Don't wanna be here? Send us removal request.
Text
درس حدیث .
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا کہ ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔
صحیح بخاری 6426
0 notes
Text
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
*سورۃ نمبر 4 النساء*
*آیت نمبر 22*
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
*وَلَا تَنۡكِحُوۡا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقۡتًا ؕ وَسَآءَ سَبِيۡلًا* ۞
*ترجمہ*
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہوچکا سو ہوچکا۔ *32* درحقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ ہے اور بُرا چلن ہے۔ *33* ؏
*تفسیر سورة النِّسَآء 32*
تمدنی اور معاشرتی مسائل میں جاہلیت کے غلط طریقوں کو حرام قرار دیتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ بات ضرور فرمائی جاتی ہے کہ ” جو ہوچکا سو ہو چکا “۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ بےعلمی اور نادانی کے زمانہ میں جو غلطیاں تم لوگ کرتے رہے ہو ان پر گرفت نہیں کی جائے گی، بشرطیکہ اب حکم آجانے کے بعد اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلو اور جو غلط کام ہیں انہیں چھوڑ دو ۔ دوسرے یہ کہ زمانہ سابق کے کسی طریقے کو اب اگر حرام ٹھیرایا گیا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ پچھلے قانون یا رسم و رواج کے مطابق جو کام پہلے کیے جا چکے ہیں ان کو کالعدم، اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو ناجائز، اور عائ�� شدہ ذمہ داریوں کو لازماً ساقط بھی کیا جا رہا ہے۔ مثلاً اگر سوتیلی ماں سے نکاح کو آج حرام کیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اب تک جتنے لوگوں نے ایسے نکاح کیے تھے ان کی اولاد حرامی قرار دی جا رہی ہے اور اپنے باپوں کے مال میں ان کا حق وراثت ساقط کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اگر لین دین کے کسی طریقے کو حرام کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے جتنے معاملات اس طریقے پر ہوئے ہیں انہیں بھی کالعدم ٹھیرا دیا گیا ہے اور اب وہ سب دولت جو اس طریقے سے کسی نے کمائی ہو اس سے واپس لی جائے گی یا مال حرام ٹھیرائی جائے گی۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 33*
اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جرم ہے اور قابل دست اندازی پولیس ہے۔ ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد میں یہ روایات ملتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو موت اور ضبطی جائداد کی سزا دی ہے۔ اور ابن ماجہ نے ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے یہ قاعدہ کلیہ ارشاد فرمایا تھا کہ من وقع علی ذات محرم فاقتلوہ۔” جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کردو۔ “ فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام احمد تو اسی بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے اور اس کا مال ضبط کرلیا جائے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ اگر اس نے محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کیا ہو تو اس پر حد زنا جاری ہوگی، اور اگر نکاح کیا ہو تو اسے سخت عبرتناک سزا دی جائے گی۔
0 notes
Text
درس حدیث
*عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ* »
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کا اللہ پر ایمان اور قیامت پر یقین ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ اور جو کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جس شخص کا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ ( صحیح بخاری 6475)
0 notes
Text
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
*سورۃ نمبر 4 النساء*
*آیت نمبر 19 - 21*
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
*يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَحِلُّ لَـكُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرۡهًا ؕ وَلَا تَعۡضُلُوۡهُنَّ لِتَذۡهَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيۡنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـئًـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا* ۞
*ترجمہ*
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔ *28* اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کرکے اُس مَہر کا کچھ حصّہ اُڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو۔ ہاں اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں ﴿تو ضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے﴾۔ *29* ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بَھلائی رکھ دی ہو۔ *30*
