Tumgik
#عين ديوار
vdcnsy · 1 year
Text
حصيلة الهجمات التركية على شمال وشرق سوريا 8 اكتوبر 2023
تواصل تركيا منذ 5 تشرين الأول 2023 شن هجمات جوية وصاروخية وبالمدفعية مستهدفة البنية التحتية والأحياء السكنية في شمال وشرق سوريا. في اليوم الرابع من التصعيد نفذت تركيا 31 هجوما منها هجومين بطائرات حربية. في مدينة ديريك وريفها استهدفت تركيا بـ/7/ قذائف هاون قرية “كردميه” الواقعة على الخط الحدودي والتابعة لمدينة “ديريك”، كما استهدف قرية “عين ديوار” بـ/10/ قذائف هاون، حيث أن القذائف سقطت في الأراضي…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
arabipress · 4 years
Text
إدارة بايدن لاتهتم بالنفط السوري لكنها تهتم بـ"داعش" !! - مرصد العربي برس
العالم – قضية اليوم لانقول بأن إدارة ترامب كانت أفضل لكنها كانت على الاقل صريحة بعدائها للشعوب المسلمة وابتزازها للحكومات ولاتتغنى بالديمقراطية المزيفة، ففي حين تقول إدارة بايدن بأنها غير مهتمة بالنفط السوري فهي حاليا تنشئ أكبر قاعدة لها شرق الفرات حيث المناطق السورية الغنية بالنفط والغاز. ويعمل التحالف الامريكي الذي يدعي محاربة “داعش” على … https://s.alarabi.press/B5t53
0 notes
hamacitylive · 2 years
Text
جنود أتراك يطلقون الرصاص على مدني في الحسكة
جنود أتراك يطلقون الرصاص على مدني في الحسكة
خاص|| أثر برس قضى شاب برصاص القوات التركية بريف محافظة الحسكة أثناء محاولته عبور الحدود السورية – التركية. وقالت مصادر محلية بريف الحسكة لـ “أثر” إن الشاب يحيى دخيل، من سكان قرى منطقة المالكية أقصى الشمال الشرقي من الحسكة مواليد 2000م، قضى ليل الأربعاء – الخميس إثر إطلاق الرصاص عليه من قبل جنود أتراك. وتابعت المصادر، أن ذلك أثناء محاولته عبور الحدود السورية – التركية من قرية عين ديوار الحدودية…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
un-paso-lejos · 3 years
Text
اون پشتى. پشت اين ديوار سفيد با كاغذ ديوارى ايموجى. ميتونم برات بنويسم اما نميتونم سند كنم. حتى ميترسم دستم به چيزى بخوره و اتفاقى بيفته. اون پشتى بدون اينكه از فكرت بگذره. من عين هميشه تحت مخدر فكر ميكنم نكنه از فكر تو گذشته باشه؟ نكنه درست حس كرده باشم. نكنه بشه.
0 notes
semdjonson · 4 years
Photo
Tumblr media
فتح مسلحون موالون لتركيا النار على مدنيين في منطقة عين ديوار في ريف الحسكة على الحدود الشمالية الشرقية لسوريا بينما تجمع مدنيون بالقرب من نهر دجلة. فر السكان من المنطقة ، لكن لم ترد تقارير عن وقوع إصابات.
المسلحين أيضا منع المدنيين من الاقتراب من الأراضي الزراعية بالقرب من الحدود ومنع السكان من زراعة محاصيلهم.
وأصيب مزارعان بجروح أثناء العمل في الأراضي الزراعية بالقرب من قريتي مزرعة بني ومزرعة هواري الحدوديتين في بلدة المالكية في الحسكة.
0 notes
yourmufakerhurorg · 4 years
Photo
Tumblr media
أصالة المسيحيين السوريين لا تحتاج لشهادة أحد سوريا والمسيحيين: أصالة المسيحيين السوريين لا تحتاج لشهادة أحد ولا لمصادر ومراجع تاريخية . وجود الأحياء المسيحية وكنائسهم وأديرتهم في قلب المدن وأحيائها القديمة ، الى جانب الآثار والكنوز التاريخية المسيحية المزروعة في كل (مدينة وبلدة وقرية) قديمة من (عين ديوار) على الحدود العراقية التركية الى (الجولان) المحتل وهي مازالت تحمل أسمائها السريانية العريقة ، تشهد على أصالة المسيحيين وتجذرهم وعلى أنهم سكان سوريا الأوائل.
0 notes
adhorikahani24 · 5 years
Photo
Tumblr media
ناول: چاند میری دسترس میں (قسط 4) http://bit.ly/2yfvJok
#چاند_میری_دسترس_میں #قسط نمبر 4 #از_قلم_انا_الیاس
چند دن سکون سے گزر گۓ۔ اس دن وہ چاروں واہب کی پھوپھو کی جانب افطاری کے لئے انوائيٹڈ تھے۔ 
واہب ابھی ريسٹ کررہا تھا جب راديا کمرے ميں داخل ہوئ۔ 
“کس وقت نکلنا ہے" بيڈ پر نيم دراز موبائل پر گيم کھيلتے ہوۓ اس نے ايک نظر نماز کے سٹائل ميں دوپٹہ اوڑھے راديا کو ديکھا۔ جس کے ايک ہاتھ ميں قرآن تھا۔ 
“آنٹی کہہ رہی ہيں کہ بس آدھے گھنٹے تک تياری شروع کريں۔ پانچ تو بج جائيں گے۔ عصر پڑھ کر نکليں گے۔ اب بالکل افطاری کے ٹائم پر تو کسی کے گھر جاتے اچھا نہيں لگتا نا" اسکے دوسری جانب بيٹھ کر قرآن مجيد کو سرہانے کے اوپر رکھ کر کھولا اور آہستہ آواز ميں قرآت سے پڑھنے لگی۔ 
واہب کو اسکی دھيمی آواز ميں کی جانے والی قرآت اپنے سحر ميں جکڑنے لگی۔ 
سورہ رحمن پڑھ رہی تھی۔ ہر بار جب وہ 'فبائ الاءربکما تکذبان'پڑھتی واہب کی آنکھيں نم ہو جاتيں۔
يکدم موبائل ہاتھ سے رکھ کر اسکے گھٹنے کے پاس سر رکھ کر وہ ليٹ گيا۔ 
راديا يکدم اسکی اس حرکت پر خاموش ہوئ۔ پھر سر جھٹک کر پڑھتی رہی اور وہ خاموش اسکے قريب ليٹ کر اسکی ميٹھی آواز کا رس قطرہ قطرہ اپنے اندر اتارتا رہا۔ 
جس لمحے وہ قرآن مجيد بند کرکے اسے چوم کر آنکھوں سے لگا کر اٹھی۔ واہب کو لگا اسکا وجود خالی سا ہوگيا ہے۔ 
“پورے بيڈ پر ليٹنے کی کوئ اور جگہ نہيں ملی۔ ايک تو پہلے ہی ميں کنارے پر تھی اور پيچھے ہوتی تو گر پڑتی" راديا نے اپنی ناہموار ہونے والی سانس اور کچھ دير پہلے کی کيفيت سے پيچھا چھڑاتے ہوۓ کہا۔ 
“ابھی اللہ کا نام لے کر فارغ ہوئ ہو اور لڑنے کھڑی ہوگئ ہو" واہب نے سيدھا ہوتے شرارت سے بھرپور نظروں سے اسے ديکھتے ہوۓ شرم دلائ۔ 
وہ منہ بنا کر قرآن مجيد الماری ميں رکھتے ہوۓ اپنے کپڑے نکالنے لگی۔ 
“آپ ميری امی کو آنٹی کيوں کہتی ہو" واہب نے ايسے پوچھا جيسے بڑے پتے کی بات جان رہا ہو۔ 
“اسی لئے کہ يہ حق کچھ عرصے بعد کسی اور کو ملنے والا ہے اور ميں پرائ جگہوں اور رشتوں کو اپنا نہيں بناتی" اسکی بات پر واہب نے سر اونچا کرکے اسکی پشت کو ديکھا۔ وہ تو بھول گيا تھا کہ اس نے دوسری شادی کے لئے کسی اجازت نامے پر اس سے سائن کروائے ہيں۔ جب سے اسکی محبت کا ادراک ہوا تھا وہ تو سب کچھ فراموش کربيٹھا تھا۔ 
لب بھينچ کر اس نے نظريں واپس موبائل پر ٹکائيں۔ جبکہ راديا کپڑے بدلنے واش روم ميں جاچکی تھی۔
“يار اور کتنی دير لگانی ہے" واہب راديا کے کپڑے چينج کرنے کے فورا بعد خود بھی چينج کرکے باہر آگيا۔
“کتنی دير لگے گی تيار ہونے ميں" ڈارک مونگيا رنگ کی شلوار قميض ميں کف فولڈ کرکے 'اودھا' کی شيشی سے رولر اپنی گردن اور بازوؤں پر لگا کر شيشے ميں ديکھتے بال سيٹ کرتا ہوا راديا کی جانب مڑا جو ايک جانب کھڑی بال اسٹريٹ کررہی تھی۔ 
“بس پندرہ منٹ" اس نے ايک نظر ہلکی سی شيو ميں وجيہہ سے واہب کی جانب ديکھ کر فورا نظروں کا رخ بدل ليا۔ راديا کادل اسکی نظروں کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔
“اوکے" وہ اپنی تياری کو بھرپور انداز ميں ديکھتا کمرے سے نکل گيا۔ 
اب پندرہ کی جگہ بيس منٹ ہوچکے تھے مگر راديا تھی کہ باہر ہی نہيں نکل رہی تھی۔ 
وہ جھنجھلايا ہوا کمرے ميں داخل ہوا۔ مگر شيشے کے سامنے آف وائٹ پرلز کی بالياں پہنتی سجی سنوری وائٹ اور گرين ہی کلر کے سوٹ ميں ملبوس راديا پر نظر پڑی تو نظروں نے پلٹنے سے انکار کر ديا۔ 
“بس آگئ۔۔ ميری جيولری نہيں مل رہی تھی۔ اسی ميں دير ہوگئ" وہ مصروف سے انداز ميں کمر تک آتے کھلے بالوں کو ايک جانب کرتی جلدی جلدی نازک سی ہيل والی سينڈل پاؤں ميں پہنتی بولی۔ 
تيزی سے آگے بڑھ کر کلچ اٹھايا۔ 
“افطاری پر جا رہی ہو کا کسی کی شادی پہ"واہب نے جان بوجھ کر اسکا راستہ روکا۔ 
تاکہ وہ نظر اٹھا کر واہب کو ديکھے۔ 
“اب اتنا بھی تيار نہيں ہوئ" وہ بمشکل اسکی گہری بولتی آنکھوں سے نظريں چرا کر بولی۔ 
دھڑکنوں ميں عجيب بے ربط سا شور بڑھ رہا تھا۔ 
“بال باندھو" نجانے کيوں اسے راديا کے کھلے بالوں سے الجھن ہوئ۔۔۔
محبوب کی زلف کا اسير ہونے سے ڈر رہا تھا۔ 
“ميری مرضی ۔۔۔اتنی محنت سے اسٹريٹ کئے ہيں۔ کوئ نہيں باندھ رہی" وہ ہٹ دھرمی سے اسکے دائيں سائيڈ سے نکلنے لگی۔ 
“بال باندھو۔۔۔" وہ پھر سے اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ 
“چاہے کيچر ہی لگا لو۔۔ ليکن کھلے نہيں چھوڑو" وہ نہيں چاہتا تھا يہ خوبصورتی کسی اور کی نظروں ميں آۓ۔ وہ اکيلا ہی ان گھنيری زلفوں کا ستم سہنے کے لئے بہت تھا۔ 
راديا نے حيرت سے اسکے دھونس بھرے انداز ديکھے۔ 
“کيوں مانوں آپکی بات۔۔ نہيں بند کرتی" وہ بھی کمر پر ہاتھ رکھے لڑنے کو تيار ہوئ۔ 
“اسی لئے کہ ميرے نکاح ميں ہو" وہ آںکھيں اسکے چہرے پر گاڑھ کر بولا۔ 
“اچھا ۔۔۔۔۔جب دل کرے گا تو نکاح ميں شامل کرليں گے۔ اور جب دل کرے گا دو کوڑی کا کرديں گے۔۔اچھی زبردستی ہے" وہ ہاتھ ہلا کر کندھے اچکا کر بولی۔ 
