chrahman
chrahman
Untitled
19 posts
Don't wanna be here? Send us removal request.
chrahman · 7 months ago
Text
Tumblr media
محرم رشتوں کی چدائی کا مزہ
محرم رشتوں کا مزہ
میری عمر لگ بھگ چالیس سال ہے
میں اپنی فیملی سمیت پچھلے بیس سال سے بنکاک میں رہتا ہوں
میں ویب سائٹ ڈویلپر ہوں تو زیادہ تر کام گھر بیٹھے آن لائن کرتا ہوں
میری تین مست چدکڑ بڑے بنڈ والی بیٹیاں ہیں جنہیں دیکھ کے کوئی بھی مٹھ مارے بغیر نہیں رہ سکتا.
چونکہ ہم پٹھان اور کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں تو کم عمری سے ہی بیٹیوں کے جسموں کے خدوخال نمایاں اور پھولے ہوئے ہیں
ابھرے ہوئے چوتڑ موٹے گول مٹول ممے
اور تھرکتے نشیلے گوشت سے بھرپور جسم
میری بیوی کی ایک سہیلی تھی جو اپنی بہن کو اپنے شوہر سے چدواتی تھی جب سے میری بیوی نے یہ دیکھا تب سے میری بیوی کے دل میں بھی خواہش جاگی کہ وہ میرا لوڑا کسی اور کی چوت میں دیکھے وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے میرے لوڑے کے لئے پھدی ڈھونڈھ رہی تھی کہ ایک دن اس نے رات کو ہماری دو بڑی بیٹیوں کو ایک دوسرے کی پھدیوں میں انگلی کرتے دیکھا اس نے دیکھا جوان بچیاں کسی لوڑے کے لیے تڑپ رہی ہیں اور ایک دوسرے سے کہہ رہی ہیں آااااہ آئزہ بابا کا لوڑا کتنا بڑا اور موٹا ہے نہ وہ اگر ہماری چوت میں جائے تو مزہ آجائے دوسری نے کہا ہاں ثنا میرا تو دل چاہ رہا ہے ابو سے بنڈ مرواؤں مجھے ابو کی گھوڑی بننا بہت پسند ہے جس پر وہ چڑھیں اور جم کے چودیں،
میری بیوی نے مست بچیوں کی یہ باتیں اور اپنے باپ کے بارے میں یہ خیالات سنے تو بہت خوش ہوئی کیونکہ اسے اپنی خواہش پوری ہوتی نظر آئی اس نے فورا دروازہ کھول دیا اور دونوں بیٹیوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا بیٹیاں دونوں ایک دم ڈری اور ننگی کھڑی ہوگئی،میری بیوی نے کہا بہت شوق ہے نہ باپ کے لن کو لینے کا بہت گرم ہو نا تم۔ بیٹیاں خاموش رہیں پھر میری بیوی مسکراتے ہوئے میری دونوں بیٹیوں کے درمیان کھڑی ہوئی اور ان کے ننگی موٹی بنڈوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا سچ میں اگر تمھارا دل کررہا ہے باپ سے چدوانے کا تو میں انہیں تیار کرلونگی بیٹیوں نے مسکراتے ہوئے آنکھیں جھکا کر رضامندی ظاہر کی،اس رات جب بیوی نے مجھے یہ سب بتایا تو مجھے بہت حیرانگی ہوئی لیکن بیٹیوں کی مست موٹی بنڈوں کا سوچ کر میرا لن اکڑ رہا تھا جسے میری بیوی نے بھی محسوس کیا اور میرے لن کو کھینچتے ہوئے کہا حرامی تمھارا بھی دل کررہا ہے اپنی سگی بیٹیوں کی کچی پھدیوں سے کھیلنے کا
میں نے بیوی کی طرف ایک کمی��گی والی مسکراہٹ اچھال کر کہا ایک تو کچی ہو اوپر سے اپنے لن کی پیداوار ہو ایسا مقدس مزہ کوئی نامرد ہی چھوڑے گا
چنانچہ سنڈے والی رات چدائی کے لئے طے ہوگئی پورا دن میں اور میرا لن خوشی سے ناچ رہے تھے کہ آج رات جوان بچیوں کی چدائی کرونگا،ادھر سے بچیاں بھی بے تابی سے ابو کے لوڑے کے لینے کا انتظار کررہی تھی،
رات کو جب میں اپنے بیڈ پر لیٹا تو میری بیوی نے کسی دلال کی طرح آنکھ سے اشارہ کیا کہ وہ بچیوں کو لا رہی ہے،اور میں نے خود کو تیارکرلیا
چاندنی سے بھرپور دسمبر کی یہ ٹھٹھرتی رات ماحول کو اور بھی سہانا اور چدکڑ بنارہی تھی
تھوڑی دیر بعد دونوں بیٹیاں سر جھکائے ماں کے پیچھے میرے کمرے میں داخل ہوئے وہ شرم کے مارے مجھ سے نظریں نہیں ملا پارہی،بڑی بیٹی آئزہ نے کہا امی لائیٹ بند کرلیں شرم آرہی ہے۔ میں نے کہا کیوں ہمیں بھی تو اپنی مست جوان بیٹیوں کے بدن کا نظارہ کرنے دو یہ ہلتی موٹی بنڈ یہ چمکتی چوت اور یہ پهدکتے ممے ہم نے بھی تو دیکھنے ہیں،میں نے بچیوں کو بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اتنے میں میری بیوی کپڑے اتارکر ننگی ہوگئی تھی میری بچیاں اپنی ماں کو ننگا دیکھ کے گرم ہونے لگی،اور پھر میری بیوی نے میری پینٹ اتاری اور میرا لوڑاکسی ناگ کی طرح پھنکارتا ہوا باہر آیا میری بیٹیوں کی نظر جب میرے بانس کی طرح تنے اور کالے لوڑے پر پڑی تو انہوں نے ہونٹ کاٹتے ہوئے سی سی کی آوازیں نکالنی شروع کیں جیسے کئی دنوں کا بھوکا اچانک روسٹ اور چکن دیکھ لے،بڑی بیٹی نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھ کے دباتے ہوئے کہا اففففف بابا کتنا بڑا لوڑا ہے آپ کا۔ پھدی کو کتنا مزہ دے گا،اتنے میں چھوٹی بیٹی نے کپڑے نکالے اور اپنا جوان ننگا رسیلا بدن میرے سامنے کرکے کہنے لگی دیکھیں نا بابا آپ کی گڑیا جوان ہوگئی۔ جب میں نے اس کے گورے چٹے گول مٹول ممے دیکھے افففف بڑے بڑے انار تھے اوربنڈ کا تو نہ ہی پوچھو بڑی موٹی باہر کو نکلی بنڈ جیسے بڑے بڑے خربوزے ہوں،پھر میری دونوں بیٹیاں ننگی ہوگئی اور دونوں میرے پاس آکر میرے لنڈ کو ہاتھوں میں لے کر کھیلنے لگی اففففف بیٹی کے ہاتھوں کا لمس باپ کے لوڑے کو پاگل کررہا تھا،اتنے میں میری بیوی کی آواز آئی کنجریوں باپ کے لوڑے کوکھاؤگی نہیں چلو جلدی جھکو اور منہ میں لو اپنے ابو کا ناگ۔دونوں نیچھے جھکی جن سے دونوں کے کے بڑی بڑی بنڈ باہر نکل گئی آااااااااااہ کیا منظر تھا ایک بیٹی میرا لوڑا جبکہ دوسری میرے ٹٹے چوس رہی تھی اور میں دونوں بیٹیوں کی مست بنڈ پر ہاتھ پھیر رہا تھا تھپڑ ماررہا تھا اور میری بیوی میری گانڈ کی نالی اور سوراخ میں زبان پھیر رہی تھی آاااااااااھ کیا مزہ تھا ہر طرف سے، اتنے میں بڑی بیٹی نے کہا بابا پیشاب کرو نا ہم نے پینا ہے بیوی نے میرے بنڈ میں اگلی دیتے ہوئے کہا ہاں کردو تاکہ اور رنڈیاں بن جائیں یہ تمھارا پیشاب پی کے، چنانچہ میں نے زور لگایا آدھا پیشاب ایک اور آدھا دوسری بیٹی کو پلایا جو انہوں نے مزے اور خوشی سے پی لیا اور پیشاب کی کچھ دھاریں بیٹیوں کے چہرے اور موٹے مموں پر بھی ماری جس سے ان کو بہت مزہ آیا
میں پوری طرح گرمی اور ہوس کی آگ میں جھلس رہا تھا میں نے ثنا کو اپنے ساتھ چمٹایا اور کہا ثنا میری جان، میری گُڑیا اب صبر نہیں ہوتا" میں کسی ٹیٹهہ عاشق کی طرح ثنا سے چمٹا ہوا تھا۔ میری بیتابی دیدنی تھی۔ میں اس کے لب و رخسار کو چوم رہا تھا۔ میرے ہاتھ کبھی اس کے نرم و گُداز مموں کی پیمائش کرتے اور کبھی اس کی گول مٹول گانڈ کو سہلاتے۔ ثنا آخر کب تک برداشت کرتی اُس نے بھی مجھے اپنی بانہوں میں لے کر زور سے میرے سینے کو اپنے سینے سے بھینچ لیا اور کہا بابا مجھ سے بھی صبر نہیں ہورہا آپ کا خنجر دیکھ کے، اس کے ممے میرے سینے میں پیوست ہو کر میرے ہیجان کو بڑھا رہے تھے۔ ثنا کسی مست ناگن کی طرح مچل رہی تھی، خُمار اور لذّت اُس کی آنکھوں سے ٹپک رہا تھا۔ میرا جنون بھی عروج تک پہنچ چُکا تھا۔ کافی دیر تک ہم یونہی ایک دوسرے سے لپٹے بوس و کنار کرتے رہے،اور میری دوسری بیٹی ثنا کبھی میرے ٹٹے چوستی کبھی لن کبھی گانڈ اور کبھی میرا ہاتھ لے کے اپنی نرم وملائم چوت میں گھساتی .
میں اس کے ہونٹ گالوں اور گردن کو چومتے اس کے ت��ّے ہوئے گول مٹول مموں تک پہنچا تو ثنا سسکاریاں لے رہی تھی۔ اس کی خُمار زدہ سسکیاں ماحول کو عجیب ہیجان زدہ بنا رہی تھیں۔ میں پورے جوش سے ثنا کے ممے چوسنے لگا۔ وہ بھی میرے سر کو بالوں سے پکڑے ہوئے اپنے مموں کی طرف دبا دبا کر میرا ساتھ دے رہی تھی۔ اچانک مجھے ایک عجیب خیال آیا میں ثنا کو چھوڑ کر کچن میں موجود الماری کی طرف لپکا اور شہد کی بوتل نکال لی۔ ثنا یوں مجھے اُس کو خود سے ہٹانے پر تذبذب کی کیفیت میں خُمار آلود نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں شہد کی بوتل دیکھ کر وہ بھی سمجھ گئی کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں تو ایک نشیلی مُسکراہٹ اس کے گلابی ہونٹوں پر پھیل گئی۔ بوتل لاکر میں نے اسے ایک بار پھر بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔ میں ابھی تک ثنا کو کسی دوسرے نام جیسے ڈارلنگ ، جان من، رانی ، ملکہ یا شہزادی جیسے ناموں سے نہیں پکار رہا تھا۔ میں نے ثنا کے ہونٹوں پر ایک بھرپور بوسہ لیتے ہوئے اس کا چہرہ اوپر اُٹھاتے ہوئے پوچھا " ثنا تُم کیا پسند کروگی کہ میں تُم کو جان کہوں جانِ من کہوں دل کی ملکہ کہوں یا شہزادی۔" ثنا نے خُمار بھری آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔ " پاپا میں آپ کی رکھیل، آپ کی رنڈی بیٹی ، آپ کی کنجری بچی آپ کی کنیز آپ کی داسی ہوں، کتیا ہوں آپ کی ۔آپ کچھ بھی کہو مجھے بالکل بھی بُرا نہیں لگے گا۔" بلکہ جتنا آپ مجھے گالیاں دینگے آپ کی بیٹی کی چوت کو اتنا مزہ آئے گا وہ جب خود کو میری رکھیل رنڈی اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہہ رہی تھی اُسی دوران میں شہد اُس کے تنے ہوئے مموں پر اُنڈیل رہا تھا۔ شہد اُس کے دونوں مموں کی درمیانی لکیر سے بہتا ہوا اُس کی ناف تک آ پہنچا تھا۔ میری آئزہ بیٹی نے کہا مما آپ ہٹیں میں نے بابا کی بنڈ چاٹنی ہے میری بیوی آگے آئی میں نے سعدیہ پر شہد انڈیل دیا اور میں نے شہد کی بوتل ایک سائڈ پر رکھی اور دونوں ہاتھوں سے مساج کرتے ہوئے شہد کو اچھی طرح اُس کے مموں اور پیٹ پر پھیلا دیا۔ ہم دونوں مکمل ننگ دھڑنگ بیڈ کے ��رمیان ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے میری چھوٹی بیٹی زبان سے میری بنڈ چاٹ رہی تھی تھوک لگا کر گندا کر کے پھر صاف کرکے کہہ رہی تھی آاااہ بابا آپ کی چکنی بنڈ کتنا مزہ دے رہی ہے ۔ ہم ہر قسم کی فکر اور ڈر سے بے خوف قربت کے ان لمحوں کی تمام لذّت اپنے جسموں میں سمو لینا چاہتے تھے آج نہ کوئی خوف تھا نہ کوئی ڈر، میری دونوں بیٹیاں اپنی خوشی اور مرضی سے چدوانے کیلئے میری رنڈی بنی ہوئی میرے سامنے کپڑوں کی فکر سے آزاد تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم اس ہر پل کو یادگار اور اس ہر پل کی لذّت کو پوری طرح کشید کر لینا چاہتے تھے۔ میرا لن کسی چاق و چوبند سنتری کی طرح تن کے کھڑا تھا،جسے میری مست بیوی کسی ماہر رنڈی کی طرح چاٹ رہی تھی ثنا کی پھُدی پر ایک بال تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ اتنی صاف اور ملائم لگتا تھا جیسے ثنا نے آج صُبح ہی بالوں کو صاف کیا ہو۔ ۔ میں پورے جوش اور مزے سے ثنا کے ایک ایک انگ کو چاٹ رہا تھا۔ وہ بھی جواباً اسی جوش کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ وہ بھی میرے ہونٹ گال گردن سینہ کندھے چوم اور چاٹ رہی تھی۔ میں نے گھٹنوں پر دوزانوں ہوتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اس کی گانڈ پر رکھے اور گردن کو جھکاتے ہوئے اپنے مُنہ کو اس کی پھُدی تک لے گیا زبان کی نوک سے جیسے ہی میں نے اس کی پھُدی کے ہونٹوں کو چھُوا ثنا کے جسم نے جھرجھری لی اور وہ سسک کر میرے اوپر گر سی گئی۔ اس کے مموں کے تنے ہوئے نپلز نے میرے شانوں سے رگڑ کھائی تو ایک لہر سی میرے جسم میں بھی رینگ گئی۔ میں اب مسلسل زبان کی نوک سے ثنا کی پھُدی سے کھیلنے لگا۔ ہر بار میری زبان ثنا کی پھُدی سے ٹکراتی تو وہ سسک کر سمٹ سی جاتی ۔ اس کا یوں سسکنا اور سمٹنا مجھے بہت لُطف دے رہا تھا۔ میں ثنا کی پھُدی کے ہونٹوں کو اپنی زبان سے ایسے چھیڑتا جیسے کوئی ماہر ستّار نواز اپنی انگلیوں سے ستار کے تاروں کو چھیڑتا ہے۔ ثنا کی سسکیاں بھی ستار کے راگوں جیسی تھیں میں پھُدی پر زبان گھمانے کی رفتار کم کرتا تو ثنا کی سسکیاں مدھم اور آہستہ ہو جاتیں لیکن جیسے ہی میں تیزی سے زبان گھماتا اس کی سسکیاں تیز اوربُلند ہو جاتیں۔اس دوران میری چھوٹی بچی نے میری گانڈ کے نیچے کشن رکھ کے میری گانڈ کو بیڈ سے اٹھایا اور زبان سے چاٹ کر کہنے لگی آااااہ بابا آپ کی مست چدکڑ گانڈ کتنا مزہ دے رہی ہے آااااہ بنڈ کا رس نکالیں نا اپنی لن کی رانی کو آااااااہ بہت کنجر ہیں آپ بابا کیا مست گانڈ ہے آپ کی
اتنے میں ثنا نے اپنی ٹانگیں میرے سامنے پھیلاتے ہوئے کہا بابا اب اپنی گڑیا کو اپنے لن کا تحفہ دے دیجئے کتنا انتظار کیا اس حرامی لوڑے کا .
میری بیوی نے میرے لوڑے کو چوس چوس کر صحیح چکنا کیا اور بیٹی کی کھلی پھدی کے قریب لا کر کہنے لگی آجا میرے سرتاج آج اپنا لوڑا ہماری بیٹی کی چوت میں گھسا کر میری دیرینہ خواھش پوری کر .
ثنا نے کہا پاپا مجھے چودیں نا میں نے کہا ہاں بیٹی اب میں خود کو تمہیں چودنے سے نہیں روک سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے کہو ناں کہ میں تمہیں چودوں ۔۔۔۔۔۔ ثنا نے کہا ہاں میری جان میں تو خود چاہتی ہوں کہ آپ اپنے اس تنے ہوئے لوڑے سے میری پھدی ماریں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا بڑی کنجری ہے تو باپ کو کہہ رہی ہے چودیں۔۔۔اس نے ایک طوائفوں والی مسکراہٹ سے کہا پاپا آپ بھی تو بڑے حرامی ہیں اپنے للے کی پیداوار کو للا دے رہے ہیں ۔۔میں نے لوڑے کی ٹوپی کو ثنا کی چوت پر رگڑ کر تھوڑا سا چکنا کیا اور اس کو چوت کے مونہہ پر رکھ دیا ثنا کی پھدی میرے لوڑے کی ٹوپی کے نیچے پوری چھپ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ ثنا نے مستی میں آ کر آنکھیں بند کر لیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنے چھوٹے چھوٹے اور سخت مموں کو دبانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس نے مستی بھری آواز میں سسکاری بھرتے ہوئے مجھے کہا پاپا ڈالو نا میری پھدی میں اپنا لوڑا کیوں ترسا رہے ہو میری اس معصوم پھدی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ثنا کی بات سن کر میں نے ثنا کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دئے اور دھیرے دھیرے لوڑے کو اس کی پھدی کے اندر دھکیلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ثنا کی چوت بہت ٹائٹ تھی ۔۔۔۔ اور بہت گرم بھی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس کی نرم نرم اور ٹائٹ پھدی میں دھیرے دھیرے میرا لوڑا گھس رہا تھا اور تکیلف کی وجہ سے ثنا نے اپنی آنکھیں کس کے بند کی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔ جب لوڑا اندر آدھا اندر گھس گیا تو اس نے مجھے رکنے کو کہا ۔۔۔۔۔۔ میں نے لوڑے کو وہیں روک لیا اور ثنا کے 32 سائر کے مموں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اس کے باریک باریک نپل چدائی کی آگ میں جل کر کافی سخت ہو گئیے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تھوڑی دیر تک اس کے دونوں مموں کو باری باری چومتا اور چوستا رہا تھوڑی دیر بعد ثنا نے نیچے سے اپنی پھدی کو حرکت دینا شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی لوڑے کو دھیرے دھیرے اور اندر کرنا شروع کر دیا تھا اس مرتبہ شاید ثنا کو درد کم ہو رہا تھا کیونکہ جسیے جیسے لوڑا پھدی میں گھستا جا رہا تھا وہ اپنی ٹانگوں کو اور زیادہ کھولتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ جب لوڑا پورا اندر داخل ہو گیا تو ثنا کے مونہہ سے درد بھری سسکاری نکل گئی کیونکہ میرا لوڑا جا کر اس کی بچہ دانی سے ٹکرا گیا تھا میں نے لوڑے کو پھر سے روک لیا ۔۔۔۔۔۔ اور اسکے زبردست مموں سے کھیلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد پھر سے ثنا کی پھدی نے نیچے سے حرکت شروع کر دی میں نے بھی لوڑے کو دھیرے دھیرے باہر کھینچا اور پورا لوڑا باہر آنے سے پہلے ہی دوبار اس کو اندر کی جانب دھکیل دیا ۔۔۔۔۔۔ ثنا کے مونہہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی ” ہائے میری چوت ” میرا لوڑا ایک ہی جھٹکے میں پورے کا پورا ثنا کی پھدی میں فکس ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثنا نے کہا پاپا آپ کا لن بہت ظالم ہے ۔۔۔۔۔ اس سے تو میری پھدی پھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا میری جان میرا لوڑا موٹا نہیں ہے تمہاری چوت ہی بہت ٹائٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک بات سے حیرانی ہو رہی تھی کہ ثنا کی چوت سے خون کیوں نہیں نکلا اگر یہ پہلی بار مجھ سے چوت مروا رہی ہے تو اس کی چوت سے خون ضرور نکلنا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔۔۔ شاید پہلے ہی کوئی اور اسکا کنوارپن کا پردہ پھاڑ چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بس یہی سوچتے ہوئے میں نے دھیرے دھیرے ثنا کی چوت میں گھسے لگانے شروع کر دئے ۔۔۔۔۔۔۔ میں دھیرے دھیرے گھسے لگا رہا تھا اور ثنا چدائی کے مزے میں سسکاریاں بھر رہی تھی ۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ ہائے ۔۔۔۔۔ میری چوت ۔۔۔۔ دھیرے دھیرے چودو ۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔۔۔ میری چوت پھٹ رہی ہے ۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔ پلیز پاپا دھیرے چودو ۔۔۔۔۔ میری پھدی پھٹ رہی ہے ۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ اوئی اوئی ۔۔۔۔ آہ آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے مونہہ سے ایسی سیکسی اور گندی گندی سسکاریاں سن کر میرے اندر اور بھی آگ لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اتنے میں پیچھے سے میری بنڈ پر میری بیوی نے تھپڑ مار کے کہا نامرد ایسے چودتے ہیں کیا بیٹی کو چیخیں نکلوا اس کتیا کی
بیوی کا طعنہ سن کے میں نے اپنے گھسوں کی رفتار بڑھا دی اور زور زور سے پھدی پر گھسے مارنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دس منٹ کی اس چدائی نے ہم دونوں کو پسینے میں شرابور کر دیا تھا میرا لوڑا کس کس کے ثنا کو چود رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں اپنے لوڑے کو ثنا کی چوت سے نکالتا اور پھر سے ایک دم اس کو چوت میں گھسیڑ دیتا جس کی وجہ سے ثنا کی چوت دو بار پا��ی چھوڑ چکی تھی اس کی چوت سے پچک پچک کی آوازیں آ رہی تھیں ثنا کی چوت اتنی ٹائٹ اور جسم اتنا سیکسی تھا کہ 15 منٹ کی چدائی کے بعد ہی مجھے لگا کہ میرا لوڑا ڈسچارج ہونے والا ہے۔۔۔۔۔ میں نے لوڑے کو ثنا کی چوت سے باہر نکال لیا اور میں نے ثنا کو ڈوگی سٹائل میں (کتیا بننے کو کہا ) ہونے کو کہا ۔۔۔۔۔ وہ اٹھی اور صوفے پر اسطرح گھوڑی بن گئی کہ میں زمین پر کھڑا ہو کر اس کو چود سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
میری بیوی نے کہا دیکھو تو بیٹی کیسے اپنے سگے باپ کے لوڑے کے لیے کتیا بنی ہے
اصلی حرامن کی نشانی یہی ہے کہ کتیا بن کے لوڑا لے
میری بچی کی گانڈ اور رانیں تو دیکھو کیسی مست ہے میا خلیفہ کو پیچھے چھوڑ دے
بڑا مزہ آتا ہے جب اس رنڈی پر کوئی چڑھتا ہے
بیٹی نے ماں کی باتین سن کے اس کی طرف مڑ کے کہا
چپ کر کنجری تو بھی پاپا سے چھپ دادا ابو کے سامنے کتیا بن کے بنڈ مرواتی ہے
مجھے اپنی بیوی اور بیٹی کی ایک دوسرے کو گالیاں بڑا مزہ دے رہی تھی
میں نے پہلے ڈوگی سٹائل میں ہی بیٹی کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا جو کہ میرے لن اور اسکی چوت کے پانی سے چکنی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے اسکی چوت کو چاٹ کر خوب صاف کیا اور پھر اسکی گول مٹول چھوٹی سی گانڈ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لوڑے کو اس کی چوت کے مونہہ پر رکھا ہی تھا کہ ثنا نے پیچھے کو ایک گھسا مارا جسکی وجہ سے میرا پورے کا پورا لوڑا ثنا کی چوت میں غرق ہو گیا اور اس کے مونہہ سے چیخ نکل گئی ۔۔۔۔۔ ہائے میں مر گئی ۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ میری چوت پھٹ گئی ۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے خود ہی دھیرے دھیرے سے گھسے لگانا شروع کر دئے۔ جب اس کے گھسوں کی رفتار کچھ کم ہوئی تو میں نے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کیا مست چدکڑ بنڈ ہے ��یری بیٹی کی اتنے میں آئزہ بیٹی جو کافی دیر سے میری گانڈ کی موری سے کھیل رہی تھی نے میرے ٹٹے چوسنے شروع کیے میں نےلن ثنا کی چوت میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ گھوڑی بننے کی وجہ سے اسکی چوت اور بھی ٹائٹ محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی اسطرح چدائی کرتے ہوئے 5 منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے لگا کہ کسی بھی لمحے میرا لن ثنا کی چوت میں منی اگل دے گا ۔۔۔۔۔۔ میں نے ثنا کو کہا جانی میرا لوڑا تمہاری چوت میں منی چھوڑنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا پاپا میری چوت میں فارغ مت ہونا پلیز ۔۔۔۔۔ مگر مجھ پر تو جنون سوار تھا ۔۔۔۔۔ میں زور زور سے گھسے مار رہا تھا اور کب میرے لوڑے نے ثنا کی چوت میں گرم گرم منی چھوڑ دی مجھے پتا نہیں چلا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ میں لوڑے کواس کی چوت میں ہی رکھ کر کھڑا ہو گیا اور جب ہماری حالت کچھ سنبھلی تو میں نے اپنےلوڑے کو ثنا کی چوت سے باہر نکالا اور اپنی بنیان سے اپنے لوڑے اور ثنا کی چوت کو صاف کیا اور ثنا کو اپنے سامنے کھڑا کر کے اس کو اپ نے سینے سے لگا کر اس کے ہونٹوں پر کس کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ثنا نے میرے مرجھائے لن کی طرف دیکھ کر کہا پاپا مزہ آیا
میں نے کہا بیٹی تمھاری پھدی تو جنت ہے
اتنے میں میری آئزہ بیٹی نے میرا لوڑا پکڑ کے کہا پاپا میری باری کب ہے
آئزہ کو کیسے چودا یہ کہانی پھر سہی
پھر اس کے بعد ہماری زندگی جنت بن گئی
گھر میں بیٹیاں اکثر ننگی گھومنے لگی
رات کو سب ایک بیڈ میں ننگے سوتے ہیں
میرا جس کو دل چاہتا ہے کتیا بنا کے چود دیتا ہوں.
ختم شد.
394 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
Tumblr media
محرم رشتوں کی چدائی کا مزہ
محرم رشتوں کا مزہ
میری عمر لگ بھگ چالیس سال ہے
میں اپنی فیملی سمیت پچھلے بیس سال سے بنکاک میں رہتا ہوں
میں ویب سائٹ ڈویلپر ہوں تو زیادہ تر کام گھر بیٹھے آن لائن کرتا ہوں
میری تین مست چدکڑ بڑے بنڈ والی بیٹیاں ہیں جنہیں دیکھ کے کوئی بھی مٹھ مارے بغیر نہیں رہ سکتا.
چونکہ ہم پٹھان اور کھاتے پیتے گھرانے سے ہیں تو کم عمری سے ہی بیٹیوں کے جسموں کے خدوخال نمایاں اور پھولے ہوئے ہیں
ابھرے ہوئے چوتڑ موٹے گول مٹول ممے
اور تھرکتے نشیلے گوشت سے بھرپور جسم
میری بیوی کی ایک سہیلی تھی جو اپنی بہن کو اپنے شوہر سے چدواتی تھی جب سے میری بیوی نے یہ دیکھا تب سے میری بیوی کے دل میں بھی خواہش جاگی کہ وہ میرا لوڑا کسی اور کی چوت میں دیکھے وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے میرے لوڑے کے لئے پھدی ڈھونڈھ رہی تھی کہ ایک دن اس نے رات کو ہماری دو بڑی بیٹیوں کو ایک دوسرے کی پھدیوں میں انگلی کرتے دیکھا اس نے دیکھا جوان بچیاں کسی لوڑے کے لیے تڑپ رہی ہیں اور ایک دوسرے سے کہہ رہی ہیں آااااہ آئزہ بابا کا لوڑا کتنا بڑا اور موٹا ہے نہ وہ اگر ہماری چوت میں جائے تو مزہ آجائے دوسری نے کہا ہاں ثنا میرا تو دل چاہ رہا ہے ابو سے بنڈ مرواؤں مجھے ابو کی گھوڑی بننا بہت پسند ہے جس پر وہ چڑھیں اور جم کے چودیں،
میری بیوی نے مست بچیوں کی یہ باتیں اور اپنے باپ کے بارے میں یہ خیالات سنے تو بہت خوش ہوئی کیونکہ اسے اپنی خواہش پوری ہوتی نظر آئی اس نے فورا دروازہ کھول دیا اور دونوں بیٹیوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا بیٹیاں دونوں ایک دم ڈری اور ننگی کھڑی ہوگئی،میری بیوی نے کہا بہت شوق ہے نہ باپ کے لن کو لینے کا بہت گرم ہو نا تم۔ بیٹیاں خاموش رہیں پھر میری بیوی مسکراتے ہوئے میری دونوں بیٹیوں کے درمیان کھڑی ہوئی اور ان کے ننگی موٹی بنڈوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا سچ میں اگر تمھارا دل کررہا ہے باپ سے چدوانے کا تو میں انہیں تیار کرلونگی بیٹیوں نے مسکراتے ہوئے آنکھیں جھکا کر رضامندی ظاہر کی،اس رات جب بیوی نے مجھے یہ سب بتایا تو مجھے بہت حیرانگی ہوئی لیکن بیٹیوں کی مست موٹی بنڈوں کا سوچ کر میرا لن اکڑ رہا تھا جسے میری بیوی نے بھی محسوس کیا اور میرے لن کو کھینچتے ہوئے کہا حرامی تمھارا بھی دل کررہا ہے اپنی سگی بیٹیوں کی کچی پھدیوں سے کھیلنے کا
می�� نے بیوی کی طرف ایک کمینگی والی مسکراہٹ اچھال کر کہا ایک تو کچی ہو اوپر سے اپنے لن کی پیداوار ہو ایسا مقدس مزہ کوئی نامرد ہی چھوڑے گا
چنانچہ سنڈے والی رات چدائی کے لئے طے ہوگئی پورا دن میں اور میرا لن خوشی سے ناچ رہے تھے کہ آج رات جوان بچیوں کی چدائی کرونگا،ادھر سے بچیاں بھی بے تابی سے ابو کے لوڑے کے لینے کا انتظار کررہی تھی،
رات کو جب میں اپنے بیڈ پر لیٹا تو میری بیوی نے کسی دلال کی طرح آنکھ سے اشارہ کیا کہ وہ بچیوں کو لا رہی ہے،اور میں نے خود کو تیارکرلیا
چاندنی سے بھرپور دسمبر کی یہ ٹھٹھرتی رات ماحول کو اور بھی سہانا اور چدکڑ بنارہی تھی
تھوڑی دیر بعد دونوں بیٹیاں سر جھکائے ماں کے پیچھے میرے کمرے میں داخل ہوئے وہ شرم کے مارے مجھ سے نظریں نہیں ملا پارہی،بڑی بیٹی آئزہ نے کہا امی لائیٹ بند کرلیں شرم آرہی ہے۔ میں نے کہا کیوں ہمیں بھی تو اپنی مست جوان بیٹیوں کے بدن کا نظارہ کرنے دو یہ ہلتی موٹی بنڈ یہ چمکتی چوت اور یہ پهدکتے ممے ہم نے بھی تو دیکھنے ہیں،میں نے بچیوں کو بیڈ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اتنے میں میری بیوی کپڑے اتارکر ننگی ہوگئی تھی میری بچیاں اپنی ماں کو ننگا دیکھ کے گرم ہونے لگی،اور پھر میری بیوی نے میری پینٹ اتاری اور میرا لوڑاکسی ناگ کی طرح پھنکارتا ہوا باہر آیا میری بیٹیوں کی نظر جب میرے بانس کی طرح تنے اور کالے لوڑے پر پڑی تو انہوں نے ہونٹ کاٹتے ہوئے سی سی کی آوازیں نکالنی شروع کیں جیسے کئی دنوں کا بھوکا اچانک روسٹ اور چکن دیکھ لے،بڑی بیٹی نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھ کے دباتے ہوئے کہا اففففف بابا کتنا بڑا لوڑا ہے آپ کا۔ پھدی کو کتنا مزہ دے گا،اتنے میں چھوٹی بیٹی نے کپڑے نکالے اور اپنا جوان ننگا رسیلا بدن میرے سامنے کرکے کہنے لگی دیکھیں نا بابا آپ کی گڑیا جوان ہوگئی۔ جب میں نے اس کے گورے چٹے گول مٹول ممے دیکھے افففف بڑے بڑے انار تھے اوربنڈ کا تو نہ ہی پوچھو بڑی موٹی باہر کو نکلی بنڈ جیسے بڑے بڑے خربوزے ہوں،پھر میری دونوں بیٹیاں ننگی ہوگئی اور دونوں میرے پاس آکر میرے لنڈ کو ہاتھوں میں لے کر کھیلنے لگی اففففف بیٹی کے ہاتھوں کا لمس باپ کے لوڑے کو پاگل کررہا تھا،اتنے میں میری بیوی کی آواز آئی کنجریوں باپ کے لوڑے کوکھاؤگی نہیں چلو جلدی جھکو اور منہ میں لو اپنے ابو کا ناگ۔دونوں نیچھے جھکی جن سے دونوں کے کے بڑی بڑی بنڈ باہر نکل گئی آااااااااااہ کیا منظر تھا ایک بیٹی میرا لوڑا جبکہ دوسری میرے ٹٹے چوس رہی تھی اور میں دونوں بیٹیوں کی مست بنڈ پر ہاتھ پھیر رہا تھا تھپڑ ماررہا تھا اور میری بیوی میری گانڈ کی نالی اور سوراخ میں زبان پھیر رہی تھی آاااااااااھ کیا مزہ تھا ہر طرف سے، اتنے میں بڑی بیٹی نے کہا بابا پیشاب کرو نا ہم نے پینا ہے بیوی نے میرے بنڈ میں اگلی دیتے ہوئے کہا ہاں کردو تاکہ اور رنڈیاں بن جائیں یہ تمھارا پیشاب پی کے، چنانچہ میں نے زور لگایا آدھا پیشاب ایک اور آدھا دوسری بیٹی کو پلایا جو انہوں نے مزے اور خوشی سے پی لیا اور پیشاب کی کچھ دھاریں بیٹیوں کے چہرے اور موٹے مموں پر بھی ماری جس سے ان کو بہت مزہ آیا
میں پوری طرح گرمی اور ہوس کی آگ میں جھلس رہا تھا میں نے ثنا کو اپنے ساتھ چمٹایا اور کہا ثنا میری جان، میری گُڑیا اب صبر نہیں ہوتا" میں کسی ٹیٹهہ عاشق کی طرح ثنا سے چمٹا ہوا تھا۔ میری بیتابی دیدنی تھی۔ میں اس کے لب و رخسار کو چوم رہا تھا۔ میرے ہاتھ کبھی اس کے نرم و گُداز مموں کی پیمائش کرتے اور کبھی اس کی گول مٹول گانڈ کو سہلاتے۔ ثنا آخر کب تک برداشت کرتی اُس نے بھی مجھے اپنی بانہوں میں لے کر زور سے میرے سینے کو اپنے سینے سے بھینچ لیا اور کہا بابا مجھ سے بھی صبر نہیں ہورہا آپ کا خنجر دیکھ کے، اس کے ممے میرے سینے میں پیوست ہو کر میرے ہیجان کو بڑھا رہے تھے۔ ثنا کسی مست ناگن کی طرح مچل رہی تھی، خُمار اور لذّت اُس کی آنکھوں سے ٹپک رہا تھا۔ میرا جنون بھی عروج تک پہنچ چُکا تھا۔ کافی دیر تک ہم یونہی ایک دوسرے سے لپٹے بوس و کنار کرتے رہے،اور میری دوسری بیٹی ثنا کبھی میرے ٹٹے چوستی کبھی لن کبھی گانڈ اور کبھی میرا ہاتھ لے کے اپنی نرم وملائم چوت میں گھساتی .
