Tumgik
#اجتماعیات
lhoomanl · 3 years
Photo
Tumblr media
‏‎وحشت از مردم به اندازهٔ شناخت از آنهاست. ‌ ‌ #امام_حسن_عسکری بحارالانوار، جلد ۷۵ به مناسبت ۱۱۴۸مین سالگرد خورشیدی شهادت امام یازدهم و آغاز امامت ولی‌عصر (۲۵۲ه‍.ش/874م) ۱۶ / #دی / ۱۴۰۰ ‌ #تاریخ_شمسی_مناسبتهای_دینی ‌#تقویم #تقویم_قمری #تقویم_مقدس #تقویم_شمسی #گاهشماری_خورشیدی #چهارده_معصوم #امام_یازدهم #ائمه #امامان #ائمه_شیعه #مردم #وحشت #اخلاق #اجتماعی #اجتماعیات #حدیث #احادیث #بحارالانوار‎‏ https://www.instagram.com/p/CYZsMmCj_CF/?utm_medium=tumblr
0 notes
discoverislam · 8 years
Text
بچوں کو رمضان کی تیاری کیسے کروائیں؟
رمضان المبارک میں والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس اہم مہینے کو بچے بھی بہترین انداز میں گزاریں۔ اس کی اہمیت کو سمجھیں، لیکن ان کی دلچسپی کو کس طرح بڑھایا جائے، یہ اکثر والدین نہیں سمجھ پاتے۔ ان کی آسانی کے لیے چند قیمتی مشورے یہاں پیش کرتے ہیں:
1۔ بچوں کو رمضان کی اہمیت اور تاریخ سے آگاہ کرنا:
 رمضان المبارک کی ملک بھر میں بڑی خاص تیاریاں ہوتی ہیں، جسے یقینا بچے بھی محسوس کرتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں بہت سے سوال جنم لیتے ہیں۔ بس یہی وقت ہے کہ بچوں کے لیے وقت نکالیں اور رمضان کی مکمل تاریخ اور اہمیت کا دلچسپ پیرائے میں بچوں کے سامنے پیش کریں۔ جتنے مؤثر انداز میں والدین بچوں کو اہمیت سمجھا سکیں گے، بچے اتنی ہی دلچسپی لیں گے۔
2۔ رمضان کلینڈر خود بنوائیں:
 تجربہ بتاتا ہے کہ جس چیز کو بچے خود بنائیں، اس سے انہیں غیر معمولی لگاؤ ہوتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے انٹرنیٹ یا کسی پرنٹنگ پوسٹر سے اوقات سحر و افطار کاٹ کر دیں تا کہ وہ خود اپنے ڈیزائن کے ساتھ اسے ترتیب سے کلینڈر کی شکل دیں، اس طرح بھی پورا مہینہ بچوں کی دلچسپی برقرار رہے گی۔
3۔ مختلف ممالک میں رمضان کی روایات سے آگاہی:
 بچوں کے لیے یہ خاصی غیر معمولی بات ہوتی ہے، اگر انہیں بتایا جائے کہ رمضان صرف ہم ہی نہیں منا رہے بلکہ دنیا کے کونے کونے میں منایا جا رہا ہے۔ مختلف روایات اور رسوم و رواج کے مطابق ہر جگہ رمضان الگ انداز میں منایا جاتا ہے۔ کسی مستند ویب سائٹ سے اس بارے میں معلومات حاصل کریں اور پھر بچوں کو آگاہ کریں۔ رمضان کے اس آفاقی تصور سے بھی بچوں میں اس کی اہمیت اور دلچسپی بڑھے گی۔
4۔ رمضان کے متعلق مضمون لکھوائیں:
 اگر آپ کے بچے لکھ سکتے ہیں، تو ان سے رمضان کے متعلق مضمون لکھوائیں۔ اگر وہ لکھ نہیں سکتے تو ان کی زبانی رمضان کہانی ضرور سنیں اور پھر اسے خود تحریر کی شکل دیں۔ یہ تحریر تا عمر بچوں کے ذہنوں پر نقش رہیں گی۔
5۔ افطار پارٹیوں کا انعقاد:
 والدین اپنے بچوں کے ہم عمر دوستوں کے لیے ’’استقبال رمضان‘‘ کا پروگرام بھی کر سکتے ہیں تا کہ اس اہم مہینے کی آمد کے بارے میں بچوں کو سمجھ آئے یا پھر دوران رمضان افطار پارٹیوں کا اہتمام کریں۔ اس تیاری میں بچوں کو شامل بھی کریں۔ اس سے نہ صرف بچوں میں روزہ رکھنے کی عادت پروان چڑھے گی بلکہ دوستی کی مشترکہ سرگرمی سے دلچسپی بھی بڑھے گی۔