*تفسیر سورة النِّسَآء 28*
اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے اس کی بیوہ کو میت کی میراث سمجھ کر اس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں۔ عورت کا شوہر جب مر گیا تو وہ آزاد ہے۔ عدت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کرلے۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 29*
مال اڑانے کے لیے نہیں بلکہ بدچلنی کی سزا دینے کے لیے۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 30*
یعنی اگر عورت خوبصورت نہ ہو، یا اس میں کوئی ایسا نقص ہو جس کی بنا پر شوہر کو پسند نہ آئے، تو یہ مناسب نہیں ہے کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دینے پر آمادہ ہوجائے۔ حتی الامکان اسے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت خوبصورت نہیں ہوتی مگر اس میں بعض دوسری خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی میں حسن صورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر اسے اپنی ان خوبیوں کے اظہار کا موقع ملے تو وہی شوہر جو ابتداءً محض اس کی صورت کی خرابی سے دل برداشتہ ہو رہا تھا، اس کے حسن سیرت پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ازدواجی زندگی کی ابتداء میں عورت کی بعض باتیں شوہر کو ناگوار محسوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہوجاتا ہے، لیکن اگر وہ صبر سے کام لے اور عورت کے تمام امکانات کو بروئے کار آنے کا موقع دے تو اس پر خود ثابت ہوجاتا ہے کہ اس کی بیوی برائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے۔ لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی ازدواجی تعلق کو منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام لے�� طلاق بالکل آخری چارہ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے۔ *نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق* ، یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ *آپ ﷺ نے فرمایا تزوجوا ولا تطلقوا فان اللہ لا یحب الذواقین و الذواقات* ، یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں۔
*سورۃ النساء آیت نمبر 20*
*وَاِنۡ اَرَدتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّكَانَ زَوۡجٍ ۙ وَّاٰتَيۡتُمۡ اِحۡدٰٮهُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡهُ شَيۡــئًا ؕ اَ تَاۡخُذُوۡنَهٗ بُهۡتَانًا وَّاِثۡمًا مُّبِيۡنًا* ۞
*ترجمہ*
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اُسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا کیا تم اُسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟
*سورۃ النساء آیت نمبر 21*
*وَ كَيۡفَ تَاۡخُذُوۡنَهٗ وَقَدۡ اَفۡضٰى بَعۡضُكُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ وَّاَخَذۡنَ مِنۡكُمۡ مِّيۡثَاقًا غَلِيۡظًا* ۞
*ترجمہ*
اور آخر تم اُسے کس طرح لے لوگے جب کہ تم ایک دُوسرے سے لُطف اندوز ہو چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں؟ *31*
*تفسیر سورة النِّسَآء 31*
پختہ عہد سے مراد نکاح ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں ایک مضبوط پیمان وفا ہے جس کے استحکام پر بھروسہ کر کے ہی ایک عورت اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالہ کرتی ہے۔ اب اگر مرد اپنی خواہش سے اس کو توڑتا ہے تو اسے معاوضہ واپس لینے کا حق نہیں ہے جو اس نے معاہدہ کرتے وقت پیش کیا تھا۔
0 notes
Text
اگر پاکستا ن کے 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف 30٪ لوگ روزانہ 10 روپے کا جوس پیں تو مہینے بھر میں تقریبا "1800 کروڑ" روپے خرچ ہوتے ہیں ۔
اور اگر آپ انہی پیسوں سے کوکا کولا یا پیپسی پیتے ہیں
تو یہ "1800 کروڑ" روپے
ملک سے باہر چلے جاتےہیں ....
اصل میں کوکا کولا اور پیپسی جیسی کمپنیاں روزانہ
"3600 کروڑ" سے زیادہ مال غنیمت اس ملک سے جمع کرتی ہیں ...
آپ سے درخواست ہے کہ آپ ...
گنے کے جوس اور پھلوں کے رس وغیرہ کو اپنائیں اور ملک کے "3600 کروڑ" روپے بچا کر ہمارے کسانوں کو دیں ...
"کسان خود کشی نہیں کریں گے .."
پھلوں کے رس کے کاروبار سے 1 کروڑ" لوگوں کو روزگار ملے گا ... آپ کا یہ چھوٹا سا کام ملک میں خوشحالی لا سکتا ہے۔
مقامی اپناو،
قوم کو طاقتور بنائیں ...
اور یہ میسیج تین لوگوں تک ضرور پہنچائے ..
میسج رکنا نہیں چاہئے ..
CocaCola
Maggi
Fanta
Garnier
Revlon
Lorial
Huggies
Pampars
MamyPoko
Libro
Levis
Nokia
Macdonalds
Calvin Klin
Kit kat
Sprite
Nestle
Pepsi
KFC
یہ اسی لئے ان کی کمپنی کے مارکیٹ بھاو بھی گر گئے ہیں.