میں اس کے ہونٹ گالوں اور گردن کو چومتے اس کے تنّے ہوئے گول مٹول مموں تک پہنچا تو ثنا سسکاریاں لے رہی تھی۔ اس کی خُمار زدہ سسکیاں ماحول کو عجیب ہیجان زدہ بنا رہی تھیں۔ میں پورے جوش سے ثنا کے ممے چوسنے لگا۔ وہ بھی میرے سر کو بالوں سے پکڑے ہوئے اپنے مموں کی طرف دبا دبا کر میرا ساتھ دے رہی تھی۔ اچانک مجھے ایک عجیب خیال آیا میں ثنا کو چھوڑ کر کچن میں موجود الماری کی طرف لپکا اور شہد کی بوتل نکال لی۔ ثنا یوں مجھے اُس کو خود سے ہٹانے پر تذبذب کی کیفیت میں خُمار آلود نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں شہد کی بوتل دیکھ کر وہ بھی سمجھ گئی کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں تو ایک نشیلی مُسکراہٹ اس کے گلابی ہونٹوں پر پھیل گئی۔ بوتل لاکر میں نے اسے ایک بار پھر بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔ میں ابھی تک ثنا کو کسی دوسرے نام جیسے ڈارلنگ ، جان من، رانی ، ملکہ یا شہزادی جیسے ناموں سے نہیں پکار رہا تھا۔ میں نے ثنا کے ہونٹوں پر ایک بھرپور بوسہ لیتے ہوئے اس کا چہرہ اوپر اُٹھاتے ہوئے پوچھا " ثنا تُم کیا پسند کروگی کہ میں تُم کو جان کہوں جانِ من کہوں دل کی ملکہ کہوں یا شہزادی۔" ثنا نے خُمار بھری آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔ " پاپا میں آپ کی رکھیل، آپ کی رنڈی بیٹی ، آپ کی کنجری بچی آپ کی کنیز آپ کی داسی ہوں، کتیا ہوں آپ کی ۔آپ کچھ بھی کہو مجھے بالکل بھی بُرا نہیں لگے گا۔" بلکہ جتنا آپ مجھے گالیاں دینگے آپ کی بیٹی کی چوت کو اتنا مزہ آئے گا وہ جب خود کو میری رکھیل رنڈی اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہہ رہی تھی اُسی دوران میں شہد اُس کے تنے ہوئے مموں پر اُنڈیل رہا تھا۔ شہد اُس کے دونوں مموں کی درمیانی لکیر سے بہتا ہوا اُس کی ناف تک آ پہنچا تھا۔ میری آئزہ بیٹی نے کہا مما آپ ہٹیں میں نے بابا کی بنڈ چاٹنی ہے میری بیوی آگے آئی میں نے سعدیہ پر شہد انڈیل دیا اور میں نے شہد کی بوتل ایک سائڈ پر رکھی اور دونوں ہاتھوں سے مساج کرتے ہوئے شہد کو اچھی طرح اُس کے مموں اور پیٹ پر پھیلا دیا۔ ہم دونوں مکمل ننگ دھڑنگ بیڈ کے درمیان ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے میری چھوٹی بیٹی زبان سے میری بنڈ چاٹ رہی تھی تھوک لگا کر گندا کر کے پھر صاف کرکے کہہ رہی تھی آاااہ بابا آپ کی چکنی بنڈ کتنا مزہ دے رہی ہے ۔ ہم ہر قسم کی فکر اور ڈر سے بے خوف قربت کے ان لمحوں کی تمام لذّت اپنے جسموں میں سمو لینا چاہتے تھے آج نہ کوئی خوف تھا نہ کوئی ڈر، میری دونوں بیٹیاں اپنی خوشی اور مرضی سے چدوانے کیلئے میری رنڈی بنی ہوئی میرے سامنے کپڑوں کی فکر سے آزاد تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم اس ہر پل کو یادگار اور اس ہر پل کی لذّت کو پوری طرح کشید کر لینا چاہتے تھے۔ میرا لن کسی چاق و چوبند سنتری کی طرح تن کے کھڑا تھا،جسے میری مست بیوی کسی ماہر رنڈی کی طرح چاٹ رہی تھی ثنا کی پھُدی پر ایک بال تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ اتنی صاف اور ملائم لگتا تھا جیسے ثنا نے آج صُبح ہی بالوں کو صاف کیا ہو۔ ۔ میں پورے جوش اور مزے سے ثنا کے ایک ایک انگ کو چاٹ رہا تھا۔ وہ بھی جواباً اسی جوش کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ وہ بھی میرے ہونٹ گال گردن سینہ کندھے چوم اور چاٹ رہی تھی۔ میں نے گھٹنوں پر دوزانوں ہوتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اس کی گانڈ پر رکھے اور گردن کو جھکاتے ہوئے اپنے مُنہ کو اس کی پھُدی تک لے گیا زبان کی نوک سے جیسے ہی میں نے اس کی پھُدی کے ہونٹوں کو چھُوا ثنا کے جسم نے جھرجھری لی اور وہ سسک کر میرے اوپر گر سی گئی۔ اس کے مموں کے تنے ہوئے نپلز نے میرے شانوں سے رگڑ کھائی تو ایک لہر سی میرے جسم میں بھی رینگ گئی۔ میں اب مسلسل زبان کی نوک سے ثنا کی پھُدی سے کھیلنے لگا۔ ہر بار میری زبان ثنا کی پھُدی سے ٹکراتی تو وہ سسک کر سمٹ سی جاتی ۔ اس کا یوں سسکنا اور سمٹنا مجھے بہت لُطف دے رہا تھا۔ میں ثنا کی پھُدی کے ہونٹوں کو اپنی زبان سے ایسے چھیڑتا جیسے کوئی ماہر ستّار نواز اپنی انگلیوں سے ستار کے تاروں کو چھیڑتا ہے۔ ثنا کی سسکیاں بھی ستار کے راگوں جیسی تھیں میں پھُدی پر زبان گھمانے کی رفتار کم کرتا تو ثنا کی سسکیاں مدھم اور آہستہ ہو جاتیں لیکن جیسے ہی میں تیزی سے زبان گھماتا اس کی سسکیاں تیز اوربُلند ہو جاتیں۔اس دوران میری چھوٹی بچی نے میری گانڈ کے نیچے کشن رکھ کے میری گانڈ کو بیڈ سے اٹھایا اور زبان سے چاٹ کر کہنے لگی آااااہ بابا آپ کی مست چدکڑ گانڈ کتنا مزہ دے رہی ہے آااااہ بنڈ کا رس نکالیں نا اپنی لن کی رانی کو آااااااہ بہت کنجر ہیں آپ بابا کیا مست گانڈ ہے آپ کی
اتنے میں ثنا نے اپنی ٹانگیں میرے سامنے پھیلاتے ہوئے کہا بابا اب اپنی گڑیا کو اپنے لن کا تحفہ دے دیجئے کتنا انتظار کیا اس حرامی لوڑے کا .
میری بیوی نے میرے لوڑے کو چوس چوس کر صحیح چکنا کیا اور بیٹی کی کھلی پھدی کے قریب لا کر کہنے لگی آجا میرے سرتاج آج اپنا لوڑا ہماری بیٹی کی چوت میں گھسا کر میری دیرینہ خواھش پوری کر .
ثنا نے کہا پاپا مجھے چودیں نا میں نے کہا ہاں بیٹی اب میں خود کو تمہیں چودنے سے نہیں روک سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے کہو ناں کہ میں تمہیں چودوں ۔۔۔۔۔۔ ثنا نے کہا ہاں میری جان میں تو خود چاہتی ہوں کہ آپ اپنے اس تنے ہوئے لوڑے سے میری پھدی ماریں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا بڑی کنجری ہے تو باپ کو کہہ رہی ہے چودیں۔۔۔اس نے ایک طوائفوں والی مسکراہٹ سے کہا پاپا آپ بھی تو بڑے حرامی ہیں اپنے للے کی پیداوار کو للا دے رہے ہیں ۔۔میں نے لوڑے کی ٹوپی کو ثنا کی چوت پر رگڑ کر تھوڑا سا چکنا کیا اور اس کو چوت کے مونہہ پر رکھ دیا ثنا کی پھدی میرے لوڑے کی ٹوپی کے نیچے پوری چھپ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ ثنا نے مستی میں آ کر آنکھیں بند کر لیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنے چھوٹے چھوٹے اور سخت مموں کو دبانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس نے مستی بھری آواز میں سسکاری بھرتے ہوئے مجھے کہا پاپا ڈالو نا میری پھدی میں اپنا لوڑا کیوں ترسا رہے ہو میری اس معصوم پھدی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ثنا کی بات سن کر میں نے ثنا کے اوپر لیٹ کر اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دئے اور دھیرے دھیرے لوڑے کو اس کی پھدی کے اندر دھکیلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ثنا کی چوت بہت ٹائٹ تھی ۔۔۔۔ اور بہت گرم بھی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس کی نرم نرم اور ٹائٹ پھدی میں دھیرے دھیرے میرا لوڑا گھس رہا تھا اور تکیلف کی وجہ سے ثنا نے اپنی آنکھیں کس کے بند کی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔ جب لوڑا اندر آدھا اندر گھس گیا تو اس نے مجھے رکنے کو کہا ۔۔۔۔۔۔ میں نے لوڑے کو وہیں روک لیا اور ثنا کے 32 سائر کے مموں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اس کے باریک باریک نپل چدائی کی آگ میں جل کر کافی سخت ہو گئیے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تھوڑی دیر تک اس کے دونوں مموں کو باری باری چومتا اور چوستا رہا تھوڑی دیر بعد ثنا نے نیچے سے اپنی پھدی کو حرکت دینا شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی لوڑے کو دھیرے دھیرے اور اندر کرنا شروع کر دیا تھا اس مرتبہ شاید ��نا کو درد کم ہو رہا تھا کیونکہ جسیے جیسے لوڑا پھدی میں گھستا جا رہا تھا وہ اپنی ٹانگوں کو اور زیادہ کھولتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ جب لوڑا پورا اندر داخل ہو گیا تو ثنا کے مونہہ سے درد بھری سسکاری نکل گئی کیونکہ میرا لوڑا جا کر اس کی بچہ دانی سے ٹکرا گیا تھا میں نے لوڑے کو پھر سے روک لیا ۔۔۔۔۔۔ اور اسکے زبردست مموں سے کھیلنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد پھر سے ثنا کی پھدی نے نیچے سے حرکت شروع کر دی میں نے بھی لوڑے کو دھیرے دھیرے باہر کھینچا اور پورا لوڑا باہر آنے سے پہلے ہی دوبار اس کو اندر کی جانب دھکیل دیا ۔۔۔۔۔۔ ثنا کے مونہہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی ” ہائے میری چوت ” میرا لوڑا ایک ہی جھٹکے میں پورے کا پورا ثنا کی پھدی میں فکس ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثنا نے کہا پاپا آپ کا لن بہت ظالم ہے ۔۔۔۔۔ اس سے تو میری پھدی پھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا میری جان میرا لوڑا موٹا نہیں ہے تمہاری چوت ہی بہت ٹائٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک بات سے حیرانی ہو رہی تھی کہ ثنا کی چوت سے خون کیوں نہیں نکلا اگر یہ پہلی بار مجھ سے چوت مروا رہی ہے تو اس کی چوت سے خون ضرور نکلنا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔۔۔ شاید پہلے ہی کوئی اور اسکا کنوارپن کا پردہ پھاڑ چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بس یہی سوچتے ہوئے میں نے دھیرے دھیرے ثنا کی چوت میں گھسے لگانے شروع کر دئے ۔۔۔۔۔۔۔ میں دھیرے دھیرے گھسے لگا رہا تھا اور ثنا چدائی کے مزے میں سسکاریاں بھر رہی تھی ۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ ہائے ۔۔۔۔۔ میری چوت ۔۔۔۔ دھیرے دھیرے چودو ۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔۔۔ میری چوت پھٹ رہی ہے ۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔ پلیز پاپا دھیرے چودو ۔۔۔۔۔ میری پھدی پھٹ رہی ہے ۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔ اوئی اوئی ۔۔۔۔ آہ آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے مونہہ سے ایسی سیکسی اور گندی گندی سسکاریاں سن کر میرے اندر اور بھی آگ لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اتنے میں پیچھے سے میری بنڈ پر میری بیوی نے تھپڑ مار کے کہا نامرد ایسے چودتے ہیں کیا بیٹی کو چیخیں نکلوا اس کتیا کی
بیوی کا طعنہ سن کے میں نے اپنے گھسوں کی رفتار بڑھا دی اور زور زور سے پھدی پر گھسے مارنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دس منٹ کی اس چدائی نے ہم دونوں کو پسینے میں شرابور کر دیا تھا میرا لوڑا کس کس کے ثنا کو چود رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں اپنے لوڑے کو ثنا کی چوت سے نکالتا اور پھر سے ایک دم اس کو چوت میں گھسیڑ دیتا جس کی وجہ سے ثنا کی چوت دو بار پانی چھوڑ چکی تھی اس کی چوت سے پچک پچک کی آوازیں آ رہی تھیں ثنا کی چوت اتنی ٹائٹ اور جسم اتنا سیکسی تھا کہ 15 منٹ کی چدائی کے بعد ہی مجھے لگا کہ میرا لوڑا ڈسچارج ہونے والا ہے۔۔۔۔۔ میں نے لوڑے کو ثنا کی چوت سے باہر نکال لیا اور میں نے ثنا کو ڈوگی سٹائل میں (کتیا بننے کو کہا ) ہونے کو کہا ۔۔۔۔۔ وہ اٹھی اور صوفے پر اسطرح گھوڑی بن گئی کہ میں زمین پر کھڑا ہو کر اس کو چود سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
میری بیوی نے کہا دیکھو تو بیٹی کیسے اپنے سگے باپ کے لوڑے کے لیے کتیا بنی ہے
اصلی حرامن کی نشانی یہی ہے کہ کتیا بن کے لوڑا لے
میری بچی کی گانڈ اور رانیں تو دیکھو کیسی مست ہے میا خلیفہ کو پیچھے چھوڑ دے
بڑا مزہ آتا ہے جب اس رنڈی پر کوئی چڑھتا ہے
بیٹی نے ماں کی باتین سن کے اس کی طرف مڑ کے کہا
چپ کر کنجری تو بھی پاپا سے چھپ دادا ابو کے سامنے کتیا بن کے بنڈ مرواتی ہے
مجھے اپنی بیوی اور بیٹی کی ایک دوسرے کو گالیاں بڑا مزہ دے رہی تھی
میں نے پہلے ڈوگی سٹائل میں ہی بیٹی کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا جو کہ میرے لن اور اسکی چوت کے پانی سے چکنی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ میں نے اسکی چوت کو چاٹ کر خوب صاف کیا اور پھر اسکی گول مٹول چھوٹی سی گانڈ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لوڑے کو اس کی چوت کے مونہہ پر رکھا ہی تھا کہ ثنا نے پیچھے کو ایک گھسا مارا جسکی وجہ سے میرا پورے کا پورا لوڑا ثنا کی چوت میں غرق ہو گیا اور اس کے مونہہ سے چیخ نکل گئی ۔۔۔۔۔ ہائے میں مر گئی ۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ میری چوت پھٹ گئی ۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے خود ہی دھیرے دھیرے سے گھسے لگانا شروع کر دئے۔ جب اس کے گھسوں کی رفتار کچھ کم ہوئی تو میں نے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کیا مست چدکڑ بنڈ ہے میری بیٹی کی اتنے میں آئزہ بیٹی جو کافی دیر سے میری گانڈ کی موری سے کھیل رہی تھی نے میرے ٹٹے چوسنے شروع کیے میں نےلن ثنا کی چوت میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ گھوڑی بننے کی وجہ سے اسکی چوت اور بھی ٹائٹ محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی اسطرح چدائی کرتے ہوئے 5 منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے لگا کہ کسی بھی لمحے میرا لن ثنا کی چوت میں منی اگل دے گا ۔۔۔۔۔۔ میں نے ثنا کو کہا جانی میرا لوڑا تمہاری چوت میں منی چھوڑنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا پاپا میری چوت میں فارغ مت ہونا پلیز ۔۔۔۔۔ مگر مجھ پر تو جنون سوار تھا ۔۔۔۔۔ میں زور زور سے گھسے مار رہا تھا اور کب میرے لوڑے نے ثنا کی چوت میں گرم گرم منی چھوڑ دی مجھے پتا نہیں چلا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ میں لوڑے کواس کی چوت میں ہی رکھ کر کھڑا ہو گیا اور جب ہماری حالت کچھ سنبھلی تو میں نے اپنےلوڑے کو ثنا کی چوت سے باہر نکالا اور اپنی بنیان سے اپنے لوڑے اور ثنا کی چوت کو صاف کیا اور ثنا کو اپنے سامنے کھڑا کر کے اس کو اپ نے سینے سے لگا کر اس کے ہونٹوں پر کس کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ثنا نے میرے مرجھائے لن کی طرف دیکھ کر کہا پاپا مزہ آیا
میں نے کہا بیٹی تمھاری پھدی تو جنت ہے
اتنے میں میری آئزہ بیٹی نے میرا لوڑا پکڑ کے کہا پاپا میری باری کب ہے
آئزہ کو کیسے چودا یہ کہانی پھر سہی
پھر اس کے بعد ہماری زندگی جنت بن گئی
گھر میں بیٹیاں اکثر ننگی گھومنے لگی
رات کو سب ایک بیڈ میں ننگے سوتے ہیں
میرا جس کو دل چاہتا ہے کتیا بنا کے چود دیتا ہوں.
ختم شد.
394 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
خوف و شرمندگی کی ایک رات
زندگی کے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو آپ کسی کو بتا نہیں سکتے نہ ہی دہرا سکتے ہیں لیکن ان رازوں کے ساتھ جینا بھی مشکل ہو جاتا ہے. انسان کا دل کرتا ہے کہ وہ کسی وہ سب بتاے جو اس پر گزری ہے لیکن کوئی اس کو اس سب پر جج نہ کرے. ایسا ہی ایک واقعہ مجھ ایک دوست نے یہاں سنایا اور اس کی خواہش تھی کہ میں اس کو سب کے لیے بیان کروں… آگے اپ خود پڑھ لیں
یہ واقعہ آج سے بارہ سال قبل میرے ساتھ پیش آیا. میرا نام یاسر ہے اور یہ واقعہ صرف میں اپنے دماغ سے بوجھ اتارنے کے لیے شئر کر رہا ہوں. آپ لوگ اس پر کیا رائے رکھتے ہیں وہ آپ کی اپنی مرضی.
Tumblr media
دسمبر دو ہزار سات کی اس شام اور رات کا واقعہ ہے جب دہشتگردوں نے بے نظیر کو شہید کر دیا. آنا فاناً ہمارے شہر میں مظاہرے اور توڑ پھوڑ شروع ہو گئی میری بہن صوفیہ ایک کمپنی میں مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں جاب کرتی تھی اس کا فون آیا کہ کمپنی کی گاڑیاں مظاہروں کی وجہ سے نہیں نکل پا رہی اور تم مجھے آ کر لے جاو. میں نے گھر میں بتایا اور فوراً بائیک لے کر نکل گیا تا کہ جلدی سے صوفیہ کو لے کر واپس آ سکوں. پورے راستے میں جگہ جگہ روڈ بلاک تھی کئی جگہ پر گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگی ہوئی تھی. اور ہر طرف سے مظاہرین آ رہے تھے.
خیر میں بیس سے پچیس منٹ میں وہاں پہنچ گیا اور صوفیہ کے آفس گارڈ کو بتایا کہ اس کو بلا دے. تھوڑی دیر میں صوفیہ آ گئی اور پوچھنے لگی کہ راستے کھلے ہیں میں نے بتایا کہ کافی جگہ سے بند ہیں لیکن بائیک کی وجہ سے نکل آیا میں. خیر ہم نے واپسی کاسفر شروع کیا لیکن اب مظاہرے اور شدید ہو چکے تھے مظاہرین گاڑیوں اور بایکس سے لوگوں کو اتار اتار کر توڑ رہے تھے… اور اندھیرے وغیرہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کے ساتھ نازیبا حرکات اور بدتمیزی بھی کر رہے تھے جس کو دیکھ کر میں کافی خوفزدہ ہو گیا اور صوفیہ کو کہا کہ ہمیں کسی اور راستے سے نکلنا چاہیے. میں نے ایک کچی ابادی کی طرف سے کافی لمبا راستہ لیا تا کہ شہر کے مرکزی علاقے سے ہٹ کر ہم اپنے گھر کی طرف جا سکیں.. یہ راستہ کچا تھا لیکن اس پر کوئی گڑ بڑ نہیں تھی ہم کچی آبادی کے ساتھ ساتھ سے ہوتے ہوئے کافی آگے نکل آئے اور ایک نالے کے ساتھ سے راستہ نہ ہونے کی وجہ سے بائک سے اتر کر نالے کو کراس کیا اور پار چڑھ گئے. یہ علاقہ بھی ابھی غیر اباد تھا کسی نئ ہاؤسنگ کالونی کا اکا دکا گھر بنے تھے. جب ہم نالے کو کراس کر کے ادھر پہنچے تو آگے ایک پچیس چھبیس سال کا لڑکا ہمیں کہنے لگا کہ آپ لوگ ادھر سے نہ جائیں آگے راستہ بند ہے اور آپ لوگوں کے لیے مشکل ہو گی.. میں نے اسے بتایا کہ ہم پہلے ہی اس وجہ سے اتنا لمبا راستہ لے کر آ رہے ہیں. اس نے کہا کہ آپ کی مرضی ہے لیکن آپ کے ساتھ لیڈی بھی ہیں تو آپ کے لیے مسئلہ ہو سکتا ہے. پھر اس نے کہا کہ آپ لوگ یہاں رک جائیں اور رات تک جب حالات ٹھیک ہو جائیں تو نکل جائیں.. میں نے کہا کہ اس ویرانے میں رکنا بھی تو ممکن نہیں. اس نے کہا کہ آپ لوگ ہمارے گھر میں رک سکتے ہیں میری والدہ گھر پر ہیں آپ لوگ اگر بھروسہ کر سکتے ہیں تو میرے گھر چلے چلیں. اس کا گھر اس گلی میں نکڑ پر تھا… میں نے صوفیہ سے پوچھا تو اس نے بھی کہا کہ کچھ انتظار کر کے چلے جاتے ہیں.. خیر ہم اس اجنبی لڑکے کے ساتھ اس کے گھر چل پڑے. گھر جا کر اس نے بائیک بھی اندر کھڑا کروا دیا کہ باہر سے کوئی نقصان نہ ہوہمیں اندر کمرے میں لا کراپنی والدہ کو آواز دینے لگا…. پھر کہنے لگا کہ شاید اس کی والدہ نزدیک ہی ایک گھر میں گئی ہوئی وہ ان کو بلا کر لاتا ہے اور ساتھ ہی اس نےکہا کہ آپ لوگ اپنے گھر فون کر کے بتا دو. بد قسمتی سے ہمارے فون کی کوریج نہیں تھی پھر اس نے اپنے فون سے ہی کہا کہ ملا کر بتا دو. میں نے امی کو فون پر بتایا کہ اس طرح ہم ابھی ایک گھر میں ہیں اور حالات ٹھیک ہونے پر آ جاییں گے. وہ بھی پریشان ہو گئیں امی کو بتایا کہ ایک فیملی کے ساتھ ہیں تو وہ کچھ بہتر ہوئیں. خیر اس لڑکے نے کہا کہ وہ ابھی اپنی والدہ کو بلا کر لاتا ہے اور باہر چلا گیا کمرے میں ایک بیڈ اور ایک ٹی وی تھا اس کے علاوہ کرسی اور میز اور ایک صوفے کا حصہ تھا… دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے یہاں کوئی اکیلا ہی رہتا ہے. لڑکے کو گئے ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی اورگیٹ بھی آگے سے بند تھا… ہم نے اندر سے آواز دینے کی کوشش کی لیکن وہاں کوئی سننے والا ہوتا تو باہر سے کھولتا.. اب ہمیں تھوڑی پریشانی ہونے لگی تھی.. تھوڑی دیر میں بائک کی آواز آئی اور گیٹ کھلنے کی تو ہماری جان میں جان آئی لیکن جب اس لڑکے کے ساتھ اس کی ماں نہیں بلکہ اس کی عمر کا ایک اور مسٹنڈا تھا جس نے آتے ہی صوفیہ کو ایسے دیکھا کہ مجھے سب پتہ چل گیا کہ ہم نے کتنی بڑی غلطی کر دی ہے… اس نے صوفیہ کو دیکھتے ہی کہا کہ یار بھی مست پیس ہے. صوفیہ مارکیٹنگ میں جاب کرنے کی وجہ سے اس کا لباس وغیرہ واقعی بہت اچھا ہوتا تھا. دوپٹہ سر پر نہیں لیتی تھی لیکن اس کو دیکھ کر صوفیہ نے اپنا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کی اور اس نے نہایت بازاری انداز میں صوفیہ کا دوپٹہ کھینچ کر کہا کہ ارے ابھی تو بہت کچھ دیکھنا ہے تمہارا… میں نے غصے سے اٹھ کر اس مسٹنڈے کو مارنا چاہا تو اس نے رکھ کر ایک چپیڑ مجھے ایسی لگای کہ میں کئی فٹ دور جا کر گرا.. خیر بہن کو اپنی نظروں کے سامنے تو ایسے نہیں دیکھ سکتا تھا تو میں نے دوبارہ اٹھ کر ان دونوں لڑکوں کے ساتھ لڑنے کی کوشش کی.. دوسرے لڑکے نے پتہ نہیں کہاں سے پسٹل نکال کر میری ساتھ لگایا اور اپنے ساتھی کو کہنے لگا کہ پہلے اس کو مار کر پھینک آتے ہیں… یہ سنتے ہی صوفیہ ان سے منتیں کرنے لگی اور رونے لگی کہ میرے بھائی کو کچھ نہیں کہنا… پسٹل دیکھ کر میں بھی ڈر گیا… خیر انہوں نے کہا کہ اب اگر میں نےکوی ایسی حرکت کی تو وہ مجھے گولی مار دیں گے انہوں نے مجھے کرسی پر باندھ دیا اور اب وہ صوفیہ کو کھل کر چھیڑ رہے تھے.. کبھی گشتی کبھی رنڈی کہ کر اس کے جسم کے ایک ایک حصے کو ہاتھ لگا رہے تھے جس کودیکھ کر میرا دل کر رہا تھاکہ زمین پھٹ جاے اور میں اس میں دفن ہو جاؤں…صوفیہ کا خوف کےمارے برا حال تھا دسمبر کے باوجود اس کو پسینہ آیا ہوا تھا اور اس کی قمیض پیچھے سے کمر کے ساتھ چپکی اور بغلوں سے گیلی ہو رہی تھی.
