Tumgik
#لکھوانا
alibabactl · 5 years
Text
Tumblr media
منٹو کی وفات پر اس کے قلم سے اسی کا خاکہ:
منٹو (خاکہ)
(سعادت حسن منٹو)
یہ مضمون منٹو صاحب نے انتقال سے تقریباً تین ماہ قبل ستمبر1954ء میں رسالہ نقوش کے لئے لکھا۔ مدیر نے ’طلوع‘ (رسالے کے پیش لفظ) میں اس تحریرکے لئے ’ایک نیا سلسلہ‘ کی سُرخی کے تحت یہ نوٹ لکھا:
’’ہمارا خیال ہے خود ادیبوں سے بھی اپنی ذات کے بارے میں لکھوانا چاہیے کہ وہ خود کو کس عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس شمارہ میں منٹو نے اپنے بارے میں کچھ فرمایا ہے۔ ان کا قلم چونکہ بڑا بے باک ہے اس لئے وہی بے باکی انہوں نے اپنے بارے میں بھی اختیار کی ہے۔ ویسے یہ بڑی ہمت کی بات ہے کہ جس طرح ان کا قلم دوسروں کے لئے ’’بے لگام‘‘ ہے، وہی قلم اپنے لئے بھی اتنا ہی بے رحم ہے۔
(محمد طفیل )
منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھئے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔
اب تک اس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ۔۔۔ ذرا ٹھہرےئے میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت یہیں سن تو نہیں رہا۔۔۔ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔
ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دُکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔
اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔
لیجئے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔
اب میں اس کی سکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔
اچھا اب اُس کی افسانہ نگاری کے متعلق سُنیے۔ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیا نوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا، یہ اُس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اُس کے متلوّن مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دوبار فیل ہو کر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہو گی کہ وہ اُردو کے پرچے میں ناکام رہا۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔
اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جاٹوں کی لٹھ بازی نہیں ہے، وہ بنوٹ اور پھکیت ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا، بلکہ تنے ہوئے رسّے پر چلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گِرا۔۔۔ لیکن وہ کم بخت آج تک کبھی نہیں گرا۔۔۔ شاید گر جائے، اوندھے منہ۔۔۔ کہ پھر نہ اُٹھے، لیکن میں جانتا ہوں کہ مرتے وقت وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسی لیے گرا تھا کہ گر اوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے۔
میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیئے جاتا ہے، جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو۔۔۔ کوئی دُکان کھول لو لیکن منٹو کے دماغ میں جو دکان کھلی ہے اس میں منیاری کے سامان سے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ اس لیے وہ اکثر سوچا کرتا ہے اگر میں نے کبھی کوئی سٹور کھول لیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ کولڈسٹوریج یعنی سردخانہ بن جائے۔۔۔ جہاں اس کے تمام خیالات اور افکار منجمد ہو جائیں۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ منٹو مجھ سے خفا ہو جائے گا۔ اس کی ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر خفگی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خفگی کے عالم میں وہ بالکل شیطان بن جاتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے اور وہ چند منٹ، اﷲ کی پناہ۔۔۔
افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھارتا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے۔۔۔ کہ اس کا ہمزاد ہوں۔۔۔ کہ وہ فراڈ کر رہا ہے۔۔۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا۔۔۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اُٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال کرے گا۔۔۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا۔وہاں وہ اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور ۷۸۶ لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم اﷲ۔۔۔ اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے۔ یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ وہ چور ہے۔ جھوٹا ہ��۔ دغا باز ہے اور مجمع گیر ہے۔
اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیئے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔
یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔۔۔ شروع شروع اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹوؔ کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔
منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔۔۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری۔ ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ۔۔۔ میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔
خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے۔
رسالہ نقوش، لاہور۔ شمارہ 45/46۔بابت: ستمبر، اکتوبر1954ء
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 5 years
Text
Tumblr media
منٹو کا خود پر لکھا ہوا خاکہ
سعادت حسن منٹو
یہ مضمون منٹو صاحب نے انتقال سے تقریباً تین ماہ قبل ستمبر1954ء میں رسالہ نقوش کے لئے لکھا۔ مدیر نے ’طلوع‘ (رسالے کے پیش لفظ) میں اس تحریرکے لئے ’ایک نیا سلسلہ‘ کی سُرخی کے تحت یہ نوٹ لکھا:
’’ہمارا خیال ہے خود ادیبوں سے بھی اپنی ذات کے بارے میں لکھوانا چاہیے کہ وہ خود کو کس عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس شمارہ میں منٹو نے اپنے بارے میں کچھ فرمایا ہے۔ ان کا قلم چونکہ بڑا بے باک ہے اس لئے وہی بے باکی انہوں نے اپنے بارے میں بھی اختیار کی ہے۔ ویسے یہ بڑی ہمت کی بات ہے کہ جس طرح ان کا قلم دوسروں کے لئے ’بے لگام‘ ہے، وہی قلم اپنے لئے بھی اتنا ہی بے رحم ہے‘‘۔ (محمد طفیل )
منٹو (خاکہ)۔
منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنا بڑا کٹھن کام ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے آسان بھی ہے اس لیے کہ منٹو سے مجھے قربت کا شرف حاصل رہا ہے اور سچ پوچھئے تو منٹو کا میں ہمزاد ہوں۔
اب تک اس شخص کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں اتنا سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ان مضامین میں پیش کیا گیا ہے حقیقت سے بالاتر ہے۔ بعض اسے شیطان کہتے ہیں، بعض گنجا فرشتہ۔ ذرا ٹھہرےئے میں دیکھ لوں کہیں وہ کم بخت یہیں سن تو نہیں رہا۔ نہیں نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ وقت ہے جب وہ پیا کرتا ہے۔ اس کو شام کے چھ بجے کے بعد کڑوا شربت پینے کی عادت ہے۔
ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور ہمیشہ مجھے یہ اندیشہ بہت دُکھ دیتا ہے۔ اس لیے کہ میں نے اس کے ساتھ اپنی دوستی نباہنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اگر وہ زندہ رہا اور میں مر گیا تو ایسا ہو گا کہ انڈے کا خول تو سلامت ہے اور اس کے اندر کی زردی اور سفیدی غائب ہو گئی۔
اب میں زیادہ تمہید میں جانا نہیں چاہتا۔ آپ سے صاف کہے دیتا ہوں کہ منٹو ایسا ون ٹو آدمی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا، جسے اگر جمع کیا جائے تو وہ تین بن جائے۔ مثلث کے بارے میں اس کی معلومات کافی ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ ابھی اس کی تثلیث نہیں ہوئی۔ یہ اشارے ایسے ہیں جو صرف بافہم سامعین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یوں تو منٹو کو میں اس کی پیدائش ہی سے جانتا ہوں۔ ہم دونوں اکٹھے ایک ہی وقت 11مئی سنہ 1912ء کو پیدا ہوئے لیکن اس نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ خود کو کچھوا بنائے رکھے، جو ایک دفعہ اپنا سر اور گردن اندر چھپا لے تو آپ لاکھ ڈھونڈتے رہیں تو اس کا سراغ نہ ملے۔ لیکن میں بھی آخر اس کا ہمزاد ہوں میں نے اس کی ہر جنبش کا مطالعہ کر ہی لیا۔
لیجیے اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ خرذات افسانہ نگار کیسے بنا؟ تنقید نگار بڑے لمبے چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ شوپن ہار، فرائڈ، ہیگل، نٹ شے، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔
اب میں اس کی سکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔
اچھا اب اُس کی افسانہ نگاری کے متعلق سُنیے۔ وہ اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ پہلا افسانہ اس نے بعنوان ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیا نوالہ باغ کے خونیں حادثے سے متعلق تھا، یہ اُس نے اپنے نام سے نہ چھپوایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس کی دست برد سے بچ گیا۔
اس کے بعد اُس کے متلوّن مزاج میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ اس نے انٹرنس کا امتحان دوبار فیل ہو کر پاس کیا، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں اور آپ کو یہ سن کر بھی حیرت ہو گی کہ وہ اُردو کے پرچے میں ناکام رہا۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ اردو کا بہت بڑا ادیب ہے اور میں یہ سن کر ہنستا ہوں اس لیے کہ اردو اب بھی اسے نہیں آتی۔ وہ لفظوں کے پیچھے یوں بھاگتا ہے جیسے کوئی جال والا شکاری تتلیوں کے پیچھے۔ وہ اس کے ہاتھ نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریروں میں خوبصورت الفاظ کی کمی ہے۔ وہ لٹھ مار ہے لیکن جتنے لٹھ اس کی گردن پر پڑے ہیں، اس نے بڑی خوشی سے برداشت کیے ہیں۔
اس کی لٹھ بازی عام محاورے کے مطابق جاٹوں کی لٹھ بازی نہیں ہے، وہ بنوٹ اور پھکیت ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو صاف اور سیدھی سڑک پر نہیں چلتا، بلکہ تنے ہوئے رسّے پر چلتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب گِرا۔ لیکن وہ کم بخت آج تک کبھی نہیں گرا۔ شاید گر جائے، اوندھے منہ۔ کہ پھر نہ اُٹھے، لیکن میں جانتا ہوں کہ مرتے وقت وہ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسی لیے گرا تھا کہ گر اوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے۔
میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے۔ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ وہ اکثر کہا کرتا ہے کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا خود افسانہ اسے سوچتا ہے۔ یہ بھی ایک فراڈ ہے حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے۔ لیکن وہ یہ انڈا چھپ کر نہیں دیتا۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوئے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیے جاتا ہے، جو بعد میں چُوں چُوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ اس کی بیوی اس سے بہت نالاں ہے۔ وہ اس سے اکثر کہا کرتی ہے کہ تم افسانہ نگاری چھوڑ دو۔ کوئی دُکان کھول لو لیکن منٹو کے دماغ میں جو دکان کھلی ہے اس میں منیاری کے سامان سے کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ اس لیے وہ اکثر سوچا کرتا ہے اگر میں نے کبھی کوئی سٹور کھول لیا تو ایسا نہ ہو کہ وہ کولڈسٹوریج یعنی سردخانہ بن جائے۔ جہاں اس کے تمام خیالات اور افکار منجمد ہو جائیں۔
میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ منٹو مجھ سے خفا ہو جائے گا۔ اس کی ہر چیز برداشت کی جاسکتی ہے مگر خفگی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ خفگی کے عالم میں وہ بالکل شیطان بن جاتا ہے لیکن صرف چند منٹوں کے لیے اور وہ چند منٹ، االلہ کی پناہ۔
افسانہ لکھنے کے معاملے میں وہ نخرے ضرور بگھارتا ہے لیکن میں جانتا ہوں، اس لیے۔ کہ اس کا ہمزاد ہوں۔ کہ وہ فراڈ کر رہا ہے۔ اس نے ایک دفعہ خود لکھا تھا کہ اس کی جیب میں بے شمار افسانے پڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جب اسے افسانہ لکھنا ہوگا تو وہ رات کو سوچے گا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ صبح پانچ بجے اُٹھے گا اور اخباروں سے کسی افسانے کا رس چوسنے کا خیال کرے گا۔ لیکن اسے ناکامی ہو گی۔ پھر وہ غسل خانے میں جائے گا۔ وہاں وہ اپنے شوریدہ سر کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا کہ وہ سوچنے کے قابل ہو سکے لیکن ناکام رہے گا۔ پھر جھنجھلا کر اپنی بیوی سے خواہ مخواہ کا جھگڑا شروع کر دے گا۔ یہاں سے بھی ناکامی ہو گی تو باہر پان لینے کے لیے چلا جائے گا۔ پان اس کی ٹیبل پر پڑا رہے گا لیکن افسانے کا موضوع اس کی سمجھ میں پھر بھی نہیں آئے گا۔ آخر وہ انتقامی طور پر قلم یا پنسل ہاتھ میں لے گا اور 786 لکھ کر جو پہلا فقرہ اس کے ذہن میں آئے گا، اس سے افسانے کا آغاز کر دے گا۔
بابو گوپی ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، ممی، موذیل، یہ سب افسانے اس نے اسی فراڈ طریقے سے لکھے ہیں۔
یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اسے بڑا غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ وہ کسی حد تک اس درجہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گہرے موضوعات پر قلم اُٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے، جن پر اعتراض کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا، پہلے صفحے کی پیشانی پر 786 ضرور لکھا جس کا مطلب ہے بسم االلہ۔ اور یہ شخص جو اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے کاغذ پر مومن بن جاتا ہے۔ یہ وہ کاغذی منٹو ہے، جسے آپ کاغذی باداموں کی طرح صرف انگلیوں ہی میں توڑ سکتے ہیں، ورنہ وہ لوہے کے ہتھوڑے سے بھی ٹوٹنے والا آدمی نہیں۔
