#ارطغرل غازی ڈرامہ اردو
Explore tagged Tumblr posts
Text
ارطغرل غازی‘ کے اداکار جلال آل نے بڑی کامیابی حاصل کرلی
ارطغرل غازی‘ کے اداکار جلال آل نے بڑی کامیابی حاصل کرلی
دُنیا بھر میں مقبول تُرک سیریز ’ارطغرل غازی‘ میں عبدالرحمٰن غازی کا کردار ادا کرنے والے ترک اداکار جلال آل نے بطور پروڈیوسر اپنے پہلے پراجیکٹ کے لیے ہارپٹ شارٹ فلم فیسٹیول میں قومی فلمی مقابلے میں ایوارڈ حاصل کرلیا۔ جلال آل نے سوشل میڈیا سائٹ انسٹاگرام پر اپنی چند نئی تصاویر شیئر کی ہیں جن میں انہیں اپنا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یہ تصاویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ…
View On WordPress
#Abdul Rehman Ghazi#Abdul Rehman Ghazi Alp#Abdur Rahman Alp#Abdurrahman Alp#Daram Ertugrul Ghazi#Drama#Drama Ertugrul Ghazi in Urdu#Drama Ertugrul Ghazi Urdu#Ertugrul drama#Ertugrul Ghazi#Ertugrul Ghazi Darama#Ertugrul Ghazi Drama#Ertugrul Ghazi Urdu#Pic Abdul Rehman Ghazi#Turki Drama#Turkish Drama#Urdu Ertugrul Ghazi Urdu#اداکار جلال آل#اردو ڈرامہ ارطغرل غازی#اردو زبان#ارطغرل غازی#ارطغرل غازی ڈرامہ#ارطغرل غازی ڈرامہ اردو#پروڈیوسر#ڈرامہ ارطغرل غازی#عبدالرحمٰن#عبدالرحمٰن غازی#عبدالرحمٰن غازی اور ارطغرل#عبدالرحمٰن غازی فوٹو#فوٹو ارطغرل غازی
1 note
·
View note
Text
ارطغرل غازی‘ کے اداکار جلال آل نے بڑی کامیابی حاصل کرلی
ارطغرل غازی‘ کے اداکار جلال آل نے بڑی کامیابی حاصل کرلی
دُنیا بھر میں مقبول تُرک سیریز ’ارطغرل غازی‘ میں عبدالرحمٰن غازی کا کردار ادا کرنے والے ترک اداکار جلال آل نے بطور پروڈیوسر اپنے پہلے پراجیکٹ کے لیے ہارپٹ شارٹ فلم فیسٹیول میں قومی فلمی مقابلے میں ایوارڈ حاصل کرلیا۔ جلال آل نے سوشل میڈیا سائٹ انسٹاگرام پر اپنی چند نئی تصاویر شیئر کی ہیں جن میں انہیں اپنا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یہ تصاویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ…
View On WordPress
#Abdul Rehman Ghazi#Abdul Rehman Ghazi Alp#Abdur Rahman Alp#Abdurrahman Alp#Daram Ertugrul Ghazi#Drama#Drama Ertugrul Ghazi in Urdu#Drama Ertugrul Ghazi Urdu#Ertugrul drama#Ertugrul Ghazi#Ertugrul Ghazi Darama#Ertugrul Ghazi Drama#Ertugrul Ghazi Urdu#Pic Abdul Rehman Ghazi#Turki Drama#Turkish Drama#Urdu Ertugrul Ghazi Urdu#اداکار جلال آل#اردو ڈرامہ ارطغرل غازی#اردو زبان#ارطغرل غازی#ارطغرل غازی ڈرامہ#ارطغرل غازی ڈرامہ اردو#پروڈیوسر#ڈرامہ ارطغرل غازی#عبدالرحمٰن#عبدالرحمٰن غازی#عبدالرحمٰن غازی اور ارطغرل#عبدالرحمٰن غازی فوٹو#فوٹو ارطغرل غازی
0 notes
Text
’’ارطغرل غازی‘‘ سے ملنے کی منفرد خواہش
اسلامی فتوحات پر مبنی شہرہ آفاق ترک ڈرامہ سیریز ’’ارطغرل غازی‘‘ آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اس سے قبل ماضی میں کبھی کسی اور ڈرامے کو اتنی مقبولیت حاصل نہ ہوئی۔ یہ ڈرامہ اپنی کہانی، تیاری اور اداکاری کے لحاظ سے یقیناً ایک شاہکار اور ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کی اسلامی تاریخ، ثقافت اور روایت پر مبنی ہے جس کی کہانی خلافت عثمانیہ (موجودہ ترکی) کی اُس عظیم شخصیت کے بارے میں ہے جو خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد ارطغرل تھے جنہیں ’’ارطغرل غازی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خلافت عثمانیہ نے 600 سال تک دنیا کے ایک تہائی حصے پر حکمرانی کی۔ ’’ارطغرل غازی‘‘ ڈرامہ آج کل پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر اردو زبان میں نشر کیا جارہا ہے جسے اب تک 13 کروڑ سے زیادہ افراد دیکھ چکے ہیں ج��کہ یوٹیوب پر بھی لاکھوں افراد اس ڈرامے کو دیکھ رہے ہیں۔
’’ارطغرل غازی‘‘ کو دنیا میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ کسی دوسرے ڈرامے کو نہ مل سکی۔ اس ڈرامے کو 30 مختلف زبانوں میں ڈب کیا گیا ہے اور اب تک دنیا کے 71 ممالک میں ڈیڑھ ارب سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں جو یقیناً ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ ’’ارطغرل غازی‘‘ڈرامے میں اسلامی تاریخ کی مقبولیت کے پیش نظر انتہا پسند مودی حکومت نے پورے بھارت میں ڈرامے کی نشریات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ڈرامے میں ارطغرل کا کردار ادا کرنے والے ہیرو انجین التان پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں جس کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا جب گزشتہ دنوں لاعلاج مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کے میرے ادارے’’ میک اے وش پاکستان‘‘ کے کینسر میں مبتلا 3 بچوں نے ڈرامے کے ہیرو سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انجین التان کی مقبولیت اور مصروفیت دیکھتے ہوئے ان بچوں کی اپنے پسندیدہ ہیرو سے ملاقات کوئی آسان کام نہ تھا۔