————اختتام حصہ اول - - - - - - - -
200 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
Hazrat Muhamad or hazrat zainab ka nikh
حضرت زینب  بنت اے جحش اور انکی ماں امامہ بنت عبدالمطلب یعنی حضرت محمد کی سگی بہن کی بیٹی تھیں انکی شادی حضرت زید رضی اللہ عنہ (حضرت زید ایک غلام تھے جو حضرت خدیجہ نے حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم وہ تحفہ کے تور پے دیا تھا اور آپ نے اسے منہ بولا بیٹا ببا لیا اور وہ آپ کے گھر ہی رہتے بھی تھے) سے اللہ کی طرف سے طے کی گئی تھی لیکن کیونکہ حضرت زید غلام تھے اس لیے زینب نے ان سے اپنی شادی قبول نہیں کی اور ان کو کبھی مباشرت بھی نہیں کرنے دی.. لیکن کیونکہ وہ ایک سید زادی ہاشمی خاندان سے تعلق رکھنے والے تھی اس لیے ان کی شرمگاہ میں ہر وقت ہی شہوت رہتی تھی.. وہ ہمارے نبی سے شادی کرنا چاہتی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ایک نبی میں اللہ نے چالیس مردوں کی طاقت رکھی اور میری شہوانی شرمگاہ کو صرف ایک نبی ٹھنڈا کر سکتا نہ کے ایک غلام. لیکن اب صرف وہ ان کے عضو تناسل کو سوچ کر مشت زنی کرتیں تھیں.اکثر کسرت اے شہوت کی وجہ سے وہ زید کو گالیاں بھی دے لیتی تھیں اور شہوت کے وقت نماز میں بھی وہ شرمگاہ رگڑتیں اور کہتیں آہ اللہ مجھے محمد کا لن نصیب فرما . انہوں نے زید کو بھی بتا دیا تھا کہ وہ صرف نبی کا عضو مبارک ہی لیں گی. ایک دن زید نے زینب سے کہا کہ آج جب حضور گھر آئیں گے تو میں غائب ہو جاؤں گا آپ انہیں اپنا پاک جسم دکھائے آپکی خواہش پوری ہو جائے گی زید اپنے منصوبے کے مطابق حضور کے آنے کے وقت گھر سے چلے گئے. حضرت زینب نے ایک جالی دار کپڑے سے اپنے جسم کو ایسے ڈھانپ لیا کہ ان کے پستان و شرمگاہ چھپنے کی بجائے اور زیادہ شہوت انگیز نظر آئیں اور مسہری پر لیٹ گئی.. آج شہوت سے ان کی شرمگاہ سے مسلسل پانی نکل رہا تھا اور وہ فل چپچپی ہو رہی تھی.. انہوں نے جب آہٹ سنی تو وہ سمجھ گئیں کہ حضور آ گئے ہیں اور انہوں نے اپنی شرمگاہ میں انگلیاں ڈال کر آنکھیں بند کر کہ مشت زنی شروع کر دی.. وہ ساتھ ساتھ حضور کا نام لے لے کر آہیں بھر رہی تھیں… اور کہ رہی تھی کہ محمد میری شرمگاہ میں دخول کریں آہ محمد میں آپکی دیوانی اور آپ نے مجھے اس غلام کے حوالے کر دیا .. اپنا نورانی للا میری شرمگاہ میں ڈال کر اس کو نور نبوت سے منور کریں. حضور کی جب نظر پڑی تو انہوں نے حضرت زینب کی گوری ٹانگوں کے بیچ شرمگاہ میں جاتی ہوئی انگلیاں دیکھیں…
تو حضور کی زبان سے باختیار سبحان اللہ نکلا. اور حضور نے باہر جھانک کر دیکھا کہ کہیں حضرت زاہد یعنی انکے منہ بولے بیٹے تو نہیں. وہ تو پہلے ہی یہی چاہتے تھے کہ آپ حضرت زینب کی خواہش پوری کردیں.. حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہہ بند میں ہاتھ ڈالا اور اپنا مہر نبوت والا لن مسلنے لگے.. انکے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شرمگاہ سے بہتا دریا دیکھ کے برداشت نہیں ہورہا تھا. آپ نے ایک بار اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور پھر انہیں اور وہ آیت یاد آئ کہ اے میرے بندے تم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے. تب آپکو سمجھ آئی کہ اس واقعے میں اللہ کی بھی یہی رضا ہے آپ نے اپنی تہہ بند کھول کے پھینک دی اور ہلکی سرسراہٹ کی کہ حضرت زینب کو پتا چل جائے کہ اللہ نے انکی دعا قبول فرما لی ہے..آہٹ سنتے ہی حضرت زینب نے آنکھ کھولی تو حضور صلعم کے عضو تناسل پر نظر پڑی تو سبحان اللہ کہا اور آسمان کی طرف دیکھ کہ اللہ کا شکریہ ادا کیا.. تب حضور نے فرمایا اے زینب اللہ نےمیرا اور تمہارا نکاح آسمان پے پڑھا دیا ہے. پھر آپنے حضرت زینب کے تن پے جو معمولی لباس تھا وہ بھی کھینچ کے پھاڑ دیا اور آپکو فل ننگا کر دیا.. حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا آپکے کے لن لینے کے لیے میں نے منت مانگی تھی کہ چالیس دن تک کوئی کپڑا نہیں پہنو گی اور نماز بھی ننگی ہی ادا کروں گی تو حضور نے کہا کہ تم اپنی منت پوری کرنا. پھر حضور نے آپکی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا اور گھور کیا تو آپنے کہا کہ زینب کیا تم نے ابھی تک زاہد کے ساتھ ہمبستری نہیں کی. تو حضرت زینب نے کہا کہ ایک غلام کیسے ایک سید زادی کے ساتھ ہمبستری کر سکتا ہے. تب حضور اور بھی خوش ہوے کہ سیل چوت مل گئی.. پھر آپ نے اپنا عضو تناسل انکی شرمگاہ پر پھیرا انکی شرمگاہ تو چکنا پانی بہہ بہہ کے چکنی ہوئی پڑی تھی تب حضور نے اپنا مہر نبوت اندر ڈالا اور کہا کہ آج آسمانوں پے تمہاری اور میری شادی کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں. خوب چدائی کے بعد آپ نے اپنی منی انکی شرمگاہ کے اندر نکالی اور لن انکی گانڈ پے مل کے صاف کیا اور کپڑے پہن کے باہر چلے گئے صبح حضرت زینب نے اپنے نکاح کی خبر پورے مدینے کی گلیوں میں ننگی ہو کہ دی کیونکہ انہوں نے چالیس دن کی منت مانی تھی..
268 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
واقعہ کربلا، ایک تحقیقی جائزہ! قسط نمبر 4
ایک طرف تو حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سجدے میں گئیں اور دوسری طرف دروازہ کھلا اور امام حسین علیہ السلام کمرے میں داخل ہوئے۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے یزید آپ کی ہمشیرہ کے اوپر سجدے کیلئے جھکا۔ تہمد سے باہر نکلا ہوا عضو تناسل بھی امام حسین علیہ السلام کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ سجدے میں جانے کی وجہ سے عضو تناسل کا ملاپ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے جسم کے جس حصے سے ہوا وہ اندام نہانی کا داخلی حصہ تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے بدن پر کپڑوں کی موجودگی کی وجہ سے داخل تو نہ ہو پایا لیکن اس کی وجہ سے یزید بہت غیر آرام دہ حالت میں آ گیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام سکتے کی سی حالت میں یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ایک مرتبہ تو دل میں آیا کہ ابھی تلوار لا کر گردن اڑا دیں یزید کی لیکن یہ سوچ محض ایک لمحے کیلئے ہی تھی۔ آخر کو آپ کی رگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خون تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور رحمدلی تو پورے جہان میں مشہور تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دوران تبلیغ کفار کے مظالم کی کوئی حد نہ تھی لیکن کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی حیثیت میں کسی سے بدلہ لیا ہو۔ امام حسین علیہ السلام کی سوچ پر بھی رحمدلی کے جذبات غالب آ گئے۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے جو منظر تھا، اگرچہ وہ آپ کیلئے تکلیف دہ تھا لیکن یہ عمل چونکہ نماز کے اندر تھا اس لئے تکلیف دہ ہونے کے باوجود قابل احترام بھی تھا۔
نماز کی اہمیت کا اندازہ کیجئے۔ اگر آج کل کے کسی نوجوان کے سامنے ایسا منظر ہو کہ کوئی اجنبی اس کی ہمشیرہ کو چھوئے تو لڑائی ایک ناگزیر امر ہے۔ لڑائی بھی ایسی کہ ہاتھا پائی اور خون خرابا بھی عین ممکن ہے۔ ایسے میں ہم تو نماز کا لحاظ بھی نہیں کریں گے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہم لوگ نماز کو سمجھ ہی نہیں سکے تو کیا یہ غلط ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ ہم لوگ نماز کے نام پر ٹکریں مارتے ہیں تو کیا یہ غلط ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ نماز میں ہمیں کوئی سرور نہیں آتا تو کیا یہ غلط ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ نماز میں خشوع و خضوع تو دور کی بات ہے، ہمارے دل سے دنیاوی خیالات ہی نہیں نکلتے تو کیا یہ غلط ہے؟ یہ سب سچ ہے۔ ایک کروا سچ۔ نماز تو وہ تھی جو دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پڑھی جاتی تھی۔ ایسی نماز کہ جس پر فرشتے بھی رشک کرتے تھے۔ نماز کا اتنا احترام تھا اسلام کے اولین دور کے مسلمانوں میں کہ نہ تو نماز قضا کرتے تھے نہ ہی کسی کی نماز میں خلل ڈالتے تھے۔ ایسا اس لئے تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تربیت خود فرمائی تھی۔ ان کے دلوں اور اذہان میں اللہ کا تصور نقش کر دیا تھا۔ آج ہمارے دل میں اللہ کا تصور ہے ہی نہیں۔ محض دکھاوے کے مسلمان ہیں ہم۔ اگر آپ لوگ جاننا چاہتے کہ نماز میں خشوع و خضوع کیسے پیدا کیا جائے تو اس کیلئے میری اس موضوع پر تحریر ملاحظہ فرمائیں۔
ایک طرف تو حضرت امام حسین علیہ السلام کے سامنے یہ منظر تھا کہ یزید آپ کی ہمشیرہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے اوپر سجدہ ریز تھا دوسری طرف آپ کے ذہن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز کے بارے میں فرمودات گردش کر رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اب آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اس کی جگہ اب پیار محبت کے جذبات نے لے لی تھی۔ اس تبدیلی میں کوئی بہت زیادہ وقت صرف نہیں ہوا تھا بلکہ یہ لمحات کی بات تھی۔ یہ بتانا میں ضروری سمجھتی ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کو سخت نا پسند فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ غصہ شیطان کی جانب سے ہوتا ہے اور اگر غصہ آئے تو وضو کر لینا چاہیے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر کھڑے ہوئے غصہ آئے تو بیٹھ جاؤ، بیٹھے ہوئے غصہ آئے تو لیٹ جاؤ اور اگر لیٹے ہوئے آئے تو استغفار پڑھو۔ جس قسم کی صورتحال کا سامنا حضور صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا تھا وہ اس صورتحال سے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے سامنے تھی، اس سے کہیں ذیادہ شدید تھیں۔ نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم پر کفار نے مظالم کے پہاڑ توڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے ساتھ جو کچھ کفار نے کیا وہ ناقابل یقین حد تک ظلم تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا اور غصہ نہ کیا۔ یہی وہ سبق تھا جو امام حسین علیہ السلام نے یاد رکھا اور ہم نے بھلا دیا۔
میں تو یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں محسوس کرتی کہ آج جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کشمیر میں، فلسطین میں اور برما اور دیگر ممالک میں۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ خندہ پیشانی سے صبر کیا جائے۔ بجائے ان لوگوں کو گالیاں دینے کے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اللہ چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی غیر مسلم فوجی کو ہدایت کی روشنی مل جائے۔ کسی غیر مسلم کا اسلام قبول کرنا کوئی معمولی عمل نہیں۔ اگر میں حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی روشنی میں تشریح کروں تو حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کی مسلمان خواتین کی عزت لٹ جائے اور اس کی وجہ سے کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا ہر گز نہیں بلکہ بہت معمولی قیمت ہے۔
بہرحال، موضوع سے ہٹنے پر معذرت۔ واپس لوٹتی ہوں۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سجدے میں تھیں۔ سبحان ربی الاعلی پڑھ تو رہی تھیں لیکن دھیان یزید کے عضو تناسل کی جانب تھا کیونکہ عضو تناسل کا دباؤ آپ کو اندام نہانی پر محسوس ہو رہا تھا۔ اگرچہ کپڑا درمیان میں ہونے کے سبب جسمانی ملاپ نہ ہوا تھا لیکن جذبات میں اس قدر طلاطم پیدا ہو گیا تھا کہ اب اندام نہانی اندر سے مکمل تر تھی اور بے رنگ سا مادہ اندام نہانی کے باہری حصوں پر بہنے لگا تھا۔ اسی کے سبب کپڑا بھی گیلا ہو گیا تھا۔ نماز سے پہلے جب حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے یزید کے عضو تناسل کو بوسہ دیا اور چوسا تھا اور اس میں سے نکلنے والے مادے کو نوش فرمایا تھا تو آپ رضی اللہ عنہا کو اس مادے میں سے خوشبو محسوس ہوئی تھی۔ اسی خوشبو سے آپ رضی اللہ عنہا میں سرور کی سی کیفیت میں آ گئی تھیں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت پاک صاف ہیں۔ اگرچہ انسان ہیں اور ہماری طرح ان کی جسمانی ضروریات بھی ہیں، صفائی ستھرائی کا خیال بھی وہ ہماری طرح ہی رکھتے تھے بلکہ ہم سے ذیادہ ہی، لیکن ان پاکیزہ افراد کے پاک اجسام سے ہمہ وقت ایک بھینی بھینی خوشبو، ایک مہک آتی رہتی تھی۔ یہ مہک آج کل کے پرفیوم سے کہیں ذیادہ اطمینان بخش تھی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی جب تک اندر سے تر تھی، تب تک تو صرف انہیں ہی اس بات کا علم تھا لیکن جب یہ مادہ اندام نہانی سے باہر نکلا تو کپڑا تو تر ہوا ہی، اس کا ایک اثر اور بھی ہوا۔ وہ اثر یہ تھا کہ کمرے میں ایک خوشگوار تیز مہک پھیل گئی۔ یزید کو کپڑے کے تر ہونے کا احساس تو ہو ہی گیا تھا کیونکہ ان کا عضو تناسل کپڑے کے ساتھ مس تھا بلکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی کے ساتھ ہی مس تھا۔ کپڑا کوئی بہت موٹا نہ تھا۔ عرب کی گرمی مشہور ہے۔ گرم کپڑے تو کوئی بھی نہ پہنتا تھا۔ لباس سب ہی لوگ باریک پسند کرتے تھے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا چوغہ بھی باریک سا ہی تھا۔ کپڑے کا رنگ بھی سفید تھا۔ گیلا ہونے پر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کپڑا بے رنگ ہو۔ اندام نہانی سے نکلنے والے مادے کے سبب جہاں ایک خوشبو کمرے میں رچ گئی تھی وہیں اس کی وجہ سے یزید کے جذبات بھی سہ آتشہ ہو گئے تھے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی کمر مبارک پر سر رکھے یزید کی زبان سے سبحان ربی الاعلی متواتر نکل رہا تھا۔ حکم تو یہ ہے کہ سبحان ربی الاعلی تین مرتبہ پڑھا جائے ہر سجدے میں لیکن یزید اور زینب بنت علی رضی اللہ عنہا دونوں ہی ایسی حالت میں تھے کہ انہیں گنتی کا ہوش ہی نہ تھا۔ یزید کے عضو تناسل کا دباؤ بھی اب اندام نہانی پر بڑھتا جا رہا تھا۔
افوہ۔ یہ بتانا تو میں بھول ہی گئی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام جب کمرے میں داخل ہوئے تھے تب تک سجدے کا آغاز تو ہو چکا تھا لیکن کپڑا گیلا نہ ہوا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کو یزید کا عضو تناسل تہمد سے نکل کر ان کی ہمشیرہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی کو چھوتا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔ ان کے غصے کی وجہ بھی یہ عضو تناسل ہی بنا تھا۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ غصہ اس بات پر ہے کہ عضو تناسل انکی ہمشیرہ کے بدن سے مس ہوا تھا خواہ کپڑوں کے اوپر سے ہی لیکن کچھ علما نے یہ بھی قلمبند کیا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے غصے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یزید کا عضو تناسل دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے لاشعوری طور پر اس کا اپنے عضو تناسل سے موازنہ کیا تھا اور اپنا عضو تناسل لمبائی موٹائی اور ہئیت میں اس سے کمتر پایا تھا۔ اگرچہ یہ روایات تعداد میں ہیں لیکن قرین قیاس معلوم ہوتی ہیں۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اپنے سے بہتر انسان کو دیکھ کر حسد یا رشک ہوتا ہی ہوتا ہے۔ غصہ تو جیسے تیسے رفع ہو گیا تھا لیکن اب اس کی جگہ محبت نے لے لی تھی۔ امام حسین علیہ السلام کو اپنی ہمشیرہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا پر فخر بھی ہو رہا تھا کہ باوجود اپنے محبوب کی موجودگی کے، نماز قضا نہ ہونے دی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ نماز بھی با جماعت ادا کرنے کو ترجیح دی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن رکھا تھا کہ جہاں دو بالغ مرد اور عورت تنہا ہوں تو وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر تو ہر گز شک نہ تھا لیکن یہ سوچ کر انکا سینہ مزید چوڑا ہو گیا کہ انکی ہمشیرہ نے شیطان کے ورغلانے کے باوجود نماز قائم کی۔ جب ان کا دل رحم اور محبت کے جذبات سے لبریز ہوا تو یہ بات بھی ان کے ذہن میں آئی کہ یہ یقیناً اللہ کی جانب سے انکے لئے موقع ہے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی امامت میں نماز ادا کر لیں۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی نماز میں امامت کا ثواب اور انعام کا امام حسین علیہ السلام کو اچھی طرح اندازہ تھا بلکہ یقین تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے کافی عرصے سے نماز کی امامت نہیں کی تھی۔ آج جب امام حسین علیہ السلام نے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو امامت کرتے دیکھ پایا تو غصہ رفع ہوتے ہی ایک لمحہ ضائع کئے بغیر صف میں کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا اور نماز میں شامل ہو گئے۔ چونکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سجدے میں تھیں اس لئے امام حسین علیہ السلام بھی سجدے میں ہی چلے گئے۔ سجدے میں جا کر امام حسین علیہ السلام نے تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی پڑھا اور سجدے سے اٹھنے کیلئے امام کی آواز کے منتظر ہو گئے۔ منتظر ہو تو گئے لیکن منتظر ہی رہے۔ سجدہ تھا کہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا۔ امام حسین علیہ السلام سجدے کی حالت میں ہی یہ سوچ رہے تھے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سجدے میں سے اٹھ کیوں نہیں رہیں۔ ابھی وہ یہ سوچ یہ رہے تھے کہ انہیں کمرے میں موجود خوشبو میں یکلخت اضافہ سا ہو گیا۔ وجہ تو امام حسین علیہ السلام کو معلوم نہیں تھی لیکن یہ خوشبو ان کے نتھنوں کو بہت بھلی محسوس ہوئی۔ امام حسین علیہ السلام خوشبو میں مگن سجدے میں سبحان ربی الاعلی کا ورد کرنے لگے۔ یہ خوشبو تو میں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی سے نکلنے والے مادے کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام مسلسل ورد کر رہے تھے کہ اچانک ایک ایسی آواز کانوں میں پڑی کہ جیسے کوئی کپڑا پھٹتا ہے۔
کپڑا تو بہرحال کپڑا تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی سے نکلنے والا مادہ کوئی تیزاب تو نہ تھا کہ کپڑے کو گلا دیتا۔ تو پھر کپڑا کیسے پھٹا؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب نہ تو حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے پاس تھا نہ ہی یزید کے پاس۔ جواب تو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھی نہ تھا لیکن امام حسین علیہ السلام کو تو پتہ بھی نہ تھا یہ کپڑا جو پھٹا تھا وہ کسی اور کا نہیں بلکہ انکی ہمشیرہ کا تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے پاس اگرچہ بہت زیادہ کپڑے نہیں تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے سادگی کا درس دیا تھا ہمیشہ لیکن یہ کپڑے کوئی بہت زیادہ پرانے نہیں تھے بلکہ جو سوٹ آپ نے پہن رکھا تھا وہ تو گزشتہ عید پر ہی خود سیا تھا۔ عید کو گزرے ابھی ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا۔ یاد رہے کہ یہ محرم کا مہینہ تھا اور دس تاریخ تھی۔ ایسے میں کپڑے کا پھٹنا حیران کن تو تھا۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ کپڑا بھی نیا تھا، باریک ضرور تھا لیکن مضبوط تھا، اس کے باوجود پھٹا کیوں؟ میرے علم کے مطابق اور مختلف تاریخی روایات کی روشنی میں، یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کپڑے کا پھٹنا منشائے الٰہی تھی۔ میں نے تو اس موضوع پر جتنا سوچا ہے میرا ایمان اس بات پر اتنا ہی مضبوط ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کئے کہ یزید اور حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے جائیں۔ کپڑے کے پھٹنے کو معجزہ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ معجزہ اللہ کی جانب سے ہی ہوتا ہے اور عقل سے بالاتر ہوتا ہے۔ یہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا۔
بہرکیف، کپڑا پھٹا اور پھٹتے ہی یزید کا عضو تناسل تیزی سے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی سے ٹکرایا۔ کوشش تو یہ ہی تھی کہ اندر داخل ہو جاتا لیکن حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی کا داخلی حصہ ایسا تنگ تھا کہ اس میں تو کسی باریک چیز کا داخلہ بھی کافی مشکل تھا۔ یہ بات نہیں تھی کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اس میں کوئی چیز داخل کر کے چیک کی ہو، دراصل اس کی بناوٹ سے ہی ایسا معلوم ہوتا تھا۔ اندام نہانی کے باہری ہونٹ ہلکے گلابی رنگ کے تھے لیکن اندام نہانی سے نکلتے مادے کے سبب ان کا رنگ گہرا ہو گیا تھا۔ ان ہونٹوں کے ارد گرد اور اوپر ناف سے نیچے چھوٹے چھوٹے سنہری رنگ کے بال اگے ہوئے تھے۔ بال بہت چھوٹے بھی نہیں تھے اور بہت لمبے بھی نہیں تھے۔ بالوں میں گھری اندام نہانی کو پہلی نظر دیکھ کر بے اختیار منہ سے سبحان اللہ نکلتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ یہ خوبصورتی کی انتہا تھی۔ ذہن میں ایسا گمان ہوتا تھا کہ اگر اندام نہانی میں ایسا حسن ہے تو جو اس اندام نہانی کی مالکن ہے اس کا حسن تو ملکوتی ہی ہو گا۔ بات بھی ایسی ہی تھی۔ ظاہر ہے جب والدہ خاتون جنت ہوں تو پھر بیٹی کا حسن ملکوتی ہی ہو گا نا۔
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا بالکل کنواری تھیں۔ اب تک آپ کو یہی معلوم تھا کہ شرمگاہ کا مقصد حوائج ضروری سے فارغ ہونا ہے۔ یہ اور بات تھی کہ جب آپ پیشاب کرنے کے بعد اندام نہانی کو پانی سے دھویا کرتی تھیں تو ہاتھ اندام نہانی سے چھو جاتے تھے جس سے آپ کو ایک عجیب سا احساس ہوتا تھا۔ اس احساس کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لئے تو ممکن نہیں۔ سمجھانے کیلئے اتنا بتا دوں کہ یہ احساس اس احساس سے ملتا جلتا تھا جو آپ کو یزید کا عضو تناسل تھامنے سے ہوا تھا۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بعض اوقات آپ دوران پیشاب ہی اندام نہانی کو چھو لیتی تھیں۔ کچھ پیشاب کی گرمی اور کچھ آپ کے جذبات کی گرمی، ایسے میں آپ اپنی شہادت کی انگلی کو اندام نہانی میں داخل کرنے کی کوشش کرتیں۔ انگلی کا محض اگلا حصہ ہی آپ داخل کر پاتی تھیں۔ شاید ال��ہ کو یہی منظور تھا کہ آپ کا پردہ بکارت برقرار رہے۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہو۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو بہرحال اس بات کا علم تو تب ہی ہو گیا تھا کہ شرمگاہ کا مقصد صرف پیشاب ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہے لیکن مکمل ادراک نہ ہوا تھا۔
یزید کا عضو تناسل عام مردوں سے بڑا تھا جبکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی اتنی تنگ تھی کہ کسی نا بالغ بچی کی معلوم ہوتی تھی۔ ایسے میں یزید کا عضو تناسل کا بہت چھوٹا سا حصہ اندر داخل ہو پایا۔ تقریباً آدھا انچ۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سبحان ربی الاعلی پڑھ رہی تھیں جب عضو تناسل آپ کی اندام نہانی سے مس ہوا تو بے اختیار سبحان ربی الاعلی قدرے بلند آواز میں پڑھ دیا۔ نہ صرف سبحان ربی الاعلی پڑھا بلکہ پڑھنے کے انداز میں اور آواز میں یہ بات واضح تھی کہ آپ یقیناً کسی چیز سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ امام حسین علیہ السلام جو کہ اندام نہانی کی خوشبو میں ہی مگن سبحان ربی الاعلی کا ورد کر رہے تھے، اپنی ہمشیرہ کی آواز سن کر چونکے۔ سوچنے بھی لگے کہ آخر ایسی آواز میں اور بلند آواز میں پڑھنے کا مقصد کیا ہے۔ سجدے کی طوالت پر تو پہلے ہی حیران تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے خود بھی بہت طویل نمازیں ادا کی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی لمبے لمبے سجدے کرتے دیکھا تھا لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی امامت میں سجدہ اس قدر طویل ہوا ہو۔ نماز میں ہونے کے سبب نگاہیں ادھر ادھر کرنا تو ناممکن تھا۔ اس لئے نہ تو سجدے کی طوالت کی وجہ ہی جان سکے نہ ہی حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی ذو معنی آواز میں سبحان ربی الاعلی پڑھنے کی۔ آخر کار دل کو تسلی یہ ہی سوچ کر دی کہ یقیناً حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نماز کے دوران بے انتہا سرور کی حالت میں ہیں اور وجد کی حالت میں ہونے کی وجہ سے آپ کو یہ احساس نہیں ریا کہ انکی آواز بلند ہو چکی ہے۔ امام حسین علیہ السلام تو یہ سوچ کر مطمئن ہو گئے تھے لیکن یزید قطعاً مطمئن نہیں تھے۔ آپ کا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی میں داخلے کیلئے بے چین تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو اپنی اندام نہانی میں یزید کے عضو تناسل کا دباؤ محسوس ہونے لگا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ آپ کی اندام نہانی کسی کے سامنے بے پردہ ہوئی تھی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ آپ کے بدن کو کسی ایسے مرد نے چھوا تھا جو کہ نا محرم تھا۔ ایسے میں حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے جذبات میں چڑھاؤ قدرتی تھا۔ یہ اسی چڑھاؤ کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کی اندام نہانی اندر باہر سے تر ہو گئی تھی اور اب چکناہٹ بہت بڑھ گئی تھی۔ اندام نہانی سے نکلنے والا مادہ یزید کے عضو تناسل پر بھی لگ گیا تھا جس سے اس کا اگلا حصہ چکنا ہو کر ایسے چمک رہا تھا کہ اس میں اپنا عکس دیکھا جا سکتا تھا۔
جن لوگوں نے اندام نہانی کو دیکھا ہے اور اس کا مشاہدہ کیا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی کی اندام نہانی تنگ ضرور ہوتی ہے لیکن اس کا سوراخ ایسا ہوتا ہے کہ تنگ ہونے کے باوجود عضو تناسل یا عضو تناسل سے مشابہ کسی چیز کا داخلہ ناممکن نہیں ہوتا۔ یہ سوراخ لچک دار ہوتا ہے۔ زور لگانے پر دہانہ بڑا ہو جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ میں بالغ لڑکیوں کی اندام نہانی کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔ نابالغ بچیوں میں اگرچہ یہ خصوصیت ہوتی تو ہے لیکن ان کا معاملہ قدرے مختلف ہوتا ہے۔ اس بارے میں تفصیل سے لکھوں گی جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق پر روشنی ڈالوں گی۔ فی الحال اتنا جان لیجئے کہ اندام نہانی کے دہانے کا تنگ ہونا مرد کیلئے زیادہ لطیف ہوتا ہے اور عضو تناسل ڈالنے میں اسے بے انتہا لذت محسوس ہوتی ہے۔
ایک تو اندام نہانی چکنی تھی، اوپر سے اب یزید کا عضو تناسل بھی اس مادے کی وجہ سے چکنا ہو چکا تھا۔ چکناہٹ کی وجہ سے اب عضو تناسل آہستہ آہستہ اندر جگہ بنا رہا تھا۔
ایک بات نوٹ کر لیں کہ یزید اور حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا دونوں ہی لذت مباشرت سے نا بلد تھے۔ دونوں کیلئے ہی پہلا موقع تھا۔ دونوں کو اب تک یہ بات معلوم نہیں تھی کہ مباشرت کا طریقہ کیا ہے۔ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کیلئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیا تھا۔ علامہ اقبال نے اس بارے میں شعر بھی کہا تھا:
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
میں اس شعر کی مخالفت نہیں کر رہی۔ بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر اسماعیل کو کسی انسان نے آداب فرزندی نہیں سکھائے بلکہ سکھانے والا اللہ تھا تو یہاں یزید اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو بھی آداب مباشرت سکھانے والا کوئی انسان نہیں، اللہ خود تھا۔
سکھائے کس نے زینب کو آداب مباشرت۔
ایک بار درود شریف پڑھ لیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
37 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
واقعہ کربلا، ایک تحقیقی جائزہ! قسط نمبر 2
حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنی والدہ ماجدہ سے انتہا درجے کی مشابہت رکھتی تھیں۔ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حسن کی تعریف کیا کروں۔ آپ خود ہی اندازہ کیجئے کہ جس کو نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم بذات خود خاتون جنت کا لقب عطا کریں اس کے حسن کا احاطہ الفاظ میں ناممکن ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے حوروں کی تعریف بیان فرمائی ہے اور نیک مسلمان مردوں کو بڑے سینے والی ستر یا بہتر حوریں بطور انعام دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ حوروں کی تعریف میں صرف بڑے سینے ہی نہیں بلکہ اور بھی صفت بیان فرمائی گئی ہیں۔ مختصر یہ کہ حوروں کا حسن زمین کی خواتین سے کہیں ذیادہ ہے۔ اب اگر ان حوروں پر کسی کو سردار مقرر کیا جائے تو ظاہر ہے کہ سردار کا حسن ان سے بھی زیادہ ہو گا۔ خود ہی اندازہ کر لیجیے کہ کیا شان ہے بی بی فاطمتہ الزہرا کی۔
ذکر تو حضرت زینب کا ہے کربلا کے حوالے سے لیکن میں چاہتی ہوں کہ یہ تحریر پڑھتے وقت آپ کے ذہن میں حضرت زینب بنت علی کا درست خاکہ ہو۔ چونکہ حضرت زینب اور انکی والدہ حضرت فاطمتہ الزہرا میں بہت مشابہت تھی لہذا مختصراً حضرت فاطمتہ الزہرا کا حلیہ اور صورت بیان کر دیتی ہوں۔
