#آپریشنل
Explore tagged Tumblr posts
Text
تکنیکی اور آپریشنل وجوہات کے باعث 13پروازیں منسوخ
(اقصیٰ شاہد ) تکنیکی اور آپریشنل وجوہات کے باعث آج کراچی سے روانہ ہونے والی 13پروازیں منسوخ کی گئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پروازوں کا شیڈول متاثرہونا روزانہ کامعمول بن گیا،تکنیکی اورآپریشنل وجوہات کےباعث 13پروازیں منسوخ ہوئی،جن میں 11 نجی اندرون وبیرون ملک جانیوالی پروازیں جبکہ 2 پروازیں پی آئی اے کی کینسل کی گئی۔ منسوخ ہونیوالی پروازوں میں کراچی سے تحران جانے والی ایران ایئرکی پرواز آئی آر 813…
0 notes
Text
تکنیکی اور آپریشنل وجوہات پر8 پروازیں منسوخ
(آئمہ خان)تکنیکی اور آپریشنل وجوہات کے باعث کراچی ایئر پورٹ سے متعدد پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ منسوخ ہونے والی پروازوں میں کراچی سے دبئی ا یئر بلیوکی پرواز پی اے 110 ، کراچی سے لاہور سیرین ایئر کی پرواز ای آر 524،522،کراچی سے اسلام آباد سیرین ا یئرکی پرواز ای آر 504 شامل ہیں ۔ کراچی سے ہی منسوخ ہونیوالی دوسری پروازوں میں کراچی سے لاہور ا یئر سیال کی پرواز پی ایف 145،کراچی سے سکھر پی آئی اے کی…
0 notes
Text
پریس ریلیز
*پنجاب میں کام ہو رہا ہے جبکہ فتنہ پارٹی فتنہ گردی میں مصروف ہے: عظمٰی بخاری*
*ایک صوبے کا ''مولا جٹ'' ہر روز فیڈریشن پر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے: عظمٰی بخاری*
*میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ ماہانہ کی بنیاد پر کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے: عظمٰی بخاری*
*صحا��یوں کے لئے میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں، ان کے مسائل کا حل میری پہلی ترجیح ہے: سید طاہر رضا ہمدانی*
*ڈی جی پی آر کو جدید تقاضوں اور ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا میرا مشن ہے: غلام صغیر شاہد*
لاہور30 ستمبر:- نئے تعینات ہونے والے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز غلام صغیر شاہد کی جانب سے نجی ہوٹل میں صحافیوں کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری اور سیکریٹری انفارمیشن سید طاہر رضا ہمدانی نے خصوصی شرکت کی۔ بیٹ رپورٹرز، بیورو چیفس، کالم نگار اور نیوز ایڈیٹرز بھی ظہرانے میں مدعو تھے۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے کہا کہ پنجاب میں کام ہو رہا ہے اور عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز ہر روز عوام کے مسائل کے حل کے لئے گھنٹوں میٹنگز کرتی ہیں۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی آپ سب کے سامنے ہے۔ اس لئے پنجاب کے لوگ فتنہ پارٹی کی فتنہ گردی کا حصہ نہیں بنتے۔ ایک صوبے کا مولا جٹ ہر روز فیڈریشن پر چڑھائی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔انکا کہنا تھا کہ ایک مخصوص جماعت اور اس کے کارندوں نے پاکستان میں افراتفری پھیلانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ لاہور کے ناکام جلسے اور راولپنڈی کے فلاپ احتجاج کے بعد یہ باولے ہو چکے ہیں۔ان کا اپنا صوبہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن ان کو فکر صرف پنجاب میں جلسے اور احتجاج کرنے کی ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ خیبر پختون خواہ کے لوگوں کو بھی بجلی کے بلوں میں ریلیف ملے۔جس طرح پنجاب کے بچوں کو لیپ ٹاپس، سکالرشپس اور الیکٹرک بائکس مل رہی ہیں اسی طرح خیبر پختونخواہ کے بچوں کو بھی یہ سب کچھ ملے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ ہم میڈیا کی ادائیگیوں کا سلسلہ ماہانہ کی بنیاد پر کرنے کا طریقہ کار وضع کر رہے ہیں اور وزیراعلی پنجاب جلد ڈی جی پی آر کا دورہ کریں گی۔ اس موقع پر سیکریٹری انفارمیشن سید رضا ہمدانی کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے مسائل حل کرنا ہماری پہلی ترجیح ہے۔ میرے دروازے صحافیوں کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ صحافی کالونی کے مسائل ہوں یا صحافیوں کی گرانٹ کے، انکے حل کو ترجیح دی جائے گی۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے ہمیشہ مثبت رول ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ ڈی جی پی آر غلام صغیر شاہد نے کہا کہ وزیر اطلاعات پنجاب نے جو ٹاسکس دیے ہیں انکو جلد از جلد پورا کریں گے۔ وزیراعلٰی پنجاب کے ویژن کے مطابق محکمہ اطلاعات کو چلایا جارہا ہے۔ ڈی جی پی آر کے آپریشنل ہیڈ متحرک اور موثر بنانا میرا مشن ہے۔ ہم نے آتے ہی میڈیا کے التواء شدہ بقایاجات میں سے 20 کروڑ ادا کئے ہیں۔ باقی ادائیگیاں آنے والے دنوں میں کردی جائیں گی۔ ڈی جی پی آر کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا بھی میرے ٹاسکس میں شامل ہے-