تاہم میک اے وش ترکی کے توسط سے انجین التان کو پاکستانی بچوں کی خواہش سے آگاہ کیا گیا۔ انجین نے بتایا کہ آپ ان بچوں کو مجھ سے ملانے کسی وقت بھی ترکی لاسکتے ہیں لیکن بچوں کی بیماری اور کورونا وائرس کے پیش نظر یہ ممکن نہ ہو سکا جبکہ کورونا کی موجودہ صورتحال کے باعث ڈرامے کے ہیرو کیلئے بھی ممکن نہ تھا کہ وہ بچوں سے ملنے پاکستان آتے۔ اس طرح ویڈیو لنک کے ذریعے انجین التان کی اُن بچوں سے ایک گھنٹے کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ میں نے اپنی رہائش گاہ کے لان میں ایک رنگا رنگ تقریب کا انعقاد کیا جس میں میک اے وش کے بچوں، اُن کی فیملی، ترکی کے قونصل جنرل ٹولگا یوکاک، کمشنر کراچی افتخار شلوانی، آفتاب امام، ہمایوں سعید، زیبا بختیار، عائشہ عمر، ندیم بیگ، میک اے وش پاکستان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز جسٹس (ر) اشرف جہاں، ڈاکٹر اختیار بیگ، ناجیہ اشرف، ڈاکٹر فرحان عیسیٰ، میک اے وش پاکستان کے رضاکاروں اور میڈیا نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
اس موقع پر ’’ارطغرل غازی‘‘ کے تاریخی ترک لباس میں ملبوس میک اے وش کے تینوں بچوں سدرہ، فائزہ اور سہیل نے قد آور اسکرین پر ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے ہیرو سے تفصیلی ملاقات اور گفتگو کی۔ وہ جب اسکرین پر نمودار ہوئے تو بچوں کی خوشی قابل دید تھی ، انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کا پسندیدہ ہیرو ان کے سامنے ہے۔ اس موقع پر ’’ارطغرل غازی‘‘ کے ہیرو نے کہا کہ مجھے پاکستانیوں کی محبت اور میک اے وش پاکستان کے بچوں سے ملاقات کر کے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ انہوں نے میک اے وش پاکستان کی سماجی و فلاحی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ میک اے وش لاعلاج بچوں کے چہرے پر خوشیاں بکھیر کر اللہ کی خوشنودی حاصل کر رہا ہے اور میں بہت جلد میک اے وش کے دوسرے بچوں سے ملنے پاکستان آئوں گا۔
میک اے وش پاکستان کے بانی صدر کے طور پر میں نے اپنی تقریر میں انجین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان آپ کو مسلم امہ کا ہیرو تصور کرتے ہیں اور آپ کی ان بچوں سے ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ آپ عظیم اداکار ہی نہیں، ایک عظیم انسان بھی ہیں۔ اس موقع پر وش چلڈرن نے اپنے ہیرو کو ایک تلوار جس پر کلمہ طیبہ لکھا تھا، کا تحفہ پیش کیا جسے کراچی میں ترکی کے قونصل جنرل نے وصول کیا۔ تقریب کے اختتام پر میک اے وش کی رضاکار مدہت حیات نے اپنی سریلی آواز میں ’’ارتغرل غازی‘‘ کا تھیم سونگ گایا۔ یہ بات قابل حیرت ہے کہ ترکی کے ڈرامے ’’ارطغرل غازی‘‘ کی پاکستان میں مقبولیت پر کچھ ٹی وی اینکرز اپنے تجزیئے میں اسے عرب اور پاکستان کے درمیان سرد مہری کی وجہ قرار دے رہے ہیں جو کہ قطعاً درست نہیں کیونکہ یہ تعلقات اتنے نازک نہیں جو ڈراموں یا فلموں سے متاثر ہو سکیں۔
ایک اندازے کے مطابق ترکی ان تاریخی ڈراموں کی پروڈکشن اور دوسرے ممالک میں نشریات سے نہ صرف ایک ارب ڈالر سالانہ کما رہا ہے بلکہ خلافت عثمانیہ کی تاریخ سے بھی دنیا کو روشناس کروا رہا ہے۔ ہماری انڈسٹری بھی اسلام کے سنہرے دور اور اسلامی ہیروز سے پاکستانی ناظرین کو متعارف کرانے کیلئے ترکی کے ساتھ فلم اور ڈرامہ سازی کا جوائنٹ وینچر کر کے ان کے تجربات سے استفادہ کرے۔ ’ارطغرل غازی‘‘ ڈرامے سے یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمان جب تک اپنے دین سے جڑے رہے اور اللہ پر کامل یقین رکھا تو اُنہیں کامیابی اور دنیا پر حکمرانی نصیب ہوئی، جب مسلمان دین سے دور اور منقسم ہو گئے تو پستی کا شکار ہوتے چلے گئے۔
مرزا اشتیاق بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes
·
View notes
Text
ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی دیکھ کر امریکی خاتون نے اسلام قبول کرلیا - اردو نیوز پیڈیا
ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی دیکھ کر امریکی خاتون نے اسلام قبول کرلیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین اسلام آباد، برلن(مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی)60 سالہ امریکی خاتون نے معروف ترک ڈرامہ ارطغرل غازی دیکھنے کے بعد اسلام قبول کرلیا ، میڈیا رپورٹس کے مطابق خاتون ڈرامے میں محی ا��دین ابن العربی کے پیغامات سن کر متاثر ہوئیں اور اسلام قبول کیا۔قبول اسلام کے بعد خاتون کا نام خدیجہ رکھا گیاہے۔خاتون کا کہنا ہے کہ انکو ترک ڈرامے میں ترگت (نور گل) اور سلجان(شہناز) خاتون کے کردار…
View On WordPress
1 note
·
View note
Text
پی ٹی وی نے رمضان میں ارطغرل غازی کے نئے شیڈول کا اعلان کر دیا
پی ٹی وی نے رمضان میں ارطغرل غازی کے نئے شیڈول کا اعلان کر دیا
لاہور: ترک تاریخی ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی گزشتہ سال رمضان سے پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی پر اردو ڈب ورژن کے ساتھ نشر کیا جا رہا ہے، اس وقت ڈرامہ کا تیسرا سیزن چل رہا ہے۔ چونکہ اب رمضان کا آغاز ہونے والا ہے اور رمضان نشریات کی وجہ سے ڈرامہ کے اوقات تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ اب ڈرامہ پورے رمضان شام 7 بجھ کو 45 منٹ پر نشر کیا جائے گا۔ کرونا ایس او پیز پر دوہرا معیار : مداحوں کی ریشم پر شدید…
View On WordPress
0 notes
Photo
Ertgrul ghazi series urdu subtitles me available hai *کورلش عثمان غازی* *دیریلش ارطغرل غازی* *سلطان عبد الحمید ثانی* *کوت العمارہ مہمت* *یونس ایمرے عشق کا سفر* تخت اور بغاوت *ترکش ڈرامہ سیریل اُردو ڈبنگ اور اردو سب ٹائٹلز کے ساتھ HD کوالٹی میں دیکھنے کے لیے ہمارا یہ ٹیلی گرام چینل جوائن کریں لنک شئیر کریں*
#*💞♻️آج کی بہت اچھی بات♻️💞* #Aqwale zareen#✨ لمحہ فکریہ۔۔۔۔۔۔۔!!😭#✨༄༆لفظ لفظ موتی༆༄✨#Ertgrul ghazi#ertgrul ghazi all season#Islamic books#islamic group links#islamic videos#Mufti Tariq Masod#qurbani#qurbani ke masail#Wazifa#سنہری باتیں
0 notes
Photo
سلطنت عثمانیہ: ارطغرل کون تھے؟ اسد علی بی بی سی اردو، لندن27 اپريل 2020،Facebook/Dirilisdizisiارطغرل غازی کے نام سے ایک ترک ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن پر اردو زبان میں نشر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اردو زبان میں ڈبنگ سے قبل یہ ڈرامہ پاکستان میں اس حد تک مقبول ہے کہ اس کے مداحوں میں وزیراعظم عمران خان کو بھی گنا جاتا ہے جو اس میں دکھائی گئی ’اسلامی تہذیب‘ کی تعریف کر چکے ہیں۔ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔ اس کے علاوہ ان کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی صدیوں تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان اور سلطنت کا آغاز تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں عثمانی روایات کے علاوہ اس دور کی دو ٹھوس نشانیاں (ایک سکہ اور بازنطینی سلطنت کے مؤرخ کی ایک تحریر) اور عثمان کے ایک خواب کا ذکر ملتا ہے جس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔ جو بات طے ہے وہ یہ کہ عثمان کا تعلق آج کے ترکی میں اناطولیہ کے علاقے میں آباد ترک خانہ بدوش قبیلے سے تھا اور اس کی حکومت اناطولیہ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں سے ایک تھی جن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عثمان یا پھر ان کے والد نے ایسا کیا کیا کہ صرف اسی خاندان کا راج قبیلے سے چھوٹی ریاست اور پھر اناطولیہ کی بڑی سلطنت بننے سے تین بر اعظموں میں پھیلا اور پھر خلافت میں تبدیل ہوا۔سلطنت عثمانیہ کی بنیاد 14 ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور یہ 20 ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 37 سلطان اس کی مسند پر بیٹھے۔ ایک مؤرخ کے مطابق کسی خاندان کا مسلسل اتنی دیر حکومت کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔مؤرخ کیرولائن فنکل اپنی کتاب ’عثمان کا خواب: سلطنت عثمانیہ کی کہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’عثمانیوں کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان کی اناطولیہ (وہ علاقہ جو کسی حد تک آج کے ترکی کی حدود سے مطابقت رکھتا ہے) میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دو صدیوں پر پھیلی ہوئی لڑائی انتہائی سخت تھی۔