#مالش کرنے کا اصل طریقہ
Explore tagged Tumblr posts
Text
نمک کے وہ فوائد جن سے آپ ناواقف ہیں
اسلام آباد(جی سی این رپورٹ)نمک دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اشیاءمیں سے ایک ہے اور کھانے کا ذائقہ اس کے بغیر اچھا نہیں لگتا۔یہ بہت مہنگا تو نہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ کھانے میں شامل کرنے سے ہٹ کر بھی اسے مختلف طریقوں سے استعمال کرکے زندگی کو آسان بنایا جاسکتا ہے؟جی ہاں واقعی اس کے ایسے متعدد فوائد ہیں جو ہوسکتا ہے آپ کو معلوم بھی نہ ہو۔یہاں آپ نمک کے چند حیران کن طریقہ کار جان سکیں گے۔ دانتوں کو جگمگائے اگر دانتوں پر داغ دھبوں سے پریشان ہیں تو گیلے برش کو ٹیبل سالٹ پر لگا کر نرمی سے دانتوں کی صفائی کریں یا پیسٹ لگانے کے بعد اس پر تھوڑا سا نمک چھڑک کر دانتوں کی صفائی کریں، یہ ٹوٹکا دانتوں کے داغ صاف کرکے ان کو سفید کرتا ہے۔ ایسا راتوں رات نہیں ہوتا مگر کچھ دن تک اس کو آزمائیں اور پھر نتیجہ دیکھیں۔ پرانے کپڑوں کی اصل رنگت واپس لائیں اگر کسی پرانے مگر پسندیدہ لباس کی رنگت اڑنے لگی ہے تو اسے ایک بار پھر نیا جیسا بنانے کے لیے نمک سے مدد لیں، ان کپڑوں کو نمک ملے پانی میں ڈبو دیں یا واشنگ مشین میں چوتھائی کپ نمک کا اضافہ کردیں، نتیجہ آپ کو حیران کردے گا۔ جلد کو صحت مند بنائے نمک خشک جلد کی نگہداشت کے لیے اچھا متبادل ثابت ہوسکتا ہے، جو مردہ جلد کو ہٹاتا ہے جبکہ خون کی گردش بڑھاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے نہانے کے بعد جلد (گیلی) پر نمک کو لگا کر مساج کریں، سمندری نمک زیادہ بہتر نتائج فراہم کرے گا۔ خراب انڈے کی شناخت ویسے تو انڈے اندر سے ٹھیک ہیں یا کراب، یہ دیکھ کر جاننا ممکن نہیں، تو اس کا ایک آسان نمک ملا پانی ہے۔ 2 کھانے کے چمچ نمک کو ایک کپ یا جگ پانی میں مکس کریں اور اس میں انڈا ڈال دیں، اگر وہ ڈوب جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ٹھیک ہے، اگر وہ تیرنے لگے تو اسے کھانے سے گریز کریں۔ بالوں کی خشکی سے نجات بالوں میں خشکی سے پریشان ہیں تو نہانے کے دوران شیمپو لگانے سے قبل کچھ مقدار میں نمک کو سر پر چھڑک کر 5 منٹ تک مالش کریں اور پھر شیمپو لگاکر سر دھولیں، یہ خشکی دور کرنے کے ساتھ ساتھ بالوں کی نشوونما بہتر کرے گا جبکہ ان کی مضبوطی بھی بڑھائے گا۔ گلے کی خراش سے نجات ایک گلاس پانی میں نمک کو ملائیں اور 30 سیکنڈ سے ایک منٹ تک غرارے کریں، آپ دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے کہ گلے کی خراب دور کرنے کے لیے یہ کتنا مفید ٹوٹکا ہے۔ مچھروں کے کاٹنے سے ہونے والی جلن سے ریلیف اگر مچھر کے کاٹنے سے جلن ہورہی ہے تو اپنی انگلی کی پور کو پانی سے نم کریں اور نمک میں ڈبو دیں، اب اس مکسچر کو متاثرہ حصے میں رگڑیں، آپ کو ریلیف محسوس ہونے لگے گا۔ تانبے کی اشیاءکو جگمگائیں تانبے کے برتنوں کی چمک بحال کرنا چاہتے ہیں؟ تو نمک کو سرکے اور آٹے میں مکس کریں یا اسے لیموں کے عرق میں شامل کرکے برتنوں پر رگڑیں۔ تیل کی چھینٹوں کو روکیں فرائنگ پین میں کسی چیز جیسے مچھلی کو تلنے سے پہلے کچھ مقدار میں نمک کو چھڑک دیں، اس سے گرم تیل کی چھینٹیں مچھلی کو فرائنگ پین میں ڈالنے پر اچھلیں گی نہیں۔ جوتوں کی بو دور کریں اگر جوتوں میں بدبو پیدا ہوگئی ہے تو اسے دور کرنے کے لیے کپڑے میں نمک بھر کر لپیٹ لیں، اور کچھ گھنٹوں کے لیے چھوڑ دیں۔ آپ محسوس کریں گے کہ بو غائب ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ آپ جوتوں کے اندر نمک چھڑک دیں اور پھر جوتوں کو ہلائیں، اس کے بعد نمک کو نکال دیں۔ چیونٹیوں سے نجات چیونٹیوں سے نجات کے لیے نمک اور پانی کو 1:4 کے تناسب سے بوتل میں ملائیں، اس سلوشن کو ہر اس جگہ چھڑک دیں جہاں چیونٹیوں کی بھرمار ہو یا بس نمک ہی متاثرہ حصے پر چھڑک دیں، وہ بھی کارآمد ہوتا ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کو براؤن سے بچائیں پھل اور سبزیاں کٹ جانے کے بعد جلد براؤن ہوجاتی ہیں، اس سے بچنے کے لیے ایک برتن میں کھارا پانی بھر کر پھل یا سبزی کو اس میں ڈبو دیں۔ لہسن اور پیاز کی بو ہاتھوں سے دور کریں لہسن اور پیاز کاٹنے پر ہاتھوں میں بو بس جاتی ہے، تاہم اس کا حل کافی آسان ہے، اپنے ہاتھوں کو گیلا کریں اور نمک کی کچھ مقدار کو کسی سپاٹ جگہ پر چھڑک کر اپنے ہاتھ اس سے رگڑیں اور پھر دھولیں۔ ائیر فریشنر بنائیں اس مقصد کے لیے آدھے سے ایک کپ نمک اور بیس سے تیس قطرے کسی خوشبودار تیل یا گلاب کی پتیاں چاہیے ہوں گی۔ اب یہ اشیاءکسی برتن یا جار میں ڈالیں اور چھوڑ دیں، اس سے گھر میں ایک بھینی مہک پھیل جائے گی۔ اچانک بھڑکنے والی آگ کو بجھائیں یہ طریقہ کار عام طور پر چولہے کے اچانک بھڑکنے سے پیدا ہونے والے شعلوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، ان شعلوں پر نمک چھڑک دیں جس سے آکسیجن کی روانی کٹ جائے گی اور شعلے بجھ جائیں گے۔ استری کی صفائی اگر استری کے نیچے کوئی کپڑا جل کر چپک گیا ہے تو استری کو تیز ترین درجہ حرارت پر چلائیں اور ایک بھورے پیپر کے ٹکڑے پر نمک چھڑک کر گرم استری اس پر چلائیں۔ سنک کی صفائی لیموں کے عرق اور نمک کو ملا کر ایک پیسٹ بنائیں اور اس سے اسٹین لیس اسٹٰل کو چمکائیں، یہ پیسٹ کیمیکل کلینرز سے بھی زیادہ بہتر کام کرتا ہے۔ Read the full article
0 notes
Text
گھر یلو ٹوٹکے سے گاڑی کی بیٹری میں جان ڈالیں
اسپرین دنیا بھر میں مقبول ترین درد کش گولی ہے جو سستی ہونے کے باعث ہر طبقے کے استعمال میں رہتی ہے تاہم کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ دوا صرف درد پر ہی قابو نہیں پاتی بلکہ مختلف اقسام کے کینسر اور متعدد امراض کے خلاف بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
مگر بات یہی ختم نہیں ہوتی طبی لحاظ سے مفید یہ گولی صرف بیماریوں کے خلاف ہی مفید نہیں بلکہ اس سے ایسے روزمرہ کے کام بھی سرانجام دیئے جاسکتے ہیں جن کا آپ نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔
اب چاہے وہ گھر کا خیال رکھنا ہو یا اپنی خوبصورتی بڑھانا اسپرین واقعی جادو اثر ثابت ہوتی ہے اور اس کے ایسے ہی چند حیرت انگیز اثرات جانے جو آپ کو چونکا کر رکھ دیں گے۔
روکھے بالوں میں جان ڈالیںبالوں کو بھی اسپرین سے فائدہ ہوتا ہے، صحت مند اور چمکدار بالوں کے لیے اسپرین کی دس گولیاں ایک کپ گرم پانی میں ملائیں اور سر پر لگائیں، خیال رہے کہ اس سے پہلے بال دھونا ضروری ہے۔
اس مکسچر کو پندرہ منٹ کے لیے لگا رہنے دیں اور پھر پانی سے دھولیں۔گاڑیوں کی مردہ بیٹریوں میں نئی جان ڈالنااگر تو گاڑی چلانے کے لیے اسٹارٹ کرتے ہوئے آپ کے سامنے یہ انکشاف ہوا کہ کار کی بیٹری نے تو کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ارگرد مدد کے لیے کوئی موجود نہیں تو آپ کیا کریں گے؟ ان حالات میں اسپرین کی دو گولیاں واقعی مددگار ثابت ہوں گی بس آپ انہیں بیٹری کے اندر ڈال دیں۔