“واپس آکر لڑ لينا ابھی بال باندھو۔۔ کوئ بات سمجھ ہی نہيں آتی" وہ کيسے کہہ ديتا تمہاری خوبصورتی صرف مجھ تک اپنے محرم تک محدود رہنی چاہئے۔ 
اسے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے ديکھ کر راديا نے گھور کر اسے ديکھا۔ واپس مڑی غصے سے کيچر اٹھا کر بالوں ميں لگايا۔ 
واہب کے چہرے پر بڑی جاندار مسکراہٹ پھيلی۔ 
اس سے پہلے کمرے سے باہر نکلا۔ 
سيڑھياں اترتے موبائل پر کسی کو ميسج ٹائپ کررہا تھا۔ 
راديا دوپٹہ سر پر لينے لگی يکدم پاؤں مڑا۔ آگے چلتے واہب کا سہارا لينے کے لئے اس نے ہاتھ اسکے بازو پر رکھے۔ 
“کيا مسئلہ ہے يار" واہب کوئ آفيشل ميسج کررہا تھا۔ راديا کے اچانک خود کو ہاتھ لگانے پر چڑا۔ وہ ابھی بمشکل خود کو اسکے گھنيرے بالوں اور ساحر چہرے کے سحر سے بچا کر آيا تھا۔ اور وہ تھی کے پھر سے اس کا امتحان لينے پر تلی تھی۔ 
غصے ميں اسکے ہاتھ جھٹکنے پر وہ نہيں جانتا تھا کہ اگلے ہی پل کيا ہونے والا ہے۔ 
يکدم پيچھے سے راديا پھسلتی ہوئ اسکے پاس سے گرتی ہوئ تمام سيڑھياں گرتی ہی چلی گئ۔ 
يہ سب آناّّفاناّّ ہوا کہ واہب کو اسے سنبھالنے کا موقع ہی نہ ملا۔۔ 
نيچے گری اسکی دلدوز چيخيں اسکے حواس جھنجھوڑ کر رکھ گئيں۔ 
زيبا اور سميع دوڑ کر اسکے پاس آۓ جو چيخنے کے ساتھ ساتھ زور زور سے رو رہی تھی۔ 
واہب تيزی سے سيڑھياں اترتا اسکے قريب پہنچا۔۔ 
“اماں۔۔۔۔۔۔" وہ ماں کو پکار رہی تھی۔ ٹانگ تھامے وہ ادھر سے ادھے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ ماتھے پر بھی سيڑھی کا کوئ سرا لگا تھا جس کی وجہ سے وہاں گہرا کٹ پڑ چکا تھا اور خون رس رہا تھا۔ 
“گاڑی نکالو" سميع نے فورا واہب سے کہا۔ 
واہب نے اسے اٹھانا چاہا جب درد سے بے حال ہوتے ہوۓ بھی راديا نے اسکے ہاتھ جھٹکے سے خود سے دور ہٹاۓ۔ 
“ہاتھ مت لگائيں مجھے۔۔۔ اچھوت ہوں نا۔۔۔۔دھکا ديتے احساس نہيں تھا" آنسوؤں سے بھری آنکھوں ميں غصہ سموۓ وہ دھاڑی۔ زيبا اور سميع نے بے يقين نظروں سے اسے ديکھا۔
“تم نے دھکا ديا ہے" سميع اور زيبا نے افسوس اور حيرت سے اسے ديکھا۔ 
“ميں نے دھکا نہيں ديا۔۔"وہ بھی راديا کے الزام پر حيران ايک نظر اسے اور ايک نظر سميع اور زيبا کو ديکھ کر اپنی صفائ ميں بولا۔۔ 
“آہ۔۔۔۔۔ آۓ۔۔۔۔۔۔اماں" ايک بار پھر تکليف نے راديا کو گھيرا تو وہ پھر سے رونے اور چيخنے لگی۔ 
واہب نے اب کی بار کسی پر بھی غور کئے بغير تيزی سے اسے بازؤں ميں اٹھايا اور باہر کی جانب دوڑا۔ 
راديا اب تکليف سے اس قدر بے حال ہوچکی تھی کہ مزاحمت کرنے کی اس ميں ہمت نہيں تھی۔ 
پچھلی سيٹ پر احتياط سے اسے لٹاتے واہب ڈرائيونگ سيٹ کی جانب بڑھا۔ 
زيبا اور سميع بھی فورا گاڑی ميں بيٹھے۔ زيبا پيچھے ہی اسکے ساتھ بيٹھ کر اسکا سر اپنی گود ميں رکھتيں اسے سہلانے لگيں۔ 
جبکہ سميع بالکل خاموش واہب کے ساتھ اگلی سيٹ پر تھے۔ 
پاسپٹل پہنچتے ہی وہ اسی طرح اسے بازوؤں ميں اٹھاۓ ايمرجنسی ميں پہنچا۔ 
اسے کوئ پرواہ نہيں تھی کون اسے ديکھ رہا ہے اسے پرواہ تھی تو اسکی جو تکليف سے نڈھال ہورہی تھی۔ چہرے پر خون کی لکير اب سوکھ رہی تھی۔ 
فورا ايمرجنس الرٹ ہوئ۔ 
اسے باہر جانے کو کہا۔ 
واہب، زيبا اور سميع باہر کھڑے ڈاکٹرز کا انتظار کرنے لگے۔ سميع نے بہن کو فون کرکے آنے سے معذرت کر لی۔ فی الحال يہ نہيں بتايا کہ راديا سيڑھيوں سے گری ہے بس اتنا کہا کہ اسکی طبيعت نہيں ٹھيک۔ 
“شرم آتی ہے مجھے يہ سوچ کر کہ ميں نے اس جيسے جنگلی سے اسے بياہ ديا" فون بند کرکے سميع نے سرجھکاۓ کاريڈور کی ديوار کے ساتھ پشت ٹکا کر کھڑے واہب کو ايک نظر تنفر سے ديکھ کر کہا۔ 
اس نے سر اٹھايا۔ 
“آئ سوئير ميں نے اسے نہيں گرايا" وہ پھر سے اپنی بات دہرانے لگا۔ زيبا نے بس ايک تيزی چبھتی ہوئ نظر اس پر ڈالی بوليں کچھ نہيں سر پر دوپٹہ جماۓ وہ تسبيح کرنے ميں مصروف تھيں۔ 
تھوڑی دير بعد ڈاکٹر باہر آيا۔ 
وہ تينوں اسکے گرد کھڑے ہوگۓ۔ 
“بچی کيسے گری ہے۔ اسکی ٹانگ کی راڈ دو جگہ سے کريک ہوگئ ہے نئ ڈالنی پڑے گی۔ تکليف دہ مرحلہ ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ آپ کو بھی صبر سے کام لينا پڑے گا" واہب نے الجھ کر سميع اور زيبا کو ديکھا ۔۔
“بس سيڑھيوں سے اترتے اچانک پاؤں مڑ گيا تھا" زيبا نے نظريں چراتے ہوۓ کہا۔ 
“اوہ۔۔۔ خير اللہ بہتر کرے گا آپ لوگ دعا کريں" ڈاکٹر انہيں تسلی دلا کر اپنے روم کی جانب بڑھا۔
“کون سی راڈ" ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ ان سے مخاطب ہوا۔ 
“تمہيں اس سے کيا" زيبا نے خشمگيں نگاہوں سے اسے ديکھا۔ 
“کيون نہيں مجھےاس سے کچھ۔۔ بيوی ہے وہ ميری" وہ بے بس سا اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ 
“کون سی بيوی ہاں۔۔۔۔ جسے تم نے بيوی نہيں مانا۔ اندھے نہيں ہيں ہم۔۔ تمہارا گريز ۔ تمہاری بيزاری سب نظر آتی ہے ہميں۔ يہی سوچا تھا کہ چلو شروعات ہے ابھی آہستہ آہستہ ٹھيک ہو جاؤ گے۔۔ ليکن نہيں۔، تم نے تو اسکی بڑی عمر کو اس کا جرم بنا ديا۔ نفرت کی اس انتہا تک پہنچ گۓ کہ اس معصوم کے ساتھ يہ سلوک کيا آج" سميع اسے بخشنے کو تيار نہيں تھے۔ 
“اسکی ہڈياں شروع سے مضبوط نہيں تھيں۔ خاص کردائيں ٹانگ کی ہڈياں کمزور تھيں اسی لئے چھوٹے ہوتے ہی ايک دو بار گرنے پر جب اسکی ٹانگ کی ہڈياں ٹوٹيں تو ڈاکٹرز نے راڈ لگا دئيے۔ اور کہاکہ يہ راڈز اب ساری زندگیی اسکی ٹانگ ميں لگيں گے۔ ذرا سا دھچکا يا ٹانگ کا مڑنا اسے عمر بھر کی معذوری کی طرف لے جاۓ گا۔ لہذا احتياط برتيں۔ يہی وجہ تھی اسکی دو بار منگنی ٹوٹنے کی۔سب يہی سمجھتے تھے کہ وہ معذور ہے حالانکہ صرف ہڈياں کمزور تھيں۔ اور ان کا علاج بھی راڈز کی صورت کرکے اس کمزوری کو کوور کر ليا گيا تھا 
مجھے جب شائستہ بھابھی نے بتايا مجھے بے حد تکليف پہنچی تبھی فيصلہ کرليا کہ اس نگينے کو اپنے گھر لے آؤں گی۔ کيا کسی کی ذرا سی کمزوری کو ہم اس کا گناہ بنا ديں۔ ہم کون ہوتے ہيں يہ سب کرنے والے۔ 
تمہيں اس سے دلچسپی ہی نہيں تھی تو تمہيں کيا بتاتے اور پھر جس طرح تم اس رشتے سے ہتھے سے اکھڑ رہے تھے عين ممکن تھا تمہيں بتا ديتے تو تم اسی بات کو جواز بنا کر اس سے شادی سے انکار کرليتے۔ 
مگر مجھے کيا پتہ تھا کہ اس بچی کے ساتھ ايسی ناقدری ميرے ہی گھر ميں ہوگی" زيبا نے روتے ہوۓ اس پر سب راز افشاں کئے۔ 
‘اوہ خدايا' سر تھامے بينچ پر بيٹھے اسے اپنی ہر زيادتی اور اسکی خاموشی ياد آئ۔ تو يہ وجہ تھی اسکی ہر الٹی سيدھی بکواس کو برداشت کرنے کی۔ اف وہ لڑکی اسکے لفظوں کے کون کون سے وار نہيں سہہ گئ۔ 
اسے شديد ندامت نے آگھيرا۔ 
کاش وہ اسے تھام ليتا۔۔ کاش وہ اپنے حواسوں ميں رہتا۔ ايک سيکنڈ کو موبائل چھوڑ کر اسکی جانب ديکھ ليتا۔ 
‘يقینا اسکا پاؤں مڑا ہوگا اور ساتھ ہی راڈ بھی کريک ہونے کی وجہ سے وہ توازن برقرار نہيں رکھ پائ ہوگی۔ اسی لئے اس نے مجھے تھاما ہوگا' سر ہاتھوں پر گراۓ اسے وہ ايک ايک لمحہ ياد آيا۔ اس کا بس نہيں چل رہا تھا وقت کو پیچھے موڑ لے۔ اسکی دلدوز چيخيں اب بھی اسکے کانوں ميں سنائ دے رہی تھيں۔ 
يکدم وہ وہاں سے اٹھ کر ڈاکٹر کے روم مين گيا۔ 
اس سے ڈيٹيل ميں اسکی کنڈيشن کے متعلق بات کی۔ 
“جتنا پيسہ چاہئيے ميں دوں گا۔ مگر اسے معذوری سے بچا ليں۔" وہ آج اس لڑکی کے لئے گڑگڑا رہا تھا جسے وہ اپنی بيوی ماننے سے انکاری تھا۔ جس سے تعلق توڑنے کا بہانا ڈھوںڈتا تھا۔ 
آج دل اسکی تکليف پر رو رہا تھا۔۔۔ کرلا رہا تھا۔
ڈاکٹر کے روم سے باہر آکر وہ سيدھا سامنے بينچ پر بيٹھی زيبا کے پاس آيا۔ 
“آئ سوئير ماں ميں نے اسے دھکا نہيں ديا تھا" واہب نے ايک آخری کوشش کی اپنی صفائ دينے کی۔ 
“تھاما بھی تو نہيں تھا" دل سے کہيں آواز آئ۔ 
“چلو ميں مان ليتی ہوں کہ تم نے ايسی حرکت نہيں کی۔ ليکن آخر وہ تمہارے ساتھ ہی سيڑھياں اتر رہی تھی اگر وہ لڑکھڑائ تھی تو کيا تم سنبھال نہيں سکتے تھے۔" ماں تھيں کيسے نہ اصل بات کی تہہ تک پہنچتيں۔ 
وہ نادم سا خاموش ہوگيا۔
دو دن ہوگۓ تھے انہيں ہاسپٹل مين ڈاکٹرز نے اسی دن نئ راڈ ڈال دی تھی۔ راديا کے گھر والوں کو بھی بتا ديا تھا۔ ايک رات اسکی امی رہيں اور ايک رات زيبا۔ 
تيسرے دن ڈاکٹرز نے ڈسچارج کا کہا۔ 
“مجھے امی کے ساتھ جانا ہے" راديا نے ماں کو ديکھتے ہوۓ کہا۔ وہ مسلسل دو دن واہب کو نظر انداز کرتی رہی۔ حالانکہ وہ سارا وقت وہيں ہوتا تھا۔ 
مگر وہ ايسے شو کرتی جيسے وہ اسکے آس پاس کہيں ہے ہی نہيں۔ سب نے اسکی يہ سردمہری نوٹ کرلی تھی۔ 
“ديکھيں آپ کو جہاں بھی بچی کو لے کر جانا ہے بس يہ ياد رکھئيے گا کہ بيس دن تک اسے وہاں سے کہيں اور موو نہيں کرنا۔" ڈاکٹر اس وقت ڈسچارج شيٹ تيار کررہا تھا جب اس نے يہ بحث ديکھی۔ 
