوروں کو ’’اون‘‘ کریں، یہ انھیں اعزازی پروفیسر بھی بنائیں، انھیں یونیورسٹی کے اندر چھوٹا سا گھر بھی بنا کر دیں،ان کی مہارت اور تجربے سے بھی فائدہ اٹھائیں، ان کے علاج معالجے کا بندوبست بھی کریں اور یہ جب انتقال کریں تو ان کا جنازہ اور تدفین یونیورسٹی ہی میں ہو اور پوری یونیورسٹی اس جنازے میں شریک ہو ۔
یہ قدم دانشوروں ،ادیبوں اور شاعروں کی عزت افزائی کا باعث بھی بنے گا اور یہ نان نفقے کی ذلت سے بھی بچ جائیں گے اور قوم بھی ایسی خبروں کے عذاب سے نکل آئے گی جن کے ��ریعے قوم کو ہر مہینے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ فلاں ادیب یا اداکار انتقال کر گیا اور فلم انڈسٹری اور ادبی حلقے کی کسی شخصیت نے جنازے میں شرکت نہ کی
آپ لوگ عبداللہ حسین کی آخری رسومات کی خبر پڑھ لیں اور اس کے بعد یورپ اور امریکا کے ادیبوں،شاعروں اور مصوروں کی آخری رسومات دیکھیں ،آپ کو اپنے فکری زوال اور مغربی دنیا کے ذہنی عروج کی وجوہات معلوم ہو جائیں گی،
خدا کا غضب جس ملک میں عبداللہ حسین جیسے شخص کی تدفین گھریلو ملازمین نے کی ہو، اس ملک میں ادب ، دانش اور فکر کتنی دیر زندہ رہے گی ،
اس ملک میں کتابوں کے شوروم کی جگہ جوتوں اور ٹکا ٹک کی دکانیں نہیں کھلیں گی تو کیا ہو گا۔
جاوید چوہدری
14 notes
·
View notes
Text
صنم چوہدری نے دین کی خاطر اداکاری کو خیرباد کہہ دیا
صنم چوہدری نے دین کی خاطر اداکاری کو خیرباد کہہ دیا
کراچی: اداکارہ صنم چوہدری نے دین کی خاطر شوبز انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے صنم چوہدری نے اپنی تمام تصاویر ڈیلیٹ کردی ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے ’میرے خاندان نے اللہ کی طرف پلٹنے پر میرا اس طریقے سے استقبال کیا ہے، یہ بہت پُرمسرت ہے، شکریہ‘۔ صنم چوہدری کی اس پوسٹ کے بعد مداحوں کو یقین ہو چلا ہے کہ انہوں نے اداکاری چھوڑ دی ہے۔ مداح انہیں کمنٹس میں…
View On WordPress
0 notes
Text
صنم چوہدری نے دین کی خاطر اداکاری کو خیرباد کہہ دیا - اردو نیوز پیڈیا
صنم چوہدری نے دین کی خاطر اداکاری کو خیرباد کہہ دیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کراچی: اداکارہ صنم چوہدری نے دین کی خاطر شوبز انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ سے صنم چوہدری نے اپنی تمام تصاویر ڈیلیٹ کردی ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے ’میرے خاندان نے اللہ کی طرف پلٹنے پر میرا اس طریقے سے استقبال کیا ہے، یہ بہت پُرمسرت ہے، شکریہ‘۔ صنم چوہدری کی اس پوسٹ کے بعد مداحوں کو یقین ہو چلا ہے کہ انہوں نے اداکاری چھوڑ دی…
View On WordPress
0 notes
Text
وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور نور بخاری کے درمیان کیا تعلق ہے؟
وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور نور بخاری کے درمیان کیا تعلق ہے؟
سابق پاکستانی اداکارہ نور بخاری نے حال ہی میں انسٹاگرام کے پیروکاروں کو وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے تعلقات کے بارے میں بتایا تھا۔ بخاری نے 2017 میں شوبز انڈسٹری چھوڑ دی۔ بعد میں انہوں نے اپنی مذہبی تبدیلی کو شریک کرنے کے لئے یوٹیوب چینل لانچ کیا۔ سابق پاکستانی اداکار اور ٹیلی ویژن کے میزبان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی نے ان کی ماں سے زیادہ کی بات ہے جب پیروکار نے وزیر اعظم کی اہلیہ…
View On WordPress
0 notes
Text
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور نور بخاری کے درمیان کیا تعلق ہے؟