اسپرین میں پائے جانے والا ایسی ٹائل سیلی سیلک ایسڈ بیٹری میں موجود سلفرک ایسڈ کے ساتھ مل کر اس مردہ بیٹری میں کرنٹ دوڑا دے گا اور آپ کچھ دور تک سفر کرکے قریبی سروس اسٹیشن تک پہنچ سکیں گے۔پسینے کے داغوں کو مٹاناموسم گرما میں جسم سے پسینہ پانی کی طرح بہتا ہے اور اس دوران ہلکے رنگ کے کپڑوں پر اس کے داغ بھی نمایاں ہوجاتے ہیں جن کو صاف کرنا ناممکن تو نہیں تاہم مشکل ضرور ہے،
تاہم مایوس مت ہو بس اپنے سفید یا ہلکے رنگ کی قمیض پر سے پسینے کے داغ مٹانے کے لیے اسپرین کی دو گولیوں کو پیس کر کپڑے دھونے والے پا?ڈر میں مکس کرکے ایک یا دو کپ گرم پانی میں ڈال دیں۔
پھر اس محلول یا سلوشن میں اپنی قمیض کو دو سے تین گھنٹے تک بھگو کر رکھیں آپ اس کا اثر دیکھ کر واقعی حیران ہوجائیں گے۔بالوں کی رنگت کی بحالی اور سر کی خشکی سے نجات اگر تو آپ کے بال ہلکے رنگ کے ہیں تو کلورین ملے پانی سے نہانے سے اس کے اثرات بالوں کے رنگ پر بہت نمایاں اور ناخوشگوار محسوس ہوتے ہیں تاہم آپ اپنے بالوں کو اصل شکل میں واپس بہت آسانی سے لاسکتے ہیں،
بس چھ سے آٹھ اسپرین گرم پانی کے ایک گلاس میں ڈال دیں، پھر اس پانی کو اپنے بالوں پر چھڑک کر مساج یا مالش کریں اور دس پندرہ منٹ تک یہ عمل دوہرائیں بالوں کی اصل رنگت بحال ہوجائ�� گی۔
کیل مہاسوں سے نجات نوجوانی میں دانوں کا چہرے پر ابھرنا عام ہوتا ہے جو سرخ ہونے کے ساتھ ساتھ تکلیف کا بھی باعث بنتے ہیں۔ اکثر پچیس سے تیس سال کی عمر تک بھی اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے جو اکثر افراد خاص طور پر خواتین کے لیے فکرمند کا باعث ہوتا ہے۔
تو ایسا ہونے کی صورت میں اسپرین کی دو سے تین گولیوں کو پیس لیں اور لیموں کے عرق میں مکس کرلیں، اس مکسچر کو متاثرہ جگہ پر لگائین اور کچھ منٹ کے لیے چھوڑ دیں، اس کے بعد دھولیں۔اس عمل سے سرخی کم ہوجائے گی اور دانے خشک ہونے لگیں گے،
اگر آرام نہ آئے تو اس عمل کو اس وقت تک دوہرائیں جب تک دانے خشک نہ ہوجائے اور ہاں کچھ دیر کے لیے سورج کی روشنی میں جانے سے بھی گریز کریں۔سخت جلد کا علاجاپنے پیروں کی سخت ہوجانے والی جلد کو نرم کرنے کے لیے پانچ سے چھ اسپرین کو پیس کر سفوف کی شکل دے دیں۔
اس میں ایک سے دو چائے کے چمچ پانی اور لیموں کا عرق شامل کرکے پیسٹ بنالیں۔
اس مکسچر کو متاثرہ حصوں میں لگائیں اور پھر اپنے پیروں پر گرم تولیہ لپیٹ کر انہیں کسی پلاسٹک بیگ سے کور کرلے۔
کم از کم دس منٹ تک اسی حالت میں رہیں پھر پلاسٹک بیگ اور تولیے کو ہٹا دیں اور اپنے پیروں کی نرمی کو محسوس کرکے حیران ہوجانے کے لیے تیار ہوجائیں۔
چہرے کے داغ دھبوں کو دور کرےاسپرین میں ایسا جز ہوتا ہے جو کہ رنگ بہتر بنانے والی کریموں اور اسکین کلینسنر میں بھی ہوتا ہے، اسپرین کی سات گولیوں کو تین چمچ دہی اور ایک چمچ شہد میں ملائیں۔
اس مکسچر کو چہرہ دھو کر لگائیں اور ماسک کو پندرہ منٹ کے لیے چھوڑ دیں۔ یہ طریقہ کار چہرے پر سرخی لانے کے ساتھ جلد کو ہموار کرتا ہے،
اس کے علاوہ نشانات کو کم کرکے مساموں کو بند نہیں ہونے دیتا۔کیڑوں کے کاٹے اور ڈنک کی تکلیف سے نجات مچھر کے کاٹنے یا شہد کی مکھی کے ڈنک سے ہونے والی سوجن کو کنٹرول کرنے کے لیے اسپرین کی ایک گولی کو ایک چمچ پانی میں بھگوئیں اور پھر متاثرہ حصے پر لگا کر کچھ وقت کے لیے چھوڑ دیں۔
آپ تکلیف میں فوری طور پر نمایاں کمی محسوس کریں گے جبکہ سوجن بھی کنٹرول میں آجائیں گی۔چہرے کو جگمگائےاسپرین چہرے پر جمع ہونے والے جلد کے مردہ خلیات کو ہٹانے کے لیے بھی فائدہ مند ہے جبکہ اضافی آئل سے نجات دلاتی ہے۔
اسپرین کی گولی کو پانی میں مکس کرکے کچھ منٹ کے لیے چہرے پر لگائیں اور بس۔پھولوں کو دیر تک زندہ رکھیںگلاب یا کسی بھی پھول کو جب ٹہنی سے کاٹ لیا جاتا ہے تو وہ کچھ دیر بعد مرجھانا شروع ہوجاتے ہیں تاہم اگر آپ اسے کافی دیر تک تازہ رکھنا چاہتے ہیں تو اسپرین کی ایک گولی پیس کر پانی میں ڈالے اور وہ پانی کسی گلدان یا ایسے برتن میں ڈال دیں جس میں آپ پھول رکھ سکیں،
وہ پھول عام دورانیے سے زیادہ عرصے تک مرجھانے سے بچے رہیں گے۔باغبانی میں مددگار اسپرین نہ صرف آپ کے درد پر قابو پانے کے لیے بہترین ہے بلکہ آپ کے باغ کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کچھ افراد اسپریم کو پیس کر خراب جڑوں کے اوپر ڈال دیتے ہیں یا پانی میں مکس کرکے زمین پر فنگس کا علاج کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں،
تاہم یہ احتیاط رکھیں کہ اپنے پودوں کے ارگرد اسپرین کا استعمال بہت زیادہ نہ کریں، بس ایک گولی اور ایک لیٹر پانی کافی ثابت ہوگا۔کپڑوں پر سے انڈے کے داغ ہٹاناکیا پکانے یا کھانے کے دوران انڈے کی زردی نے آپ کے لباس کو داغ دار کر��یا ہے؟
تو ان کو ہٹانے کے لیے پہلے آپ اسفنج نیم گرم پانی کے ساتھ اس جگہ پر رگڑیں، گرم پانی استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے داغ پختہ ہوجائے گا، اگر پھر بھی داغ نہ ہٹے تو پھر ٹارٹریٹ کی کریم اور پانی کو مکس کرکے ایک پیسٹ کی شکل دیں اور اس میں اسپرین کی ایک گولی کو پیس کر شامل کرلیں۔ اس پیسٹ کو داغ پر پھیلائیں اور تیس منٹ تک کے لیے چھوڑ دیں اس کے بعد اسے گرم پانی سے دھولیں۔ داغ صاف ہوجائے گا۔
The post گھر یلو ٹوٹکے سے گاڑی کی بیٹری میں جان ڈالیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2EMaW0w via Urdu News
0 notes
Text
گھر یلو ٹوٹکے سے گاڑی کی بیٹری میں جان ڈالیں
Urdu News on https://goo.gl/xP7oyf
گھر یلو ٹوٹکے سے گاڑی کی بیٹری میں جان ڈالیں
اسپرین دنیا بھر میں مقبول ترین درد کش گولی ہے جو سستی ہونے کے باعث ہر طبقے کے استعمال میں رہتی ہے تاہم کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ دوا صرف درد پر ہی قابو نہیں پاتی بلکہ مختلف اقسام کے کینسر اور متعدد امراض کے خلاف بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
مگر بات یہی ختم نہیں ہوتی طبی لحاظ سے مفید یہ گولی صرف بیماریوں کے خلاف ہی مفید نہیں بلکہ اس سے ایسے روزمرہ کے کام بھی سرانجام دیئے جاسکتے ہیں جن کا آپ نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔
اب چاہے وہ گھر کا خیال رکھنا ہو یا اپنی خوبصورتی بڑھانا اسپرین واقعی جادو اثر ثابت ہوتی ہے اور اس کے ایسے ہی چند حیرت انگیز اثرات جانے جو آپ کو چونکا کر رکھ دیں گے۔
روکھے بالوں میں جان ڈالیںبالوں کو بھی اسپرین سے فائدہ ہوتا ہے، صحت مند اور چمکدار بالوں کے لیے اسپرین کی دس گولیاں ایک کپ گرم پانی میں ملائیں اور سر پر لگائیں، خیال رہے کہ اس سے پہلے بال دھونا ضروری ہے۔
