#اعتبا��
Explore tagged Tumblr posts
Video
جو مر د یہ کا م کرتے ہیں وہ خو ا تیں کے لئیے جنسی اعتبا ر سے زیا دہ کشش ...
0 notes
Text
لڑکھڑاتی پاکستان فلم انڈسٹری قدموں پر کیسے کھڑی ہو گی…؟ - اردو نیوز پیڈیا
لڑکھڑاتی پاکستان فلم انڈسٹری قدموں پر کیسے کھڑی ہو گی…؟ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین حسیب احسن پیشے کے اعتبا ر سے تو کاروباری ہیں لیکن فلم دیکھنے کے بے حد شوقین ہیں، جب بھی موقع ملتا ہے تو اپنے دوستوں کے ہمراہ سینما گھر ضرور جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے پاکستان میں فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہے، رہی سہی کسر دنیا بھر میں جاری کوویڈ19 نے پوری کر دی ہے، شوٹنگ بند پڑی ہیں اور پہلے سے تیار2درجن سے زائد فلمیں بھی تاحال سینما گھروں کی زینت نہیں بن سکیں۔ اس صورت حال کی…
View On WordPress
0 notes
Photo
افضل زيت يكثف الشعر مضمون.. تعرف على أفضل الزيوت الطبيعية لتطويل الشعر تعتبر مشكلة تساقط الشعر من المشاكل التي يعاني منها عدد كبير من الرجال والنساء. ومن أجل ذلك اخترنا أن نخصص هذا المقال لنتحدث عن افضل زيت يكثف الشعر مضمون وللمساعدة على علاج تساقط الشعر وتقويته من الجذور حتى الأطراف. افضل زيت يكثف الشعر مضمون اعتبا... أكمل قراءة المقال على موسوعة كوم على الرابط التالي https://mawso3h.com/best-hair-thickening-oil-guaranteed/
0 notes
Text
امریکہ اور بھارت کے ما بین ہونے والے ملٹری لاجسٹک معا ہدے
چند روز قبل امریکہ اور بھارت کے ما بین ہونے والے ملٹری لاجسٹک معا ہدے کو کئی اعتبا ر سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل معا ہدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ خود امریکی اور بھارتی میڈیا کے مطابق۔ Logistics Exchange Memorandum of Agreement (LEMOA) ۔ کے نام سے کئے جانے والے اس معا ہدے کے اثرات چین، روس، پاکستان سمیت مشرق بعید تک ہوں گے۔ اس معاہدے کے مطابق اب بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کے فوجی اڈوں کو بھر پور طریقے سے استعما ل کر پا ئیں گے۔ بھارتی وزیر دفاع م��وہر پاریکر کے اس دورے کے دوران امریکہ کی جانب سے بھارت کو جیٹ انجن ٹیکنالوجی اور ڈرون طیارے فراہم کرنے کے حوالے سے بھی با ت چیت کی گئی۔ LEMOA معاہدے کو 29 اگست کو عملی شکل دی گئی، مگر اس معا ہدے کے متن کو بھارتی وزیر اعظم مودی کے جون کے دورۂ امریکہ کے دوران ہی طے کر لیا گیا تھا ۔
اس معا ہدے پر امریکہ کے اہم جریدے’’ Forbes magazine‘‘ میں بہت اہم آرٹیکل۔ "China and Pakistan beware - this week, India and US sign major war pact," ۔ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس آرٹیکل کے مطابق اس معا ہدے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکا جا سکے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی خارجہ پا لیسی اور عسکری امور کے کئی ما ہرین نے حکومت کو اس نوعیت کے معا ہدے سے روکنے کے لئے اس دلیل کا سہا را لیا کہ اس نوعیت کے معاہدے سے بھارت کا پرانا حلیف روس بھی بھارت سے خوش نہیں ہوگا،مگر مودی حکومت کسی بھی صورت میں امریکی قربت سے دوری اختیار نہیں کر سکتی ۔ اب امریکہ، روس کے مقابلے میں بھارت کو زیا دہ اسلحہ دے رہاہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے بھارت نہ صرف امریکہ، بلکہ اس کے اتحادی ممالک جیسے جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھی لاجسٹک معا ہدے کر رہاہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں امریکہ ، جاپان اور بھارت کے ما بین سہ فریقی ڈائیلاگ کا آغاز ہوا اور اس سال موسم گرما میں ان تینوں ممالک نے بحیرۂجنوبی چین کے متنا زعہ پا نیوں میں بحری مشقیں بھی کیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس وقت امریکہ جس ملک کے ساتھ سب سے زیا دہ فوجی مشقوں میں حصہ لے رہا ہے، وہ بھا رت ہی ہے ۔ اسی آرٹیکل میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس نوعیت کے معا ہدے ، بھارت کو جیٹ انجن اور ڈرون بنانے کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے پاکستان کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگا۔ پا کستان کا دفتر خارجہ بھی اس معا ہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا اس معا ہدے کو بھارتی عوام اور دنیا کے سامنے اس تا ثر کے ساتھ پیش کر رہے ہیں کہ اگر ایک طرف بھارت نے امریکہ کو اپنے فوجی اڈے استعما ل کرنے کی اجازت دی ہے تو دوسری طرف امریکہ نے بھارت کو بھی اپنے اڈے استعما ل کرنے کی اجازت دی ہے، مگر یہاں پر اس حقیقت کو مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا رہا ہے کہ امریکہ جیسی ایک عالمی سپر پا ور کے مقابلے میں بھارت کو اپنے مقاصد کے لئے دنیا بھر میں پھیلے کتنے امریکی اڈوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں کی طرح اس(LEMOA) معا ہدے میں جس فریق کا پلڑا بھا ری رہے گا وہ امریکہ ہی ہو گا ۔