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور نور بخاری کے درمیان کیا تعلق ہے؟
سابق پاکستانی اداکارہ نور بخاری نے حال ہی میں انسٹاگرام کے پیروکاروں کو وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سے تعلقات کے بارے میں بتایا تھا۔ بخاری نے 2017 میں شوبز انڈسٹری چھوڑ دی۔ بعد میں انہوں نے اپنی مذہبی تبدیلی کو شریک کرنے کے لئے یوٹیوب چینل لانچ کیا۔ سابق پاکستانی اداکار اور ٹیلی ویژن کے میزبان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی نے ان کی ماں سے زیادہ کی بات ہے جب پیروکار نے وزیر اعظم کی اہلیہ…
View On WordPress
0 notes
Text
کاش میں سانسیں بھی خرید سکتا
سام سانگ کے مالک کی عبرت ناک کہانی
25 اکتوبر 2020ء کا دن تھا۔ ڈاکٹر نے مریض کا بازو سیدھا کیا اور مایوسی سے سر ہلا دیا‘ بیٹے نے آہستہ آواز میں پوچھا ”کیا کوئی چانس نہیں“ ڈاکٹر نے جواب دیا ”سر اب نہیں‘ ہمیں وینٹی لیٹر بند کرنا ہوگا“ بیٹے نے سر نیچے کیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ مریض مئی 2014ء سے کومے میں تھا۔
مریض کی کہانی 1940ء میں شروع ہوئی تھی‘ اس کے والد نے جنوبی کوریا کے شہرٹائیگومیں چھوٹی سی کمپنی بنائی‘ کوریائی زبان میں تین ستاروں کو ”سام سنگ“ کہتے ہیں‘ قدیم روایات کے مطابق اکٹھے طلوع ہونے والے تین ستارے کبھی غروب نہیں ہوتے۔
والد لی بیونگ چل نے خوش شگونی کے لیے کمپنی کا نام سام سنگ رکھ دیا‘ یہ لوگ شروع میں فروٹ اور فروزن فش ایکسپورٹ کرتے تھے‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد تعمیر
نو شروع ہوئی تو سام سنگ خوراک سے کنسٹرکش انڈسٹری میں آگئی اور اس نے دھڑا دھڑ عمارتیں‘ پل اور سڑکیں بنانا شروع کر دیں‘ لی بیونگ چل نے ان ٹھیکوں میں کروڑوں روپے کمائے‘ یہ سمجھ دار انسان تھے‘ یہ جانتے تھے انسان کو اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہییں چناں چہ یہ کنسٹرکشن کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل‘ فیشن اور الیکٹرانکس کے کاروبار میں بھی آ گئے‘ گروپ بڑا ہوتا چلا گیا‘
Lee Kun-hee
لی کن ہی لی بیونگ چل کے تیسرے بیٹے تھے‘ یہ کند ذہن اور لاابالی مزاج کے لڑکے تھے‘ پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا لیکن والد انہیں ہرحال میں پڑھانا چاہتے تھے‘ لی کن ہی نے وسیڈا یونیورسٹی سے اکنامکس کی ڈگری لی اور بزنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے جارج واشنگٹن یونیورسٹی امریکا میں داخلہ لے لیا‘ جارج واشنگٹن کا دورلی کی زندگی کا فضول اور ناقابل بیان زمانہ تھا‘ یہ اپنی ڈگری تک مکمل نہ کر سکے‘ والد نے انہیں واپس بلایا اور کنسٹرکشن اور ٹریڈنگ کے کام میں لگا دیا‘ یہ گرتے پڑتے یہ کام کرتے رہے‘ والد ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ ان کا خیال تھا یہ پوری کمپنی کو ڈبو دیں گے‘ والد 1987ء میں انتقال کر گئے اور لی کو مجبوراً کمپنی سنبھالنا پڑ گئی‘ کمپنی اس وقت 34 مختلف شعبوں میں کام کر رہی تھی۔
لی کے لیے اگلے پانچ سال بہت مشکل تھے‘ یہ ایک دفتر سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کی طرف دوڑتے رہتے تھے یہاں تک کہ 1993ء آ گیا‘ لی کو اچانک محسوس ہوا ہم بہت زیادہ مصنوعات بنا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم کوالٹی میں مار کھا رہے ہیں جب کہ ہمارے حریف صرف ایک ایک کام کرتے ہیں اور ان کی مصنوعات کی کوالٹی سام سنگ سے بہت بہتر ہے‘ لی کو محسوس ہوا ہم نے اگر اپنے حریفوں کو کوالٹی میں مار نہ دی تو ہم پٹ جائیں گے ۔
