#مقبرہ غازی خاں
Explore tagged Tumblr posts
Text
سیت پور
تحصیل علی پور کا تاریخی قصبہ سیت پور کا شمار قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اس کا ذکر ہندوئوں کی مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ میں ملتا ہے جس کے مطابق آریائی قوم جن دیوتائوں کو پوجتے تھے انہی کے ناموں سے شہروں کو منسوب کر دیا جاتا تھا۔ تین سو قبل مسیح راجہ سنگھ کے نام سے دیو گڑھ اور اس کی دو بہنوں سیتارانی کے نام سے سیت پور اور اوچارانی کے نام سے اُچ شریف جیسے شہر آباد کئے گئے۔ سیت پور‘ علی پور سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے تاریخی قصبہ سیت پور زرخیزی کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے سکندر اعظم جب ایران کے آخری کیان بادشاہ داراسوم کو شکست دے کر پنجاب میں راجہ پورس کو شکست دیتے ہوئے ملتان پہنچا تو ملتان میں ملہی قوم کے ہاتھوں زخمی ہوا اور پھر سیت پور سے ہوتا ہوا بلوچستان کے راستے اپنے وطن لوٹ گیا۔
مرقع ڈیرہ غازی خان اور بندوبست 1872ء محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق اسلام خان نے دریائے سندھ کے دائیں کنارے لودھی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر مظفر گڑھ کی روشنی میں لودھی حکومت کا صدر مقام سیت پور تھا یہ حکومت راجن پور‘ شکار پور‘ علی پور اور کوہ سلیمان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی روایت ہے کہ یہاں کا ایک حکمران بہت ظلم کرتا تھا۔ متاثرہ عوام نے انہیں ’’تابڑ‘‘ کا نام دیا جس کی وجہ سے حکمران ’’تابڑ خاندان‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر بہاولپور میں لکھا ہے کہ بہلول لودھی کے چچا اسلام خان لودھی نے جب ریاست کی بنیاد ڈالی تو اس کا صدر مقام سیت پور کو بنایا گیا اس بات کی تصدیق تذکرہ روسائے پنجاب سے بھی ہوتی ہے کہ ملتان کے گورنر بہلول لودھی نے اپنے دور میں اپنے چچا اسلام خان کو مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے جنوبی اور سندھ کے شمالی حصے کا ناظم مقرر کیا۔
اسلام خان ثانی اور جلال خان اسلام خان کے دو بیٹے تھے۔ اسلام خان ثانی سیت پور کی سلطنت کا اور جلال خان نے دکن میں حکمرانی کے مزے لوٹے یوں یہ سلسلہ اسلام خان دوم اکرام خان اور اس کے دو بیٹوں سلطان محمد خان اور شاہ عالم خاں کا چلتا رہا۔ سلطان محمد خان کی حکمرانی اور اصولوں کے ڈنکے طول و عرض میں بجتے تھے پھر اس کے بیٹے طاہر محمد خان نے حکمرانی سنبھالی۔ روایت ہے کہ سخی حکمران ہونے کی وجہ سے یہ ظاہر محمد خان سخی کہلانے لگا۔ اس نے کثیر سرمائے سے اپنے باپ کا مقبرہ اور شاہی مسجد بھی تعمیر کرائی جو اب تک قائم ہے۔ مقبرہ میں طاہر خان سخی اپنے والد سلطان محمد خان کے پہلو میں ابدی نیند سو رہا ہے لیکن اس کے تعمیر کردہ مزار نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے ہشت پہلو مقبرہ اسلامی طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار اس پر ملتانی ٹائل اور نقاشی کا عمدہ کام کیا گیا ہے۔
کھجور کی لکڑی کا مرکزی دروازہ مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ محرابوں کے راستوں نے اسے ہوادار اور روشن بنا رکھا ہے۔ اس سے ملحقہ سیت پور کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔ یہاں بھی ملتانی نقاشی کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جب طاہر خان ثانی کا دور حکومت شروع ہوا تو یہاں کثیر تعداد میں مخادیم آباد تھے جوتاہڑ حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں ناظم مقرر تھے۔ لالہ ہنورام کی کتاب ’’گل بہار‘‘ کے مطابق تاہڑ خاندان کی حکومت اس وقت کمزور ہو گئی جب نادہ شاہ کے دور میں شیخ محمد راجو اول نے اپنی سلطنت کا اعلان کر دیا۔ بہاولپور گزٹیر میں لکھا ہے کہ شیخ محمد راجو نے نادر شاہ سے سیت پور سلطنت کا پروانہ اپنے نام لکھوا لیا اور یوں تاہڑ خاندان کی حکومت ختم ہو کر رہ گئی۔
1781ء میں تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور نواب بہاول خان ثانی نے شیخ راجو ثانی کے دور میں جتوئی پر قبضہ کر لیا 1790ء میں جب دریائے سندھ کا رخ سیت پور کے مغرب میں ہوا تو نواب آف بہاولپور کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہو گئیں۔ یوں نواب آف بہاولپور نے علی پور شہر سلطان خیرپور سادات کے علاقے سیت پور سے ریاست بہاولپور میں شامل کر دیئے۔ 1816ء میں رنجیت سنگھ نے اس علاقے کی بچی کھچی ریاست کو اپنے قبضے میں لیا یوں مخادیم کی حکمرانی بھی ختم ہو گئی اور سیت پور ایک معمولی علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا۔
شیخ نوید اسلم
(پاکستان کے آثار قدیمہ سے انتخاب)
0 notes
Text
سیت پور
تحصیل علی پور کا تاریخی قصبہ سیت پور کا شمار قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے اس کا ذکر ہندوئوں کی مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ میں ملتا ہے جس کے مطابق آریائی قوم جن دیوتائوں کو پوجتے تھے انہی کے ناموں سے شہروں کو منسوب کر دیا جاتا تھا۔ تین سو قبل مسیح راجہ سنگھ کے نام سے دیو گڑھ اور اس کی دو بہنوں سیتارانی کے نام سے سیت پور اور اوچارانی کے نام سے اُچ شریف جیسے شہر آباد کئے گئے۔ سیت پور‘ علی پور سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے تاریخی قصبہ سیت پور زرخیزی کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے سکندر اعظم جب ایران کے آخری کیان بادشاہ داراسوم کو شکست دے کر پنجاب میں راجہ پورس کو شکست دیتے ہوئے ملتان پہنچا تو ملتان میں ملہی قوم کے ہاتھوں زخمی ہوا اور پھر سیت پور سے ہوتا ہوا بلوچستان کے راستے اپنے وطن لوٹ گیا۔