اب میں منٹو کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ جو چند القاب ہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ وہ چور ہے۔ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور مجمع گیر ہے۔
اس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔
یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اوّل درجے کا جھوٹا ہے۔ شروع شروع اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹوؔ کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔
منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔
وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گذری۔ ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ۔ میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔
خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔ بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے۔
رسالہ نقوش، لاہور۔ شمارہ 45/46۔ بابت: ستمبر، اکتوبر1954ء
2 notes · View notes
omega-news · 3 years
Text
وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو نکاح نامے میں حق مہر کے کالم میں ترمیم کرنے کا حکم
وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو نکاح نامے میں حق مہر کے کالم میں ترمیم کرنے کا حکم
ہائیکورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نکاح نامے میں حق مہر کے کالم میں ترمیم کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے نکاح نامے میں اشیاءکی تفصیل کے کالم 16 کو حق مہر کے کالم 13 کا حصہ قرار دے دیا۔ فیصلے کے مطابق فریقین حق مہر کے علاوہ کچھ لکھوانا چاہیں تو علیحدہ لکھوائیں۔ عدالت نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے نکاح نامے میں نقد، منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کے لیے علیحدہ کالم بنانے کا بھی حکم دیا ہے۔فیصلے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 4 years
Text
پیارے کپتان جی : میں بھی آپ سے براہ راست بات کرنا چاہتا تھا اور کہنا چاہتا تھا کہ ۔۔
Tumblr media
پیارے کپتان جی : میں بھی آپ سے براہ راست بات کرنا چاہتا تھا اور کہنا چاہتا تھا کہ ۔۔ لاہور (گلوبل کرنٹ نیوز) نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔پیارے کپتان کو مَیں نے کال ملانے کی اَن تھک کوشش کی، مگر کامیابی نہ مل سکی، مَیں بھی اپنا نام اُن لوگوں میں لکھوانا چاہتا تھا، جو وزیراعظم سے براہِ راست فون پر مکالمے کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے، مگر یہ ظالم فون کا نظام میری کال کو وزیراعظم تک پہنچانے میں ناکام رہا۔ مسلسل مصروف ٹون میرا منہ چڑاتی رہی۔ مَیں نے بھی بہت سی لچھے دار تعریف پر مبنی باتیں ذخیرہ کر رکھی تھیں، جو کال ملنے پر وزیراعظم کے گوش گزار کرتا۔اُنہیں قوم کا نجات دہندہ، ایماندار اور جری رہنما قرار دیتا۔ یہ بھی کہتا کہ ہم سب نے آپ ہی سے توقعات باندھ رکھی ہیں،آپ ہی ہماری آخری امید ہیں، آپ کے آنے سے جو بہار آئی ہے، قائداعظمؒ کے بعد سے قوم اُس کی راہ دیکھ رہی تھی،آپ نے ریاست ِ مدینہ کو ایسے احسن طریقے سے پروان چڑھایا ہے کہ ہر شخص سرشار ہے،خوش ہے اور آپ کو دُعائیں دے رہا ہے،مگر بُرا ہو اُس ایک نمبر کا جو ملنا تھا نہ ملا، نجانے وہ کون خوش قسمت تھے، جن کی وزیراعظمسے کالیں ملیں اور انہوں نے پیارے کپتان تک بنفس ِ نفیس اپنی آواز پہنچائی۔بعد میں میری بیٹی نے مجھے دلاسہ دیا کہ ابا جی پریشان نہ ہوں، آخر بائیس کروڑ عوام کے لئے ایک نمبر دیا گیا تھا، کتنوں کی کال مل سکتی تھی۔ دوسروں نے جو باتیں کیں انہیں آپ اپنی باتیں سمجھ کر مطمئن ہو جائیں، اُن سب نے بھی وہی کہا ہے جو آپ کہنا چاہتے تھے۔ سب نے وزیراعظم عمران خان کو آخری امید ہی تو کہا،انہیں قوم کا نجات دہندہ بھی قرار دیا اور سب سے بڑھ کر سوال بھی وہ کئے جن کا جواب کپتان ہمیشہ دیتے آئے ہیں،گویا اُن کا مرغوب ترین Read the full article
0 notes
informationtv · 4 years
Text
اللہ پاک کا سب سے بڑا اسم اعظم اللہ کا وعدہ جو مانگو گے فوراً جھولیاں بھر جائیں گی
اللہ پاک کا سب سے بڑا اسم اعظم اللہ کا وعدہ جو مانگو گے فوراً جھولیاں بھر جائیں گی
آج جو وظیفہ آپ کو بتانے والے ہیں اس کی مدد سے اللہ تعالیٰ آپکی ہر پریشانی دور فرمائیں گے ۔ تمام کام آسان اور درست ہوجائیں گے کوئی بھی ایسی چیز جو آپ اپنے مقدر میں لکھوانا چاہتے ہیں اس کی مدد ضروری پوری ہوگی ۔ آج کا جو عمل ہے وہ اللہ کے اسم مبارک کے نام سے موسوم ہے ۔ وہ نام ہے یا قادرُ جس کا مطلب ہے قدرت والا ۔جب آپ نے اس کو شروع کرنا ہے تو وضو کرنا اور وضو کرتے ہوئے دعائیں پڑھنے کےعلاوہ جو درمیان…
View On WordPress
0 notes
mubeenrao786 · 4 years
Photo
Tumblr media
پوسٹ بنوانے کیلئے جو بھی لکھوانا ہے وہ میسیج کر دیں ۔۔۔ شرائط 1۔ہمارے پیج کو لائک کریں 2۔اس پوسٹ کو شئیر کریں For more good posts... ❣️ #Like ❣️ #Follow ❣️ #Share #bytheway #pakistan #urduposts #urdupoetry #urdu #urduquotes #islam #islamic #muslim #muslimah #pakistaniwedding #celebration #celebrity #travel #travelphotography #socialmediamarketing #funny #funnyurdujokes https://www.instagram.com/p/CJWNuv2sq0J/?igshid=nqrucprh1cle
0 notes
urduzz · 4 years
Photo
Tumblr media
کوریائی ڈراموں میں اکثر مکالمے سنے ہوئے یا ایک سے ذیادہ دفعہ استعمال ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ڈرامہ صنعت کے برعکس یہ اسکرپٹ الگ بندے سے لکھواتے مکالمے الگ ایک گروہ بیٹھ کے لکھتا ہے۔ منظر نامہ کسی اور کا کام ہے لکھنا جبھی کچھ مخصوص حالات تقریبا ہر ڈرامے میں دکھائے جاتے ہیں جیسے ریستوران میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے مکالمے، چھت پر تارے یا چاند دیکھتا جوڑا یا ٹکر سے اتفاقی بوسہ لینا اور سڑک کنارے بے دھیانی میں چلتی لڑکی کو بچانا یہ سب اکثر دکھائی دیتا ہے۔ ذیل میں جو مکالمہ دیا گیا ہے یہ ہائی بائی ماما میں چھا یوری کی والدہ نے کہے تھے اور اب کھائے روس میں ہیروئن کی سہیلی نے کہے۔ ایک الگ ٹیم کا مکالمے لکھنا حالات و واقعات الگ ٹیم سے لکھوانا اور کہانی کسی اور کی مکمل پیشہ ورانہ طریقہ ہے ڈرامہ بنانے کا مگر اس سے یہ بھی نقصان ہوتا ہے کہ ہر طرح سے مکمل اور اچھا ڈرامہ بن تو جاتا ہے مگر یاد بھی رہ جاتا ہے۔ اور اس طرح پکڑا بھی جاتا ہے 😃 https://www.instagram.com/p/CHKjbIIFD0e/?igshid=1flvgoeyf19ya
0 notes
news6tvpakistan · 5 years
Link
Tumblr media