6۔ سحر و افطار کی تیاری میں شمولیت:
 عموماً بچوں کو گھر کے کاموں، خاص طور پر باورچی خانے سے دور رکھا جاتا ہے اور یہی عادت بعد میں ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ بچوں کو گھر کے اہم کاموں میں شامل رکھا جائے، خاص کر رمضان میں سحر و افطار اوقات میں بچوں کی عمر کے لحاظ سے ان میں کاموں کی تقسیم کریں، تو اس سے ان کی دلچسپی بہت بڑھے گی۔
7۔ قرآن سے لگاؤ:
 رمضان میں قریباً ہر گھر میں تلاوت قرآن مجید کا انتظام ہوتا ہے، مگر اس میں بچوں کی دلچسپی نہیں ہوتی، مگر جب انہیں قرآن کے پیغام کو کہانیوں کی شکل میں بتایا جائے گا، تو دلچسپی غیر معمولی طور پر بڑھے گی۔ اس لیے بچوں کو قرآن میں موجود واقعات دلچسپ پیرائے میں سنائیں یا قرآن کی اہمیت کو کہانیوں کے انداز میں ثابت کریں، جس کے لیے بہت سی کہانیوں کی کتابیں موجود ہیں۔
8۔ خوشیوں میں غریبوں اور مسکینوں کو شامل کریں:
 رمضان دوسرے کا احساس کرنے کا مہینہ ہے۔ مہینے کے آغاز ہی میں بچوں کے اندر دوسروں کی مدد کا جذبہ ابھاریں۔ افطاری کے لیے سامان غریبوں اور مسکینوں کے لیے بھی مختص رکھیں اور انہیں بچوں کے ہاتھوں سے تقسیم کروائیں، پھر اپنے کھلونے یا دیگر چیزیں بھی غریب بچوں میں تقسیم کرنے کی ترغیب دیں۔ یہ عادت اس عمر میں پختہ ہو گئی تو تا عمر ساتھ رہے گی۔
9۔ مسجد کو مرکز بنائیں:
 بچوں میں چھوٹی عمر سے ہی مسجد سے لگاؤ پیدا کرنا چاہیے چونکہ رمضان میں مساجد میں عوام کی حاضری غیر معمولی ہوتی ہے، اس لیے بچوں کو نماز پڑھنے ساتھ لے کر جانا چاہیے۔ اس سے نماز سے لگاؤ کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط سیکھنے اور اجتماعیات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ 
10۔ جدید ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال:
 اگر آپ کے بچوں کے پاس کمپیوٹر، سمارٹ فون آئی پیڈ وغیرہ ہے تو انھیںاسلامی ایپلیکیشنز ڈاؤن لوڈ کر کے دیں۔ اس سے بھی بچوں میں رمضان سے لگاؤ میں اضافہ ہو گا اور مشاغل اور عادات بھی مثبت رہیں گی۔
زرتاشیہ میر
0 notes
mhkhkco · 5 years
Text
«جامعه‌شناسی ادبیات» یا «اجتماعیات در ادبیات»
«جامعه‌شناسی ادبیات» یا «اجتماعیات در ادبیات»
«جامعه‌شناسی ادبیات» یا «اجتماعیات در ادبیات» تهران- ایرنا- ادبیات جامعه‌شناسی ادبیات در ایران تا مدت‌ها به‌صورت «اجتماعیات در ادبیات» تدریس می‌شد. چنان‌که می‌دانیم، کانون توجه جامعه‌شناسی ادبیات، رابطۀ میان اثر هنری، مخاطبانش و ساختار اجتماعی‌ای است که اثر در آن تولید و درک می‌شود و می‌خواهد ببیند یک اثر ادبی چگونه در شرایطی خاص به وجود می‌آید و سنت‌های فرهنگی و ترتیبات اجتماعی چه تأثیری بر…
View On WordPress
0 notes
muzicnews · 6 years
Text
دانلود کتاب بوستان سعدی
نام کتاب
 بوستان سعدی (دانلود+)