چناں چہ اس نے ایک دن اپنے تمام ایگزیکٹوز کو جمع کیا اور ان سے کہا ”ہم آج سے اپنی بیوی اور بچوں کے علاوہ سب کچھ بدل رہے ہیں‘ تم لوگ نقصان کی پرواہ نہ کرو‘ ہم اگر فٹ پاتھ پر بھی آ جائیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں‘ آپ بس صرف اور صرف کوالٹی پر توجہ دیں‘ ہماری پراڈکٹس ہر صورت مارکیٹ میں نمبر ون ہونی چاہییں‘ سام سنگ کے لوگو کو گارنٹی ہونا چاہیے“ یہ میجر شفٹنگ تھی‘ کمپنی کی انتظامیہ نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ڈٹے رہے۔
وہ ہر قسم کا نقصان برداشت کرنے کے لیے بھی تیار تھے‘ ایگزیکٹوز نے ہار مان لی اور تعداد کی بجائے معیار پر چلے گئے‘ شروع کے سال بہت مشکل تھے‘ کمپنی کے گودام کباڑ خانہ بن گئے‘ مارکیٹ میں سام سنگ کا انبار لگ گیا‘ لوگ اس کے سائن بورڈز کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے‘ ڈسٹری بیوٹرز تک بھاگ گئے مگر یہ پیچھے نہ ہٹے‘ 1995ء میں ایک طرف کمپنی کا بیڑہ غرق ہو گیا اور دوسری طرف لی کن ہی پر جنوبی کوریا کے صدر روح تائے ووہ کو30 ملین ڈالر رشوت دینے کا الزام لگ گیا۔
یہ تفتیش‘ انکوائریاں اور عدالتی مقدمات کا سامنا بھی کرنے لگے‘ وہ دور مشکل تھا مگر اس دور نے انہیں پگھلا کر کندن بنا دیا‘ یہ نکھرتے چلے گئے‘ سام سنگ اس دوران ٹیلی ویژن کی انڈسٹری میں آگیااور اس کا ٹی وی دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ لیڈر بن گیا اور یہ چند ماہ میں پیداوار‘ معیار اور فروخت میں سونی کو بہت پیچھے چھوڑ گیا یوں کمپنی 2006ء میں اعلیٰ معیار کا گارنٹی کارڈ بن گئی‘ یہ ہر گھر تک پہنچ گئی‘ لی کن ہی نے 1998ء میں سمارٹ فونز کا یونٹ بھی لگا لیا۔
یہ یونٹ گلیکسی کہلاتا تھا‘ گلیکسی مارکیٹ میں آ یا اور اس نے کشتے کے پشتے لگا دیے‘ یہ بھی دیکھتے ہی دیکھتے عالمی برینڈ بن گیا جس کے بعد سام سنگ 350 بلین ڈالر کی کمپنی بن گئی‘ لی کن ہی کو فوربس نے 2014ء میں دنیا کے100 بااثر ترین لوگوں کی لسٹ میں بھی شامل کر لیااور یہ کوریا کا امیر ترین شخص بھی بن گیا‘ یہ سٹیٹ سے بھی امیر ہو گیا۔لی کن ہی کی کام یابی کا پہلا ستون ٹیکنالوجی تھی‘سام سنگ کا آر اینڈ ڈی بہت مضبوط ہے۔
اس نے اہل ترین سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر انجینئرز بھرتی کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے یہ گروپ پچھلے دس برسوں سے مارکیٹ کو لیڈ کر رہا ہے‘ دوسرا یہ گروپ معیار پر کمپرومائز نہیں کرتا‘ آپ ان کی کوئی پراڈکٹ اٹھا کر دیکھ لیں‘ پیکنگ سے لے کر سائز تک آپ کو اس کا معیار حیران کر دے گا اور تیسرا لی کن ہی خریدوفروخت کا ایکسپرٹ تھا‘ یہ راستے کی ہر رکاوٹ کو خرید کر یا گرا کر آگے نکل جاتا تھا‘ یہ جنوبی کوریا کے قوانین تک بدل دیتا تھا۔
یہ اپنی مرضی کی حکومتیں بھی لے آتا تھا اور اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی بدل دیتا تھا چناں چہ یہ سٹیٹ کے اندر ایک سٹیٹ بن گیا اور یہ سٹیٹ اصل سٹیٹ سے بڑی اور مضبوط تھی‘ آپ جنوبی کوریا کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ملک کے ہر سیاسی اتار چڑھاؤ کے پیچھے سام سنگ اور لی کن ہی ملے گا‘ یہ درجنوں مرتبہ انکوائریوں‘ تفتیشوں اور مقدمات کا ہدف بنا‘ اس پر صدور کو رشوت دینے کے الزام بھی لگے اور اسے سیاسی خریدوفروخت کا بیوپاری بھی کہا گیا‘ 2008ء میں اس پر ٹیکس چوری کے الزامات ثابت ہو گئے۔