“آنٹی ہم اسے گھر لے جاتے ہيں کوئ ايشو نہيں ہے۔ ويسے بھی آپ لوگوں کا عمرے کا پلين ہے۔ اسے خراب مت کريں۔ يہ سعادت بار بار نہيں ملتی۔ راديا آرام سے گھر پر ہی رہے گی" واہب نے سنجيدگی سے شائستہ سے کہا۔ 
راديا کے علاوہ انکی دو ہی بيٹياں تھيں۔ فرح کی تو شادی ہوچکی تھی اب ساميہ ہی رہ گئ تھی وہ فی الحال پڑھ رہی تھی۔ شائستہ۔۔۔وہاج اور ساميہ کی دو دن بعد عمرہ کی فلائٹ تھی۔ 
راديا نے ايک خفا سی نگاہ ماں پر ڈالی جو واہب کی بات مان گئ تھيں۔ 
وہ منہ پھلاۓ گھر آئ۔ 
“ايسا کرتے ہيں يہ نيچے والے ہمارے کمرے ميں تم لوگ رہ لو ميں اور تمہارے ابو گيسٹ روم ميں شفٹ ہوجاتے ہيں" زيبا نے گھر پہنچتے ہی کہا۔ 
“نہيں امی آپ اور ابو تنگ ہوں گے۔ کوئ مسئلہ نہيں ميں اور راديا گيسٹ روم ميں شفٹ ہو جاتے ہيں۔"واہب نے انہيں فورا منع کيا۔ 
کام والی کو اپنے کمرے ميں بھيجا تاکہ وہ انکے کپڑے گيسٹ روم والی الماری ميں شفٹ کردے۔ 
راديا کو احتياط سے بيڈ پر بٹھايا۔ فی الحال اسے ٹانگ کو موڑنے سے منع کيا گيا تھا۔ 
راديا مسلسل خاموش تھی۔ اسکے چہرے پر ناگواری صاف پڑھی جاسکتی تھی۔ 
زيبا اور سميع کے ساتھ وہ نارمل تھی مگر واہب کو مخاطب تک نہيں کررہی تھی۔ نہ اسکی جانب ديکھ رہی تھی۔ 
واہب نے اسے حق بجانب سمجھا جو کچھ وہ اسکے ساتھ کر چکا تھا اسکے بدلے راديا کا رويہ اسے اپنے ساتھ بالکل ٹھيک لگا۔
رات ميں سونے کا وقت آيا تو تب بھی واہب نے زيبا کو اس کمرے ميں سونے سے منع کرديا۔ 
“آپ آرام سے ريسٹ کريں روزہ بھی رکھنا ہوگا صبح۔۔ بے آرام رہيں گی تو بی پی شوٹ کرجاۓ گا۔ ميں ہوں نا يہاں" واہب کے اصرار پر راديا کا دل کيا اسے بہروپيے کا دماغ ٹھکانے لگادے۔ وہ کيوں اب مہربان ہو رہی تھا۔ اب جب اسے ضرورت نہيں تھی۔ نہ اسکی نہ اس تعلق کی ۔ يہ آخری دھچکا بہت شديد لگا تھا۔ 
کيا تھا اگر وہ انسانيت کے ہی ناطے اسے اس دن تھام ليتا مگر جس طرح اس نے راديا کا ہاتھ جھٹکا۔ وہ جھٹکنا اسکے دل پر گھونسے کی طرح لگا تھا۔ 
اس چوٹ کی درد اب کبھی نہيں جانے والی تھی۔ 
“ديکھ لو بيٹا۔۔ تمہيں تنگی ہوگی۔۔" زيبا نے راديا کا خطرناک حد تک سنجيدہ چہرہ دیکھ کر کہا۔ 
وہ تو ماں باپ تھے انہوں نے واہب کو معاف کرديا تھا مگر وہ جس نے نجانے کيا کيا سہا تھا وہ کيسے معاف کرتی۔ 
“ميں نے فی الحال کچھ دن کا آف لے ليا ہے جو کوئ کام ہوگا وہ ميں گھر پر ليٹ ٹاپ پر کر لوں گا۔باقی ابو سنبھال ليں گے" اس نے رسانيت سے کہا۔ 
“اچھا چلو۔ کوئ مسئلہ ہو تو ہميں جگا دینا" وہ بادل نخواستہ وہاں سے اٹھيں۔ 
“زرينہ سے کہيں يہاں ليٹے۔۔" زيبا کے جاتے جيسے ہی واہب نے دروازہ بند کيا۔ راديا کی سپاٹ آواز سنائ دی۔ 
“ميں ہوں نا آپکے پاس" اس نے جیسے تسلی دلائ۔ 
“آپ ہين اسی لئے پريشانی ہے۔۔ رات کو اٹھ کر گر بھی گئ بيڈ سے تو آپ کيوں اٹھائيں گے" وہ زہر خند لہجے ميں بولی۔ واہب نے بڑے سکون سے اس کا يہ لہجہ برداشت کيا۔ 
کسی قسم کا ری ايکشن نہ ديکھ کر راديا حیران ہوئ۔ 
بڑے آرام سے اسکی دوائياں چيک کرکے اس نے نائٹ بلب آن کيا۔ لائٹ آف کرکے۔ اسکی جانب بڑھا وہ سانس روکے اسے اپنی جانب بڑھتا ہوا ديکھ رہی تھی۔ 
جھک کر اسے شانوں سے تھام کر آگے کيا۔ راديا کو لگا ايک سنسنی سی پورے جسم ميں پھيل گئ ہو۔ جو تين تکيے اسکے پيچھے ٹيک لگانے کے لئے رکھے تھے ان ميں سے دو ہٹاۓ۔ 
پھر اسے بازوؤں آگے کيا کيونکہ اس نے ابھی ٹانگ پر زيادہ زور نہيں دينا تھا۔ 
پھر دوبارہ سے اسے بيڈ پر اس طرح بٹھايا کہ وہ کمر سيدھی کرتی تو آرام سے ليٹ جاتی۔ 
راديا اسکے وجيہہ چہرے کو حيرت بھری نظروں سے ديکھ رہی تھی۔ نہ کوئ ناگواری تھی نہ کوئ بيزاری۔ 
ايسے جيسے محبتيں ٹپک رہی تھيں۔ وہ گم سم اسکی ايک ايک حرکت نوٹ کررہی تھی۔ اسے دوبارہ کندھوں سے تھام کر ��ٹايا۔ 
اسکی حيرت بھری نظروں ميں دیکھتے ايک جاندار مسکراہٹ اسکے چہرے پر پھيلی۔ 
پھر سيدھے ہوکر اسکی ٹانگوں پر کپڑا ديا۔
“کيوں کر رہے ہيں آپ یہ۔۔۔۔" آخر حیرت کو الفاظ ملے۔ 
“ميرا فرض ہے" بڑے آرام سے جواب ديا گيا ۔
“ميری کمزوری تو ويسے بھی اب آپکی نظروں ميں آگئ ہے ۔۔اب تو راستہ صاف ہے۔۔ اسے بہانہ بنا کر مجھے زندگی سے نکال ديں اور کسی اور کا ہاتھ تھام ليں۔" وہ اسکے قريب تکيہ رکھ کر ليٹا۔ ايک ہاتھ سر کے نيچے رکھے بڑی فرصت سے اسکی زبان کے تير سہہ رہا تھا۔۔
“وہ خير ميں لے ہی آؤں گا کسی کو زندگی ميں ۔۔۔۔ليکن آپ کو نہيں نکالنا۔۔ اگر نکال ديا تو لڑوں گا کس سے" شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ وہ اسے پھر سے چڑا رہا تھا۔ 
“ہونہہ۔۔۔" راديا کو جب جواب سمجھ نہيں آيا تو غصے سے منہ دوسری جانب موڑ ليا۔ 
“ذہن پر اتنا بوجھ مت ڈاليں سوجائيں" تکيے پر سر رکھتے اسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ ميں تھاما۔ راديا نے جھٹکنا چاہا تو اور بھی مضبوطی سے تھاما۔ 
“ہاتھ ہٹائيں۔۔۔ کيوں پکڑا ہے" وہ دبے دبے انداز ميں چيخی۔ 
“اسی لئے کہ رات کو جب آپ ہلکی سی بھی جنبش کريں تو ميری آنکھ کھل جاۓ" محبت سے گندھا لہجہ راديا کے زخموں پر جيسے نمک بن کر لگا اور تکليف بڑھا گيا۔ 
“اتنی زحمت کی ضرورت نہيں تھی۔۔ اسی لئے کہا تھا زرينہ کو يہيں رکنے ديں" وہ سرد اور خشک لہجے ميں بولی۔ 
“کچھ دن کے لئے مجھے زرينہ سمجھ لو۔۔ اور اب خاموش ہو کر سوجاؤ۔۔پتہ نہيں کيسی نيند کی دوائ ڈاکٹر نے دی ہے لگتا ہے آپکی نيند اڑ گئ ہے" بڑبڑاتے ساتھ ہی وہ پھر سے آنکھيں بند کرکے ليٹ گيا۔ 
خاموشی چھائ تو راديا کو بھی نيند نے جکڑ ليا۔
___________________________
رات ميں کسی پل اس کا گلا خشک ہوا ايسے جيسے کانٹے چبھنے لگ گۓ ہوں۔ آنکھ کھول کر دائيں جانب سوئے واہب کی طرف ديکھا۔ اس کا ہاتھ ابھی اسکے ہاتھ ميں تھا۔ 
مگر گرفت اتنی مضبوط نہيں تھی۔ 
اس کا احسان لينے کی بجاۓ اس نے سوچا خود اٹھ کر پاس پڑے جگ سے پانی پی لے۔ ابھی ہاتھ آہستہ سے اسکے ہاتھ کے نيچے سے نکال ہی رہی تھی کہ واہب نے پٹ سے آنکھيں کھوليں۔ 
سرعت سے اٹھ بيٹھا۔ راديا نے کوفت سے اسے ديکھا۔ 
“کيا ہوا۔۔ کيا چاہئيے" تيزی سے اٹھ کر بيٹھا۔
“پانی لينا ہے ميں لے ليتی ہوں يہاں ہی تو پڑا ہے" اس کا بيزار سا لہجہ نظر انداز کرتے واہب اٹھا۔ 
اسکی سائيڈ پر آکر اسے اٹھنے ميں مدد دی۔ 
پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگايا جب راديا نے ناگواری سےاس کا ہاتھ جھٹک کر پيچھے کيا۔ 
“ٹانگ خراب ہے ہاتھ سلامت ہيں۔ ميں خود پی سکتی ہوں" راديا کی بات پر اس نے خاموشی سے گلاس اسکے ہاتھ ميں پکڑايا۔ پانی پی کر وہ واپس ليٹ گئ۔ 
“کيوں اتنے اچھے بن رہے ہيں۔۔ اب کون سا ڈرامہ رہ گيا ہے جو پلے کرنا باقی ہے" وہ الجھتی جارہی تھی۔ اسکی کسی تلخ بات پر وہ غصہ ہی نہيں ہورہا تھا۔ آخر ان چند دنوں ميں ايسی کيا کايا پلٹ ہوگئ تھی کہ وہ سب بھول گيا تھا۔ يہ بھی کہ وہ ايک ان چاہے رشتے کے سبب اسکے گھر۔۔ اسکے پاس موجود ہے۔ 
“صرف اتنی غرض ہے کہ شايد ميرے ايسا کرنے سے آپکی کوئ دعا مجھے لگے اور ميرے وہ کام جو سب الٹے ہوگۓ تھے سيدھے ہو جائيں" پرشوق نگاہوں سے اس کا الجھا بکھرا روپ ديکھا۔ 
“دعا تو کبھی نہيں نکلے گی اب" وہ تلخ لہجے ميں بولی۔ 
“لگی شرط" واہب نے يکدم اسکے سامنے اپنی چوڑی ہتھيلی پھيلائ۔ 
“مجھے ايسی بے ہودہ حرکتيں کرنے کا کوئ شوق نہيں" چہرہ موڑ کر وہ سپاٹ لہجے ميں بولی۔ 
اسی لمحے کمرے کا دروازہ بجا۔ 
واہب اٹھ کر بيٹھا۔ 
“آجائيں" زيبا نے اسکی اجازت ملتے ہی قدم اندر رکھے۔ 
“کيسی ہو بيٹا" محبت سے راديا کے قريب آتے اسکے ماتھے پر پيار کيا۔ 
“بہتر ہوں" اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر جواب ديا۔ 
واہب نے حسرت سے اسکی مسکراہٹ ديکھی۔ 
“بيٹا روزہ رکھنا ہے؟" اب ان کا رخ واہب کی جانب تھا۔ 
“جی جی کيوں نہيں۔۔" کہتے ساتھ ہی وہ واش روم منہ ہاتھ دھونے چل پڑا۔ 
“ميں نے بھی رکھنا ہے" اس نے ضد کی۔ 
“بيٹا ويسے تو کوئ مسئلہ نہيں۔۔ليکن دوائياں لينی ہوں گی تمہيں تو" وہ ہچکچائيں۔ 
“آنٹی ميں نے اور کرنا ہی کيا ہے سارا دن تو بس يہيں بيٹھے رہنا ہے کون سا کوئ کام کرنا ہے کہ روزہ لگے گا" اس نے پھر سے کہا۔ 
واہب باہر آکر انکی تکرار سن رہا تھا۔ 
“اوکے آج کا رکھ کر ديکھ لو۔۔ اگر صحيح رہا تو جاری رکھ لينا" واہب نے مسئلہ کا حل نکالا۔ 
“ڈاکٹر سے نہيں پوچھا نا بيٹا" زيبا نے پھر سے کہا۔ 
“آپ سحری تيار کروائيں ميں ڈاکٹر سے ابھی کال کرکے پوچھ ليتا ہون۔ وہ بھی تو اس وقت سحری کے لئے اٹھے ہوں گے نا" اس نے موبائل پکڑتے ہوۓ ايک اور حل نکالا۔ 