اس معا ہدے کے ساتھ ہی امریکی بحر الکاہل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل ہیری بی ہیرس کی جانب سے یہ بیا ن بھی سامنے آ گیا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ امریکہ مستقبل قریب میں بحرالکاہل،بحرہند اور بحیرۂ جنوبی چین میں بھارت کے ساتھ مشترکہ بحری گشت کرے۔ اس بات کو اگر سادہ انداز میں کیا جا ئے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ جیسا ایک بڑا چودھری اپنے تابع دار تھانہ دار یعنی بھارت کے ساتھ مل کر ان علاقوں میں اپنے اثر ورسوخ کی نگرانی کرے گا۔ مودی حکومت جنوری2015ء سے ہی بحرجنوبی ہند جیسے انتہا ئی اہم ایشو پر بھی مکمل طور پر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔امریکہ کے ساتھ LEMOA معا ہد ہ کرکے بھارت نے امریکی سامراجی کیمپ کی جانب ایک اور بڑا اہم قدم بڑھا دیا ہے،بلکہ اب بھارت، چین کے خلاف ایک طرح سے امریکہ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کی جانب گامزن ہو چکا ہے۔
بھارت کی آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ کسی اہم عسکری قوت کی افواج بھارتی اڈوں کو استعما ل کر سکیں گی۔ امریکہ نے اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی بھارت کو اپنے حربی مقاصد کے لئے استعما ل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ بش انتظامیہ نے2005 میں بھارت کے ساتھ عالمی اسٹرٹیجک پاٹنر شپ قائم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی بھا رت کوLEMOA کی طرح کے معا ہدوں کی پیش کش کی تھی، کیونکہ سر د جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی سامراج کو نئے تقاضوں کے مطابق بھا رت کی اہمیت اس لئے زیا دہ محسوس ہو ئی، کیو نکہ بھارت ، جنوبی ایشیا، مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ساتھ ساتھ بحر ہند جیسے انتہا ئی اہم سمندری راستے تک بھی رسائی رکھتا ہے۔ اس وقت کی کانگرسی حکومت نے امریکہ کے ساتھ عسکری اور حربی شعبوں میں تعاون کو بہت زیا دہ فروغ دیا، مگر کا نگرس نے LEMOA معا ہدہ اس خطرے کے پیش نظر نہیں کیا کہ اس سے بھا رت کی اسٹرٹیجک خود مختاری متا ثر ہو گی ۔
اب بھارت عملی طور پر امریکہ کا دست نگربن جائے گا اور روس جیسے اہم حلیف سے بھی تعلقات متا ثر ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کانگرس اور با ئیں بازو کی جماعتیں LEMOA معا ہدے پر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ کانگرس کے موقف کے مطابق مودی سرکا رنے یہ معا ہدہ کرکے عملی طور پر بھا رت کی غیر جانبداری پر مبنی پا لیسی کو سرے سے ختم کرکے بھارت کو امریکی کیمپ میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی حکمران طبقات نے آزادی کے بعد کئی عشروں تک اس با ت پر فخر کیا کہ بھارت نے عالمی طور پر کسی ایک کیمپ کا حصہ بننے کی بجائے غیر جانبداری پر مبنی پالیسی اپنا ئی۔ پہلے بھا رتی وزیر اعظم جواہر لعل نہروکو غیر وابستہ تحریک (NAM) کا بانی تسلیم کیا جا تا ہے۔17 سال بھارت کا وزیر اعظم رہتے ہوئے نہرو بڑی حد تک اس پالیسی پر گامزن بھی رہے۔
نہرو کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی ایک حد تک اسی پالیسی پر عمل کیا، مگر اب گز شتہ دو عشروں سے بھا رت ، امریکہ نواز پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ سرد جنگ اور اس کے بعد جتنے ممالک نے بھی امریکہ نواز پالیسیوں کو اختیار کیا انہیں کہیں نہ کہیں ان پالیسیو ں کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ خود آج پاکستان دہشت گردی سمیت بہت سے ایسے مسائل سے اس لئے دوچار ہے کہ پاکستانی حکمران طبقات نے شروع سے ہی آنکھیں بند کر کے امریکہ نواز
پالیسیوں کو اختیار کیا۔ بھارت کو یہ زعم ہے کہ وہ بڑا ملک ہے اس لئے امریکہ کے ساتھ دفاعی اور عسکری معا ہدوں کے باوجود اسے نقصان نہیں ہوگا، مگر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چا ہیے کہ صرف امریکہ کی خوشنودی کی خاطر چین اور روس جیسی اہم طاقتوں کو ناراض کرنا کسی بھی صورت سود مند نہیں ہوگا۔
عمر جاوید
#World#Pakistan and US Relations#Pakistan#Narendra Modi#India and US relations#India#Barack Obama#Asad ullah Ghalib
0 notes
Text
امریکہ اور بھارت کے ما بین ہونے والے ملٹری لاجسٹک معا ہدے