اسے سزا بھی ہوئی لیکن اس نے عدالت اور حکومت دونوں کو خرید لیا‘ سزا معاف ہو گئی تاہم اسے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا عہدہ واپس کرنا پڑ گیا‘ یہ پورے کوریا میں بدنام تھا مگر اسے کوئی ندامت‘ کوئی پریشانی نہیں تھی‘ یہ میدان میں ڈٹا رہتا تھا‘ یہ خود اپنے منہ سے کہتا تھا آپ اگر دولت سے آسانیاں نہیں خرید سکتے تو پھر آپ کو دولت مند ہونے کا کوئی فائدہ نہیں چناں چہ یہ سامنے موجود ہر شخص کو چند لمحوں میں خرید لیا کرتا تھا‘ اس کی یہ عادت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ اس نے آخر میں زندگی کو بھی خریدنے کی کوشش شروع کر دی۔
چیئرمین لی کن ہی کو 2014ء میں ہارٹ اٹیک ہوا اور یہ کوما میں چلا گیا‘ اس کی وصیت کے مطابق اسے وینٹی لیٹر پر شفٹ کر دیا گیا اور اس کے لیے نئی ادویات کی ایجاد کا کام شروع کر دیا گیا‘ سام سنگ نے درجنوں ریسرچ اداروں کو فنڈنگ کی‘ بڑے سے بڑے ڈاکٹر کا بندوبست کیا اور قیمتی سے قیمتی ترین ادویات بنوائی گئیں مگر لی کن ہی کومے سے باہر نہ آ سکا‘ اس کے بیٹے لی جائے یونگ نے کمپنی کی عنان سنبھال لی‘ یہ اپنے والد کو ایک بار اپنے پاؤں پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔اس کی شدید خواہش تھی یہ ایک بار اپنے منہ سے بولیں
یہ اپنے ہاتھ سے کھائیں اور ایک بار!جی ہاں ایک بار اپنی کھلی آنکھوں سے سام سنگ کی نئی سکرین دیکھیں لیکن لی جائے یونگ کی کوئی کوشش بارآور نہ ہوسکی اور یوں 25 اکتوبر 2020ء کی وہ شام آ گئی جب ڈاکٹروں نے مایوسی کا اعلان کر دیا‘ لی کن ہی کومے کے عالم میں انتقال کر گیا اور اس کا جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا‘ ڈاکٹر نے اس کا بازو سائیڈ پر رکھا اور مایوسی میں سر ہلا دیا‘ سام سنگ کا مالک مر چکا تھا لیکن مرنے کے باوجود اس کے اکاؤنٹ میں 20 بلین ڈالرز تھے اور یہ 350 بلین ڈالرز کی کمپنی کا مالک تھا مگر 350 بلین ڈالرز کی کمپنی اور 20 بلین ڈالرز کے اکاؤنٹس موت کا مقابلہ نہ کر سکے‘ مسافر چھ سال کی طویل نیند کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گیا۔
لی کن ہی کی موت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا انسان دنیا میں دولت کے ذریعے سب کچھ خرید سکتا ہے لیکن یہ کتنا ہی بڑا بیوپاری کیوں نہ ہو جائے یہ ایک بھی اضافی سانس نہیں خرید سکتااور اس کے پاس قدرت کے سامنے ہارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا‘ کہتے ہیں انسان اگر زندگی خرید سکتا تو ہم آج بھی نمرود اور فرعون کی خدائی میں سانس لے رہے ہوتے‘ موت وہ امر ربی ہے جس کے ذریعے اللہ لی کن ہی جیسے لوگوں کو یہ پیغام دیتا ہے‘ جاؤ تم جتنا بھاگ سکتے ہو بھاگ لو لیکن تم نے آخر میں میرے پاس ہی آنا ہے‘
میں تمہیں کائنات کے کسی کونے میں چھپنے نہیں دوں گا اور یہ چھپنے دیتا بھی نہیں‘ تاریخ انسانی خداؤں کا قبرستان ہے‘ آپ کسی دن تاریخ کے قبرستان میں جھانک کر دیکھیں‘آپ کو ہر قبر میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص لیٹا ملے گا جو خود کو ناگزیر بھی سمجھتا تھا اور ناقابل شکست بھی لیکن پھر کیا ہوا؟سن کنگ سے لے کر مون کوئین تک دنیا کے ہر ناگزیر کے لیے مٹی آخری لحاف ثابت ہوئی‘ اللہ کی اس دنیا میں لی کن ہی جیسا شخص بھی چھ چھ سال ہسپتال میں بستر پر لیٹ کر آنکھ نہیں کھول پاتا
اوراس سے امیر تیمور اور ہٹلر جیسا شخص بھی خالی ہاتھ واپس جاتا ہے لیکن ہم اس قبرستان میں پوری زندگی ”میں میں“ کی آوازیں لگاتے رہتے ہیں اور ہمیں شرم بھی نہیں آتی‘ بھائی میرے! اپنی اوقات دیکھ کر بولو‘ تم کورونا کا مقابلہ تو کر نہیں سکتے‘ زندگی اور موت دینے والے کا کیا خاک مقابلہ کرو گے‘ مٹی کی مٹھی ہو‘ مٹی بن کر رہو‘ خدا نہ بنو کیوں کہ خدا اپنے سوا کسی کو خدا نہیں رہنے دیتا۔
از جاوید چودھری
6 notes
·
View notes
Text
دینِ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا اعلان۔۔!! سُپر ماڈل نے اسلام کیلئے فیشن اور ماڈلنگ کی دنیا چھوڑ دی