-كولگیٹ نہیں تھا تو کیا پاکستان میں لوگ دانت صاف نہیں کرتے تھے؟
فئر اینڈ لولی نہیں تھی تو کیا سب پاکستانی عورت کالی تھی؟
مقامی اپنائے ملک بچاے
اگرتمام پاکستانی 150دن تک کوئی بھی غیر ملکی سامان
نہیں خریدے ...
تو پاکستان دنیا کا دوسرا سب سےامیر ملک بن سکتا ہے ..
صرف 150 دن میں ہی پاکستان کے 2 روپے 1 ڈالر کے برابر
ہو جائیں گے ..
ہم سب کو مل کر
یہ کوشش آزمانی چاہئے
كيونکہ یہ ملک ہے ہمارا ہے.. !!!!
ہم جوكس اتنے بیکار کے مسجز فارورڈ کرتے ہیں.
کیوں نہ اسے بھی اتنا فارورڈ
کریں تا کہ سارا پاکستان اس کو پڑھے ...
اور
ایک تحریک بن جائے ...... !!
🔥THANK YOU
0 notes
Text
درس حدیث
*عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْحَجُّ فِي كُلِّ سَنَةٍ أَوْ مَرَّةً وَاحِدَةً قَالَ بَلْ مَرَّةً وَاحِدَةً فَمَنْ اسْتَطَاعَ فَتَطَوَّعَ.*
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت اقرع بن حابس ؓ نے نبی ﷺ سے سوال کیا اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا حج ہر سال ادا کرنا فرض ہے یا ایک ہی بار؟ رسول اللہ ﷺ فرمایا: بلکہ ایک ہی بار (فرض ہے) پھر جسے طاقت ہو تو وہ نفلی حج ادا کرلے۔
(سنن ابن ماجہ 2886)
0 notes
Text
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
*سورۃ نمبر 4 النساء*
*آیت نمبر 15 - 16*
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
*وَالّٰتِىۡ يَاۡتِيۡنَ الۡفَاحِشَةَ مِنۡ نِّسَآئِكُمۡ فَاسۡتَشۡهِدُوۡا عَلَيۡهِنَّ اَرۡبَعَةً مِّنۡكُمۡ ۚ فَاِنۡ شَهِدُوۡا فَاَمۡسِكُوۡهُنَّ فِى الۡبُيُوۡتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰٮهُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ يَجۡعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيۡلًا* ۞
*ترجمہ*
تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
*سورۃ النساء آیت نمبر 16*
*وَالَّذٰنِ يَاۡتِيٰنِهَا مِنۡكُمۡ فَاٰذُوۡهُمَا ۚ فَاِنۡ تَابَا وَاَصۡلَحَا فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡهُمَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيۡمًا* ۞
*ترجمہ*
اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ *26*
*تفسیر سورة النِّسَآء 26*
ان دونوں آیتوں میں زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ پہلی آیت صرف زانیہ عورتوں کے متعلق ہے اور ان کی سزا یہ ارشاد ہوئی ہے کہ انہیں تاحکم ثانی قید رکھا جائے۔ دوسری آیت زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں کے بارے میں ہے کہ دونوں کو اذیت دی جائے، یعنی مارا پیٹا جائے، سخت سست کہا جائے اور ان کی تذلیل کی جائے۔ زنا کے متعلق یہ ابتدائی حکم تھا۔ بعد میں سورة نور کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک ہی حکم دیا گیا کہ انہیں سو ١٠٠ سو ١٠٠ کوڑے لگائے جائیں۔ اہل عرب چونکہ اس وقت تک کسی باقاعدہ حکومت کے ماتحت رہنے اور عدالت و قانون کے نظام کی اطاعت کرنے کے عادی نہ تھے، اس لیے یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی اگر اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی ایک قانون تعزیرات بنا کر دفعتًہ ان پر نافذ کردیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو رفتہ رفتہ تعزیری قوانین کا خوگر بنانے کے لیے پہلے زنا کے متعلق یہ سزائیں تجویز فرمائیں، پھر بتدریج زنا، قذف اور سرقہ کی حدیں مقرر کیں، اور بالآخر اسی بنا پر تعزیرات کا وہ مفصل قانون بنا جو نبی ﷺ اور خلفائے راشدین کی حکومت میں نافذ تھا۔
مفسر سدی کو ان دونوں آیتوں کے ظاہری فرق سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ پہلی آیت منکوحہ عورتوں کے لیے ہے اور دوسری آیت غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لیے۔ لیکن یہ ایک کمزور تفسیر ہے جس کی تائید میں کوئی وزنی دلیل نہیں۔ اور اس سے زیادہ کمزور بات وہ ہے کہ جو ابو مسلم اصفہانی نے لکھی ہے کہ پہلی آیت عورت اور عورت کے ناجائز تعلق کے بارے میں ہے اور دوسری آیت مرد اور مرد کے ناجائز تعلق کے بارے میں۔ تعجب ہے ابو مسلم جیسے ذی علم شخص کی نظر اس حقیقت کی طرف کیوں نہ گئی کہ قرآن انسانی زندگی ک�� لیے قانون و اخلاق کی شاہراہ بناتا ہے اور انہی مسائل سے بحث کرتا ہے جو شاہراہ پر پیش آتے ہیں۔ رہیں گلیاں اور پگڈنڈیاں، تو ان کی طرف توجہ کرنا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلام شاہانہ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ ایسی چیزوں کو اس نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نبوت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سورة نساء کی اس آیت میں اس کا حکم موجود ہے۔
0 notes
Text
درس حدیث