٭٭٭
0 notes
Text
وزیراعظم کا پاک فوج کی آپریشنل تیاریوں پر مکمل اطمینان کا اظہار
وزیراعظم شہبازشریف نےپاک فوج کی آپریشنل تیاریوں پر مکمل اطمینان کا اظہار کردیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کی راولپنڈی میں آرمی وار گیم کے اختتامی سیشن کاانعقاد کیاگیا جس میں وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے خصوصی شرکت کی۔وزیر اعظم کو وارگیم اور خطرات سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کی آپریشنل تیاریوں کے بارے میں جامع بریفنگ دی گئی۔ تقریب میں وزیر دفاع، وزیر خزانہ، وزیر اطلاعات، آرمی چیف اور اعلیٰ عسکری…
0 notes
Text
مسلح افواج کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے نظام کو جدید بنا رہی ہیں، جنرل عاصم منیر
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے آرمی ایئر ڈیفنس کور کی آپریشنل تیاریوں اور اہداف کی قابل ذکر کامیابیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلح افواج پاکستان کے خلاف کسی بھی خطرے کو روکنے کیلئےاپنے نظام کو جدید بنا رہی ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعل��ات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان نے مختلف ایئر ڈیفنس ویپن سسٹم کا کامیاب مظاہرہ کیا، البیزا تھری 2024 مشقیں سون میانی میں منعقد کی گئیں۔ آرمی چیف جنرل…
View On WordPress
0 notes
Text
چین کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے قدم، امکانات اور چیلنج
اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے دو سال بعد، چین افغانستان میں سب سے بااثرملک کے طور پر ابھرا ہے۔ چین واشنگٹن کے افغانستان سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سفارتی اور سٹریٹجک اثررسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ چین خطے میں ایک نجات دہندہ اور علاقائی شراکت دار کے طور پر اپنی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین کا موجودہ نقطہ نظر بنیادی طور پر نایاب زمینی معدنیات کی تلاش، یوریشیا کے ساتھ علاقائی روابط کے کوششیں اور سلامتی کے خدشات کے گرد گھومنے والے اس کے معاشی مفادات پر مبنی ہے۔ سفارتی سطح پر بیجنگ اور کابل دونوں نے ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے سفیر تعینات کیے ہیں۔ دنیا میں چین پہلا ملک ہے جس نے طالبان کے نامزد سفیر کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ کابل میں اپنا سفیر بھی مقرر کیا ہے۔ تاہم بیجنگ نے احتیاط برتتے ہوئے طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ چین طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس سطح تک مضبوط کرنے کا سوچ رہا ہے جہاں سب پہلے اقتصادی، معدنی اور قدرتی وسائل تک رسائی کے ساتھ مغربی ممالک کی موجودگی بہت کم ہو۔
طالبان کے لیے، چینی پیسہ اہمیت کا عامل ہے اور یہ طالبان کی حکومت کی معیشت کو پائیدار طریقے سے سنبھالنے کی صلاحیت میں عام افغانوں کا اعتماد بحال کرنے میں بھی مددگار ہو سکتا ہے۔ اقتصادی محاذ پر، چینی کمپنیاں سکیورٹی خدشات کے باوجود خاص طور پر کان کنی کے شعبے میں کاروباری مواقع تلاش کرنے کے لیے افغانستان کا دورہ کرتی رہتی ہیں۔ افغانستان میں چین کے سفیر واگ یو طالبان کے وزرا اور دیگر سرکاری حکام سے باقاعدہ ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ جولائی 2023 میں، طالبان نے اعلان کیا کہ فین چائنا افغان مائننگ پروسیسنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی بجلی کی پیداوار، سیمنٹ، مینوفیکچرنگ اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں میں 350 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح، جنوری 2023 میں، طالبان نے شمالی افغانستان میں دریائے آمو کے آس پاس تیل کی تلاش کے لیے سنکیانگ سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ طالبان کا پہلا اہم اقتصادی معاہدہ تھا اور اس کا آغاز 150 ملین ڈالر کے سالانہ سرمایہ کاری سے ہوا، جس کا حجم تین سال میں 540 ملین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