گلوبل پِنڈ (محمد نواز طاہر)گاؤں کے سکول میں دوسری جماعت کے بچے کو سو تک انگریزی آنا ستر کی دہائی کے اوائل میں بہر حال ایک خصوصی بات تھی، دوسرے بچے نے یہ جاننے کے لئے کہ گنتی درست بھی ہے یا’ جٹکے امتحان‘ جیسی ہے،  چاک ناک  اور آنکھوں کے درمیان رکھے دھوپ تاپتے  ماسٹر جی سے پوچھا کہ ماشٹر جی، ماشٹری جی ہنڈرڈ کیہنوں آہندے نیں؟ ماسٹر جی کو اُس کا ڈسٹرب کرنا تو شائد اتنا مناسب نہیں لگا لیکن عجیب ضرور لگا، ماسٹر جی نے اس کی طرف غور سے اور مجھے گھور کر دیکھا، پھر کچھ سوچ کر، توقف سے بولے سو ہوتا ہے ہندرڈ ، میں ایزی ہوگیا اور سوال کرنے والے پریشان مگر میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ماسٹر جی کو گنتی بھول گئی تھی جو فوری جواب نہیں دیا۔۔۔ یہ جاننے کی ’گستاخی‘  اس دور اور عمر میں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ سوشل میڈیا، نجی ٹی وی چینلز پر صحافیوں کی گفتگو کے حوالے سے کچھ لوگوں کے پیدا ہونے والے سوالات و خیالات کے ساتھ ’صحافی‘ تعریف اور وضاحت کرتے ہوئے مجھے خود ایک انٹرویو میں جواب دیتے ہوئے ماسٹر مشتاق جیسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔ اس سے مجھے عشروں قبل جہاں یہ واقعہ یاد آیا،وہیں اپنے پرانے سوال کا جواب بھی مل گیا۔ایک ریاستی ادارے کی اشاعتی و نشریاتی  انٹرویو  کے دوران میں ایک سوال کا جواب لکھ رہا تھا تو مجھے سوچنا پڑا کہ آج اِس موجودہ دور اور کاروبارِ صحافت میں صحافی کسے کہا جائے؟  خیر جو بھی لکھنا تھا وہ تو لکھ دیا۔۔ پیشہ صحافت جتنے زوال میں ان دنوں ہے، ماضی میں کبھی نہیں رہا، خاص طور پر پیشہ وارانہ،ذہنی و شعوری انحطاط۔۔۔یہ انحطاط میری اس تحریر میں بھی نظر آئے گا  جبکہ اس پیشے سے وابستگی کے تیسرے عشرے کا پہلا نصف بھی قریب الا ختتام ہے۔ کیا پرانے سینئر حضرات جو کچھ رہ گئے ہیں یا ��ہ جو کچھ صرف عمر کی بنا پر سینئر ہیں،  رہنمائی فرمائیں گے کہ کیا سکرین اور کاغذ پر نظر آنے والی صحافت  وہی ہے جس کی آزادی کے لئے جسم و جان  اور خاندان  داؤ پر لگا کر جدوجہد کی گئی تھی؟ کیا اس آزادی سے کارکن(عامل) صحافی مستفید ہورہا ہے یا متاثر ہورہا اور مسائل میں جکڑا گیا ہے؟، یہ آزادی ہے بھی یا نہیں؟، ہے تو کونسی؟ کس کی؟  ان سوالوں کے جواب ملنے تک اطمینان نہیں ہوگا، تب تک وہ حالات تو دہرائے جائیں جو کبھی عامل صحافی کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک  ملتے تھے، جن میں یہ نہیں ہوتا تھا کہ آج کسی سیاسی جماعت کا کا جلسہ ہے تو اس پارٹی کی کوریج کا ذمہ دار رپورٹر اخبار کے لئے اس جلسے کا اشتہار بھی لائے گا ورنہ سرزنش ہوگی۔ سب ایڈیٹر کو یہ  ’خیال‘ ن یا خوف نہیں ہوتا تھا کہ خبر کے لئے فراہم کیے جانے والے الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے جو سرخی جمانی ہے اس سے ناراض اور خوش کون ہوگا؟رپورٹر، فوٹو گرافر اور سب ایڈیٹر کے پیشِ نظر صرف عوامی دلچسپی اور سماجی  ہوتی تھی اور سماجی، اخلاقی بگاڑ سے اجتناب ہی صحافت پر واحد قدغن تھی(اس میں مقتدر، محترم عسکری ادارے  پر غلبہ پا کر  جبری حکمرانی کرنے اور اپنے سے جونیئر یا کچھ سینئر افسروں کا حق مار کر ملک و قوم کو محکوم بنانے والوں کا دور اور ادارے کی بندش  کے خوف والے  حالات کا ذکر شامل نہیں)۔ فرق کیا پڑا ہے؟  کاغذ کے کوٹے، سرکاری اشتہارات، معاشرے میں رعب، انتظامیہ سے تعلقات۔۔جرائم پر پردہ، نئے کاروبار کے لئے آسان راستے،۔۔ جن لوگوں کو صحافی سے خوف محسوس ہوتا تھا، انہوں نے’آقا‘بن کر صحافیوں کو’غلام‘ بنا لیا۔ صحافیوں نے’مالکی ایجنڈے پر عملدرآمد نوکری پکی کرتے ہوئے‘ بحکمِ حاکماں جس کا چاہا جیسا چاہا پوسٹمارٹم کیا اور باہم  ایک دوسرے کے  کپڑے بھی اتارے، بیچ چوراہے اور بند کمروں میں بھی، رہنمائی کرنے والے رخصت ہوتے گئے اور مس گائڈ کرنے والے مفاد پرست غالب آتے گئے، یہ اتنے غالب ہیں کہ دیانتدار (حقیقی) صحافیوں کی اکثریت ہونے  کے باوجود  بد دیانت، جانبدار، مالکی اور سرکاری، اندرونی  یرونی ا یجنڈے  والے چھائے ہوئے ہیں۔ عوام الناس بھی انہیں ہی صحافی مانتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان دنوں ہمارے صحافی کہلانے والے بھائی بھی صحافیوں سے زیادہ عوام الناس والی ہی گفتگو کرتے ہیں۔ تاریخ، تہذیب، قانون، سیاست سماج، دنیا، مذہب، عقائد، اپنے بارے میں علم  نہ تنظیموں اور اسلاف و اکابرین سے واقفیت صرف اور صرف پریس کلبوں  کے بارے میں جانتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ پریس کلب کا فوری ممبر بننا ہے، اگلے دن پلاٹ، فلیٹ لیناہے اور اس سے بھی پہلے سینئر لکھوانا اور کہلوانا ہے۔رہبری و رہنمائی اس قدر کوٹ کوت کر بھری ہے کہ دھڑا دحرا تنظیمی دھڑا کھرا کرتے ہین اور فیس بک یا ویٹس ایپ گروپ بنا کر پوری کمیونٹی کی نمائندگی فرض کرلیتے ہیں جبکہ اپنے ادارے میں تنخواہ  نہ ملنے پر لب کشائی سے بھی ڈرتے ہیں، سرکاری ملازمین، وزیروں مشیروں اور دکانداروں، فنکاروں  کے ساتھ سیلفی کے معرکے سر کرتے ہیں، تحریکی ذہن نہیں فریحی ذہن کا بھرپور استعمال کرتے ہیں  اور اس کے آسان راستے ڈھوندتے ہیں جس دوراں اگر کوئی فقرہ چست کردے تو صحافت کو توہین ہوجاتی ہے، مالکان کا قرب حاصل کرنا سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے  اور ہندرد پرسنٹ پرفیکٹ صحافی ہیں۔ یہ ہیں پیدائشی سینئر صحافیوں کے اوصاف ِخصوصہ۔۔۔   صحافی ایسے تو نہیں ہوا کرتے تھے نہ ہوتے ہیں اور نہ ہی خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں یعنی کبھی کوئی صحافی خود کو ہنڈرد پرسنٹ پرفیکٹ قرار نہیں دیتا۔۔  جب تک صحافی اپنا قبلہ خود درست نہیں کرتے،یہ اسی حالت میں ہی رہیں گے جیسی حالت میں ستر کی دہائی میں میرے ساتھی بچے نے یقین نہیں کیا تھا کہ ہندرڈ بھی کوئی ہندسہ ہوتا   ہے اور اس نے اپنی تسلی کیلئے ماسٹر جی سے تصدیق کی تھی، ایسے ہی ہم غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی غیر معیاری خبروں کو بھی خاص اہمیت دیتے رہیں گے اور ہندرڈ پرسنٹ تو کیا جو کچھ پرسنٹیج تھی اس سے بھی نیچے سے نیچے تک آتے جائیں گے اور  دکاندارمالکان یا’دوسرے‘  ہی ہنڈرد پرسنٹ رہیں گے۔
0 notes
mwhwajahat · 5 years
Link
0 notes
qaumiakhbar · 5 years
Photo
Tumblr media
Writing advocate on vehicles is illegal وکلاء کا گاڑیوں پر ایڈووکیٹ لکھوانا غیر قانونی قرار #Google, #Karachi, #Pakistan, #QaumiAkhbar, #Ticker, #UrduNewsInternational, #UrduNewspaper, #UrduNewspaperInPakistan, #VehiclesIsIllegal, #WritingAdvocate, #اردو, #اردونیوز, #پاکستان, #کراچی
0 notes
informationtv · 4 years
Photo
Tumblr media
کاروکاری اور تیزاب گردی میں اضافہ سندھ میں خواتین پر ہونے والے تشدد اور قتل و زخمی کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ نے معاشرے کے سنجیدہ اور حساس طبقے کو فکرمند کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ضلع شہید بے نظیر آباد میں بھی کاروکاری کے الزام پر معصوم اور گھریلو خواتین کے قتل کے واقعات تیزی سے جاری ہیں، جب کہ ان بے گناہ اور معصوم خواتین اور بچیوں کے قتل کے واقعات کی رپورٹ درج ہونے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کے بارے میں برادری ،قبائلی سسٹم کی مضبوطی اور جبر کا نظام ہے اور اس بارے میں سب سے بڑی رکاوٹ سندھ کا جرگہ سسٹم بھی ہے، جس میں ونی،کارو کے خاندان کی معصوم بچیوں کو بدلے میں جبری شادی کرانا، ڈنڈ چٹی میں لاکھوں کروڑوں روپیہ کی ادائیگی، بلکہ زمینیں تک لکھوانا شامل ہیں۔ 