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا رنگ دودھیا سفید تھا۔ چہرے پر سرخی مائل سفیدی غالب تھی۔ آپ کے بالوں کا رنگ گہرا سیاہ تھا۔ بالوں کی لمبائی میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ روایات کے مطابق بال آپ کے کولہوں تک آتے تھے اور بعض روایات کے مطابق کولہوں سے بھی نیچے تک بال تھے۔ بال بے حد ریشمی تھے۔ اس زمانے میں شیمپو نہیں ہوا کرتے تھے لیکن خاتون جنت کو بھلا کسی شیمپو کی کیا ضرورت۔ اتنے ریشمی بال تھے کہ کپڑا بالوں سے پھسل پھسل جاتا تھا۔ آپ کی آنکھیں بھی سیاہی مائل تھیں۔ آنکھوں میں سرمہ لگانا آپ کا معمول تھا۔ آنکھوں میں ایسا سحر اور نشہ تھا کہ جو ایک بار دیکھ لیتا وہ دوبارہ بلکہ بار بار دیکھنے کا خواہشمند ہو جاتا تھا۔ حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ السلام خود بھی اپنی بیٹی کی بے انتہا خوبصورت آنکھوں کی تاب نہ لا پاتے تھے۔ آنکھیں ہی کیا، جسم کے ہر عضو اللہ پاک نے خصوصی توجہ سے تخلیق فرمایا تھا اور اسکی تاب لانا کسی عام انسان کیلئے تو تقریباً ناممکن ہی تھا۔ ظاہر ہے جب اللہ کے نبی کیلئے ایسے حسن کا سامنا ایک آزمائش ہو تو باقی انسان تو نبی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ایک روایت کے مطابق جب حضور صلی علیہ وآلہ وسلم معراج سے واپس تشریف لائے تو اپنی صاحبزادی کو نیند کی حالت میں بے خبر سوتے ہوئے دیکھ لیا۔ حضرت فاطمتہ الزہرا دنیا و مافیہا سے بے خبر نیند کی وادی میں تھیں۔ حضور صلی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھ کر ��ے اختیار منہ اوپر کر کے فرمایا:
یا اللہ! تو نے میں نے آسمانوں پر تیرا جلوہ دیکھا لیکن فاطمتہ الزہرا کے جلوے کے سامنے تیرا جلوہ بھی ماند ہے۔
حضرت زینب اور یزید کے درمیان خطوط اور خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ عرصہ سے جاری تھا۔ یہ ملاقاتیں ایک مشترکہ ہمدرد کے توسط سے ہوا کرتی تھیں۔ یہ مشترکہ ہمدرد حضرت زینب کی بچپن کی سہیلی تھی جس کے گھرانے کے تعلقات یزید کے قبیلے سے کافی خوشگوار تھے۔ یزید جب بھی زینب سے ملاقات کے ارادے سے مدینہ آتا تو رات کے اندھیرے میں آتا تھا تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو۔ صبح سویرے زینب کی سہیلی زینب کو پیغام پہنچا دیتی تھی۔ زینب اپنے گھر والوں سے اجازت لے کر اپنی سہیلی کے ہمراہ اس کے گھر آ جاتی جہاں یزید پہلے سے ہی اسکا منتظر ہوتا تھا۔ ایسی ہی ایک ملاقات کا احوال اس قسط میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کیونکہ یہ ملاقات ہی اس واقعے کی بنیاد بنی جس کے نتیجے میں آج تک شیعہ مسلمان ماتم کرتے ہیں اور سوگ مناتے ہیں۔
حضرت زینب کی عمر تقریباً اٹھارہ برس تھی۔ یہ واقعہ کربلا سے تقریباً اٹھائیس برس پہلے کی بات ہے۔ اٹھارہ برس کی عمر بھری جوانی کی عمر ہوتی ہے۔ جذبات میں طلاطم ہوتا ہے۔ ایسا ہی حال زینب کا تھا۔ بلوغت کی عمر تھی۔ چال میں ایسی لچک تھی جو صرف کنواری لڑکیوں کی چال میں ہوتی ہے۔ یزید سے ملاقات کو عرصہ بیت چکا تھا۔ روز رات کو یزید کی یاد میں آہیں بھرا کرتی تھی۔ تقریباً روز ہی خواب میں اسے دیکھا کرتی تھی اور رو رو کر ہر نماز میں اللہ ملاپ کی دعائیں کیا کرتی تھی۔ اللہ نے دعائیں قبول فرما لیں۔ ایک روز زینب سو کر اٹھی تو اس کی سہیلی آ گئی جس کی زبانی معلوم ہوا کہ زینب کا محبوب یزید اپنی محبت سے ملنے کیلئے آیا ہے۔ زینب نے فوراً اجازت لی اپنے بھائی حسین سے اور سہیلی کے ہمراہ چل پڑی۔ دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے اور یہ سوچ بھی آ رہی تھی کہ نہ جانے اب یزید کیسا ہو گا۔ چار برس کا عرصہ بغیر دیکھے گزارا تھا ایک دوسرے کو۔ اس لئے جذبات انتہائی شدید تھے۔
دوسری طرف یزید بھی بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ اسے اپنا بچپن یاد آ رہا تھا جب وہ اور زینب اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ بچپن میں بھی کئی بار کھیل کھیل میں یزید زینب کے حسن میں کھو جاتا تھا۔ زینب کے ہاتھوں کا لمس اسے آج بھی اپنے جسم کے حصوں پر محسوس ہوتا تھا۔ یزید اگرچہ خود بھی ایک کڑیل جوان بن چکا تھا لیکن وہ یہ سمجھتا تھا کہ جو حسن اللہ نے زینب کو عطا فرمایا ہے اس حسن کی تاب زمین پر کوئی نہیں لا سکتا۔ یزید کی یہ خواہش تھی کہ جس طرح حضرت فاطمتہ الزہرا اور علی کی شادی اللہ نے آسمانوں پر فرمائی تھی اسی طرح زینب اور اس کا بھی نکاح ہو جائے۔ خواہش تو تھی لیکن اس کے پورا ہونے پر یقین نہیں تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کے تعلقات خراب ہو چکے تھے۔
یزید عرب کے روایتی لباس یعنی تہمد اور قمیض میں ملبوس تھا۔ عربی تہمد اگر آپ نے دیکھا ہے تو آپ کو یقیناَ معلوم ہو گا کہ یہ ایک سفید رنگ کے کپڑے کا مستطیل ٹکڑا ہوتا ہے جسے مرد اپنی ناف پر یا اس سے نیچے اس طرح سے لپیٹ لیتے ہیں کہ گرہ سامنے کی جانب ہوتی ہے۔ یہ اس لئے کہ رفع حاجت کیلئے آسانی رہے۔ قمیض کی لمبائی تہمد کے آغاز تک ہی ہوتی ہے۔ جیسے آج کل شرٹ کی لمبائی ہوتی ہے۔ یزید کے چہرے پر ہلکی پھلکی داڑھی بھی تھی جیسے جوانی کے آغاز میں ہوا کرتی ہے۔ رنگت اس کی بھی صاف تھی۔ چوڑی چھاتی، بازوؤں کی مچھلیاں اور مضبوط جسم اس بات کی گواہی تھی کہ یزید نے کبھی محنت سے جی نہیں چرایا۔
بہرحال، میں اصل واقعے کی طرف آتی ہوں۔ زینب اپنی سہیلی کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئی۔ یزید جس کمرے میں تھا سہیلی نے زینب کو اشارے سے بتایا۔ زینب گھر سے چادر لے کر نکلی تھی تاکہ سر ڈھانپ سکے۔ چادر میں سر کے بال مکمل طور پر چھپے ہوئے تھے۔ باقی جسم پر عرب کا روایتی لباس تھا۔ ایک لمبا سا چوغہ جو کہ ٹخنوں تک جسم کو ڈھانپ لیتا تھا۔ اس چوغہ کی لمبائی کی وجہ سے اکثر عرب خواتین چوغہ کے نیچے کچھ پہننے سے احتراز کرتی تھیں۔ ظاہر ہے مقصد تو بدن ڈھانپنا تھا اور اگر بدن چوغہ سے ہی ڈھانپ لیا تو پھر شلوار یا تہمد کی کیا ضرورت۔ اس سے رفع حاجت میں بھی آسانی رہتی تھی۔ اسی حالت میں زینب کمرے میں داخل ہو گئی۔
حضرت زینب بنت علی کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی رک گئیں۔ نظارہ ہی ایسا تھا۔ سامنے یزید ابن معاویہ کھڑے تھے۔ چار سال بعد اپنے محبوب کا دیدار نصیب ہوا تھا اور جیسا زینب میں دل میں سوچا تھا ویسا ہی کڑیل جوان ثابت ہوا تھا یزید۔ زینب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں۔ ادھر یزید کا بھی یہی حال تھا۔ زینب کے حسن کا تو وہ بچپن سے ہی قائل تھا لیکن اتنے لمبے وقفے کے بعد دیکھنے کا اثر ہی علیحدہ ہے۔ دونوں کے یہ جذبات اس لئے بھی شدید تھے کہ پچھلی ملاقات بلوغت سے پہلے ہوئی تھی اور بلوغت سے پہلے اور بعد کے جذبات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تھے بھی دونوں کنوارے۔ ایسے میں محبت اپنی جگہ لیکن جنسی جذبات کی موجودگی بھی ایک حقیقت تھی۔ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ انسان اپنے جسم میں تبدیلیاں محسوس کرتا ہے اور مخالف جنس یا پھر اپنی ہی جنس میں دلچسپی محسوس کرنے لگتا ہے۔ شرمگاہ جس کو آج تک انسان صرف حاجت کیلئے استعمال کرتا آیا ہے اس کے دوسرے مقاصد سے آگاہی ہوتی ہے۔ مختصراً یہ کہ زینب اور یزید کے درمیان محبت مثالی تھی اور پہلی بار دونوں کے دلوں میں محبت کے ساتھ ساتھ جنسی جذبات بھی تھے ایک دوسرے کیلئے۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو گھور ریے تھے اور بغیر محسوس کئے اس کا اثر انکی شرمگاہوں پر بھی ہو رہا تھا۔ لباس تو میں بتا چکی ہوں کہ کیسا تھا دونوں کا۔ زینب نے چوغہ کے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا جیسا کہ عام عرب کا رواج تھا۔ یزید کا سامنا کرنے سے شرمگاہ میں نمی تو ہوئی لیکن چوغہ کے نیچے پوشیدہ ہونے کے سبب اس کا پتہ صرف زینب کو ہی تھا۔ زینب کے برعکس یزید نے تہمد باندھ رکھا تھا اور گرہ آگے کی جانب تھی۔ گرہ سامنے ہونے کا مقصد تو یہ تھا کہ پیشاب کرنے میں آسانی ہو اور پورا تہمد اتارے بغیر ہی پیشاب کر لیا جائے لیکن جب زینب کا دیدار ہوا تو یزید کو پتہ بھی نہ چلا کہ کب اس کا عضو خاص مکمل تناؤ کی کیفیت میں آ گیا۔ تناؤ ہی اس بات کا سبب تھا کہ تہمد کی دراڑ کو چیر کر عضو خاص باہر نکل آیا اور اب عضو کا نوے فیصد حصہ باہر تھا۔
آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو سب کچھ کہہ دیا زینب اور یزید نے۔ ایک لفظ کہے بنا دونوں ایک دوسرے کی جانب بڑھے اور گلے لگ گئے۔ بے اختیار زینب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ یزید بھی بہت جذباتی ہو رہا تھا۔ یاد رہے کہ دونوں کے قد میں ذیادہ فرق نہیں تھا۔ زینب محض دو تین انچ چھوٹی تھیں یزید سے۔ جیسا کہ پہلے بتا چکی ہوں کہ یزید کا عضو خاص تہمد سے باہر تھا تناؤ کی وجہ سے تو جب دونوں گلے ملے تو عضو خاص زینب کے پیٹ سے ٹکرایا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ پیٹ کے اندر تو نہیں جا سکتا تھا لہذا پھسل کر نیچے کی جانب رخ ہو گیا اور عضو کا اگلا حصہ زینب کی شرمگاہ کو چھونے لگا تھا۔ یہ بات بھی مد نظر رہے کہ عضو خاص بیشک برہنہ تھا لیکن زینب اور یزید دونوں ہی مکمل لباس میں ملبوس تھے۔ زینب کو اپنے پیٹ پر کسی چیز کا دباؤ محسوس تو ہوا تھا اور انہوں نے اسے نظر انداز بھی کیا لیکن جذبات کی شدت میں جب یزید نے زینب کو بھینچا تو اپنے نرم و نازک پیٹ پر یزید کے سخت عضو کو برداشت نہ کر سکیں۔ بے اختیار آپ کے منہ سے آہ نکل گئی۔ ادھر یزید جو کہ پیار میں اس قدر گم تھا کہ اپنے عضو کے تن جانے سے بھی بے خبر تھا، جب اس نے زینب کی آہ سنی تو رہ نہ سکا اور پوچھا کہ کیا ہوا۔
زینب نے نیچے کی جانب اشارہ کیا۔ یزید نے زینب کے جسم پر اپنی آہنی گرفت نرم کی اور دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے۔ علیحدہ ہوتے ہی دونوں کی نظریں نیچے کی جانب گئیں جہاں یزید کا عضو خاص تنا ہوا تھا اور ہوا میں لہرانے کے ساتھ ساتھ جھٹکے بھی کھا رہا تھا۔ یزید کیلئے عضو کھڑے ہونے کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی بارہا عضو کھڑا ہو چکا تھا لیکن جب بھی تناؤ آتا تھا یزید کو پتہ ہوتا تھا۔ یہ پہلی بار ہی ہوا تھا کہ عضو ��ن جانے کے اتنی دیر کے بعد یزید کو معلوم ہوا تھا۔ یزید نے ندامت محسوس کی اور اپنے عضو کو تہمد کے اندر کرنے کوشش کرنے لگا۔ دوسری جانب زینب قریب ہی کھڑی یہ عضو خاص کو گھورے جا رہی تھیں۔ زینب کیلئے مردانہ عضو خاص کوئی اجنبی چیز نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے کزنز اور بھائیوں کے بچوں کے عضو خاص تو کئی مرتبہ دیکھے تھے بلکہ کئی مرتبہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر چھپ کر اپنے والد کا عضو بھی دیکھا تھا لیکن یزید کے عضو خاص میں کوئی نہ کوئی ایسی بات تو تھی کہ زینب نے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئیں۔ اگرچہ آپ کے والد حضرت علی کا عضو بھی لمبائی اور موٹائی میں کم نہیں تھا لیکن یزید کا عضو زینب کو اپنے والد کے عضو سے بھی ذیادہ مضبوط محسوس ہو رہا تھا۔ زینب یزید کے عضو خاص کے دیدار میں اس قدر منہمک تھیں اور اس قدر متاثر تھیں عضو کی خوبصورتی سے کہ بے اختیار ان کے منہ سے سبحان اللہ نکل گیا۔ سبحان اللہ کہنے کا اثر تھا یا یزید کے عضو سے ٹپکتی اللہ کی کاری گری، حضرت زینب کے منہ میں پانی آ گیا۔ یہاں پر درج ذیل باتیں قابل غور ہیں۔
آج لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ اسلام میں یہ بھی منع ہے وہ بھی منع ہے۔ انہی چیزوں میں ایک یہ بھی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو منہ نہیں لگا سکتے۔ اب آپ خود ہی سوچئے کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا زینب کے منہ میں یزید کے عضو کو دیکھ کر پانی آتا؟ زینب بھی وہ کہ بالکل کنواری۔ یعنی آج تک زینب نے کبھی کسی مرد کے عضو کو منہ سے چھونا یا چاٹنا یا چوسنا تو درکنار، سونگھا تک نہیں تھا لیکن باوجود اس کے زینب کے منہ میں پانی کیوں آیا؟ اگر میں یہ کہوں کہ یہ پانی اللہ کی جانب سے آیا اور یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ عضو خاص کو چوسنا نا صرف جائز ہے بلکہ عین رضائے ربی ہے، تو کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟
ایک بات اور بتاتی چلوں کہ آج کچھ لوگ اہل بیت کے بارے میں غلط باتیں کرتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ عام انسان ہیں۔ میں ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتی اور یقین رکھتی ہوں کہ اہل بیت ہم سے کہیں ذیادہ برتر اور افضل ہیں۔ اگر اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو معجزات عطا فرمائے تو انبیاء کی اولاد کو بھی معجزات عطا فرمائے۔ آپ یقین کریں یا نا کریں لیکن میرا تو یہ ایمان ہے کہ یزید کے عضو کو دیکھ کر ایک کنواری زینب جس کو پتہ بھی نہیں کہ اس عضو کا استعمال کیا ہے، اس کے منہ میں پانی آ جانا معجزہ ہی ہے۔ جواباً یہ دلیل نہ دیجئے گا کہ عضو دیکھ کر ہمارے منہ میں بھی پانی آ جاتا ہے تو کیا یہ ہمارا بھی معجزہ ہے۔ ہمارے منہ میں تو پانی اسلئے آتا ہے کہ ہم یا تو خود عضو کو منہ میں لے کر چاٹ یا چوس چکی ہیں یا پھر کسی اور کو ایسا کرتے دیکھ چکی ہیں جبکہ زینب کا معاملہ اس کا بالکل متضاد تھا۔
یزید ندامت میں ڈوبا جا ��ہا تھا جبکہ زینب سامنے کھڑی ٹکٹکی باندھے یزید کے عضو خاص کو تکے جا رہی تھی۔ یزید نے اپنے بائیں ہاتھ سے عضو خاص کو پکڑ کر تہمد کے اندر کرنے کی کوشش کی لیکن عضو میں اس قدر تناؤ تھا کہ اس کا تہمد کے اندر رہنا ممکن نہ تھا۔ یہ اس لئے کہ تہمد کی گرہ سامنے کی جانب تھی۔ عضو کو اندر کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ تہمد کی گرہ کو سامنے کی بجائے سائیڈ پر باندھا جائے لیکن اس کیلئے تہمد پورا کھولنا پڑتا تھا جو کہ ظاہر ہے کہ یزید زینب کے سامنے نہیں کر سکتا تھا۔ تین چار مرتبہ کوشش کرنے کے بعد جب یزید عضو کو اندر کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو شرمندہ ہو کر ہاتھوں سے اپنے عضو کو چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ زینب اب تک عضو کے طلسم سے باہر نہیں نکل پائی تھی۔ جب یزید نے عضو کو ہاتھوں سے چھپایا تو زینب سے رہا نہ گیا۔ بے چین ہو کر آگے بڑھی اور نرمی سے یزید کے ہاتھ عضو سے علیحدہ کر دئے۔ یزید حیران تو ہوا لیکن اسے اچھا بھی لگا۔ زینب نے صرف یزید کے ہاتھ ہی ہٹانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے نرم و ملائم ہاتھوں میں یزید کا فولادی عضو تھام لیا۔ بچپن کی جو یادیں یزید کے ذہن میں تھیں ان کے مطابق تو زینب کافی شرمیلی لڑکی تھی جبکہ کسی کا عضو خاص تھامنا ایک بے باکانہ عمل تھا چاہے وہ عضو کسی قریبی دوست یا محبوب کا ہی کیوں نہ ہو۔ عضو تھامنے کی دیر تھی کہ غیب سے آواز آئی:
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔
یہ آواز اس بات کی دلیل تھی کہ جو کچھ زینب اور یزید کے درمیان ہوا تھا یا ہونے والا تھا، اس میں اللہ کی رضا شامل تھی۔ اس آواز سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں جس رسی کو تھامنے کا حکم دیا ہے وہ مردانہ عضو خاص ہے۔ یہاں ایک مسلہء بیان کرتی چلوں کہ اللہ نے رسی تھامنے کا حکم سب کو دیا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ کس نے کس کی رسی تھامنی ہے۔ لہذا اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عضو خاص مرد اور عورت دونوں نے ہی تھامنے ہیں۔ یہ تو ہم سب کو پتہ ہے کہ قرآن کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں اس لیے اب یہ فیصلہ مسلمان مرد اور عورت دونوں نے خود ہی کرنا ہے کہ اللہ کی رسی تھامنے کیلئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ بحیثیت ایک مسلمان عورت کے میرا خیال تو یہ ہے کہ ہمیں غیر مسلم مردوں کے عضو خاص کو تھامنا چاہیے۔ اس کے کئی فوائد ہیں۔ جہاں ہم کسی غیر مسلم یا کافر مرد کا عضو تھام کر اللہ کی رسی کو تھامنے کا فریضہ ادا کر سکیں گی وہیں ہمارے پاس یہ بھی موقع ہو گا کہ ہم اس دوران اس غیر مسلم یا کافر مرد کو دعوت اسلام دے سکیں۔ اب یہ اس کافر پر منحصر ہے کہ وہ ہماری دعوت قبول کرے یا نہ کرے۔ بالفرض اگر وہ کافر ہماری دعوت قبول کر لیتا ہے تو ہمیں دوبارہ اس کا عضو خاص تھامنے کی بجائے کسی اور کافر کا عضو خاص تھامنا چاہیے۔ یہ میرا اپنا قیاس ہے۔ اس کو لازمی تصور نہ کیا جائے۔ اسلام آسانی کا دین ہے اور اگر کوئی مسلمہ اپنے خاوند کا ہی عضو تھامنا چاہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں لیکن افضل طریقہ وہ ہی ہے جو میں نے اوپر بتایا ہے۔ اب رہ گئی مردوں کی بات تو مرد چاہیں تو اپنا ہی عضو تھام کر یہ فریضہ ادا کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ کسی دوسرے مرد کا عضو تھامنا چاہیں تو بھی کوئی قدغن نہیں۔ یاد رہے کہ اللہ نے صرف مردانہ عضو خاص کو ہی اپنی رسی قرار دیا گیا ہے لہذا کوئی مسلمان مرد کسی عورت کی شرمگاہ کو تھام کر یہ فرض ادا نہیں کر سکتا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ آپ لوگ یقیناً بور ہو رہے ہوں گے۔ قصہ تو زینب اور یزید کا تھا اور میں مسئلے بیان کرنے لگ گئی ہوں۔ دراصل میری تربیت ہی ایسی ہے کہ جہاں موقع ملتا ہے تبلیغ شروع کر دیتی ہوں۔ کئی مرتبہ اپنے خاوند سے بھی اس بات پر جھگڑا ہو چکا ہے۔ وہ اس بات پر سخت نالاں ہوتا ہے کہ میں موقع نہیں دیکھتی تبلیغ کرنے کا۔ بس شروع ہو جاتی ہوں۔ بارہا دوران مباشرت ہی میں نے تبلیغ کرنی شروع کر دی تو میرے خاوند کو ناگوار گزری یہ بات۔ آغاز میں تو اس نے برداشت کیا لیکن جب حد سے زیادہ ہو گئی میری تبلیغ تو خاوند نے مجھے بزور قوت مانع کیا۔ اب دیکھیں ایک اور مسئلہ یاد آ گیا۔ آج کل خاوند بیوی سے ڈرتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں اللہ نے خاوند کو اتنی اجازت دی ہے کہ بیوی کو مار بھی سکتا ہے۔ یہ مارنا شوقیہ نہیں بلکہ ضرورت کے تحت ہونا چاہیے۔ ��طور مثال مجھے ہی لیجئے کہ جب میں باز نہ آئی دوران مباشرت تبلیغ سے تو پہلے خاوند نے مجھے زبانی سمجھایا کہ یہ نہ کروں۔ میں پھر بھی عادت سے مجبور تھی لہذا مباشرت کے دوران جہاں میرے حلق سے آہ آہ کی مسحور کن آواز خارج ہوتی وہیں میں تلاوت بھی جاری رکھتی تھی۔ خاوند نے جب دیکھا کہ میں باز نہیں آ رہی تو انہوں نے میرے جسم کے مختلف حصوں پر ضرب لگائی اپنے ہاتھوں سے۔ آسان الفاظ میں تھپڑ مارے۔ سب سے زیادہ میرے کولہوں پر۔ باقی اعضا جن پر انہوں نے تھپڑ مارے ان میں میری جانگیں، کمر، پستان اور اندام نہانی شامل ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ چہرے کے علاوہ باقی جسم پر ہلکا پھلکا تشدد قرآن میں جائز ہے اور سنت سے بھی ثابت ہے۔
زینب اپنے نازک ہاتھوں میں یزید کا فولادی عضو تھامے کھڑی تھی۔ یزید کا صرف عضو ہی فولادی نہیں تھا بلکہ جذبات میں بھی وہ فولادی اہمیت کا حامل تھا۔ اب تک ایسی چند ہی لڑکیاں تھیں جنہوں نے یزید کے عضو خاص کو تن جانے پر مجبور کر دیا ہو لیکن وہ تناؤ عارضی تھا۔ یہ تناؤ جو غیر ارادی طور پر زینب کی کشش سے ہوا یہ تناؤ تو ایسا تھا کہ یزید کو اپنے بدن سے آگ نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔ بات ہی ایسی تھی۔ زینب کا حسن ہی یزید کو پاگل کر دینے کیلئے کافی تھا۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھے جا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام دئے جا رہے ہیں ایک دوسرے کو۔ زینب دل میں سوچ رہی تھی کہ یہ کیا ہو گیا۔ اس کے ذہن میں ابھی تک وہ غیبی آواز بھی گونج رہی تھی جس نے یزید کے عضو خاص کو اللہ کی رسی قرار دیا تھا۔ زینب کو یہ پتہ تھا کہ ان کے نانا پر وحی نازل ہوتی ہے اور نبی کے خاندان کا رتبہ بھی وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ جس گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں وہ کوئی معمولی گھرانہ نہیں۔ بہرحال اس آواز کے بعد سے زینب کے دل میں سکون بھر گیا تھا اور اب زینب نے یزید کے عضو کو صرف پکڑا ہی نہیں ہوا تھا بلکہ اس پر اپنے ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ یزید کے عضو خاص کے ختنے نہیں ہوئے تھے اور عضو پر کھال موجود تھی۔ شاید یہ اسی کھال کا اثر تھا جس نے زینب کو مجبور کر دیا کہ وہ ہاتھ پھیرتی رہے۔ نہ صرف یزید بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام میں سے بھی کسی نے ختنے نہیں کروائے۔ ختنہ ایک بدعتِ شرعی ہے۔ قرآن و حدیث میں ختنہ کا کوئی حکم نہیں۔ خود ہی سوچیں کہ ایک ایسا شخص جو کہ نبی ہو اور رحمت اللعالمین ہو وہ کیسے کسی ایسے کام کی اجازت دے سکتا ہے جس سے کسی انسان کو تکلیف ہو۔ ختنہ کی تکلیف کا اندازہ تو سب مسلمان مردوں کو ہو گا ہی۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ نے اگر عضو خاص کے اوپر کھال بنائی ہے تو اس کا کوئی مقصد ہو گا۔ بہرحال اصل قصہ کی جانب آتی ہوں۔
یہ خیال بھی زینب کے دل میں آ رہا تھا کہ کیا یہ عضو خاص اتنا مقدس اور قیمتی ہے کہ اللہ نے خصوصاً اس کیلئے اپنا پیغام بھیجا؟
زینب نے کئی مرتبہ حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کی تھی اور اس دوران وہ ہمیشہ حجرہ اسود کا بوسہ لیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ اپنے نانا کی چیزوں کا بھی عقیدت سے بوسہ لینا خاندان نبوی میں عام عمل تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ یہی سکھایا تھا کہ بوسہ ایک مقدس عمل ہے جو مقدس کاموں کیلئے ہے۔ ان سوچوں نے زینب کو یزید کے عضو خاص کا بوسہ لینے پر اکسا دیا لیکن اپنے محبوب سے نظریں چرانا بھی انہیں گوارا نہ تھا اس لیے زینب عضو کو تھامے ہوئے آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتی گئیں۔ نیچے بیٹھ کر عضو خاص آپ کے منہ مبارک سے بہت قریب آ گیا تھا۔
زینب یزید سے ملنے اپنی سہیلی کے گھر گئی ہوئی تھی اور انکے بھائی امام حسین علیہ السلام گھر میں بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے۔ زینب نے اپنی طرف سے تو خوب بہانہ بنایا تھا کہ وہ اپنی سہیلی کے گھر جا رہی ہے اس کا ہاتھ بٹانے لیکن امام حسین کے دل میں ایک شبہ سا تھا کہ کہیں دال میں کچھ کالا تو نہیں۔ یہی سوچ سوچ کر پریشان ہوئے جا رہے تھے کہ زینب نے جوانی کے جوش میں اگر کچھ کر ڈالا تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ بلا آخر آپ نے یہی فیصلہ کیا کہ انہیں تسلی کرنی چاہیے کہ زینب کسی غلط کام میں ملوث نہیں ہے۔ اسی اطمینان کیلئے آپ اس کی سہیلی کے گھر کی جانب چل دئے۔ زینب کو گئے ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا۔ صبح گئی تھی اور اب ظہر کا وقت تھا۔
دوسری طرف زینب اور یزید دونوں کو غیبی آواز سنائی دی تھی اور اب بھی وہ غیبی آواز ان دونوں کی رہنمائی فرما رہی تھی۔ ان دونوں کی یہی متفقہ سوچ تھی کہ یہ غیبی آواز اللہ کی جانب سے ہے۔ پہلے اس غیبی آواز نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم فرمایا عین اس وقت جب زینب یزید کا عضو تھام چکی تھی۔ اب تو زینب نیچے بیٹھ چکی تھیں اور یزید کا عضو آپ کے چہرہ اقدس سے محض چند انچ دور تھا۔ عضو تناسل سے نکلتی ہوئی بھینی بھینی خوشبو آپ کی ناک کے نرم و نازک نتھنوں میں گھستی جا رہی تھی۔ ایسی خوشبو آج تک زینب نے نہ سونگھی تھی۔ خوشبو ناک میں جانے سے زینب کے ذہن پر ہلکی ہلکی مدہوشی طاری ہونے لگی تھی جیسے کوئی نشہ ہو اس خوشبو میں۔ لیکن یہ مدہوشی انتہائی معمولی تھی۔
عضو مکمل سختی اور تناؤ کی حالت میں تھا زینب کے نازک ہاتھوں میں پھڑپھڑاتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ عضو کا اگلا حصہ سرخی مائل ہو رہا تھا جیسے خون کی زیادتی کی وجہ سے جسم کے بعض حصے ہو جاتے ہیں۔ زینب ٹکٹکی باندھے عضو کو گھور رہی تھیں۔ یزید کی نظریں نیچے اپنی محبوبہ پر ہی تھیں۔ جن نظروں سے زینب یزید کے عضو کو گھور رہی تھیں ان نظروں نے یزید کے جذبات کو کئی گنا بڑھا دیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عضو کے اگلے حصے سے اب لیس دار مادے کا ایک قطرہ چمکتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ زینب نے عضو کو پکڑ تو لیا تھا لیکن اب اس کے جذبات ملے جلے تھے۔ اسے اپنی شرمگاہ میں بھی نمی محسوس ہو رہی تھی۔ جہاں تک عضو کا تعلق ہے، اسے زینب نے اپنے محبوب کے اطمینان کیلئے تھاما تھا لیکن جب اللہ نے اسے اپنی رسی قرار دیا تو اب زینب کے جذبات میں عقیدت کا تاثر بھی آ گیا تھا۔ اسی کا اثر تھا کہ زینب نے یزید کے عضو کے اگلے حصے پر اپنے باریک گلابی ہونٹ رکھ دئے۔ زینب کی آنکھیں خود بہ خود بند ہو گئیں۔ یزید بھی زینب کے ہونٹوں کو اپنے عضو پر محسوس کر کے پاگل سا ہو گیا تھا اور بے اختیار اپنے ہاتھ زینب کے سر پر رکھ دئے جو کہ ابھی تک مکمل ڈھکا ہوا تھا۔ زینب نے تو محض اپنے ہونٹ ہی رکھے تھے عضو کے اگلے حصے پر لیکن جو نمی وہاں موجود تھی، وہ ہونٹوں سے سرایت کرتی ہوئی منہ میں داخل ہو گئی۔ کہنے کو تو ایک قطرہ تھا اس لیس دار مادے کا لیکن یزید کے عضو کی لمبائی چوڑائی اور موٹائی کی مناسبت سے دی��ھا جائے تو عام قطرے سے دس گنا زیادہ بڑا تھا۔ زینب آنکھیں بند کئے مکمل وجد کی سی کیفیت میں آ چکی تھیں۔ اب ان کے دونوں ہاتھ عضو پر تھے اور سختی سے بھینچے ہوئے تھیں۔ یزید نے اپنے ہاتھ زینب کے سر پر رکھے۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ نبی زادی اب ہوش میں نہیں بلکہ سرور میں ہے۔ یزید نے تو اپنی طرف سے نرمی سے ہی ہاتھ رکھے تھے لیکن شاید زینب جیسی نازک دوشیزہ کیلئے یہ نرمی بھی کافی سخت تھی۔ یزید کے ہاتھ رکھنے کی دیر تھی کہ زینب کو اپنے سر پر ایسا دباؤ محسوس ہوا کہ جیسے ان کے سر کو پیچھے سے دھکیلا جا رہا ہو۔ چونکہ وہ تو مدہوشی کی سی حالت میں تھیں لہذا بجائے اس کے کہ اپنا سر پیچھے ہٹاتیں، ان پر اس کے برعکس ہی اثر ہوا۔ اس دباؤ کی وجہ سے ان کا منہ تھوڑا سا کھلا اور یزید کے عضو کا اگلا حصہ آپ کے دہن مبارک کے اندر داخل ہو گیا۔
یزید کے عضو سے نکلنے والے مادے کے قطرے جب زینب کی زبان سے چھوئے تو انہیں اس کا ذائقہ نمکین سا لگا۔ نمکین ذائقہ سے انکی زبان مبارک واقف تھی۔ ہزاروں مرتبہ نمکین چیزیں نوش فرمائی تھیں لیکن ایسا نمکین ذائقہ کبھی نہ چکھا تھا۔ تھا تو نمکین ہی لیکن باقی تمام نمکین چیزوں سے مختلف بلکہ ان سب سے بہتر۔ زینب تو پہلے ہی عضو تناسل کی خوشبو سے مدہوش ہوئے جا رہی تھی۔ جب اتنی مزے دار چیز زبان سے ٹکرائی تو ان کے جذبات کئی گنا بڑھ گئے۔ یزید کے عضو تناسل سے مادہ منویہ کا صرف ایک قطرہ ہی نکلا تھا لیکن اس ایک قطرے نے زینب کے اندر وہ پیاس جگا دی کہ جس سے مجبور ہو کر انہوں نے عضو تناسل کو اپنے ہونٹوں سے بھینچ لیا اور زبان سے چوسنے لگیں۔ روایات میں آتا ہے کہ زینب نے اس قدر زور سے چوسا کہ ان کا اپنا منہ خون کی زیادتی سے سرخ انگارہ ہو گیا۔
یزید بھلا کیسے لا تعلق رہ سکتا تھا۔ بی بی زینب کا سر اس کے ہاتھوں میں تھا۔ جیسے جیسے زینب کے دہن کی گرفت عضو تناسل پر مضبوط ہوتی گئی، ویسے ویسے ہی یزید کے ہاتھوں کی گرفت زینب کے سر پر بھی مضبوط ہوتی گئی۔ زینب کے من میں تو صرف ایک ہی چاہت تھی اس وقت۔ ایک ہی طلب تھی۔ اس قطرے کے ذائقے والا اور مادہ مل جائے بس۔ یہی سوچ انہیں چوسنے پر مجبور کر رہی تھی۔ دوسری طرف یزید کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ طاقتور ہونے کے باوجود اب وہ پگھلتا جا رہا تھا۔ آخر کب تک خود کو قابو میں رکھتا۔ جب عضو تناسل ایک نبی زادی کے منہ میں ہو تو بے قابو ہونا ایک فطری امر ہے۔ نبی زادی بھی ایسی کہ والدہ جس کی خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا ہوں۔ یزید ہوش کی دنیا سے جوش کی دنیا میں داخل ہو رہا تھا۔ کمرے میں نورانی ماحول تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جنت سے خوشبوئیں آ رہی ہیں اور چاروں سو نور ہی نور پھیلا ہو۔ یزید کے ہاتھوں کی گرفت بی بی زینب کے سر پر مضبوط ہوتی گئی اور اس نے سر مبارک پکڑ کر آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ یہ بالکل اضطراری عمل تھا۔ آج کل ہم پورن فلموں میں مختلف مغربی خواتین کو مردوں کے عضو تناسل منہ سے چوستے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کی ایجاد ہے اور مغرب سے نفرت ہمیں بچپن سے ہی سکھائی جاتی ہے۔ یاد رکھئے مغرب کی ترقی کے پیچھے ایک ہی راز ہے کہ انہوں نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی سنتیں اپنا لیں اور ہماری تباہی کے پیچھے بھی ایک ہی راز ہے کہ ہم نے وہ سنتیں ترک کر دیں۔ آج بھی اگر کوئی مسلمہ عضو منہ میں لیتی ہے تو اس کے دل میں یہ ہی سوچ ہوتی ہے کہ وہ مغرب کی نقالی کر رہی ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مغرب کی نقالی نہیں کر رہی بلکہ مغرب نے ہمارے آباؤاجداد کی نقالی کی ہے۔ افسوس صد افسوس۔ اگر یہی عمل کرتے ہوئے ہماری خواتین یہ سوچیں کہ یہ سنت اہل بیت ہے۔ یہ فاطمہ کی سنت ہے۔ یہ عائشہ صدیقہ کی سنت ہے۔ یہ ماریہ قبطیہ کی سنت ہے۔ یہ خدیجہ کی سنت ہے۔ یہ آمنہ بی بی کی سنت ہے۔ یہ حلیمہ کی سنت ہے۔ یہ زینب کی سنت ہے۔ یہ ہر صحابیہ کی سنت ہے۔ اگر یہ سوچ لیا جائے تو ہمیں اس کا اتنا ثواب ملے کہ جس کا احاطہ الفاظ میں ناممکن ہے۔
انمالاعمال بالنیات
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
یہ اللہ کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
میں امید کرتی ہوں کہ آج سے آپ ��ب اس عمل کو سنت سمجھ کر کریں گی۔ جزاکِ اللہ۔