آمو دریا وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان کے درمیان پھیلا ہوا ہے جو 4.5 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ معاہدے کے مطابق طالبان کو تیل اور گیس کی تلاش کا 20 فیصد حصہ ملے گا، جو مستقبل میں 75 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ جولائی 2022 کے بعد سے، چین نے 98 فیصد افغان اشیا پر صفر ٹیرف عائد کیا ہے اور افغان پائن نٹ کی درآمد میں اضافہ کیا ہے۔ ٹیرف میں کمی افغان معیشت کو چین کی معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہے۔ افغانستان میں لیتھیم، تانبے اور نایاب زمینی معدنیات کے وسیع ذخائر میں بھی چین کو بہت دلچسپی ہے۔ خام مال کے دنیا کے سب سے بڑے خریدار کے طور پر، چین افغانستان کے غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل کو اس کی اقتصادی توسیع اور تکنیکی ترقی کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ چین سے عالمی سپلائی لائن کو الگ کرنے اور چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نینو چِپس تک رسائی کو محدود کرنے کی امریکی کوششوں کی وجہ سے یہ قدرتی وسائل تک رسائی چین کی اقتصادی استحکام اور عالمی سطح پر توسیع کے لیے اور بھی اہم ہو گئی ہے۔ یہ نایاب زمینی معدنیات برقی گاڑیوں، سمارٹ فونز اور الیکٹرانک بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ، چین کو ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) جسے چین مخالف عسکریت پسند گروپوں جسے مشرقی ترکستان اسلامک پارٹی بھی کہا جاتا ہے اور داعش خراسان کی موجودگی سے تشویش ہے۔ طالبان حکومت نے (ٹی آئی پی) کو کنٹرول کرنے اور چین کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے میں چین کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اس کے باوجود اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، گروپ کی تعداد 300 سے بڑھ کر 1,200 تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح، ٹی آئی پی نے اپنے آپریشنل اڈوں کی تشکیل نو کے ساتھ داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ آپریشنل تعلقات قائم کر کے ہتھیار بھی حاصل کیے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے (ٹی آئی پی) عسکریت پسندوں کو شمالی صوبہ بدخشاں سے چین کی سرحد کے قریب منتقل کیا، لیکن وہ واپس بدخشاں چلے گئے ہیں۔ اب، چین طالبان سے کہہ رہا ہے کہ وہ ٹی آئی پی کے عسکریت پسندوں کو گرفتار کر کے ان کے حوالے کریں۔ تاہم طالبان اس مطالبے کو پورا کرنے سے گریزاں ہیں۔
ٹی آئی پی عسکریت پسند ایک دوراہے پر ہیں انہوں نے طالبان کے ساتھ اس کے بنیادی مقصد ایک خود مختار مشرقی ترکستان ریاست کا قیام کے لیے مدد حاصل کرنے کی امید میں تعاون کیا۔ طالبان نے چین کے کہنے پر ٹی آئی پی پر دباؤ ڈالا ہے۔ تاہم، دو سال کی خاموشی کے بعد ٹی آئی پی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور اس کے کچھ عسکریت پسند پہلے ہی داعش خراسان میں شامل ہو چکے ہیں اور اگر طالبان نے اپنی آپریشنل سرگرمیوں پر پابندی نہیں ہٹائی تو اسے مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے پہلے ہی اس کے متبادل کے طور پر ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے ساتھ قریبی آپریشنل روابط قائم کر لیے ہیں۔ مختصراً، بڑھتے ہوئے تعلقات کے باوجود اففانستان میں چین کی سلامتی کے لیے خطرات بدستور برقرار ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات ایک حد سے زیادہ مستحکم نہیں۔ آنے والے برسوں میں طالبان چین کے مستقبل کے تعلقات کا رخ یہی سکیورٹی مسائل متعین کریں گے۔