نویسنده
شیخ مسطح الدین سعدی شیرازی + به خط میر عماد
موضوعات
اشعار سعدی
رمز (پسورد)
www.tarikhema.org
تهیه توسط
انی کاظمی
حجم
25.6 مگا بایت (MB)
قالب کتاب
PDF – پی دی اف
منبع الکترونیکی
تاریخ ما
بوستان سعدی نخستین اثر سعدی شاعر و حکیم نامدار ایرانی‌ است که کار سرودن آن در سال ۶۵۵ هجری قمری است. شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی این اثر را در زمانی که در سفر بوده است، سروده و هنگام بازگشت به شیراز آن را بر دوستانش عرضه کرد. این اثر در قالب مثنوی و در بحر متقارب سروده شده است، و از نظر قالب و وزن شعری حماسی است هر چند که از نظر محتوا به اخلاق و تربیت و سیاست و اجتماعیات پرداخته است.
  کتابهای مرتبط :
دانلود کتاب شرح عهد نامه علی ( ع)
دانلود کتاب بوستان سعدی
دانلود کتاب گلستان شیخ سعدی
دانلود کتاب دزیره (دو جلد)
دانلود کتاب کنت مونت کریستو
دانلود کتاب زن ایرانی در گذر تاریخ
دانلود کتاب ایرانشناسی در کشور های آلمانی زبان
دانلود رایگان کتاب مانی نقاش و آیین مانوی
دانلود کتاب ماجراهای مارکوپولو
دانلود کتاب خواجه تاجدار
source https://pdf.tarikhema.org/PDF/%d8%af%d8%a7%d9%86%d9%84%d9%88%d8%af-%da%a9%d8%aa%d8%a7%d8%a8-%d8%a8%d9%88%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%b9%d8%af%db%8c-2/
0 notes
dibatoday-blog · 7 years
Photo
Tumblr media
تکنوکرات ها ناکارآمدی را بر انقلاب تحمیل می کنند خبرگزاری مهر، گروه دین و اندیشه: قدرت در ادبیات سیاسی مفهوم گسترده ای دارد و تقریبا تمام نظریه پردازان اعمال سلطه را کلیدواژه بنیادی قدرت معرفی کرده اند. برتری انقلاب اسلامی تغییری در مفهوم قدرت بود که مولفه های متفاوتی از قدرت مد نظر اندیشمندان غربی را معرفی کرد. پرسش ها دیگر ما از وی متمرکز به چالش ها و ارزیابی کارآمدی انقلاب اسلامی بود. تفضیل این صحبت را در ادامه می خوانید؛ *از نظر شما مفهوم قدرت در اندیشه پیشرفته دارای چه مولفه هایی هست و نقد انقلاب اسلامی بر این تلقی از قدرت چیست و نگاه آن نسبت به معنای قدرت چه طور تشریح می گردد؟ « تفضیل این صحبت را در ادامه می خوانید؛«قدرت» در اندیشه پیشرفته غرب صبغه ای عمیقاً فیزیکالیستی و کمّی دارد. « «نیکولو ماکیاولی» در کتاب «شهریار» به آن می پردازد و بیشتر از او، تامس هابز را میتوان معروف ترین تئوریسین و تصریح کننده مفهوم مدرنیستی قدرت دانست. در تلقی هابز، قدرت واضحا صبغه و مفهومی «کمّی» دارد و به مشابه امری که طبیعت و فراتر از آن جهان حیات اجتماعی ـ سیاسی را زیر سلطه بشر پیشرفته (به مثابه نفس اماره نوعی) درمی آورد، انگاشته می گردد. ذات و باطن و جوهر قدرت در عالم پیشرفته و مفهوم مدرنیستی قدرت، «امپریالیستی» هست. مفهوم مدرنیستی قدرت، منشأ و مرجع قدرت و معیار اصطلاحا مشروعیت قدرت را موضوع نفسانی (یعنی بشر مشابه نفس اماره) و خواست و تمنیات و نیازها و عزم او می داند مفهوم مدرنیستی