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میری اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی۔ اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔“
صحیح بخاری 3535
0 notes
Text
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
*سورۃ نمبر 4 النساء*
*آیت نمبر 13 - 14*
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
*تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ ؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ يُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ؕ وَذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ* ۞
*ترجمہ*
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے
*سورۃ النساء آیت نمبر 14*
*وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوۡدَهٗ يُدۡخِلۡهُ نَارًا خَالِدًا فِيۡهَا ۖ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ* ۞
*ترجمہ*
اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اُسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے ؏
*تفسیر سورة النِّسَآء 25A*
یہ ایک بڑی خوفناک آیت ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشگی کے عذاب کی دھمکی دی گئی۔ جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے قانون وراثت کو تبدیل کریں، یا ان دوسری قانونی حدوں کو توڑیں جو خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر مقرر کردی ہیں۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ اس قانون وراثت کے معاملہ میں جو نافرمانیاں کی گئی ہیں وہ خدا کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور محروم کیا گیا۔ کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھیرایا گیا، کہیں سرے سے تقسیم میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر مشترک خاندانی جائیداد کا طریقہ اختیار کرلیا گیا۔ کہیں عورتوں اور مردوں کا حصہ برابر کردیا گیا۔ اور اب ان پرانی بغاوتوں کے ساتھ تازہ ترین بغاوت یہ ہے کہ بعض مسلمان ریاستیں اہل مغرب کی تقلید میں وفات ٹیکس (Death Duty) اپنے ہاں رائج کر رہی ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ میت کے وارثوں میں ایک وارث حکومت بھی ہے جس کا حصہ رکھنا اللہ میاں بھول گئے تھے حالانکہ اسلامی اصول پر اگر میت کا ترکہ کسی صورت میں حکومت کو پہنچتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ کسی مرنے والے کا کوئی قریب و بعید رشتہ دار موجود نہ ہو اور اس کا چھوڑا ہوا مال تمام اشیاء متروکہ کی طرح داخل بیت المال ہوجائے۔ یا پھر حکومت اس صورت میں کوئی حصہ پاسکتی ہے جبکہ مرنے والا اپنی وصیت میں اس کے لئے کوئی حصہ مقرر کردے۔
0 notes
Text
0 notes
Text
درس حدیث
حضرت عَائِشَةَ رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا پڑھتے تھے « *اللهم إني أعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، وأعوذ بك من فتنة المحيا وفتنة الممات، اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم»* اے اللہ قبر کے عذاب سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ زندگی کے اور موت کے فتنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ دجال کے فتنہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہوں سے اور قرض سے۔ کسی ( یعنی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو قرض سے بہت ہی زیادہ پناہ مانگتے ہیں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مقروض ہو جائے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلاف ہو جاتا ہے۔
صحیح بخاری 832
0 notes
Text
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
*سورۃ نمبر 4 النساء*
*آیت نمبر 12*
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
*وَلَـكُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَكَ اَزۡوَاجُكُمۡ اِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَـكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصِيۡنَ بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ ؕ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّكُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ كَانَ لَـكُمۡ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ تُوۡصُوۡنَ بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ ؕ وَاِنۡ كَانَ رَجُلٌ يُّوۡرَثُ كَلٰلَةً اَوِ امۡرَاَةٌ وَّلَهٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ كَانُوۡۤا اَكۡثَرَ مِنۡ ذٰ لِكَ فَهُمۡ شُرَكَآءُ فِى الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصٰى بِهَاۤ اَوۡ دَ يۡنٍ ۙ غَيۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَلِيۡمٌ ؕ ۞*