یزید زینب کا سر تھام کر آگے پیچھے کر رہا تھا اس حالت میں کہ اس کا مضبوط عضو تناسل زینب کے نازک دہن میں آگے پیچھے ہو رہا تھا۔ آغاز میں تو صرف عضو کا اگلا حصہ ہی منہ میں جا رہا تھا لیکن زینب جیسی جنتی دوشیزہ کے منہ کو اپنے عضو پر محسوس کر کے یزید آپے اے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب نہ صرف اس کی گرفت زینب کے سر پر ذیادہ مضبوط ہو گئی تھی بلکہ اس کوشش تھی کہ عضو کا ذیادہ سے ذیادہ حصہ زینب کے منہ کے اندر داخل ہو۔ زینب نے تو جوش عقیدت میں عضو تناسل کا بوسہ لیا تھا اور چوسنے کی وجہ وہ لذیذ نمکین مادہ تھا جس کا ایک قطرہ ہی چکھ پائی تھیں۔ لیکن اب زینب کیلئے عضو تناسل کو اپنے منہ میں سمانا مشکل ہو رہا تھا۔ عضو تناسل بھی اچھا خاصا توانا تھا۔ اس کا اگلا حصہ تو با آسانی منہ میں سما جاتا تھا لیکن جب یزید نے زیادہ سے زیادہ حصہ منہ میں گھسانے کی کوشش کی تو زینب کو پریشانی محسوس ہوئی۔ یزید کی حالت سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ لذت کی ان بلندیوں تک پہنچ چکا ہے جہاں آج سے پہلے کبھی نہیں پہنچا تھا۔ یزید کے دھکوں سے عضو تناسل کی وہ لمبائی جو زینب کے منہ میں داخل ہوتی تھی، بتدریج بڑھتی جا رہی تھی۔ زینب اگرچہ تکلیف میں تھی لیکن اس جنتی لڑکی نے منہ سے آواز نہ نکالی یا کوئی ایسا عمل نہ کیا جس سے یزید کی لذت میں خلل واقع ہوتا۔ جو آوازیں زینب کے حلق سے برآمد ہو رہی تھیں وہ صرف عضو خاص کے ان کی زبان اور منہ کے اندرونی حصے پر رگڑ سے پیدا ہو رہی تھیں۔ دوسری جانب یزید حالت سرور میں دنیا و مافیہا سے بیگانہ دھکے لگا رہا تھا۔ یہ دھکے شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے تھے۔ اس کا اندازہ زینب کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسؤں کے قطروں سے بخوبی ہو رہا تھا۔ زینب ناز و نعم میں پلی لڑکی تھی۔ آج تک باپ اور بھائیوں نے ان کے سب ارمان پورے کئے تھے۔ ہر خواہش پوری کی تھی۔ اپنے محبوب یزید کی خوشی کیلئے زینب نے یہاں تک بھی برداشت کیا کہ یزید نے اپنا مکمل عضو آپ کے منہ میں ڈالا دیا۔ حلق تک پہنچ گیا لیکن آپ نے منہ سے کوئی نا خوشگوار کلمہ ادا نہیں کیا۔ یہ عروج تھا اس محبت کا۔ آج لوگ ہیر رانجھا، سسی پنوں اور رومیو جولیٹ کے قصے پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے محبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ حالانکہ جو داستان مسلمان خواتین خصوصاً اہل بیت کی خواتین نے رقم کیں ان کے سامنے ہر رومانوی قصہ حقیر معلوم ہوتا ہے۔ خدارا اپنی تاریخ پڑھئے۔ یہ التجا ہے میری مسلمانوں سے۔ زینب نے یزید کیلئے جو کچھ کیا وہ سبق ہے ہمارے لئے کہ ہمیں محبوب کی خوشی کیلئے تکالیف بھی سہنی پڑیں تو اس پر برا نہیں ماننا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے۔ یہ تمام تکالیف عارضی ہوتی ہیں۔
جب یزید اپنا عضو تناسل حضرت بی بی زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن مبارک میں مسلسل داخل اور خارج کر رہے تھا تو حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ تکلیف کا سبب تو عیاں ہی ہے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن مبارک میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ یزید کے طاقتور عضو تناسل کو مکمل طور پر اپنے اندر سما سکتا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے یزید رک جاتے۔ سرور کی جن بلندیوں پر یزید پہنچ چکے تھے وہاں عقل و مافیہا کا تو دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ بس جوش تھا، سرور تھا اور ایک ایسا احساس تھا جس کے سامنے دنیا کا ہر جذبہ حقیر تھا۔ نتیجتاً، یزید اپنا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن میں مکمل داخل کرنے کیلئے زور لگاتے رہے اور ہر گزرتے دھکے کے ساتھ عضو دہن سے گزرتا ہوا حلق میں داخل ہوتا گیا یہاں تک کہ عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن اور حلق میں سما گیا۔ حالت یہ تھی کہ تقریباً نصف حصہ عضو تناسل کا دہن میں تھا اور نصف حصہ حلق میں۔ ایسے میں جب یزید اپنا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن سے باہر نکالتے اور دوبارہ اندر داخل کرتے تو زینب کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ کھانسی بھی آتی لیکن کھانس نہ پاتی تھیں۔ ظاہر ہے، کیسے کھانستیں۔ اتنا بڑا، لمبا اور موٹا عضو تناسل جب حلق میں پھنسا ہو تو کھانسنا تو بہت دور کی بات ہے، حلق سے سوائے غوں غاں کے کوئی آواز نہیں نکلتی۔ یہ بات بھی آپ سب ذہن میں رکھیں کہ یزید میں عام انسانوں کے مقابلے میں ذیادہ طاقت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یزید جب اپنا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن میں اندر باہر کر رہے تھے تو اس عمل میں بلا کی سی تیزی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی مشین چل رہی ہو اور فل سپیڈ پر چل رہی ہو۔ ایسے میں بس کمرے میں تین طرح کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ ایک آواز یزید کی تھی جو کہ غیر ارادی طور پر ان کے منہ سے آہ آہ کی شکل میں نکل رہی تھی۔ یہ آواز یزید کے سرور کا پتہ دیتی تھی۔ دوسری آواز حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی تھی لیکن شاید اسے آواز کہنا مناسب نہیں کیونکہ آواز سے ذیادہ یہ ان کی ناکام کھانسی اور دبی دبی چیخ معلوم ہوتی تھی۔ تیسری آواز یزید کے عضو تناسل کے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن کے اندرونی حصے سے رگڑ کھانے سے پیدا ہو رہی تھی۔ سچ پوچھیں تو سب سے بلند یہی آواز تھی۔ زینب کے ہاتھ یزید کے کولہوں پر تھے جبکہ انکے منہ مبارک سے تھوک نکل کر بہہ رہا تھا۔ شاید یہ تھوک ہی تھا جو چپڑ چپڑ کی آواز پیدا کرنے کا سبب بن رہا تھا۔
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اتنی شدید تکلیف دہ حالت میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں۔ اسکی وجہ یہ تو تھی ہی کہ یزید ان کے محبوب تھے لیکن ایک وجہ اور بھی تھی اور یہ دوسری وجہ نہایت اہم تھی۔ دوسری وجہ رضائے الٰہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب غیبی آواز کی صورت میں یزید کے عضو تناسل کو اپنی رسی قرار دیا تھا اور است تھامنے کا حکم صادر فرمایا تھا تو حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا جیسی پاکیزہ صفت نورانی شخصیت یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ اللہ کے حکم کے بر عکس کوئی کام کریں یا ایسا سوچیں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے تھامنے کا حکم دیا تھا لیکن یہ واضح نہیں فرمایا تھا کہ اللہ کی رسی یعنی عضو تناسل کو تھامنے کیلئے اپنے جسم کے کس حصے کو استعمال کرنا ہے۔ آج کل علما اس کی تشریح کرتے ہوئے یہ لکھ جاتے ہیں کہ تھامنے کیلئے ہاتھ استعمال کرنے چاہئیں۔ یہ بالکل غلط اور نامناسب ہے۔ اللہ کے کلام کو اپنی مرضی سے نہیں ڈھالا جا سکتا اور اللہ کے کلام میں جہاں کوئی بات واضح نہ ہو وہاں اپنی مرضی سے بات کو واضح کرنا جہالت، خودغرضی اور گناہ کی علامت ہے۔ اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ یقیناً اس کام میں بھی اللہ کی حکمت ہو گی۔ میری تحقیق کے مطابق تو اس میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت اور ثواب کو محدود نہیں کرنا چاتے تھے اسی لئے یہ واضح کرنے کی بجائے کہ کس طرح تھاما جائے، اس بات کو اوپن چھوڑ دیا۔ اب یہ مسلمان خواتین اور مرد دونوں پر منحصر ہے کہ کس طرح تھامیں۔ جس طرح سے دل چاہے تھام لیں۔ ثواب ہی ثواب ہے۔ بس تھامنا شرط ہے۔
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے تو اللہ کی رسی کو تھامنے کیلئے پہلے ہاتھوں کا استعمال فرمایا اور پھر اپنے دہن اور حلق سے بھی تھامنے کا شرف حاصل کیا۔ ایک بات یہاں میں بتانا چاہوں گی کہ اللہ کی برگزیدہ ہستیاں جب بھی کسی مشکل میں گرفتار ہوتی ہیں تو اللہ کو پکارتی ہیں۔ سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے کہ جنہیں کفار نے آگ کے الاؤ میں زندہ پھینک دیا تھا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی بدولت اللہ نے اس آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا اور آگ کو ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی راحت کا سبب بنا دیا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے بھی عین اس وقت یہ واقعہ یاد کر کے اللہ سے مدد مانگی جب یزید کا عضو تناسل آپ کے حلق کو چیر رہا تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اللہ کو دل ہی دل میں یاد فرمایا اور دعا مانگی کہ یا اللہ میں نے تیرے حکم کے مطابق تیری رسی تھام لی بلکہ انتہائی مضبوطی سے تھام رکھی ہے۔ یا اللہ اس رسی کو میرے لئے راحت کا سبب بنا۔
اللہ کی رحمت جوش میں آ گئی۔ ظاہر ہے جب اللہ کے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی دعا کرے تو اللہ کیوں نہ قبول فرمائیں گے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی آنکھیں بند تھیں۔ یزید کی آنکھیں بھی بند تھیں۔ عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن میں تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دل میں خشوع و خضوع کی کیفیت تھی۔ یزید کے دک میں سرور کی انتہا کی کیفیت تھی۔ ایسے میں حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یزید کے عضو تناسل سے گاڑھے نمکین لیس دھار مادے کی گرم دھار نکلی ہو۔ یہ احساس صرف ایک لمحے کیلئے ہی ہوا تھا کیونکہ اس دھار کے نکلنے کے بعد یزید کے عضو تناسل نے صبر نہیں کیا بلکہ مسلسل دھاریں نکالنے لگا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو جہاں اپنی دعا قبول ہونے کی بے انتہا خوشی محسوس ہو رہی تھی وہیں ان کیلئے اس مادے کو اپنے منہ میں سنبھالنا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا تھا جو کہ مسلسل یزید کے عضو تناسل سے خارج ہوتا جا رہا تھا۔ جب یہ مادہ عضو تناسل سے خارج ہونا شروع ہوا تو نکلنے کی شدت بہت تیز تھی جس کی وجہ سے پہلے جھٹکے کا ذیادہ تر مادہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے حلق سے ہوتا ہوا آپ کے پیٹ مبارک میں چلا گیا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اس مادے کے ایک قطرے کو پانی زبان پر پہلے محسوس فرما چکی تھیں اور اس کی لذت سے آشنا تھیں۔ یہ اس مادے کی بے انتہا لذت ہی تھی کہ جس نے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ آپ اس مادے کو اپنے منہ میں رکھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کا منہ اس مادے سے بھر گیا۔ یزید کا عضو اپنے منہ میں تھام کر مادہ منویہ کو اپنے حلق میں نہ اترنے دینا اور نہ ہی باہر گرنے دینا۔ یہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ یہ کام اس لئے بھی غیر معمولی تھا کہ یزید کا عضو تناسل بھی غیر معمولی تھا اور اس سے نکلنے والے مادے کی مقدار بھی کافی زیادہ تھی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے کوشش تو بہت کی لیکن با امر مجبوری وہ ذیادہ دیر تک مادہ منویہ اپنے منہ میں برقرار نہ رکھ سکیں۔ یزید کے عضو تناسل سے نکلنے والے مادے کے شدت میں ہر جھٹکے کے ساتھ کمی آتی جا رہی تھی۔ یاد رہے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا تعلق اہل بیت سے تھا۔ آپ بچپن سے آب زم زم پیتی ہوئی پروان چڑھی تھیں۔ بعض روایات کے مطابق تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج سے واپسی پر جنت سے حوض کوثر کا پانی بھی حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو پلایا تھا جس کی کچھ مقدار حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنی اولاد کو پلائی تھی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا آج سے پہلے یہی سمجھتی آئی تھیں کہ سب سے لذیذ ذائقہ حوض کوثر کے دودھ کا ہے اور اس کے بعد آب زم زم کا نمبر ہے لیکن جب آپ رضی اللہ عنہا نے یزید کے عضو تناسل سے نکلنے والے مادے کا ذائقہ اپنی زبان مبارک پر محسوس کیا تو آپ کو یہ ذائقہ آب زم زم اور آب کوثر سے کہیں ذیادہ لذیذ معلوم ہوا۔ لذیذ کا لفظ بھی اس مادے کے ذائقے کی تاثیر کیلئے ناکافی ہے کیونکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے بعد میں اپنی سہیلی کو بتایا کہ لاکھوں آب کوثر اور آب زم زم بھی مل کر یزید کے عضو تناسل سے نکلنے والے مادے کے ایک قطرے کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔
بہرحال حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کیلئے مادے کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایسے میں آپ کے دل میں یہ بات آئی کہ اس قیمتی مادے کے لذیذ ذائقے سے فائدہ اٹھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے نگلا نہ جائے بلکہ ذیادہ سے ذیادہ دیر تک منہ میں رکھ کر فائدہ اٹھایا جائے۔ یہی سوچ کر حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے ذائد مادہ منہ سے خارج کر دیا جو کہ آپ کے ہونٹوں سے نکل کر بہتا ہوا آپ کے کپڑوں پر اور زمین پر گر گیا۔ یزید کا عضو اب جھٹکے مار مار کر سست 🐌 ہوتا ہوتا واپس اپنے خول میں سمٹ گیا تھا لیکن تھا اب بھی حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے منہ میں ہی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا جان چکی تھیں کہ اب اس عضو سے مادے کا اخراج مکمل ہو چکا ہے۔ یہی سوچ کر آپ نے آخری مرتبہ اس نرم عضو کو چوسا اور پھر اپنے ہونٹوں اور زبان کی گرفت عضو تناسل پر نرم کی اور آہستہ آہستہ اسے اپنے منہ سے خارج کر دیا۔
یزید کے عضو تناسل سے مادہ منویہ کے اخراج کے بعد عضو تناسل تو ڈھیلا ہو ہی گیا تھا، یزید کی اپنی حالت بھی ایسی ہو گئی تھی کہ جیسے بہت ہی مشقت والا کام کیا ہو۔ انہوں نے اپنے ہاتھ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے سر سے ہٹائے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اپنے دہن سے عضو کو خارج کر دیا تھا لیکن مادہ منویہ اب بھی آپ کے منہ میں موجود تھا۔ دراصل اس مادہ منویہ کے لذیذ ذائقے کی وجہ سے آپ اسے پینے سے ہچکچا رہی تھیں لیکن اس صورتحال میں ذیادہ دیر تک منہ میں رکھنا ممکن نہیں تھا نہ ہی یہاں کوئی چیز موجود تھی جس میں اس مادے کی کثیر مقدار کو محفوظ کیا جا سکتا۔ مجبوراً حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو یہ مادہ منویہ اپنے حلق سے اتارنا ہی پڑا۔ یہ بات یاد رہے کہ اس تمام عمل کے دوران یزید اور حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے بدن پر مکمل لباس موجود رہا تھا۔ محض یزید کا عضو تناسل ہی ان کے تہمد کی دراڑ سے باہر آ سکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ جسم ڈھانپا ہونے کے باوجود حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان نمی محسوس ہو رہی تھی۔ آپ نے عضو تناسل منہ سے نکالا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ یزید کا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے منہ سے نکلا تو سکڑ کر چھوٹا ہو چکا تھا اور فوراً ہی تہمد کے اندر سما گیا۔
جیسے ہی حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کھڑی ہوئیں، مسجد سے ظہر کی اذان شروع ہو گئی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اپنا حجاب درست کیا جو کہ یزید کی طاقتور گرفت کی وجہ سے سر سے سرک گیا تھا۔ یزید چونکہ خفیہ طور پر مدینہ آیا تھا اس لیے مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا اس کیلئے ممکن نہیں تھا۔ ممکن تو یہ بھی نہیں تھا کہ وہ نماز چھوڑ دے۔ وہ ہی کیا اس زمانے میں ہر مسلمان مرد اور عورت سب ہی نماز کے پابند تھے۔ نماز کو ہر کام پر فوقیت دی جاتی تھی۔ آج کی طرح نہیں کہ نماز پڑھتے ہی نہیں۔ یہاں ایک بات آپکے گوش گزار کرنا چاہوں گی۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ پیدائشی مسلمانوں کے مقابلے میں وہ لوگ اسلام کے زیادہ قریب ہیں جو کہ بعد میں مسلمان ہوئے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہم لوگ نماز اول تو پڑھتے ہی نہیں ذیادہ تر، دوسرا یہ کہ نہ پڑھنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں مثلاً میرا جسم پاک نہیں یا میرے کپڑے صاف نہیں جبکہ بعد میں مسلمان ہونے والے یہ باتیں نہیں بناتے بلکہ نماز کے وقت نماز ادا کرتے ہیں خواہ کسی بھی حالت میں ہوں۔ ایک انگریز عورت جو مسلمان ہو چکی تھی اس نے بتایا کہ وہ باقاعدگی سے ساحل سمندر پر جایا کرتی تھی۔ یورپی ملکوں میں ساحل سمندر پر اکثر لوگ برہنہ نہاتے ہیں۔ یہ خاتون بھی برہنہ نہانا پسند کرتی تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب سے مسلمان ہوئی تھیں انہوں نے نماز قضا نہیں کی اگرچہ کتنا ہی ضروری کام کیوں نہ ہو۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ سمندر کی لہروں میں برہنہ نہا رہی ہیں۔ نماز کا وقت ہوا تو وہیں سمندر کے پانی سے وضو کیا اور پانی سے باہر آ کر ریت پر نماز ادا کر لی۔ غور کریں۔ انہوں نے ہماری طرح بہانے نہیں بنائے۔ ان کی جگہ کوئی پیدائشی مسلمان ہوتا یا ہوتی تو سب سے پہلے تو یہ کہنا تھا کہ بنا کپڑوں کے نماز نہیں ہو گی، پھر کہنا تھا جگہ نہیں ہے پڑھنے کیلئے۔ یقین مانیے یہ سب حیلے بہانے ہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز اللہ کیلئے ہے اور اللہ کیلئے سب سے اہم چیز نیت ہے۔ اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نماز کہاں ادا کی کیسے ادا کی یا کس حالت میں ادا کی۔ اگر آپ کی نیت صاف ہے تو اللہ قبول فرمانے والے ہیں۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ باوضو رہتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی اور امت کو بھی یہی تلقین فرماتے تھے کہ ہمیشہ باوضو رہنا چاہیے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا بھی معمول تھا کہ سو کر اٹھنے کے بعد حاجت سے فارغ ہو کر وضو فرماتی تھیں۔ آج بھی باوضو ہو کر ہی یزید سے ملنے کیلئے تشریف لائی تھیں۔ یزید بھی باوضو ہو کر ہی سفر روانہ ہوا تھا۔ اب تک کوئی ایسا عمل نہیں ہوا تھا کہ جس سے وضو کے باطل ہونے کا اندیشہ ہوتا۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے جو یزید کے عضو تناسل کو چوما اور اس سے نکلنے والے مادے کو نہ صرف چکھا بلکہ اپنے حلق کے راستے سے پیٹ میں اتار لیا، کیا اس سے وضو باطل نہیں ہوا؟ اس کا جواب میں آپ کو دیتی ہوں۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں کو جب دھویا کرتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہمد پر اور بعض اوقات قمیض پر بھی جا بجا سفید رنگ کے سخت قسم کے داغ لگے ہوتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے مادہ منویہ نکل کر جم گیا ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر صاف کیا کرتی تھی۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو کر اٹھے اور نماز پڑھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وضو کے بغیر ہی نماز پڑھیں گے؟ جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے خدیجہ! میرا اور میرے خاندان والوں کا وضو اتنا کچا نہیں جو نیند سے ٹوٹ جائے۔
اوپر جو میں نے احادیث بیان کی ہیں ان سے کئی باتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ حض��ر صلی علیہ وآلہ وسلم بھی ایک انسان تھے، عام انسانوں کی طرح ان کی بھی جنسی طلب اور خواہشات تھیں، ان کے عضو تناسل سے بھی مادہ منویہ کا اخراج ہوتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی نور کے بنے ہوئے تھے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ دوسری بات یہ کہ حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کا مادہ منویہ تہمد پر چپک کر خشک ہو جاتا تھا اور حضور اس حالت میں نماز بھی پڑھتے تھے۔ تیسری بات یہ کہ نیند سے وضو ٹوٹنا ہمارے لئے تو ممکن ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے خاندان والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ مادہ منویہ کے اخراج، اسے چھونے چکھنے یا پینے سے وضو کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ نماز کیسے ادا کی جائے کیونکہ سب لوگ تو مساجد میں ہی نماز ادا کیا کرتے تھے جہاں امام جماعت کرواتا تھا۔ گھر میں نماز ادا کرنے کا یہ پہلا واقعہ تھا حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اور یزید دونوں کے لیے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا جس سہیلی کے گھر تشریف لائی تھیں وہ بھی اذان کی آواز سنتے ہی مسجد کی جانب روانہ ہو چکی تھی۔
نماز پڑھنے پر تو یزید اور حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا دونوں کا اتفاق تھا۔ سوال امامت کا تھا۔ یزید اہل بیت کے مقام اور مرتبہ سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا تعلق دنیا کے معزز ترین خاندان سے ہے اور ان کی موجودگی میں یزید کو نماز کی امامت کا خیال بھی اپنے ذہن میں نہیں لانا چاہئے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو بھی اس بات کا احساس تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بنا کچھ کہے آپ نے جائے نماز بچھائی اور امامت کیلئے قبلہ رخ ہو کر کھڑی ہو گئیں۔
ذرا رکئے اور چودہ سو سال فارورڈ آ کر سوچئے کہ آج اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے۔ باقی باتیں تو اپنی جگہ لیکن عورت سے نماز کی امامت کا حق بھی چھین لیا گیا۔ رنگ برنگے مفتیوں نے فتاویٰ جاری کر دئے کہ عورت نماز کی امامت نہیں کر سکتی، نہ ہی عورت ��یڈر ہو سکتی ہے۔ یاد رکھئے کہ یہ سب علما سو ہیں۔ جب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ وہ نماز کی امامت کرے تو یہ کون ہوتے ہیں اس سے یہ حق چھیننے والے۔ یہ سلسلہ تب شروع ہوا تھا جب حضور صلی علیہ وآلہ وسلم تبلیغ کے سلسلے میں دور دراز کا سفر کیا کرتے تھے اور ان کی غیر موجودگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا امامت کے فرائض انجام دیا کرتی تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد باقی امہات المومنین نے بھی یہ فریضہ انجام دیا۔ سب سے ذیادہ لمبے عرصے تک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے امامت فرمائی کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبا عرصہ حیات رہی تھیں۔
ایک اور مسلہ بتاتی چلوں کہ جب نماز با جماعت کے کل ارکان کی تعداد دو ہو تو مقتدی کو امام کے پیچھے اس طرح کھڑا ہونا پڑتا ہے کہ دونوں میں فاصلہ ایک بالشت سے ذیادہ نہ ہو۔ یزید نے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے عقب میں اسی طرح کھڑے ہو کر باآواز بلند تکبیر پڑھی۔ تکبیر مکمل ہونے پر حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے بلند آواز میں اللہ اکبر کہا اور ہاتھ کانوں تک اٹھا کر اپنے پستانوں پر باندھ لئے۔ قارئین کے علم میں اضافے کی نیت سے یہ بتانا چاہتی ہوں کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک میں خواتین اور مردوں کی نماز کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ درست غلط کا تو پتہ نہیں البتہ یہ ضرور پتہ ہے کہ جس طریقے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی خواتین نے نماز ادا کی وہ غلط نہیں ہو سکتا۔ آج خواتین پستانوں سے اوپر ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتی ہیں۔ یہ طریقہ نہ جانے کس نے ایجاد کیا لیکن یہ طریقہ درست نہیں۔ اس سے نماز مکروہ ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ درست طریقہ پر نماز ادا کرنے کیلئے ہاتھ پستانوں کے عین اوپر ہونے چاہئیں۔ دائیاں ہاتھ دائیں پستان پر اور بائیاں ہاتھ بائیں پستان پر۔
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے ہاتھ اپنے پستانوں پر باندھ لئے۔ یاد رہے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی آواز انتہائی سریلی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ ان کی آواز سننے کا بعض لوگوں پر ایسا اثر ہوتا تھا کہ کھانا پینا بھول جاتے تھے۔ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کی آواز میں یہ لذت صرف خاندان اہل بیت سے تعلق کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ آپ رضی اللہ عنہا کی کوئی خاص خوراک بھی تھی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ ان کی آواز کیوں سریلی تھی اس پر تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی آواز کے جادوئی اور سریلی ہونے پر سب متفق ہیں۔ اتنی سریلی آواز میں اللہ اکبر سن کر یزید بھی سکتے میں آ گئے تھے۔ اس ملاقات میں حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی بامعنی آواز پہلی بار ہی سنی تھی انہوں نے۔ اس سے پہلے تو محض غوں غاں کی آوازیں ہی سن پائے تھے جب اپنا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن مبارک میں پھنسایا ہوا تھا۔ آواز تو غوں غاں کی بھی یزید کیلئے کم دلچسپ نہیں تھی لیکن اس غوں غاں کا مقابلہ اس آواز سے تو ہر گز نہیں کیا جا سکتا جس سے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اللہ اکبر کہا تھا۔ یقیناً یہ اسی آواز کا جادو تھا کہ یزید کا عضو تناسل جو کہ مادہ منویہ کے اخراج کے بعد اب سکڑ کر تہمد کے اندر سو رہا تھا، اس میں پھر سے زندگی کے آثار نمودار ہونے لگے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے پہلے دل میں ثنا پڑھی، پھر سورہ فاتحہ اور پھر ایک اور سورۃ پڑھی۔ دل میں اس لئے کہ یہ ظہر کی نماز تھی اور بلند آواز میں تلاوت کا حکم صرف فجر مغرب اور عشا کی نمازوں کیلئے ہے۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کیلئے ہے اور اس میں خشوع و خضوع کی اہمیت بے پناہ ہے۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خشوع و خضوع مثالی تھا۔ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے تو ان کی تمام تر توجہ اللہ کی جانب ہوتی تھی اور دل دنیاوی خیالات اور خواہشات سے پاک ہوتا تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی تمام تر توجہ نماز پر ہی مرکوز تھی لیکن یزید کو آج زندگی میں پہلی مرتبہ نماز میں خشوع و خضوع برقرار رکھنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ اس میں اس کا قصور بھی نہیں تھا۔ اتنے عرصے کے بعد اپنی بچپن کی محبوبہ سے ملاقات ہوئی تھی اور ملاقات بھی ایسی کہ محبوبہ نے انہیں جنت کی سیر ہی کروا دی تھی۔ یزید کا ذہن بار بار گزرے لمحات کی طرف جا رہا تھا۔ ان لمحات کی طرف جن میں یزید کا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن مبارک میں تھا۔ دراصل اس وقت تو یزید اس قدر سرور کی حالت میں تھا کہ اسے اپنے ارد گرد کا کچھ پتہ نہ چل سکا لیکن اب جبکہ وہ کافی حد تک ٹھنڈا ہو چکا تھا تو وہ واقعات اس کے ذہن میں آتے جا رہے تھے۔ یزید نے لاکھ کوشش کی کہ ان خیالات کو جھٹک کر نماز کی جانب توجہ دے لیکن ان خیالات نے پیچھا نہ چھوڑا۔ سونے پر سہاگہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی سریلی آواز تھی۔ جب حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے رکوع میں جانے کیلئے اللہ اکبر کہا تو اس وقت تک یزید کا عضو تناسل تقریباً نوے فیصد تن چکا تھا اور تہمد سے باہر لٹکا ہوا تھا۔ چونکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اور یزید کے درمیان فاصلہ صرف ایک بالشت کا تھا اس لئے دوران قیام تو کوئی مسلہ نہیں ہوا لیکن جب رکوع میں جانے کیلئے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا جھکیں تو تو ان کے کولہے پیچھے کی جانب ہوئے جس کی وجہ سے یزید کا عضو تناسل آپ رضی اللہ عنہا کے کولہوں کے درمیانی حصے سے چھو گیا۔ یہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ یزید کا عضو فوراً اسی تناؤ کی کیفیت میں واپس آ گیا جس میں وہ پہلے تھا۔
129 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
خوف و شرمندگی کی ایک رات
زندگی کے کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو آپ کسی کو بتا نہیں سکتے نہ ہی دہرا سکتے ہیں لیکن ان رازوں کے ساتھ جینا بھی مشکل ہو جاتا ہے. انسان کا دل کرتا ہے کہ وہ کسی وہ سب بتاے جو اس پر گزری ہے لیکن کوئی اس کو اس سب پر جج نہ کرے. ایسا ہی ایک واقعہ مجھ ایک دوست نے یہاں سنایا اور اس کی خواہش تھی کہ میں اس کو سب کے لیے بیان کروں… آگے اپ خود پڑھ لیں
یہ واقعہ آج سے بارہ سال قبل میرے ساتھ پیش آیا. میرا نام یاسر ہے اور یہ واقعہ صرف میں اپنے دماغ سے بوجھ اتارنے کے لیے شئر کر رہا ہوں. آپ لوگ اس پر کیا رائے رکھتے ہیں وہ آپ کی اپنی مرضی.
Tumblr media
دسمبر دو ہزار سات کی اس شام اور رات کا واقعہ ہے جب دہشتگردوں نے بے نظیر کو شہید کر دیا. آنا فاناً ہمارے شہر میں مظاہرے اور توڑ پھوڑ شروع ہو گئی میری بہن صوفیہ ایک کمپنی میں مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں جاب کرتی تھی اس کا فون آیا کہ کمپنی کی گاڑیاں مظاہروں کی وجہ سے نہیں نکل پا رہی اور تم مجھے آ کر لے جاو. میں نے گھر میں بتایا اور فوراً بائیک لے کر نکل گیا تا کہ جلدی سے صوفیہ کو لے کر واپس آ سکوں. پورے راستے میں جگہ جگہ روڈ بلاک تھی کئی جگہ پر گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگی ہوئی تھی. اور ہر طرف سے مظاہرین آ رہے تھے.