چند روز قبل امریکہ اور بھارت کے ما بین ہونے والے ملٹری لاجسٹک معا ہدے کو کئی اعتبا ر سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل معا ہدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ خود امریکی اور بھارتی میڈیا کے مطابق۔ Logistics Exchange Memorandum of Agreement (LEMOA) ۔ کے نام سے کئے جانے والے اس معا ہدے کے اثرات چین، روس، پاکستان سمیت مشرق بعید تک ہوں گے۔ اس معاہدے کے مطابق اب بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کے فوجی اڈوں کو بھر پور طریقے سے استعما ل کر پا ئیں گے۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے اس دورے کے دوران امریکہ کی جانب سے بھارت کو جیٹ انجن ٹیکنالوجی اور ڈرون طیارے فراہم کرنے کے حوالے سے بھی با ت چیت کی گئی۔ LEMOA معاہدے کو 29 اگست کو عملی شکل دی گئی، مگر اس معا ہدے کے متن کو بھارتی وزیر اعظم مودی کے جون کے دورۂ امریکہ کے دوران ہی طے کر لیا گیا تھا ۔
اس معا ہدے پر امریکہ کے اہم جریدے’’ Forbes magazine‘‘ میں بہت اہم آرٹیکل۔ "China and Pakistan beware - this week, India and US sign major war pact," ۔ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس آرٹیکل کے مطابق اس معا ہدے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکا جا سکے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی خارجہ پا لیسی اور عسکری امور کے کئی ما ہرین نے حکومت کو اس نوعیت کے معا ہدے سے روکنے کے لئے اس دلیل کا سہا را لیا کہ اس نوعیت کے معاہدے سے بھارت کا پرانا حلیف روس بھی بھارت سے خوش نہیں ہوگا،مگر مودی حکومت کسی بھی صورت میں امریکی قربت سے دوری اختیار نہیں کر سکتی ۔ اب امریکہ، روس کے مقابلے میں بھارت کو زیا دہ اسلحہ دے رہاہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے بھارت نہ صرف امریکہ، بلکہ اس کے اتحادی ممالک جیسے جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھی لاجسٹک معا ہدے کر رہاہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں امریکہ ، جاپان اور بھارت کے ما بین سہ فریقی ڈائیلاگ کا آغاز ہوا اور اس سال موسم گرما میں ان تینوں ممالک نے بحیرۂجنوبی چین کے متنا زعہ پا نیوں میں بحری مشقیں بھی کیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس وقت امریکہ جس ملک کے ساتھ سب سے زیا دہ فوجی مشقوں میں حصہ لے رہا ہے، وہ بھا رت ہی ہے ۔ اسی آرٹیکل میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس نوعیت کے معا ہدے ، بھارت کو جیٹ انجن اور ڈرون بنانے کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے پاکستان کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگا۔ پا کستان کا دفتر خارجہ بھی اس معا ہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا اس معا ہدے کو بھارتی عوام اور دنیا کے سامنے اس تا ثر کے ساتھ پیش کر رہے ہیں کہ اگر ایک طرف بھارت نے امریکہ کو اپنے فوجی اڈے استعما ل کرنے کی اجازت دی ہے تو دوسری طرف امریکہ نے بھارت کو بھی اپنے اڈے استعما ل کرنے کی اجازت دی ہے، مگر یہاں پر اس حقیقت کو مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا رہا ہے کہ امریکہ جیسی ایک عالمی سپر پا ور کے مقابلے میں بھارت کو اپنے مقاصد کے لئے دنیا بھر میں پھیلے کتنے امریکی اڈوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں کی طرح اس(LEMOA) معا ہدے میں جس فریق کا پلڑا بھا ری رہے گا وہ امریکہ ہی ہو گا ۔
اس معا ہدے کے ساتھ ہی امریکی بحر الکاہل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل ہیری بی ہیرس کی جانب سے یہ بیا ن بھی سامنے آ گیا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ امریکہ مستقبل قریب میں بحرالکاہل،بحرہند اور بحیرۂ جنوبی چین میں بھارت کے ساتھ مشترکہ بحری گشت کرے۔ اس بات کو اگر سادہ انداز میں کیا جا ئے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ جیسا ایک بڑا چودھری اپنے تابع دار تھانہ دار یعنی بھارت کے ساتھ مل کر ان علاقوں میں اپنے اثر ورسوخ کی نگرانی کرے گا۔ مودی حکومت جنوری2015ء سے ہی بحرجنوبی ہند جیسے انتہا ئی اہم ایشو پر بھی مکمل طور پر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔امریکہ کے ساتھ LEMOA معا ہد ہ کرکے بھارت نے امریکی سامراجی کیمپ کی جانب ایک اور بڑا اہم قدم بڑھا دیا ہے،بلکہ اب بھارت، چین کے خلاف ایک طرح سے امریکہ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کی جانب گامزن ہو چکا ہے۔