عبدالباسط خان
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
کیا ریلوے اور پی آئی اے جیسے اداروں کی نجکاری ضروری ہے؟
نگران حکومت اور وزیر نجکاری فواد حسن فواد کچھ سرکاری اداروں خصوصاً پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کر رہے ہیں۔ فواد صاحب ایک قابل بیوروکریٹ ہیں جنہیں ہماری سیاست میں ایک جانب کی طرف سے بہت ستایا گیا جبکہ دوس��ی جانب نے انہیں بھلا دیا۔ پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کرنے والے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے وزیر نجکاری اور نگران حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔ ان کا کیا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟ آئیے کچھ اعداد و شمار کا جائزہ لیں۔ پاکستان میں پانچ ایئرلائنز ہیں جن میں سے چار نجی ہیں۔ سبھی ایک جیسا ہی کرایہ لیتے ہیں اور ایک ہی سطح کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چار نجی ایئر لائنز تو پیسہ کماتی ہیں اور ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن دوسری جانب پی آئی اے کو گزشتہ سال 172 ارب روپے کی فروخت پر 88 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ 51 فیصد نقصان ہے اور یہ نقصان کا وہ تناسب جسے پورا کرنا مشکل ہے چاہے کوئی کتنی ہی کوشش کر لے۔ اس سے ایک سال قبل پی آئی اے کو 50 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا اور اس سے بھی ایک سال قبل 35 ارب روپے کا۔ پی آئی اے کا اب تک کا مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت 900 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
900 ارب روپے کی یہ رقم 15 آغا خان یونیورسٹی اسپتالوں، 60 لمس یونیورسٹیوں یا پورے پاکستان میں 18 ہزار اسکولوں کی تعمیر کے لیے کافی ہے۔ اس کے بجائے، ہم نے خسارے میں چلنے والے ادارے کو جاری رکھنے کا انتخاب کیا ہے جو 8 ہزار ملازمین کو نوکریاں دیتا ہے، کبھی بھی سول ایوی ایشن کے واجبات ادا نہیں کرتا اور پی ایس او کو ایندھن کی ادائیگی میں بھی ہچکچاتا ہے۔ پی آئی اے نے تمام حکومتوں اور بورڈز کے ماتحت اور ہر ایک بحالی اسکیم کے بعد خسارہ کیا ہے گزشتہ 15 سال میں حکومت نے 109 ارب روپے براہ راست پی آئی اے پر خرچ کیے اور بینکوں کے 263 ارب روپے کے قرضوں کی ضمانت دی ہے۔ ہم پی آئی اے پر جتنی رقم چاہیں لگا سکتے ہیں لیکن سیدھی سی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کو اب ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ ملازمین کی ملازمت کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایئرلائن کی جلد نجکاری پاکستانی ٹیکس دہندگان کے لیے بہت بہتر ہو گا۔ نجکاری کی بات مجھے پاکستان ریلوے پر بھی غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ پچھلے سال، حکومت نے اس کے آپریشنل نقصانات کو پورا کرنے کے لیے 45 ارب روپے اور مجموعی طور پر 70 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کے لیے اضافی 25 ارب روپے دیے۔
پاکستان ریلوے کو ایک سال پہلے 59 ارب روپے اور اس سے ایک سال پہلے 56 ارب روپے ملے۔ صرف گزشتہ 15 سالوں میں، ٹیکس دہندگان نے پاکستان ریلوے پر 783 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے۔ ٹرک کے ذریعے ایک کلوگرام کارگو کو منتقل کرنے پر آنے والے ڈیزل کے اخراجات ٹرین کی نسبت 3 گنا زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو کے لیے ٹرکوں سے زیادہ معاوضہ لیتی ہے۔ ٹرینیں مسافروں کے سفر کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ طریقہ ہیں، پھر بھی سفر کرنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت ریلوے کے مقابلے میں طویل فاصلے کے بس کے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم، خدمات کو بہتر بنانے یا نقصانات کو کم کرنے کے بجائے، ریلوے کی بیوروکریسی چاہتی ہے کہ حکومت نئے ٹریکس کے لیے مزید 7 ارب ڈالر قرض لے اور ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالے۔ کیا ریلوے کی وزارت سوچ بچار نہیں کررہی؟ کیا ان میں اصلاحات کا کوئی عزم نہیں؟ آخر کیوں پاکستان ریلوے روڈ ٹرانسپورٹ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے جبکہ اس کی ایندھن کی لاگت روڈ ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے؟