دینِ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا اعلان۔۔!! سُپر ماڈل نے اسلام کیلئے فیشن اور ماڈلنگ کی دنیا چھوڑ دی لاس اینجلس (ویب ڈیسک) امریکی نژاد صومالین باحجاب سُپر ماڈل حلیمہ آدن نے 23 برس کی عمر میں دین اسلام کی خاطر فیشن اور ماڈلنگ کی دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ ذررائع کا کہنا ہے کہ حلیمہ آدن کو اپنے آبائی ملک میں لڑائی کی وجہ سے علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔ چند سال وہ ہمسائیہ ملک کینیا کی پناہ گاہوں میں قیام پزیر رہیں، جس کے بعد وہ امریکہ چلی گئیں۔ جہاں انہوں نے ریاست منی سوٹا کے مقابلہ حُسن میں حصہ لیا جبکہ ان کو حجاب نہ چھوڑنے کا چیلنج قبول تھا۔ اس طرح وہ فیشن شوز میں باحجاب شرکت کرتی رہیں۔ حلیمہ آدن نے بتایا کہ حجاب پہن کر مسلمان لڑکیاں تنقید اور ظنز کا نشانہ بنتی رہیں۔ جب انہیں شہرت ملی تو ان کی تصویر کو عربی میگزین میں سرورق پر شائع کیا گیا۔ فیشن انڈسٹری کی چمک دمک میں عرصہ گزارنے والی ماڈل نے دو روز قبل اپنے ٹوئٹس میں مصنوعی دنیا کو خیرباد کہہ کر اسلام کی خاطر زندگی بسر کرنے کا اعلان کر دیا۔ Read the full article
0 notes
Text
فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک کالم
زائرہ وسیم چند دن قبل تک بالی وڈ کی اٹھارہ سالہ اداکارہ کی حیثیت سے جانی جاتی تھیں جنہوں نے عامر خان کی فلم ’’دنگل‘‘ میں چھوٹی سی عمر میں کام کر کے عالمی شہرت کمائی لیکن اب اُنہوں نے اداکاری کی اُس زندگی کو خیرباد کہہ دیا جس کی چمک دمک نے بہت سوں کو اندھا کر رکھا ہے اور جو گمراہی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ زائرہ وسیم نے دو دن قبل سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ وہ بالی وڈ اور فلم انڈسٹری کو خیرباد کہہ رہی ہیں کیونکہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کے باعث اُن کا ایمان خطرہ میں پڑ گیا اور ان کا اپنے اللہ سے رشتہ کمزور ہو گیا تھا۔ زائرہ وسیم نے اس اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا اکائونٹس سے اپنی تمام تصاویر بھی ہٹا دیں۔
زائرہ نے یہ اعلان سوشل میڈیا اکائونٹس میں لکھے گئے اپنے ایک نوٹ کے ذریعے کیا۔ یہ نوٹ نہ صرف فلم انڈسٹری سے جڑے ہر فر�� خصوصاً مسلمانوں کو ضرور پڑھنا چاہئے بلکہ یہ تحریر اُن عام مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے جو فلم میں کام کرنے والوں کو آئیڈیلائز کرتے اور فلم انڈسٹری میں کام کرنےکو بُرا نہیں جانتے۔ انگریزی میں لکھے اس نوٹ کا مکمل اردو ترجمہ تو اس کالم میں شائع کرنا تو ممکن نہیں لیکن اس کے کچھ حصوں کا مفہوم میں قارئین کرام کے لیے پیش کر رہا ہوں : زائرہ لکھتی ہیں کہ جیسے ہی اُنہوں نے بالی وڈ میں قدم رکھا اُن کی شہرت آسمانوں کو چھونے لگی، اُنہیں عوام میں بے پناہ توجہ ملنے لگی، ایسے لگنے لگا جیسے وہ بہت کامیاب انسان ہیں، اُنہیں نوجوانوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
لیکن پانچ سال فلم انڈسٹری میں گزارنے کے بعد‘ زائرہ نے کہا کہ وہ یہ تسلیم کرنا چاہتی ہیں کہ میں اس شہرت سے، اس کام سے خوش نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس دوران اُنہیں احساس ہوا کہ اگرچہ وہ انڈسٹری میں زبردست طریقے سے فٹ ہو سکتی ہیں لیکن حقیقت میں اس فلمی زندگی سے اُن کا تعلق نہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ گو اُنہیں اس دوران بہت محبت ملی، لوگوں نے سپورٹ بھی کیا، ان کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی لیکن اس زندگی نے انہیں جہالت و گمراہی کے رستے پر ڈال دیا تھا کیونکہ وہ غیر ارادی طور پر اپنے ایمان سے دور ہو رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک ایسا کام جو ایمان سے دوری کا سبب بنے، اس سے جڑے رہنے سے اُن کا اپنے خدا سے تعلق خطرے میں پڑ گیا تھا۔