بھارت کی آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ کسی اہم عسکری قوت کی افواج بھارتی اڈوں کو استعما ل کر سکیں گی۔ امریکہ نے اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی بھارت کو اپنے حربی مقاصد کے لئے استعما ل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ بش انتظامیہ نے2005 میں بھارت کے ساتھ عالمی اسٹرٹیجک پاٹنر شپ قائم کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی بھا رت کوLEMOA کی طرح کے معا ہدوں کی پیش کش کی تھی، کیونکہ سر د جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی سامراج کو نئے تقاضوں کے مطابق بھا رت کی اہمیت اس لئے زیا دہ محسوس ہو ئی، کیو نکہ بھارت ، جنوبی ایشیا، مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ساتھ ساتھ بحر ہند جیسے انتہا ئی اہم سمندری راستے تک بھی رسائی رکھتا ہے۔ اس وقت کی کانگرسی حکومت نے امریکہ کے ساتھ عسکری اور حربی شعبوں میں تعاون کو بہت زیا دہ فروغ دیا، مگر کا نگرس نے LEMOA معا ہدہ اس خطرے کے پیش نظر نہیں کیا کہ اس سے بھا رت کی اسٹرٹیجک خود مختاری متا ثر ہو گی ۔
اب بھارت عملی طور پر امریکہ کا دست نگربن جائے گا اور روس جیسے اہم حلیف سے بھی تعلقات متا ثر ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کانگرس اور با ئیں بازو کی جماعتیں LEMOA معا ہدے پر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ کانگرس کے موقف کے مطابق مودی سرکا رنے یہ معا ہدہ کرکے عملی طور پر بھا رت کی غیر جانبداری پر مبنی پا لیسی کو سرے سے ختم کرکے بھارت کو امریکی کیمپ میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی حکمران طبقات نے آزادی کے بعد کئی عشروں تک اس با ت پر فخر کیا کہ بھارت نے عالمی طور پر کسی ایک کیمپ کا حصہ بننے کی بجائے غیر جانبداری پر مبنی پالیسی اپنا ئی۔ پہلے بھا رتی وزیر اعظم جواہر لعل نہروکو غیر وابستہ تحریک (NAM) کا بانی تسلیم کیا جا تا ہے۔17 سال بھارت کا وزیر اعظم رہتے ہوئے نہرو بڑی حد تک اس پالیسی پر گامزن بھی رہے۔
نہرو کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی ایک حد تک اسی پالیسی پر عمل کیا، مگر اب گز شتہ دو عشروں سے بھا رت ، امریکہ نواز پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ سرد جنگ اور اس کے بعد جتنے ممالک نے بھی امریکہ نواز پالیسیوں کو اختیار کیا انہیں کہیں نہ کہیں ان پالیسیو ں کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ خود آج پاکستان دہشت گردی سمیت بہت سے ایسے مسائل سے اس لئے دوچار ہے کہ پاکستانی حکمران طبقات نے شروع سے ہی آنکھیں بند کر کے امریکہ نواز
پالیسیوں کو اختیار کیا۔ بھارت کو یہ زعم ہے کہ وہ بڑا ملک ہے اس لئے امریکہ کے ساتھ دفاعی اور عسکری معا ہدوں کے باوجود اسے نقصان نہیں ہوگا، مگر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چا ہیے کہ صرف امریکہ کی خوشنودی کی خاطر چین اور روس جیسی اہم طاقتوں کو ناراض کرنا کسی بھی صورت سود مند نہیں ہوگا۔
عمر جاوید
#World#Pakistan and US Relations#Pakistan#Narendra Modi#India and US relations#India#Barack Obama#Asad ullah Ghalib
0 notes
Link
اولا: الديانة اليهودية : غرست اليهودية في نفوس أتباعها اعتبارات المصلحة القومية ، وقواعد العناية بالشعب ومصائره ، ونادت بالجزاء على الفضيلة والعقاب على الرذيلة ، هذا بالنظر إلى الديانة اليهودية في أصولها الأولى ، لكن نظرا لما شابها من التحريف في نصوصها ، فإن استناد اليهود إلى نصوص التوراة المحرفة وإ via Lakhasly.com Rss Feed
0 notes
Text
شركة صدارة للكيميائيات تعلن عن وظائف إدارية وهندسية شاغرة
شركة صدارة للكيميائيات تعلن عن وظائف إدارية وهندسية شاغرة
تفاصيل الاعلان
تعلن شركة صدارة للكيميائيات عبر موقعها الالكتروني (بوابة التوظيف) عن توفر وظائف إدارية وهندسية شاغرة ، لحملة شهادة الدبلوم ودرجة البكالوريوس ، للعمل بمقر الشركة بمحافظة الجبيل ، حسب التفاصيل التالية :-
تفاصيل الوظائف :
منسق أول الشؤون الهندسية.
مهندس أدوات.
مهندس تقدير.
مهندس إنتاج.
أخصائي تحسين.
مدير المواد الخام والتغليف.
أخصائي الشؤون العامة- اتصالات داخلية.
موعد التقديم :
اعتبا…
View On WordPress
0 notes
Video
جو مر د یہ کا م کرتے ہیں وہ خو ا تیں کے لئیے جنسی اعتبا ر سے زیا دہ کشش ...
0 notes
Photo
قرضے اتارنے اور اخراجات کیلئے مزید 21 ارب ڈالر قرض لینا پڑیگا اسلام آباد، پاکستان کے بیرونی قرضے 83ارب ڈالرسے بڑھ گئے، بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور اخراجات پورے کرنے کیلیے پاکستان کو 21ارب ڈالرقرض لینا پڑیگا۔اقتصادی ماہرین نے دسمبر کو معاشی اعتبا ر سے ملکی تاریخ کا سخت ترین مہینہ قرار دیدیا، انہوں نے بتایا کہ اگر ہم نے سخت اقدامات نہ اٹھائے تو آئندہ 6 ماہ میں بدترین معاشی بحران کا شکار ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ 9ماہ میں غیرملکی قرضوں میں 9 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