0 notes
humlog786-blog · 6 years
Text
تقسیم ہند میں مولانا آزاد اور سردار پٹیل کے کر دار
Tumblr media
ہندوستانی عوام ساتھ ساتھ غیر ذمہ دار اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ بارہا اپنے قومی ہیرو، مجاہدین آزادی اور دیگر رہنماؤں کی توہین کرتے رہے ہیں جیسا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ساتھ ہوا کہ کبھی ان کی سمادھی کی توہین کی گئی تو کبھی بال ٹھاکرے جیسے سیاسی رہنماؤں نے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو سچا دیش بھگت قرار دے دیا۔ ایسا ہی رویہ قومی اتحاد اور سیکولر اقدار کے علمبردار، جدوجہد آزادی کے عظیم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں بھی اکثر و بیشتر ظاہر ہوتا رہا ہے ۔ تحریک آزادی کے دوران جو کچھ ہوا اس کو اگر نظریات کا ٹکراؤ یا شخصیتوں کا تصادم کہہ کر ٹال دیا جائے تو بعد میں مولانا آزاد صدی تقریبات کے وقت بھی یہ بات دیکھنے میں آئی کہ اس عظیم محب وطن رہنما کے بارے میں جس کے منہ میں جو آیا وہ کہتا رہا، یہ عمل اگر پاکستان میں ہوتا تو صبر کر لیا جاتا کہ اس ملک کا مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریہ کے برخلاف قیام عمل میں آیا ہے مگر وہاں تو مولانا کے بارے میں ایک گہری سمجھ پیدا ہوئی ہے ، ان پر مثبت اندازِ فکر کے ساتھ بہت کچھ کام کیا گیا ہے اور ایک بڑا طبقہ ان کی خدمات کو صحیح پس منظر دیکھنے اور سمجھنے لگا ہے جبکہ ہندوستان میں یہ ہو رہا ہے کہ کوئی بھی پراگندہ ذہن مولانا کے تعلق سے کچھ بھی کہہ دیتا ہے جیسا کہ کچھ سال پہلے ڈاکٹر پی این چوپڑا نے کیا۔ یہ وہی مورخ ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مولانا آزاد کی زندگی میں ان سے کافی قریب رہے ہیں اور انگریزی میں مولانا پر ایک کتاب بھی لکھی ہیں ، اس کتاب میں مولانا آزاد کو ایک گھٹیا انسان ثابت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’وہ غلط بیانی سے بہت کام لیتے تھے ‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ چوپڑا نے جس غلط بیانی کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے پس پشت مولانا کا جذبہ یہ تھا کہ کسی طرح ہندوستان کی وحدت برقرار رہے اس بڑے مقصد کے لئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کا تیار تھے یعنی ان کی دروغ گوئی اپنے نجی مفادات کے لئے نہیں بلکہ ایک نیک مقصد کے لئے تھی جیسا کہ ’کیبنٹ مشن‘ کے ساتھ مذاکرات کے وقت ہوا کہ مولانا آزاد نے ایک خفیہ خط وائسرائے کو لکھ دیا جس میں متحدہ ہندوستان کی آزادی پر اپنے منصوبہ کا خاکہ پیش کیا گیا تھا گاندھی جی کو کسی طرح اس خط کی اطلاع ہو گئی، انہوں نے یہ خط منگوا کر مولانا سے وضاحت طلب کی تو وہ صاف انکار کر گئے حالانکہ خط اس وقت بھی کچھ فاصلہ پر گاندھی جی کے سامنے رکھا تھا۔ اس خط کا حوالہ دوسروں نے بھی دیا ہے لیکن سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس خط کو تحریر کرنے سے ان کا جذبہ قطعی نیک تھا ایک دوسرے نام نہاد مورخ بلراج مدھوک اس سے بھی آگے کی کوڑی لائے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ’’مولانا ابوالکلام آزاد ہی پاکستان کے خالق ہیں وہ مسلمانوں کے نام آدھا ہندوستان لکھوانا چاہتے تھے ‘‘ حالانکہ اس حقیقت سے بلراج مدھوک کے سوا پوری دنیا واقف ہے کہ محمد علی جناح کے ساتھ پاکستان بنانے میں مولانا آزاد کا نہیں سردار پٹیل کا مساوی حصہ ہے ۔ جنہوں نے سب سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے فارمولے کو ’تقسیم کرو اور آزادی لو‘ کو قبول کیا، اس کے بعد جواہر لال نہرو اور دوسرے کانگریسیوں کے نام آتے ہیں جنہوں نے مل کر مہاتما گاندھی کو ہندوستان کی تقسیم کے لئے راضی کیا۔جسونت سنگھ نے اپنی تازہ کتاب میں اسی پہلو کو ابھارنے کی کوشش کی ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس مولانا آزاد کا آخر تک اصرار تھا کہ تقسیم کی شرط پر آزادی قبول کرنے میں جلدی نہ کرو کیونکہ انگریز اب زیادہ دن ہندوستان میں رہنے کی سکت نہیں رکھت�� ۔ جنگ عظیم میں ان کی حالت اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل ہندوستان سے رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ لیکن ان حقائق کو ایک خاص طرز فکر کے مورخوں اور متعصب سیاست دانوں نے قطعی فراموش کر دیا کیونکہ انہیں تو ہر مسلم رہنما کا قد چھوٹا کرنے کی فکر تھی تاکہ دنیا پر یہ ثابت ہو جائے کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا بلکہ سارا معرکہ اکثریت کے لیڈروں نے سرانجام دیا ہے جبکہ ��قیقت یہ ہے کہ جنگ آزادی میں مسلم رہنماؤں نے ہر اول دستہ کے طور پر کام کیا اور مولانا آزاد سرگرم سیاست میں اس وقت داخل ہوئے جب مہاتما گاندھی کو ہندوستان میں کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ رہی تقسیم ملک کی بات تو مولانا آزاد کے لئے یہ ایک شدید صدمہ کا درجہ رکھتی تھی حالانکہ ان کے کانگریسی ساتھیوں نے اس کو قبول کر لیا تھا، قریبی رفیق پنڈت جواہر لال نہرو اس کی حمایت پر آمادہ ہو گئے تھے لیکن مولانا آزاد کے لئے یہ ایک سانحہ تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں کیا ہے ۔ اس کتاب کے تیس صفحات پر جو مہر بند کر کے محفوظ کر دیئے گئے تھے کتاب کی اشاعت کے تیس برس بعد1988ءمیں جب جاری کئے گئے تو ان میں بھی جس بات کو مزید شدت اور صاف گوئی کے ساتھ بیان کیا گیا وہ تقسیم ہند کا المیہ تھا۔ مولانا آزاد نے خاص طور پر جس پہلو کو اجاگر کیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مادر وطن سے محبت کے دعویداروں نے بھارت ماتا کی ناقابل تقسیم میراث، جغرافیائی اور تہذیبی وحدت کے تمام بلند بانگ دعووں کے باوجود اقتدار کا مزہ ایک بار چکھ لینے کے بعد اسی اقتدار کا سکھ حاصل کرنے کی خاطر ملک کے بٹوارہ کو شیر مادر سمجھ کر حلق سے نیچے اتار لیا حالانکہ یہ دودھ نہیں وہ زہر تھا جس نے لاکھوں انسانوں اور کئی نسلوں کی زندگی میں ایسا زہر بھر دیا کہ اس کی کسک بلکہ ہلاکت آج تک محسوس کی جا رہی ہے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے تو یہ اتنا سنگین المیہ ہے جس کی کوئی مثال ان کی تاریخ و تہذیب میں نہیں ملتی۔ ایک ایسا شخص جس نے ’متحدہ قومیت‘ کی وکالت کی خاطر اس کے لئے لڑائی میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا اس کے لئے تقسیم کا یہ سانحہ فطری طور پر دل و دماغ کو ہلا دینے والا ایک ایسا حادثہ تھا جو کانگریس ہائی کمان کے دوسرے ارکان پر نہیں گزرا اس کے بجائے ان لوگوں نے مسلمانوں کی قدیم سیاسی صف آرائی اور مسلم لیگ کی مزاحمت سے نجات پا کر ہندوستان میں بلا شرکت غیر ملکیت پر اطمینان کا ہی اظہار کیا اور 1947ئ کے بعد تو وہ اپنے خوابوں کے مطابق ہندوستان کی تعمیر میں لگ گئے تاکہ ایک ہزار برس کی تاریخ میں پہلی بار انہیں حکمرانی کاجو موقع ملا ہے اس کو کام میں لاقر ملک کو طاقتور اور قوم کو حوصلہ مند بناسکیں کیونکہ غلامی کے تاریک دور کا تصور ان کے ذہن میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک ہزار برس کی مدت کا تھا۔ کانگریس کی قیادت میں ایک بڑا حلقہ اسی لئے ہندو احیاءپرستی سے بھی ہمدردی محسوس کرتا اور کبھی کبھی ان کی زبان بھی بولنے لگتا تھا، اس کا فطری نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مولانا آزاد کو خود کے اور عام مسلمانوں کے بارے میں بے یار و مددگار ہونے کا احساس ہونے لگا۔ وہ یہ تماشہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ جس ہندوستان میں تحریک خلافت کے دور تک سیاست پر مسلمان حاوی تھے وہ آج بے حقیقت ہو چکے ہیں ۔ اتنے بے حقیقت کہ ہندوستان کی قومی زندگی میں ان کی ناگوار موجودگی کا احساس مسلمانوں کے لئے مزید مسائل و دشواریاں پیدا کر رہا ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو حقارت سے نظر انداز کرنے کا یہ رویہ ان کے خلاف نفرت اور تعصب سے زیادہ خطرناک او ر ان تمام سیکولر مسلم رہنماؤں کی توہین تھی جنہوں نے آندھی و طوفان میں بھی اپنے پائے استقامت میں لغزش نہ آنے دی۔ مولانا آزاد کو تقسیم ہند کے المیہ کے بے لاگ تجزیہ کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ ان کے خیال میں ہندوستانی مسلمان تو اپنے سیاسی ماضی کی قیمت چار و ناچار ادا کر رہے تھے لیکن تقسیم کو قبول کرنے کی مساوی ذمہ داروں کو اپنی غلطی و مجرمانہ کوتاہی کا احساس و خیال نہ تھا۔ مولانا آزاد کی حق گوئی کا پس منظر یہی ہے جس میں انہوں نے نہایت سرد لہجہ اور استدلال کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سامنے یہ حقیقت واضح کی کہ تقسیم کے المیہ کے تنہا مسلمان ہی ذمہ دار نہیں اور اس کے نتیجہ میں جو خون ریزی ، تعصب اور تصادم کا ماحول پیدا ہوا وہ فکر و نظر کی کن خامیوں کا نتیجہ تھا اور کانگریس کے صف اول کی قیادت چاہتی تو اس سے بچ سکتی تھی۔ مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی مناسب نہ ہو گا کہ تقسیم کے المیہ کی ذمہ داری صرف کانگریسی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ تقسیم ملک میں مسلم لیگ، کانگریس اور انگریز حکومت نے اپنا اپنا کر دار ادا کیا ہے اور ان کی مشترکہ غلطیوں یا چالبازیوں کی بھاری قیمت برصغیر کے کروڑوں معصوم انسانوں کو چکانی پڑی ہے ۔ اس کو تاریخ ساز لوگوں کی انسانی غلطی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ غلطی کا سرزد ہونا بشری تقاضا ہے جس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ تاریخ بے رحم ہوتی ہے اور انسانی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی۔ ہماری جنگِ آزادی کے سورماﺅں نے جہاں اپنی زندگیاں داﺅ پر لگادیں وہیں ان سے بعض اہم غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں ۔ خود پنڈت نہرو نے بعد میں تسلیم کیا کہ برصغیر کے فرقہ وارانہ امن کی خاطر ہم نے تقسیم منظور کی تھی مگر بعد کے واقعات نے اسے غلط ثابت کر دیا۔ عارف عزیز ٭٭٭ Read the full article
0 notes
my-urdu-soul · 8 years
Text
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا میرزا یاس یگانہ عظیم آبادی -
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
بُرا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا کبھی گمراہ ہو کرراہ پر آنا نہیں آتا
مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے بہانہ کر کے تنہا پار اُتر جانا نہیں آتا
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
اسیرو، شوقِ آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا
دلِ بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں وہ آنسو کیا پئے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا
سراپا راز ہوں، میں کیا بتاؤں کون ہوں، کیا ہوں سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا
میرزا یاس یگانہ عظیم آبادی
5 notes · View notes
mypakistan · 11 years
Text
آئی ایم’’مظلوم‘‘ ملالہ
  ارشاد احمد عارف
 ایک سال قبل نو عمر ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو پوری قوم کو صدمہ پہنچا۔ ہر ایک نے تین معصوم بچیوں پر گولیاں چلانے والوں کی مذمت کی۔ اس ذہین، دلیر اور اپنے ارادوں میں ثابت قدم بچی کے لئے ہر گھر میں دعائیں مانگی گئیں اور صحتیابی کی اطلاع پر ہر صاحب اولاد نے سکون کا سانس لیا مگر امریکہ و مغرب نے جس طرح اس بچی کی پذیرائی کی یہ اچھنبے کی بات تھی تاہم’’آئی ایم ملالہ‘‘ کے نام سے کتاب منظر پر آئی تو ایک پاکستانی بچی کی عالمگیر پذیرائی اور ملکہ برطانیہ سے لے کر باراک اوباما تک ملاقاتوں کا مقصد عیاں ہو گیا۔ قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔
مجھے ملالہ سے پہلے بھی ہمدردی تھی، اب بھی ہمدردی ہے پہلے اس کی معصومیت اور مظلومیت نے مجھے متاثر کیا اب عالمی فتنہ گردی نے اس کی آڑ میں جو کھیل کھیلنے کی کوشش کی اور ایک نوعمر بچی کا ذہنی استحصال کیا میں اس پر مغموم ہوں، زیادہ افسوس باپ پر ہے جس نے اپنی اولاد کو شہرت، دولت اور عزت کے حصول کا ذریعہ بنایا اور سنگدلی کی انتہاء کر دی۔
’’آئی ایم ملالہ‘‘سٹوری تو ملالہ کی ہے مگر لکھی برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب نے ہے، یہ وہی محترمہ ہیں جسے پاکستان سے اس بناء پر نکالا گیا کہ اوبی لادن کے نام سے جعلی ٹکٹ کٹوا کر پی آئی اے پر سفر کرنا چاہتی تھیں تاکہ پوری دنیا کو یہ بتا سکیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں مقیم اور آزادانہ سفر کرتے ہیں۔ ملالہ، اس کے فنکار والد اور دیگر سرپرستوں نے کتاب اس صحافی خاتون سے لکھوانا کیوں پسند کی؟ یہ کوئی سربستہ راز نہیں، ایسی کتاب صرف کرسٹینا لیمب ہی لکھ سکتی تھی جس میں ملالہ کے والد پاکستان کا جشن آزادی ’’بازوئوں پر سیاہ ماتمی پٹیاں باندھ کر مناتے نظر آتے ہیں، پاک فوج اور آئی ایس آئی طالبان کی ہمدرد اور مددگار فورس ثابت کی گئی، جنرل پرویز مشرف کی تعریف و توصیف اور ملائوں پر جا بجا تنقید میں توازن نظر نہیں آتا اور پاکستان کو ایک ایسی ریاست نے طور پر پیش کیا گیا ہے جہاں عورت سانس لے سکتی ہے نہ گھر سے باہر نکل کر تعلیم، ملازمت اور کاروبار کے قابل۔
مگر مجھے ذاتی طور پر بہت سی باتوں سے اختلاف کے باوجود کتاب کے ان حصوں پر کوئی اعتراض نہیں جو اس حقائق کو توڑ، مروڑ اور ایک مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھایا گیا، پاکستان میں یہ کام ا ور بہت سے افراد اور ادارے تندہی سے کر رہے ہیں اس میں ایک اضافہ یہ بھی سہی۔ ہاتم گستاخ رسولؐ سلمان رشدی اور اس کی دلازار کتاب سیٹانک ورسز کو قابل قبول بنانے، اسے آزادی اظہار رائے کے نام پر ہضم کرنے اور اس کی مخالفت کرنے والے عاشقان رسول اکرمﷺ کو ملا اور ان کے پیروکار قرار دنیے کا معاملہ قابل برداشت ہے نہ نظرانداز کرنے کی چیز۔ یہ عقیدے، ایمان اور بخشش و شفاعت کا معاملہ ہے جسے محض اس بنا پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک پندرہ سولہ سالہ معصوم بچی کے جذبات ہیں۔