‘ یہ بھی پڑھیے ارطغرل کے بارے میں عثمانی روایتمؤرخ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ’سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘ میں اسی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سلطنت عثمانیہ کی شروعات تاریخ کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ سے اہم سوال رہا ہے لیکن اس دور کے ذرائع کی کمی اور بعد کے ادوار میں لکھی گئی روایات میں تضاد کی وجہ سے پورے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔‘انھوں نے اسی مشہور روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ عثمانیوں کا جد امجد سلمان شاہ تھے جو قائی قبیلے کے سردار تھے اور 12 ویں صدی کے آخر میں شمالی ایران کے ایک علاقے میں آباد رہے۔ ،،تصویر کا کیپشنعثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھےروایت کے مطابق منگول حملوں کے پیش نظر دیگر بہت سے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غلامی اور تباہی سے بچنے کے لیے نئے علاقوں کی طرف روانہ ہوا اور جے شا کے مطابق خیال ہے کہ سلمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گئے اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے واپس چلے گئے۔ جبکہ ارطغرل نے مغرب کی طرف اپنا ��فر جاری رکھا اور اناطولیہ کے علاقے میں داخل ہوگئے جہاں سلجوق حکمرانوں نے ان کی مدد کے بدلے انھیں اناطولیہ کے مغربی علاقے میں زمین دے دی۔ جے شاہ کی کتاب میں درج اس روایت کے مطابق ارطغرل 1280 میں چل بسے اور قبیلے کی قیادت ان کے بیٹے عثمان کو مل گئی۔ فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل نامی ایک قبائلی سردار شمال مغربی اناطولیہ میں آ کر سلجوق اور بازنطینی سلطنتوں کے بیچ کے علاقے میں آباد ہوا اور اس روایت کے مطابق سلجوق سلطان نے ارطغرل کو سوگت میں کچھ علاقہ عطا کیا تھا۔ لیکن ارطغرل کا عثمان سے کیا تعلق تھا؟نامعلوم تاریخ والا سکہفنکل لکھتی ہیں کہ عثمان کے دور سے ملنے والا واحد سکہ اگر اصلی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارطغرل یقیناً تاریخی شخصیت تھے۔ اس سکے پر درج ہے ’جاری کردہ برائے عثمان ولد ارطغرل‘ درج ہے۔ فنکل مزید لکھتی ہیں کہ عثمان کا اپنے نام پر سکہ جاری کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اس وقت صرف ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اناطولیہ میں اپنے آپ کو سلجوق منگول سلطنت کے سائے سے باہر ایک خود مختار امیر سمجھنا شروع ہو چکے تھے۔ تاریخ میں عثمانیوں کا پہلا ذکرفنکل لکھتی ہیں کہ عثمانیوں کا پہلی بار ذکر سنہ 1300 کے قریب ملتا ہے۔ اس وقت کے ایک بازنطینی مؤرخ نے لکھا کہ سنہ 1301 میں بازنطینی فوج کا سامنا عثمان نامی ایک شخص کی فوج سے ہوا۔ ’جنگ بافیوس‘ کہلانے والی یہ لڑائی قسطنطنیہ (استنبول) کے قریب لڑی گئی تھی اور اس میں بازنطینی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ لیکن عثمانیوں کا بازنطینی سلطنت کی برابری کرنے میں ابھی بہت وقت تھا۔ اور جب ایسا ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک خاندان کا اچانک گمنامی سے نکل کر اتنا آگے آنے کے بارے میں کئی کہانیوں نے بھی جنم لیا۔ ،مؤرخ کہتے ہیں کہ عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کا علاقہ قسطنطنیہ کے قریب تھا جس سے کبھی بھی کامیابی کی صورت میں بڑا انعام یقینی تھا۔ عثمان کا خوابمؤرخُ لیسلی پی پیرس نے اپنی کتاب ’دی امپیریل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی اِن دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آغاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی ک��میابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا۔ اس خواب میں انھوں نے دیکھا کہ ایک درویش شیخ ادیبالی کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اس کے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔ اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے ہیں اور کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ عثمان نے جب شیخ ادیبالی سے تعبیر پوچھی تو انھوں نے کہا کہ خدا نے عثمان اور اس کی اولاد کو دنیا کی حکمرانی کے لیے چن لیا ہے اور انھوں نے کہا کہ ان کے سینے سے نکل کر عثمان کے سینے میں داخل ہونے والا چاند ان کی بیٹی ہے اور جو اس خواب کے بعد عثمان کی اہلیہ بن گئیں۔