0 notes
Text
برطانوی ریفرنڈم اور یورپی یونین
یورپی یونین کے معاملے پر بر طانیہ میں ہونے والے تاریخی ریفرنڈم کے نتا ئج سامنے آچکے ہیں۔ حتمی نتا ئج کے مطابق 51.9%برطانوی ووٹروں نے یورپی یونین چھوڑنے، جبکہ 48.1%نے یورپی یونین کا حصہ رہنے کے لئے ووٹ دئیے۔ یوں برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے فیصلے پر پوری دنیا میں یورپی یونین کے مستقبل کے حوالے سے سوالات کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ ان نتا ئج کے بعد بنیا دی سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب یورپی یونین کا بحران ختم ہوجا ئے گا؟ اس انتہائی اہم سوال کے جواب کے لئے ہمیں یورپی یونین کی بنیا دی ساخت کو سمجھنا پڑے گا۔
دنیا کے کئی خطے اور مما لک تا ر یخی، تہذ یبی، معا شی اور جغر ا فیا ئی اور سب سے بڑھ کر فطری اعتبا ر سے ایک وحدت ہیں ،مگر محض سیا سی اور سر حدی تقسیم سے یہ خطے الگ الگ ریا ستوں پر مشتمل ہیں جیسے عرب مما لک اور خاص طور پر خلیجی مما لک جو تاریخی، تہذ یبی، اور جغرافیا ئی اعتبارسے ایک وحدت ہیں مگر اس خطے کو کئی ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسی طرح
شما لی اور جنو بی کوریا ، افر یقہ اور لا طینی امر یکہ کے کئی مما لک کی غیر فطری تقسیم اس امر کی مثا لیں ہیں۔ جب کہ دوسر ی طرف کئی خطوں کو تا ر یخی، تہذ یبی، سیاسی اعتبا رسے جدا ہونے کے با وجود ایک معا شی ، سیا سی اور تہذیبی وحد ت کے طور پر پیش کر نے کی کو شش کی جا تی ہے۔اس وقت یو رپی یو نین اس امر کی سب سے بڑی مثال ہے۔
جب 7فر وری 1992 کو Maastricht Treaty (یو ر پی یو نین کا معا ہدہ) کر کے یو رپ کے 27 ممالک پر مشتمل یورپی یو نین کی بنیا د رکھی گئی تو یو رپ کے کئی دانشو روں اور تجز یہ نگا روں کی جا نب سے یہ دعوے کئے گئے کہ
یورپی یو نین ایک فطر ی بلا ک ہو گا ۔ ایسا تا ثر دینے کی کو شش کی گئی کہ یورپ میں سیا سی ،معا شی اور تہذ یبی اعتبا ر سے خا صی مما ثلت ہے۔ اس لئے یہ بلاک مستقبل میں بھی قا ئم رہے گا،مگر یہ دعویٰ کر نے والے بھول گئے کہ
یورپ قطعی طور پر ایک معا شی اور سیا سی وحدت نہیں، بلکہ یورپی یونین کے اندر معاشی اور سیا سی تر قی کی تقسیم اسی قدر گہری ہے جس قدر تر قی یا فتہ یو رپی مما لک کی ایشا ئی ممالک سے۔
ایک طرف جنو بی یورپ (پر تگال، یونان، سپین،اٹلی) اور دوسری طرف شما لی
یورپی مما لک ( جر منی، ہالینڈ، فرا نس،اسکینڈے نیوین ممالک) ہیں۔ یہ تقسیم محض ثقا فتی نہیں، بلکہ سیا سی اور معا شی بھی ہے۔ در اصل یہ تقسیم ’’کلا ئنٹل ازم ‘‘اور ’’نان کلا ئنٹل ازم ‘‘کی ہے۔ آج سیاسیات کے جدید ما ہر ین جمہو ری
ممالک میں سیا سی شعور کا اندازہ لگا نے کے لئے کلا ئنٹل ازم اور نان کلا ئنٹل ازم کے پیما نے کو ہی استعما ل کر رہے ہیں۔ کلا ئنٹل ازم سے مراد کیا ہے؟ اور یہ کیسے یو رپی یونین کے اتحا د پر اثر انداز ہورہی ہے؟۔ایسے جمہوری مما لک جہاں پر سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کے لئے ریا ستی اداروں اور وسا ئل کو استعمال میں لا کر اپنے وو ٹروں یا حامیوں کو نوازتی ہیں۔ اس نوازنے میں سرکاری اداروں میں اپنے حا میوں میں نوکر یوں کی تقسیم،حا میوں کو قا نون سے تحفظ فرا ہم کرنے سے لے کر پیسوں اور دیگر مرا عا ت شا مل ہو تی ہیں۔ ان ممالک کے وو ٹرز اپنی حکو متوں یا سیا سی جما عتوں سے کسی دیر پا پروگرام کی بجا ئے فور ی مرا عا ت کے طا لب ہو تے ہیں ۔ ۔ جیسے نوکریاں، پیسے، پانی سیور یج، نلکے اور تھا نے کچہر یوں میں سیا سی حما یت کے حصول کے مفادات وغیرہ۔ واضح رہے کہ ایسی ریا ستوں میں جہا ں کلائنٹل ازم کی بنیا د پر جمہو ری نظا م چل رہے ہیں۔
ان ممالک میں ریاستی وسا ئل کے دم پر اپنے حا میو ں کو نوازنا قطعی طور پر کرپشن کے زمر ے میں نہیں آتا، بلکہ یہ سب کچھ قا نون کے تحت ہوتا ہے۔ کلائنٹل ازم کے حامل ممالک ایسے ہیں کہ جہا ں ریاست یا مستقل ریاستی اداروں کے باقاعد ہ طور پر منظم ہو نے سے پہلے ہی جمہوری نظام آ جاتا ہے اور سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاسی حمایت کے حصول کے لئے ووٹروں کو بغیر کسی جواب دہی کے نوازنا پڑتا ہے۔ بھارت، پاکستان، میکسیکو، بنگلہ دیش، سری لنکا، برازیل،تھائی لینڈ ،کینیا ، نا ئجیریا وغیرہ کلا ئنٹل ازم کی حا مل ریاستیں تصور کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف جن مما لک میں ریاست کے مستقل اداروں ( بیورو کریسی) کے منظم ہو نے کے بعد صحیح معنوں میں جمہوریت آئی، ان ممالک میں سیاسی جماعتوں نے اپنے حامی طبقوں یا گروپس کو نوازا تو ضرور، مگر ریاستی اداروں کو مکمل طور پر اپنے حامیوں کے لئے استعمال کر نے میں کامیاب نہ ہو سکیں،کیو نکہ مضبوط ریاستی ڈھانچے نے سیا سی جما عتوں کو اس امر کی اجازت نہ دی۔