کیا آپ اس نا اہلی اور ممکنہ طور پر بدعنوانی کا تصور کر سکتے ہیں جو شاید پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا حصہ ہے کیونکہ برسوں کی سرکاری سبسڈی کے باوجود، یہ ادارے اربوں کا نقصان کرتے رہتے ہیں اور بار بار بیل آؤٹ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ریلوے کو چلانے کے ذریعے ہماری وزارت ریلوے اس شعبے کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے نا کہ صارفین یا ٹیکس دہندگان کے لیے۔ تاہم ریلوے کو چلانے کے بجائے اس کا کردار ریگولیٹر کا ہونا چاہیے۔ ہمیں مزید آپریٹرز کے لیے پٹریوں اور ٹرینوں دونوں کو پرائیویٹائز کرنا چاہیے جبکہ وزارت ریلوے کو ایک ریگولیٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے پٹریوں اور ٹرینوں کے لیے حفاظتی معیارات مرتب کرے اور ان کو نافذ کرے اور وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ مقرر کرے جو ٹریک مالکان ٹرینوں سے اور ٹرینیں مال برداری کے لیے اور مسافروں سے لے سکتی ہیں۔ لائسنس کی شرائط میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ اگر ریگولیٹنگ وزارت کو ٹریک اور ٹرینوں میں کارکردگی اور بہتر حفاظت کی ضرورت ہو تو نجی شعبے کو اپنے فنڈز سے ایسا کرنا چاہیے تاکہ کرایوں کے ذریعے معاوضہ لیا جائے۔
پھر ریلوے کی زمین پر جو کچی آبادیاں بن گئی ہیں ان کو ریگولرائز کیا جائے اور ان کی ملکیت وہاں رہنے والے غریبوں کو ہی دے دی جائے۔ بقیہ زمین کو فروخت کیا جائے تاکہ موجودہ ریلوے ملازمین کی ریٹائرمنٹ تک تنخواہوں اور مراعات کو یقینی بنایا جاسکے۔ آئیے اب پاکستان اسٹیل ملز پر غور کریں جو آٹھ سال سے بند ہے، جس کے ملازمین کو ابھی تک تنخواہ دی جا رہی۔ پاکستان اسٹیل ملز پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن کے 100 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔ سوئی سدرن اور نیشنل بینک آف پاکستان کی مالی حالت کو شدید خطرے میں نہ ڈالتے ہوئے ان کے دیے گئے قرضوں کی تلافی کا ایک معقول طریقہ یہ ہے کہ اسٹیل ملز کی باقی ماندہ زمین ان کے ��والے کر دی جائے۔ (اسٹیل ملز کی زمین 20 ہزار ایکڑ تھی جس میں 5 ہزار ایکڑ مل کے لیے اور بقیہ زمین دیگر زیلی صنعتوں کے لیے۔ تقریباً 2 ہزار ایکڑ پر تجاوزات، ایک ہزار 500 ایکڑ پر مشتمل انڈسٹریل پارک اور ملازمین کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے بعد صرف 8 ہزار ایکڑ رقبہ باقی بچتا ہے)۔
اس کے بعد یہ زمین سوئی سدرن اور نیشنل بینک اپنے واجبات کی جزوی وصولی کے لیے فروخت کر سکتے ہیں۔ خود اسٹیل مل، جو 1960ء کی دہائی کی روسی ساختہ ہے اب بھی اسے بیچ کر یا لیز پر دے کر بحال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم موجودہ ملازمین کو ان کے ریٹائر ہونے تک تنخواہ جاری رکھی جائے۔ نگران حکومت اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے لیے معیشت کی اصلاح اور ہمارے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ان تینوں اداروں کی نجکاری سے بہتر کچھ نہیں۔ جہاں پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری صرف نقصانات کو روکے گی، وہیں ریلوے کی نجکاری سے نہ صرف نقصانات میں کمی آئے گی بلکہ یہ معیشت کی مجموعی بہتری میں بھی ایک بڑا محرک ثابت ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ان سرکاری اداروں میں ڈالا جانے والا نیا پیسہ ضائع ہی ہو گا۔ ہمیں ان سرکاری اداروں کے منافع بخش بننے اور صارفین اور ٹیکس دہندگان کے لیے فائدہ مند ہونے کے لیے نجی شعبے کے سرمایہ کاروں اور اچھی طرح سے ریگولیٹڈ مارکیٹوں کی ضرورت ہے۔ نجکاری کا ایجنڈا نقصانات کو روکنا اور معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ وزرا پر بے بنیاد الزامات اس عمل کو پٹری سے اتارنے کا ایک طریقہ ہے۔
مفتاح اسمٰعیل
یہ مضمون 7 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے خاتمے کے قریب