وہ لکھتی ہیں کہ اگرچہ میں اپنے آپ کو سمجھانے کو کوشش کرتی رہی کہ جو میں کر رہی ہوں وہ ٹھیک ہے اور اُس کا مجھ پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑ رہا لیکن حقیقت میں میری زندگی سے برکت ختم ہو گئی تھی، میں یہ بھی سوچتی رہی کہ اگرچہ یہ کام ٹھیک نہیں مگر میں مناسب وقت پر چھوڑ دوں گی، میں نے اپنے آپ کو ایک ایسی نازک پوزیشن پر لا کھڑا کیا جس کے سبب میرا سکون، ایمان اور میر اپنے اللہ سے تعلق کمزور پڑ سکتا تھا۔ زائرہ کہتی ہیں کہ میں فرار کے رستے تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن کبھی اطمینان نہ پا سکی کہ جو کر رہی ہوں، وہ ٹھیک ہے تاوقتیکہ میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی کمزوری کا مقابلہ کرنے اور سچائی تک پہنچنے کے لیے قرآن پاک پڑھوں، قرآن پڑھتے ہی میرا دل پُرسکون ہو گیا.
میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے رحم اور ہدایت کی دعا مانگی اور پھر مجھے احساس ہوا کہ میں دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی کی وجہ سے کنفیوژن کا شکار اور بے سکون رہی اور اس کوشش میں رہی کہ اپنی کھوکھلی دنیاوی خواہشات کے ذریعے سکون حاصل کروں۔ قرآن و حدیث کے مختلف حوالے دینے کے بعد زائرہ وسیم لکھتی ہیں کہ وہ آج فلم انڈسٹری سے علیحدگی کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اُنہوں نے مزید لکھا کہ نجانے کتنے لوگ اُن سے متاثر ہوئے ہوں گے لیکن زائرہ نے سب کو نصیحت کی کہ کتنی ہی بڑی کامیابی، شہرت، طاقت یا پیسہ اس قابل نہیں ہو سکتا کہ اُس کی وجہ سے کوئی اپنے ایمان اور سکون کا سودا کر لے۔
وہ کہتی ہیں کہ اپنے آپ کو دھوکے میں مت رکھو بلکہ دین کے اصولوں پر قائم رہو۔ وہ لکھتی ہیں کہ ایسے رول ماڈلز کے پیچھے مت بھاگو جو اللہ اور اُس کے احکامات سے دور کر دیں، ایسے افراد کو مت اجازت دو کہ تمہاری زندگی کے مقصد پر اثر انداز ہوں۔ ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے زائرہ وسیم لکھتی ہیں کہ مرنے کے بعد روزِ حشر انسان کو اُن افراد کے ساتھ اٹھایا جائے گا جن کے ساتھ وہ دنیا میں محبت رکھتا ہو گا۔ (مفہوم حدیث) زائرہ نے اسلامی حوالوں سے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب کوئی اللہ کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے تکالیف دی جاتی ہیں، اُس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ایسا کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو ماضی میں ایسے فرد سے محبت کے دعویدار ہوتے ہیں۔ ایک اور حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے زائرہ لکھتی ہیں کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب اسلام پر عمل کرنا ایسے ہی ہو گا جیسے انگارہ ہاتھ میں تھام لینا۔ (مفہوم حدیث)
زائرہ نے اپنے اس طویل نوٹ کا خاتمہ اس دعا کے ساتھ کیا کہ اللہ ہمارے دلوں کو منافقت، تکبر، گمراہی سے پاک کرے اور ہماری نیتوں، ہمارے قول و فعل کو خالص فرمائے۔ آمین! میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ کہ زائرہ وسیم کو اپنے اس فیصلہ پر قائم رہنے کی استقامت اور اُن کو دنیا و آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائیں۔ آمین!