فنکل لکھتی ہیں کہ ابتدائی عثمانی سلطانوں کو اپنے آغاز کی تاریخ معلوم کرنے سے زیادہ دلچپسی دوسروں پر حکومت کے اپنے حق کو ثابت کرنے میں تھی اور ان کے نزدیک ان کی سلطنت کا آغاز ایک خواب سے ہوا تھا جو عثمان نے ایک بزرگ درویش کے گھر میں قیام کے دوران دیکھا تھا۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ اس خواب کی کہانی کے حق میں دستاویزی ثبوت بھی تاریخ میں ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے زمینوں کے کاغذات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عثمان کے دور میں ادیبالی نامی بزرگ موجود تھے اور اس بات کی بھی کچھ شہادت ہے کہ ان کی بیٹی عثمان کی دو بیویوں میں سے ایک تھیں۔ارطغرل کا اناطولیہارطغرل کا اناطولیہ 13ویں صدی کا اناطولیہ تھا۔ کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ جس اناطولیہ میں یہ ترک قبائل پہنچے تھے وہاں بہت عرصے سے کئی نسلوں اور مذاہب کے لوگ آباد تھے جن میں یہودی، آرمینیائی، کرد، یونانی اور عرب شامل تھے۔ اس علاقے کے مغرب میں ماضی کے مقابلے میں بہت کمزور بازنطینی سلطنت تھی (جس کا اختیار اچھے دنوں میں اناطولیہ سے ہوتا ہوا شام تک تھا) اور مشرق میں سلجوق جو اپنے آپ کو رومی سلجوق کہتے تھے۔ 13ویں صدی کے وسط میں منگولوں کے ہاتھوں شکست نے سلجوقوں کو کمزور کر دیا اور وہ منگولوں کو نذرانے دینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ماضی کی دو طاقتور حکومتوں کا اختیار ان کی سرحدوں کے درمیان واقع ’غیر یقینی صورتحال‘ کے اس علاقے میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ لیکن یہ صرف جنگجوؤں کی آماجگاہ نہیں تھا۔ مہم جوئی کرنے والوں کے علاوہ یہاں وہ لوگ بھی تھے جن کے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں تھی۔ ،فنکل ’فرنٹیئر‘ کے اس علاقے کی، جہاں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی، تصویر کھینچتی ہوئے بتاتی ہیں کہ ’۔۔۔ اس علاقے میں خانہ بدوشوں، نیم خانہ بدوشوں، لٹیروں، فوجی مہمات کے شوقینوں، مختلف پس منظر والے غلاموں، درویشوں، راہبوں اور بکھری ہوئی آبادیوں کے دورے کرتے پادریوں، پناہ کی تلاش میں نکلے ہوئے بے گھر کسانوں، شہر والوں، سکون اور مقدس مقامات کی متلاشی بے چین روحوں، سرپرستی کے متلاشی مسلمان اساتذہ اور خطرات سے نہ ڈرنے والے تاجروں کی گزرگاہوں کے جال بچھے ہوئے تھے۔‘فنکل لکھتی ہیں کہ اس بدانتظامی والے علاقے کی خاص بات مسلمان درویشوں کی موجودگی تھی۔ مسیحی راہبوں کی طرح وہ بھی ہر وقت سفر میں رہتے یا پھر اپنے پیروکاروں کے درمیان قیام کرتے اور ان کی زندگی روایات کا حصہ بن گئی۔ ’درویشوں کی کھولیاں علاقے میں اسلام کی اس تصویر کی نشانی تھیں جو اناطولیہ میں سلجوقوں کی سلطنت کے سنی اسلام کے ساتھ عام تھا۔‘ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ترک (خانہ بدوش) جب اناطولیہ آئے تو صوفی بزرگ بھی ان کے ساتھ ہی آ گئے جس پر طاقتور سلجوق حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ ان صوفیوں کی لوگوں میں مقبولیت کی وجہ سے اپنے علاقوں سے نکل جانے پر خوش تھے۔‘ جے شا مزید لکھتے ہیں کہ ’اس عمل میں کچھ مسیحی ہلاک اور اپنا علاقہ چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے لیکن زیادہ تر اپنی جگہ پر رہے۔۔۔ کچھ نے اسلام بھی قبول کیا۔۔۔ کچھ ترک صوفی سلسلے مسیحی مذہبی مقامات میں بھی داخل ہوئے جہاں مسیحی اور مسلمان ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ پر عبادت کرتے نظر آتے تھے۔‘ ارطغرل کا مزارسوگت کے علاقے (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ارطغرل کو سلجوق سلطان سے ملا تھا) میں ارطغرل کے نام کی ایک چھوٹی سی مسجد اور ایک مزار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ ارطغرل کے بیٹے نے ان کے لیے بنائی اور پھر جس میں عثمان کے بیٹے ارہان نے اضافہ کیا۔ کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ اس مسجد اور مزار پر اتنی بار کام ہوا ہے کہ اس کی پہلی تعمیر سے کوئی نشانی نہیں بچی اس لیے کسی عمارت کے بارے میں پورے اعتبار سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عثمان کے دور کی ہے۔ ،،تصویر کا کیپشنترکمانستان میں قائم ارطغرل غازی مسجدانھوں نے مزید لکھا کہ 19ویں صدی کے آخر میں سلطان عبدالحمید دوم نے کمزور ہوتی سلطنت کی ساکھ بہتر کرنے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی شہرت کا سہارا لینے کی کوشش کی اور سوگت میں ارطغرل کا مزار از سر نو تعمیر کیا اور ’عثمانی شہیدوں‘ کا ایک قبرستان بنایا۔ ارطغرل کی زندگی پر ٹی وی ڈرامہ کیوں؟ امیریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی نے مڈل ایسٹرن رویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سوال اٹھایا کہ ’ترک حکومت نے کئی مشہور کرداروں کو چھوڑ کر آخر ارطغرل کا ہی انتخاب کیوں کیا؟‘جوش کارنی کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں سلطان سلیمان (1566-1520) اور عبدالحمید دوم (1909-1876) کی شہرت ارطغرل سے بہت زیادہ ہے لیکن ارطغرل پر ٹی وی سیریل بننا بغیر وجہ نہیں۔ ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کی دنیا بھر میں انتہائی کامیاب سیریز ’دیریلیس ارطغرل‘ ان کے قائی قبیلے کی اناطولیہ میں مختلف دشمنوں سے لڑتے ہوئے پیشرفت پر مبنی ہے۔ ’نتیجتاً جبکہ تاریخی کردار ارطغرل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ٹی آر ٹی کا کردار ترکی میں اور ترکی سے باہر مقبول ہے اور لوگ اس سے پیار کرتے ہیں۔‘سنہ 2018 میں لکھے گئے اس مضمون میں کارنی کہتے ہیں کہ اس سیریز کے کئی پہلو ترکی میں ہونے والے آئینی ریفرنڈنم کے اشتہاروں میں واضح تھے جس سے ’کوئی شک نہیں رہتا کہ تاریخ اور پاپولر کلچر کو سیاسی فائدے کے لیے اکٹھا کر دیا گیا ہے۔‘ کارنی کہتے ہیں کہ ایک ایسے کردار کے بارے میں ٹی وی سیریل بنانے میں، جسے لوگ نہیں جانتے ‘آسانی یہ ہے کہ اس کو کسی بھی رنگ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔۔۔ (جبکہ) مقبول شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں لوگ آگاہ ہوتے ہیں۔‘ کارنی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے سلطان سلیمان کے بارے میں سیریز اسی لیے اس طرح کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ ’ارطغرل کے بارے میں سیریز بنانا ایسے ہی تھا جیسے خالی سلیٹ پر مرضی کے رنگ بھرنا۔‘ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
Photo
‘ارطغرل غازی’ ڈرامہ کے سپاہی ‘ترگت’ عید پر پاکستانیوں کے مہمان بنیں گے پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) پر رواں برس اپریل سے نشر ہونے والے ترک ڈرامے 'دیریلیش ارطغرل' جسے اردو میں ترجمہ کرکے 'ارطغرل غازی' کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔
#dirillis ertugrul ghazi#eid-ul-azha#Pakistan#ptv#shahid afridi#Social Media#turgut#turkey drama#waseem badami
0 notes
Text
ارطغرل غازی کے ’’ارتک بے‘‘ انتقال کرگئے - اردو نیوز پیڈیا
ارطغرل غازی کے ’’ارتک بے‘‘ انتقال کرگئے – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین استنبول: مشہور ترک ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی کے مشہور کردار’ارتک بے‘ طویل عرصہ کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد انتقال کرگئے۔ آئبرک پیکچن کو ان کے آبائی گاؤں مرسیا میں سپرد خاک کیا جائے گا۔ چند ماہ قبل آئبرک پیکچن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پیارے دوستو! کمرمیں درد کی شکایت کی وجہ سے ڈاکٹر سے مشورہ کیا، اس کے ساتھ شروع ہونے والا عمل آج اس مقام پر پہنچا کہ مجھے پھیپھڑوں کا…
View On WordPress
0 notes
Photo
ڈرامہ ’’ ارطغرل‘‘ نے یوٹیوب پر مقبولیت کا نیا ریکارڈ قائم کردیا #Ertugrul #Turkish #Drama #Record #aajkalpk کراچی: معروف ترک ڈرامے ’’ارطغرل غازی‘‘ نے یوٹیوب پر مقبولیت کا نیا ریکارڈ قائم کردیا، رواں برس 25 اپریل کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی فرمائش پر پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) پر اردو ترجمے کے ساتھ نشر کیے جانے والے ترک ڈرامے 'دیریلیش ارطغرل' یعنی 'ارطغرل غازی' نے تیسرا سیزن شروع ہونے سے قبل ایک نیا ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔
0 notes
Text
ارطغرل غازی سے اتنی چڑ کیوں