مرقع ڈیرہ غازی خان اور بندوبست 1872ء محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق اسلام خان نے دریائے سندھ کے دائیں کنارے لودھی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر مظفر گڑھ کی روشنی میں لودھی حکومت کا صدر مقام سیت پور تھا یہ حکومت راجن پور‘ شکار پور‘ علی پور اور کوہ سلیمان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی روایت ہے کہ یہاں کا ایک حکمران بہت ظلم کرتا تھا۔ متاثرہ عوام نے انہیں ’’تابڑ‘‘ کا نام دیا جس کی وجہ سے حکمران ’’تابڑ خاندان‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ ڈسٹرکٹ گزٹیئر بہاولپور میں لکھا ہے کہ بہلول لودھی کے چچا اسلام خان لودھی نے جب ریاست کی بنیاد ڈالی تو اس کا صدر مقام سیت پور کو بنایا گیا اس بات کی تصدیق تذکرہ روسائے پنجاب سے بھی ہوتی ہے کہ ملتان کے گورنر بہلول لودھی نے اپنے دور میں اپنے چچا اسلام خان کو مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے جنوبی اور سندھ کے شمالی حصے کا ناظم مقرر کیا۔
اسلام خان ثانی اور جلال خان اسلام خان کے دو بیٹے تھے۔ اسلام خان ثانی سیت پور کی سلطنت کا اور جلال خان نے دکن میں حکمرانی کے مزے لوٹے یوں یہ سلسلہ اسلام خان دوم اکرام خان اور اس کے دو بیٹوں سلطان محمد خان اور شاہ عالم خاں کا چلتا رہا۔ سلطان محمد خان کی حکمرانی اور اصولوں کے ڈنکے طول و عرض میں بجتے تھے پھر اس کے بیٹے طاہر محمد خان نے حکمرانی سنبھالی۔ روایت ہے کہ سخی حکمران ہونے کی وجہ سے یہ ظاہر محمد خان سخی کہلانے لگا۔ اس نے کثیر سرمائے سے اپنے باپ کا مقبرہ اور شاہی مسجد بھی تعمیر کرائی جو اب تک قائم ہے۔ مقبرہ میں طاہر خان سخی اپنے والد سلطان محمد خان کے پہلو میں ابدی نیند سو رہا ہے لیکن اس کے تعمیر کردہ مزار نے اسے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے ہشت پہلو مقبرہ اسلامی طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار اس پر ملتانی ٹائل اور نقاشی کا عمدہ کام کیا گیا ہے۔
کھجور کی لکڑی کا مرکزی دروازہ مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ محرابوں کے راستوں نے اسے ہوادار اور روشن بنا رکھا ہے۔ اس سے ملحقہ سیت پور کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔ یہاں بھی ملتانی نقاشی کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جب طاہر خان ثانی کا دور حکومت شروع ہوا تو یہاں کثیر تعداد میں مخادیم آباد تھے جوتاہڑ حکومت کی طرف سے مختلف علاقوں میں ناظم مقرر تھے۔ لالہ ہنورام کی کتاب ’’گل بہار‘‘ کے مطابق تاہڑ خاندان کی حکومت اس وقت کمزور ہو گئی جب نادہ شاہ کے دور میں شیخ محمد راجو اول نے اپنی سلطنت کا اعلان کر دیا۔ بہاولپور گزٹیر میں لکھا ہے کہ شیخ محمد راجو نے نادر شاہ سے سیت پور سلطنت کا پروانہ اپنے نام لکھوا لیا اور یوں تاہڑ خاندان کی حکومت ختم ہو کر رہ گئی۔
1781ء میں تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا اور نواب بہاول خان ثانی نے شیخ راجو ثانی کے دور میں جتوئی پر قبضہ کر لیا 1790ء میں جب دریائے سندھ کا رخ سیت پور کے مغرب میں ہوا تو نواب آف بہاولپور کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہو گئیں۔ یوں نواب آف بہاولپور نے علی پور شہر سلطان خیرپور سادات کے علاقے سیت پور سے ریاست بہاولپور میں شامل کر دیئے۔ 1816ء میں رنجیت سنگھ نے اس علاقے کی بچی کھچی ریاست کو اپنے قبضے میں لیا یوں مخادیم کی حکمرانی بھی ختم ہو گئی اور سیت پور ایک معمولی علاقے تک محدود ہو کر رہ گیا۔
شیخ نوید اسلم
(پاکستان کے آثار قدیمہ سے انتخاب)
0 notes
Text
’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان
میرپور خاص ڈویژن کے تعلقہ شہداد پور میں ’’شاہ پور چاکر‘‘ نام کا چھوٹا سا شہر آباد ہے، جس کی کل آبادی صرف50ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نواب شاہ اور سانگھڑ کے درمیان واقع اس شہرکا دونوں اضلاع سےفاصلہ 30کلومیٹر ہے۔ اس شہرکےچھوٹے چھوٹے گوٹھوں میںایک سو مختلف برادریوں کے افراد رہتے ہیں۔اس کی وجہ شہرت ’’شاہ قبیلے ‘‘ کے اکابرین کے مقابر ہیں ،جو شہر کے غیرآباد علاقے میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع ہیں۔ اسے سندھ کا تاریخی ورثہ اورشاہ قبیلے کا خاندانی قبرستان بھی کہا جاتاہے، جہاںمیر شہداد خان اورچاکر خان کے عزیز و اقارب مدفون ہیں ۔ یہاں سب سے پہلے تین صدیاں قبل میر چاکر خان نےاپنے والدکی تدفین کی تھی،جو بعد ازاں’’ میر شہداد جو قبو‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قبرستان میں تقریباً نصف درجن مقابر پختہ ہیں ،جو گوتھک اور قدیم سندھی فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان کی تعمیر میں سرخ اینٹوںاور چٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے چونا، ماش کی دال ریت اور پانی کا آمیزہ استعمال کیا گیا ۔
میر شہداد، میر چاکر اور دیگردو مقابربڑے کمرے کی صورت میں گنبد نما بنائے گئے ہیں، جن کی چوٹی پر لوہے کی کلغی بنی ہوئی ہے ۔ ایک مقبرہ وسیع احاطے میں چھتری چھجہ نما بنا ہوا ہے،جس میں تقریباًبارہ قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ان مقابر کے عقب میںایک پرشکوہ مسجد کا مینار بھی نظر آتا ہے، جو اس قبرستان کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔میر شہداد تالپورر اور چاکر خان کے مزارات میں داخل ہونے کے لیے محراب نما دروازے بنائے گئے ، جن پر بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مقابر کے چاروں طرف محرابیں بنائی گئی ہیں،شہداد تالپور کے مزار کے گنبد پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے ،جن میں سے ایک مینار منہدم ہوچکا ہے۔ اس مقبرے پر چونے سے سفیدی بھی کی گئی تھی۔محکمۂ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ قدیم قبرستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے، مقابر کی اینٹیں جھڑ رہی ہیں جن کا ڈھیر مزارات کے اطراف میں نظر آتا ہے۔
میر شہداد خاں تالپور ، کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں تالپور خاندان کا نام پہلی بار میاں یار محمد کلہوڑو کے دورحکومت میںمشہور ہوا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےشہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر راجستھان کا حکمران بنایا۔ان کی عمل داری میں سندھ کی ریاست بھی تھی جس پر کلہوڑو خاندان کی حکمرانی تھی۔ کلہوڑو حکمران مرید رکھا کرتے تھے اور تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس کے اکابرین ان سرداروں کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔
ان ہی دنوں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شورش برپا ہوئی، شہزادہ معزالدین ،بکھر سے ملتان ہوتے ہوئے مخدوش علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کرحالات بہتر کرنے کے لیےروانہ کیاگیا، جہاں وہ امن بحال کرنے میں کام یاب ہوگئے۔میر شہداد کی جرأت اور بہادری سےشہزادہ بہت متاثر ہوا اور انہیں1705میںسندھ میں ’’پٹ باران‘‘ والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔میر شہداد خان کی پہلے ہی کافی زمینیں تھیں اور ان کا شمار سندھ کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پنجاب سے واپسی کے بعد شہداد پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جس میں زراعت، صنعت و حرفت اور علوم و فنون کو فروغ دیا گیا۔شہداد خان سندھ میں تالپور خاندان کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
1734ء میں ان کی وفات کے بعد انہیں شاہ پور چاکر میں دفن کیا گیا۔میر شہداد تالپور کے چار میں سے تین بیٹے سندھ میں پلے بڑھے ،جب کہ چھوٹے بیٹے ،میر نندو تالپور ایران چلےگئے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ شہداد تالپور کے بڑے بیٹے میر چاکر خان نے اپنے والد کے بسائے ہوئے شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کی بنیاد رکھی، جسے چاکر خان کی وفات کے بعدان کے نام سے موسوم کرکے ’’شاہ پور چاکرو ‘‘ کا نام دیا گیا،کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے خیرپور کی ریاست میں تالپور خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی ۔
میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا،لیکن وہ اپنے والد کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کے سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکےمراد یاب کو حکم رانی سے معزول کرکے ان کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایا ،مگر وہ بھی اچھے حکمراں ثابت نہ ہوئے، جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے حامی سپاہیوں نے ان کے بھائی کی سربراہی قبول نہیں کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کے سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔
1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی،مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار سےلڑائی ہوگئی۔میر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مقتول میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔
The post ’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OygkX8 via Daily Khabrain
0 notes
Text
’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان
میرپور خاص ڈویژن کے تعلقہ شہداد پور میں ’’شاہ پور چاکر‘‘ نام کا چھوٹا سا شہر آباد ہے، جس کی کل آبادی صرف50ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نواب شاہ اور سانگھڑ کے درمیان واقع اس شہرکا دونوں اضلاع سےفاصلہ 30کلومیٹر ہے۔ اس شہرکےچھوٹے چھوٹے گوٹھوں میںایک سو مختلف برادریوں کے افراد رہتے ہیں۔اس کی وجہ شہرت ’’شاہ قبیلے ‘‘ کے اکابرین کے مقابر ہیں ،جو شہر کے غیرآباد علاقے میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع ہیں۔ اسے سندھ کا تاریخی ورثہ اورشاہ قبیلے کا خاندانی قبرستان بھی کہا جاتاہے، جہاںمیر شہداد خان اورچاکر خان کے عزیز و اقارب مدفون ہیں ۔ یہاں سب سے پہلے تین صدیاں قبل میر چاکر خان نےاپنے والدکی تدفین کی تھی،جو بعد ازاں’’ میر شہداد جو قبو‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قبرستان میں تقریباً نصف درجن مقابر پختہ ہیں ،جو گوتھک اور قدیم سندھی فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان کی تعمیر میں سرخ اینٹوںاور چٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے چونا، ماش کی دال ریت اور پانی کا آمیزہ استعمال کیا گیا ۔
میر شہداد، میر چاکر اور دیگردو مقابربڑے کمرے کی صورت میں گنبد نما بنائے گئے ہیں، جن کی چوٹی پر لوہے کی کلغی بنی ہوئی ہے ۔ ایک مقبرہ وسیع احاطے میں چھتری چھجہ نما بنا ہوا ہے،جس میں تقریباًبارہ قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ان مقابر کے عقب میںایک پرشکوہ مسجد کا مینار بھی نظر آتا ہے، جو اس قبرستان کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔میر شہداد تالپورر اور چاکر خان کے مزارات میں داخل ہونے کے لیے محراب نما دروازے بنائے گئے ، جن پر بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مقابر کے چاروں طرف محرابیں بنائی گئی ہیں،شہداد تالپور کے مزار کے گنبد پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے ،جن میں سے ایک مینار منہدم ہوچکا ہے۔ اس مقبرے پر چونے سے سفیدی بھی کی گئی تھی۔محکمۂ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ قدیم قبرستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے، مقابر کی اینٹیں جھڑ رہی ہیں جن کا ڈھیر مزارات کے اطراف میں نظر آتا ہے۔
میر شہداد خاں تالپور ، کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں تالپور خاندان کا نام پہلی بار میاں یار محمد کلہوڑو کے دورحکومت میںمشہور ہوا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےشہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر راجستھان کا حکمران بنایا۔ان کی عمل داری میں سندھ کی ریاست بھی تھی جس پر کلہوڑو خاندان کی حکمرانی تھی۔ کلہوڑو حکمران مرید رکھا کرتے تھے اور تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس کے اکابرین ان سرداروں کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔
ان ہی دنوں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شورش برپا ہوئی، شہزادہ معزالدین ،بکھر سے ملتان ہوتے ہوئے مخدوش علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کرحالات بہتر کرنے کے لیےروانہ کیاگیا، جہاں وہ امن بحال کرنے میں کام یاب ہوگئے۔میر شہداد کی جرأت اور بہادری سےشہزادہ بہت متاثر ہوا اور انہیں1705میںسندھ میں ’’پٹ باران‘‘ والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔میر شہداد خان کی پہلے ہی کافی زمینیں تھیں اور ان کا شمار سندھ کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پنجاب سے واپسی کے بعد شہداد پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جس میں زراعت، صنعت و حرفت اور علوم و فنون کو فروغ دیا گیا۔شہداد خان سندھ میں تالپور خاندان کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