*ترجمہ*
اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صُورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمہارا ہے جبکہ وصیّت جو انہوں نے کی ہو پوری کردی جائے، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صُورت میں اُن کا حصّہ آٹھواں ہوگا، *22* بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پُوری کردی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔اور اگر وہ مرد یا عورت ﴿جس کی میراث تقسیم طلب ہے﴾ بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہوتو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے، *23*
جبکہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کردی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔ *24*
یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خُو ہے۔ *25*
*تفسیر سورة النِّسَآء 22*
یعنی خواہ ایک بیوی ہو یا کئی بیویاں ہوں، اولاد ہونے کی صورت میں وہ 1/8 کی اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں 1/4 کی حصہ دار ہوں گی اور یہ 1/4 یا 1/8 سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 23*
باقی 5/6 یا 2/3 جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی اور وارث موجود ہو تو اس کو حصہ ملے گا، ورنہ اس پوری باقی ماندہ ملکیت کے متعلق اس شخص کو وصیت کرنے کا حق ہوگا۔
اس آیت کے متعلق مفسرین کا اجماع ہے کہ اس میں بھائی اور بہنوں سے مراد اخیافی بھائی اور بہن ہیں یعنی جو میت کے ساتھ صرف ماں کی طرف سے رشتہ رکھتے ہوں اور باپ ان کا دوسرا ہو۔ رہے سگے بھائی بہن، اور وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے میت کے ساتھ رشتہ رکھتے ہوں، تو ان کا حکم اسی سورة کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 24*
وصیت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیت کی جائے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں۔ اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حقداروں کو محروم کرنے کے لیے آدمی خواہ مخواہ اپنے اوپر ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو، یا اور کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصود یہ ہو کہ حقدار میراث سے محروم ہوجائیں۔ اس قسم کے ضرار کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام اہل جنت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کرجاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے۔ یہ ضرار اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے، مگر خاص طور پر کلالہ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جس شخص کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں اس میں عموماً یہ میلان پیدا ہوجاتا ہے کہ اپنی جائداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر جائے اور نسبتاً دور کے رشتہ داروں کو حصہ پانے سے محروم کر دے۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 25*
یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اور اللہ کی صفت حلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔
0 notes
Text
درس حدیث
حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہا: *رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ* ۔ مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔ اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے۔ اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ، یہ (ابھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔ (صحیح مسلم 2999)
0 notes
Text
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
*سورۃ نمبر 4 النساء آیت نمبر 11*
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
*يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡۤ اَوۡلَادِكُمۡ ۖ لِلذَّكَرِ مِثۡ��ُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ ۚ فَاِنۡ كُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۚ وَاِنۡ كَانَتۡ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصۡفُ ؕ وَلِاَ بَوَيۡهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنۡ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُنۡ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ؕ فَاِنۡ كَانَ لَهٗۤ اِخۡوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُّوۡصِىۡ بِهَاۤ اَوۡ دَيۡنٍ ؕ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ ۚ لَا تَدۡرُوۡنَ اَيُّهُمۡ اَقۡرَبُ لَـكُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا* ۞