حکومت پاکستان نے قرض کے بوجھ تلے دبے قومی ایئرلائن، پی آئی اے، کی نجکاری کے منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ملازمین کو اپنی ملازمتوں اور پنشن کے متعلق تشویش لاحق ہے اور وہ حکومت کے منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) مالی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے حکومت اسے نجی ہاتھوں میں سونپنے اور ایئرپورٹ آپریشنز کی آوٹ سورسنگ کا منصوبہ بنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ اقتصادی مسائل کے درمیان، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو سبسڈی نہیں دے سکتی۔ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے جون میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالرکا قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایئر لائن ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی نجکاری پر غور کیا جارہا ہے اور اس کی نجکاری جلد ہی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ قومی ایئرلائن کو اس وقت اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اس وقت اس ایئرلائن میں تقریباً 11 ہزار ملازمین ہیں۔ پی آئی اے سے گزشتہ سال ریٹائرڈ ہونے والی ایک ملازمہ روبینہ خان نے ڈی ڈبلیو سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ کہیں ان کی پنشن نہ رک جائے اور دیگر ملازمین، جنہیں ملازمت سے فارغ کیا جاسکتا ہے، ان کے واجبات بھی ادا نہیں کیے جائیں گے۔ ایک دیگر سبکدوش ملازم جاوید اختر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ پہلے ہی بے روزگار ہیں اور پی آئی اے کی نجکاری سے مزید افراد کی ملازمت چھن جائے گی۔ انہوں نے کہا، "فطری طورپر ملازمین اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ سخت معاشی حالات کے درمیان ملازمت کے بغیر اپنے کنبے کا پیٹ کیسے پالیں گے۔" ایئر لائن کے انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی آئی اے کے ایگزیکیوٹیو کو بھاری بھرکم تنخواہیں ملتی تھیں اور انہیں "بڑی مراعات اور دیگر نوازشات سے" بھی نوازا جاتا تھا اور اب دیگر ملازمین کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
پی آئی اے کا عروج و زوال نجی سرمایہ کاروں کے ذریعہ اورینٹ ایئر کے نام سے شروع کی گئی ایئرلائن کو سن 1950 کی دہائی میں حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) رکھا گیا۔ دھیرے دھیرے یہ اس علاقے کی بہترین ایئرلائنز میں سے ایک بن گئی لیکن آج یہ سنگین بحران سے دوچار ہے۔ کمپنی کو کئی سالوں سے مالی مسائل کا سامنا ہے اور متعدد ملازمین کے سبکدوش ہوجانے کے باوجود سن 2017 سے اس میں خاطر خواہ بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ اس وقت اس کے 30 میں سے صرف 19 طیارے آپریشنل ہیں۔ حکومتی تیل کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل نے بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب قومی ایئر لائن کو تیل کی سپلائی بند کردینے کی دھمکی دی ہے۔ ایئرلائن کو واجبات کی عدم ادائیگی اور اس کے طیاروں کو ضبط کرنے کی دھمکی کے معاملے پر ملیشیا میں قانونی چارہ جوئی بھی سامنا کرنا پڑا۔ سبکدوش ملازمہ روبینہ خان کا خیال ہے کہ ایگزیکٹیوکی غلط پالیسیاں ایئر لائن کی بتدریج تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ اس میں مہنگے نرخوں پر ہوائی جہاز کو پٹے پر لینا بھی شامل ہے۔
ایک ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار اس حوالے سے پی آئی اے کے لیے سری لنکا سے بہت زیادہ قیمت پر دو طیارے حاصل کرنے کی مثال دیتے ہیں۔ سہیل مختار نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ ایک نجی ایئر لائن نے ایک طیارہ 4500 ڈالر فی گھنٹہ کی شرح سے حاصل کیا لیکن پی آئی اے نے وہی طیارہ 7500 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے حاصل کیا۔ "ہمیں اس شرح پر دو طیارے ملے جس کی وجہ سے تقریباً 17 سے 18ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔" انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی اے نے انتہائی مہنگے انجن بھی خریدے، جن میں بعد میں خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ روبینہ خان کا کہنا تھا کہ کیٹرنگ اور دیکھ بھال کے لیے بیرونی ٹھیکیداروں ک�� خدمات حاصل کرنے سے بھی کافی نقصان ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ، "پی آئی اے کے ذمہ داروں نے اس قومی ایئرلائنز کی مالیات کو نچوڑ کر رکھ دیا۔" انہوں نے مزید کہا کہ ایگزیکیوٹیوز کی بھاری بھرکم تنخواہیں، غیر ذمہ دارانہ رویہ اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے پی آئی اے کے واجبات کی عدم ادائیگی نے بھی قومی ایئرلائن کی مالی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔ لاہور میں مقیم، ایئرلائنز امور کے ماہر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ سیاسی روابط رکھنے والے نجی ایئرلائنز کے مالکان، جو اپنی ایئر لائنز شروع کرنا چاہتے تھے، کو پی آئی اے میں ایگزیکیوٹیو بنادیا گیا۔ "جس کے نتیجے میں پی آئی اے کا زوال شروع ہو گیا جب کہ ان کی ذاتی ایئرلائنز منافع بخش بنتی گئیں۔"
پی آئی اے کے ذمہ داروں کا کیا کہنا ہے؟ اسلام آباد میں مقیم ماہر معاشیات شاہد محمود کا کہنا ہے کہ فوجی اور سویلین دونوں ہی حکومتیں، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے سرکاری اداروں کو من پسند بیوروکریٹس، پارٹی ممبران اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ "اس کے نتیجے میں وہ معیشت کا خون کر رہے ہیں۔ اس لیے ان اداروں کی نجکاری کی جانی چاہئے۔" پاکستان کے وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد تاہم اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ حکومت کا فیصلہ مبینہ مفاد پرست افراد کے مفادات کو فائدہ پہنچانا ہے۔ فواد حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نجکاری کا عمل سختی کے ساتھ قانون کے مطابق کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قدم پر مکمل شفافیت برتی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ڈھانچے اور اثاثوں کی قیمت کا تعین دنیا کے سرفہرست سرمایہ کاری بینک کررہے ہیں۔ فواد حسن کا کہنا تھا کہ "ویلوویشن ایکسپرٹ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ قیمتوں کا تعین کرنے کے بعد بولی لگانے کا عمل ہر ایک کے لیے کھلا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "موجودہ معاشی دباو میں حکومت کے لیے اوسطاً دس سے بارہ طیاروں کو آپریشنز پر ہر سال تقریباً 150 ارب روپے کے بھاری خسارے کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔" تاہم ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے ملازمین نجکاری کی مزاحمت جاری رکھیں گے اور دیگر افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کارکن عالیہ بخشال نے بتایا کہ ان کی پیپلز ورکرز پارٹی پی آئی اے کے ملازمین کے رابطے میں ہے اور وہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"حکومت پی آئی اے کے ملازمین کو بھوک اور بھکمری کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور اس اقدام کی پوری طاقت سے مخالفت کریں گے۔"
ایس خان، اسلام آباد
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
Text
پی ٹی اے کا ضلع خیرپور میں غیر قانونی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی میں چھاپہ۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے تعاون سے ایک غیر قانونی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر (آئی ایس پی) کے خلاف تحصیل/سٹی گمبٹ، ضلع خیرپور میں کامیابی سے چھاپہ مارا۔ چھاپے کے دوران آپریشنل انٹرنیٹ انفراسٹرکچر اور متعلقہ آلات کو ضبط کر لیا گیا۔ مزید برآں، ایک شخص کو جائے وقوعہ سے گرفتار کر کے مزید تفتیش کے لیے ایف آئی اے نے تحویل میں لے لیا۔ ایک بیان میں،…
View On WordPress
#Federal Investigation Agency#FIA#Internet Service Provider#ISP#Pakistan Telecommunication Authority#PTA
0 notes
Text
تکنیکی اور آپریشنل وجوہات کے باعث متعدد پروازیں منسوخ