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
6 notes
·
View notes
Text
بھارت : نفرت انگیز مواد کے الزام پر دباؤ کے باعث فیس بک ایگزیکٹو نے عہدہ چھوڑ دیا
بھارت میں فیس بک اور اس کے لابنگ ایگزیکٹو اَنکھی داس نے 'نفرت انگیز مواد' کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے قواعد سے متعلق ایک اخبار کی رپورٹ میں الزامات اور ان پر اس سلسلے میں ہونے والے دباؤ کے بعد عہدہ چھوڑ دیا۔ اگست میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور مساجد جلانے کے لیے اکسانے والی حکمراں جماعت کے دائیں بازو کے انتہا پسند رہنما پر نفرت انگیز تقریر کے قواعد کی خلاف ورزی سے متعلق وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی طوفان برپا ہوا تھا۔ وال اسٹریٹ جرنل نے رواں برس اگست میں انکشاف کیا تھا کہ اَنکھی داس نے اس بات کی مخالفت کی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز مواد پر فیس بک کی پالیسی کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق امریکا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں فیس بک کے ملازمین بھارت میں کمپنی کی قواعد و پالیسی پر اطلاق ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سوالات اٹھا رہے تھے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں فیس بک ایگزیکٹو انکھی داس نے عملے سے کہا تھا کہ مودی کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاستدانوں پر نفرت انگیز تقاریر کے اصولوں کا اطلاق کرنے سے 'ملک میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو نقصان پہنچے گا'۔ بعد ازاں فیس بک کے 11 ملازمین نے کمپنی کی قیادت کو ایک کھلا خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تعصب کا جائزہ لیں اور ان کی مذمت کریں۔ مراسلے میں کہا گیا تھا کہ فیس بک کو پالیسی میں مزید مستقل مزاجی لانے کی ضرورت ہے۔
اب برطانوی خبر رساں ادارے ���رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اَنکھی داس جو بھارت، جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے فیس بک کی پبلک پالیسی کی سربراہ تھیں، انہوں نے عوامی خدمت میں دلچسپی کے باعث عہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ فیس بک کے بیان میں کہا گیا کہ اَنکھی داس بھارت میں ان کے ابتدائی ملازمین میں سے ایک تھیں اور انہوں نے کمپنی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ نئی دہلی میں مقیم ٹیکنالوجی پالیسی تجزیہ کار پرسانتو رائے نے کہا کہ وہ بھارت میں ملٹی نیشنلز میں سب سے زیادہ بااثر پبلک پالیسی پروفیشنل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اَنکھی داس نے بھارت میں فیس بک کو ایک سمت دی اور ان کا عہدہ چھوڑنا بڑی بات ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے بعد فیس بک انڈیا کے سربراہ اجیت موہن نے ایک کمیونٹی پوسٹ میں ان کا اور کمپنی پالیسیز کا دفاع کیا تھا۔
اَنکھی داس کو بھارت کے بااثر کارپوریٹ لابنگ ایگزیکٹوز میں شمار کیا جاتا ہے اور 2011 میں کمپنی میں شامل ہونے کے بعد سے وہ بھارت میں فیس بک صارفین کے اضافے میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں۔ خیال رہے کہ بھارت میں فیس بک کی ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں اس کے 30 کروڑ سے زائد صارفین موجود ہیں۔ اَنکھی داس نے ایک ایسے وقت میں کمپنی سے علیحدگی اختیار کی ہے جب فیس بک سمیت دیگر ٹیکنالوجی کمپنیاں بھارت میں ڈیٹا اسٹوریج اور پرائیویسی سے متعلق نئے سخت قوانین کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ بھارت کی جانب سے ڈیٹا اسٹوریج اور پرائیویسی سے متعلق نئے قوانین کا مسودہ تیار کیا جارہا ہے اور ٹیکنالوجی انڈسٹری کے ایگزیکٹوز کا کہنا ہے کہ نئے قوانین سے غیر ملکی کمپنیوں کو ممکنہ طور پر دھچکا لگ سکتا ہے۔