1734ء میں ان کی وفات کے بعد انہیں شاہ پور چاکر میں دفن کیا گیا۔میر شہداد تالپور کے چار میں سے تین بیٹے سندھ میں پلے بڑھے ،جب کہ چھوٹے بیٹے ،میر نندو تالپور ایران چلےگئے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ شہداد تالپور کے بڑے بیٹے میر چاکر خان نے اپنے والد کے بسائے ہوئے شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کی بنیاد رکھی، جسے چاکر خان کی وفات کے بعدان کے نام سے موسوم کرکے ’’شاہ پور چاکرو ‘‘ کا نام دیا گیا،کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے خیرپور کی ریاست میں تالپور خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی ۔
میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا،لیکن وہ اپنے والد کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کے سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکےمراد یاب کو حکم رانی سے معزول کرکے ان کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایا ،مگر وہ بھی اچھے حکمراں ثابت نہ ہوئے، جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے حامی سپاہیوں نے ان کے بھائی کی سربراہی قبول نہیں کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کے سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔
1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی،مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار سےلڑائی ہوگئی۔میر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مقتول میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔
The post ’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OygkX8 via Urdu News
#Urdu News#Daily Pakistan#Today Pakistan#Pakistan Newspaper#World Urdu News#Entertainment Urdu News#N
0 notes
Text
’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان
میرپور خاص ڈویژن کے تعلقہ شہداد پور میں ’’شاہ پور چاکر‘‘ نام کا چھوٹا سا شہر آباد ہے، جس کی کل آبادی صرف50ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نواب شاہ اور سانگھڑ کے درمیان واقع اس شہرکا دونوں اضلاع سےفاصلہ 30کلومیٹر ہے۔ اس شہرکےچھوٹے چھوٹے گوٹھوں میںایک سو مختلف برادریوں کے افراد رہتے ہیں۔اس کی وجہ شہرت ’’شاہ قبیلے ‘‘ کے اکابرین کے مقابر ہیں ،جو شہر کے غیرآباد علاقے میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع ہیں۔ اسے سندھ کا تاریخی ورثہ اورشاہ قبیلے کا خاندانی قبرستان بھی کہا جاتاہے، جہاںمیر شہداد خان اورچاکر خان کے عزیز و اقارب مدفون ہیں ۔ یہاں سب سے پہلے تین صدیاں قبل میر چاکر خان نےاپنے والدکی تدفین کی تھی،جو بعد ازاں’’ میر شہداد جو قبو‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قبرستان میں تقریباً نصف درجن مقابر پختہ ہیں ،جو گوتھک اور قدیم سندھی فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان کی تعمیر میں سرخ اینٹوںاور چٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے چونا، ماش کی دال ریت اور پانی کا آمیزہ استعمال کیا گیا ۔
میر شہداد، میر چاکر اور دیگردو مقابربڑے کمرے کی صورت میں گنبد نما بنائے گئے ہیں، جن کی چوٹی پر لوہے کی کلغی بنی ہوئی ہے ۔ ایک مقبرہ وسیع احاطے میں چھتری چھجہ نما بنا ہوا ہے،جس میں تقریباًبارہ قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ان مقابر کے عقب میںایک پرشکوہ مسجد کا مینار بھی نظر آتا ہے، جو اس قبرستان کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔میر شہداد تالپورر اور چاکر خان کے مزارات میں داخل ہونے کے لیے محراب نما د��وازے بنائے گئے ، جن پر بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مقابر کے چاروں طرف محرابیں بنائی گئی ہیں،شہداد تالپور کے مزار کے گنبد پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے ،جن میں سے ایک مینار منہدم ہوچکا ہے۔ اس مقبرے پر چونے سے سفیدی بھی کی گئی تھی۔محکمۂ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ قدیم قبرستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے، مقابر کی اینٹیں جھڑ رہی ہیں جن کا ڈھیر مزارات کے اطراف میں نظر آتا ہے۔
میر شہداد خاں تالپور ، کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں تالپور خاندان کا نام پہلی بار میاں یار محمد کلہوڑو کے دورحکومت میںمشہور ہوا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےشہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر راجستھان کا حکمران بنایا۔ان کی عمل داری میں سندھ کی ریاست بھی تھی جس پر کلہوڑو خاندان کی حکمرانی تھی۔ کلہوڑو حکمران مرید رکھا کرتے تھے اور تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس کے اکابرین ان سرداروں کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔
ان ہی دنوں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شورش برپا ہوئی، شہزادہ معزالدین ،بکھر سے ملتان ہوتے ہوئے مخدوش علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کرحالات بہتر کرنے کے لیےروانہ کیاگیا، جہاں وہ امن بحال کرنے میں کام یاب ہوگئے۔میر شہداد کی جرأت اور بہادری سےشہزادہ بہت متاثر ہوا اور انہیں1705میںسندھ میں ’’پٹ باران‘‘ والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔میر شہداد خان کی پہلے ہی کافی زمینیں تھیں اور ان کا شمار سندھ کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پنجاب سے واپسی کے بعد شہداد پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جس میں زراعت، صنعت و حرفت اور علوم و فنون کو فروغ دیا گیا۔شہداد خان سندھ میں تالپور خاندان کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