قدرت، منشأ و مرجع قدرت و معیار اصطلاحا مشروعیت قدرت را موضوع نفسانی (یعنی بشر مشابه نفس اماره) و خواست و تمنیات و نیازها و عزم او می داندذات و باطن و جوهر قدرت در عالم پیشرفته و مفهوم مدرنیستی قدرت، «امپریالیستی» هست. مفهوم مدرنیستی قدرت، منشأ و مرجع قدرت و معیار اصطلاحا مشروعیت قدرت را موضوع نفسانی (یعنی بشر مشابه نفس اماره) و خواست و تمنیات و نیازها و عزم او می داند. ریشه ی ماهیت امپریالیستی مفهوم مدرنیستی قدرت به همین امر و نیز به غایت و غرض مفهوم پیشرفته قدرت برمی گردد. ««قدرت مدرن» در خدمت استیلای نفسانی بشر بر عالم و آدم هست و در عرصه اجتماعیات در پی تحقق استیلای صورت مثالی، آدم بورژوا و مصادیق عینی فردی و جمعی آن در اجتماعات پیشرفته خواهد بود. مفهوم مدرنیستی قدرت در پی تحقق حق و عدل و برقرار کردن حاکمیت مستضعفین و اجرای حدود و احکام الهی در زمین نمی باشد. مفهوم مدرنیستی قدرت حتی در حالت نرم آن، در ذات خود غایت و دستاوردی جز تحقق استیلای بهره کشانه و ظالمانه ندارد. قدرت در عالم پیشرفته که مفهوم مدرنیستی قدرت به شرح آن می پردازد، جز به تحقق و تحکیم و بسط مناسبات ظالمانه و استکباری در متن یک عالم استکباری نمی پردازد. ظهور و تسلط مفهوم مدرنیستی قدرت، محصول طغیان بشر پیشرفته در مقام نفس اماره و اعراض تمام عیار آن از حق و دین خواهد بود. ««سیاست مدرن» و ایدئولوژی های اومانیستی، همگی پیرامون مفهوم مدرنیستی قدرت سامان گرفته اند و به طرق متفاوت، انعکاس دهنده شئون و وجوه و علاوه بر این تضادهای درونی و لوازم و نتیجه های ظهور و بسط آن می باشند. لیبرالیسم کلاسیک نیز مثل دیگر ایدئولوژی های پیشرفته و بیشتر از همه آنان مراجعه به معنای مدرنیستی قدرت دارد. عموم متفکرین غربی آنچنان در موضوع قدرت اغراق می کنند که آن را مترادف با حق می شناسند و قدرت را هدف زندگی بشری می شناسند. اصطلاح «حق با غلبه کننده است» در میان واقع گرایان غربی فراوان رایج هست اصطلاح «حق با غلبه کننده است» در میان واقع گرایان غربی فراوان رایج استرجوع لیبرالیسم کلاسیک و نئولیبرالیسم به معنای مدرنیستی قدرت بیشتر از دیگر ایدئولوژی ها هست؛ زیرا لیبرالیسم کلاسیک و نئولیبرالیسم نمایندگان آن مجموعه از گروه های اجتماعی و طبقات عالم پیشرفته می باشند (یعنی طبقه اشرافیت سرمایه دار و کلان سرمایه دار و کلیت کاست حکام مخفی جهانی) که در عینیت زندگی جوامع پیشرفته بیشترین بهره مندی از قدرت پیشرفته و نیز بیشترین تکیه به آن را دارند و خود بیشتر از همه گروه ها و طبقات اجتماعی عالم پیشرفته، تجسم مفهوم مدرنیستی قدرت می باشند و این امر را در ایدئولوژی های کلیدی خود (لیبرالیسم کلاسیک، نئولیبرالیسم و تا حدی نیز لیبرالیسم سوسیال ـ دموکراتیک) نیز به منصه ی ظهور رسانده اند. عموم متفکرین غربی آنچنان در موضوع قدرت اغراق می کنند که آن را مترادف با حق می شناسند و قدرت را هدف زندگی بشری می شناسند. با برتری انقلاب