دی ٹائم کی رپورٹ کے مطابق فیس بک ترجمان نے ٹائم کو بتایا کہ اَنکھی داس کی روانگی کا پارلیمانی انکوائری یا میڈیا رپورٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ اَنکھی داس نے ایک بیان میں کہا کہ میں نے لوگوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے اور کمیونیٹیز بنانے کے طویل مشن کے بعد فیس بک میں اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اب اپنی ذاتی دلچسپی کے باعث عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ اَنکھی داس نے کہا کہ جب میں نے 2011 میں فیس بک میں شمولیت اختیار کی تھی تو ملک میں انٹرنیٹ بہت کم تھا اور میں اکثر حیران ہوتی تھی کہ ملک میں سماجی اور معاشی عدم مساوات کو کیسے حل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم ایک چھوٹا اسٹارٹ اَپ تھے اور ہمارا مشن اور مقصد بھارت میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا تھا۔ اَنکھی داس نے کہا کہ 9 برس بعد میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ مشن بڑے پیمانے پر مکمل ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے کمپنی کے باصلاحیت اور اسمارٹ لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے، خاص طور پر پالیسی ٹیم سے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ خاص کمپنی اور خاص لوگوں کا گروہ ہے، اَنکھی داس نے مارک زکر برگ کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اَنکھی داس نے کہا کہ میں نے کمپنی کی بہت اچھے سے خدمت کی ہے اور میں جانتی ہوں کہ ہم فیس بک پر رابطے میں رہیں گے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
اداکار فیروز خان کا شوبز انڈسٹری میں واپسی کی وجہ بتا دی
اداکار فیروز خان کا شوبز انڈسٹری میں واپسی کی وجہ بتا دی #FerozKhan #Showbiz #Industry #aajkalpk
لاہور: اداکار فیروز خان نے رواں برس مارچ میں شوبز چھوڑ کر مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا اعلان کیا تھا اور اب ایک سال سے بھی کم عرصے میں انہوں نے انڈسٹری میں واپسی کا اعلان کردیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اداکار فیروز خان نے بتایا کہ وہ انڈسٹری میں واپس آگئے ہیں اور مختلف سکرپٹس بھی پڑھ رہے ہیں۔ فیروز خان نے شوبز میں واپسی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میرے شیخ حضرت سلطان محمد علی نے مجھے حکم دیا…
View On WordPress
0 notes
Text
کاجول نے اجے دیوگن کو گھر چھوڑ کر جانے کی دھمکی دیدی - اردو نیوز پیڈیا
کاجول نے اجے دیوگن کو گھر چھوڑ کر جانے کی دھمکی دیدی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین ممبئی: بھارتی اداکارہ کاجول نے اپنے شوہر اداکار اجے دیوگن کو گھر چھوڑ کر جانے کی دھمکی دے دی۔ بالی ووڈ انڈسٹری میں فنکاروں کے آپس میں گہرے تعلقات اور افیئر کی خبریں تو روزمرہ کا معمول بن گئی ہیں، تاہم کئی بار ایسی خبریں کسی کا بسا بسایا گھر بھی ��طرے میں ڈال دیتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ بالی ووڈ اداکار اجے دیوگن اور ان کی اہلیہ اداکارہ کاجول کے ساتھ بھی ہوا جب اجے دیوگن اور…
View On WordPress
0 notes
Text
چینی سرزمین کے سینما گھر دوبارہ کھلنے کے 100 دن کے اندر باکس آفس پر in 1.79b کماتے ہیں
چینی سرزمین کے سینما گھر دوبارہ کھلنے کے 100 دن کے اندر باکس آفس پر in 1.79b کماتے ہیں
[ad_1]
مووی جانے والے 14 اگست کو شنگھائی میں فلم ایٹ ہنڈریڈ دیکھ رہے ہیں۔ تصویر: cnsphoto
چینی سرزمین کے سینما گھروں نے دوبارہ کھلنے کے بعد گذشتہ 100 دنوں کے دوران ، حاضری کی شرح دوگنی ہونے کے ساتھ ، باکس آفس کی آمدنی شمالی امریکہ کو پیچھے چھوڑ دی ہے اور پہلی بار دنیا کے سب سے بڑے باکس آفس مارکیٹ میں کامیابی حاصل کی ہے ، کیونکہ فلم انڈسٹری کی طرف سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ چین کی تیز اقتصادی بحالی…
View On WordPress
0 notes