(احسن عباسی) کراچی میں تکنیکی اور آپریشنل وجوہات کے باعث متعدد پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ منسوخ ہونیوالی پروازوں میں کراچی سے دوحہ قطر ایئر ویز کی پرواز کیوآر 611،کراچی سے لاہور سیرین ایئر کی پروازیں ای آر 524،522بھی شامل ہیں۔ کراچی سے لاہور ایئر سیال کی پرواز یں پی ایف 145،143،کراچی سے دبئی ا یئر بلیو کی پرواز پی اے 110 بھی کینسل کر دی گئی ہیں۔ دوسری طرف کراچی سے اسلام آباد ا یئر بلیو کی پرواز پی…
0 notes
Text
چین کے جنرل فان جیانجن کو ہلال امتیاز (ملٹری) کے اعزاز سے نواز دیا گیا
—فوٹو: ایکسپریس نیوز اسلام آباد: سربراہ پاک فضائیہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے حکومت پاکستان کی جانب سے چین کے ڈائریکٹر جنرل بیورو آف ملٹری اکویپمنٹ ٹیکنیکل کوآپریشن (بومیٹیک) جنرل فان جیانجن کو ہلال امتیاز (ملٹری) کے اعزاز سے نواز دیا۔ ایئر ہیڈ کوار��رز اسلام آباد کے دورہ کے دوران جنرل فین کو یہ ایوارڈ پاک فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ آپریشنل صلاحیتوں میں اضافے کی…
View On WordPress
0 notes
Text
چین کے جنرل فان جیانجن کو ہلال امتیاز (ملٹری) کے اعزاز سے نواز دیا گیا
—فوٹو: ایکسپریس نیوز اسلام آباد: سربراہ پاک فضائیہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے حکومت پاکستان کی جانب سے چین کے ڈائریکٹر جنرل بیورو آف ملٹری اکویپمنٹ ٹیکنیکل کوآپریشن (بومیٹیک) جنرل فان جیانجن کو ہلال امتیاز (ملٹری) کے اعزاز سے نواز دیا۔ ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کے دورہ کے دوران جنرل فین کو یہ ایوارڈ پاک فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ آپریشنل صلاحیتوں میں اضافے کی…
View On WordPress
0 notes
Text
چین کے جنرل فان جیانجن کو ہلال امتیاز (ملٹری) کے اعزاز سے نواز دیا گیا
—فوٹو: ایکسپریس نیوز اسلام آباد: سربراہ پاک فضائیہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے حکومت پاکستان کی جانب سے چین کے ڈائریکٹر جنرل بیورو آف ملٹری اکویپمنٹ ٹیکنیکل کوآپریشن (بومیٹیک) جنرل فان جیانجن کو ہلال امتیاز (ملٹری) کے اعزاز سے نواز دیا۔ ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کے دورہ کے دوران جنرل فین کو یہ ایوارڈ پاک فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ آپریشنل صلاحیتوں میں اضافے کی…
View On WordPress
0 notes
Text
ٹی ٹی پی کی پاکستان میں افغان طالبان کی مدد سے دہشت گردی کی تصدیق
اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی اس وقت افغ��نستان کا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ بن چکا ہے۔ یہ گروہ پاکستان میں سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہے اور خصوصا افواج پاکستان کو ٹارگٹ بنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی طالبان پر مبنی ٹی ٹی پی کو افغان طالبان اور القاعدہ دہشت گرد نیٹ ورک کے دھڑوں کی جانب سے آپریشنل اور لاجسٹک…
0 notes
Text
ابخازیہ میں روس کا بحری اڈہ اس سال آپریشنل ہو جائے گا
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آر آئی اے نے جمعہ کو ابخازیہ کی سلامتی کونسل کے حوالے سے بتایا کہ ابخازیا میں ایک روسی بحری اڈہ، جو کہ بین الاقوامی سطح پر جارجیا کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے، 2024 میں آپریشنل ہو سکتا ہے۔ روسی اور ابخازین حکام نے اکتوبر میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ روس اوچامچیرا قصبے میں ایک مستقل بحری اڈہ کھول سکتا ہے۔ آر آئی اے نے ابخازیہ کی سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری سرگئی شمبا کے…
View On WordPress
0 notes
Text
چین کے جنرل فان جیانجن کو ہلال امتیاز (ملٹری) کے اعزاز سے نواز دیا گیا
—فوٹو: ایکسپریس نیوز اسلام آباد: سربراہ پاک فضائیہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے حکومت پاکستان کی جانب سے چین کے ڈائریکٹر جنرل بیورو آف ملٹری اکویپمنٹ ٹیکنیکل کوآپریشن (بومیٹیک) جنرل فان جیانجن کو ہلال امتیاز (ملٹری) کے اعزاز سے نواز دیا۔ ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کے دورہ کے دوران جنرل فین کو یہ ایوارڈ پاک فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ آپریشنل صلاحیتوں میں اضافے کی…
View On WordPress
0 notes