اسلامی آنچه که برای آنالیز گران حوادث و رخدادهای سیاسی – اجتماعی انقلاب ها حیرت آور بود اینکه چه طور یک رژیم قدرتمندی که مورد پشتیبانی همه قدرت های بزرگ جهانی بود در برابر یک ملت با دست تهی و با شعارهای دینی به زانو در می آید و آنچنان مستاصل می گردد که راهی جز تسلیم در برابر عزم انقلابیون نداشته و پادشاه بدون ایستادگی و بدون امکان اعمال همه توان خود صحنه را ترک کرده و پا به فرار می گذارد. مساله با اهمیت و اعجاب آمیز در این ماجرا نه سقوط رژیم پهلوی و نه برتری انقلاب اسلامی بود؛ لکن آن قدرت شگرف و ناشناخته ای بود که برای تحقق این برتری به کار گرفته گردید و آن قدرتی بود که در قاموس دنیای مادی گرا و سکولار سیصد ساله موخر نه پیشینه داشته و نه در چهارچوب پژوهش ها علم سیاست و علم قدرت استعداد آنالیز و شناخت داشته هست. از این لحاظ زیادی از تحلیلگران از آن به عنوان یک سانحه غیر مترقبه، استثنایی و موقتی یاد نمودند که نه قابل تکرار و نه قابل دوام خواهد بود!! از این لحاظ زیادی از تحلیلگران از آن به عنوان یک سانحه غیر مترقبه، استثنایی و موقتی یاد نمودند که نه قابل تکرار و نه قابل دوام خواهد بود!!با اهمیت ترین و کلیدی ترین عامل این تغافل و نافهمی این بود که نمی توانستند پس از گذشت سیصد سال از عهدنامه و ستفالیا و در دوران مدرنیته، قدرت الهی و دینی را پذیرا گردیده و همچنان با تکیه بر اصل جدایی دین از سیاست و حتی برچسب زدن بر دین به عنوان افیون ملت ها قدرتی را انکار کنند که بالاترین قدرت و مافوق همه قدرت های مادی عصر خود خواهد بود و ملت مسلمان ایران با تکیه بر همیه قدرت ناشناخته برای غربی ها و با شعارالله اکبر توانست رژیم نیرومند پهلوی را از اریکه قدرت ساقط نماید. حوادث و رخدادهای گذشته و استقامت و پایداری این انقلاب و نظام برخاسته از آن در طول چهار دهه گذشته در برابر همه هجوم ها و دسیسه های پشت سر هم دشمنان این کشور و ابهت روزافزون آن حیرت دیگری بود که آنالیز گران سیاسی را حیرت زده و انگشت به دهان نگه داشت و هنوز هم این تحلیلگران قادر نبوده اند مولفه های قدرت انقلاب اسلامی و جمهوری اسلامی را کشف کنند و به ناتوانی و ناکارآمدی چهارچوب های تحلیلی خود از قدرت اعتراف کرده و به یک درک و درک درستی از این قدرت جدید برسند. حتی کوشش این دانشمندان در طرح و اضافه کردن مقوله ای جدید به اسم قدرت نرم و یا قدرت هوشمند کمک چندانی به آنان برای توجیه این قدرت و مبارزه با این قدرت نوظهور نکرده هست. اما اسلام اولا تنها اعتبار آدم را قدرت نمی داند و به اعتبار های دیگری قائل هست و ثانیا تغییر قدرت در اسلام با تعبیری که در غرب از قدرت می کنند، متمایز هست. اسلام قدرت هایی را در آدم سراغ دارد و آن قدرت ها را تقویت و تحریک می کند که نتیجه اش غیر از چیزی هست که غرب گفته هست. امام خمینی و آیت الله خامنه ای، ابهت و قدرت سیاسی را قدرت ای می دانند معنوی که استعداد، کنترل امیال و خودسازی