جب سے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پاکستان کے سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی پر ترکی کا مقبول ترین تاریخی ڈرامہ ’’ارطغرل غازی‘‘ چلایا جا رہا ہے، اُسے پاکستانی عوام کی طرف سے بے پناہ سراہا جا رہا ہے۔ میں نے یہ ڈرامہ نہیں دیکھا لیکن میڈیا کی خبروں کے مطابق اس ڈرامہ نے ماضی کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اس ڈرامہ کی پہلی قسط کو یکم رمضان المبارک کو پاکستان میں نشر کیا گیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ہر جگہ اس ڈرامے کے چرچے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق ابتدائی پندرہ دنوں میں اس ڈرامہ کے یوٹیوب چینل پر دس لاکھ سبسکرائبرز ہو گئے جبکہ ڈرامہ کی پہلی قسط کو 10 مئی تک یوٹیوب پر ایک کروڑ 41 لاکھ سے زیادہ افراد دیکھ چکے تھے۔ یہ ڈرامہ خلافت عثمانیہ کی اسلامی تاریخ، کلچر اور روایات پر مبنی ہے جسے ترکی میں بہت بڑی کامیابی کے بعد وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر اردو زبان میں ڈب کر کے پاکستان میں دکھایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد پاکستانی عوام کو اسلام کے سنہری دور سے آگاہ کرنا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اس ڈرامہ کے کچھ ڈائیلاگز پڑھنے اور دیکھنے کا موقع ملا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ڈرامہ کا مقصد دیکھنے والوں کو اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات اور جہاد جیسے اہم فرائض سے آگاہ کرنا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ہی معلوم ہوا کہ جب اس ڈرامہ کو ترکی میں دکھایا جانے لگا اور وہاں اس کو بے پناہ مقبولیت ملنے لگی تو اس پر مغربی میڈیا نے بھی لکھنا شروع کیا اور اسے خلافت عثمانیہ کے احیا کی کوشش قرار دیا گیا۔ یہ بھی پتا چلا کہ ترکی میں اپنی بے پناہ مقبولیت کے باوجود وہاں کے سیکولر طبقہ کی طرف سے اسے ہدفِ تنقید بھی بنایا گیا۔ گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران اس ڈرامہ کے بارے میں مَیں نے ٹیوٹر پر لوگوں کے تاثرات پڑھنا شروع کیے تو معلوم ہوا کہ یہ تو پاکستان میں نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے لیکن تعجب مجھے اس بات پر ہوا کہ ہمارے لبرلز اور سیکولرز کے ایک طبقے نے اس ڈرامہ پر اعتراضات اٹھانا شروع کر دیے ہیں اور اُن کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جو ترک اداکار اور اداکارہ اس ڈرامے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‘ ڈرامے میں اپنے اسلامی کردار کے برعکس حقیقی زندگی میں ’’سیکولر‘‘ ہیں۔
صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اعتراض کرنے والوں کو اصل تکلیف ڈرامہ کے اسلامی تھیم اور مسلمانوں کی قابل فخر تاریخ دکھانے پر ہو رہی تھی۔ ورنہ جو طبقہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ڈرامہ کے مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار تو حقیقی زندگی میں اسلامی نہیں، وہ عمومی طور پر ڈراموں، فلموں میں فحاشی و عریانیت کا خوب دفاع کرتا ہے اور اسے آرٹ کا نام دیتا ہے۔ جنہیں پاکستان میں مغربی اور بھارتی فلمیں دکھانے پر اعتراض نہیں، غیر اسلامی کلچر یہاں پرموٹ ہونے پر کئی مسئلہ نہیں وہ اس بات پر سیخ پا ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسا ترک ڈرامہ کیوں دکھایا جا رہا ہے جو اسلامی تاریخ کا عکاس ہے، جس میں قرآن و حدیث اور دینی اصولوں کی پاسداری کی تعلیم دی گئی ہے۔ کیا میڈیا، فلم اور ڈرامہ کا مقصد صرف وہی ہے جو عمومی طور پر ہالی وڈ اور بالی وڈ دنیا کو دکھاتے ہیں؟ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ میڈیا، فلم اور ڈرامہ کے ذریعے پاکستانی معاشرہ کو سیکولر بنانے کی کوشش کرنے والوں کو ’’ارطغرل غازی‘‘ نے پریشان کر دیا ہے۔
ہمارے ہاں بھی ماضی میں اسلام کے سنہری دور پر ڈرامے بنتے رہے جن کا مقصد اسلام کے ہیروز کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات سے ناظرین کو روشناس کرانا تھا لیکن گزشتہ چند ایک دہائیوں سے یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے اور اب تو فلموں، ڈراموں میں اکثر جو دکھایا جاتا ہے اُس کا مقصد بے ہودگی پھیلانا اور مغربی اور بھارتی کلچر کو یہاں فروغ دینا ہوتا ہے۔ اسلام کا کوئی نام لے، قرآن و حدیث کی بات کرے یا جہاد کا حوالہ دے تو کہا جاتا ہے کہ لوگ کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ترکی نے اس ڈرامہ سے اس پروپیگنڈا کو جھوٹ ثابت کیا اور اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بھی اپنے ملک کے میڈیا، فلم اور ڈراموں کو اُس گندگی سے صاف کریں جو مغربی اور بھارتی میڈیا کی پہچان ہے اور جس کی اندھی نقالی میں ہم یہاں وہ بگاڑ پیدا کر رہے ہیں جس کی قیمت ہماری نسلوں کو ادا کرنا پڑے گی۔