راديا نے چور نظروں سے اسکی چوڑی پشت ديکھی۔ 
پھر ڈاکٹر کی اجازت ملتے ہی واہب اس کی اور اپنی سحری کمرے ميں ہی لے آيا۔ بيڈ پر زرينہ نے سب سليقے سے رکھا۔ 
واہب نے اسکی پليٹ ميں سالن نکالا۔۔روٹی اسے تھمائ۔۔
سحری کرنے کے بعد راديا نے وضو کرنے کی بھی ضد کی۔ 
“ميں بيٹھ کر تو نماز پڑھ سکتی ہوں نا" اسکی بات پر واہب نے اثبات ميں سر ہلاتے اسے سہارا دے کر کھڑا کيا۔ آہستہ آہستہ اسے چلاتے واش روم تک لے کر گيا۔ 
اس کی کمر کے گرد بازو باندھتے اسے وضو کرنے کا اشارہ کيا۔ راديان نے بازوؤں تک سب وضو آرام سے کرليا۔ اب پاؤں دھونے کی باری تھی۔ 
“باہر چلو ميں ايک باؤل مين پانا لاتا ہوں ہاتھوں پر لگا کر ہلکا سا مسح کرلينا" واہب کی بات پر اس نے ہولے سے سر ہلايا۔ واہب نے دوبارہ اسکے کندھوں کو تھام کر ہولے ہولے چلاتے بيڈ کے قريب لايا پھر بٹھاکر اسکی ٹانگ آہستہ سے تھام کر اوپر رکھی۔ 
ايا باؤل ميں پانی لايا راديا نے مسح کرکے دوپٹہ نماز کے انداز ميں باندھا اور بيٹھ کر نماز ادا کی۔ 
واہب بھی اتنی دير ميں نماز سے فارغ ہوا۔ 
“مجھے قرآن پکڑا ديں گے؟" ايک اور خواہش۔۔ 
واہب سر ہلاتے باہر گيا۔ واپسی پر اسکے ہاتھ ميں قرآن تھا۔ 
راديا کو پکڑايا۔ اور خود دوسری جانب جاکر ليٹ گيا۔ 
راديا زير لب قرآن پڑھ رہی تھی۔ 
“سنو" يکدم واہب نے اسے پکارا۔ راديا نے سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔ 
“اونچی آواز ميں قرآت کرو" اسکی فرمائش پر راديا نے لب بھينچے۔ وہی دن پھر سے ياد آيا۔ 
ٹھنڈی سانس لے کر اونچی آواز ميں پڑھنے لگی۔ 
واہب نے سر اسکے قريب اسی انداز ميں رکھا۔ 
اسکی آواز کی مٹھاس اس کے اندر گھلتی جارہی تھی۔
____________________________
وہ تيزی سے ری کور کررہی تھی۔ بوتيک کا کام اسکی اسسٹنٹ سنبھال رہی تھی۔ ايک آدھ دن بعد زيبا چکر لگا ليتی تھيں۔ وہ سب اسے ہتھيلی کا چھالا بناۓ ہوۓ تھے۔ 
باقی سب کی محبتوں پر تو اسے شک نہيں تھا ليکن واہب کا خيال رکھنا اور يوں اسے اہميت دینا اسکے اندر آگ لگا ديتا تھا۔ 
اپنی کم مائيگی کا ايک ايک لمحہ ياد آتا تھا۔ 
اسکے لفظوں سے دئيے جانے والے زخم ابھی ہرے ہی تھے۔
سارا دن اسکے پاس ہی کمرے ميں رہتے وہ آفس کا کام کرتا رہتا۔ اور اس دوران اس کا ايک ايک کام خود کرتا۔ 
آخری عشرہ بھی اختتام کو تھا۔ جب اس دن وہ مارکيٹ گيا اور واپسی پر راديا کے لئے ڈھيروں شاپنگ کرکے لايا۔ 
رات ميں جس وقت وہ اسے چيزيں دکھا رہا تھا اس کا دل کيا سب کچھ اٹھا کر گھر سے باہر پھينک دے۔۔ وہ کيوں يہ سب عنايتيں کررہا تھا۔ اب کيا مقصد تھا اس کا۔ 
“بس کريں۔۔۔ اتنے اچھے بننے کی ضرورت نہيں۔۔ آپ کا اصل روپ ديکھ چکی ہوں تو پھر اب يہ اچھائ کا ماسک پہن کر کيا ثابت کررہے ہيں۔۔ ہاں" وہ غصے ميں بھڑکتی ہوئ سب چيزيں ہاتھ مار کر بيڈ سے گرا چکی تھی۔ 
“اگر آپ کی يادداشت کھو چکی ہے تو بتاتی چلوں کہ آپ سے عمر ميں پانچ سال بڑی ہوں ميں۔۔ايک ان چاہی بيوی۔۔۔مجھ سے تو نفرت تھی آپ کو ۔۔ پھر يہ نوازشيں کيوں۔۔
۔ بے فکر رہيں کسی کو آپکے بارے ميں کچھ نہيں بتاؤں گی۔۔ جب دوسری شادی کا کہيں گے آپ کا ساتھ دوں گی۔ مگر يہ سب کرکے ميری اذيتوں ميں اضافہ مت کريں۔۔۔۔ پليز" وہ بے اختيار ہو کررو پڑی۔ 
“اگر ميں اپنے کئے کی معافی مانگوں کيا پھر بھی يقين نہيں آۓ گا" واہب ايک ايک چيز اٹھا کر سامنے پڑے صوفے پر رکھ کر اسکی جانب آيا۔ اسکے قريب نيچے ��يٹھتے ہوۓ بولا۔ 
“کيوں ۔۔ کيوں چاہئيے معافی۔ آپ درست تھے۔۔ اور آپ درست ہيں۔۔ مجھے اپنے ماں باپ کی مجبورياں نظر نہ آتيں تو کبھی ايسا ابنارمل رشتہ نہ جوڑتی۔۔ ہر لمحہ ہر لمحہ آپ نے مجھے يہ احساس دلايا کہ ميں کوئ عمر رسيدہ عورت آپکے پلے بندھ گئ ہوں۔۔۔ مجھے اب آپکی معافی سے کوئ سروکار نہيں۔۔ 
ہمدردی کررہے ہيں نا۔۔ معذور ہوں مگر اتنی نہيں کہ اپنا بوجھ خود نہ اٹھا سکوں گی۔ بس اپنے ٹھيک ہونے کا انتظار کررہی ہوں جيسے ہی چلنے پھرنے لگی۔ آپ کی زندگی سے چلی جاؤں گی" اس کا ايک ايک لفظ واہب کو تکليف سے دوچار کررہا تھا۔ 
“يہ ہمدردی نہيں ہے بے وقوف" وہ ہولے سے مسکرايا۔ 
“اوہ۔۔بس کريں۔۔ محبت کے جھوٹے ڈھونگ مت رچائيں۔ صرف اسی لئے کہ ميں آپکی شخصيت سے متاثر ہوکر آپکے عشق ميں گرفتار نہيں ہوئ۔ آپ سے رحم کی بھيک نہيں مانگی۔۔۔ تو اس سب کا بدلہ يوں لے رہے ہيں۔ مجھ سے فلرٹ کرکے۔۔۔”
“ آنسو بے دردی سے صاف کرتی وہ بدگمانيوں کی انتہا پر تھی۔ 
“ہمارے معاشرے کا الميہ يہ ہے کہ بڑی عمر کی عورت سے شادی نہيں کرنی۔ ہاں فلرٹ جائز ہے۔ 
نجانے کتنی لڑکياں مجبوريوں کی آڑ ميں گھروں ميں بيٹھی ہيں۔ مگر لڑکوں نے ناجائز تعلقات تو بنا لينے ہيں مگر کسی بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرکے اسے عزت نہيں دينی۔ 
اگر يہ ايسا ہی گناہ کا کام ہوتا تو ہمارے اسلام ميں ۔۔ ہمارے آخری پيارے نبی اپنی پہلی ہی شادی ايک بڑی عمر کی عورت کے ساتھ نہ کرتے۔ دس سال ۔۔۔پندرہ سال۔۔ حتی کے بيس بيس سال چھوٹی لڑکيوں سے شادی کرتے ہوۓ آپ جيسے لڑکوں کو شرم نہيں آتی ۔ مگر بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے غيرت جاگ پڑتی ہے۔ ناانصافی لگتی ہے۔ 
چار شاديوں کے لئے تو آپ مردوں کو دين ياد آجاتا ہے کيونکہ وہاں اپنی غرض شامل ہوتی ہے۔ 
ہاں ليک�� بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے وقت اسے گناہ تصور کيا جاتا ہے ايسے جيسے وہ اچھوت ہو۔
آپ نے بھی مجھے اچھوت سمجھا۔ شروع دن سے بس يہی باور کروايا۔ ميری عمر بڑی ہے۔۔ ميری عمر بڑی ہے
کيا سوچ کر اب آپ محبت کے دعوے کررہے ہيں۔مطلب بھی جانتے ہين محبت کا۔۔ احساس۔۔ پيار۔۔۔ ايک دوسرے کو سمجھنا۔ ايک دوسرے کے لئے قربانی۔ آپ تو ميرا ہاتھ نہيں تھام سکتے مجھے سہارا نہيں دے سکتے۔ 
ہا۔۔۔ محبت کريں گے مجھ سے"جب وہ بولے پر آئ تو اگلے پچھلے تمام حساب چکا دئيے۔ واہب نے اسے ايک پل کو بھی نہيں ٹوکا۔ 
جتنی نفرت اسے دی تھی اسکے حساب سے تو يہ کچھ بھی نہيں تھا۔
“ہاں ميں جانتا ہوں مجھ سے يہ سب غلطياں سرزد ہوئيں۔ وہ شايد ردعمل تھا۔ 
کوئ بھی ميری بات سمجھنے کو تيار نہيں تھا۔ اور پھر لوگوں کی رشتہ داروں کی چہ مگوئياں۔ ہماری شادی پر بہت سے لوگوں کو مين نے يہ کہتے سناکہ' زيبا بھابھی اور سميع بھائ کو اتنی کيا جلدی تھی واہب کی شادی کی۔ اچھے بھلے لڑکے کی پانچ سال بڑی سے شادی کردی' تو کوئ يہ کہہ رہا تھا کہ' شہاب کا کيا دھونے کی خاطر بيچارے واہب کو پھنسا دیا’ 
خود سوچو ہم ايک معاشرے ميں رہتے ہيں جہاں ہر سوچ اور ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہيں۔ اور لوگوں کی باتيں اتنی کاٹ دار ہوتی ہيں کہ وہ اچھے بھلے انسان کا دماغ خراب کرديں۔ 
ميں پہلے ہی الجھا ہوا تھا اس پر لوگوں کی باتيں۔ 
بس ميں وہ سب کرگيا جو مجھے نہيں کرنا چاہئيے تھا۔ 
مگر آپ اگر تھوڑا سا مجھے سمجھ ليتی شايد حالات بہتر ہوتے۔ 
آپ کا دل شکن رويہ ميری ہر بات پر پورا مقابلہ۔۔" اسکی بات ختم نہيں ہوئ تھی کہ راديا کچھ کہنے کے لئے منہ کھولنے لگی۔
“پليز پوری بات سن لو" واہب نے اسے روکا۔ 
“ميں آپ کو قصوروار نہيں کہہ رہا کيونکہ شروع ميں نے کيا تھا۔ ظاہر ہے آپ کو اپنا بھرم رکھنے کے لئے اتنا تو کرنا ہی تھا۔ 
بہرحال جو بھی ہوا ميں اپنے کئے پر بے حد نادم ہوں۔ بس اتنی خواہش ہے کہ مجھے معاف کردو۔ 
آپکا ہاتھ جھٹکنے کا کفارہ تو ساری عمر دينا ہوگا۔ 
مگر آپ اب ميرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک کر بدلہ لے رہی ہو" واہب اسے اپنے رويے کی ايک ايک وجہ بتاتا چلا گيا۔ 
“نہيں واہب ميں اتنی آسانی سے وہ سب نہيں بھول سکتی۔ بنا کسی قصور کے آپ نے اتنا کچھ کہہ ديا۔۔مجھے عجيب نفرت ہونے لگ گئ ہے خود سے" وہ کھوۓ ہوۓ لہجے ميں بولی۔ 
“اچھا بتاؤ کيا کروں کہ آپ ان سب باتوں کو بھول جاؤ" واہب نے ہتھيار پھينکتے ہوۓ مصالحت بھرا لہجہ اپناتے ہوۓ کہا۔ 
“مجھے اپنی زندگی سے جانے ديں" راديا کی بات پر وہ سن رہ گيا۔ 
“اور کتنی اذيت دوگی" کيا کچھ نہيں تھا اس بے بس لہجے ميں۔ 
“جب تک ميری اذيت کم نہيں ہوتی" وہ گود ميں رکھے ہاتھوں کی جانب دیکھتے کھردرے لہجے ميں بولی۔ 
واہب نے لب بھينچے۔ اس کے پاس سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ 
چند لمحے اسکے جھکے سر کو دیکھتا رہا۔ 
پھر جھک کر اسکی پيشانی پر محبت کی مہر ثبت کر کے پيچھے ہٹ گيا۔ 
راديا نے نفرت سے ماتھا رگڑا۔ 
جيسے اس کا لمس مٹانے کی کوشش کررہی ہو۔ 
واہب نے تکليف سے يہ منظر دیکھا۔ 