یہی وجہ ہے کہ جرمنی، بر طانیہ، ہالینڈ ، فرانس اور اسکیڈ ے نیوین مما لک میں کلاسیکل معنوں میں کلا ئنٹل ازم قا ئم نہ ہو سکا(جمہو ریت آنے کے بعد)۔ اب اگر اسی تناظر میں یورپی یونین کے مسئلے پر حالیہ بر طانوی ریفرنڈم کو دیکھا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ اس مسئلے کی جڑیں بھی کلائنٹل ازم اور نا ن کلائنٹل ازم میں ہی مو جود ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے ریفرنڈم کا انعقادا اس لئے کیا گیا تھا ، تاکہ اپنی جما عت ’’قدامت پرست پارٹی ‘‘میں موجود یورپین یونین کے مخالف راہنماؤں اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت’’ یوکے انڈی پینڈنس پا رٹی‘‘ کی سیا ست کو کمزور کیا جا ئے۔
ریمین ( یورپین یونین میں رہنے ) کے بڑے حامیوں میں ڈیوڈ کیمرون اور لیبر پارٹی کے راہنما جیریمی کورن شامل تھے۔ اب ریفرنڈم کے نتا ئج کے بعد وزیر اعظم کیمرون نے اکتوبرمیں مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ جبکہ یوکے انڈی پینڈنس پارٹی کے راہنما نائجل فاریج اور قدامت پرست پارٹی کے اہم راہنما بورس جانسن لیو(چھوڑنے) کے حامیوں کی قیادت کر رہے تھے ۔ اس وقت برطانیہ کے اکثر سما جی اور معاشی مسائل کا شکار ایسے ایمگرنٹس کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو یورپی یو نین کی آڑ میں غریب یورپی ممالک سے آکر برطا نیہ میں آباد ہو جا تے ہیں اور برطانوی معیشت پر بوجھ بنتے ہیں۔ یہی وہ بنیا دی مسئلہ تھا جس کو بنیاد بنا کر قدامت پسند پارٹی کے چند راہنماوں اور ’’یوکے انڈی پینڈنس پارٹی‘‘ نے یو رپی یونین چھوڑنے کی مہم چلائی تھی، جبکہ بڑامعاشی مسئلہ یہی تھا کہ کیا برطانوی سرما یہ داروں کا مفاد ایک واحد یورپی منڈی میں پو را ہو سکتا ہے یا پھر لیو(چھوڑنے) کے حامیوں کے مطابق بر طانوی سرما یہ داروں کا مفاد یورپین یونین سے نکل کر چین، بھارت، عرب اور دولت مشترکہ کی منڈیوں میں ہے؟
ریمین ( یورپین یونین میں رہنے ) مہم کے حامیوں کا موقف تھا کہ یوپین یونین میں رہنے سے نیٹو کا عسکری اتحاد بھی مضبوط رہے گا، جبکہ یو رپین یو نین کو چھوڑنے والوں کا مو قف تھا کہ برطانیہ کو اس لئے بھی یورپین یونین کی رکنیت چھوڑ دینی چاہیے، کیونکہ اگر جرمنی نے یورپین یونین کے لئے ’’یورپی فوج‘‘ تشکیل دے دی تو اس سے جرمنی نہ صرف پورے یورپ پر چھا جا ئے گا، بلکہ یورپین یونین محض جرمنی کے مفادات کو پورا کرنے والا ایک ادارہ بن کر رہ جا ئے گا۔
یورپین یونین کے حوالے سے ہو نے والے ریفرنڈم نے برطانیہ میں کس قدر سیاسی کشیدگی پیدا کی اس کا ایک اندازہ ہمیں لیبر پارٹی کی 41 سالہ برطانوی خاتون رکن پارلیمنٹ ’’جو کاکس‘‘ کے قتل سے ہوتا ہے۔ ’’جو کاکس‘‘ نہ صرف یو رپین یو نین کی پر زور حما یتی تھیں، بلکہ یورپ کے غریب ممالک کے ساتھ ساتھ شامی مہاجرین کو بھی بر طانیہ میں پنا ہ دینے کی حما یت کرتی تھیں۔ ریفرنڈم سے چند دن قبل 16جون کو ’’جو کاکس‘‘ کو انتہا ئی بے دردی سے قتل کرنے والا شخص ٹامی مائرہے جو بر طانوی قوم پرستی پر فاشسٹ نظریات رکھتا تھا۔ اس نے جو کاکس کو حملے کا نشانہ بنا تے ہو ئے با ر با ر "Britain First"یعنی سب سے پہلے بر طانیہ کے نعرے لگا ئے۔ یہ نعرے لیو(چھوڑنے) کے حامیوں کی مہم کا ایک اہم نعرہ تھا۔ یوں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے معاملے پر برطانیہ میں سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ برطانیہ کے عام انتخابات کے دوران بھی اس کی حدت اتنی زیا دہ نہیں ہوتی۔
یو رپ کے امیر ممالک جیسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی اب غریب یورپی ممالک کے لئے مز ید قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں ۔ یورپی یو نین کے حکمرا ن یو رپی یو نین کو قا ئم رکھنے کی بھر پو ر کوشش کر رہے ہیں ،مگر بحران ہے کہ قا بو میں ہی نہیں آرہا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یو رپی یو نین کی تشکیل اپنی ہئیت میں ہی ایک غیر فطری اتحا د تھا، جہا ں کلا ئنٹل ازم اور نا ن کلائنٹل ازم کی حامل ریا ستوں کو ایک ہی لڑی میں پرونے کی کو شش کی گئی۔ کلا ئنٹل ازم اور نان کلا نئٹل ازم کی یہ تقسیم اس قدر گہری ہے کہ مستقبل قر یب میں اس تقسیم کا ختم ہو ناممکن دکھائی نہیں دیتا ۔
عمر جاوید
0 notes
Text
برطانوی ریفرنڈم اور یورپی یونین