را در بر دارد. هر دو، منشاء قدرت سیاسی را الهی می دانند و بدون توجه به قدرت مطلق خداوند تبارک و تعالی هیچ قدرتی را دارای مفهوم و مفهوم نمی یابند هر دو، منشاء قدرت سیاسی را الهی می دانند و بدون توجه به قدرت مطلق خداوند تبارک و تعالی هیچ قدرتی را دارای مفهوم و مفهوم نمی یابندامام خمینی و آیت الله خامنه ای، ابهت و قدرت سیاسی را قدرت ای می دانند معنوی که استعداد، کنترل امیال و خودسازی را در بر دارد و قدرت فی نفسه بد نیست. لکن مالک قدرت می بایستی شایستگی اکتساب چنین قدرتی را داشته باشد. هر دو، منشاء قدرت سیاسی را الهی می دانند و بدون توجه به قدرت مطلق خداوند تبارک و تعالی هیچ قدرتی را دارای مفهوم و مفهوم نمی یابند. مرجع قدرت سیاسی دارای دو عامل معنوی و مادی هست و قدرت را بالذات بد و منفی نمی دانند لکن مالک قدرت ��ی بایستی شایستگی و لیاقت اکتساب قدرت را داشته باشد. مالک قدرت می بایستی از تهذیب و معنویت خاص بهره مند باشد تا بتواند اغراض الهی را دنبال نماید. بنابراین هدف قدرت سیاسی تثبیت حقانیت و استقرار نظام حق هست که در جنبه رفاه مادی در سایه اسلام و مقررات اسلامی بیان می گردد و در جنبه معنوی ایمان، پرهیزگاری، عدالت و رشد معنوی مردم هدف هست. در جهان کنونی نگرش ها و دیدگاه های گوناگونی نسبت به قدرت وجود داشته و دارد. اما از دیدگاه امام خمینی قدرت ذاتا خیر و نهایت خواهد بود و قدرت سیاسی را هم به لحاظ منشاء و خاستگاه و هم به لحاظ غایاتی که تحقق آنان در گروی وجود قدرت هست، ضرورتی ابدی می داند. *در آستانه چهل سالگی انقلاب اسلامی قرار داریم به نظر شما چالش های بنیادی انقلاب اسلامی چیست؟ من در کتاب تحلیلی بر انقلاب اسلامی، آفات انقلاب را در آنجا بیان کردم. یکی از آفات و چالش های ما این هست که انقلابیون برگشت به اعتبار های پیش از انقلاب کنند که ما امروز شاهد این مساله هستیم. متاسفانه آنچه ما امروز می بینیم این هست که خیلی از کسانی انقلابی بودند به همان گذشته پیش از انقلاب بازگشتند. اخیراً من در مقاله ای با عنوان «ما انقلاب کردیم تا حکومت کنیم» این مساله را مفصلاً بیان کردم. ما الان چند گروه در انقلاب اسلامی داریم. یک گروهی که معتقد هست انقلاب ما ادامه دارد و زمینه ساز ظهور هست و ما باید همچنان این انقلاب را ادامه دهیم و هرگز لباس رزم را نباید از تن بیرون کنیم. این کاری بود که در انقلاب های دیگر مثل انقلاب فرانسه و روسیه انجام گردید. در انقلاب اسلامی، بخاطر آن نگاه اول انقلاب ادامه پیدا نمود. .. آنان را به سمت اکتساب قدرت کشاند. بنابراین این یک چالش جدی برای جمهوری اسلامی هست نه برای انقلاب بنابراین این یک چالش جدی برای جمهوری اسلامی هست نه برای انقلاباما در میان فرهیختگان ما متاسفانه اکثراً شواهد مادی و رفاه و... بنابراین این یک چالش جدی برای جمهوری اسلامی هست نه برای انقلاب. آنچه که برای ما چالش ایجاد نموده برای نظام جمهوری اسلامی و به ویژه دولت