سلمان رشدی کی کتاب ملالہ کی پیدائش سے کوئی دس سال قبل منظر عام پر آئی اس لئے کتاب میں لکھی گئی باتیں کرسٹینا لیمب کی اختراع ہیں، ملالہ کے فنکار والد کے جذبات کا اظہار ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس کتاب کے خلاف احتجاج صرف پاکستان اور ایران میں نہیں ساری عرب دنیا، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، جرمنی اور سیکنڈے نیویا میں ہوا۔ امام خمینی کے فتویٰ کی تائید حمایت سازی دنیا کے مسلم سکارلز نے کی اور معتدل مزاج مغربی مصنفین نے اس کتاب کو تھرڈ کلاس کہا۔ پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کی قیادت نوابزادہ نصر اللہ خان نے کی جو بابائے جمہوریت اور حکمران پیپلز پارٹی کے حلیف تھے۔
سلسلہ مضامین مولانا کوثر نیازی نے شروع کیا جو ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست رہے اور بینظیر بھٹو کے دور حکمرانی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین۔ ملا چونکہ مغرب کے گلے کی پھانس ا ور اسلام کا نام لیوا ہے اس لئے کتاب کی پذیرائی کے لئے اس کا تحقیر آمیز ذکر لازم تھا اور مسلمانوں کا جذبہ عشق رسولؐ تمام اسلام دشمن مذہب بیزار عناصر کے لئے سوہان روح اس لئے اپنے آقا و مولا ؐ کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لئے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے والے شیدائیوں کو ملائوں کا پیروکار قرار دینا ازبس ضروری۔ ٹیری جونز، نکولاہیسلے، سلمان رشدی، تسلیم نسرین سمیت جو بھی اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی کرے یا سلمان رشدی جیسوں کی آزادی اظہار کا حق کا دفاع کرے وہ امریکہ و یورپ کا ہیرو ہے اور اسے ملکہ برطانیہ سے لے کر اوباما تک سب گلے سے لگاتے آگے آگے بچھے جاتے ہیں اس لئے آئی ایم ملالہ کے مصنفین نے بھی یہ تکنیک مہارت سے استعمال کی۔ ملالہ ایک سطر ہولوکاسٹ کے خلاف لکھی دیتی تو اسے مغرب کے نظر یہ آزادی اظہار کی حقیقت معلوم ہوجاتی مگر پھر ملالہ کو نوبل انعام کے لئے نامزد کون کرتا؟ ملالہ بچی ہے مگر اتنی بھولی نہیں اس لئے اس نے سارا زورِبیان طالبان، پاکستان، پاک فوج، ملّائوں اور عام مسلمانوں کے خلاف صرف کیا جو حضورﷺ کی گستاخی برداشت نہیں کرتے۔ تنگ نظر کہیں کے۔
مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ ایک پندر سالہ معصوم بچی کو شہرت کے جال میں پھنسا کر اس ایجنڈے کی تکمیل کی جا رہی ہے جو مسلمانوں کو اجڈ، گنوار، وحشی، اسلام کو پسماندگی کا علمبردار مذہب اور حرمت و ناموس رسولؐ کے منافی دلآزار تحریروں و آزادیٔ اظہار کا حق قرار دے کر امریکہ و یورپ کی ذہنی، سماجی، سیاسی و عسکری بالادستی منوانے کےلئے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ’’نیو ورلڈآرڈر‘‘ کے نام پر وضع کیا گیا اور 9/11 کے بعد زور شور سے پایہ تکمیل کو پہنچایا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے دارالحکومتوں میں کارپٹ استقبال، مقامی و عالمی میڈیا پر مدح سرائی، نوبل، سخاروف اور دیگر ایوارڈ اور پاکستان جیسے ممالک میں وزیراعظم بننے کاجھانسہ، انسان کے پھسلنے میں کتنی دیرلگی ہے ملالہ تو بچی ہے۔
ایک طرف ہالینڈ کا آرنوڈ وین ڈرو ہے جس نےفلم ’’فتنہ‘‘بنائی مگر حضور اکرمﷺ سے مسلمانوں کی والہانہ محبت، دلآزار فلم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دیکھ کر موم ہو گیا اور ا ب حجاز ِمقدس میں بیٹھا اپنے رب اورمحبوب ِ خداﷺ سے معافی مانگ رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی دولت سے نوازا اور دنیا و آخرت سنوار دی۔ دوسری طرف ملالہ، اس کے والد اور کرسٹینالیمب ہیں جو سلمان رشدی کے گستاخانہ انداز ِفکر کو آزادی ٔ اظہار رائے کی آڑ میں جائز قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں ورنہ ’’آئی ایم ملالہ ‘‘میں اس واہیات کتاب، جنونی مصنف اور بکواس اظہار رائے کا ذکر ضروری نہ تھا۔ اس کا ملالہ کی زندگی، جدوجہد اور خدمات سے کیا تعلق؟ شاید نوبل انعام کمیٹی کے ارکان نے یہ کتاب نہیں پڑھی اور سلمان رشدی کے حقوق، مسلمانوں کے جذباتی پن اور ملّائوں کی تقلید والے حصے پر غور نہیں کیا ورنہ انعام دینے سے گریز نہ کرتے۔ مغرب کی دیرینہ روایت تو یہی ہے۔ خدا اس معصوم بچی کو اپنے دوستوں کے شر اور دشمنوں کے حسد سے محفوظ رکھے۔ خاص طور پر والدگرامی جو ذہین بیٹی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے ہوشیاری سےاستعمال کر رہے۔ محمد نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان اور بہت سارے دوسرے نوبل انعام نہ ملنے پر مغموم ہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ "جنگ"
0 notes
mwhwajahat · 5 years
Photo
Tumblr media
وکلاءکا اپنی گاڑیوں اور موٹر سا ئیکلوں پر ایڈووکیٹ لکھوانا غیر قانونی قرار اسلام آباد؛پاکستان بار کونسل نے ملک بھر کے وکلاء کو اپنی گاڑیوں اور موٹر سا ئیکلوں کی نمبر پلیٹوں پرلفظ ایڈوکیٹ لکھوانے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں قواعد وضوابط کے تحت موٹر وہیکل اتھارٹی کی منظور شدہ نمبر پلیٹں ہی نصب کرنے کی ہدایت کی ہے ، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ کی جانب سے جاری کئے گئے سرکلر کے مطابق پی بی سی کے نوٹس میں آیا ہے کہ بعض وکلاء اپنی وہیکل پر اس کے نمبر کےعلاوہ لفظ ایڈوکیٹ ، ایڈوکیٹ ہائی کورٹ ،ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ، یا بار ایسوی ایشن کے مونو گرام کیساتھ ممبر فلاں بار کونسل لکھوا دیتے ہیں ،سرکلر کے مطابق یہ اقدام موٹر وہیکل آرڈیننس 1965کی پرویژن اور پاکستان بار کونسل کے قواعد کی سنگین خلاف ورزی ہے ،انہوںنے تمام وکلاء کو اس طرح کی نمبرپلیٹیںاستعمال نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ خلاف ورزی کے مرتکب وکلاء کے خلاف ڈپلنری ایکشن سمیت قواعد کے مطابق ہر قسم کی تادیبی کارروائی کی جائیگی ۔
0 notes
risingpakistan · 11 years
Text
آئی ایم’’مظلوم‘‘ ملالہ
  ارشاد احمد عارف
 ایک سال قبل نو عمر ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو پوری قوم کو صدمہ پہنچا۔ ہر ایک نے تین معصوم بچیوں پر گولیاں چلانے والوں کی مذمت کی۔ اس ذہین، دلیر اور اپنے ارادوں میں ثابت قدم بچی کے لئے ہر گھر میں دعائیں مانگی گئیں اور صحتیابی کی اطلاع پر ہر صاحب اولاد نے سکون کا سانس لیا مگر امریکہ و مغرب نے جس طرح اس بچی کی پذیرائی کی یہ اچھنبے کی بات تھی تاہم’’آئی ایم ملالہ‘‘ کے نام سے کتاب منظر پر آئی تو ایک پاکستانی بچی کی عالمگیر پذیرائی اور ملکہ برطانیہ سے لے کر باراک اوباما تک ملاقاتوں کا مقصد عیاں ہو گیا۔ قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔
مجھے ملالہ سے پہلے بھی ہمدردی تھی، اب بھی ہمدردی ہے پہلے اس کی معصومیت اور مظلومیت نے مجھے متاثر کیا اب عالمی فتنہ گردی نے اس کی آڑ میں جو کھیل کھیلنے کی کوشش کی اور ایک نوعمر بچی کا ذہنی استحصال کیا میں اس پر مغموم ہوں، زیادہ افسوس باپ پر ہے جس نے اپنی اولاد کو شہرت، دولت اور عزت کے حصول کا ذریعہ بنایا اور سنگدلی کی انتہاء کر دی۔
’’آئی ایم ملالہ‘‘سٹوری تو ملالہ کی ہے مگر لکھی برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب نے ہے، یہ وہی محترمہ ہیں جسے پاکستان سے اس بناء پر نکالا گیا کہ اوبی لادن کے نام سے جعلی ٹکٹ کٹوا کر پی آئی اے پر سفر کرنا چاہتی تھیں تاکہ پوری دنیا کو یہ بتا سکیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں مقیم اور آزادانہ سفر کرتے ہیں۔ ملالہ، اس کے فنکار والد اور دیگر سرپرستوں نے کتاب اس صحافی خاتون سے لکھوانا کیوں پسند کی؟ یہ کوئی سربستہ راز نہیں، ایسی کتاب صرف کرسٹینا لیمب ہی لکھ سکتی تھی جس میں ملالہ کے والد پاکستان کا جشن آزادی ’’بازوئوں پر سیاہ ماتمی پٹیاں باندھ کر مناتے نظر آتے ہیں، پاک فوج اور آئی ایس آئی طالبان کی ہمدرد اور مددگار فورس ثابت کی گئی، جنرل پرویز مشرف کی تعریف و توصیف اور ملائوں پر جا بجا تنقید میں توازن نظر نہیں آتا اور پاکستان کو ایک ایسی ریاست نے طور پر پیش کیا گیا ہے جہاں عورت سانس لے سکتی ہے نہ گھر سے باہر نکل کر تعلیم، ملازمت اور کاروبار کے قابل۔
مگر مجھے ذاتی طور پر بہت سی باتوں سے اختلاف کے باوجود کتاب کے ان حصوں پر کوئی اعتراض نہیں جو اس حقائق کو توڑ، مروڑ اور ایک مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھایا گیا، پاکستان میں یہ کام ا ور بہت سے افراد اور ادارے تندہی سے کر رہے ہیں اس میں ایک اضافہ یہ بھی سہی۔ ہاتم گستاخ رسولؐ سلمان رشدی اور اس کی دلازار کتاب سیٹانک ورسز کو قابل قبول بنانے، اسے آزادی اظہار رائے کے نام پر ہضم کرنے اور اس کی مخالفت کرنے والے عاشقان رسول اکرمﷺ کو ملا اور ان کے پیروکار قرار دنیے کا معاملہ قابل برداشت ہے نہ نظرانداز کرنے کی چیز۔ یہ عقیدے، ایمان اور بخشش و شفاعت کا معاملہ ہے جسے محض اس بنا پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک پندرہ سولہ سالہ معصوم بچی کے جذبات ہیں۔
سلمان رشدی کی کتاب ملالہ کی پیدائش سے کوئی دس سال قبل منظر عام پر آئی اس لئے کتاب میں لکھی گئی باتیں کرسٹینا لیمب کی اختراع ہیں، ملالہ کے فنکار والد کے جذبات کا اظہار ورنہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس کتاب کے خلاف احتجاج صرف پاکستان اور ایران میں نہیں ساری عرب دنیا، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، جرمنی اور سیکنڈے نیویا میں ہوا۔ امام خمینی کے فتویٰ کی تائید حمایت سازی دنیا کے مسلم سکارلز نے کی اور معتدل مزاج مغربی مصنفین نے اس کتاب کو تھرڈ کلاس کہا۔ پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کی قیادت نوابزادہ نصر اللہ خان نے کی جو بابائے جمہوریت اور حکمران پیپلز پارٹی کے حلیف تھے۔
سلسلہ مضامین مولانا کوثر نیازی نے شروع کیا جو ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست رہے اور بینظیر بھٹو کے دور حکمرانی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین۔ ملا چونکہ مغرب کے گلے کی پھانس ا ور اسلام کا نام لیوا ہے اس لئے کتاب کی پذیرائی کے لئے اس کا تحقیر آمیز ذکر لازم تھا اور مسلمانوں کا جذبہ عشق رسولؐ تمام اسلام دشمن مذہب بیزار عناصر کے لئے سوہان روح اس لئے اپنے آقا و مولا ؐ کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لئے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے والے شیدائیوں کو ملائوں کا پیروکار قرار دینا ازبس ضروری۔ ٹیری جونز، نکولاہیسلے، سلمان رشدی، تسلیم نسرین سمیت جو بھی اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی کرے یا سلمان رشدی جیسوں کی آزادی اظہار کا حق کا دفاع کرے وہ امریکہ و یورپ کا ہیرو ہے اور اسے ملکہ برطانیہ سے لے کر اوباما تک سب گلے سے لگاتے آگے آگے بچھے جاتے ہیں اس لئے آئی ایم ملالہ کے مصنفین نے بھی یہ تکنیک مہارت سے استعمال کی۔ ملالہ ایک سطر ہولوکاسٹ کے خلاف لکھی دیتی تو اسے مغرب کے نظر یہ آزادی اظہار کی حقیقت معلوم ہوجاتی مگر پھر ملالہ کو نوبل انعام کے لئے نامزد کون کرتا؟ ملالہ بچی ہے مگر اتنی بھولی نہیں اس لئے اس نے سارا زورِبیان طالبان، پاکستان، پاک فوج، ملّائوں اور عام مسلمانوں کے خلاف صرف کیا جو حضورﷺ کی گستاخی برداشت نہیں کرتے۔ تنگ نظر کہیں کے۔
مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ ایک پندر سالہ معصوم بچی کو شہرت کے جال میں پھنسا کر اس ایجنڈے کی تکمیل کی جا رہی ہے جو مسلمانوں کو اجڈ، گنوار، وحشی، اسلام کو پسماندگی کا علمبردار مذہب اور حرمت و ناموس رسولؐ کے منافی دلآزار تحریروں و آزادیٔ اظہار کا حق قرار دے کر امریکہ و یورپ کی ذہنی، سماجی، سیاسی و عسکری بالادستی منوانے کےلئے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ’’نیو ورلڈآرڈر‘‘ کے نام پر وضع کیا گیا اور 9/11 کے بعد زور شور سے پایہ تکمیل کو پہنچایا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے دارالحکومتوں میں کارپٹ استقبال، مقامی و عالمی میڈیا پر مدح سرائی، نوبل، سخاروف اور دیگر ایوارڈ اور پاکستان جیسے ممالک میں وزیراعظم بننے کاجھانسہ، انسان کے پھسلنے میں کتنی دیرلگی ہے ملالہ تو بچی ہے۔
ایک طرف ہالینڈ کا آرنوڈ وین ڈرو ہے جس نےفلم ’’فتنہ‘‘بنائی مگر حضور اکرمﷺ سے مسلمانوں کی والہانہ محبت، دلآزار فلم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دیکھ کر موم ہو گیا اور ا ب حجاز ِمقدس میں بیٹھا اپنے رب اورمحبوب ِ خداﷺ سے معافی مانگ رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی دولت سے نوازا اور دنیا و آخرت سنوار دی۔ دوسری طرف ملالہ، اس کے والد اور کرسٹینالیمب ہیں جو سلمان رشدی کے گستاخانہ انداز ِفکر کو آزادی ٔ اظہار رائے کی آڑ میں جائز قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں ورنہ ’’آئی ایم ملالہ ‘‘میں اس واہیات کتاب، جنونی مصنف اور بکواس اظہار رائے کا ذکر ضروری نہ تھا۔ اس کا ملالہ کی زندگی، جدوجہد اور خدمات سے کیا تعلق؟ شاید نوبل انعام کمیٹی کے ارکان نے یہ کتاب نہیں پڑھی اور سلمان رشدی کے حقوق، مسلمانوں کے جذباتی پن اور ملّائوں کی تقلید والے حصے پر غور نہیں کیا ورنہ انعام دینے سے گریز نہ کرتے۔ مغرب کی دیرینہ روایت تو یہی ہے۔ خدا اس معصوم بچی کو اپنے دوستوں کے شر اور دشمنوں کے حسد سے محفوظ رکھے۔ خاص طور پر والدگرامی جو ذہین بیٹی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے ہوشیاری سےاستعمال کر رہے۔ محمد نواز ��ریف، آصف علی زرداری، عمران خان اور بہت سارے دوسرے نوبل انعام نہ ملنے پر مغموم ہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ "جنگ"
0 notes