یورپی یونین کے معاملے پر بر طانیہ میں ہونے والے تاریخی ریفرنڈم کے نتا ئج سامنے آچکے ہیں۔ حتمی نتا ئج کے مطابق 51.9%برطانوی ووٹروں نے یورپی یونین چھوڑنے، جبکہ 48.1%نے یورپی یونین کا حصہ رہنے کے لئے ووٹ دئیے۔ یوں برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے فیصلے پر پوری دنیا میں یورپی یونین کے مستقبل کے حوالے سے سوالات کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ ان نتا ئج کے بعد بنیا دی سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب یورپی یونین کا بحران ختم ہوجا ئے گا؟ اس انتہائی اہم سوال کے جواب کے لئے ہمیں یورپی یونین کی بنیا دی ساخت کو سمجھنا پڑے گا۔
دنیا کے کئی خطے اور مما لک تا ر یخی، تہذ یبی، معا شی اور جغر ا فیا ئی اور سب سے بڑھ کر فطری اعتبا ر سے ایک وحدت ہیں ،مگر محض سیا سی اور سر حدی تقسیم سے یہ خطے الگ الگ ریا ستوں پر مشتمل ہیں جیسے عرب مما لک اور خاص طور پر خلیجی مما لک جو تاریخی، تہذ یبی، اور جغرافیا ئی اعتبارسے ایک وحدت ہیں مگر اس خطے کو کئی ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسی طرح
شما لی اور جنو بی کوریا ، افر یقہ اور لا طینی امر یکہ کے کئی مما لک کی غیر فطری تقسیم اس امر کی مثا لیں ہیں۔ جب کہ دوسر ی طرف کئی خطوں کو تا ر یخی، تہذ یبی، سیاسی اعتبا رسے جدا ہونے کے با وجود ایک معا شی ، سیا سی اور تہذیبی وحد ت کے طور پر پیش کر نے کی کو شش کی جا تی ہے۔اس وقت یو رپی یو نین اس امر کی سب سے بڑی مثال ہے۔
جب 7فر وری 1992 کو Maastricht Treaty (یو ر پی یو نین کا معا ہدہ) کر کے یو رپ کے 27 ممالک پر مشتمل یورپی یو نین کی بنیا د رکھی گئی تو یو رپ کے کئی دانشو روں اور تجز یہ نگا روں کی جا نب سے یہ دعوے کئے گئے کہ
یورپی یو نین ایک فطر ی بلا ک ہو گا ۔ ایسا تا ثر دینے کی کو شش کی گئی کہ یورپ میں سیا سی ،معا شی اور تہذ یبی اعتبا ر سے خا صی مما ثلت ہے۔ اس لئے یہ بلاک مستقبل میں بھی قا ئم رہے گا،مگر یہ دعویٰ کر نے والے بھول گئے کہ
یورپ قطعی طور پر ایک معا شی اور سیا سی وحدت نہیں، بلکہ یورپی یونین کے اندر معاشی اور سیا سی تر قی کی تقسیم اسی قدر گہری ہے جس قدر تر قی یا فتہ یو رپی مما لک کی ایشا ئی ممالک سے۔
ایک طرف جنو بی یورپ (پر تگال، یونان، سپین،اٹلی) اور دوسری طرف شما لی
یورپی مما لک ( جر منی، ہالینڈ، فرا نس،اسکینڈے نیوین ممالک) ہیں۔ یہ تقسیم محض ثقا فتی نہیں، بلکہ سیا سی اور معا شی بھی ہے۔ در اصل یہ تقسیم ’’کلا ئنٹل ازم ‘‘اور ’’نان کلا ئنٹل ازم ‘‘کی ہے۔ آج سیاسیات کے جدید ما ہر ین جمہو ری
ممالک میں سیا سی شعور کا اندازہ لگا نے کے لئے کلا ئنٹل ازم اور نان کلا ئنٹل ازم کے پیما نے کو ہی استعما ل کر رہے ہیں۔ کلا ئنٹل ازم سے مراد کیا ہے؟ اور یہ کیسے یو رپی یونین کے اتحا د پر اثر انداز ہورہی ہے؟۔ایسے جمہوری مما لک جہاں پر سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کے لئے ریا ستی اداروں اور وسا ئل کو استعمال میں لا کر اپنے وو ٹروں یا حامیوں کو نوازتی ہیں۔ اس نوازنے میں سرکاری اداروں میں اپنے حا میوں میں نوکر یوں کی تقسیم،حا میوں کو قا نون سے تحفظ فرا ہم کرنے سے لے کر پیسوں اور دیگر مرا عا ت شا مل ہو تی ہیں۔ ان ممالک کے وو ٹرز اپنی حکو متوں یا سیا سی جما عتوں سے کسی دیر پا پروگرام کی بجا ئے فور ی مرا عا ت کے طا لب ہو تے ہیں ۔ ۔ جیسے نوکریاں، پیسے، پانی سیور یج، نلکے اور تھا نے کچہر یوں میں سیا سی حما یت کے حصول کے مفادات وغیرہ۔ واضح رہے کہ ایسی ریا ستوں میں جہا ں کلائنٹل ازم کی بنیا د پر جمہو ری نظا م چل رہے ہیں۔
ان ممالک میں ریاستی وسا ئل کے دم پر اپنے حا میو ں کو نوازنا قطعی طور پر کرپشن کے زمر ے میں نہیں آتا، بلکہ یہ سب کچھ قا نون کے تحت ہوتا ہے۔ کلائنٹل ازم کے حامل ممالک ایسے ہیں کہ جہا ں ریاست یا مستقل ریاستی اداروں کے باقاعد ہ طور پر منظم ہو نے سے پہلے ہی جمہوری نظام آ جاتا ہے اور سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاسی حمایت کے حصول کے لئے ووٹروں کو بغیر کسی جواب دہی کے نوازنا پڑتا ہے۔ بھارت، پاکستان، میکسیکو، بنگلہ دیش، سری لنکا، برازیل،تھائی لینڈ ،کینیا ، نا ئجیریا وغیرہ کلا ئنٹل ازم کی حا مل ریاستیں تصور کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف جن مما لک میں ریاست کے مستقل اداروں ( بیورو کریسی) کے منظم ہو نے کے بعد صحیح معنوں میں جمہوریت آئی، ان ممالک میں سیاسی جماعتوں نے اپنے حامی طبقوں یا گروپس کو نوازا تو ضرور، مگر ریاستی اداروں کو مکمل طور پر اپنے حامیوں کے لئے استعمال کر نے میں کامیاب نہ ہو سکیں،کیو نکہ مضبوط ریاستی ڈھانچے نے سیا سی جما عتوں کو اس امر کی اجازت نہ دی۔