خاموشی سے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گيا۔ 
راديا اب خود کافی ہل جل ليتی تھی۔ 
گردن موڑ کر اسے باہر جاتا ديکھا۔ 
پھر خاموشی سے آگے ہوئ اور تکيے پر سر رکھ کر ليٹ گئ۔ دل کی بھڑاس تو نکال چکی تھی مگر نيند پھر بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھی
______________________________
وہ بے مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا۔ ايک ہاتھ اسٹيرنگ پر تھا تو دوسرا بالوں ميں پھير رہا تھا
راديا کا ايک ايک لفظ سچ تھا۔ واقعی اس معاشرے ميں ہم نے ايک نہايت جائز رشتے کو گناہ بنا ديا ہے۔ 
جہاں کوئ لڑکا بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرے۔ نہ صرف لڑکے کو باتيں سنائ جاتی ہيں۔ ب
بلکہ لڑکی کو سب سے زيادہ تضحيک کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ بار بار يہ جتايا جاتا ہے کہ'اپنی عمر ديکھے اور يہ لچھن’ 
‘ہو ہاۓ۔۔چھوٹے لڑکے سے شادی کرلی اتنا بھی کيا بے شرمی۔’ 
‘اس کو ديکھو اسکی جوانی ہی ختم نہيں ہورہی اپنے سے چھوٹے سے شادی کرڈالی۔' اور نجانے کتنے ہی ايسے زہر ميں ڈوبے الفاظ استعمال کئے جاتے ہيں۔ 
ايک لڑکا اور لڑکی چاہے جس بھی عمر کے ہوں وہ ناجائز تعلق قائم کرليں۔ ہميں وہ گوارا ہے مگر کيا جائز رشتے ميں بندھ جائيں تو اسے ہم ناجائز بنانے پر تل جاتے ہيں۔ 
واہب کو اپنا آپ بالکل خالی محسوس ہورہا تھا۔ 
پڑھا لکھا ہو کر بھی اس نے کتنی گھٹيا حرکت کی تھی۔ 
وہ جب جب اسکے ساتھ کھڑی ہوتی اسے ماں کے الفاظ ياد آتے۔' تم اس سے بڑے لگتے ہو وہ چھوٹی ہی لگتی ہے' وہ اتنی نازک سی تھی کہ واہب کو کئ بار ماں کی کہی يہ بات سچ لگی۔ 
اور اگر وہ اتنی کامنی سی نہ بھی ہوتی تو بھی کيا۔ 
بہت سی لڑکياں شادی کے بعد اتنی بے ڈول ہوجاتی ہيں کہ مياں سے بڑی لگتی ہيں۔ چاہے دس سال چھوٹی ہوں۔ 
‘افف ميں نے کيوں اتنی جلدبازی اور بے وقوفی کا ثبوت دیا تھا' اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا۔ 
کيسے وہ اسکے دل سے اپنے الفاظ کو کھرچ ڈالے۔
صحيح کہتے ہيں 'زبان سے نکلے الفاظ اور کمان سے نکلا تير کبھی واپس نہيں آتے' بس پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ 
اور وہ پل پل اب اس پچھتاوے کی آگ ميں جھلس رہا تھا۔
There’s a time of day
When the night it seems like it’s never gonna fall
But I find a way
Yeah I’ll fight and if I can’t walk you know I’ll crawl
When I close my eyes
Well I’m back to where I wish I was for now
Going back in time
And I stay as long as my mind will allow
So tell me once, tell me twice
Tell me three times, tell me four
Tell me what ya want to do
Tell me what you need
Tell me what you seem to dream the most
Cause I’ll be anything for you
Well I don’t know why
But time can’t seem to temper my regret
Sometimes I lie
To myself and say I’ve learned how to forget
Well it seems to me
That you couldn’t help yourself but to deceive
And I came to see
That the way I’ve learned to live is justly
I’m running circles
I’m outta my mind
I lost my grip
On this thing called time
I’m gone
It’s gone
I’m empty still
But I’ll keep moving
I always will
I’m gone
وہ پل پل اس آگ ميں جھلس رہا تھا کہ کاش وہ وقت کو پيچھے لے آتا۔۔ کاش وہ اپنے اور راديا کے رشتے کو يوں بگاڑنے کی بجاۓ کچھ وقت دے ديتا۔ 
مگر اب لگتا تھا کچھ نہيں بچا۔ وہ تو واپس پلٹنے کو تيار ہی نہيں تھی۔
_____
0 notes
keomusic · 4 years
Text
دانلود آهنگ ای عشق از داود بهبودی
دانلود آهنگ قدیمی ای عشق از داود بهبودی
با دانلود و شنیدن این آهنگ لذت ببرید هم اکنون آهنگ قدیمی داود بهبودی به نام ای عشق در کئوموزیک
دانلود آهنگ ای عشق داود بهبودی
Download new Music by Davood Behboodi name is Ey Eshgh
متن اهنگ ای عشق
♫======کئوموزیک=====♫ عشق به شکل پرواز پرندست عشق خواب يک آهوي روندست من زائري تشنه زير باران عشق چشمه آبي اما کشندست من ميمرم از اين آب مسموم اما اونکه از مرده عشق تا قيامت هر لحظه زندست من ميميرم از اين آب مسموم مرگ عاشق عين بودن اوج پرواز پرندست تو که معناي عشقي به من معنا بده اي يار دروغ اين صدا را به گور قصه ها بسپار صدا کن اسممو از عمق شب از لب به ديوار براي زنده بودن دليل آخرينم باش منم من بذر فرياد خاک خوب سرزمينم باش طلوع صادق عصيان من بيداريم باش عشق گذشتن از مرز وجوده مرگ آغاز راه قصه بوده من راهي شدم نگو که زوده اون کسي که ♫ سرسپرده مثل ما عاشق نبوده من راهي شدم نگو که زوده اما اونکه عاشقونه جون سپرده هرگز نمرده ♫♪♫♪♫♪♫♪
♬======کئوموزیک=====♬
نوشته دانلود آهنگ ای عشق از داود بهبودی اولین بار در دانلود آهنگ. پدیدار شد.
source https://keomusic1.ir/%d8%a7%db%8c-%d8%b9%d8%b4%d9%82-%d8%af%d8%a7%d9%88%d8%af-%d8%a8%d9%87%d8%a8%d9%88%d8%af%db%8c.keo
0 notes
vdcnsy · 5 years
Photo
Tumblr media
التحالف يعود بـِ 3 قواعد جديدة، الغزو التركي يُحوّل القامشلي لمنطقة صراع دولي مع انسحابات قوات سوريا الديمقراطية المتتالية وفقاً للاتفاق الروسي- التركي، بدأت معالم السيطرة تتوضح يوماً بعد يوم شمال سوريا، حيث باتت المنطقة الممتدة من القامشلي إلى عين ديوار تحت النفوذ الأميركي، بينما المنطقة الممتدة من القامشلي إلى رأس العين (سري كانييه) ومن تل أبيض إلى كوباني تحت النفوذ الروسي، أما المنطقة الممتدة من رأس العين إلى تل أبيض فتخضع للنفوذ التركي والفصائل الموالية لها، مع تواجد مُتزايد لقوات النظام السوري في مدينة القامشلي وما حولها، في الوقت الذي تشهد فيه محاور بمنطقة أبو رأسين وريف تل تمر الواصل إلى رأس العين اشتباكات متجددة بين "قسد" والفصائل الموالية لأنقرة حالها كحال المنطقة الواقعة بين عين عيسى وتل أبيض.
0 notes
arabipress · 4 years
Text
بايدن يناقض نفسه في سوريا، ما سر التحرك باتجاه عين ديوار؟ - مرصد العربي برس
العالم – سوريا تغيب أي بوادر اهتمام لدى الإدارة الأميركية الجديدة بالملف السوري، الذي لم يتشكل إلى الان الفريق المعني به، وهو ما يرجح ربطه كملحق، مثلما كان متوقعا، بالملفين التركي والإيراني. وفي ظل غياب معالم سياسة واضحة لدى إدارة جو بايدن حيال سوريا، تسجل التحركات الأميركية الميدانية في هذا البلد تناقضا كبيرا، ما بين … https://s.alarabi.press/StRnm
0 notes
hamacitylive · 3 years
Text
دورية روسية تتجول في مواقع قصفتها القوات التركية بريف الحسكة
دورية روسية تتجول في مواقع قصفتها القوات التركية بريف الحسكة
تفقدت الشرطة العسكرية الروسية مواقعاً وقرىً استهدفها قصف القوات التركية أقصى شمالي شرق محافظة الحسكة. وأفادت مصادر محلية لـ “أثر” بأن دورية من الشرطة العسكرية الروسية من قاعدة مطار القامشلي مؤلفة من ثلاث مدرعات تجولت اليوم السبت، في بلدة عين ديوار الحدودية في ريف المالكية. وتابعت المصادر أن الدورية الروسية جابت القرية والموا��ع التي تعرضت للقصف التركي والتقت عدداً من المدنيين. وكانت قرية عين ديوار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
belbalady : فيديو.. الجيش السوري يستكمل انتشاره على الحدود مع تركيا بطول 200 كم
belbalady : فيديو.. الجيش السوري يستكمل انتشاره على الحدود مع تركيا بطول 200 كم
November 15th, 10:48amNovember 15th, 10:48am
بالبلدي | BeLBaLaDy
عرضت فضائية روسيا اليوم، تقريراً مصوراً للحظة انشار الجيش السوري، حيث استكملت قوات الجيش انتشارها على الحدود مع تركيا في محافظة الحسكة بدءا من ريف رأس العين غربا وصولا إلى بلدة عين ديوار بريف المالكية شرقا بطول أكثر من 200 كم.
قالت "قوات سوريا الديمقرطية" (قسد) الجمعة إن الجيش التركى والفصائل الموالية له شردوا نصف مليون كردى، حسبما أفادت قناة (العربية الحدث) الإخبارية.
  وكانت قوات "قسد" قالت - الأسبوع الماضي - إن تركيا احتلت 1100 كيلومتر مربع من الأراضي منذ اتفاق وقف إطلاق النار وقتلت 182 وجرحت 242 من مقاتلينا منذ الاتفاق، كما تسببت في نزوح 30 ألف مدني من مناطقهم منذ اتفاق وقف إطلاق النار، مشيرة إلى أن تركيا تنتهك وقف إطلاق النار وتزيد من حجم الكارثة الإنسانية بشكل متعمد ومدروس.
وأشارت إلى أن تركيا وجيشها والفصائل المسلحة التابعة لها لم تلتزم بعملية وقف إطلاق النار التي أبرمت بينها وبين الولايات المتحدة الأمريكية وبالتشاور مع قوات سوريا الديمقراطية يوم 17 أكتوبر.