*ترجمہ*
تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ : مرد کا حصّہ دو عورتوں کے برابر ہے،اگر *15*
﴿میّت کی وارث﴾ دو سے زائد لڑکیاں ہو ں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے۔ *16*
اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے۔اگر میّت صاحبِ اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصّہ مِلنا چاہیے۔ *17*
اور اگر وہ صاحبِ اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصّہ دیا جائے۔ *18*
اور اگر میّت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصّہ کی حق دار ہوگی۔ *19*
﴿یہ سب حصّے اُس وقت نکالے جائیں گے﴾ جبکہ وصیّت جو میّت نے کی ہو پُوری کردی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کردیا جائے۔ *20* تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصّے اللہ نے مقرر کردیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔ *21*
*تفسیر سورة النِّسَآء 15*
میراث کے معاملہ میں یہ اولین اصولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے۔ چونکہ شریعت نے خاندانی زندگی میں مرد پر زیادہ معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا ہے اور عورت کو بہت سی معاشی ذمہ داریوں کے بار سے سبکدوش رکھا ہے، لہٰذا انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ میراث میں عورت کا حصہ مرد کی بہ نسبت کم رکھا جاتا۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 16*
یہی حکم دو لڑکیوں کا بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی لڑکا نہ چھوڑا ہو اور اس کی اولاد میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں تو خواہ دو لڑکیاں ہوں یا دو سے زائد، بہرحال اس کے کل ترکہ 2/3 حصہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہوگا، باقی 1/3 دوسرے وارثوں میں۔ لیکن اگر میت کا صرف ایک لڑکا ہو تو اس پر اجماع ہے کہ دوسرے وارثوں کی غیر موجودگی میں وہ کل مال کا وارث ہوگا، اور دوسرے وارث موجود ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی سب مال اسے ملے گا۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 17*
یعنی میت کے صاحب اولاد ہونے کی صورت میں بہرحال میت کے والدین میں سے ہر ایک 1/6 کا حق دار ہوگا خواہ میت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں، یا صرف بیٹے ہوں، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں، یا ایک بیٹا ہو، یا ایک بیٹی۔ رہے باقی 2/3 تو ان میں دوسرے وارث شریک ہوں گے۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 18*
ماں باپ کے سوا کوئی اور وارث نہ ہو تو باقی 2/3 باپ کو ملے گا۔ ورنہ 2/3 میں باپ اور دوسرے وارث شریک ہوں گے۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 19*
بھائی بہن ہونے کی صورت میں ماں کا حصہ 1/3 کے بجائے 1/6 کردیا گیا ہے۔ اس طرح ماں کے حصہ میں سے جو 1/6 لیا گیا ہے وہ باپ کے حصہ میں ڈالا جائے گا کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ میت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصہ نہیں پہنچتا۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 20*
وصیت کا ذکر قرض پر مقدم اس لیے کیا گیا ہے کہ قرض کا ہونا ہر مرنے والے کے حق میں ضروری نہیں ہے، اور وصیت کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ لیکن حکم کے اعتبار سے امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔ وصیت کے متعلق *سورة بقرہ ١٨٦* میں ہم بتا چکے ہیں کہ آدمی کو اپنے کل مال کے 1/3 حصہ کی حد تک وصیت کرنے کا اختیار ہے، اور یہ وصیت کا قاعدہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ قانون وراثت کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں سے حصہ نہیں پہنچتا ان میں سے جس کو یا جس جس کو آدمی مدد کا مستحق پاتا ہو اس کے لیے اپنے اختیار تمیزی سے حصہ مقرر کر دے۔ مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے، یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت کے دن کاٹ رہی ہے، یا کوئی بھائی یا بہن یا بھاوج یا بھتیجا یا بھانجا یا اور کوئی عزیز ایسا ہے جو سہارے کا محتاج نظر آتا ہے، تو اس کے حق میں وصیت کے ذریعہ سے حصہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں ہے تو دوسرے مستحقین کے لیے یا کسی رفاہ عام کے کام میں صرف کرنے کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کی کل ملکیت میں سے 2/3 یا اس سے کچھ زائد کے متعلق شریعت نے میراث کا ضابطہ بنادیا ہے جس میں سے شریعت کے نامزد کردہ وارثوں کو مقررہ حصہ ملے گا۔ اور 1/3 یا اس سے کچھ کم کو خود اس کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ اپنے مخصوص خاندانی حالات کے لحاظ سے (جو ظاہر ہے کہ ہر آدمی کے معاملہ میں مختلف ہوں گے) جس طرح مناسب سمجھے تقسیم کرنے کی وصیت کردے۔ پھر اگر کوئی شخص اپنی وصیت میں ظلم کرے، یا بالفاظ دیگر اپنے اختیار تمیزی کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے یہ چارہ کار رکھ دیا گیا ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کرلیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیت کو درست کردے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میرا رسالہ ” یتیم پوتے کی وراثت “۔