اس مکسچر کو پندرہ منٹ کے لیے لگا رہنے دیں اور پھر پانی سے دھولیں۔گاڑیوں کی مردہ بیٹریوں میں نئی جان ڈالنااگر تو گاڑی چلانے کے لیے اسٹارٹ کرتے ہوئے آپ کے سامنے یہ انکشاف ہوا کہ کار کی بیٹری نے تو کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ارگرد مدد کے لیے کوئی موجود نہیں تو آپ کیا کریں گے؟ ان حالات میں اسپرین کی دو گولیاں واقعی مددگار ثابت ہوں گی بس آپ انہیں بیٹری کے اندر ڈال دیں۔
اسپرین میں پائے جانے والا ایسی ٹائل سیلی سیلک ایسڈ بیٹری میں موجود سلفرک ایسڈ کے ساتھ مل کر اس مردہ بیٹری میں کرنٹ دوڑا دے گا اور آپ کچھ دور تک سفر کرکے قریبی سروس اسٹیشن تک پہنچ سکیں گے۔پسینے کے داغوں کو مٹاناموسم گرما میں جسم سے پسینہ پانی کی طرح بہتا ہے اور اس دوران ہلکے رنگ کے کپڑوں پر اس کے داغ بھی نمایاں ہوجاتے ہیں جن کو صاف کرنا ناممکن تو نہیں تاہم مشکل ضرور ہے،
تاہم مایوس مت ہو بس اپنے سفید یا ہلکے رنگ کی قمیض پر سے پسینے کے داغ مٹانے کے لیے اسپرین کی دو گولیوں کو پیس کر کپڑے دھونے والے پا?ڈر میں مکس کرکے ایک یا دو کپ گرم پانی میں ڈال دیں۔
پھر اس محلول یا سلوشن میں اپنی قمیض کو دو سے تین گھنٹے تک بھگو کر رکھیں آپ اس کا اثر دیکھ کر واقعی حیران ہوجائیں گے۔بالوں کی رنگت کی بحالی اور سر کی خشکی سے نجات اگر تو آپ کے بال ہلکے رنگ کے ہیں تو کلورین ملے پانی سے نہانے سے اس کے اثرات بالوں کے رنگ پر بہت نمایاں اور ناخوشگوار محسوس ہوتے ہیں تاہم آپ اپنے بالوں کو اصل شکل میں واپس بہت آسانی سے لاسکتے ہیں،
بس چھ سے آٹھ اسپرین گرم پانی کے ایک گلاس میں ڈال دیں، پھر اس پانی کو اپنے بالوں پر چھڑک کر مساج یا مالش کریں اور دس پندرہ منٹ تک یہ عمل دوہرائیں بالوں کی اصل رنگت بحال ہوجائے گی۔
کیل مہاسوں سے نجات نوجوانی میں دانوں کا چہرے پر ابھرنا عام ہوتا ہے جو سرخ ہونے کے ساتھ ساتھ تکلیف کا بھی باعث بنتے ہیں۔ اکثر پچیس سے تیس سال کی عمر تک بھی اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے جو اکثر افراد خاص طور پر خواتین کے لیے فکرمند کا باعث ہوتا ہے۔
تو ایسا ہونے کی صورت میں اسپرین کی دو سے تین گولیوں کو پیس لیں اور لیموں کے عرق میں مکس کرلیں، اس مکسچر کو متاثرہ جگہ پر لگائین اور کچھ منٹ کے لیے چھوڑ دیں، اس کے بعد دھولیں۔اس عمل سے سرخی کم ہوجائے گی اور دانے خشک ہونے لگیں گے،
اگر آرام نہ آئے تو اس عمل کو اس وقت تک دوہرائیں جب تک دانے خشک نہ ہوجائے اور ہاں کچھ دیر کے لیے سورج کی روشنی میں جانے سے بھی گریز کریں۔سخت جلد کا علاجاپنے پیروں کی سخت ہوجانے والی جلد کو نرم کرنے کے لیے پانچ سے چھ اسپرین کو پیس کر سفوف کی شکل دے دیں۔
اس میں ایک سے دو چائے کے چمچ پانی اور لیموں کا عرق شامل کرکے پیسٹ بنالیں۔
اس مکسچر کو متاثرہ حصوں میں لگائیں اور پھر اپنے پیروں پر گرم تولیہ لپیٹ کر انہیں کسی پلاسٹک بیگ سے کور کرلے۔
کم از کم دس منٹ تک اسی حالت میں رہیں پھر پلاسٹک بیگ اور تولیے کو ہٹا دیں اور اپنے پیروں کی نرمی کو محسوس کرکے حیران ہوجانے کے لیے تیار ہوجائیں۔
چہرے کے داغ دھبوں کو دور کرےاسپرین میں ایسا جز ہوتا ہے جو کہ رنگ بہتر بنانے والی کریموں اور اسکین کلینسنر میں بھی ہوتا ہے، اسپرین کی سات گولیوں کو تین چمچ دہی اور ایک چمچ شہد میں ملائیں۔
اس مکسچر کو چہرہ دھو کر لگائیں اور ماسک کو پندرہ منٹ کے لیے چھوڑ دیں۔ یہ طریقہ کار چہرے پر سرخی لانے کے ساتھ جلد کو ہموار کرتا ہے،
اس کے علاوہ نشانات کو کم کرکے مساموں کو بند نہیں ہونے دیتا۔کیڑوں کے کاٹے اور ڈنک کی تکلیف سے نجات مچھر کے کاٹنے یا شہد کی مکھی کے ڈنک سے ہونے والی سوجن کو کنٹرول کرنے کے لیے اسپرین کی ایک گولی کو ایک چمچ پانی میں بھگوئیں اور پھر متاثرہ حصے پر لگا کر کچھ وقت کے لیے چھوڑ دیں۔
آپ تکلیف میں فوری طور پر نمایاں کمی محسوس کریں گے جبکہ سوجن بھی کنٹرول میں آجائیں گی۔چہرے کو جگمگائےاسپرین چہرے پر جمع ہونے والے جلد کے مردہ خلیات کو ہٹانے کے لیے بھی فائدہ مند ہے جبکہ اضافی آئل سے نجات دلاتی ہے۔
اسپرین کی گولی کو پانی میں مکس کرکے کچھ منٹ کے لیے چہرے پر لگائیں اور بس۔پھولوں کو دیر تک زندہ رکھیںگلاب یا کسی بھی پھول کو جب ٹہنی سے کاٹ لیا جاتا ہے تو وہ کچھ دیر بعد مرجھانا شروع ہوجاتے ہیں تاہم اگر آپ اسے کافی دیر تک تازہ رکھنا چاہتے ہیں تو اسپرین کی ایک گولی پیس کر پانی میں ڈالے اور وہ پانی کسی گلدان یا ایسے برتن میں ڈال دیں جس میں آپ پھول رکھ سکیں،
وہ پھول عام دورانیے سے زیادہ عرصے تک مرجھانے سے بچے رہیں گے۔باغبانی میں مددگار اسپرین نہ صرف آپ کے درد پر قابو پانے کے لیے بہترین ہے بلکہ آپ کے باغ کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کچھ افراد اسپریم کو پیس کر خراب جڑوں کے اوپر ڈال دیتے ہیں یا پانی میں مکس کرکے زمین پر فنگس کا علاج کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں،
تاہم یہ احتیاط رکھیں کہ اپنے پودوں کے ارگرد اسپرین کا استعمال بہت زیادہ نہ کریں، بس ایک گولی اور ایک لیٹر پانی کافی ثابت ہوگا۔کپڑوں پر سے انڈے کے داغ ہٹاناکیا پکانے یا کھانے کے دوران انڈے کی زردی نے آپ کے لباس کو داغ دار کردیا ہے؟
تو ان کو ہٹانے کے لیے پہلے آپ اسفنج نیم گرم پانی کے ساتھ اس جگہ پر رگڑیں، گرم پانی استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے داغ پختہ ہوجائے گا، اگر پھر بھی داغ نہ ہٹے تو پھر ٹارٹریٹ کی کریم اور پانی کو مکس کرکے ایک پیسٹ کی شکل دیں اور اس میں اسپرین کی ایک گولی کو پیس کر شامل کرلیں۔ اس پیسٹ کو داغ پر پھیلائیں اور تیس منٹ تک کے لیے چھوڑ دیں اس کے بعد اسے گرم پانی سے دھولیں۔ داغ صاف ہوجائے گا۔
#Pakistan Sci-Tech News#Pakistani News#Sci-Tech Khabrain#Sci-Tech News#Sci-Tech Urdu News#Urdu Khabrain#Urdu News#Viral Sci-Tech News#سائنس و ٹیکنالوجی
0 notes
Photo