 إخلاء مسؤولية إن موقع بالبلدي يعمل بطريقة آلية دون تدخل بشري،ولذلك فإن جميع المقالات والاخبار والتعليقات المنشوره في الموقع مسؤولية أصحابها وإداره الموقع لا تتحمل أي مسؤولية أدبية او قانونية عن محتوى الموقع. "جميع الحقوق محفوظة لأصحابها" المصدر :" اليوم السابع "
0 notes
iranayande · 5 years
Text
روایتی از زندانهای جمهوری اسلامی
مقرراتي در سطح بند وجود داشت كه زنداني مكلف به رعايت آن بود. تخطي از هر يك از آنها عواقبي در پي داشت. نوع مجازات در مقايسه با عدم رعايت اين مقررات، به هيج روي تناسبي نداشت. تخلف از مقررات در داخل بند ماهيت پيچيده ي سياسي بخود مي گرفت كه با توجه به مواضع فرد زنداني تلقي و تعبير مي شد. همچنان كه بيرون از بند زندانبانان و بازجويان مجريان اين مجازات ها بودند، در درون بند توابين به نگاهبانان و حافظان مقررات ريز و درشت و گاه مضحك تبديل شده بودند. در واقع مقررات درون بند به كانون منازعه توابين و زندانيان مقاوم تبديل شده بود. قبل از شام ساعت نماز بود. در اتاقي كه بودم، اتاق ۵ همه نماز مي خواندند. ابتدا گمان بردم لابد زندانيان در اين سلول همه طرفدار مجاهدين خلق باشند، اما اينطور نبود. فضاي به غايت وحشت باري كه دژخيمان و شكنجه گران در زندان بوجود آورده بودند در واقع همه را و تمامي جنبه هاي وجودي انسان را دچار بليه اي كرده بود كه راه گريزي جز وانمود كردن به برخي شعائر به منظور برخورداري از حداقل هاي حاشيه ي امنيتي متصور نبود. زندان صحنه ي ويرانگري هويت و تخريب جان ها، اراده ها و انديشه ها بود. گونه اي ايده آل از فضايي كه لاجوردي و جنايتكاراني چون او به آن تجسم عيني بخشيده بودند. يك سيستم جهنمي كه تواب سازي در دانشگاه انسان! سازي ناميده مي شد. در نامه هاي زندان نيز اجبار بود تا آدرس را با عبارت آموزشگاه ... آغاز كنيم. در حاليكه آنجا زنداني مخوف بيش نبود كه به قلع و قمع و كشتار بي رويه ي انسانها اشتغال داشتند. اين سياست توسط بازجويان و عوامل زندان باخشونت و بيرحمي فراتر از فرايند هويت زدايي با تكيه بر شكنجه عمل مي كرد. اما اين همه ي واقعيت نبود. زمان زيادي نياز نداشتي تا دريابي تقريبا همه زندانيان، خردمندانه زرهي بر آداب روزانه و انديشه هاي خود پوشانده اند تا فقط از شدت شكنجه، آزار، فشارهاي جسمي و روحي بكاهند كه بي وقفه در زندان توسط زندانبانان اعمال مي شد. قداست ساحت انساني شكسته و به حريم حرمتش آسيب رسيده بود. اعمال رفتارهاي غيرمتعارف و انواع شكنجه مرز و حدي نمي شناخت و خصوصي ترين وضعيت فرد را شامل مي شد. اينكه چه فكر كند و حتي چگونه فكر كند. فشار در زندان به قدري بود كه هر كس به لطايف الحيلي سعي بر كم كردن آن ضمن حفظ مواضع خود داشت و اين البته تيزهوشي، تسلط و ترفندهاي هشيارانه اي را مي طلبيد. اين ميزان از كنترل، سركوب و فشار موجب شده بود كه تفكر و داشتن هر ايده اي بشكلي خاموش و در خفا جريان داشته باشد. شايد بتوان گفت غالب زندانيان دو گونه ي متفاوت از طرز زندگي، و يا به عبارت صحيح تر اعتقادات دروني و آداب بيروني در زندان داشتند. آنچه كه از يك سو در معبد انديشه بدان باور داشتند و آنچه از سوي ديگر بخاطر كم كردن آزار و اذيت و رفتارهاي غيرانساني به آن تظاهر مي شد. شكنجه گران از تمامي ابزارها، امكانات و قدرت مطلق خود براي شكستن زنداني بهره مي بردند. بنابر اين نمي توان يك زنداني را براي خواندن نماز تواب ناميد. تواب كسي است كه عليه زنداني با زندانبانان همكاري كند. در زندانهاي جمهوري اسلامي تنها در دوران بازجويي نيست كه زنداني بخاطر پرو نده اش به زير بازجويي، شكنجه و تحمل اعمال وحشيانه مي رود. اين حكومت فقط به تخليه ي اطلاعاتي زنداني اكتفا نمي كرد. بلكه بر خلع هويت فردي او نيز همت گماشته بود. سيستم بدين گونه عمل مي كرد كه ثانيه اي از زير نگاه آنان رهايي و گريز ي نبود چه به واسطه ي زندانبانان و چه توسط عناصر تواب. زنداني پيوسته زير ذره بين و كنترل بود و از شر آزار و اذيت مداوم رهايي نداشت. حتي بعد از پروسه ي بازجويي، دادگاه و دريافت حكم همچنان تضييقات چند سويه ادامه داشت. از سوي زندان بانان، توابين و عوامل ديگر مانند مقررات غيرمعقول و آزارنده زندان در تمامي ابعاد و زواياي آن. روزهاي اول در بند عمومي همه چيز ضمن اينكه برايم بسيار تازگي داشت اما گاه در عين حال تعجب آور هم مي نمود. اتاق يا سلولي كه در آن بودم شايد كم و بيش پنجاه نفر را در خود جاي داده بود. در حاليكه به هيچوجه داراي چنين ظرفيتي نبود و بنابراين مي توان بسادگي تصور كرد كه نحوه ي زيست زندانيان در آن با چه دشواري هايي همراه است. پتوهاي سربازي و وسايل خواب مانند كاناپه اي دو طرف اتاق قرار داده شده بود. يك تلويزيون نيز بر ديوار روي پايه ي مخصوص تعبيه شده بود. يك تخت سه طبقه در سمت چپ در ورودي اتاق قرار داشت كه محل نگهداري ظروفي مانند بشقاب، ليوان، قاشق و غيره و لوازم اضافي زندانيان بود. به هنگام افطار سفره هايي به رنگ سفيد با عرض شايد نيم متر در سطح اتاق چيده شد. كارگري اتاق كه بين افراد به نوبت تقسيم مي شد عهده دار انجام كار هايي مانند جارو زدن، شستن ظروف، تقسيم غذا و چاي، چيدن سفره و غيره بودند. هر فرد با خود قوطي هاي شامپو و مايع ظرفشويي بر سر سفره آورد كه بسيار باعث تعجبم شده بود. زندانيان براي نگهداري سركه يا آبليمو از اين ظروف پلاستيكي استفاده مي كردند. چرا كه داشتن ظروف شيشه اي در داخل بند ممنوع شده بود. علت ممنوعيت آن نيز اقداماتي چند براي خودكشي از سوي برخي زندانيان بود كه تاكنون به طور موفقيت آميز يا ناموفق صورت گرفته بود. زندانهاي جمهوري اسلامي فضا و مكاني پر تلاطم از سختي، اضطراب، تهديد، وحشت، فشار و ضربه هاي روحي و جسمي، نگراني براي ياران، همبندان، خود و ديگران، دغدغه ي فرساينده ي برملا شدن اطلاعات داده نشده، نگراني براي كودكان، مادران سالخورده و يك دل نگراني و استرس بي وقفه و طاقت فرسا ست كه گاه توان از زنداني مي گيرد. زنداني در اين فراز و نشيب بغرنج، سخت و دهشتناك گاه تعادل روحي و رواني خود را از دست مي داد و يا به دلايل مختلف ديگر كه ارتباط مستقيم با زندان و سيستم ضد انساني آن داشت اقدام به خودكشي مي كرد. خودكشي نيز به اشكال مختلف صورت مي گرفت. بريدن رگ با شيشه، حلق آويز، بلع داروي نظافت و يا قرص به تعداد زياد كه به مرور زمان جمع آوري شده بود. يك زنداني با عنوان مسئول بهداشت عهده دار توزيع دارو در نوبت هاي مختلف در شبانه روز بود و زنداني مجاز به داشتن دارو نزد خود نبود. برسر سفره هم بدليل كمبود جا زندانيان بشكل مخصوصي مي نشستند كه كمترين جا را اشغال كرده تا ديگران نيز بتوانند همگي همزمان بر سر سفره باشند. يك زانو روي زمين قرار مي گرفت و زانوي ديگر در بغل. به تبع آنها وقتي خواستم بدين گونه بنشينم به علت مشكلي كه همچنان با پايم بدليل شكنجه ها و ضربات كابل داشتم قادر نبودم. علاوه بر اينكه ناخن انگشت پايم هم افتاده و هنوز ترميم نشده بود. هم اتاقي هايم متوجه شدند. به همين دليل از كار بند كه به دو دسته خشك و خيس تقسيم مي شد به مدت بيش از يكماه معاف شدم و نيز محل خواب من در زير پنجره تعيين شد جايي كه به مادران با فرزند، يا افراد بيمار و يا احتمالا امثال من اختصاص مي يافت تا هر چه كمتر در معرض آسيب باشند. جالب آنكه هم اتاقي هايم بجز دوسه نفري كه خشم از دژخيمان را در نگاهشان در سكوت خواندم و از سر همدلي با من رد و بدل شد، بقيه چهره اي اندوهناك و غمزده از خبر ضربات كابل بخود نگرفتند بلكه بعكس، با در نظر گرفتن جنبه ي ديگر ماجرا يعني معاف شدنم از كار، به شوخي پرداختند و اين خود نشانه ي وجود روحيه ي خوب و بالاي آنها عليرغم آنهمه فشار و تبعاتش بود. آنچه در لحظه لحظه هاي آن دقايق تلخ و وقايع هولناكي كه در پيرامون مان در جريان بود و به وضوح احساس مي شد حسي شگرف از شور و شادي آفريني و روحيه ي خوب زندانيان بود. بر سر سفره به دليل اينكه تازه وارد بودم خطاب گفتگوهاي دوستانه و طنزآميز و شوخي هاي صميمانه اي قرار گرفتم كه احساسي خوشايند پس از آنهمه تنهايي در انفرادي و شكنجه به من مي بخشيد و دغدغه ي بازجويي فردا را از ياد من مي برد. مثلا از من به طنز و شوخي مي پرسيدند راستي اتوبوس ها سه طبقه نشده اند! قطارهاي هوايي نصب شده اند! براي اوين هم ايستگاه داره! با اتوبوس هوايي آوردنت اوين يا قطار برقي! آنچه در اين ميان مايل بودم بدانم آن بود كه (م.) پسرك دو ساله كه چشم شناخت خود را در زندان باز كرده و محيط پيراموني اش بدان محدود مي شد چه استنباطي از واژه هاي ايستگاه، قطار و اتوبوس هوايي و غيره دارد. از بس حكم ها ارقام نجومي داشت يا بهتر بگويم تناسبي بين كيفرخواست و حكم صادره وجود نداشت، هم اتاقي هايم به فانتزي هاي طنزآلود در همين زمينه با يكديگر پرداختند كه موجب نشاط و خنده ي بسياري شد. يكي از بچه ها كه در پروسه ي بازجويي اش بسيار مقاومت كرده و بيست يا بيست و پنج سال (بدرستي بياد نمي آورم) فقط بخاطر يك هواداري ساده از يك گروه چپ حكم گرفته بود گفت وقتي ميخوام آزاد بشم مرا با اتوبوس هوايي يا قطار برقي مي فرستند خونه. ديگري مي گفت بعد اگه يادت رفت و دندون مصنوعي ات را جا گذاشتي از پشت بلندگو اعلام مي كنن اونوقت همه مون بايد بگرديم دندونهاي تو رو پيدا كنيم. عليرغم اينكه شام يا البته در آن مقطع زماني افطار يك تكه ناچيز پنير و نان بود به همراه يك مايع آبكي با چند پره هويج شناور در آن كه ظاهرا مربا نام داشت، اما بخاطر آنكه در جمع هم اتاقي هايم بودم برايم به منزله ي خوشمزه ترين غذايي بود كه در زندان خورده ام. قبل از خواب، پس از ورود به اتاق و خشك كردن دست و صورت، من آخرين نفر بودم كه به رختخوابم مي رفتم، از من خواسته شد كه چراغ را خاموش كنم. به طرف در بازگشته و به دنبال كليد برق گشتم. اما آن را نيافتم. فكر كردم شايد بخاطر اينكه زندان است نبايد كليد در جاي معمول تعبيه شده باشد. بيرون اتاق و جاهاي غيرمعمول را جستجو كردم كه ناگهان متوجه شدم بچه ها در حاليكه سر جاهايشان دراز كشيده اند هر يك لبخندي به لب دارند. آنها مرا متوجه كردند كه خاموش و روشن كردن لامپ ها از دفتر هر بند انجام مي شود و كليد برقي وجود ندارد. عليرغم اينكه براي هر نفر فقط نيم متر فضاي عرضي خواب پيش بيني شده بود اما تعدادي از افراد اتاق مجبور بوديم به طور نوبتي در راهرو بخوابيم. خوابيدن در راهرو مشكلات خاص خودش را داشت. هميشه چراغ راهرو روشن بود و به علت وجود تعداد زياد زندانيان (شايد كم و بيش در حدود ۴۰۰ نفر) تا صبح با سر