یہی وجہ ہے کہ جرمنی، بر طانیہ، ہالینڈ ، فرانس اور اسکیڈ ے نیوین مما لک میں کلاسیکل معنوں میں کلا ئنٹل ازم قا ئم نہ ہو سکا(جمہو ریت آنے کے بعد)۔ اب اگر اسی تناظر میں یورپی یونین کے مسئلے پر حالیہ بر طانوی ریفرنڈم کو دیکھا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ اس مسئلے کی جڑیں بھی کلائنٹل ازم اور نا ن کلائنٹل ازم میں ہی مو جود ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے ریفرنڈم کا انعقادا اس لئے کیا گیا تھا ، تاکہ اپنی جما عت ’’قدامت پرست پارٹی ‘‘میں موجود یورپین یونین کے مخالف راہنماؤں اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت’’ یوکے انڈی پینڈنس پا رٹی‘‘ کی سیا ست کو کمزور کیا جا ئے۔
ریمین ( یورپین یونین میں رہنے ) کے بڑے حامیوں میں ڈیوڈ کیمرون اور لیبر پارٹی کے راہنما جیریمی کورن شامل تھے۔ اب ریفرنڈم کے نتا ئج کے بعد وزیر اعظم کیمرون نے اکتوبرمیں مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ جبکہ یوکے انڈی پینڈنس پارٹی کے راہنما نائجل فاریج اور قدامت پرست پارٹی کے اہم راہنما بورس جانسن لیو(چھوڑنے) کے حامیوں کی قیادت کر رہے تھے ۔ اس وقت برطانیہ کے اکثر سما جی اور معاشی مسائل کا شکار ایسے ایمگرنٹس کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو یورپی یو نین کی آڑ میں غریب یورپی ممالک سے آکر برطا نیہ میں آباد ہو جا تے ہیں اور برطانوی معیشت پر بوجھ بنتے ہیں۔ یہی وہ بنیا دی مسئلہ تھا جس کو بنیاد بنا کر قدامت پسند پارٹی کے چند راہنماوں اور ’’یوکے انڈی پینڈنس پارٹی‘‘ نے یو رپی یونین چھوڑنے کی مہم چلائی تھی، جبکہ بڑامعاشی مسئلہ یہی تھا کہ کیا برطانوی سرما یہ داروں کا مفاد ایک واحد یورپی منڈی میں پو را ہو سکتا ہے یا پھر لیو(چھوڑنے) کے حامیوں کے مطابق بر طانوی سرما یہ داروں کا مفاد یورپین یونین سے نکل کر چین، بھارت، عرب اور دولت مشترکہ کی منڈیوں میں ہے؟
ریمین ( یورپین یونین میں رہنے ) مہم کے حامیوں کا موقف تھا کہ یوپین یونین میں رہنے سے نیٹو کا عسکری اتحاد بھی مضبوط رہے گا، جبکہ یو رپین یو نین کو چھوڑنے والوں کا مو قف تھا کہ برطانیہ کو اس لئے بھی یورپین یونین کی رکنیت چھوڑ دینی چاہیے، کیونکہ اگر جرمنی نے یورپین یونین کے لئے ’’یورپی فوج‘‘ تشکیل دے دی تو اس سے جرمنی نہ صرف پورے یورپ پر چھا جا ئے گا، بلکہ یورپین یونین محض جرمنی کے مفادات کو پورا کرنے والا ایک ادارہ بن کر رہ جا ئے گا۔
یورپین یونین کے حوالے سے ہو نے والے ریفرنڈم نے برطانیہ میں کس قدر سیاسی کشیدگی پیدا کی اس کا ایک اندازہ ہمیں لیبر پارٹی کی 41 سالہ برطانوی خاتون رکن پارلیمنٹ ’’جو کاکس‘‘ کے قتل سے ہوتا ہے۔ ’’جو کاکس‘‘ نہ صرف یو رپین یو نین کی پر زور حما یتی تھیں، بلکہ یورپ کے غریب ممالک کے ساتھ ساتھ شامی مہاجرین کو بھی بر طانیہ میں پنا ہ دینے کی حما یت کرتی تھیں۔ ریفرنڈم سے چند دن قبل 16جون کو ’’جو کاکس‘‘ کو انتہا ئی بے دردی سے قتل کرنے والا شخص ٹامی مائرہے جو بر طانوی قوم پرستی پر فاشسٹ نظریات رکھتا تھا۔ اس نے جو کاکس کو حملے کا نشانہ بنا تے ہو ئے با ر با ر "Britain First"یعنی سب سے پہلے بر طانیہ کے نعرے لگا ئے۔ یہ نعرے لیو(چھوڑنے) کے حامیوں کی مہم کا ایک اہم نعرہ تھا۔ یوں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے معاملے پر برطانیہ میں سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ برطانیہ کے عام انتخابات کے دوران بھی اس کی حدت اتنی زیا دہ نہیں ہوتی۔
یو رپ کے امیر ممالک جیسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی اب غریب یورپی ممالک کے لئے مز ید قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں ۔ یورپی یو نین کے حکمرا ن یو رپی یو نین کو قا ئم رکھنے کی بھر پو ر کوشش کر رہے ہیں ،مگر بحران ہے کہ قا بو میں ہی نہیں آرہا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یو رپی یو نین کی تشکیل اپنی ہئیت میں ہی ایک غیر فطری اتحا د تھا، جہا ں کلا ئنٹل ازم اور نا ن کلائنٹل ازم کی حامل ریا ستوں کو ایک ہی لڑی میں پرونے کی کو شش کی گئی۔ کلا ئنٹل ازم اور نان کلا نئٹل ازم کی یہ تقسیم اس قدر گہری ہے کہ مستقبل قر یب میں اس تقسیم کا ختم ہو ناممکن دکھائی نہیں دیتا ۔
عمر جاوید
0 notes
Link
أفاد الخبراء إنه إذا ما تم استبعاد النفايات الذرية على اعتبار أنها تخضع لمعايير دولية تحكمها سياسات عالمية، وكذلك بالنسبة للنفايات الطبية حيث توجد جهات حكومية تتولى الرقابة وتشدد على أهمية التخلص من هذه النفايات من خلال معالجتها بالطرق الآمنة، تبقى مشكلة الإطارات التالفة هي الأكثر خطرا بسبب عدم تقدي via Lakhasly.com Rss Feed
0 notes