هست. وقتی به اوایل انقلاب می نگریم در این زمینه می بینیم نسبت به الان افت زیادی داشته ایم. شهوت قدرت، امتیازهای و رانت هایی که قدرت به وجود می آورد، موجب پدید آمدن این طبقه و فربه شدن آن شددنیازدگی و رفاه زدگی بعضی که در تاریخ هم از این اشخاص فراوان داشته ایم اساس چالش های به وجود آمده هست. شهوت قدرت، امتیازهای و رانت هایی که قدرت به وجود می آورد، موجب پدید آمدن این طبقه و فربه شدن آن گردید شهوت قدرت، امتیازهای و رانت هایی که قدرت به وجود می آورد، موجب پدید آمدن این طبقه و فربه شدن آن گردید. در انقلاب فرانسه و روسیه، پس از انقلاب، نظام جایگزین انقلاب گردید. نتیجتاً انقلاب متوقف گردید و هدف آنان هم همین بود. هدف آنان این بود که به قدرت برسند. حتی لنین که انترناسیونالیسم سوم را به وجود آورد موفق نشد دنبال کند زیرا که حاکمیت دولت و محافظت دولت برای دولتمردان با اهمیت تر از انقلاب بود. نتیجتاً می بینیم که دعوا بر سر اکتساب قدرت هم در فرانسه و هم در روسیه به صورت جدی شکل می گیرد. در انقلاب روسیه هم همین گونه. این اصطلاح که «انقلاب فرزندان خود را می خورد» پژوهشگر می گردد. ولی در انقلاب اسلامی این اتفاق نیافتاد. من اعتقاد دارم انقلاب باید همچنان جوشان باشد و ما در برابر این مساله ۹ دی های دیگری را هم به وجود آوریم. *الان چه حجم هایی وجود دارد که بتوانیم در مواجهه با چالش های موجود موفق شویم؟ این امر توان دارد نظام را روی ریل انقلاب قرار دهد. ما اعتقاد داریم انقلاب روی ریل خود قرار دارد. نظامی که بر پایه مبانی دینی در برابر همه دسیسه ها توان دارد بایستد و همه را خنثی کند و پیش برود و نیرومنتر گردد آیا ناکارآمد هست؟ درست هست که ناتوانی هایی همچنان وجود دارد ولی با اهمیت این هست که قدرت ما امروز قدرت برتر جهانی هست. *شبهه ای مطرح هست که متمرکز به ناکارآمدی هست و گفته می گردد انقلاب اسلامی باید پس از ��هار دهه بتواند کارآمدی خود را نشان دهد و مدعی می گردد بخاطر کاستی هایی که وجود دارد ما باید از نسخه های غربی لیبرال دموکراسی استفاده نماییم تا در حوزه های متفاوت به نتیجه مطلوب برسیم، جواب شما به این مساله چیست؟ دلیل هم این هست که ما مراجع جدید قدرت را کشف نمودیم که آن قدرت الهی هست. ما الان با ناکارآمدی اشخاص رو به رو هستیم. این تکنوکرات ها می باشند که ناکارآمدی را بر انقلاب تحمیل می کنند. ما هر جا انقلابی عمل نکرده ایم، ناکارآمد بوده ایم. در نتیجه باید به مبانی انقلابی خود بازگردیم.
0 notes
bonian-n · 7 years
Text
حجت الاسلام هادی سروش: شهید بهشتی در عین تبعیت از امام خمینی از حق انتقاد خود استفاده می کرد
فوج نیوز به نقل از شفقنا- حجت الاسلام هادی سروش در مقاله ای به بیان ویژگی های آیت الله شهید دکتر بهشتی پرداخت و گفت: سخن گفتن و نیز تبیین حق آزادی و حق انتقاد، از برجسته ترین ارکان نظام های سیاسی و اجتماعی ، خود شاهد دیگری بر دانایی و حکمت این شهید بود.