*تفسیر سورة النِّسَآء 21*
یہ جواب ہے ان سب نادانوں کو جو میراث کے اس خدائی قانون کو نہیں سمجھتے اور اپنی ناقص عقل سے اس کسر کو پورا کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں رہ گئی ہے۔
1 note
·
View note
Text
درس حدیث
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے ( مقرر کئے ہوئے ) امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“
صحیح بخاری 7137
0 notes
Text
تفہیم القرآن
مفسر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
*سورۃ نمبر 4 النساء*
*آیت نمبر 7 - 10*
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
*لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ ۖ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ اَوۡ كَثُرَ ؕ نَصِيۡبًا مَّفۡرُوۡضًا* ۞
*ترجمہ*
مردوں کے لیے اُس مال میں حصّہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصّہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، *12* اور یہ حصّہ﴿اللہ کی طرف سے﴾ مقرر ہے
*تفسیر سورة النِّسَآء 12*
اس آیت میں واضح طور پر پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔ دوسرے یہ کہ میراث بہرحال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتٰی کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے اور دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔ تیسرے اس آیت سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وارث کا قانون ہر قسم کے اموال و املاک پر جاری ہوگا۔ خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو۔ پانچویں اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا۔
*سورۃ النساء آیت نمبر 8*
*وَاِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَةَ اُولُوا الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنُ فَارۡزُقُوۡهُمۡ مِّنۡهُ وَقُوۡلُوۡا لَهُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا* ۞
*ترجمہ*
اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو اور اُن کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو۔ *13*
*تفسیر سورة النِّسَآء 13*
خطاب میت کے وارثوں سے ہے اور انہیں ہدایت فرمائی جارہی ہے کہ میراث کی تقسیم کے موقع پر جو دور نزدیک کے رشتہ دار اور کنبہ کے غریب و مسکین لوگ اور یتیم بچے آجائیں ان کے ساتھ تنگ دلی نہ برتو۔ میراث میں ازروئے شرع ان کا حصہ نہیں ہے تو نہ سہی، وسعت قلب سے کام لے کر ترکہ میں سے ان کو بھی کچھ نہ کچھ دے دو ، اور ان کے ساتھ وہ دل شکن باتیں نہ کرو جو ایسے مواقع پر بالعموم چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ کیا کرتے ہیں۔
*سورۃ النساء آیت نمبر 9*
*وَلۡيَخۡشَ الَّذِيۡنَ لَوۡ تَرَكُوۡا مِنۡ خَلۡفِهِمۡ ذُرِّيَّةً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَيۡهِمۡ ۖفَلۡيَتَّقُوا اللّٰهَ وَلۡيَقُوۡلُوا قَوۡلًا سَدِيۡدًا* ۞
*ترجمہ*
لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں
*سورۃ النساء آیت نمبر 10*
*اِنَّ الَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡيَتٰمٰى ظُلۡمًا اِنَّمَا يَاۡكُلُوۡنَ فِىۡ بُطُوۡنِهِمۡ نَارًا ؕ وَسَيَـصۡلَوۡنَ سَعِيۡرًا* ۞
*ترجمہ*
جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں در��قیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنّم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ *14* ؏
*تفسیر سورة النِّسَآء 14*
حدیث میں آیا ہے کہ جنگ احد کے بعد حضرت سعد بن ربیع ؓ کی بیوی اپنی دو بچیوں کو لیے ہوئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ ” یا رسول اللہ ! یہ سعد ؓ کی بچیاں ہیں جو آپ ﷺ کے ساتھ احد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچا نے پوری جائداد پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے لیے ایک حبہ تک نہیں چھوڑا ہے۔ اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا “۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
0 notes
Text
0 notes