1734ء میں ان کی وفات کے بعد انہیں شاہ پور چاکر میں دفن کیا گیا۔میر شہداد تالپور کے چار میں سے تین بیٹے سندھ میں پلے بڑھے ،جب کہ چھوٹے بیٹے ،میر نندو تالپور ایران چلےگئے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ شہداد تالپور کے بڑے بیٹے میر چاکر خان نے اپنے والد کے بسائے ہوئے شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کی بنیاد رکھی، جسے چاکر خان کی وفات کے بعدان کے نام سے موسوم کرکے ’’شاہ پور چاکرو ‘‘ کا نام دیا گیا،کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے خیرپور کی ریاست میں تالپور خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی ۔
میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا،لیکن وہ اپنے والد کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کے سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکےمراد یاب کو حکم رانی سے معزول کرکے ان کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایا ،مگر وہ بھی اچھے حکمراں ثابت نہ ہوئے، جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے حامی سپاہیوں نے ان کے بھائی کی سربراہی قبول نہیں کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کے سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔
1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی،مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار سےلڑائی ہوگئی۔میر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مقتول میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔
The post ’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OygkX8 via Hindi Khabrain
#pakistani urdu newspaper daily#khabrain#the hindu newspaper#punjab news#bengali news#akhbar urdu pep
0 notes
Text
’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان
میرپور خاص ڈویژن کے تعلقہ شہداد پور میں ’’شاہ پور چاکر‘‘ نام کا چھوٹا سا شہر آباد ہے، جس کی کل آبادی صرف50ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نواب شاہ اور سانگھڑ کے درمیان واقع اس شہرکا دونوں اضلاع سےفاصلہ 30کلومیٹر ہے۔ اس شہرکےچھوٹے چھوٹے گوٹھوں میںایک سو مختلف برادریوں کے افراد رہتے ہیں۔اس کی وجہ شہرت ’’شاہ قبیلے ‘‘ کے اکابرین کے مقابر ہیں ،جو شہر کے غیرآباد علاقے میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع ہیں۔ اسے سندھ کا تاریخی ورثہ اورشاہ قبیلے کا خاندانی قبرستان بھی کہا جاتاہے، جہاںمیر شہداد خان اورچاکر خان کے عزیز و اقارب مدفون ہیں ۔ یہاں سب سے پہلے تین صدیاں قبل میر چاکر خان نےاپنے والدکی تدفین کی تھی،جو بعد ازاں’’ میر شہداد جو قبو‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قبرستان میں تقریباً نصف درجن مقابر پختہ ہیں ،جو گوتھک اور قدیم سندھی فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان کی تعمیر میں سرخ اینٹوںاور چٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے چونا، ماش کی دال ریت اور پانی کا آمیزہ استعمال کیا گیا ۔
میر شہداد، میر چاکر اور دیگردو مقابربڑے کمرے کی صورت میں گنبد نما بنائے گئے ہیں، جن کی چوٹی پر لوہے کی کلغی بنی ہوئی ہے ۔ ایک مقبرہ وسیع احاطے میں چھتری چھجہ نما بنا ہوا ہے،جس میں تقریباًبارہ قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ان مقابر کے عقب میںایک پرشکوہ مسجد کا مینار بھی نظر آتا ہے، جو اس قبرستان کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔میر شہداد تالپورر اور چاکر خان کے مزارات میں داخل ہونے کے لیے محراب نما دروازے بنائے گئے ، جن پر بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مقابر کے چاروں طرف محرابیں بنائی گئی ہیں،شہداد تالپور کے مزار کے گنبد پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے ،جن میں سے ایک مینار منہدم ہوچکا ہے۔ اس مقبرے پر چونے سے سفیدی بھی کی گئی تھی۔محکمۂ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ قدیم قبرستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے، مقابر کی اینٹیں جھڑ رہی ہیں جن کا ڈھیر مزارات کے اطراف میں نظر آتا ہے۔
میر شہداد خاں تالپور ، کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں تالپور خاندان کا نام پہلی بار میاں یار محمد کلہوڑو کے دورحکومت میںمشہور ہوا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےشہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر راجستھان کا حکمران بنایا۔ان کی عمل داری میں سندھ کی ریاست بھی تھی جس پر کلہوڑو خاندان کی حکمرانی تھی۔ کلہوڑو حکمران مرید رکھا کرتے تھے اور تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس کے اکابرین ان سرداروں کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔
ان ہی دنوں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شورش برپا ہوئی، شہزادہ معزالدین ،بکھر سے ملتان ہوتے ہوئے مخدوش علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کرحالات بہتر کرنے کے لیےروانہ کیاگیا، جہاں وہ امن بحال کرنے میں کام یاب ہوگئے۔میر شہداد کی جرأت اور بہادری سےشہزادہ بہت متاثر ہوا اور انہیں1705میںسندھ میں ’’پٹ باران‘‘ والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔میر شہداد خان کی پہلے ہی کافی زمینیں تھیں اور ان کا شمار سندھ کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پنجاب سے واپسی کے بعد شہداد پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جس میں زراعت، صنعت و حرفت اور علوم و فنون کو فروغ دیا گیا۔شہداد خان سندھ میں تالپور خاندان کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
1734ء میں ان کی وفات کے بعد انہیں شاہ پور چاکر میں دفن کیا گیا۔میر شہداد تالپور کے چار میں سے تین بیٹے سندھ میں پلے بڑھے ،جب کہ چھوٹے بیٹے ،میر نندو تالپور ایران چلےگئے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ شہداد تالپور کے بڑے بیٹے میر چاکر خان نے اپنے والد کے بسائے ہوئے شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کی بنیاد رکھی، جسے چاکر خان کی وفات کے بعدان کے نام سے موسوم کرکے ’’شاہ پور چاکرو ‘‘ کا نام دیا گیا،کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے خیرپور کی ریاست میں تالپور خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی ۔
میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا،لیکن وہ اپنے والد کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کے سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکےمراد یاب کو حکم رانی سے معزول کرکے ان کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایا ،مگر وہ بھی اچھے حکمراں ثابت نہ ہوئے، جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے حامی سپاہیوں نے ان کے بھائی کی سربراہی قبول نہیں کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کے سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔
1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی،مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار سےلڑائی ہوگئی۔میر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مقتول میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔
The post ’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OygkX8 via Daily Khabrain
0 notes
Text
’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان
میرپور خاص ڈویژن کے تعلقہ شہداد پور میں ’’شاہ پور چاکر‘‘ نام کا چھوٹا سا شہر آباد ہے، جس کی کل آبادی صرف50ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نواب شاہ اور سانگھڑ کے درمیان واقع اس شہرکا دونوں اضلاع سےفاصلہ 30کلومیٹر ہے۔ اس شہرکےچھوٹے چھوٹے گوٹھوں میںایک سو مختلف برادریوں کے افراد رہتے ہیں۔اس کی وجہ شہرت ’’شاہ قبیلے ‘‘ کے اکابرین کے مقابر ہیں ،جو شہر کے غیرآباد علاقے میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع ہیں۔ اسے سندھ کا تاریخی ورثہ اورشاہ قبیلے کا خاندانی قبرستان بھی کہا جاتاہے، جہاںمیر شہداد خان اورچاکر خان کے عزیز و اقارب مدفون ہیں ۔ یہاں سب سے پہلے تین صدیاں قبل میر چاکر خان نےاپنے والدکی تدفین کی تھی،جو بعد ازاں’’ میر شہداد جو قبو‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قبرستان میں تقریباً نصف درجن مقابر پختہ ہیں ،جو گوتھک اور قدیم سندھی فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان کی تعمیر میں سرخ اینٹوںاور چٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے چونا، ماش کی دال ریت اور پانی کا آمیزہ استعمال کیا گیا ۔
میر شہداد، میر چاکر اور دیگردو مقابربڑے کمرے کی صورت میں گنبد نما بنائے گئے ہیں، جن کی چوٹی پر لوہے کی کلغی بنی ہوئی ہے ۔ ایک مقبرہ وسیع احاطے میں چھتری چھجہ نما بنا ہوا ہے،جس میں تقریباًبارہ قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ان مقابر کے عقب میںایک پرشکوہ مسجد کا مینار بھی نظر آتا ہے، جو اس قبرستان کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔میر شہداد تالپورر اور چاکر خان کے مزارات میں داخل ہونے کے لیے محراب نما دروازے بنائے گئے ، جن پر بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مقابر کے چاروں طرف محرابیں بنائی گئی ہیں،شہداد تالپور کے مزار کے گنبد پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے ،جن میں سے ایک مینار منہدم ہوچکا ہے۔ اس مقبرے پر چونے سے سفیدی بھی کی گئی تھی۔محکمۂ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ قدیم قبرستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے، مقابر کی اینٹیں جھڑ رہی ہیں جن کا ڈھیر مزارات کے اطراف میں نظر آتا ہے۔
میر شہداد خاں تالپور ، کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں تالپور خاندان کا نام پہلی بار میاں یار محمد کلہوڑو کے دورحکومت میںمشہور ہوا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےشہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر راجستھان کا حکمران بنایا۔ان کی عمل داری میں سندھ کی ریاست بھی تھی جس پر کلہوڑو خاندان کی حکمرانی تھی۔ کلہوڑو حکمران مرید رکھا کرتے تھے اور تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس کے اکابرین ان سرداروں کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔
ان ہی دنوں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شورش برپا ہوئی، شہزادہ معزالدین ،بکھر سے ملتان ہوتے ہوئے مخدوش علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کرحالات بہتر کرنے کے لیےروانہ کیاگیا، جہاں وہ امن بحال کرنے میں کام یاب ہوگئے۔میر شہداد کی جرأت اور بہادری سےشہزادہ بہت متاثر ہوا اور انہیں1705میںسندھ میں ’’پٹ باران‘‘ والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔میر شہداد خان کی پہلے ہی کافی زمینیں تھیں اور ان کا شمار سندھ کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پنجاب سے واپسی کے بعد شہداد پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جس میں زراعت، صنعت و حرفت اور علوم و فنون کو فروغ دیا گیا۔شہداد خان سندھ میں تالپور خاندان کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
1734ء میں ان کی وفات کے بعد انہیں شاہ پور چاکر میں دفن کیا گیا۔میر شہداد تالپور کے چار میں سے تین بیٹے سندھ میں پلے بڑھے ،جب کہ چھوٹے بیٹے ،میر نندو تالپور ایران چلےگئے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ شہداد تالپور کے بڑے بیٹے میر چاکر خان نے اپنے والد کے بسائے ہوئے شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کی بنیاد رکھی، جسے چاکر خان کی وفات کے بعدان کے نام سے موسوم کرکے ’’شاہ پور چاکرو ‘‘ کا نام دیا گیا،کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے خیرپور کی ریاست میں تالپور خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی ۔
میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا،لیکن وہ اپنے والد کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کے سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکےمراد یاب کو حکم رانی سے معزول کرکے ان کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایا ،مگر وہ بھی اچھے حکمراں ثابت نہ ہوئے، جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے حامی سپاہیوں نے ان کے بھائی کی سربراہی قبول نہیں کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کے سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی ا��ر میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔
1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی،مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار سےلڑائی ہوگئی۔میر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مقتول میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔
The post ’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OygkX8 via Today Urdu News
0 notes
Text
’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان
میرپور خاص ڈویژن کے تعلقہ شہداد پور میں ’’شاہ پور چاکر‘‘ نام کا چھوٹا سا شہر آباد ہے، جس کی کل آبادی صرف50ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نواب شاہ اور سانگھڑ کے درمیان واقع اس شہرکا دونوں اضلاع سےفاصلہ 30کلومیٹر ہے۔ اس شہرکےچھوٹے چھوٹے گوٹھوں میںایک سو مختلف برادریوں کے افراد رہتے ہیں۔اس کی وجہ شہرت ’’شاہ قبیلے ‘‘ کے اکابرین کے مقابر ہیں ،جو شہر کے غیرآباد علاقے میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع ہیں۔ اسے سندھ کا تاریخی ورثہ اورشاہ قبیلے کا خاندانی قبرستان بھی کہا جاتاہے، جہاںمیر شہداد خان اورچاکر خان کے عزیز و اقارب مدفون ہیں ۔ یہاں سب سے پہلے تین صدیاں قبل میر چاکر خان نےاپنے والدکی تدفین کی تھی،جو بعد ازاں’’ میر شہداد جو قبو‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قبرستان میں تقریباً نصف درجن مقابر پختہ ہیں ،جو گوتھک اور قدیم سندھی فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان کی تعمیر میں سرخ اینٹوںاور چٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے چونا، ماش کی دال ریت اور پانی کا آمیزہ استعمال کیا گیا ۔
میر شہداد، میر چاکر اور دیگردو مقابربڑے کمرے کی صورت میں گنبد نما بنائے گئے ہیں، جن کی چوٹی پر لوہے کی کلغی بنی ہوئی ہے ۔ ایک مقبرہ وسیع احاطے میں چھتری چھجہ نما بنا ہوا ہے،جس میں تقریباًبارہ قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ان مقابر کے عقب میںایک پرشکوہ مسجد کا مینار بھی نظر آتا ہے، جو اس قبرستان کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔میر شہداد تالپورر اور چاکر خان کے مزارات میں داخل ہونے کے لیے محراب نما دروازے بنائے گئے ، جن پر بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مقابر کے چاروں طرف محرابیں بنائی گئی ہیں،شہداد تالپور کے مزار کے گنبد پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے ،جن میں سے ایک مینار منہدم ہوچکا ہے۔ اس مقبرے پر چونے سے سفیدی بھی کی گئی تھی۔محکمۂ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ قدیم قبرستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے، مقابر کی اینٹیں جھڑ رہی ہیں جن کا ڈھیر مزارات کے اطراف میں نظر آتا ہے۔
میر شہداد خاں تالپور ، کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں تالپور خاندان کا نام پہلی بار میاں یار محمد کلہوڑو کے دورحکومت میںمشہور ہوا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےشہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر راجستھان کا حکمران بنایا۔ان کی عمل داری میں سندھ کی ریاست بھی تھی جس پر کلہوڑو خاندان کی حکمرانی تھی۔ کلہوڑو حکمران مرید رکھا کرتے تھے اور تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس کے اکابرین ان سرداروں کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔
ان ہی دنوں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شورش برپا ہوئی، شہزادہ معزالدین ،بکھر سے ملتان ہوتے ہوئے مخدوش علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کرحالات بہتر کرنے کے لیےروانہ کیاگیا، جہاں وہ امن بحال کرنے میں کام یاب ہوگئے۔میر شہداد کی جرأت اور بہادری سےشہزادہ بہت متاثر ہوا اور انہیں1705میںسندھ میں ’’پٹ باران‘‘ والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔میر شہداد خان کی پہلے ہی کافی زمینیں تھیں اور ان کا شمار سندھ کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پنجاب سے واپسی کے بعد شہداد پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جس میں زراعت، صنعت و حرفت اور علوم و فنون کو فروغ دیا گیا۔شہداد خان سندھ میں تالپور خاندان کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
1734ء میں ان کی وفات کے بعد انہیں شاہ پور چاکر میں دفن کیا گیا۔میر شہداد تالپور کے چار میں سے تین بیٹے سندھ میں پلے بڑھے ،جب کہ چھوٹے بیٹے ،میر نندو تالپور ایران چلےگئے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ شہداد تالپور کے بڑے بیٹے میر چاکر خان نے اپنے والد کے بسائے ہوئے شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کی بنیاد رکھی، جسے چاکر خان کی وفات کے بعدان کے نام سے موسوم کرکے ’’شاہ پور چاکرو ‘‘ کا نام دیا گیا،کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے خیرپور کی ریاست میں تالپور خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی ۔
میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا،لیکن وہ اپنے والد کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کے سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکےمراد یاب کو حکم رانی سے معزول کرکے ان کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایا ،مگر وہ بھی اچھے حکمراں ثابت نہ ہوئے، جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے حامی سپاہیوں نے ان کے بھائی کی سربراہی قبول نہیں کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کے سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔
1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی،مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار سےلڑائی ہوگئی۔میر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مقتول میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔
The post ’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OygkX8 via India Pakistan News
0 notes
Text
’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان
میرپور خاص ڈویژن کے تعلقہ شہداد پور میں ’’شاہ پور چاکر‘‘ نام کا چھوٹا سا شہر آباد ہے، جس کی کل آبادی صرف50ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نواب شاہ اور سانگھڑ کے درمیان واقع اس شہرکا دونوں اضلاع سےفاصلہ 30کلومیٹر ہے۔ اس شہرکےچھوٹے چھوٹے گوٹھوں میںایک سو مختلف برادریوں کے افراد رہتے ہیں۔اس کی وجہ شہرت ’’شاہ قبیلے ‘‘ کے اکابرین کے مقابر ہیں ،جو شہر کے غیرآباد علاقے میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع ہیں۔ اسے سندھ کا تاریخی ورثہ اورشاہ قبیلے کا خاندانی قبرستان بھی کہا جاتاہے، جہاںمیر شہداد خان اورچاکر خان کے عزیز و اقارب مدفون ہیں ۔ یہاں سب سے پہلے تین صدیاں قبل میر چاکر خان نےاپنے والدکی تدفین کی تھی،جو بعد ازاں’’ میر شہداد جو قبو‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قبرستان میں تقریباً نصف درجن مقابر پختہ ہیں ،جو گوتھک اور قدیم سندھی فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان کی تعمیر میں سرخ اینٹوںاور چٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے چونا، ماش کی دال ریت اور پانی کا آمیزہ استعمال کیا گیا ۔
میر شہداد، میر چاکر اور دیگردو مقابربڑے کمرے کی صورت میں گنبد نما بنائے گئے ہیں، جن کی چوٹی پر لوہے کی کلغی بنی ہوئی ہے ۔ ایک مقبرہ وسیع احاطے میں چھتری چھجہ نما بنا ہوا ہے،جس میں تقریباًبارہ قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ان مقابر کے عقب میںایک پرشکوہ مسجد کا مینار بھی نظر آتا ہے، جو اس قبرستان کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔میر شہداد تالپورر اور چاکر خان کے مزارات میں داخل ہونے کے لیے محراب نما دروازے بنائے گئے ، جن پر بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مقابر کے چاروں طرف محرابیں بنائی گئی ہیں،شہداد تالپور کے مزار کے گنبد پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے ،جن میں سے ایک مینار منہدم ہوچکا ہے۔ اس مقبرے پر چونے سے سفیدی بھی کی گئی تھی۔محکمۂ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ قدیم قبرستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے، مقابر کی اینٹیں جھڑ رہی ہیں جن کا ڈھیر مزارات کے اطراف میں نظر آتا ہے۔
میر شہداد خاں تالپور ، کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں تالپور خاندان کا نام پہلی بار میاں یار محمد کلہوڑو کے دورحکومت میںمشہور ہوا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےشہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر راجستھان کا حکمران بنایا۔ان کی عمل داری میں سندھ کی ریاست بھی تھی جس پر کلہوڑو خاندان کی حکمرانی تھی۔ کلہوڑو حکمران مرید رکھا کرتے تھے اور تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس کے اکابرین ان سرداروں کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔
ان ہی دنوں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شورش برپا ہوئی، شہزادہ معزالدین ،بکھر سے ملتان ہوتے ہوئے مخدوش علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کرحالات بہتر کرنے کے لیےروانہ کیاگیا، جہاں وہ امن بحال کرنے میں کام یاب ہوگئے۔میر شہداد کی جرأت اور بہادری سےشہزادہ بہت متاثر ہوا اور انہیں1705میںسندھ میں ’’پٹ باران‘‘ والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔میر شہداد خان کی پہلے ہی کافی زمینیں تھیں اور ان کا شمار سندھ کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پنجاب سے واپسی کے بعد شہداد پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جس میں زراعت، صنعت و حرفت اور علوم و فنون کو فروغ دیا گیا۔شہداد خان سندھ میں تالپور خاندان کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔
1734ء میں ان کی وفات کے بعد انہیں شاہ پور چاکر میں دفن کیا گیا۔میر شہداد تالپور کے چار میں سے تین بیٹے سندھ میں پلے بڑھے ،جب کہ چھوٹے بیٹے ،میر نندو تالپور ایران چلےگئے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ شہداد تالپور کے بڑے بیٹے میر چاکر خان نے اپنے والد کے بسائے ہوئے شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کی بنیاد رکھی، جسے چاکر خان کی وفات کے بعدان کے نام سے موسوم کرکے ’’شاہ پور چاکرو ‘‘ کا نام دیا گیا،کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے خیرپور کی ریاست میں تالپور خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی ۔
میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا،لیکن وہ اپنے والد کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کے سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکےمراد یاب کو حکم رانی سے معزول کرکے ان کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایا ،مگر وہ بھی اچھے حکمراں ثابت نہ ہوئے، جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے حامی سپاہیوں نے ان کے بھائی کی سربراہی قبول نہیں کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کے سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔
1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی،مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار سےلڑائی ہوگئی۔میر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مقتول میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔
The post ’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2OygkX8 via
#jang news today#jang akhbar today#pakistan urdu newspapers online#pakistan papers#daily jang pk#dail
0 notes