به گزارش فوج نیوز به نقل از شفقنا، حجت الاسلام هادی سروش در مقاله ای با عنوان«تجسّم بهشت در بهشتی» به بیان ویژگی های آیت الله شهید دکتر بهشتی پرداخته و می نویسد:
۱ – موفقیت او در صحنه های تربیتی ، علمی ، مدیریتی ، سیاسی قاعدتا باید راز و رمزی داشته باشد ؛ و آن دو وصف کم یاب اگر نگوییم  نایابِ “حکمت و اخلاق” اوست .
۲ – خدای حکیم فرمود: «من یوت الحکمه فقد اوتی خیرا کثیرا؛ هرکه از حکمت توشه برده به خیرکثیردست یافته است .»بقره/۲۶۹
استاد مطهری در معنای حکمت :  «انسان حکیم، انسانی است که از روی دانایی برای بهترین هدفها بهترین شرایط ممکن را انتخاب کند.»(مجموعه آثار۴۶/۱) .
۳- در «حکیم بودن » آیت الله بهشتی ؛ غیر از برخورد حکیمانه اش با«جریان بنی صدر » شاهد دیگری میطلبد که به نظر می رسد آن شاهد تاسیس و تبیین مجموعه «قانون اساسی » است .
البته سخن گفتن و نیز تبیین حق آزادی و حق انتقاد، از برجسته ترین ارکان نظام های سیاسی و اجتماعی ، خود شاهد دیگری بر دانایی و حکمت او بود.
۴ – حکمت و دانایی اش فقط در بخش اجتماعیات و سیاسیات نبود ، بلکه به گزارش فرزندان فرهیخته اش  ؛ در خانواده اش نیز ، تلالو داشت. مانند ترغیب به آموزش رانندگی همسر ، ارایه حق انتخاب حجاب به دختر ، و اجازه استفاده از حق انتخاب رشته تحصیلی به پسر و….
۵ –  “اخلاق ” بخش دوم جوهره شخصیت آیت الله بهشتی بود.
خلوص ، تواضع، صداقت، و خلاصه «شرح صدر » ، از خصوصیات مهمش بود. نتیجتا ؛ این اوصاف از اویک شخصیت الهی و ملکوتی و نیز محبوب ساخت.
۶ – “شرح صدر” او ، یعنی ظرفیت زیاد بالایش در برابرِ تهمت ها و شایعه ها ، در نظام ما مثال زدنی شد. چرا که یک مدیریت نمونه ، در ظرفیت وسیع ، در برابر همه ی مشکلات اجتماعی و سیاسی و نیز فشارها خود را ثابت میکند . امیرالمومنین فرمود:”سعه الصدر آله الریاسه” .
۷ – در مورد “صداقتش” مهم این بود که ؛ «صدق و صداقتش» از زبان عبور کرد و همه اعضاء و جوارحش را در بر گرفت .
ذره ای از بی صداقتی هایی مانند نیرنگ، خیانت ، دو رویی و سیاست بازی ، کسی چه دوست و چه دشمن از او گزارش نکرده .
امام حسین(ع) فرمود:
“ان شیعتنا من سلمت قلوبهم من کل غش و غل و دغل ”  ؛  قلب شیعیان ما از هرگونه ناخالصی و نیرنگ و بازی، مبرا ست ” .
ایشان از نظر شرایط ظاهریِ زندگی،  همان که بود را از خود نشان میداد نه چیز دیگری، لذا حاضر نشد به خاطر تغییر دید مردم ، خانه خود را به پایین شهر منتقل کند ، در همان نقطه مسکونی پیش از انقلابش ماند ، گرچه آماج تیرهای زهرآگین را جهت دارتر میکرد.
صداقتش ظهور دیگری نیز داشت ؛ در بخش ارتباطش با امام ؛ با اینکه میگفت : امام مراد من است و همه زندگی را با تشیخصِ مصلحت از سوی ایشان تنظیم میکنم ، اما از “حق انتقاد” خود استفاده نمود که نامه معروفش درمورد بنی صدر حاکی این حقیقت است . این هم میشود “صداقت” .
۸ – طبق آیه ۲۶۹بقره ؛ از این حکمت و اخلاق ،  به “خیر کثیر” رسید. و ما و نظام ما همواره بهرمند از قطرات آن “خیر کثیر” بوده و هستیم .
  طوبی له و حسن مآب.
0 notes