خیر میں بیس سے پچیس منٹ میں وہاں پہنچ گیا اور صوفیہ کے آفس گارڈ کو بتایا کہ اس کو بلا دے. تھوڑی دیر میں صوفیہ آ گئی اور پوچھنے لگی کہ راستے کھلے ہیں میں نے بتایا کہ کافی جگہ سے بند ہیں لیکن بائیک کی وجہ سے نکل آیا میں. خیر ہم نے واپسی کاسفر شروع کیا لیکن اب مظاہرے اور شدید ہو چکے تھے مظاہرین گاڑیوں اور بایکس سے لوگوں کو اتار اتار کر توڑ رہے تھے… اور اندھیرے وغیرہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کے ساتھ نازیبا حرکات اور بدتمیزی بھی کر رہے تھے جس کو دیکھ کر میں کافی خوفزدہ ہو گیا اور صوفیہ کو کہا کہ ہمیں کسی اور راستے سے نکلنا چاہیے. میں نے ایک کچی ابادی کی طرف سے کافی لمبا راستہ لیا تا کہ شہر کے مرکزی علاقے سے ہٹ کر ہم اپنے گھر کی طرف جا سکیں.. یہ راستہ کچا تھا لیکن اس پر کوئی گڑ بڑ نہیں تھی ہم کچی آبادی کے ساتھ ساتھ سے ہوتے ہوئے کافی آگے نکل آئے اور ایک نالے کے ساتھ سے راستہ نہ ہونے کی وجہ سے بائک سے اتر کر نالے کو کراس کیا اور پار چڑھ گئے. یہ علاقہ بھی ابھی غیر اباد تھا کسی نئ ہاؤسنگ کالونی کا اکا دکا گھر بنے تھے. جب ہم نالے کو کراس کر کے ادھر پہنچے تو آگے ایک پچیس چھبیس سال کا لڑکا ہمیں کہنے لگا کہ آپ لوگ ادھر سے نہ جائیں آگے راستہ بند ہے اور آپ لوگوں کے لیے مشکل ہو گی.. میں نے اسے بتایا کہ ہم پہلے ہی اس وجہ سے اتنا لمبا راستہ لے کر آ رہے ہیں. اس نے کہا کہ آپ کی مرضی ہے لیکن آپ کے ساتھ لیڈی بھی ہیں تو آپ کے لیے مسئلہ ہو سکتا ہے. پھر اس نے کہا کہ آپ لوگ یہاں رک جائیں اور رات تک جب حالات ٹھیک ہو جائیں تو نکل جائیں.. میں نے کہا کہ اس ویرانے میں رکنا بھی تو ممکن نہیں. اس نے کہا کہ آپ لوگ ہمارے گھر میں رک سکتے ہیں میری والدہ گھر پر ہیں آپ لوگ اگر بھروسہ کر سکتے ہیں تو میرے گھر چلے چلیں. اس کا گھر اس گلی میں نکڑ پر تھا… میں نے صوفیہ سے پوچھا تو اس نے بھی کہا کہ کچھ انتظار کر کے چلے جاتے ہیں.. خیر ہم اس اجنبی لڑکے کے ساتھ اس کے گھر چل پڑے. گھر جا کر اس نے بائیک بھی اندر کھڑا کروا دیا کہ باہر سے کوئی نقصان نہ ہوہمیں اندر کمرے میں لا کراپنی والدہ کو آواز دینے لگا…. پھر کہنے لگا کہ شاید اس کی والدہ نزدیک ہی ایک گھر میں گئی ہوئی وہ ان کو بلا کر لاتا ہے اور ساتھ ہی اس نےکہا کہ آپ لوگ اپنے گھر فون کر کے بتا دو. بد قسمتی سے ہمارے فون کی کوریج نہیں تھی پھر اس نے اپنے فون سے ہی کہا کہ ملا کر بتا دو. میں نے امی کو فون پر بتایا کہ اس طرح ہم ابھی ایک گھر میں ہیں اور حالات ٹھیک ہونے پر آ جاییں گے. وہ بھی پریشان ہو گئیں امی کو بتایا کہ ایک فیملی کے ساتھ ہیں تو وہ کچھ بہتر ہوئیں. خیر اس لڑکے نے کہا کہ وہ ابھی اپنی والدہ کو بلا کر لاتا ہے اور باہر چلا گیا کمرے میں ایک بیڈ اور ایک ٹی وی تھا اس کے علاوہ کرسی اور میز اور ایک صوفے کا حصہ تھا… دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے یہاں کوئی اکیلا ہی رہتا ہے. لڑکے کو گئے ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی اورگیٹ بھی آگے سے بند تھا… ہم نے اندر سے آواز دینے کی کوشش کی لیکن وہاں کوئی سننے والا ہوتا تو باہر سے کھولتا.. اب ہمیں تھوڑی پریشانی ہونے لگی تھی.. تھوڑی دیر میں بائک کی آواز آئی اور گیٹ کھلنے کی تو ہماری جان میں جان آئی لیکن جب اس لڑکے کے ساتھ اس کی ماں نہیں بلکہ اس کی عمر کا ایک اور مسٹنڈا تھا جس نے آتے ہی صوفیہ کو ایسے دیکھا کہ مجھے سب پتہ چل گیا کہ ہم نے کتنی بڑی غلطی کر دی ہے… اس نے صوفیہ کو دیکھتے ہی کہا کہ یار بھی مست پیس ہے. صوفیہ مارکیٹنگ میں جاب کرنے کی وجہ سے اس کا لباس وغیرہ واقعی بہت اچھا ہوتا تھا. دوپٹہ سر پر نہیں لیتی تھی لیکن اس کو دیکھ کر صوفیہ نے اپنا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کی اور اس نے نہایت بازاری انداز میں صوفیہ کا دوپٹہ کھینچ کر کہا کہ ارے ابھی تو بہت کچھ دیکھنا ہے تمہارا… میں نے غصے سے اٹھ کر اس مسٹنڈے کو مارنا چاہا تو اس نے رکھ کر ایک چپیڑ مجھے ایسی لگای کہ میں کئی فٹ دور جا کر گرا.. خیر بہن کو اپنی نظروں کے سامنے تو ایسے نہیں دیکھ سکتا تھا تو میں نے دوبارہ اٹھ کر ان دونوں لڑکوں کے ساتھ لڑنے کی کوشش کی.. دوسرے لڑکے نے پتہ نہیں کہاں سے پسٹل نکال کر میری ساتھ لگایا اور اپنے ساتھی کو کہنے لگا کہ پہلے اس کو مار کر پھینک آتے ہیں… یہ سنتے ہی صوفیہ ان سے منتیں کرنے لگی اور رونے لگی کہ میرے بھائی کو کچھ نہیں کہنا… پسٹل دیکھ کر میں بھی ڈر گیا… خیر انہوں نے کہا کہ اب اگر میں نےکوی ایسی حرکت کی تو وہ مجھے گولی مار دیں گے انہوں نے مجھے کرسی پر باندھ دیا اور اب وہ صوفیہ کو کھل کر چھیڑ رہے تھے.. کبھی گشتی کبھی رنڈی کہ کر اس کے جسم کے ایک ایک حصے کو ہاتھ لگا رہے تھے جس کودیکھ کر میرا دل کر رہا تھاکہ زمین پھٹ جاے اور میں اس میں دفن ہو جاؤں…صوفیہ کا خوف کےمارے برا حال تھا دسمبر کے باوجود اس کو پسینہ آیا ہوا تھا اور اس کی قمیض پیچھے سے کمر کے ساتھ چپکی اور بغلوں سے گیلی ہو رہی تھی.
————اختتام حصہ اول - - - - - - - -
200 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
خوف اور شرمندگی کی ایک رات
Tumblr media
پارٹ ٹو.
.. وہ دونوں قمیض کے اوپر سے ہی صوفیہ کے ممے دبا رہے تھے صوفیہ اپنے ہاتھوں سے کبھی ایک کو پیچھے کرتی کبھی دوسرے کے ہاتھ. ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ میں ان کو کہ دوں کے مجھے کمرے سے باہر نکال دیں تا کہ میں یہ سب نہ دیکھ سکوں لیکن پھر خیال آیا کہ صوفیہ کیا سوچے گی درندوں کے سامنے چھوڑ دیا اسے.
اب میں نےان دونوں کی منتیں شروع کر دی کہ ہم شریف لوگ ہیں اور ہماری عزت خراب نہ کرو… میری بہن کی عزت پر ہاتھ نہ ڈالو.. ساتھ ان کی بہن کی عزت کا واسطہ دینے لگا صوفیہ بھی ان کی منتیں کر رہی تھی.. جب��ہ وہ دونوں اس طرح لگے ہوئے تھے. ہماری بار بار کی منتوں پر انہوں نے کہا کہ تم لوگوں کہ بہتری اسی میں ہے کہ چپ چاپ ہمیں کرنے دو جو کر رہے ہیں. اگر ایسے شور کیا تو عزت کے ساتھ جان بھی جائے گی تم دونوں کی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کہاں گئے تم.. پسٹل والے مسٹنڈے جس کو دوسرا بلال کہ کر بلا رہا تھا اور وہ اسے جارج کہ کر بلا رہا تھا .شاید کرسچن تھا وہ. بلال صوفیہ کے ممے دبا رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنا ہاتھ صوفیہ کی شلوار میں ڈال رہا تھا.. اور منہ سے انتہائی گندی باتیں بھی کر رہا تھا. اس نے کہا کہ اگر صوفیہ کنواری ہوی تو وہ اس کے ساتھ کچھ نہیں کرے گا لیکن اگر اس کی چوت کھلی ہوئی تو پھر ہم دونوں کا بھی حق ہے. اور اس نے کہا کہ اس صورت میں میں چپ کر بیٹھوں گا اور صوفیہ کو کہنے لگا کہ اگر پہلے سے چدی ہوی ہو تو تمہیں پھر گشتیوں کی طرح پورا ننگا کر کے چودیں گے..
مجھے یہ سن کر اطمینان ہوا کہ صوفیہ تو کنواری ہی ہو گی بس یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کی کنواری چوت دیکھ کر ان کی نیت خراب نہ ہو جائے. خیر بلال نے صوفیہ کو کہا کہ اپنی شلوار اتارو تمہاری چوت دیکھ کر پتہ چل جاے گا.. صوفیہ کچھ لیت و لعل سے کام لے رہی تھی کہ اس نے گرج کر کہا کہ جو کہا ہے وہ کر گشتی کی بچی… صوفیہ نے اپنی شلوار نیچے کر دی اور اس نے قمیض ہٹا کر کہا کہ نیچے کچھ اور پہنا ہوا ہے.. نیچے صوفیہ کی گوری ملائم ٹانگوں پر بلیک جالی دار پینٹیز نظر آ رہی تھی جارج نے اگے بڑھ کر اس کی پینٹی پر ہاتھ پھیر کر کہا بہن چود اس کی تو پینٹیز بھی گیلی ہو رہی ہے.. ایک ہاتھ ڈال کر اس نے ایک ہی جھٹکے میں پینٹی کو صوفیہ کے گھٹنے تک پہنچا دیا.. صوفیہ کی پینٹیز پر چوت والی جگہ پر سفید لیس دار مواد صاف نظر آ رہا تھا بلال نے اس کو بیڈ پر گرا کر اس کی پینٹی ایک ٹانگ سے ہٹا کر ٹانگیں پوری کھول دیں.. صوفیہ کی پھدی بالکل صاف تھی سواء اوپر ایک باریک بالوں کی پٹی کے.. اس نے دیکھتے ہی جارج کو کہا کہ شرط لگا لے یہ چدی ہوی ہے اس کی چوت نظر آ رہی ہے. دونوں نے کچھ دیر اس کی چوت کا معائنہ کیا اور صوفیہ سے پوچھا کہ بول رنڈی کس سے چدواتی ہے… صوفیہ نے کچھ نہیں بولا تو اس نے گالی دے کر کہا کہ بہن کی لوڑی اٹھ کر قمیض اتار.. میں نے کہا یار وہ کنواری ہے تو اب آپ چھوڑ دو اسے.. وہ دونوں ہنسنے لگے کہ بہن چود اس نے تیری سوچ سے سے بھی زیادہ لن لیے ہیں اتنی کھلی پھدی ہے ساتھ ہی اس کی ٹانگیں کھول کر ایک ساتھ تین انگلیاں ڈال دی اس کے اندر.. صوفیہ انگلیاں جانے پر کسمسا کر رہ گئی.. اس کی چوت سے کافی زیادہ سفید پانی جارج کی انگلیوں پر لگ چکا تھا. اس نے بلال کو کہا کہ یہ گشتی ابھی چدوا کر آئ ہے.. بلال نے بھی صوفیہ کی چوت میں انگلی ڈال کر معائنہ کیا اور اپنی انگلیا صوفیہ کے منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا کہ کس سے چدوا کر آ رہی ہے گشتی..
ممے چسوانے کے دوران صوفیہ کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ بھی مزے لے رہی ہے.. اب دونوں اس کو صوفے پر لے گئے اور انہوں نے اپنے کپڑے بھی اتارنے شروع کر دیے… دونو کے لن فل کھڑے تھے.. جارج کا لن آگے سے ختنہ نہیں ہوا ہوا تھا بلال کا لن کافی موٹا تھا..دونوں نے صوفیہ کے ہاتھوں میں اپنے لن پکڑا دیے.. صوفیہ دونوں کے لن کو ایکسپرٹ انداز میں ہاتھ میں ہلانے لگی.. وہ ان دونو کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی… ��س دوران انہوں نے صوفیہ کو بھی پورا ننگا کر دیا اور صوفیہ کے موٹے ممے اب ان بریزیر سے نکل کر ان دونوں کے ہاتھوں میں تھے…وہ تینوں اس طرح ایک دوسرے کو چوم چاٹ رہے تھے جیسے کمرے میں کوئی اور موجود نہیں ہو.
Tumblr media
بلال نے جارج سے کہا کہ اس سے ڈانس کرواتے ہیں… اور صوفیہ سے ہوچھا کہ ڈانس کر لیتی ہو.. صوفیہ ویسے شادی وغیرہ پر بہت اچھا ڈانس کر لیتی تھی.. اس نے کہا کہ صحیح ڈانس نہیں آتا.. تو انہوں نے کہا کہ ہم بے کونسا کسی فلم میں دکھانا ہے… جارج نے موبائل پر چھلا پوا دے ماہی گانا لگایا اور صوفیہ کو کہا کہ اس ہر ڈانس کرے.. صوفیہ نے اٹھ کر قمیض اٹھای تو بلال نے اس کی گانڈ ہر تھپڑ مار کر کہا گشتی تیرا ننگا مجرا دیکھنا ہے ہمیں چل ناچ.. صوفیہ کو لگا کہ اب احساس ہوا کہ میں بھی موجود ہوں تو وہ ڈانس کے لیے تیار نہیں ہو رہی تھی.. جارج نے اس کو کہا کہ تیرا بھائی بھی دیکھ کر مزے لے گا چل کنجری ناچ… میں نے مصنوعی جزبات بنا کر کہا کہ یا ر پلیز ایسا نہ کرواو میری بہن سے….
صوفیہ نے منہ پیچھے کر لیا تو بلال نے زور سے اس کے بال پکڑ کر کہا کہ گشتی کی بچی میں نے پہلے کہا ہے کہ سب کچھ آرام سے کرنے دو.. صوفیہ نے کہا کہ آفس میں باس سے کرتی ہوں.. اس نے پوچھا کی اندر ہی فارغ کرواتی ہے لوگوں کے لوڑے مادر چود.. گولیاں استعمال کرتی ہے کیا.. صوفیہ کا اقرار میرے لیے حیران کن تھا…. صوفیہ اب تقریباً مزاحمت چھوڑ چکی تھی… بلال نے اس کی قمیض بھی اتروا دی تھی.. لیکن بلیک بریزیر ابھی تک اس نے پہنا ہوا تھا…اور وہ دونوں بریزییر سے اس کا ایک ایک مما نکال کر چوس رہے تھے…. کرسی پر بندھے ہوئے میں یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن صوفیہ کے اقرار پر کہ وہ وہ اور لوگوں سے چدواتی ہے میرے شرمندگی کے جزبات کم ہو گئے تھے اور پتہ نہیں کیسے مجھے وہ سب دیکھتے ہوئے مزہ آ رہا تھا. لیکن مسئلہ یہ تھا کہ لن میرے ٹراؤزر میں کھڑا ہو گیا تھا اور ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے میں اس کو ادھر ادھر نہیں کر سک رہا تھا…
—–اختتام حصہ دوم - - - - - - - -
252 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
خوف اور شرمندگی کی ایک رات
پارٹ تھری
Tumblr media
صوفیہ ڈانس کے لیے اٹھی تو میں نے ایک بار ہھر ان لڑکوں سے کہا کہ ایسا نہ کرواو میری بہن سے. اس پر بلال نے پھر مجھے غصے سے دیکھا لیکن ساتھ ہی اس کی نظر میری ٹراوزر میں کھڑے لن پر پڑی تو وہ دوسرے کو مخاطب کر کے بولا کہ دیکھ اس بہن چود کو اپنی بہن چدتے دیکھ کرکیسے کھڑا ہے اس کا لن… اس پر صوفیہ نے بھی مڑکر دیکھا اور میں شرم سے پانی پانی ہو گیا کہ میری بہن کیا سوچے گی کہ اس کے ساتھ زنا بالجبر دیکھ کر میں گرم ہو گیا ہوں. جارج اٹھا اور آکر ایک ہی جھٹکے میں میرا ٹراوزر کھینچ کر نیچے کر دیا اور اب میرا لن سب کے سامنے کھڑا تھاجس پر تینوں ہنسنے لگے… صوفیہ اب اٹھ کر بیڈ کے سامنے خالی جگہ پر آ گئی اور ڈانس کرنے لگی… وہ ویسے بھی بہت اچھا ڈانس کرتی تھی لیکن ننگے ڈانس کا مزہ ہی کچھ اور تھا اس کے دونوں ممے بھی اچھل اچھل رہے تھے… وہ دونوں لڑکے بھی اس کے ڈانس پر خوب گندے کمنٹس جر رہے تھے اور صوفیہ شاید ان کے گندے کمنٹس پر اور جوش میں آ رہی تھی… اس کی چوت سے نکلتا پانی صاف نظر آ رہا تھا جو اس کی ٹانگوں کے ساتھ لگا ہوا تھا….. میرا بڑا دل کر رہا تھا کہ اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر ہلاوں لیکن ایسا کچھ نہیں کر پایا اور میرا لن اپنی بہن کے ہر ڈانس سٹیپ ہر ایک جھٹکا کھاتا اور میری لن سے پر ی کم نکل کر میرے ٹٹوں پر جا رہی تھی….
ڈانس کے دوران ہی بلال اور جارج بھی ننگے اس کے ساتھ اچھلنے لگے اور ساتھ ساتھ اس کے ممے پکڑتے اور چوت میں انگلی کرنے لگے… تھوڑی ہی دیر میں ڈانس سے اب وہ تینوں چدای کے موڈ میں آ چکے تھے… صوفیہ دونوں کے درمیان بیٹھی ان کے لن چوس رہی تھی اور ان دونوں کی ننگی گالیاں جو پہلے صرف صوفیہ کے لیے تھیں اب اس میں وہ مجھے اور امی کو بھی گالیاں دے رہے تھے.. بلکہ ہماری پیدائش کو بھی وہ اپنے کمنٹس میں کسی حرام اور زنا کا نتیجہ قرار دے رہے تھے… صوفیہ جس طرح کبھی ایک کا لن منہ میں لیتی کبھی دوسرے کا اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ پورا لطف لے رہی ہے. جبکہ میرا لن جس طرح جھٹکے کھا رہا تھا اس سے سب میرے جزبات ویسے ہی عیاں ہو رہے تھے.
جارج کےکالے لن کے اگلے حصے سے اس کی گلابی ٹوپی اب باہر نکل چکی تھی اور بلال کا لن بھی اب فل کھڑا تھا… صوفیہ نے خود ہی اٹھ کر اس کو بیڈ پر دھکا دیا اور اس کے لن پر بیٹھ گئی اور رنڈیوں کی طرح چدنے لگی بلکہ اس کے جوش سے لگ رہا تھا کہ کہ وہ اسے چود رہی ہے…
Tumblr media
جارج اب اس کے منہ میں لن دے رہا تھا اور صوفیہ بلال کے لن پف اچھل رہی تھی جب کہ دونوں کے ہاتھ اس کے مموں کو نوچ رہے تھے.. کمرے میں گالیوں اور سسکاریوں کی آواز ہی تھی اب مجھے یقین تھا کہ کسی بھی لمحے میرے لن کی برداشت ختم ہو جاے گی. بلال نے صوفیہ کو کہا کہ مادر چود رنڈی اب نیچے ہو میں بھی تجھے چودتا ہوں اور ساتھ ہی اس نے صوفیہ کو اپنے اوپر سے نیچے بیڈ پر گرایا…. جارج نے اسے کہا کہ اب اسے ڈالنے دے لیکن اس نے کہا کہ پہلے مجھے پورا کرنے دو… بلال کے لن اور صوفیہ کی چوت پر چوت کا پانی اب سفید کریم کی طرح نظر آ رہا تھا….صوفیہ کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھ کر بلال نے اپنا لن میری بہن ک�� چوت میں اتار دیا اور زور زور سے جھٹکے دینے لگا.. صوفیہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ٹانگوں کو پکڑ کر کھولا ہوا تھا اور جارج نے اپنا لن اسے منہ میں دیا ہوا تگا ساتھ ساتھ وہ اپنے ٹٹے بھی صوفیہ سے چسوا رہا تھا. تھوڑی ہی دیر میں بلال نے لن صوفیہ کی چوت میں اپنی منی خارج کرنا شروع ہو گیا.. اور چند لمحوں بعد اس نے اپنا لن نکالا اور جارج نے صوفیہ کو اپنے لن پر بٹھانے کے لیے خود بیڈ پر لیٹا اور صوفیہ ا سکے اوپر چڑھنے لگی… اس پوزیشن میں صوفیہ کی چوت سے بلال کی گاڑھی منی باہر نکل رہی نظر آ رہی تھی. اپنی سگی بہن کی چوت سے ایک غیر مرد کی منی نکلتے دیکھ کر اور پھر بلال کا منی سے لتھڑا ہوا لن صوفیہ کو چوستے دیکھ کر میرا لن بغیر ہاتھ لگاے ہی فارغ ہو گیا اور منی کا فوارہ کئی جھٹکوں کے ساتھ نکل کر میری رانوں پر گرا..
بلال کا لن صاف ہو چکا تھا اور اس نے ایک طرف لیٹ کر سگریٹ لگا لی تھی. جبکہ جارج اور صوفیہ اب فل چدای کر رہے تھے… جارج نے اسے نیچے کیا اور صوفیہ کا سر اب بلال کے لن پر تھا اور جارج اس کے اوپر چڑھ کر اس کی چوت میں لن اندر باہر کر رہا تھا.. صوفیہ کی سسکاریا ں کمرے میں گونج رہی تھیں.. بلال نے صوفیہ کے ہونٹوں کے ساتھ سگریٹ لگایا تو صوفیہ نے ایسے کش لیا جیسے وہ کوئی سموکر ہو… تھوڑی دیر میں جارج کا لن بھی میری سگی بہن صوفیہ کی چوت کی گرمی کی تاب نہ لا سکا اور اس نے جھٹکوں کے ساتھ منی صوفیہ کی پھدی میں نکال دی اور سائڈ پر ہو کر وہ بھی بیڈ پر گر گیا.. تنیوں ایک بھرپور چدای کے بعد ریلیکس ہو کر لیٹے ہوے تھے میری بہن فل ننگی دونوں کے ساتھ سگریٹ پینے میں مصروف تھی اور اس نے ان کو کہا کہ کوئی ٹشو یا کپڑا دو چوت صاف کرنے کے لیے.. جارج نے اس کی پینٹی اٹھای اور اپنا لن اس سے صاف کر کے وہی اس کو دی کے لے گشتی صاف کر لے اپنا پھدا.. اور ساتھ اس نے میری طرف دیکھا اور میرے لن کو دیکھ کر اندازہ ہو گیا اس کو کہ کیا ہو چکا ہے… ایک دفعہ پھر مجھے انتہائی گندی گالیاں سننے کو ملی کہ بہن کو چداواتے دیکھ کا گانڈو مادرچود کی مٹھ نکل گئی.. خیر اس نے میرے ہاتھ کھول دیے لیکن رانوں پر پڑی منی کی وجہ سے میں ٹراوزر اوپر نہیں کر سکتا تھا.. بلال نے صوفیہ کی پینٹی ہی پاوں سے میری طرف پھینکی اور گالی دے کر کہا یہ لے مادر چود اپنی گشتی بہن کے چوت کے کور سے تو بھی اپنا حرامی لن صاف کر لے.. میں نے پینٹی اٹھا کر اپنی ٹانگیں اور لن صاف کیا ان دونوں کی منی اور بہن کی چوت کے پانی کی وجہ سے لن صاف ہونے سے زیادہ اور چپ چپا ہو رہا تھا… خیر جیسے تیسے کر کے ٹراوزر اوپر کیا.. وہ تینوں بھی کپڑے پہن چکے تھے. صوفیہ نے پانی مانگا تو ایک نے پاس پڑی بوتل کی طرف اشارہ کیا.. صوفیہ نے پرس سے ایک گولی کا پیکٹ نکال کر گولی کھائ اور دونوں اس کو کچھ اور گندے القابات دیتے رہے. صوفیہ نے دوبارہ پرس سے برش نکال کر اپنے بال وغیرہ سیٹ کیے اور لپ اسٹک وغیر لگا کر وہ دوبارہ وہی شریف بہن بن چکی تھی .. خیر اس سب میں اس وقت تک رات کے گیارہ بج چکے تھے… پچھلے پانچ گھنٹے میں میری دنیا زیر زبر ہو چکی تھی.. اب وہ ہمیں ساتھ لےطکر نکلے اور کافی آگے تک آ کر چھوڑ گئے… میں بائک پر اپنی بہن کو لیے پتہ نہیں کس رفتار سے جا رہا تھا لیکن میرے زہن میں کئی آندھیاں چل رہی تھیں…. کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس سب کے ساتھ اب کیسے گھر جاؤں گا… صوفیہ بھی بالکل خاموش تھی.. گھر سے تھوڑی دیر پہلے صوفیہ نے مجھے کہا کہ گھر میں اس پر کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں بالکل نارمل انداز رکھنا تا کہ کسی کو کچھ پتا نہ چلے کہ کچھ ہوا ہے… میں نے کہا کہ امی نے کچھ پوچھا تو کہنے لگی کہ امی کے سب سوالوں کو وہ ہینڈل کر لے گی… خیر گھر پہنچے تو امی کی جان میں جان آی.. صوفیہ نے امی کو بس یہی بتایا کہ ایک بوڑھی عورت کے گھر پر تھے اور جب حالات ٹھیک ہوے تو ہم آ گئے…. میں اس دن کے بعد بھی کبھی صوفیہ سے ا�� معاملے پر بات نہیں کر سکا.. اگرچہ میں اس سب کو یاد کر بہت دفعہ مٹھ لگا چکا تھا.. صوفیہ ویسے بھی مجھ سے بڑی تھی اس لیے اس کو کسی بات سے روکنا تو میرے لیے نا ممکن تھا… صوفیہ نے بھی کبھی اس رات کے بارے میں یا میرے ردعمل پر کوئی بات نہیں کی. وہ بدستور ایسے ہی رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.. زندگی دوبارہ اپنی ڈگر پر چل پڑی لیکن اس رات کا یہ راز ہم دونوں کے سینے میں رہا.. اور اج اس بات کو پہلی بار میں نے آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا… مجھے نہیں معلوم آپ لوگ کیا کرتے اس طرح کے حالات میں.. شاید میں بز دل تھا.. شاید مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا… آپ اگر اپنی رائے دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں میرے ساتھ جو بیتنی تھی وہ بیت چکی…
—————–اختتام————-
شاید آپ لوگوں کے زہن میں ہو کے اتنے سال گزرنے کے بعد کیا ہو چکا ہے اب تک تو صوفیہ اسی کمپنی میں اب مارکیٹنگ مینیجر ہے. خاندان کی سب سے قابل عورت سمجھی جاتی ہے ہر تین مہینے بعد وہ اپنے باس کے ساتھ “بزنس” ٹرپ پر کسی دوسرے ملک بھی جا رہی ہوتی تھی.. کچھ سال بعد اس کی شادی بھی ہو گئی تھی. تین سال قبل میری شادی بھی ہو گئی اور بچے بھی لیکن اس رات کا منظر آج بھی میری آنکھوں میں ہوتا ہے جب میں اپنی بیوی کے ساتھ چدای کر رہا ہوتا ہوں… شاید اسی وجہ سے اب میں اپنی بیوی کو کسی سے چدتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں.. لیکن شاید یہ ممکن ہی نہ ہو کبھی….