یہاں میں ’’Lost Islamic History‘‘ کے بارے میں مختصراً بات کرنا چاہوں گا، چونکہ اس کتاب کو وزیراعظم عمران خان نے نوجوانوں کو پڑھنے کے لیے کہا ہے اور ہمارے چند لبرلز کو اس پر بھی اعتراض ہے لیکن میری ذاتی رائے میں جو لوگ تفصیل سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ نہیں کر سکتے، اُن کے لیے اس کتاب جو 160-170 صفحات پر مشتمل ہے، میں اُس تاریخ کا ایک احاطہ موجود ہے جو ہمارے لیے قابل فخر بھی ہے اور جسے جان کر ہم اُن عوامل پر بھی غور کر سکتے ہیں جو ہماری سنہری تاریخ کے خاتمے کا باعث بنے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ جب مسلمان اپنے اصل یعنی اسلامی تعلیمات کے ساتھ جڑے رہیں گے تو اُنہیں اللہ تعالی کامیابی و کامرانی عطا فرمائے گا اور وہ دنیا کی حکمرانی حاصل کر لیں گے لیکن جب ان اصولوں کے برخلاف جائیں گے۔ اسلام کے برعکس دوسری اقوام کی نقالی اور نت نئے غیر اسلامی نظریات کو اپنائیں گے تو پھر مسلمان مار کھاتے رہیں گے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ آج کل ہو رہا ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Photo
وزیراعظم کا ارطغرل غازی کے بعد ایک اور کونسا ڈرامہ نشر کرنے کا فیصلہ کر لیا اسلام آباد( آن لائن )وزیراعظم عمران خان نے مشہور ترک سریل ” ارطغرل غازی” کو پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرنے کی ہدایت کی تھی۔مذکورہ ڈرامہ اردو میں ڈبنگ کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ترکی کا یہ معروف ڈرامہ 13 ویں صدی میں اناطولیا میں سلطنت عثمانی کے قیام سے قبل کے دور کی کہانی کو بیان کرتے ہیں ۔ارطغرل غازی نے دنیا بھر میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔
0 notes
Photo
لڑکیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب فارس غازی، جہاں سکندر اور سالار سے بات آگے جا چکی ہے اب #ارطغرل کا دور ہے ✌🏻💯 کون کون اسکا ڈرامہ دیکھنا چاہتے ہے اردو زبان میں https://www.instagram.com/p/B52I1LVlgSo/?igshid=oafifs7zlj2q
0 notes
Text
ارطغرل غازی ڈرامہ کی ہیروئن حلیمہ سلطان کا پاکستانیوں کے لیے اردو پیغام جاری
ارطغرل غازی ڈرامہ کی ہیروئن حلیمہ سلطان کا پاکستانیوں کے لیے اردو پیغام جاری
لاہور(ویب ڈیسک )میگا ہٹ ترک سیریل”دریلیس ارطغرل“ میں حلیمہ سلطان کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ ا یسرا بلجک نے پاکستان سے اپنے مداحوں کے لئے اردو میں ایک اہم پیغام شیئر کیا ہے-سوشل میڈ ایپ انسٹا گرام پر ایسرا بلجک نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ”میر آفیشل منیجر اور واحد نمائندہ ڈیو گودروکان
جیبی ہیں ،آپ تمام اشترک ،خیالات ،شراکت داری اور مجموعی طور پر کسی بھی منصوبے کے لیے ان سے براہ راست رابطہ کر…
View On WordPress
0 notes
Text
ہماری عوام تُرک سیریز دیکھ تو رہی ہے لیکن عمل نہیں کر رہی وینا ملک - UG News
ہماری عوام تُرک سیریز دیکھ تو رہی ہے لیکن عمل نہیں کر رہی وینا ملک – UG News
اداکارہ وینا ملک کا ملک کے موجودہ حالات میں کورونا کیسز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد پر کے پیش نظر کہنا ہے کہ ہماری عوام’ ارطغرل غازی‘ دیکھ تو رہی ہے لیکن عمل نہیں کررہی-
اردو گولڈ نیوز : اداکارہ وینا ملک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں عوام میں مقبول مسلمانوں کی اسلامی فتوحات پرپر مبنی ترکش سیریز کے حوالے سے لکھا کہ تُرک ڈرامہ سیریل ہماری عوام ارطغرل دیکھ تو رہی ہے لیکن عمل…
View On WordPress
0 notes
Text
قوم کا غیر سنجیدہ رویہ ۔۔۔!شیخ خالد زاہد
قوم کا غیر سنجیدہ رویہ ۔۔۔!شیخ خالد زاہد
سب سے پہلے ایک نظر ارطغرل غازی پر ڈال لیتے ہیں جو کہ ایک ترک ڈرامہ ہے اور مسلمانوں کی بھرپور تاریخ کی عکاسی کر رہا ہے ،یہ ڈرامہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کی خصوصی ہدایت پر اردو ترجمے کیساتھ پیش کیا جا رہا ہے اوروزیر اعظم صاحب نے خصوصی طور پر نوجوانوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اس ڈرامے کو ضرور دیکھیں اور اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کریں ۔ یہ ڈرامہ مختلف حلقوں میں مختلف ��اثرات لے کر ابھر رہا ہے ۔
View On WordPress
0 notes