جوؤں سے نجات کے آسان طریقے | جوؤں کا خاتمہ اور علاج سر میں جوئیں پڑنا نہ صرف شرمندگی کا باعث ہوتا ہے بلکہ طبی اعتبار سے بھی اس کے متعدد نقصانات ہیں۔اگر گھر کے کسی ایک فرد کے سر میں جوئیں پڑ جائیں تو پورے گھر کی شامت آجاتی ہے۔اسی طرح اگر کبھی کسی کے سر سے کوئی جوں گر جائے تواس شخص کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔اور اگر بچوں کے سر میں جوئیں ہوں تو سب سے پہلےبچے کی والدہ کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔جوئیں سر میں گندگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور صاف ستھرا رہنے والوں کو بھی اپنا شکار بنا لیتی ہیں۔ یہ رینگ کر ایک سر سے دوسرے سر تک پہنچ جاتی ہیں۔جوئیں ہونے کی بڑی وجہ مشترکہ چیزوں کا استعمال ، اکٹھا بیٹھنا اور سونا ہے۔ لہٰذا اپنے کپڑے، بستر، چادر، تولیہ ، تکیہ، کنگھی وغیرہ کو صاف ستھرا رکھنے کے علاوہ ان چیزوں کو کھونٹی پر ٹانکنے میں بھی احتیاط برتنی چاہیے۔جوئیں کیا ہوتی ہیں؟جوئیں سر کے بالوں میں نہ صرف زندہ رہتی ہیں بلکہ ان کی افزائش بھی یہیں ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ بڑے افراد کے سروں میں بھی جائے پناہ ڈھونڈ لیتی ہیں لیکن ان کا اصل ٹھکانہ بچوں کے سر ہوتے ہیں۔جوؤں کا تعلق کیڑوں کے اس قبیلہ سے ہوتا ہے جو اپنی روزی خود نہیں کماسکتا ۔ وئیں اپنے لئے کوئی شکار ��لاش کرکے ساری زندگی انھی کے خون کو چوستے چوستے گزار دیتی ہیں۔ماہرین کے مطابق ایک جوں تقریباً 30دن تک زندہ رہ سکتی ہے۔ لیکن سرکے بالوں سے باہر صرف 3دن زندہ رہتی ہے۔جوں اڑ نہیں سکتی لیکن رینگ کر ایک سے دوسرے سر میں ضرور جا سکتی ہے۔جوں ایک دن میں 10انڈے دیتی ہے۔ جوبہت زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں اور بالوں کی جڑوں میں پلتے ہیں،جوؤں کے یہ انڈے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ عام آنکھ سے بامشکل دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے بال بڑے ہوتے ہیں، یہ انڈے صاف دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ جوئیں نہ صرف انسان کے سر میں بلکہ چھاتی اور داڑھی کے بالوں میں بھی ہو سکتی ہیں۔ لہذا ان سے جان چھڑانا نہایت ضروری ہےجوئیں مختلف نوعیت اور اشکال کی ہوتی ہیں۔ جس طرح مادہ مچھر لوگوں کا خون پی کر توانائی حاصل کرتی ہیں اور اپنے بچے بھی اپنے شکار کے جسم میں داخل کرکے انکے رزق کا بندوبست کردیتی ہے ، پیٹ اور متعدی خارش کے کیڑے اور سر کی جوئیں بھی یہ ہی روش اپناتی ہیں۔ جوؤں اور لیکھوں کے ہجوم کو پیڈیکیولاسس بھی کہا جاتا ہے۔جوئیں چھوٹی، بھورے رنگ کی، بنا پنکھ اور چپٹی کیڑیاں ہوتی ہیں جو کھوپڑی کی سطح پر رہتی ہیں۔یہ کھوپڑی سے خون چوستی ہیں۔ ایک بالغ انسان کے سر کی جوئیں 2 سے 5 ملی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔جوئیں زندہ رہنے، پناہ اور خوراک حاصل کرنے کے لیے کھوپڑی کے نزدیک رہتی ہیں۔ یہ انڈے دیتی ہیں جو بالوں کے ساتھ چمڑ جاتے ہیں۔جوؤں کی علامات جوؤں اور لیکھیں ایسی مخلوق ہیں جو انتہائی چھوٹی جسامت کی ہے۔ اتنی چھوٹی مخلوق ہونے کی وجہ سے بعض اوقات بغور دیکھنے سے بھی یہ نظر نہیں آتیں۔تاہم یہ دیکھنے کے لئے کہ آپ کے سر میں جوئیں یا لیکھیں تو نہیں ہیں اس کی مندرجہ ذیل علامات ہیں: سر بالخصوص کھوپڑی میں شدید قسم کی خارش کا ہونا سر میں جوؤں کی ایک بڑی علامت ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے سر کی جلد پر چھوٹے چھوٹے دانے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں، جو کہ جوؤں یا لیکھوں کا آپ کے سر کی جلد کو کاٹنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر بغور معائنہ کیا جائے تو بالوں کے ساتھ جوؤں یا لیکھوں کے ہلکے بھورے رنگ کے انڈے چپکے ہوتے ہیں۔جوئیں چیک کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے اپنے بال گیلے کریں۔ اور باریک کنگھی سے اپنے بالوں میں سر کی جڑ سے لے کر بال کے آخری سروں تک مکمل کنگھی کریں۔کنگھی کرنے کے بعد اپنے سر کو سفید کاغذ سے ڈھانپ دیں۔تھوڑی دیر کے بعد کاغذ کی سطح کا بغور معائنہ کریں۔ آپ کو کاغذ کی سطح پر جوئیں اور لیکھیں چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔اگر آپ کا بچہ سکول سے واپسی پر غصہ کے حالت میں گھرمیں داخل ہوتا ہے اور زور زور سے سر کھجاتے ہوئے چیزوں کو ادھر ادھر پھینکتا ہے۔تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے سر پر جوؤں نے حملہ کردیا ہے۔ جوئیں ہونے کی وجوہات جوئیں ہو جانے کی بڑی وجہ گردوغبار اور مٹی ہوتی ہے جو بالوں کی جڑوں میں جمی رہ جاتی ہے ۔ اگر بالو ں کی صفائی کا مناسب خیال نہ رکھاجائے تو یہ جوؤں کی افزائش کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ اس مسئلے کا سامنا زیادہ تر بچوں اور خواتین کوکرنا پڑتا ہے۔وہ خواتین زیادہ جو ہر وقت ��پنے سر پر سکارف پہنے رکھتی ہیں۔سکارف پہنے رکھنے کی وجہ سے بالوںمیںپسینہ آتا ہے اور اس وجہ سے سر میں جوئیں ہوجاتی ہیں۔اس کے علاوہ لمبے اور گھنے بالوں میں جوئیں پڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔دوسروں کی ٹوپی، کنگھی ، تولیہ یا بستر استعمال کرنے سے بھی جوئیں آپ کے سر میں پڑ سکتی ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ آپ کسی سے بھی اپناکنگھا، کنگھی، تولیہ، ہیئربینڈ ، سکارف وغیرہ شیئر نہ کریں۔ اور نہ ہی اپنے بستر پر ایسے شخص کو سونے دیں جس کے سر میں جوئیں ہوں۔علاوہ ازیں جوئیں ایک ہی جگہ پر مختلف لوگوں کے ٹوپیاں، کوٹ اور سکارف ٹانکنے سے بھی پھیل سکتی ہیں کیونکہ یہ کپڑوں میں بھی زندہ رہتی ہیں۔جوں اڑ نہیں سکتی لیکن رینگ کر ایک سے دوسرے سر میں ضرور جا سکتی ہے۔سکول میں جوئیں بچوں کے سروں میں ایک دوسرے سے منتقل ہو جاتی ہیں ۔ جوؤں کے نقصانات سر میں جوئیں پڑنے کے بعد خارش ، سرمیں چھوٹے چھوٹے دانے ، شریٰ اور جلد کا رنگ اڑجاتاہے ۔جلد موٹی ہوجاتی ہے ، خارش اور جلن کی وجہ سے باربار کھجانے کے نتیجے میں جلد میں آنے والی خراشوں میں سوزش،ایگزیما اور پھنسیاں وغیرہ نکل سکتی ہیں۔ اگر بچوں کے سر میں 20 سے زائد جوئیں یا لیکھیں ہوں تو انہیں بخار ہو جاتا ہے۔ بڑی جوؤں کے منہ میں ایک کیمیائی عنصر ہوتاہے۔ جب یہ خون پینے لگتی ہے تو اس وقت کیمیائی عنصر کا انجکشن لگادیتی ہیں جس سے خون پتلا ہوجاتا ہے اور اسطرح و ہ اپنی خواہش کے مطابق خون پی سکتی ہے ۔خود کو اور اپنے بچوں کو جوؤں سے نجات دلانے کے لئے درج ذیل طریقوں پر عمل کرکے اپنی زندگی کو محفوظ بنائیں۔طبی ماہرین کے مطابق سر میں جوؤں کے ہونے سے دماغی صحت پر برا اثر پڑنے کے علاوہ جلدی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔ سر کے بالوں میں جوؤں کے انڈے پیدا ہونے سے جہاں آپ کا سر بھاری ہوگا ۔ اور آپ کو ہلکا ہلکا بخار بھی ہو سکتا ہے۔ جوؤں سے نجات کے طریقے اگر آپ کے سر میں جوئیں یا لیکھیں ہیں اور آپ نے ان سے نجات کے لئے کئی نسخے آزما لئے ہیں لیکن ابھی تک اس سے نجات نہیں ملی تو پریشان مت ہوں،آئیے آپ کو جوؤں اور لیکھوں سے نجات کے انتہائی آسان آزمودہ گھریلو ٹوٹکے بتاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے آپ کے سر سے جوئیں اور لیکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی۔ بالوں میں کنگھی یابرش محض اس لئے نہیں کیا جاتا کہ آپ اپنے بالوں کو سنوار سکیں بلکہ اسکے ذریعہ سر کا مساج بھی ہو جاتاہے اور ان پر جمی ہوئی مٹی اور گردوغبار بھی نکل جاتاہے۔ لہٰذا جوؤں سے نجات حاصل کرنے کے لئے پہلے آپ اپنے بالوں میں بکثرت کنگھی یا برش کریں اور بالخصوص رات سونے سے قبل کنگھی ضرور کیاکریں۔ بالوں کوبھگونے کے بعد شیمپو کریں، بعدازاں جوئیں نکالنے والے کنگھی سر پر پھیریں اور اس عمل کو اس وقت تک دہراتے رہیں، جب تک آپ کو یقین نہ ہوجائے کہ تمام جوئیں نکل چکی ہیں۔ جوؤں کے خاتمے کے اس ٹوٹکے کو ہفتہ میں ایک بار ضرور آزماتے رہیں۔زمانہ قدیم سے زیتون کے تیل اور ناریل کے تیل کو جوؤں کے خاتمہ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ طریقہ علاج آج بھی بہت موثر ہے۔ لہٰذا اگر آپ جوؤں کا شکار ہیں تو ہر چار روز بعد ناریل اور زیتون کے تیل سے اچھی طرح سر کی مالش کریں۔ جوؤں سے نجات کے سب سے پہلے سر کے بالوں کو لیسٹرین سے اچھی طرح گیلا کر لیں اور اس کے بعد شاور کیپ کو سر کے اوپر لے لیں اور ایک گھنٹہ تک لگا رہنے دیں۔اب شاور کیپ کو اتاریں اور بالوں کو دھو لیں تاکہ بالوں سے لیسٹرین صاف ہوجائے۔اب بالوں میں سرکہ لگا لیں اور سر کو دوبارہ شاور کیپ سے ڈھانپ لیں۔ایک گھنٹے کے بعد سر کو کسی شیمپو سے دھو لیں اور بالوں میں باریک کنگھی ماریں،تمام جوئیں خود بخود باہر آنے لگیں گی۔جوﺅں کو سپئیر منٹ سے چڑ ہوتی ہے اور اگر سر پر اس کا سپرے کردیا جائے تو کبھی جوئیں سر میں نہیں آتی۔ تلسی کے پتے دھو کر پیس کر سر پر لگائیں اور شاور کیپ پہن لیں۔جب سوکھ جائے تو تھوڑے پتے ابال کر اس پانی سے سر دھوئیں اور پانی ڈالتے ہوئے کنگھی کرتے جائیں۔شیمپو کے بعد تھوڑے سے زیتون کے تیل میں دو قطرے لیموں کا عرق ملا کر گیلے بالوں میں ہی لگالیں اور تولیہ لپیٹ لیں۔ صرف دو سے تین دفعہ کے استعما ل سے ہی آپکو جوؤں سے نجات مل جائے گی۔ اپنا کنگھا، برش اور تولیہ الگ رکھیں۔ تکیہ کے غلاف اور پلنگ کی چادر کو تبدیل کرنے کے لئے پوری طرح سے میلا ہونے کا انتظار نہ کریں۔ بلکہ اپنی سہولت کے مطابق تھوڑے دنوں بعد سب چیزیں دھو لیا کریں۔ مایونیز، زیتون کا تیل اور پٹرولیم جیلی ہم وزن ملا کر جڑوں پر لگائیں اور آدھے گھنٹے بعد دھو لیں۔جوؤں کے ساتھ ساتھ جوؤں سے ہونے والی خارش اور بے چینی سے بھی نجات مل جائے گی۔ ٹی ٹری آئل ،تارا میرا اور لونگ کا تیل بھی جوؤں کے خاتمے میں مفید ہے ۔البتہ جو بھی تیل استعمال کریں اسے پہلے تھوڑی جگہ لگاکر چیک کریں کہ کہیں آپکو اس سے الرجی تو نہیں ہو رہی۔ روزمیری اور لیونڈر آئل میں چند قطرے لیمبو کا عرق ملا کر سر پر لگائیں اور تیس منٹ بعد دھو لیں ۔ پھرجوؤں والی کنگھی بالوں میں پھیریں۔ مرمکی اور لوبان (۱۵ ، پندرہ گرام )اورحب الرشاد( بیس گرام) کو پانچ سو گرام سرکہ میں پانچ منٹ تک ہلکی آنچ پر ابال لیں پھر چھان کر جو آمیزہ تیار ہو اسے سر پہ لگائیں ۔تمام جوئیں مر جائیں گی انمیں سے کوئی دوا بھی زہریلی نہیں اور مرمکی چونکہ دافع تعفن ہے تو اسکے استعمال سے سر میں موجود باقی جراثیم بھی ہلاک ہوجائیں گے ۔ ذریرہ(باچھ) کو پانی میں ابال کر اسکے جوشاندہ کو سر میں تھوڑی دیر کے لیے لگائیں تو جوئیں مر جاتی ہیں ۔اس کی جڑوں کو سرکہ میں ابال کر لگائیں تو وہ پانی والے جوشاندہ سے زیادہ مفید ہے۔ جوؤں کے خاتمہ کے لئے خالی سرکہ بھی آپ استعمال کر سکتے ہیں۔ عہدِرسالت میں خوشبو کے لئے لوبان ، عودالہندی،اور ذریرہ استعمال ہوتے تھے ، ان میں سے ہر دوائی خوشبو دار ہونے کے علاوہ جوؤں کے لئے بھی مفید ہے ۔جوئیں خوشبو سے مرجاتی ہیں ۔کیمیکل والی ادویات کے استعمال سے پر ہیز کریں وہ جوئیں تو ختم کردیں گی لیکن آپکے بالوں کے لئے نقصان دہ ہیں۔ پسی کالی مرچ میں تیل ملا کر سر پر مساج کریں۔مساج کے پندرہ منٹ بعد کنگھی کریں۔ بچوں کے سر سے جوئے ختم کرنے کیلئے تلسی کے پتے منگوا لیں۔تھوڑے سے پتے صاف کر کے دھو کر پیس لیں۔ پھر رات میں بالوں کی جڑوں میں لگا کر کپڑا باندھ کر سلا دیں۔ دوسرے دن صبح کپڑا ہٹا کر سوکھے ہوئے پتوں کو جھاڑ لیں اور کنگھی کر لیں۔تھورے سے نیم کے پتےابال کر ایک بالٹی پانی بنا لیں۔شیمپو بالوں میں لگائیں پھر نل کی دھار کھول کر کنگھی کرتے رہیں،پانی ڈالتے رہیں۔جب شیمپو بالوں سے بالکل صاف ہو جائے توایک چوتھائی جائے کا چمچ زیتون کا تیل دوقطرے لیموں ملا کر گیلے بالوں کی جڑوں میں لگا کر گرم پانی میں تولیہ بھگو کر نچوڑ کر بالوں میں لپیٹ دیں کچھ دیر بعد تولیہ ہٹا کر بالوں کو خشک کر کے باندھ لیں۔ایک بار یہ عمل دہرانے سےجوؤں سے زندگی بھر کیلئے فرصت مل جائے گی۔ ایک کپ نیم کے تیل کو کسی برتن میں ڈالیں۔ اب آدھا چائے کا چمچ کافور اور آدھا چائے کا چمچ کمیلا بوٹی کو ہادن دستے کی مدد سے پیس لیں اور آدھا آدھاچمچ کافور اور کمیلا بوٹی نیم کے تیل میں ملا کر بالوں میں لگائیں۔اسے پندرہ منٹ تک لگا رہنے دیں اسکے بعد نیم کے پتوں کو پانی میں ابال کر اسی پانی سے سر کو دھو لیں۔ جوؤ ں سے نجات کے لئےکوئی بھی طریقہ استعمال کریں ،دو ہفتوں میں آپ کے سر سے جوؤں کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ تاہم اس دوران اپنے جسم، کپڑوں، بستروں اور گھر کی صفائی کا خصوصی خیال رکھیں۔ جوؤں سے بچاؤ کے طریقے جوؤں سے بچاؤ بہت ضروری ہے۔ اس لیے گھر کے تمام افراداپنے اپنے سر کا معائنہ کروائیں کہ کہیں ان کے سر میں کوئی جوں یا لیکھ تو نہیں ہے۔ اگر آپ کو انکشاف ہو کہ آپ کے سر میں جوئیں ہیں تو فوراً سے پہلے جوؤں سے نجات حاصل کریں۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر لیکھوں یا انڈوں کو مارنے کے لیے کنگھی کرنے والے تمام برشوں اور کنگھوں کو گرم پانی سے دھو کر استعمال کریں۔ اور کسی دوسرے کی ٹوپی، کنگھی اور تولیہ استعمال نہ کریں۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے بستر میں سوئیں۔صحت و صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ اور اپنے سر کو کسی اچھے شمپو سے باقاعدگی کے ساتھ دھوئیں۔
0 notes
Photo