304 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
تحریر بشکریہ @salehabajiofficial
ہم اکثر سنتے ہیں کہ سائینس جن چیزوں کو آج ڈسکور کر رہی ہے، اسلام ان ہی چیزوں کے بارے میں مسلمانوں کو چودہ سو سال پہلے ہی آگاہی فراہم کر چکا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں کئی مثالیں علما دیتے ہیں۔ مثلاً جب چاند پر انسان نے قدم رکھے تو جو ایک لکیر انہیں نظر آئی وہ علما کے مطابق وہ لکیر تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چاند کے دو ٹکڑے کرنے سے پیدا ہوئی تھی۔ اس ہی طرح کی اور بھی امثال موجود ہیں۔ میں جس چیز کی جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ جنسی کھلونے اور ان کے استعمالات ہیں۔ سائنس اور اسلام آپس میں متضاد نہیں ہیں۔ یاد رکھئے اللہ نے قرآن مجید میں ہمیں تحقیق کا حکم دیا ہے اور ہمیں کسی ایک موضوع تک محدود نہیں فرمایا۔ انسانی بدن پر تحقیق نہ صرف طبی مقاصد کیلئے مفید ہے بلکہ اس سے ایسی چیزیں بھی سامنے آتی ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے جسم کو مزید صحت مند رکھ سکتے ہیں۔ اسی تحقیق کا نتیجہ ہم آئے دن نت نئی دوائیوں اور ورزش کے نئے سے نئے طریقوں کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ بدن پر سائنسی تحقیق کے نتیجے میں ہی ایسے کھلونے ایجاد کئے گئے ہیں جو کہ ہماری جنسی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ایک بات یاد رکھیں ہمیشہ۔
اسلام آسانی کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی کسی ایسے کام کا حکم نہیں دیتے جو کہ انسانی جسم کیلئے دشوار ہو۔ آج اسلام کے نام پر جو مسالک وجود میں آ گئے ہیں ان میں سے ہر ایک نے اپنی دکان کھول رکھی ہے اور فتاویٰ بانٹتے ہیں۔ کئی چیزیں جن کی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ہے، یہ علما سو مسلمانوں پر ان چیزوں کو حرام قرار دے دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام غیر مسلموں کی نظر میں بدنام ہو جاتا ہے۔ انہی چیزوں میں یہ جنسی کھلونے بھی شامل ہیں۔ کھلونے کا لفظ تو اب استعمال ہونے لگا ہے جبکہ یہ اوزار صدیوں سے رائج ہیں۔ ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی ہمارے جسم میں جنسی اعضا رکھے ہیں اور جنسی طلب کا پیدا ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہی ہے۔ جنسی طلب ہر بالغ مرد اور عورت میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اسے دبا دیا جائے جیسا کہ علما ہمیں بتاتے ہیں۔ اس کے نقصانات بھی ہیں جن سے ہمیں جان بوجھ کر آگاہ نہیں کیا جاتا۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ جنسی طلب کا کوئی حل نہ نکالنے کی صورت میں یہ اکٹھی ہوتی جاتی ہے اور بالآخر ایک مقام ایسا آتا ہے کہ یہ انسان کے بس میں نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان زنا کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔
اسلام میں زنا کی ممانعت ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کریم میں واضح احکامات موجود ہیں لیکن جنسی خواہشات کے اطمینان کیلئے اسلام نے مختلف طریقوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ سب سے بہتر تو نکاح ہے۔ بدقسمتی سے نکاح کو ہمارے معاشرے میں مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ نکاح کرنے کیلئے اب لوگ اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ پہلے اچھی خاصی دولت اکٹھی کر لیں۔ دوسرا طریقہ عارضی نکاح کا ہے۔ اس کو شیعہ مسلک میں متعہ کہا جاتا ہے لیکن یہ باقی مسالک میں مختلف ناموں سے رائج ہے۔ اس عارضی نکاح میں دولت تو ذیادہ خرچ نہیں ہوتی لیکن نکاح کیلئے دو افراد لازمی ہیں۔ لہذا ایسے لوگ جنہیں نکاح کیلئے ساتھی نہیں ملتا وہ اپنی جنسی پیاس کیسے بجھائیں۔ ان کیلئے اسلام میں یہ اجازت ہے کہ کسی ایسی کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ کوئی بھی ایسی بے جان چیز جس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو، اسے استعمال کر کے اپنی پیاس بجھا سکتے ہیں۔ اسلام کی یہ خاصیت ہے کہ اپنے پیروکاروں کو کسی ایک چیز تک محدود نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ ایک سے زیادہ آپشنز دستیاب کرتا ہے۔
اسی لئے بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بعض غیر شادی شدہ اور بعض رنڈوے یا طلاق یافتہ صحابہ کرام نے اپنی جنسی بجھانے کیلئے جانوروں کا استعمال بھی کیا۔ ایسی روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن ہیں کثیر تعداد میں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایسی کوئی روایت اگرچہ دستیاب نہیں لیکن اہل بیت کے بارے میں ایسی ڈھیروں روایات ہیں کہ اہل بیت میں اکثر بالغ افراد بشمول خواتین جانوروں سے ازحد پیار فرمایا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ جانور اونٹ اور بکریاں تھے۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ تھیں، ان کے بارے میں یہ بات مختلف ذرائع سے ثابت شدہ ہے کہ انہوں نے گھر میں ایک خنزیر پال رکھا تھا۔ یاد رہے کہ یہ اسلام سے پہلے کا زمانہ تھا اور تب خنزیر کو حرام قرار نہیں دیا گیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ خنزیر کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے لیکن آپ خنزیر کو اگر دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہیں تو اس پر اسلام میں کوئی قدغن نہیں۔ آج کل جو مغرب میں ایسے اوزار استعمال ہوتے ہیں جو کہ مرد اور عورت کی جنسی پیاس بجھانے میں مددگار ہیں، ان کو اس شکل میں پہنچنے میں عرصہ لگا ہے۔
ایسے اوزار استعمال ہونا آج کی بات نہیں۔ یہ تو صدیوں سے مستعمل ہیں۔ قدیم تاریخ کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی لیکن اسلامی تاریخ میں اس سے متعلق وافر مقدار میں مواد موجود ہے۔ دراصل ہوتا اس طرح تھا کہ گھریلو خواتین جن کی شادی میں تاخیر ہو جاتی تھی یا ایسی شادی شدہ خواتین جن کے خاوند روزگار یا کسی اور سلسلے میں گھر سے دور ہوتے تھے، ایسی خواتین اپنی جنسی پیاس کی تکمیل کیلئے سبزیاں استعمال کر لیتی تھیں۔ مثال کے طور پر گاجر مولی، کیلے یا بعض اوقات بینگن 🍆۔ صفائی کا ذیادہ اہتمام نہ ہونے کے سبب سبزیوں کو بغیر دھوئے پکا دیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ نہ جانے کب سے چلا آ رہا تھا اور ختم تب ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان خواتین کی ضروریات کا مکمل ادراک اور احساس تھا۔یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً سے پابندی نہیں عائد کی بلکہ خواتین کو اس کا متبادل عطا فرمایا۔ حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم کے بعد مدینہ کے بازاروں میں لکڑی کے لمبے اور چکنے ٹکڑے بکنا شروع ہوئے تھے۔
ان ٹکڑوں کا سائز عضو تناسل کی لمبائی کے برابر ہوتا تھا۔ اس سے حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کی دور اندیشی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دے کر جہاں خواتین پر احسان عظیم کیا وہیں ایک ایسی صنعت کی بنیاد بھی رکھ دی کہ جس نے لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا کیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، لکڑی کے ان ٹکڑوں نے اپنی ہیئت بدلنا جاری رکھی۔ خواتین کی ڈیمانڈ کے مطابق۔ لکڑی کی جگہ پلاسٹک نے لے لی۔ اب تو ایسے ایسے بھی دستیاب ہیں کہ جن کو چھو کر ایسا لگتا ہے کہ واقعی عضو تناسل ہی ہو۔ مردوں کیلئے بھی اندام نہانی نما کھلونے دستیاب ہیں جن میں عضو تناسل داخل کر کے بالکل ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کسی خاتون کی شرمگاہ میں عضو تناسل داخل کیا ہو۔
یہ تمام قصہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان زنا سے بچیں اور ان چیزوں سے فائدہ اٹھائیں جن کی اسلام نے اجازت دے رکھی ہے۔
میں جو بات بھی کرتی ہوں، ڈنکے کی چوٹ پر اور مکمل تاریخی حوالوں کے ساتھ کرتی ہوں۔ اگر آپ کو اتفاق نہیں تو مجھے غلط ثابت کر دیں۔ میں اپنی غلطی تسلیم کر کے ہمیشہ کیلئے اس موضوع سے تائب ہو جاؤں گی لیکن اگر آپ کو مجھ سے اتفاق ہے تو یہ آپ کا فرض ہے کہ سچائی کو فروغ دیں اور میری تحاریر کو آگے پھیلائیں۔ یہ صدقہ جاریہ بھی ہے۔ جزاکِ اللہ خیرا کثیرا۔
107 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
صفوان کا واقعہ
ایک بہت بڑی غلط فہمی امت میں پائی جاتی ہے اور کچھ لوگ مجھے بدکردار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو اصل واقعہ بتاتی ہوں۔ پھر آپ خود فیصلہ کیجئے کہ میں بدکردار ہوں یا نہیں۔
یہ واقعہ ایک غزوہ سے واپسی کا ہے۔ میں غزوہ مریسیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھی، مدینہ منورہ سے روانگی سے قبل امیں نے اپنی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریتہً پہننے کو مانگ لیا تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں، اِس وقت میری عمر بھی 14/15 سے زائد نہ تھی، یہ دور خاتون کے لیے ایسا ہے کہ اُن کے نزدیک معمولی سا زیور بھی گراں قیمت ہوتا ہے۔ چونکہ پردہ کا حکم اِس غزوہ سے قبل ہی نازل ہوچکا تھا اِسی لیے میں دورانِ سفر محمل یعنی ہودج میں سوار ہوتی تھیں جس پر پردے لٹکے رہتے تھے، ساربان ہودج سمیت میری کی سواری کو اُتار لیتے اور یونہی ہودج سمیت آپ اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ اُس زمانہ میں میں دبلی پتلی تھی اور ساربانوں کو یہ مطلق معلوم نہ ہوتا تھا کہ میں ہودج میں سوار ہوں بھی کہ نہیں۔
بنو مصطلق سے واپسی پر مدینہ منورہ سے ایک منزل پہلے ذی قرع کی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کا حکم دیا، یہاں ایک رات لشکر نے پڑاؤ کیا، پچھلے پہر لشکر روانگی کو تیار تھا کہ میں لشکر کے کوچ سے قبل قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ واپس لوٹی تو اِتفاقاً ہاتھ گلے پر پڑا تو ہار نہیں تھا، وہیں تلاش کرنے لگی، اُدھر لشکر تیار تھا، مجھے یقین تھا کہ لشکر کی روانگی سے قبل ہی ہار تلاش کرکے میں واپس آجاؤں گی مگر ہار تلاش کرنے میں دیر ہو گئی، جاتے وقت میں کسی کو مطلع کیے بغیر چلی گئیں تھیں، ساربانوں نے خیال کیا کہ میں ہودج میں سوار ہیں، ہودج کے پردے چھٹے ہوئے تھے، سو اُنہوں نے ہودج اونٹ پر رکھا جو دراصل خالی تھا اور لشکر روانہ ہو گیا۔ جب میں ہار کے بغیر واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر کوچ کو تیار ہے، میں پھر ہار تلاش کرنے چلی گئی، اب کی بار وہ ہار مجھے مل گیا، جب دوبارہ واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہوچکا تھا اور لوگ مجھ کو ہودج میں بیٹھا ہوا سمجھ کر میرا ہودج اونٹ پر کس کر لے گئے تھے۔
اِس خیال سے کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں واپس یہیں آئیں گے، میں چادر لپیٹ کر لیٹ گئی۔ اِسی اثناء میں نیند آگئی۔ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ جو لشکر کی گری پڑی اشیاء اُٹھانے کے لیے پیچھے رہا کرتے تھے، وہ وہاں پہنچے اور مجھے پہچان لیا۔ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ نے مجھے پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا تھا اور میری خوبصورتی کے قائل تھے۔ میرا سفید رنگ جس پر سرخی غالب تھی اسی لئے میرا لقب حمیرا تھا۔ صفوان نے مجھے نیند سے جگانے کیلئے آواز دی۔ یا ام المومنین۔ لیکن میں گہری نیند میں تھی۔ لہذا انہوں نے مجھے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے چھوا تو ہوا سے چادر اڑ گئی میرا بدن ان کے سامنے ہو گیا۔ میری عمر اس وقت 14 سال تھی لیکن کم عمری میں شادی کی وجہ سے میں بالغ تھی اور جن نظروں سے صفوان میری طرف اور میرے جسم کی طرف دیکھ رہے تھے میں بخوبی جانتی تھی کہ یہ ہوس ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مرد اور عورت تنہا ہوں تو وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
مجھے بھی شیطان کی موجودگی محسوس ہو رہی تھی۔ اب میری نظریں زمین کی جانب تھیں اور شرم کے مارے کچھ آواز نہیں نکلتی تھی لیکن صفوان کی نگاہوں کی تپش مجھے خوب محسوس ہو رہی تھی۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے کہ صفوان نے کہا یا ام المومنین آپ اکیلی یہاں؟ خیریت تو ہے۔
میں نے جواب دیا کہ یا صفوان میں قضائے حاجت کیلئے نکلی تھی کہ قافلہ روانہ ہو گیا۔
صفوان نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولا یا رب العالمین تیرے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ یقیناً ام المومنین کا اس حالت میں ملنا اللہ کی طرف سے انعام ہے۔
میں اب تک نہیں سمجھ پائی تھی کہ اس بات کا آخر کیا مطلب ہے اور کیا واقعی صفوان میرے ساتھ کچھ غلط کرنا چاہتا ہے۔ لہذا میں نے اس سے پوچھا کہ صفوان! اس بات کا کیا مطلب ہے؟
بولا: یا ام المومنین! میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غذوہ بدر میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بشارت دی تھی کہ اللہ نے میرے لیے ایک خاص انعام کا بندوست کیا ہے۔ یا ام المومنین مجھے اس وقت تو سمجھ نہ آئی تھی کہ کیسا انعام۔ لیکن اب مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی سچائی نظر آ رہی ہے۔ یا ام المومنین۔ آپ کا لشکر سے پیچھے رہ جانا محض اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے میرے لئے انعام ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کچھ پوشیدہ نہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ اسی وقت وحی نازل کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیتا کہ آپ اکیلی یہاں رہ گئی ہیں لیکن اللہ نے نہیں بتایا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول دونوں کی رضامندی اس بات میں ہے کہ ہم دونوں کا ملن ہو۔
صفوان کی باتوں سے مجھے سچائی کی خوشبو آتی تھی اور کچھ لمحے پہلے جو شیطان کا قرب محسوس ہوا تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا۔ ظاہر ہے اگر اللہ اور اسکے رسول کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا تو میں کون ہوتی تھی کچھ کہنے والی۔ صفوان نے جس طرح دلائل دیے تھے وہ ان کے ایک سچا صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر تصدیق ثبت کرتے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کر کے دل میں اللہ کو یاد کیا اور یہ دعا کی کہ اے اللہ میں یہ کام تیری رضامندی کیلئے کر رہی ہوں اور اس کام کو میرے لئے مغفرت کا سبب بنا دے۔
آنکھیں کھولیں تو اپنے سامنے صفوان کو بنا کپڑوں کے کھڑا پایا۔ ان کا عضو تناسل سختی کی حالت میں تھا اور ہوا میں لہرا رہا تھا۔ میں نے حضور کا عضو تناسل کئی مرتبہ دیکھا تھا اور میں یہی سمجھتی تھی کہ تمام مردوں کے عضو تناسل کی لمبائی اور دیگر خدو خال ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن صفوان کا عضو تناسل دیکھ کر اپنا یہ خیال باطل ہوتا نظر آیا کیونکہ یہ عضو تناسل لمبائی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عضو تناسل سے دوگنا تھا اور موٹائی بھی زیادہ تھی۔ میں مسلسل صفوان کے عضو تناسل کو گھورے چلے جا رہی تھی کہ صفوان نے ایک ہاتھ سے اپنا عضو تھام لیا اور دوسرا ہاتھ میرے چہرے پر پھیرنے لگے۔ میں نے شرما کر نظریں جھکا لیں۔ کچھ دیر تک ایسے ہی اپنے عضو تناسل سے کھیلنے کے بعد اچانک صفوان نے اپنا عضو میرے چہرے کے بالکل قریب کر دیا۔ اتنا قریب کہ مجھے اس کی خوشبو اپنے نتھنوں میں جاتی محسوس ہونے لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنا عضو تناسل چہرے کے قریب نہیں کیا تھا لہذا مجھے علم نہیں تھا کہ صفوان ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن چونکہ اللہ کی رضا شامل حال تھی اس لئے میں اعتراض کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ویسے بھی اعتراض تب کیا جاتا ہے جب کوئی چیز ناگوار گزرے۔ یہاں تو ایسی کوئی بات نہ تھی۔ میں انہی سوچوں میں گم صفوان کے عضو تناسل پر نظریں گاڑے بیٹھی تھی کہ آہستہ سے صفوان نے عضو تناسل میرے گلابی نازک ہونٹوں سے مس کر دیا اور میرے بند ہونٹوں کو چیرتے ہوئے آہستہ آہستہ میرے منہ میں داخل کر دیا۔ زبان سے ان کے عضو کا اگلا حصہ ٹکرایا تو ایسا ذائقہ محسوس ہوا جس کی لذت سے میری زبان آج تک نا آشنا تھی۔ نمکین خوشگوار ذائقہ تھا۔ مجھے اچھا لگا۔ میں نے ذائقہ کو اچھی طرح محسوس کرنے کیلئے ان کے عضو تناسل کو چوسنا شروع کر دیا۔ ایسا بالکل غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔ صفوان کے منہ سے آہ نکل گئی۔
باقی آئندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
144 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
میں بلال حبشی کو کیوں چاہتی تھی؟
آج مجھے اپنی امت کے لوگوں کی باتیں سن کر افسوس ہوتا ہے جو مجھ پر اور امہات المومنین پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں۔ بلال حبشی ایک طاقتور انسان تھے۔ اسلام سے پہلے غلام تھے کافر کے۔ محنت کر کر کے جسم ایسا مضبوط و توانا تھا کہ باڈی بلڈر لگتے تھے۔ آج کل کے باڈی بلڈر تو ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آئیں۔ اسلام لانے کے بعد اذان دیتے تھے مسجد نبوی میں۔ ہمارا گھر تو ساتھ ہی تھا۔ جب چھت پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تو میں انہیں دیکھا کرتی تھی۔ وہ بھی اذان دیتے وقت مجھے دیکھتے تھے۔ ایسے ہی آنکھوں آنکھوں میں عشق کی منازل طے کر لیں۔ میرے والد چونکہ اکثر تبلیغ پر ہوتے تھے اسلئے گھر میں صرف میں اور میری بہنیں ہوتی تھیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ابو بکر کو کہہ جاتے تھے کہ گھر کا دھیان رکھنا۔ ابو بکر کبھی کبھار بلال حبشی کی ڈیوٹی لگا دیتے تھے۔ ایسی ہی ڈیوٹیوں میں بلال حبشی اور میرا جسمانی تعلق قائم ہو گیا۔ میری بہنوں کی شادیاں ہو گئیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شادی یہ کہہ کر روک دی کہ اللہ کے حکم کا انتظار ہے۔ ادھر بلال حبشی جب بھی موقع پاتے مجھے گھر آ کر دبوچ لیتے تھے۔ میرا رنگ دودھ کی طرح سفید اور ریشم کی طرح نرم جسم تھا جبکہ بلال حبشی کوئلے سے ذیادہ سیاہ اور لوہے کی طرح سخت تھے۔ دوران مباشرت سختی اختیار کرتے تھے۔ میرے نازک بدن پر ان کے بازو گڑ گڑ جاتے تھے۔ لیکن ہم اس بات کا دھیان رکھتے تھے کہ میں کہیں حاملہ نہ ہو ��اؤں۔ اس لئے مادہ میرے پستانوں پر یا شرمگاہ کے باہر نکال دیا کرتے تھے۔ منہ پر بھی کئی بار نکالا۔ اتنے کالے بلال کا مادہ منویہ میری طرح بالکل سفید ہوتا تھا۔ ذائقہ بھی بہترین تھا۔ میں انہیں مذاق میں کہتی تھی کہ کہ آپ کا مادہ تو مجھے آب زم زم سے افضل لگتا ہے۔ وہ بھی ہنس دیا کرتے تھے۔ لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ بلال سے غلطی ہوئی اور میری شرمگاہ کے اندر ہی خارج ہو گئے ایک مرتبہ۔ جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ دو مہینے بعد میرا پھولا پیٹ دیکھ کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھانپ گئے۔ انہیں نہیں پتہ تھا کہ یہ کس کا ناجائز تخم ہے میرے پیٹ میں۔ فوراً مسجد نبوی جا کر علی کو بلوایا اور کہا اللہ کا حکم ہے کہ فاطمتہ الزہرا سے شادی کر لو۔ میرا نکاح پڑھا کر مجھے روتے ہوئے رخصت کر دیا۔ بعد میں حسین پیدا ہوئے۔ اسی لئے کہا تھا پہلے کہ یہ علی کی اولاد نہیں تھے۔
58 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں اور میں ان کی پہلی صاحبزادی۔
میری تربیت جس ماحول میں ہوئی بہت کم لوگ اس کی حقیقت جانتے ہیں۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ نبی کی بیٹی ہونے کے ناطے میں پاکیزہ اور مقدس ہوں۔ اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی معصومیت میں اپنی مثال آپ تھے۔ لیکن آج میں بتاتی ہوں آپکو کہ حقیقت کیا تھی۔ سب سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ میری والدہ ماجدہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا عمر میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی تھیں۔ اور میرے والد ان کے چوتھے شوہر تھے۔ مجھے اپنے بچپن کی جو باتیں ازبر ہیں ان میں ایک بات یہ بھی ہے میں نے گھر میں اپنی والدہ ماجدہ کو ہمیشہ برہنہ حالت میں ہی دیکھا۔ والد محترم سے انکی محبت اپنی جگہ لیکن انکی جنسی پیاس بہت شدید تھی۔ اکثر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خدیجہ بی بی میرے سامنے ہی مباشرت کرنے لگ جاتے تھے۔ اور کبھی اس بات کا اہتمام نہیں کیا کہ بچوں سے چھپ کر کیا جائے۔ مجھے شروع سے برہنہ رہنے کی تربیت دی گئی۔ روزانہ سونے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پیار کرتے تھے۔ منہ پر اور سینے پر۔ یہ روٹین آخر وقت تک برقرار رہی حتیٰ کہ میری شادی کے بعد بھی۔ میری دوسری بہنیں بھی تھیں لیکن میرا تعلق اپنے بابا سے خاص تھا۔ میں لاڈلی جو تھی۔ خاتون جنت کا لقب بھی میں نے ان سے زبردستی ضد کر کے لیا تھا۔ بلال حبشی سے مجھے محبت تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلام سے میری شادی کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن یہ بتا دوں حسن اور حسین علی کی اولاد نہیں۔ باقی پھر کبھی بتاؤں گی۔
81 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
گھر کی عزت پارٹ 14
اب مجھ میں اور امی میں کوئ پردہ نہیں رہا تھا ہماری روز کی روٹین میں شامل تھا کپڑے نہ پہننا کپڑے ہم صرف تب ہی پہنتی تھی جب میرے بہن بھائ گھر پہ ہوتے باقی ٹائم میں خود بھی ننگی رہتی تھی اور اپنی امی کو بھی ننگی رکھتی تھی عمران اور فاطمہ کا تجسس بھی دن بدن بڑھتا جارہا تھا میں کپڑے بھی گھر میں ٹائیٹ جینز اور اور ٹی شرٹ پہنتی تھی ایک دو دفعہ تو میں نے امی کو بھی پینٹ پہنائ امی اس میں بہت ہی سیکسی لگتی تھی اب ہمارے گھر کا ماحول بہت تبدیل ہوچکا تھا زنا کاری اب ہم ماں بیٹی کی شوق سے زیادہ ضرورت بن چکی تھی امی کو پیشاب پلانا لن چوسوانا بہت چھوٹے کام ہوچکے تھے میں امی کو اپنی نوکرانی کی طرح ٹریٹ کرتی تھی امی بھی اس رویہ سے بہت خوش تھی
مجھ پہ اب جو تھوڑی بہت قید تھی مطلب جس وقت عمران اور فاطمہ گھر پہ ہوتے بہت بے چینی رہتی تھی اور وہ دونوں کی وجہ سے کپڑے پہننے پڑتے تو ان پہ بہت غصہ آتا تھا میں یہی سوچ رہی تھی کہ کیسے ان دونوں کو اس ماحول میں شامل کیا جاے اور میں مکمل آزادی سے گھر پہ 24 گھنٹے ننگی رہ سکوں بچوں کہ سکول جانے کہ بعد امی کچن میں برتن سمیٹنے گئ اور قاری صاحب بھی کچھ کام سے باہر گئے تھے میں ناشتہ کہ ٹیبل سے اٹھی اور سیدھا امی کہ پاس چلی گئ میں نے جاتے ہی امی کی گانڈ پہ تھپڑ مارا اور بولی شاہدہ گشتی ابھی تک کپڑے نہیں اتارے امی میری طرف مسکرا کہ دیکھا اور اتارنے ہی لگی تھی میری بچی اور برتن نیچے رکھ کہ اپنی شلوار گھٹنوں تک کردی میں نے امی کی قمیض ہٹا کہ ان کی گانڈ میں ایک انگلی ڈال کہ بولی ماں کتنا مزہ ہے نہ اپنے جسم کو ننگا رکھنے میں امی میری طرف گھومی اور بولی تیرے منہ سے ماں سن کہ کتنا عجیب لگ رہا اور ہنس دی امی کی بات سے مجھے بھی ہنسی اگئ اور بولی پوری کنجری ہے تو عزت تو راس ہی نہیں تجھے لیکن میں بول رہی تھی کہ اگر ہم 24 گھنٹے ننگی رہتی تو کتنا مزہ آتا جب ہمارے یار کا دل کرتا ہمارے سوراخ سامنے ہوتے ان کہ امی کا تھوڑا سا منہ بنا اور بولی بیٹی بات تو سہی ہے تیری جب سے میں نے اپنے اندر کی رنڈی کو جگایا ہے میری تو زندگی بدل گئ ہے مجھے لگتا میں پھر سے جوان ہورہی ہوں سیکس میں ہر گندے سے گندہ کام مجھے مزا دیتا لیکن ہم اس سے زیادہ نہیں کر سکتے ہمارا معاشرہ اور گھر کا ماحول اس سے زیادہ نہیں جا سکتا مجھے تو ڈر رہتا کہیں کسی کو کچھ پتا چل گیا تو ہمارا کیا ہوگا عمران اور فاطمہ کا شک بھی دن بدن بڑھتا جا رہا میں نے امی کی بات کاٹ دی اور بولی وہی تو میں کہہ رہی کہ ان کا کچھ کیا جاے امی میری بات کو سمجھتے ہوے بولی نہیں میری بچی یہ مناسب نہیں ہے میں نے غصے سے امی کہ منہ پہ طمانچہ مار دیا ساتھ ہی اس کی گال کو سہلاتے ہوے بولی دیکھو ماں اس کہ علاوہ ہمارے پاس کوئ آپشن نہیں ہے تم ان کو نیند کی گولیاں دیتی اس سے تو بہتر ہے اور جو مزا ہم لے رہے ہماری بہن کا بھی حق اس مزے کا ایک دفعہ اس کو لن کا چسکا لگ گیا پھر وہ بھی خوش اور ہم بھی امی کچھ سوچ کہ لیکن بیٹی یہ ہوگا کیسے میں امی کہ ماننے پہ خوش ہوئ اور اس کو گلے سے لگا کہ بولی فاطمہ کو مناے گے اس پہ اگر نہ مانی تو ایک دفعہ زبردستی کرنی پڑے گئ اور ویسے بھی عورت کو زبردستی لن ایک دفعہ مل جاے پھر تو وہ لن کہ لیے ہم سے لڑا کرے گئ امی تھوڑا پریشان تھی لیکن میرے اس نرم رویے کہ آگے بیچاری کچھ نہ بول سکی اور میری گانڈ پہ ہاتھ پھیرنے لگی اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئ ہم دونوں کہ چہرے پہ خوشی آگئ امی نہ کہا لو آگئے ہمارے ٹھوکو میں پیار سے امی کی گانڈ پہ ہاتھ مارا اور بولی چل پھر ننگی ہوجا آج اور ایک دفعہ گانڈ مروا لے پھر وہی لن تیری دوسری بیٹی کی سیل بھی کھولے گا امی نے کہا اور عمران میں بولی عمران کہ پاس تو لن ہے اور اس کہ لیے جب اس کی بڑی بہن ننگی ہوگی تو وہ کیسے منع کر سکتا امی ہنس دی اور ںولی پوری کنجری ہے اتنے میں ہم دونوں ننگی ہوگئ اور امی نے دروازہ کھولا سامنے قاری صاحب کو دیکھ کہ مسکرا دی قاری صاحب مجھ سے بولے کیا بات ہے آج میری رنڈیاں بہت خوش لگ رہی میں تب بولی جناب آج آپ کو اپنی نئ کنواری بیٹی جو پیش کرنی ہے میری رنڈی ماں نے قاری صاحب کی آنکھوں میں چمک آگئ اور بولے سچ امی نے محسوس کیا فاطمہ کی نام سے قاری صاحب کا لن ایک دم کھڑا ہوگیا امی دیکھ کہ ہنس دی اور بولی جی جناب لیکن اس سے پہلے اس کی ماں آپ کی سواری کرے گئ قاری صاحب میرے سامنے میری ننگی ماں کو گود میں اٹھا کہ صحن میں لے آے اور پاگلوں کی طرح ٹوٹ پڑے آج قاری صاحب بہت جوش میں لگ رہے تھے امی کو 20 منٹ تک پورے زور سے چودا اور اپنا پانی ہم دونوں کو پلایا آج میں نے بچوں کہ آنے سے پہلے ماں کو ایک پینٹ شرٹ دی اور ایک خود پہنی اور تیار ہو کہ بیٹھ گئ
امی ابھی بھی قاری صاحب کی گود میں بیٹھی تھی میں سوچنے میں مصروف تھی کہ کیسے شروع کرو جو بھی تھا لیکن پھر بھی وہ میری بہن تھی اس کہ ساتھ برا ہو تو مجھے بھی تکلیف ہوگی اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئ جس سے میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کہ چہرے کا رنگ بھی اڑھ چکا تھا میں نے امی کو اشارے سے دروازہ کھولنے کا کہا امی چپ چاپ دروازے کی طرف چل دی ڈر تو امی کو بھی حوس میں اندھی ہو کہ ماں نے فاطمہ کو چدوانے کا کہہ تو دیا تھا لیکن امی کو بھی کوئ سمجھ نہیں تھی کہ اس معاملے کو کیسے نمٹایا جاے لیکن میں ٹھان چکی تھی کہ کل پرسو وہ ہمیں پکڑے اس سے بہتر ہے ہم اس کو اپنے کھیل میں شامل کرلیں
اتنے میں دونوں بچے صحن تک آگے عمران اور فاطمہ نے مجھے اور قاری صاحب کو سلام کیا میں نے محسوس کیا قاری صاحب فاطمہ کو آج بہت گندی نظر سے دیکھ رہیں ہیں فاطمہ کپڑے بدلنے گئ تو میں بھی اٹھ کہ اس کہ پیچھے آگئ فاطمہ نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا میں اس سے بولی فاطمہ کیسی چل رہی تمہاری پڑھائ جس پہ فاطمہ تھوڑا منہ بنا کہ بولی آپ کو کوئ غرض ہے میری پڑھائ سے مجھے ایک پل کہ لیے بہت غصہ آیا جب سے میں امی کو ذلیل کرنا شروع کیا تھا مجھے کسی کی چھوٹی سی بات بھی جھبتی تھی خیر میں نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے کوئ ری ایکشن نہیں دیا اور بولی کیوں نہیں میری بہن تمہاری بڑی فکر ہے مجھے فاطمہ تھوڑا اور بولنے والی تھی میں نے اسے ٹوک دیا اور ایک اور سوال اس سے کیا فاطمہ تمہیں کوئ لڑکا پسند ہے سکول میں یا محلے میں فاطمہ اس بار انکھیں پھاڑ کی میری طرف دیکھنے لگی اور بولی کیا مطلب میں بولی اب تم بڑی ہو رہی ہو اور بہنوں میں کوئ پردہ نہیں ہونا چاہیے اگر تمہیں کوئ لڑکا پسند ہے تو تم مجھ سے بات کر سکتی اس بار فاطمہ پھر سے میری توقع کہ الٹ بولی نہیں باجی میں آپ کی طرح نہیں مجھے اپنی عزت بہت عزیز ہے اب مجھے بھی غصہ آگیا اور بولی کیا مطلب ہے تمہارا اس پہ فاطمہ بولی آپ کو بھی پتا میرا کیا مطلب ہے میں اب اس کہ قریب آئ اور بولی دیکھو تم میرے پہنواے کو لے تھوڑا پریشان ہو میں جانتی ہوں لیکن بیٹا یہ ہماری زندگی ہے ہمیں اپنی زندگی میں وہ سب کرنا چاہیے جس میں سکون ملے اور یہ لباس میں دیکھو میں اچھی بھی لگتی فاطمہ بولی ٹھیک ہے باجی آپ بڑی ہے جو چاہے کر سکتی ہو مجھ سے کیا چاہتی میں تو اب آپ پہ کوئ اعتراض بھی نہیں کیا تب میں اس کہ قریب ہوئ اور بولی میں چاہتی جو مزا سکون مجھے نصیب ہوا میں چاہتی وہ میری بہن بھی تجربہ کرے اس پہ فاطمہ بولی نہیں باجی ہر بندے کی اپنی زندگی ہے آپ اپنے ب�� حیائ والے تجربے مجھ پہ مت لاگو کرو مجھے نہیں کرنا ایسا کچھ