و صداي رفت و آمدها همراه بود. هر گاه كه نوبت من مي شد مي دانستم كه از خوابيدن خبري نيست زيرا نه در زير نور مي توانستم بخوابم نه در سر و صدا. بدتر از همه مجاز به خواندن كتاب هم در آن ساعت نبوديم بنابراين امر خوابيدن يا در واقع خود رابه خواب زدن هم مشمول قواعد ديگر مي شد كه بايد وانمود مي كردي كه آن را به اجرا در مي آوري. اما در داخل اتاق خوابيدن هم مزيتي نبود. هوا بخوبي تهويه نمي شد و بنابر اين هوا سنگين و غالبا تنفس با دشواري همراه بود. اتاق به اصطلاح قفسه بندي هاي مجازي متعددي داشت كه در هر يك وسايل ۴ نفر قرار مي گرفت. در گروهي قرار گرفتم كه دو نفر از آنان طرفدار چريكهاي فدايي اقليت بودند. يكي از آنها، لادن زير اعدام و پاهايش از شدت ضربات كابل مورد جراحي قرار گرفته بود. او فوق العاده مهربان، شاد، پرتحرك و دوست داشتني بود. ديگري، شهره طرفدار مجاهدين بود. البته وي در آن زمان ديگر تواب بود و رفتار آزاردهنده اي داشت و در همان سال ۱۳۶۳ آزاد شد. اتاق وضعيت آشفته اي داشت اما ناچار بوديم بدين بي نظمي به عنوان مقررات بند تن دهيم. هر يك از زندانيان كيسه اي به ابعاد و اشكال و اندازه و طرح و رنگهاي مختلف به در و ديوار آويزان كرده بود. چشم از ديدن آنها خسته مي شد و به طور كلي اثر منفي در روحيه ي آدمي مي گذاشت. آرزو طرفدار اقليت و در همان گروه چهارنفره ي ما دختري باهوش كه رشته رياضي خوانده بود، شعر مي سرود و به سبك نقطه چين نقاشي هاي زيبايي مي كشيد. او پيشنهاد داد كه در گروه مان چهار قفسه همشكل از قوطي هاي كاغذي شير بسازيم كه وقتي آنها را برمي گرداندي يكدست به رنگ آلومينيومي بود. لادن و من موافقت كرديم اما شهره كه تواب بود تمايل به تغيير نداشت و استدلال مي كرد اين شكل كمون پيدا مي كند و همه ي بدبختي هاي ما كه سر از زندان درآورده ايم از همينجاها ناشي مي شود و البته وقتي ديد ما سه نفر موافقيم اضافه كرد چون دارد آزاد مي شود خيلي برايش مهم نيست كه ما چه مي خواهيم بكنيم. يكي از هم اتاقي هايم كه طرفدار يك گروه چپ بود و از علاقه ي خاص من به شعر باخبر شد، دفتر شعرش را در اختيار من گذاشت. ضمن آن رهنمود داد از آنجا كه داشتن دفتر شعر ممنوع است، مراقب باشم. از او پرسيدم پس چگونه است كه اين دفتر را دارد. او گفت هر صبح، تلويزيون مدار بسته برنامه ي آموزشي دارد كه اجباري است و فرد مي تواند براي يادداشت برداري يك دفتر داشته باشد. بنابراين مراقب باش تا تواب ها متوجه وجود شعر در اين دفتر نشوند. تواب دوآتشه اي در اتاق ما بود كه شخصيت فردي اش دافعه ي بسياري داشت. به هنگام نماز خواندن براي كنترل ديگران دائم سر خود را به اين سو و آن سو مي چرخاند. يك آنتن واقعي بود. در حاليكه دهانش حركت مي كرد كه معناي آن لابد خواندن آياتي بود كه مي بايست در نماز خوانده مي شد، اگر لازم مي ديد سرك مي كشيد و يا حتي به پشت برگشته و همه چيز را زير نظر داشت و در عين حال نمازش متوقف نمي شد. او هوادار مجاهدين بود. خود و همسرش هر دو حكم اعدام داشتند. وقتي مي خواستم آن دفتر شعر را بخوانم نگاهي به او انداختم كه در حال خواندن نماز بود بنابراين با خيال راحت روي يكي از همان كاناپه هايي كه كنار ديوار از پتوهاي سربازي و لوازم خواب تشكيل مي شد نشستم و اطمينان حاصل كردم كه وي متوجه محتوي دفتر نخواهد شد. هنوز ثانيه هايي از باز كردن آن دفتر نگذشته بود كه ناگهان او كه نمي دانم كي آمده و كنار من نشسته بود با خنده ي مشمئز كننده اي گفت: چي مي خوني؟ ترديد نداشتم كه نماز خود را شكسته و از سر فضولي كنار من آمده بود. خونسردي خود را كاملا حفظ كردم و گفتم چيز خاصي نيست و البته نمي توانستم انكار كنم كه شعر نيست چون دقيقا صفحه اي پيش روي ما باز بود كه ��ين شعر حافظ در آن نوشته شده بود . شب تاريك و بيم موج و گردابي چنين حايل/ كجا دانند حال ما سبكباران ساحل ها گفت دفتر كيه؟ گفتم مال خودم، چطور! گفت: خيلي زود دفتر شعر درست كردي. اما مي دوني، داشتن دفتر شعر ممنوعه . با خونسردي گفتم نمي دونستم ...اما... اين كه شعر حافظه! اضافه كرد اصلا هر نوع شعر حتي حافظ! چون ساعت نماز بود و اتاق ساكت، تمام هم اتاقي هايم شاهد ماجرا بودند. از نگاههاي آنان بسادگي مي شد به عمق نفرت آنان از وي و اعمالش پي برد. در پايان همان روز بيرون اتاق يكي از هم اتاقي هايم كه طرفدار پيكار بود به من توصيه كرد: خيلي مواظبش باش تمام دور سرش چشم داره. پس از آن (م. ت.) تواب هر وقت مرا تنها در راهرو مي ديد نزد من مي آمد و به اصطلاح خودش در جهت جبران جنايات گذشته اش به افشاگري عليه مجاهدين مي پرداخت. آنچه او بر آن اصرار داشت و از گذشته خود و خانه هاي تيمي و غيره مي گفت او را در نظر من به طرز چندش آوري حقير و رقت انگيز مي كرد. يكي دو بار فقط گوش كردم اما اين امر مرا بشدت عصبي كرده و درهم مي ريخت. نمي توانستم تصور كنم كه فرد تا اين حد بتواند از ارزشهاي انساني تهي شود. به او گفتم اين راهي كه هر يك از ما با باورهاي مختلف انتخاب كرديم نوعي از مبارزه بوده كه هيچ منافعي در آن نداشتيم. مي تواني بگويي راه يا روش غلط بوده. مشي غلط بوده. اما در شرافت و صداقت و انگيزه ي پاك هر يك از افرادي كه اينهمه سختي و ناملايمات را به جان خريده اند به هيچ وجه ترديد ندارم. تو بر موضوعات مستهجني اصرار داري كه از نظر من فقط وصله ي ناجوري است كه به هيچيك از عناصر و گروه هاي سياسي نمي خورد. مي تواني بزغم خودت و به فرض محال در بدترين شرايط بگويي آنها به كشور يا انقلاب خيانت كردند بدليل مثلا جاسوسي اما نمي توانم بپذيرم كه تو با همسرت در يك خانه تيمي با آنهمه مسائل غير اخلاقي چگونه آنهمه مدت سر كرده بوديد. چه اجباري داشتيد. بعلاوه، آنچه كه تو بازگو مي كني و بسيار هم مصري كه من بپذيرم تهمت هاي ناروايي است كه در باره فعالين سياسي قبلا هم زده مي شد. هر كدام از ما حداقل يكسال از نزديك با يك گروه سياسي آشنا بوديم از كسي هرگز چنين مواردي نديده ام و علاقه اي هم به شنيدن چنين حرفهايي ندارم. اما او عقب نشيني نكرد و همچنان بر اين كار خود پافشاري مي كرد. به يكي دو نفر از دوستانم سپرده بودم اگر او را در كنار من ديدند كه بي ترديد در حال طرح خزعبلات تهوع آور است مرا به بهانه اي صدا كنند. هر بار به طور مقطعي گريزي مي يافتم اما او دست بردار نبود. تا اينكه يك روز صريحا به او گفتم آيا اين جزو مقررات زندان است كه مرا ملزم به نشستن و گوش دادن به چنين حرفهايي مي كند؟ گفت نه جزو مقررات نيست. گفتم پس هرگز نمي خواهم بيايي و بامن از اين موارد حرفي بزني. خنده اي سبكسرانه كرد كه نشان از فقدان شان انساني او داشت. سخيف اما بي تفاوت از من دور شد و در حاليكه ظاهرا هميشه آستينش براي گرفتن وضو بالا بود گفت به هر حال من مي خواستم وظيفه ام را انجام داده باشم. هر كدام از ما بايد براي جبران جنايتهايي كه كرديم مراحل توبه را طي كنيم. چه بخواهيم! چه نخواهيم! و يكي از آنها اعتراف و استغفار از گذشته و گناهانمان است. او البته ديگر هرگز براي طي مراحل توبه اش مزاحم من نشد. اما در بازجويي، ناصريان با فرود آوردن ضرباتي چند از كابل آن بيت حافظ را با لحن مسخره اي قرائت مي كرد. بسادگي مي شد پي برد كه اين عكس العمل از كجا ناشي مي شود. به هر حال هم اتاقي ام ناچار شد جلد دفترشعرش را عوض كند. اما دوستان و هم بنديهايم كه مي دانستند اشعاري را از بردارم از من خواستند اشعاري مانند "خانه دوست كجاست" و چندتايي ديگر را برايشان قرائت كرده و آنها در دفتر شعرهايشان بنويسند يا خود آن اشعار را در دفترهايشان البته با رعايت مسائل امنيتي بنويسم. اين خود يك نمود بارز و خوب ديگري بود كه زندانيان به بهانه ي برنامه اجباري آموزشي مداربسته از داشتن دفتر به نفع آنچه خود مي خواستند بهره مي جستند و البته قابل ذكر است اين كار با توجه به شرايط زندان در آن مقطع زماني شهامت خاصي مي طلبيد. شايد فرداي آن روز بود كه من نيز به اجبار بايد به هنگام پخش برنامه ي آموزشي در اتاق حضور داشته و وانمود مي كردم كه به آن گوش فرا مي دهم. برنامه ي آموزشي از تلويزيون مداربسته زندان شروع و در قسمتي از آن سرودي پخش و به همراه آن تصاويري از بهشتي و افرادي ديگر نشان داده شد كه در حزب جمهوري اسلامي به هلاكت رسيده بودند. سرود حاوي شعري از مولانا بود .... کجایید ای ز جان و جا رهیده/ کسی مر عقل را گوید کجایی/ کجایید ای در زندان شکسته/ بداده وامداران را رهایی/ کجایید ای در مخزن گشاده/ کجایید ای نوای بی نوایی/ در آن بحرید کاین عالم کف اوست/ زمانی بیش دارید آشنایی/ کف دریاست صورتهای عالم/ ز کف بگذر اگر اهل صفایی/ دلم کف کرد کاین نقش سخن شد/ بهل نقش و به دل رو گر ز مایی/ برآ ای شمس تبریزی ز مشرق/ که اصل اصل اصل هر ضیایی فلسفه ي مولوي و توصيفات او در اين ابيات و مضامين آن كه اشاره به مسئوليت پذيري انسان در قبال خود، هستي و جامعه بشري است با نمايش آن تصاوير كه نمايندگان عناصري متحجر، ضد تكامل و هستي بودند، سازگاري و تطابقي نداشت كه هيچ بشدت در تناقض و تضاد بود. برايم كه الفتي با شعر داشتم آسان نبود. بغضم گرفته بود و بيصدا اشك از چشمهايم فروچكيد. بي اختيار به ياد اين بيت افتادم ملا و شيخ و واعظ و مفتي و محتسب/ چون نيك بنگري همه تزوير مي كنند در سطح اتاق جايگاه افراد نيز بنابر مواضع سياسي آنها شكل گرفته بود طرفداران توده اي و اكثريت تقريبا در يك گروه و با هم مي گذراندند. گروه ها و گرايشات چپ مترقي تقريبا يك قسمت و مجاهدين در قسمت عمده ي اتاق چرا كه تعداد زيادي را شامل مي شدند. البته اشاره ام صرفا بر واقعيات است وگرنه تعداد در به حق يا ناحق بودن، درستي يا نادرستي تفكر و مشي يك گروه اساسا نمي تواند موثر باشد. بعلاوه تعداد زياد افراد از يك گرايش نمي تواند موجبات تزايد مطالبات آنان را فراهم سازد. چرا كه مبارزه، مطالبه نيست بلكه مسئوليت است. چند تواب نيز در اتاق ما بودند. هر يك پراكنده. گويا در ميان توابين جناح هاي مختلفي وجود داشت كه هر يك آن ديگري را به عنوان تواب واقعي قبول نداشت. طيفي از توابين بودند كه گفته مي شد هسته ي اصلي اشان در اتاق يك آن بند بود و ديگر توابين را برسميت نشناخته و آنها را منافق و تواب تاكتيكي مي خواندند. يك روز جمعه در حاليكه نوبت سوزن به من رسيده بود يكي از توابين اتاق به كنار من آمد و نشست و از من خواست همچنان كه از ديگران خواسته منبعد او را فاطمه صدا بزنم. او در واقع مي خواست با تغيير اسم خود هر چه بيشتر نشان دهد كه ماهيت تفكرش نيز تغيير كرده و نام جديد نمادي از باور جديد