یزید-سعادت حسن منٹو سن سینتالیس کے ہنگامے آئے اور گزر گئے بالکل اسی طرح جس طرح موسم میں خلاف معمول چند دن خراب آئیں اور چلے جائیں۔ یہ نہیں کہ کریم داد مولا کی مرضی سمجھ کر خاموش بیٹھا رہا۔ اس نے اس طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا۔ مخالف قوتوں کیساتھ وہ کئی بار بھڑا تھا۔ شکست دینے کیلئے نہیں صرف مقابلہ کرنے کیلئے۔ اسکو معلوم تھا کہ دشمنوں کی طاقت بہت زیادہ ہے مگر ہتھیار ڈال دینا وہ اپنی ہی نہیں ہر مرد کی توہین سمجھتا تھا۔ سچ پوچھیے تو اسکے متعلق یہ صرف دوسروں کا خیال تھا۔ انکا جنہوں نے اسے وحشی نما انسانوں سے بڑی جاں بازی سے لڑتے دیکھا تھا ورنہ اگر کریم داد سے اس بارے میں پوچھا جاتا کہ مخالف قوتوں کے مقابلے میں ہتھیار ڈالنا کیا وہ اپنی یا مرد کی توہین سمجھتا ہے۔ وہ یقیناً سوچ میں پڑ جاتا جیسے آپ نے اس سے حساب کا کوئی بہت ہی مشکل سوال کر دیا ہے۔ کریم داد جمع تفریق اور ضرب تقسیم سے بالکل بے نیاز تھا۔ سن سینتالیس کے ہنگامے آئے اور گزر گئے، لوگوں نے بیٹھ کر حساب لگانا شروع کیا کہ کتنا جانی نقصان ہوا ہے کتنا مالی مگر کریم داد اس سے بالکل الگ تھلگ رہا۔ اسکو صرف اتنا معلوم تھا کہ اسکا باپ رحیم داد اس جنگ میں کام آیا ہے۔ اسکی لاش خود کریم داد نے اپنے کندھوں پر اٹھائی تھی اور ایک کنوئیں کے پاس گڑھا کھود کر دفنائی تھی۔ گاؤں میں اور بھی کئی وارداتیں ہوئی تھیں سینکڑوں جوان اور بوڑھے قتل ہوئے تھے کئی لڑکیاں غائب ہوئی تھیں کچھ کہ بہت ظالمانہ طریقے سے بے آبرو ہوئی تھیں۔ جس کے بھی یہ زخم آئے تھے روتا تھا اپنے پھوٹے نصیبوں اور دشمنوں کی بے رحمی پر مگر کریم داد کی آنکھ سے ایک آنسو نہ نکلا۔ اپنے باپ رحیم داد کی شہہ زوری پر اسے ناز تھا جب وہ پچیس تیس برچھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح بلوائیوں کا مقابلہ کرتے کرتے نڈھال ہو کر گر پڑا تھا اور کریم داد کو اسکی موت کی خبر ملی تو اس نے اسکی روح کو مخاطب کر کے صرف اتنا کہا تھا ” یار تم نے یہ ٹھیک نہ کیا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک ہتھیار اپنے پاس ضرور رکھا کرو۔” اور اس نے رحیم داد کی لاش اٹھا کر کنوئیں کے پاس گڑھا کھود کر دفنا دی تھی اور اسکے پاس کھڑے ہو کر فاتحہ کے طور پر صرف یہ چند الفاظ کہے تھے۔ ” گناہ ثواب کا حساب خدا جانتا ہے اچھا تجھے بہشت نصیب ہو۔” رحیم داد جو نہ صرف اسکا باپ تھا بلکہ ایک بہت بڑا دوست بھی تھا۔ بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ لوگ جب اسکی افسوسناک موت کا ذکر کرتے تو قاتلوں کو بڑی گالیاں دیتے تھے مگر کریم داد خاموش رہتا تھا۔ اس کی کئی کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ دو مکان جل کر راکھ ہو گئے تھے مگر اس نے اپنے ان نقصانوں کا کبھی حساب نہیں لگایا تھا۔ وہ کبھی کبھی صرف اتنا کہا کرتا تھا” جو کچھ ہوا ہماری اپنی غلطی سے ہوا ہے۔” اور جب کوئی اس سے اس غلطی کے متعلق استفسار کرتا تو وہ خاموش رہتا۔ گاؤں کے لوگ ابھی سوگ میں صروف تھے کہ کریم داد نے شادی کر لی۔ اسی مٹیار جیناں کیساتھ جس پر ایک عرصے سے اسکی نگاہ تھی۔ جیناں سوگوار تھی۔ اسکا شہتیر جیسا کڑیل جوان بھائی بلووں میں مارا گیا تھا۔ ماں باپ کی موت کے بعد ایک صرف وہی اسکا سہارا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیناں کو کریم داد سے بے پناہ محبت تھی مگر بھائی کی موت کے غم نے یہ محبت اسکے دل میں سیاہ پوش کر دی تھی اب ہر وقت اسکی سدا مسکراتی آنکھیں غمناک رہتی تھیں۔ کریم داد کو رونے دھونے سے بہت چڑ تھی۔ وہ جیناں کو جب بھی سوگ زدہ حالت میں دیکھتا تو دل ہی دل میں بہت کڑھتا مگر وہ اس سے اس بارے میں کچھ نہیں کہتا تھا۔ یہ سوچ کر عورت ذات ہے ممکن ہے اسکے دل کو اور زیادہ دکھ پہنچے مگر اس روز اس سے رہا نہ گیا۔ کھیت میں اس نے جیناں کو پکڑ لیا اور کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” مردوں کو کفنائے دفنائے پورا ایک سال ہو گیا ہے اب تو وہ بھی اس سوگ سے گبھرا گئے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑ میری جان! اب زندگی میں جانے اور کتنی موتیں دیکھنی ہیں۔ کچھ آنسو تو اپنی آنکھوں میں جمع رہنے دے۔” جیناں کو اسکی یہ باتیں بہت ناگوار معلوم ہوتی تھیں مگر وہ اس سے محبت کرتی تھی اس لیے اکیلے میں اس نے کئی گھنٹے سوچ سوچ کر اسکی باتوں میں معنی پیدا کیے اور آخر خود کو یہ سمجھنے پر آمادہ کر لیا کہ کریم داد جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہے۔ شادی کا سوال آیا تو بڑے بوڑھوں نے مخالفت کی مگر یہ مخالفت بہت ہی کمزور تھی وہ لوگ سوگ منا منا کر اتنے نحیف ہو گئے تھے کہ ایسے معاملوں میں سو فیصدی کامیاب ہونیوالی مخالفتوں پر بھی زیادہ دیر تک نہ جمے رہ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ کریم داد کا بیاہ ہو گیا۔ باجے گاجے آئے ہر رسم ادا ہوئی اور کریم داد اپنی محبوبہ جیناں کو دلہن بنا کر گھر لے آیا۔ فسادات کے بعد قریب قریب ایک برس سے سارا گاؤں قبرستاں سا بنا تھا جب کریم داد کی برات چلی اور خوب دھوم دھڑکا ہوا تو گاؤں کے کئی آدمی سہم گئے۔ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ کریم داد کی نہیں کسی بھوت پریت کی برات ہے۔ کریم داد کے دوستوں نے جب اسکو یہ بات بتائی تو وہ خوب ہنسا۔ ہنستے ہنستے ہی اس نے ایک روز اسکا ذکر اپنی نئی نویلی دلہن سے کیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ اٹھی۔ کریم داد نے جیناں کی سوہے جوڑے والی کلائی اپنے ہاتھ میں لی اور کہا، یہ بھوت تو اب ساری عمر تمہارے ساتھ چمٹا رہیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمان سائیں کی جھاڑ پھونک بھی اتار نہیں سکیگی۔ جیناں نے اپنی مہندی میں رچی ہوئی انگلی دانتوں تلے دبا کر اور ذرا شرما کر صرف اتنا کہا۔ کیمے تجھ کو کسی سے بھی ڈر نہیں لگتا۔ کریم داد نے اپنی ہلکی ہلکی سیاہی مائل بھوری مونچھوں پر زبان کی نوک پھیری اور مسکرا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈر بھی کوئی لگنے کی چیز ہے؟ جیناں کا غم اب بہت حد تک دور ہو چکا تھا۔ وہ ماں بننے والی تھی۔ کریم داد اسکی جوانی کا نکھار دیکھتا تو بہت خوش ہوتا اور جیناں سے کہنا” خدا کی قسم جیناں تو پہلے کبھی اتنی خوبصورت نہیں تھی اگر تو اتنی خوبصورت اپنے ہونیوالے بچے کیلئے بنی ہے تو میری اس سے لڑائی ہو جائیگی۔ ” یہ سن کر جینان شرما کر اپنا ٹھلیا سا پیٹ چادر میں چھپا لیتی کریم داد ہنستا اور اسے چھیڑتا” چھپاتی کیوں ہو اس چور کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کیا جانتا نہیں کہ یہ سب بناؤ سنگھار صرف تم نے اسی سور کے لیے کیا ہے۔ جیناں ایک دم سنجیدہ ہو جاتی۔” کیوں گالی دیتے ہو اپنے کو؟ کریم داد کی سیاہی مائل مونچھیں ہنسی سے تھرتھرانے لگتیں ” کریم داد بہت بڑا سور ہے۔ ” چھوٹی عید آئی، بڑی عید آئی، کریم داد نے یہ دونوں تہوار بڑے ٹھاٹ سے منائے، بڑی عید سے بارہ روز پہلے اسکے گاؤں پر بلوائیوں نے حملہ کیا تھا اور اسکا باپ رحیم داد اور جیناں کا بھائی فضل الہٰی قتل ہوئے تھے۔ جیناں ان دونوں کی موت کو یاد کر کے بہت روئی تھی مگر کریم داد کی صدموں کو یاد رکھنے والی طبیعت کی موجودگی میں اتنا غم نہ کر سکی جتنا اسے اپنی طبیعت کے مطابق کرنا چاہیے تھے۔ جیناں کبھی سوچتی تو اسکو بڑا تعجب ہوتا تھا کہ وہ اتنی جلدی اپنی زندگی کا اتنا بڑا صدمہ کیسے بھولتی جا رہی ہے۔ ماں باپ کی موت تو اسکو قطعاً یاد نہیں تھی۔ فضل الہٰی اس سے چھ سال بڑا تھا۔ وہی اسکا باپ تھا وہی اسکی ماں اور وہی اسکا بھائی۔ جیناں اچھی طرح جانتی تھی کہ صرف اسی کی خاطر اس نے شادی نہیں کی اور اپنی جان دیدی۔ اسکی موت جیناں کی زندگی کا یقیناً بہت ہی بڑا حادثہ تھا۔ ایک قیامت جو بڑی عید سے ٹھیک بارہ روز پہلے اس پر یکایک ٹوٹ پڑی تھی۔ اب وہ اسکے بارے میں سوچتی تھی تو اسکو بڑی حیرت ہوتی تھی کہ وہ اسکے اثرات سے کتنی دور ہوتی جا رہی ہے۔ محرم قریب آیا تو جیناں نے کریم داد سے اپنی پہلی فرمائش کا اظہار کیا کہ اسے تعزیے دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ اپنی سہیلیوں سے وہ انکے متعلق بہت کچھ سن چکی تھی۔ چنانچہ اس نے کریم داد سے کہا۔ ” میں ٹھیک ہوئی تو لے چلو گے مجھے تعزیہ دکھانے۔؟ کریم داد نے مسکرا کر جواب دیا۔ ” تم ٹھیک نہ بھی ہوئیں تو بھی لے چلوں گا۔ اس سور کے بچے کو بھی۔ جیناں کو یہ گالی بہت ہی بری لگتی تھی چنانچہ وہ اکثر بگڑ جاتی تھی۔ مگر کریم داد کی گفتگو کا انداز کچھ ایسا پرخلوص تھا کہ جیناں کی تلخی فوراً ہی ایک ناقابل بیان مٹھاس میں تبدیل ہو جاتی تھی اور وہ سوچتی تھی کہ سور کے بچے میں کتنا پیار کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کی افواہیں ایک عرصے سے اڑ رہی تھیں۔ اصل میں تو پاکستان بنتے ہی یہ بات گویا ایک طور پر طے ہو گئی تھی کہ جنگ ہو گی اور ضرور ہو گی۔ کب ہو گی اسکے متعلق گاؤں میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ کریم داد سے جب کوئی اسکے متعلق سوال کرتا تو وہ یہ مختصر سا جواب دیتا۔ ” جب ہونی ہو گی ہو جائیگی فضول سوچنے سے کیا فائدہ؟ جیناں جب اس ہونیوالی لڑائی بھڑائی کے متعلق سنتی تو اسکے اوسان خطا ہو جاتے تھے وہ طبعاً بہت ہی امن پسند تھی۔ معمولی تو تو میں میں سے بھی سخت گھبراتی تھی۔ اسکے علاوہ گزشتہ بلووں میں اس نے کئی کشت وخوں دیکھے تھے اور انہی میں اسکا پیارا بھائی فضل الٰہی کام آیا تھا۔ بے حد سہم کر وہ کریم داد سے اتنا کہتی ” کیمے کیا ہو گا؟ کریم داد مسکرا دیتا۔ ” مجھے کیا معلوم لڑکا ہو گا یا لڑکی۔؟ یہ سن کر جیناں بہت ہی زچ ہوتی مگر فوراً ہی کریم داد کی دوسری باتوں میں لگ کر ہونیوالی جنگ کے متعلق سب کچھ بھول جاتی۔ کریم داد طاقتور تھا نڈر تھا جیناں سے اسکو بے حد محبت تھی۔ بندوق خریدنے کیبعد وہ تھوڑے ہی عرصے میں نشانے کا بہت پکا ہو گیا تھا۔ یہ سب باتیں جیناں کو حوصلہ دلاتی تھیں مگر اسکے باوجود ترنجنوں میں جب وہ اپنی کسی خوف زدہ ہمجولی سے جنگ کے بارے میں گاؤں کے آدمیوں کی اڑائی ہوئی ہولناک افواہیں سنتی تو ایک دم سن سی ہو جاتی۔ بختو دائی جو ہر روز جیناں کو دیکھنے آتی تھی ایک دن یہ خبر لائی کہ ہندوستان والے دریا بند کرنے والے ہیں۔ جیناں اسکا مطلب نہ سمجھی۔ وضاحت کیلئے اس نے بختو دائی سے پوچھا۔ ” دریا بند کرنیوالے ہیں۔؟” یہ کون سے دریا بند کرنے والے ہیں؟ بختو دائی نے جواب دیا۔’وہ جو ہمارے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں۔ جیناں نے کچھ دیر سوچا اور ہنس کر کہا۔ موسی کیا تم بھی پاگلوں کی سی باتیں کرتی ہو دریا کون بند کر سکتا ہے وہ بھی کوئی موریاں ہیں؟ بختو نے جیناں کے پیٹ پر ہولے مالش کرتے ہوئے کہا۔ بی بی مجھے معلوم نہیں جو کچھ میں نے سنا تھا تمہیں بتا دیا۔ یہ بات اب تو اخباروں میں بھی آ گئی ہے۔ کون سی بات؟ جیناں کو یقین نہیں آتا تھا۔ بختو نے اپنے جھریوں والے ہاتھ سے جیناں کا پیٹ ٹٹولتے ہوئے کہا۔ یہ دریا بند کرنیوالی ۔ پھر اس نے جیناں کے پیٹ پر اسکی قمیض کھینچی اور اٹھ کر بڑے ماہرانہ انداز میں کہا۔ اللہ خیر رکھے بچہ آج سے پورے دس روز کیبعد ہو جانا چاہیے۔ کریم داد گھر آیا تو سب سے پہلے جیناں نے اس سے دریاؤں کے متعلق پوچھا اس نے پہلے بات ٹالنی چاہی پر جب جیناں نے کئی بار اپنا سوال دہرایا تو کریم داد نے کہا ہاں کچھ ایسا ہی سنا ہے۔ جیناں نے پوچھا۔ کیا؟ یہی کہ ہندوستان والے ہمارے دریا بند کر دینگے۔ کیوں؟ کریم داد نے جواب دیا کہ ہماری فصلیں تباہ ہو جائیں۔ یہ سن کر جیناں کو یقین ہو گیا کہ دریا بند کیے جا سکتے ہیں چنانچہ نہایت بے چارگی کے عالم میں اس نے صرف اتنا کہا” کتنے ظالم ہیں یہ لو��۔” کریم داد اس دفعہ کچھ دیر کیبعد مسکرایا۔ ہٹاؤ اسکو یہ بتاؤ موسی بختو آئی تھی۔ جیناں نے بے ادبی سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی تھی۔ کیا کہتی تھی؟ کہتی تھی آج سے پورے دس روز کیبعد بچہ ہو جائیگا۔ کریم داد نے زور کا نعرہ لگایا، زندہ باز۔ جیناں نے اسے پسند نہ کیا اور بڑبڑائی، تمہیں خوشی سوجھتی ہے جانے یہاں کیسی بلا آنیوالی ہے۔ کریم داد چوپال چلا گیا۔ وہاں قریب قریب سب مرد جمع تھے۔ چوہدری نتھو کو گھیرے اس سے دریا بند کرنے والی خبر کے متعلق باتیں پوچھ رہے تھے۔ کوئی پنڈت نہرو کو پیٹ بھر کے گالیاں دے رہا تھا۔ کوئی بددعائیں مانگ رہا تھا کوئی یہ ماننے ہی سے یکسر منکر تھا کہ دریاؤں کا رخ بدلا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کا یہ خیال تھا کہ جو کچھ ہونیوالا ہے وہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ اسے ٹالنے کیلئے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ مل کر مسجد میں دعا مانگی جائے۔ کریم داد ایک کونے میں بیٹھا خاموش سنتا رہا۔ ہندوستان والوں کو گالیاں دینے میں چوہدری نتھو سب سے پیش پیش تھا۔ کریم داد کچھ اسطرح سے بار بار اپنی نشست بدل رہا تھا جیسے اسے بہت کوفت ہو رہی ہے۔ سب بیک زبان ہو کر یہ کہہ رہے تھے کہ دریا بند کرنا بہت ہی اوچھا ہتھیار ہے۔ انتہائی کمینہ پن ہے، ذلالت ہے، عظیم ترین ظلم ہے، بدترین گناہ ہے، یزید پن ہے۔ کریم داد دو تین مرتبہ اسطرح کھانسا جیسے وہ کچھ کہنے کیلئے خود کو تیار کر رہا ہے۔ چوہدری نتھو کے منہ سے جب ایک اور لہر موٹی موٹی گالیوں کی اٹھی تو کریم داد چیخ پڑا۔ گالی نہ دے چوہدری کسی کو۔ ماں کی ایک بہت بڑی گالی چوہدری نتھو کے حلق میں پھنسی رہ گئی اس نے پلٹ کر ایک عجیب انداز سے کریم کیطرف دیکھا جو سر سے اپنا صافہ ٹھیک کر رہا تھا۔ کیا کہا؟ کریم داد نے آہستہ مگر مضبوط آواز میں کہا۔ میں نے کہا گالی نہ دے کسی کو۔ حلق میں پھنسی ہوئی ماں کی گالی بڑے زور سے باہر نکال کر چوہدری نتھو نے بڑے تیکھے لہجے میں کریم داد سے کہا۔ کسی کو؟ کیا لگتے ہیں وہ تمہارے؟ اس کے بعد وہ چوپال میں جمع شدہ آدمیوں سے مخاطب ہوا۔ سنا تم لوگوں نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتا ہے گالی نہ دو کسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھو اس سے وہ کیا لگتے ہیں اسکے ؟ کریم داد نے بڑے تحمل سے جواب دیا، میرے کیا لگتے ہیں؟ میرے دشمن لگتے ہیں۔ چوہدری کے حلق سے پھٹا پھٹا سا قہقہ بلند ہوا۔ اس قدر زور سے کہ اسکی مونچھوں کے بال بکھر گئے۔ سنا تم لوگوں نے دشمن لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دشمن کو پیار کرنا چاہیے کیوں برخوردار۔ کریم داد نے بڑے برخوردارانہ انداز میں جواب دیا۔ نہیں چوہدری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پیار کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ گالی نہیں دینی چاہیے۔ کریم داد کیساتھ ہی اسکا لنگوٹیا دوست میراں بخش بیٹھا تھا۔ اس نے پوچھا کیوں؟ کریم داد صرف میراں بخش سے مخاطب ہوا۔ کیا فائدہ ہے یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پانی بند کر کے تمہاری زمینوں کو بنجر بنانا چاہتے ہیں اور تم انہیں گالی دیکر یہ سمجھتے ہو کہ حساب بے باق ہوا۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ گالی تو اسوقت دی جاتی ہے جب اور کوئی جواب پاس نہ ہوا۔ میراں بخش نے پوچھا۔ تمہارے پاس کوئی جواب موجود ہے؟ کریم داد نے تھوڑے توقف کیبعد کہا۔” سوال میرا نہیں ہزاروں اور لاکھوں آدمیوں کا ہے۔ اکیلا میرا جواب سب کا جواب نہیں ہو سکتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے معاملوں میں سوچ سمجھ کر ہی کوئی پختہ جواب تیار کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دن میں دریاؤں کا رخ نہیں بدل سکتے۔ سال لگیں گے لیکن یہاں تو تم لوگ گالیاں دیکر ایک منٹ میں اپنی بھڑاس نکال باہر کر رہے ہو۔ پھر اس نے میراں بخش کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے خلوص کیساتھ کہا۔ میں تو اتنا جانتا ہوں یار کہ ہندوستان کو کمینہ ذلیل اور ظالم کہنا بھی غلط ہے۔ ” میراں بخش کی بجائے چوہدری نتھو چلایا، لو اور سنو۔ کریم داد میراں بخش ہی سب سے مخاطب رہا” دشمن سے میرے بھائی رحم و کرم کی توقع رکھنا بیوقوفی ہے۔ لڑائی شروع ہو اور یہ رونا رویا جائے کہ دشمن بڑے بور کی رائفلیں استعمال کر رہا ہے ہم چھوٹے بم گراتے ہیں وہ بڑے گراتا ہے۔ تم اپنے ایمان سے کہو یہ شکایت بھی کوئی شکایت ہے چھوٹا چاقو بھی مارنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور بڑا چاقو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں۔ میراں بخش کی بجائے چوہدری نتھو نے سوچنا شروع کیا۔ مگر فوراً ہی جھنجھلا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ پانی بند کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں بھوکا پیاسا مارنا چاہتے ہیں۔ کریم داد نے میراں بخش کے کاندھے سے اپنا ہاتھ علیحدہ کیا اور چوہدری نتھو سے مخاطب ہوا، چوہدری جب کسی کو دشمن کہہ دیا تو پھر یہ گلہ کیسا کہ وہ ہمیں بھوکا پیاسا مارنا چاہتا ہے۔ وہ تمہیں بھوکا پیاسا نہیں ماریگا۔ تمہاری ہری بھری زمینیں ویران اور بنجر نہیں بنائیگا تو کیا وہ تہمارے لیے پلاؤ کی دیگیں اور شربت کے مٹکے وہاں سے بھیجے گا تمہاری سیر تفریح کیلئے یہاں باغ باغیچے لگائے گا۔ چوہدری نتھو بھنا گیا، یہ تو کیا بکواس کر رہا ہے۔ میراں بخش نے ہولے سے کریم داد سے پوچھا، ہاں یار یہ کیا بکواس ہے؟ بکواس نہیں ہے میراں بخشا۔” کریم داد نے سمجھانے کے انداز میں میراں بخش سے کہا۔ تو ذرا سوچ تو سہی کہ لڑائی میں دونوں فریق ایکدوسرے کو پچھاڑنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتے جب لنگر لنگوٹ کس کے اکھاڑے میں اتر آئے تو اسے ہر داؤ استعمال کرنے کا حق ہوتا ہے۔ میراں بخش نے اپنا گھٹا ہوا سر ہلایا۔ یہ تو ٹھیک ہے۔ کریم داد مسکرایا، تو پھر دریا بند کرنا بھی ٹھیک ہے۔ ہمارے لیے یہ ظلم ہے مگر انکے لیے روا ہے۔ روا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تیری جیب پیاس کے مارے لٹک کر زمین تک آ جائیگی تو میں پھر پوچھوں گا کہ ظلم روا ہے یا ناروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تیرے بال بچے اناج کے ایک ایک دانے کو ترسیں گے تو پھر بھی یہی کہنا کہ دریا بند کرنا بالکل ٹھیک تھا۔ کریم داد نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہا۔” میں جب بھی یہی کہوں گا چوہدری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ صرف وہ ہمارا دشمن نہیں ہے کیا ہم اسکے دشمن نہیں۔ اگر ہمارے اختیار میں ہوتا تو ہم نے بھی اسکا دانہ پانی بند کیا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب کہ وہ کر سکتا ہے اور کرنیوالا ہے تو ہم ضرور اسکا کوئی توڑ سوچیںگے۔۔۔۔۔۔ بیکار گالیاں دینے سے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دشمن تمہارے لیے دودھ کی نہریں جاری نہیںکریگا چوہدری نتھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ہو سکا تو وہ تمہارے پانی کی ہر بوند میں زہر ملا دیگا تم اسے ظلم کہو گے وحشیانہ پن کہو گے اس لیے کہ مارنے کا یہ طریقہ تمہیں پسند نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عجیب سی بات ہے کہ لڑائی شروع کرنے سے پہلے دشمن سے نکاح کی سی شرطیں پڑھوائی جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے کہا جائے کہ دیکھو مجھے بھوکا پیاسا نہ مارنا بندوق سے اور وہ بھی اتنے بور کی بندوق سے البتہ تم مجھے شوق سے ہلاک کر سکتے ہو۔ ��صل بکواس تو یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو۔ چوہدری نتھو جھجھلاہٹ کی آخری حد تک پہنچ گیا۔ برف لا کے رکھ میرے دل پر۔ یہ بھی میں ہی لاؤں یہ کہہ کر کریم داد ہنسا۔ میراں بخش کے کاندھے پر تھپکی دیکر اٹھا اور چوپال سے چلا گیا۔ گھر کی ڈیوڑھی میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ اندر سے بختو دائی نکلی۔ کریم داد کو دیکھ کر اسکے ہونٹوں پر پوپلی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مبارک ہو کیمے چاند سا بیٹا ہوا ہے اب کوئی اچھا سا نام سوچ اسکا۔ نام؟ کریم داد نے ایک لخطے کیلئے سوچا، یزید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یزید۔ بختو دائی کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ کریم داد نعرے لگاتا گھر میں داخل ہوا۔ جیناں چاپائی پر لیٹی تھی۔ پہلے سے کسی قدر زرد اسکے پہلو میں ایک گل گوتھنا سا بچہ چپڑ چپڑ اپنا انگوٹھا چوس رہا تھا۔ کریم داد نے اسکیطرف پیار بھری نظروں سے دیکھا اور اسکے گال کو ایک انگلی سے چھیڑتے ہوئے کہا۔ ” اوئے میرے یزید! کریم داد نے غور سے اپنے بیٹے کا ناک نقشہ دیکھتے ہوئے کہا۔ ہاں یزید۔۔۔۔۔۔۔ یہ اسکا نام ہے۔ جیناں کی آواز بہت نحیف ہو گئی۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو کیمے۔۔۔۔۔۔۔ یزید؟ کریم داد مسکرایا، کیا ہے اس میں؟ نام ہی تو ہے؟ جیناں صرف اسقدر کہہ سکی۔ مگر کس کا نام؟ کریم داد نے سنجیدگی سے جواب دیا، ضروری نہیں کہ یہ بھی وہی یزید ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دریا کا پانی بند کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کھولے گا۔ 14 اکتوبر1951ئ
0 notes