میری برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا لیکن میں کوئ جذباتی فیصلہ کر کہ نیا تماشہ نہیں لگانا چاہتی تھی ایک اور کوشش کی اور بولی تم اب جوان ہو رہی فاطمہ اس عمر میں لڑکی کو کسی کا ساتھ چاہیے ہوتا تم یقین کرو تمہیں اچھا لگے گا جب کوئ تمہارے جسم کو دیکھ کہ تعریف کرے ہر کوئ تمہیں اپنانا چاہے اس پہ فاطمہ نے بولا بس کریں باجی میں بہت برداشت کر رہی آپ کریں جو آپ نے قاری صاحب کہ ساتھ کرنا مجھے شریف ہی رہنے دیں اس پہ میرا ماتھا ٹھنکا کہ لگتا اس کو پتا ہمارے تعلق کا میں اب پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی مجھے ہر صورت اسے قابو میں کرنا تھا میں نے اس کہا کیا مطلب کیا کرنا قاری صاحب سے کیا کہنا چاہتی فاطمہ بولی اس دن جب آپ قاری صاحب کی گود سے اٹھی تھی آپ کی پینٹ پیچھے سے نیچے کیوں تھی مجھے شرم آئ میں اندر نہیں آئ لیکن آپ بالکل بے شرم ہوگئ ہیں اگر امی کو پتا چلتا تو کتنا دکھ ہوتا انہیں میں سمجھ گئ کی اس کو ساری بات کا نہیں پتا میں فاطمہ کہ پاس آئ اور بولی فاطمہ دیکھو میں تم سے کچھ نہیں چھپاوں گئ میں قاری صاحب کہ ساتھ پوری ننگی بھی رہی ہوں اور اس میں بہت مزا ہے تم چاہو تو پیار سے یہ مزا تم بھی لے سکتی فاطمہ تھوڑے غصے میں بولی شرم کرو باجی کیا بول رہی آپ کو اندازہ نہیں اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئ میں نے پوچھا کون ادھر سے قاری صاحب کی آواز آئ میں میں نے دروازہ کھولا تو قاری صاحب اندر آ کہ بولے کیا بات چیت ہو رہی بچو میں جان بوجھ کی قاری صاحب سے لپٹ گئ اور ان کہ ہونٹوں کو بوسہ دیا اور بولی جان آپ کہ لیے فاطمہ کو راضی کر رہی لیکن یہ مان ہی نہیں رہی فاطمہ میرا یہ روپ دیکھ کہ حیران تھی میں بے شرم ہوگئ تھی فاطمہ کو اس کا پتا تھا لیکن اس قدر ہوگئ ہوں یہ اس کہ فرشتوں کو بھی نہیں پتا تھا قاری صاحب مجھ سے الگ ہوے اور فاطمہ کی طرف بڑھے فاطمہ تھوڑا سہم کہ اگے کو ہوگئ قاری صاحب بولے کیا بات ہے بیٹی کیوں پریشان اب فاطمہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی جس استاد کو وہ بہت عزت دیتی تھی آج وہی اس کی عزت لینے کی غرض سے آرہا تھا فاطمہ نے میری طرف دیکھا اور کہا باجی یہ کیا ہو رہا پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو میں اگے بڑی اور اس کہ منہ پہ ایک تھپڑ مارا جس سے فاطمہ اور سہم گئ اور رونے والے منہ سے قاری صاحب کی طرف دیکھا کیوں کہ وہ فاطمہ کو کچھ نہیں کہنے دیتے تھے اس قاری صاحب اس کہ استاد کہ روپ میں نہیں بلکہ ایک جنسی درندہ کہ روپ میں کھڑا تھا قاری صاحب بولے فاطمہ بیٹا بڑی بہن کی بات سمجھ میں نہیں آئ یہ بات سن کہ تو فاطمہ اور ہل گئ اس نے تھوڑا زور سے چلایا امی۔۔۔۔۔۔! اس پہ مجھے ہنسی آگئ فاطمہ کو لگا شائد میں نے امی کو کہیں بھیج دیا جس پہ میں کوئ نہ ہونے کا فائدہ اٹھا رہی اتنے میں دروازے پہ امی آگئ امی نے آتے ہی کہا عمران کو کھانا لینے بھیج دیا جس کا مطلب تھا گھر پہ اب راستہ صاف ہے فاطمہ امی کو دیکھ کہ تھوڑا سکون کا سانس لیا اور امی کی طرف لپکی اور امی کی باہوں میں جا کہ بولی امی باجی بہت گندی ہے میں نے آپ کو کچھ بتانا ہے آپ مجھے یہاں سے لے جاو اس پہ امی بولی کیا ہوا فاطمہ سب ٹھیک ہے تو فاطمہ بولی امی باجی اور قاری صاحب ۔۔۔۔۔۔ امی نے پھر پوچھا کیا ہوا فاطمہ سہمے ہوے انداز سے بولی امی باجی اور قاری صاحب ننگے ہو کہ گندے کام کرتے امی کو اپنی بچی کی جتنی بھی فکر لاحق تھی اس بات سے تھوڑی سی ہنسی نکل گئ اتنے میں میں امی کو بولا شاہدہ اسے ادھر لے کہ آ فاطمہ ایک دم سے امی کا نام میرے منہ سے سن کہ چونک گئ امی بھی نا چاہتے ہوے بھی فاطمہ کو میرے طرف لانے لگی فاطمہ امی کی طرف دیکھ کہ بولی امی یہ سب کیا چل رہا امی بولی بیٹی مجھے معاف کردینا اتنا سننا تھا فاطمہ اور تجسس سے امی کو دیکھنے لگی اور بولی کیا مطلب ہیں امی آپ کیا کہنا چاہتی شائد اس کی سمجھ میں کچھ نہیں ارہا تھا اتنے میں میں نے فاطمہ کو بازو سے پکڑ کہ اپنے سامنے کر لیا اور 2 تھپڑ اس کہ منہ پہ مارے اور بولی جتنی جلدی اس حقیقت کو سمجھ جاو گئ اتنا اچھا ہوگا اس پہ امی کو اپنی بیٹی کا خیال آیا اور مجھ سے بولی بیٹی معصوم ہے نہ مارو پلیز مجھے امی کی بات بہت چبھی میں فاطمہ کو ایک سائیڈ پہ کیا اور امی کی طرف لپکی اور ایک زور دار تپھڑ اس کہ منہ پہ مارا اور بولی تیری اتنی اوقات ہے جو تو میرے سامنے بول سکے یہ سارا ڈرامہ قاری صاحب چپ چاپ دیکھ رہے تھے میں اپنی ہر حد سے پار جا رہی تھی فاطمہ کہ سامنے ماں کو ایسے بولنے میں اور بھی مزا آرہا تھا امی کو بھی شائد مزا آیا ان کہ منہ سے اہ تو نکلی لیکن وہ اپنے جذبات پئ اتنے میں قاری صاحب اگے بڑے اور فاطمہ کو اٹھایا اور بولے بیٹی یہاں کوئ بھی تمہارے خلاف نہیں ہے تم اپنی ماں کو دیکھو اپنی بہن کو دیکھو تمہیں یہ سب عجیب لگ رہا ہوگا لیکن اس میں کیا لذت ہے تم اس میں اترو گی تو جانو گی اب فاطمہ تھوڑی نرم پڑ گئ تھی لیکن ابھی بھی وہ اس سب کہ لیے تیار نہیں تھی اس نے کہا باجی آپ امی قاری صاحب کیا کرتے ہیں مجھے کوئ غرض نہیں لیکن
پلیز مجھے اس سب سے دور رکھیں یہ بات مناسب تو تھی لیکن اب اس پہ عمل نہیں کیا جاسکتا تھا میں نے فاطمہ کو کہا چلیں دیکھتے ہیں تم اپنے کپڑے اتارو اس پہ فاطمہ کا رونا نکل آیا اور امی آگے بڑھنے لگی تو میں نے اس کہ بالوں سے اسے پکڑ لیا اور ایک ہاتھ سے اس کی گانڈ پہ تھپڑ مارنے لگی اور بولی صبح اس کی چوت کہ نام پہ بڑا اچھل اچھل کہ لن لے رہی اب مزید تجھے برداشت کرنا مشکل ہے تیری سزا ہے کہ تو اسے ننگا کر اور اگر 2 منٹ میں ننگا نہ کر پائ تو ایسی سزا دو گی کہ تیری ماں نے بھی سوچی نہیں ہوگی امی بیچاری ڈر کہ فاطمہ کہ پاس گئ اور بولی بیٹی اپنی ماں کو سزا سے بچا لے ہوجا ننگی فاطمہ نے انکار کرنا چاہا جس پہ امی نے بھی ایک تھپڑ مار دیا اسے اس پہ فاطمہ تھوڑا رونے لگی اور جسم ڈھیلا کردیا جس کا فائدہ امی نے اٹھایا اور اس کی پہلے قمیض اتاری پھر شلوار اندر سے فاطمہ پوری ننگی تھی وہ اپنے ہاتھوں سے اپنا جسم چھپانے کی کوشش کر رہی اور ساتھ وہ رو رہی میں اب سکون میں تھی اور انجواے کرنے کہ موڈ میں تھی میں اس کو دیکھا اور اس کہ قریب جا کہ اس کہ جسم پہ ہاتھ پھیرنے لگی افف فاطمہ تم تو پوری تیار ہو رونا تو بند کرو ابھی اندر جاے گا تو پھر رو لینا میں نے اس کہ نرم چتڑ کو کھول کہ اس کی گانڈ کا سوراخ چیک کیا پھر اس کی شرمگاہ کو دیکھا اور بولی فاطمہ مزا کرو یہ پل پھر کبھی نہیں ائیں گے اور قاری صاحب کو اشارے سے بلایا اور بولی دیکھیں نہ میری چھوٹی بہن اس کو استعمال تو آپ نے ہی کرنا ہے قاری صاحب اگے بڑے اور آ کہ فاطمہ کہ جسم پہ ہاتھ رکھا ہاتھ لگتے ہی فاطمہ کا جسم ایک پل کہ لیے کانپ گیا فاطمہ نے قاری صاحب سے کہا پلیز مجھے چھوڑ دیں میں آپ کی طالبعلم ہوں آپ میرے ساتھ کیسے کر سکتے تب قاری بولا بیٹی اس وقت تو تم میرے لیے ایک ننگا جسم ہو مجھے سے رحم کی کوئ امید نہ رکھنا میں جانتا ہوں تم میری بچی کی طرح ہو لیکن میرا یہ لن یہ تمہاری ماں اور بہن نے بیگاڑ دیا ہے فاطمہ کو بچنے کا کوئ راستہ نظر نہیں ارہا تھا اتنے میں میں نے فاطمہ کا ہاتھ قاری صاحب کہ لن پہ رکھ دیا فاطمہ کو جھٹکا لگا اس نے جھٹکے سے ہاتھ پیچے کیا میں بولی پاگل اسے منہ میں لینے کہ لیے امی مجھ سے جوتیاں تک کھاتی اور تم ہاتھ ہٹا رہی پکڑو اسے یہی زندگی کا سکھ ہے فاطمہ کہ لیے سب نیا تھا فاطمہ نے امی کی طرف دیکھا امی نے بھی اشارہ ہاں میں کیا اب ہم تینوں میں فاطمہ اکیلی ننگی تھی
فاطمہ لن کو پکڑنے سے انکار کر رہی تھی مجھے بہت غصہ آیا میں نے اسے اپنی طرف کر کہ چار پانچ تپھڑ دے مارے جس سے وہ رونے لگی لیکن میں حوس میں بے رحم اور اندھی ہوچکی تھی امی نے اگے بڑھ کہ مجھے روکنے کی کوشش کی تو 2 4 تھپڑ امی کو بھی مار دیے میں چلا کہ بولی چپ کر کتی کی بچی تیرے رونے سے کچھ نہیں ہوگا اب تو تیری گانڈ پھٹے گی ہی پٹھے گی قاری صاحب تھوڑا آگے بڑھے اور فاطمہ کہ پستان پہ پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے فاطمہ اب رو نہیں رہی تھی لیکن اس کی حالت بہت خراب تھی قاری صاحب نے ایک ہاتھ فاطمہ کی ننگی گانڈ پہ رکھا اور بولے بیٹی یہ سب کچھ تمہیں مزا دینے کہ لیے کیا جا رہا تمہاری ماں اور بڑی باجی اس مزے سے آشنا ہوے ان سے پوچھ سکتی کہ زنا میں کیا لذت ہے فاطمہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اس کہ ساتھ کیا ہو رہا وہ قاری صاحب سے بولی پلیز مجھے چھوڑ دیں مجھے کوئ مزا نہیں کرنا قاری صاحب اگے بڑھے اور اس کہ ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے ملا دیا فاطمہ نے دور ہٹنے کی کوشش کی لیکن قاری صاحب کی گرفت اتنی مظبوط تھی کہ بیچاری ہل بھی نہ پائ قاری صاحب اس کو چومنے لگے اس کی گرمی کو جگانے کی کوشش کرنے لگے لیکن وہ ڈری تھی اس لیے بہت کوشش کہ باوجود بھی اس کا ڈر ختم نہ کر پائے مرد کو زنا میں عورت کا ساتھ مزا دوبالا کر دیتا اور وہ وہی چاہتے تھے قاری صاحب نے امی کی طرف دیکھا جو اپنی معصوم کلی کو ایک بھیڑیے کہ سپرد کر رہی تھی قاری صاحب امی سے مخاطب ہوے اور بولے جان زرا میری بچی کی گانڈ تو چاٹو جب تک اسے مزا نہیں آے گا یہ مجھے مزا کیسے دے گی قاری صاحب کی بات سن کہ امی تھوڑا گھبرا گئ فاطمہ پہ تو پہاڑ کہ پہاڑ ٹوٹ رہے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اسں کی ماں جو ہر وقت پردے میں رہتی تھی اب ایہ نا محرم کہ حکم سے اس کی گانڈ تک چاٹے گی مجھے سن کہ ہی مزا آگیا امی ابھی کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ میں نے امی کو بالوں سے پکڑا اور بولی سنا نہیں تیرا ٹھوکو کیا حکم دے رہا اپنی اس حرامزادی بیٹی کی گانڈ چاٹ اور سن تونے کپڑے کیوں پہنے ننگی ہو کہ چاٹنا میرے یار کو اچھا لگے گا امی بے چاری نیچے منہ کر کہ اپنی پینٹ شرٹ اتارنے لگی اور نیچے بیٹھ گئ اور فاطمہ کے چوتڑوں پہ ایک کس کیا اگے سے قاری صاحب فاطمہ کہ پستان کو دھیرے دھیرے سہلا رہے تھے فاطمہ نے امی کہ ہونٹ اپنی ننگی گانڈ پہ محسوس کیے تو کانپ گئ میں نے امی سے کہا سالی شرما کیوں رہی ہے اس کا سوراخ چاٹ جیسے میرا سوراخ چاٹتی ہے امی نے فاطمہ کہ چوتڑ کھولے اور اپنی جیب فاطمہ کہ سوراخ پہ رکھی ہی تھی کہ فاطمہ کہ منہ سے آہ نکل گئ جسے سن کہ ہم دونوں کہ منہ پہ شیطانی مسکراہٹ آگئ اب فاطمہ گرم ہونے کی سیڑھیوں پہ چڑھ گئ تھی آگے سے قاری صاحب اپنا ننگا لن فاطمہ کی معصوم شرمگاہ سے رگڑ رہے تھے اوپر سے فاطمہ کو چاٹ رہے تھے کبھی اس کا منہ کبھی گردن کبھی پستان ایسے کرتے کرتے فاطمہ پوری گرم ہرگئ اب وہ رونے کی بجاے آہیں بھر رہی تھی اور خود اپنا جسم قاری صاحب کہ قریب لانے کی کوشش کر رہی شائد یہ اس کہ اختیار میں نہیں رہا تھا اب امی خود آگے آگئ اور بولی بیٹی تمہاری شرمگاہ چاٹ لوں اس پہ فاطمہ منہ سے کچھ نہیں بولی لیکن ہاں میں سر ہلا دیا
امی فاطمہ کہ اشارے سے خوش ہوئ اور جوش سے اس کی ننھی پھدی چاٹنے لگی اب قاری صاحب نے فاطمہ کو کہا بیٹی نیچے بیٹھ جاو فاطمہ نے ارام سے بات مانی اب قاری صاحب اپنا لن ہاتھ سے پکڑ کہ بولے لو اسے چاٹو اس پہ فاطمہ نے منہ بنایا اور بولی یہ گندہ ہے قاری صاحب یہاں سے آپ پیشاب کرتے اس پہ قاری صاحب بولے بیٹی یہی گندی چیز ہی مزے کی ہوتی روکو میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں قاری صاحب بولے مجھے پیشاب آرہا ہے اس پہ امی جھٹ سے آگے ہوئ اور ساری شرم بلا کہ بولی پلیز میں پئوں گئ اس پہ فاطمہ امی کی طرف دیکھا انکھیں پھاڑ کہ اس اور امی سے بولی امی آپ کیا بول رہی امی نے جواب میں کہا بیٹی تمہیں نہیں پتا اس میں کیا مزا ہے
میں پاس کھڑے مسکرا رہی تھی اور بولی سارا نہ پینا کتی مجھے بھی دینا اور میں بھی ساتھ بیٹھ گی قاری صاحب نے آدھا آدھا پیشاب ہم ماں بیٹی کو پلایا یہ نظارہ دیکھ کہ فاطمہ کو پتا نہیں کیا ہوا اس کا ہاتھ اپنے آپ اس کی شرمگاہ پہ چلا گیا
مجھے یہ دیکھ کہ اپنی جیت یقینی نظر آنے لگی اب فاطمہ تقریباً تیار تھی قاری صاحب نے لن کو فاطمہ کہ منہ کی طرف کردیا اور بولے بیٹی دیکھو جس چیز کی وجہ سے تم نہ کر رہی تھی وہ تو تمہاری ماں اور بہن شوق سے پیتی اب اچھی بچی کی طرح اسے منہ میں لو فاطمہ کچھ سوچنے لگی اتنے میں قاری صاحب نے اپنا ہتھیار فاطمہ کہ نرم رسیلے ہونٹوں پہ رکھ دیا جس کو منہ کہ اندر جانے سے زیادہ دیر تک فاطمہ روک نہیں پائ اور بالآخر فاطمہ کہ منہ میں اس کہ استاد کا لن چلا ہی گیا اس کو ٹھیک سے چوسنا نہیں آتا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنا بہتر دے رہی تھی میں نے امی کو اشارے سے اس کہ پاس بھیجا امی نے جاتے ہی اس کا جسم چاٹنا ہاتھ پھیرنا شروع کردیا جس سے فاطمہ کا جوش اور بڑھ گیا اب فاطمہ پوری گرم تھی اس کا ڈر حوس میں بدل گیا تھا فاطمہ کی شرمگاہ مسلسل پانی چھوڑ رہی تھی اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس دلدل میں دھنسے جارہی قاری کا لن قریب اس نے آدھا گھنٹہ چوسا اب قاری صاحب اپنی منزل کہ قریب تھے تو انہوں نے پیار سے فاطمہ کہ سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولے بیٹی اپنی محنت ضائع نہ کرنا اب میرا عضو تمہاری چسوائ سے خوش ہو کہ اپنا پانی انعام دینا چاہتا اسے دل سے پینا فاطمہ انجان تھی کہ کس چیز کا ذکر ہو رہا وہ سمجھی شائد اب بھی قاری صاحب اس کو پیشاب پلائیں گیں لیکن یہ تو بہت اعلیٰ چیز ہے اتنے میں قاری صاحب نے ایک جھٹکا منہ میں دیا جس سے لن فاطمہ کہ منہ پہ دبا دیا اور اپنا گرم گاڑھا مادہ معصوم فاطمہ کہ گلے میں اتار دیا قاری صاحب نے چند سیکنڈ کہ لیے لن کو منہ میں رکھا پھر بولے بیٹی پہلے منہ والا انعام کھالو پھر جو اس پہ چپکا اس پہ بھی تمہارا حق ہے میں اگے ںڑی اور فاطمہ کہ گال پہ پیار کر کہ بولی بہت نصیب والی ہو جو تمہیں بڑوں کہ زیر سایا یہ انعام نصیب ہو رہا فاطمہ کو ٹیسٹ بہت عجیب لگ رہا تھا لیکن اسے اس پیار میں کسی بھی چیز پہ اعتراض کرنا بالکل بھی مناسب نہیں لگا اور وہ سارا مال گھٹک گئ اس کہ بعد امی نے کہا بیٹی مزا آیا اس پہ فاطمہ شرما گئ اور جی امی
امی اس پہ مسکرا دی اور بولی بیٹی یہ تو ٹریلر تھا اصل فلم تو رات کو بیڈ پہ دیکھو گی ابھی کپڑے پہن لو تمہارا بھائ بھی آنے والا ہے فاطمہ اٹھی اور کپڑے پہننے لگی اس کی شرمگاہ اس قدر گلیلی تھی جیسے اس نے پیشاب کر دیا ہو وہ اسے صاف کرنے لگی تو میں نے منع کر دیا اور بولی فاطمہ اس کا مزا لو اسے صاف نہ کرو اس پہ ہم تینوں ہنسنے لگے اتنے میں دروازے پہ دستک ہوگئ اور امی نے فٹا فٹ کپڑے پہننے لگی اس پہ میں بولی امی آج تیری یہ پریشانی بھی ختم ہوجاے گی دروازے کھٹکنے پہ کپڑے پہننے کی امی ہنس دی
لیٹ لکھنے پہ معذرت آپ کی پسندیدگی کی بے حد مشکور ہوں میرا دل آگے لکھنے کو نہیں تھا بس آپ کہ پیار کہ لیے لکھ رہی اپنی راے سے آگاہ کیجیۓ گا بہت شکریہ آپ کی صبا
86 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور کنیزیں
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اور کنیزیں
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد
آپ مکہ کی بہت دولت مند تاجر تھیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ملازمت دی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ آپ کے چھ بچے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اسلام کے ابتدائی دور میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب تک آپ زندہ رہیں٫ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی۔ آپ رضی اللہ عنہا وفات 620 عیسوی میں ہوئی۔
حضرت سودا بنت زمعہ
آپ رضی اللہ عنہا اسلام کے ابتدائی دنوں میں ایمان لائیں۔ آپ رضی اللہ عنہا جانوروں کی کھالوں سے چمڑہ بنانے کا کام کرتی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودا رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر معروف اور کنگلے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا سب بیویوں میں بڑی تھیں۔ موٹی بھی تھیں اسلئے سست بھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آل رضی اللہ عنہا کو طلاق دینا چاہتے تھے لیکن حضرت سودا رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طلاق سے باز رکھنے کیلئے وعدہ کیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں سوئیں گی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی۔
حضرت عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا
حضرت عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے دوست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا اسلام کے بہترین مبلغ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو انکی بڑی بہن کے مقابلے میں منتخب کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بڑی بہن ٹین ایجر تھیں جبکہ آپ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت چھ سال تھی۔ رخصتی کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر نو سال تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ترین بیوی رہیں ہمیشہ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اسلامی تاریخ میں اہم کردار ہے۔ لیکن کم عمری میں شادی ہونے کی وجہ سے اسلام میں کم عمر بچیوں سے شادی جائز قرار دے دی گئی۔
حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت مند دوست حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہہ کی بیٹی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا قرآن مجید کے ٹیکسٹ کی محافظ تھیں۔ وہ ٹیکسٹ آج کے قرآن سے کافی مختلف تھا۔ جی ہاں۔ قرآن مجید میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں بعد میں۔
حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا مڈل کلاس بیوہ تھیں جو کہ غریبوں کی ماں کے لقب سے مشہور تھیں اپنے خیراتی کاموں کی وجہ سے۔
حضرت ہند (ام سلمہ) بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا ایک پرکشش بیوہ تھیں۔ چار چھوٹے بچوں کی ماں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو خاندان نے مسترد کر دیا تھا اسلام کی وجہ سے کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہا کا خاندان انتہائی اسلام مخالف تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے عملی تجربے اور عقلمندی کی وجہ سے کئی مواقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلم میں کمی آئی۔ آپ رضی اللہ عنہا اسلامی قانون کی استانی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہہ کی حمایتی تھیں۔
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہہ کی بیوی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کزن بھی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا پسند آ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برداشت نہیں ہوا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی طلاق کروائی گئی زبردستی۔ بعد میں لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ منہ بولا بیٹا سگا بیٹا نہیں ہوتا لہذا حضرت زینب رضی اللہ عنہا انکی بہو نہیں تھیں۔ دوسری بات یہ بتائی کہ چونکہ وہ نبی ہیں لہذا ان پر چار شادیوں والی شرط لاگو نہیں ہوتی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بھی چمڑے کے کام میں مہارت رکھتی تھیں۔
ریحانہ بنت زید بن امر (جنسی کنیز)
آپ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر ان لوگوں میں سے تھے جن کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپریل 627 عیسوی میں سر قلم کروایا تھا۔ تمام عورتوں کو غلام بنا لیا گیا تھا اور ریحانہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے منتخب فرمایا کیونکہ وہ سب سے خوبصورت تھیں۔ جب ریحانہ نے شادی سے انکار کیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی کنیز یعنی باندی کے طور پر رکھ لیا۔ لیکن پانچ سال بعد ہی آپ فوت ہو گئیں۔
حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا ایک عرب سردار کی بیٹی تھیں۔ جب مسلمانوں نے حملہ کر کے اس قبیلے کو فتح کیا تو آپ رضی اللہ عنہا کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت نہیں تھی کہ جنگی قیدیوں سے نکاح کریں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہہ کر مجبور کر دیا کہ جویریہ اتنی خوبصورت ہے کہ مرد اسے دیکھ کر پہلی نظر میں ہی عاشق ہو جاتے ہیں۔
حضرت رملہ بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا مکہ کے مشہور سردار ابوسفیان کی بیٹی تھیں۔ ابو سفیان نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مہم جوئی بھی کی تھی۔ حضرت رملہ جوانی میں ہی اسلام قبول کر چکی تھیں۔ اس شادی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح حدیبیہ کی صورت میں سیاسی شکست اور شرمندگی میں بھی کچھ کمی واقع ہوئی کیونکہ اس سے یہ ظاہر کیا گیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سردار کی بیٹی کو نکاح کر سکتے ہیں لہذا وہ ان کے تابع ہے۔ حضرت رملہ رضی اللہ عنہا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھیں اور اس معاملے پر لوگوں سے جھگڑ پڑتی تھی جو نبی پاک کے مخالف تھے۔
حضرت صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا یہودی سردار حی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا سے اس دن شادی کی جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے آخری یہودی قبیلے کو شکست دی۔ شادی سے چند گھنٹے قبل ہی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے دوسرے شوہر کا سر قلم کیا تھا۔ اس سے پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کے والد، پہلے شوہر، بھائی، تین انکل اور کافی سارے کزنز کا بھی سر قلم کر چکے تھے۔ اس شادی کا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے شکست خوردہ قبیلے کو کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ کچھ ہی سالوں بعد ان کے قبیلے کو عرب سے نکال دیا گیا۔ بظاہر اس شادی کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ گھر میں یہودی قبیلے کی بیوی ہو جس سے یہ اظہار ہو کہ مسلمانوں نے یہودیوں کو شکست دی ہے۔
حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا
آپ رضی اللہ عنہا مکہ کی ایک مڈل کلاس بیوہ تھیں جنہوں نے خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا۔ آپ رضی اللہ عنہا ایک گھریلو خاتون تھیں اور گھر کو بہت صاف ستھرا رکھتی تھیں۔ رسم ورواج کی رسیا تھیں۔
ماریہ بنت شمعون القبطیہ (کنیز) جنسی غلام
آپ ان باندیوں میں سے تھیں جنہیں مصر کے گورنر نے بطور تحفہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بطور باندی رکھ لیا اپنی بیویوں کے اعتراض کے باوجود کیونکہ آپ بہت خوبصورت تھیں۔ آپ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ابراہیم رکھا گیا۔
ملا��کہ بنت کعب
مسلمانوں کی مکہ پر مہم جوئی کی مخالفت کی تھی آپ کے خاندان نے۔ لیکن چونکہ مسلمان کامیاب رہے اسلئے ان کے خاندان نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے ملائکہ کو بطور دلہن پیش کیا۔ لیکن جب ملائکہ کو پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو قتل کر دیا ہے تو انہوں نے طلاق کا مطالبہ کیا جسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ طلاق کے کچھ ہفتے بعد آپ فوت ہو گئیں۔
فاطمہ العالیہ بنت ذبیان الدحک
آپ ایک چھوٹے سے سردار کی بیٹی تھیں جس نے اسلام قبول کیا تھا۔ شادی کے چند ہفتے بعد ہی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلاق دے دی کیونکہ وہ مسجد میں مردوں کو دیکھا کرتی تھیں۔ انہیں طلاق کے بعد ساری زندگی گوبر اکٹھے کرنے کا کام کرنا پڑا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیواؤں سے زیادہ عمر پائی۔
اسما بنت النعمان
یہ یمن کی شہزادی تھیں جن کے خاندان نے اس وجہ سے ان کی شادی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دی تاکہ مسلمان یمن پر حملہ نہ کریں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی طلاق دے دی مباشرت سے پہلے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دھوکے سے انہیں طلاق کے کلمات پڑھوا دئیے تھے۔ بعد میں انکی شادی ام سلمہ کے بھائی سے کی گئی۔
الجاریہ (کنیز، باندی)
یہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی ذاتی ملکیت میں تھیں۔ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بطور تحفہ الجاریہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یہ آفیشل باندی نہیں تھیں اسلئے ان کی مباشرت کی باری بھی کبھی کبھی آتی تھی۔ مقرر نہیں تھی۔
اسما بنت یزید
ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مباشرت سے قبل طلاق دے دی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شک تھا کہ انہیں کوڑھ کا مرض تھا۔
89 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی ایک نماز
اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الااللہ
Tumblr media
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہہ کی توتلی آواز میں اذان کی آواز جیسے ہی سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی شہزادی خاتون جنت حضرت سیّدہ بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے کانوں میں پہنچی، آپ نماز فجر کیلئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ سیدہ خاتون جنت گھر میں اکیلی تھیں۔ والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال پُرملال ہو چکا تھا اور والد محترم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نئی نویلی چھوٹی سی دلہن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر اپنی سہاگ رات منا رہے تھے۔
اوپر اوپر سے تو فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن اندر ہی اندر سے آپ انتہائی ناراض تھیں اپنے والد محترم کے صنف مخالف میں حد سے زیادہ دلچسپی لینے کی وجہ سے۔
خیر، یہ کسی اور وقت کا قصہ ہے۔ فی الحال تو آپ فجر کیلئے اٹھیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا یہ معجزہ تھا کہ آپ کے گھر میں چراغ کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ سیدہ کے ہاشمی جسم مبارک سے پھوٹنے والے نور کی روشنی اتنی تھی کہ گھر تو روشن تھا ہی لیکن گھر کے دروازے کی جگہ جو پردہ لگا تھا وہ بھی باہر سے بے حد روشن ہو جاتا تھا۔ بی بی فاطمتہ الزہرا نے وضو کیا اور نماز کیلئے جانماز بچھائی۔ قبلہ رخ ہو کر نماز کی نیت کی اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ سینے پر باندھ لئے۔ نہایت خشوع و خضوع سے نماز ادا کر رہی تھیں۔ ساری توجہ اللہ کی کبریائی کی طرف مرکوز تھی۔ اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں گئیں۔ رکوع میں جا کر سبحان رہی العظیم کہہ رہی تھیں کہ اچانک کسی نے ایک جھٹکے سے آپ کی شلوار مبارک نیچے کھینچ دی۔ نیچے کچھ پہننے کا رواج نہ تب تھا مسلمانوں میں نہ ہی اب ہے۔ لہذا شلوار اترنے کی وجہ سے آپ کی شرمگاہ مبارک برہنہ ہو گئی۔ لیکن آفرین ہے اسلام کی اس عظیم فرزند پر کہ اپنے بابا محمد کا یہ قول نہ بھولیں کہ بیٹی نماز نہ توڑنا چاہے کچھ ہو جائے۔ رکوع مکمل کر کے کھڑی ہوئیں اور سجدے میں چلی گئیں لیکن انہیں کیا علم تھا کہ اللہ نے آج انکی اور انکی اسلام سے محبت کی آزمائش کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سجدے میں جا کر اللہ کی بڑائی بیان کر رہی تھیں کہ اچانک کوئی چیز پیچھے سے آپکی شرمگاہ میں داخل ہو گئی۔ بچی تو تھیں نہیں آپ کہ پتہ نہ چلتا۔ آپ کو یہ معلوم تھا کہ کسی نے اپنا عضو تناسل آپکی شرمگاہ میں داخل کر دیا ہے اور اب دھکے لگا رہا ہے۔
بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے منہ مبارک سے سبحان رہی الاعلیٰ اب زور سے نکل رہا تھا کیونکہ اس نامعلوم مرد کے دھکے ناقابل برداشت ہوتے جا رہے تھے اور اس کے عضو کی لمبائی موٹائی بھی کافی زیادہ تھی۔ آپ پھر بھی بھرپور کوشش کر رہی تھیں کہ توجہ نماز پر ہی رہے۔ آخر کچھ دیر دھکے لگانے کے بعد اس شخص نے اپنا عضو نکال لیا آپ کی نرم و نازک ملائم شرمگاہ سے اپنا مادہ منویہ آپ کی شرمگاہ کے اندر خارج کرنے کی بجائے آپ کے چوتڑوں پر نکال دیا۔ بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا میں اب نماز مکمل کرنے کی بھی سکت نہ تھی۔ لہذا اسی حالت میں سجدے میں اللہ کو پکارتی رہیں حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے۔
جب اپنی ناز و نعم میں پلی لاڈلی بیٹی کو اس حالت میں دیکھا تو آپ کو دکھ پہنچا۔ لیکن ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں عورتوں سے رغبت کا جذبہ بہت ذیادہ تھا لہذا دکھ کا احساس ایک لمحے میں فنا ہو گیا اور اس کی جگہ ہوس نے لے لی۔ جی ہاں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہی پیاری بیٹی کا اس حالت میں ریپ کر دیا۔
اس کے کچھ دن بعد بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئی تھیں لہذا بدنامی کے ڈر سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ان کا نکاح کر دیا گیا۔ اب پتہ نہیں حسن اور حسین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہیں یا حضرت علی کی۔
319 notes · View notes
chrahman · 7 months ago
Text
اسلام اور اس کی تبلیغ
تمام مسلمان بہن بھائیوں کو محمد کا سلام میں نے بہت مشکل سے اسلام کو دنیا میں پھیلایا حتی کہ اللہ نے مجھے جبرائیل کے ہاتھ وحی کی جو کہ آج کل کے کچھ منہوس اور نافرمان مولویوں کی وجہ سے آپ تمام بہن بھائیوں اور میری پاک نورانی بیٹیوں تک ناں پہنچ سکی😔
میں اس وقت غار حرا میں تھا میرے ساتھ ابوبکر بھی تھا ہم دونوں وہاں عبادت کر رہے تھے اور ابوبکر میرا لن چوس رہا تھا کیا کہوں کیا ہی وہ سکون تھا کہ اسی حالت میں جس وقت میرا 12 انچ کا لوڑا ابوبکر یعنی میرے سسر عائشہ رنڈی علیہ السلام کے والد کے منہ میں تھا کہ جبرائیل آیا اور اس نے مجھے کہا:
"اے محمد اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر کہہ دو کہ اس کی زندگی میں ہم نے بہت مشکلات رکھی ہیں اور اس کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ رکھے پھر چاہے اسلام کی تبلیغ کیلیے وہ اپنے خاندان کی عورتوں کا کاروبار ہی کیوں ناں کر کے کھائے"
یہ سورة البقرہ کی پہلی چند آیت تھی مگر ان حرام کے جنوں نے میری زندگی کو اپنے مطلب سے سب تک پہنچایا اگر آج تم سب کو کوئی بھی ایسا انسان خصوصا مسلمان ملے جو اپنی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، سالی حتی کہ گھر کی کسی بھی عورت کو چودے یا چدائے اور اس کی کمائی کھائے تو وہ میری سنت اولین پر عمل کرے گا اور قیامت کے دن میں ایسے لوگوں کو چن چن کر نکالونگا اور اللہ کے حضور ان کی شفاعت کرونگا....
اس وحی کے اترنے کے ساتھ جب میں گھر گیا تو میں نے دیکھا کہ میری بچی فاطمہ، عائشہ میری پسندیدہ بیوی اور میرے گھر کی سب عورتیں مجھے ایسے کہنے لگی اور مجھے اچھا لگا...
میں آپ سب سے گزارش کرونگا کہ ایسے قرآن کو جس میں کوئی حقائق نہیں ہیں مت پڑھو مگر اسے اپنی خوبصورت ٹٹی اور خوشبودار ٹٹی صاف کرنے کیلیے رکھو بیشک ٹٹی اور پاد دونوں جنت کے پھلوں میں سے ہیں
تحقیقی جائزہ....
حوالہ: ابو داود جلد نمبر چہارم
اذ قلم: حضرت اجنبی
83 notes · View notes