اوست. با توجه به اينكه زير اعدام بود قطعا شرايط او را درك نمي كردم بنابراين در سكوت فقط سرم را تكان دادم اما هيچگاه او را بدان اسم خطاب نكردم. اما افراد قابل تحسين و مقاومي هم بودند مانند مهين حيدري از اعدام شدگان سال ۶۷ طرفدار مجاهدين خلق. عليرغم مشكلي كه در يكي از دستانش داشت بسيار فعال و شاد بود. هيچگاه يادم نمي رود اخبار شب هنگام كه از تلويزيون پخش مي شد اجباري بود و همه ي افراد بايد داخل اتاق بوده در سكوت به آن گوش مي دادند. مهين به همراه منيره عابديني و خواهرش، دو ديگر طرفدار مجاهدين كه آنها نيز در سال ۶۷ اعدام شدند به نوعي اعتراض خود را از اين اجبار با تكرار هر تپقي كه گوينده اخبار مي زد و طنزآلود كردن آن به لطايف الحيلي نشان مي دادند. يك شب وقتي اخبار شروع شد ناگزير وارد اتاق شدم مهين و عابديني هاي خواهر تقريبا كنار هم وسط اتاق رو به تلويزيون نشسته بودند. كنار مهين نشستم و تعارفاتي معمول بين ما رد و بدل شد مهين با من به عمد بلند صحبت مي كرد. او در واقع سعي داشت از هر فرصتي اعتراض خود را از اجباري بودن اخبار نشان دهد. تواب اتاق تذكر داد. اما آنها آن شب نيز همچنان به طنز تپق زدن گوينده ادامه دادند. نيز از ياد نمي برم يك روز سرد پاييزي را كه هنوز و همچنان به بازجويي مي رفتم و بسيار هم بيمار بودم. وقتي مرا براي بازجويي صدا زدند در حاليكه داشتم از بند خارج مي شدم مهين حيدري بسرعت خود را با ژاكتي گرم به من رساند و آن را با مهرباني و اصرار به من پوشاند چرا كه هنوز نه اجازه ملاقات داشتم و نه دريافت وسايل. افراد با گرايشات چپ كه همچنان بر سرمواضع خود بودند هر چند كه ظاهرا نماز مي خواندند اما به نوعي به زعم توابين كافر محسوب مي شدند. اما نه مانند طرفداران گروه هاي چپ در اتاق چهار كه حاضر به خواندن نماز نيز نشده و مقاوم و استوار آشكارا بر سر مواضع خود بودند و علاوه بر كافر، به زعم تعابير جمهوري اسلامي نجس نيز محسوب مي شدند. گروهي هم از گرايشات گذشته خود بريده و نه به جمهوري اسلامي به عنوان تواب رو كرده بودند و نه به هيچيك از گروههاي سياسي ديگر. اما همچنان شرافت انساني خود را بعنوان عناصري مستقل در همه ي زوايا و بطور اخص در روابط انساني في مابين درون بند حفظ كرده بودند. برخي نيز از گرايشات گذشته خود رويكردي به گرايشات جديد داشتند. زندانيان در بند 4 به طور عمده شامل دستگيري هاي سال ۶۰ و اكثر آنها دچار سو تغذيه، بيماريهاي كليوي به دليل ضربات كابل زيرپا، بيماريهاي پوستي و عوارض روحي ناشي از دشواريهاي غيرقابل توصيف آن شرايط سخت بودند. يكي از هم اتاقي هايم تعادل روحي خود را از دست داده و گاه بشدت دچار تشنج مي شد و فرياد مي كشيد كه فقط با تزريق دارو آرام مي گرفت. او گرايش چپ داشت و همچنان بر سر مواضع خود بود. دختري ساكت، محجوب و دوست داشتني. هم بنديهاي من از وقايع تلخ و دردآوري از ايام سال ۶۰ برايم تعريف مي كردند . از اعدام هاي شبانه. وقتي يك روز با يكي از هم بنديهايم كه طرفدار مجاهدين خلق بود به هواخوري مي رفتيم يك لحظه پشت در هواخوري ايستاد. چهره اي زيبا، نگاهي غمناك و روحي بزرگ داشت. او گفت چه شبها كه پشت اين در با صداي هر تير خلاص تعداد اعدام شدگان را شماره مي كرديم و تاصبح اشك مي ريختيم. بهترين دوستان و عزيزانمان را از كنارمان بردند و كشتند. وقتي سراغ افرادي را مي گرفتم كه از سالهاي ۵۹ و ۶۰ آنها را مي شناختم اغلب با پاسخ "اعدام شد" مواجه مي شدم. اغلب كساني كه با آنها در آن سالها آشنا بودم، حداقل يك نفر تا چند نفر از يك خانواده اعدام شده بودند. به خاطر وجود توابين كه آنتن هاي زندانبانان محسوب مي شدند و به علت تراكم جمعيت در اتاق، گفتگوهايي كه ضروري بود در خلوت و خفا صورت بگيرد در راهرو يا هواخوري رد و بدل مي گشت. هاله يكي از هم اتاقي هايم كه از سال ۶۰ دستگير شده و در اوين محكوميت خود را طي مي كرد اولين كسي بود كه بي پروا مرا در هواخوري صدا زد و از اخبار بيرون از زندان سوال كرد. از آخرين تحليل گروهها و ديگر وقايع مي پرسيد. در آن مقطع البته تحليل آن بود كه بزودي رژيم سقوط خواهد كرد. اين باور به حدي جدي گرفته شده بود كه برايم تعريف كردند به دفعات زندانيان با مانتو و روسري و كاملا آماده خوابيده بودند تا اگر براي نجات و رهايي آنها آمدند تاخيري صورت نگيرد. اتاق ۴ شامل عناصر مبارز با گرايشات چپ مي شد كه نماز نمي خواندند و زنان سالمند پيرو مذهب بهائيت نيز در آن اتاق بسر مي بردند. بزعم زندانبانان؛ افراد اتاق ۴ براساس شرع اسلام كافر و نجس محسوب مي شدند. اينكه رژيم طرفداران گروههاي چپ را معاند و كافر و غيره بنامد و به بند كشد، چندان عجيب نبود اما پيروان مذهب بهائيت آنجا چه مي كردند. انواع تبعيض هاي قومي و مذهبي و از جمله بهایی‌ستیزی سابقه‌ای به اندازه ي عمر حاكميت جمهوري اسلامي داشت. در احكام و فتواهاي صادره از سوي آخوندها يا به اصطلاح فقها اختلافات كم و بيشي بود، اما در زندان اعلام شده بود كه بهاييان فاقد طهارت ذاتي هستند و بنابر اين از تماس با دست و بدن مرطوب آنان بايد اهتراز كرد. توابين استناد به استفتائات خميني مي كردند كه بر مبناي آن غیر مسلمان از هر دین و مذهبی كه باشد، محكوم به نجاست است. (استفتائات خمینی جلد یک، ص۱۰۲، س۲۶۷). در قانون اساسي نيز ذكري از مذهب يا آيين بهايي نشده و نظام آن را برسميت نمي شناسد. هر چند در حاكميت جهل و جنون جمهوري اسلامي هيچيك از مذاهب، قوميت ها، آيين ها و پيروان عقايد حتي مسلمانان نه تنها از حقوق اوليه انساني خود بي نصيب هستند، بلكه مورد تعدي و آزار قرار گرفته، دستگير و شكنجه و حتي اعدام مي شوند. در آن مقطع شايد بهاييان بيش از هر گروه مذهبي ديگر تحت سركوب قرار گرفتند كه بي گمان انگيزه هاي ايدئولوژيك هم داشته و دارد. چرا كه حاكميت، جنايات خود را به اعتبار ارتباط سردمداران با امام غايب و الهام و وحي از او توجيه مي نمايند. شستن لباس در بند چهار بالا كه همچون بند پايين برخوردار از هواخوري بجز در صبح روز جمعه نبود مشكلات بغرنجي را بوجود مي آورد. گيرم كه مي توانستي لباس را بشويي. محلي براي خشك كردن آنها وجود نداشت. بنابراين بيماريهاي پوستي بسيار شايع بود. اما لباس هاي زير رابه نوبت روي طناب هايي كه پشت پنجره بسته بوديم خشك مي كرديم كه مشكلات خاص خود را داشت. بايد پا را روي ميله هاي محافظ شوفاژ گذاشته و از آن بالا مي رفتيم و پشت پنجره سوم آنها را روي طناب، جدا از لباسهاي افراد مبتلا به قارج قرار مي داديم. كمبود جا براي خشك كردن لباسهاي زير در پشت پنجره هميشه محسوس و ريسك ابتلا به قارج بسيار بالا بود. حمام بند شامل چهار كابين دوش و يك ظرفشويي بود. يك روز كه براي شستن ظرف يا لباسي به حمام رفته بودم دو نفر از زنان سالمند بهايي بسختي تلاش داشتند يك پتو را آب بكشند. آنها بسيار رعايت ديگران را مي كردند كه قطرات آب به كسي پاشيده نشود. چرا كه اگر تواب بود آن را نجس تلقي كرده و مشكلاتي به همراه داشت. در كمك به آنها ترديد نداشتم اما كمي نگران بودم كه در حين كمك به آنها توابي داخل شود. به طرف يكي از آنها كه مسن تر بود رفتم و يك طرف پتو را گرفتم و به آنها گفتم دونفري طرف ديگر را نگهدارند كه بتوان بخوبي پتو را آب كشيد. ابتدا آنها با تعجب به من خيره شده بودند اما لحظه اي بعد به كمك يكديگر پتو را آب كشيده و آن را روي در يكي از كابين ها آويزان كرديم. هر دو تشكر كردند و من در حاليكه به عمد براي نشان دادن مخالفتم با اين فتواي غيرانساني دست خود را با لباسم خشك مي كردم از آنجا خارج شدم. اما بايد اعتراف كنم متاسفانه اگر توابي در آنجا بود چنين نمي كردم و از اينكه من نيز ناگزير به انتخاب دو گونه ي متفاوت از طرز زندگي در زندان شده بودم روزهاي اول با خود از نظر ذهني درگيري هاي زيادي داشتم. Read the full article
0 notes
yourmufakerhurorg · 5 years
Photo
Tumblr media
مندوسهم مندوسهم " أيهم نور الدين " .. على الحواجز المنتشرة في كل زوايا وخبايا وطلعات ونزلات وطني الكبير الممتد من مصب نهر الرميلة على المتوسط غرباً , وصولاً إلى ساقية بعيرة في قرية عين ديوار على الحدود السورية العراقية شرقاً عشرات الآلاف من المآسي كل يوم ..
0 notes
tufankamrani · 6 years
Photo
Tumblr media
.... ای بر پدرت دنیا ای بر پدرت دنیا يك عمر زدم خود را بيخود به در و ديوار اي بر پدرت دنيا تو كار خودم ماندم، ديوانه شد اينهم كار؟ اي بر پدرت دنيا شرمنده كه تو زحمت انداختمت اما من يك نفرم مومن!!! صد جور اتاق گاز، صد دست طناب دار اي بر پدرت دنيا در شأن من ست آيا با آينه ها عين ديوانه سخن گفتن؟ اصلا تو بگو طوطي، من خسته ام از تكرار اي بر پدرت دنيا يك بغض گلو گيرم از اول اين قصه تو خط به خطش تا ته ماندم كه چه بود آيا منظورت از اين رفتار اي بر پدرت دنيا منظور تو خوب اصلا، مقصودت از آن بهتر، من كور و كرم حتما! پس خواهشا از الان دست از سر من بردار اي بر پدرت دنيا شورش را در آوردي، شورش را در آوردم، بي فايده ست انگار از سمت من اين انكار از سمت تو آن اصرار اي بر پدرت دنيا هر جا شله می دادند از ته نفر اول توی صف "درد" آخر اين آخر دنيا نيست لامصب لاکردار اي بر پدرت دنيا اعصاب نداري ها، "از بس كه تو هي كشتي" "از بس كه نمردم هي" يك ذره نفس مانده، دندان به جگر بگذار اي بر پدرت دنيا ديوانه ی زنجيري! چي دست تو را از اين بد پيله گي مي گيرد؟ اين زندگي ست اسمش؟ يك عمر عذاب ، آزار!؟ اي بر پدرت دنيا حالا كه گذشت اما از تو و از اربابت يك عمر طلبكارم يك وقت دگر شايد، يك جاي دگر اينبار اي بر پدرت دنيا مثل همه ی شب ها باز از سر شب دارم هي يكسره مي بارم چشم ترم امشب هم تا لنگ سحر بيدار اي بر پدرت دنيا اي بر پدرت ملعون، دنياي من افتاده ست آنسويت و من اين سو پشت سر هم قهوه، پشت سر هم سيگار اي بر پدرت دنيا ای بر پدرت دنیا ای بر پدرت دنیا ای بر پدرت دنیا ای بر پدرت دنیا ای بر پدرت دنیا ... (Cehennemin Dibi)
0 notes
arabipress · 4 years
Text
الكشف عن مخطط امريكي خطير عند مثلث الحدود العراقية السورية التركية - مرصد العربي برس
العالم – سوريا وكشف المصدر ان القوات الامريكية ارسلت المساعدات الى تلك المنطقة كونها بدأت بإنشاء قاعدتين عسكريتين جديدتين بالمنطقة الاولى في “عين ديوار” شمال شرق مدينة المالكية عند مثلث الحدود العراقية -السورية -التركية في أقصى ريف الحسكة الشمالي الشرقي والثانية بمحيط منطقة حقول نفط “رميلان” في ريف الحسكة الشمالي الشرقي. واوضح المصدر ان المناطق … https://s.alarabi.press/fZpYi
0 notes