#سخت سیکیورٹی
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 2 months ago
Text
ایس ای اوکانفرنس کی تیاریاں مکمل،سخت سیکیورٹی انتظامات
اسلام آبادمیں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اورسربراہان مملکت کی آمد کےپیش نظر شہرمیں سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کےسربراہی اجلاس سےقبل دارالحکومت اسلام آباد کوبند کرن کی تیاری مکمل کرلی گئی ہےاورسیکیورٹی کویقینی بنانےکےلیے اس دوران شہر میں عام شہریوں کی آمدورفت بالکل نہ ہونےکے برابر ہو گی۔ چینی وزیراعظم لی کیانگ کل…
0 notes
topurdunews · 2 months ago
Text
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاسوفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات
(24 نیوز)شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ دارالحکومت میں 30 ایڈیشنل ناکے لگا دیے گئے، جہاں پر 1287 افسران و اہلکار تعینات کئے گئے ہیں، ناکوں کی نگرانی 4 ایس پی جبکہ 43 ڈی ایس پی کر رہے ہیں۔شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔  روسی وزیراعظم میخائل مشوستن اور ازبکستان کے وزیراعظم عبداللہ اریپوف بھی پاکستان پہنچ گئے تھے، نور…
0 notes
risingpakistan · 1 month ago
Text
اسرائیل نے فوٹیج جاری کر کے یحییٰ سنوار کی شہادت کی داستان کو امر کر دیا
Tumblr media
اپنی زندگی کی طرح یحییٰ سنوار کی شہادت بھی مصائب کے خلاف مزاحمت کی عکاس تھی۔ وہ 1962ء میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جہاں نکبہ کے دوران ان کا خاندان اپنے گھر عسقلان سے نقل مکانی کر کے پناہ حاصل کیے ہوئے تھا۔ یحییٰ سنوار نے 1987ء میں حماس کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی اس میں شمولیت اختیار کر لی اور داخلی سیکیورٹی ونگ کے اہم رکن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یحییٰ سنوار جاسوسوں اور مخالفین کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور اس کے لیے وہ اکثر اوقات سخت طریقہ کار اختیار کرتے تھے۔ ان کی جانب سے بنائے گئے نظام کی پائیداری اس سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کی انٹیلی جنس اب تک غزہ کی پٹی میں یحییٰ سنوار سمیت حماس کے دیگر اہم رہنماؤں کی نقل وحرکت کو بےنقاب کرنے میں جدوجہد کا سامنا کررہی ہے۔ اور جب وہ یحییٰ سنوار کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے تب بھی اسرائیل نے بذات خود اعتراف کیا کہ اسرائیلی افواج کا ان سے ٹکرا جانا ایک اتفاق تھا۔
1982ء اور 1988ء میں گرفتار ہونے والے یحییٰ سنوار نے رہائی سے قبل اسرائیلی جیل میں 23 سال گزارے اور انہیں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے تبادلے میں ایک ہزار 46 دیگر فلسطینی قیدیوں کے ہمراہ رہا کیا گیا۔ ممکنہ طور پر یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر انہیں 7 اکتوبر کے حملے کی ترغیب ملی جس کے تحت حماس 250 اسرائیلی سپاہیوں کو یرغمالی بنا کر غزہ لے گی��۔ جیل نے ایک تربیتی مرکز کے طور پر کام کیا، سالوں بعد یحییٰ سنوار نے اپنے سپورٹرز کو بتایا، ’وہ چاہتے تھے یہ جیل ہماری قبر بن جائے جہاں وہ ہمارے حوصلوں اور عزائم کو کچل سکیں۔۔۔ لیکن ہم نے جیل کو اپنے لیے عبادت گاہوں اور مطالعے کے لیے اکیڈمیز میں تبدیل کر دیا‘۔ یہ محض کھوکھلی باتیں نہیں تھیں۔ یحییٰ سنوار نے جیل میں گزارے جانے والے عرصے میں عبرانی زبان پر عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مشاہدہ کرتے رہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی فورسز کیسے کام کرتی ہیں بالخصوص بدنامِ زمانہ داخلی سیکیورٹی ونگ شن بیٹ کس طرح کام کرتا ہے، اس پر غور کیا۔ انہوں نے حاصل کردہ معلومات کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔
Tumblr media
یحییٰ سنوار جو سالوں سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر تھے، غزہ میں ہی مقیم تھے، ایک مجاہد کے طور پر اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ رہے اور اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے والے اپنے گھر کے ملبے کے درمیان کرسی پر بیٹھے نظر آئے۔ حیرت انگیز طور پر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی وہ ایسے ہی ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ زمینی کارروائی کے دوران اسرائیلی افواج سے سامنا ہونے پر یحییٰ سنوار اور ان کے تین محافظوں نے ایک عمارت میں پناہ لی۔ اسرائیل کے مطابق یحییٰ سنوار نے قریب آنے والے سپاہیوں پر دستی بموں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اسرائیلی فوجی شدید زخمی ہوا۔ عمارت میں داخل ہو کر بات کرنے سے انکاری اسرائیلی فوج نے عمارت کو ٹینک سے نشانہ بنایا جس میں یحییٰ سنوار شدید زخمی ہوئے اور ان کا دایاں بازو جدا ہو گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے ڈرون بھیجا۔ ان کے محافظ شہید ہو چکے تھے اور جیسا کہ ڈرون فوٹیج نے دکھایا، یحییٰ سنوار زخمی حالت میں سر پر کوفیہ باندھے صوفے پر براجمان تھے۔ ان کا بایاں بازو جو اس وقت حرکت کرنے کے قابل تھا، انہوں نے اس بازو سے مزاحمت کی آخری کوشش کے طور پر قریب آنے والے اسرائیلی کواڈ کاپٹر پر چھڑی پھینکی جوکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانے والے ہولوکاسٹ کے خلاف مزاحمت کی ایک انسانی کوشش تھی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی انہیں شہید کرنے کے لیے ایک اسنائپر شوٹر کی ضرورت پیش آئی۔
ان کی شہادت نے اسرائیل کے بہت سے جھوٹے دعووں کا پردہ چاک کیا۔ ایک سال سے زائد عرصے سے اسرائیلی میڈیا نے یحییٰ سنوار کے ٹھکانے کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے ہر دعوے کو فرض شناسی کے ساتھ رپورٹ کیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ غزہ سے فرار ہو چکے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں چھپے ہیں جبکہ ان کے ہم وطن مصائب کا سامنا کررہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ ایک خاتون کے بھیس میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک فریب جسے اسرائیل نے اپنی وحشیانہ کارروائیوں کے لیے جواز کے طور پر پیش کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسرائیل نے اب تک انہیں اس لیے نشانہ نہیں بنایا کیونکہ وہ زیرِزمین سرنگوں میں خودکش جیکٹ پہن کر اسرائیلی یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس کے بجائے یحییٰ سنوار محاذ پر موجود تھے اور رفح میں اسرائیلی افواج سے چند میٹرز کی دوری پر تھے۔ ان کی آخری لمحات کی ویڈیو جاری کرکے اسرائیل نے یقینی بنایا کہ ان کی بہادری کی داستان امر ہو جائے۔ 
حتیٰ کہ وہ لوگ جو صہیونیت سے ہمدردی رکھتے ہیں، انہوں نے بھی فوٹیج جاری کرنے کے اقدام پر سوال اٹھایا لیکن میرے نزدیک ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسرائیل اب تک ان لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہے جنہیں وہ تقریباً ایک صدی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ فوٹیج جاری کرنے کے پیچھے اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یحییٰ سنوار کی لاچارگی دکھائی جائے اور مزاحمت کے حوالے سے ناامیدی ظاہر کی جائے تو اس مقصد میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ اس سے بالکل الٹ تاثر گیا۔ انہیں گمان تھا کہ یحییٰ سنوار کو مار کر وہ ان کی تحریک کو ختم کرسکتے ہیں تو وہ اب تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مزاحمت، قیادت کے بجائے ڈھائے جانے والے مظالم سے مضبوط ہوتی ہے۔ جب تک جبر رہے گا تب تک اس کے خلاف مزاحمت بھی موجود رہے گی۔ جہاں تک یحییٰ سنوار کی بات ہے، یہی وہ انجام تھا جس کی انہیں خواہش تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا، ’اسرائیل مجھے سب سے بڑا تحفہ مجھے قتل کر کے دے سکتا ہے۔۔۔ میں کورونا وائرس، اسٹروک یا ہارٹ اٹیک سے مرنے کے بجائے ایف 16 طیارے کی بمباری سے شہید ہونے کو ترجیح دوں گا‘۔ یحییٰ سنوار کو تو وہ مل گیا جس کی انہیں خواہش تھی، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اسرائیل اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوپاتا ہے یا نہیں۔
ضرار کھوڑو
بشکریہ ڈان نیوز  
4 notes · View notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید ��اریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی ق��ار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس ��ؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اس��بلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
pinoytvlivenews · 1 month ago
Text
اسلام آباد:تعلیمی اداروں کے بعد دفاتر بھی 3 دن بند کرنے کا فیصلہ
(24 نیوز)اسلام آباد میں عالمی کانفرنس کیا ہوگی کہ سرکاری ملازمین،سکول جانیوالے بچوں کی موجیں لگ گئیں، وفاقی دارالحکومت میں تعلیمی اداروں کے بعد دفاتر بھی 3 دن پیر سے بدھ تک بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔  حکومت کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے جارہے ہیں,وفاقی حکومت کی جانب سے 14 سے 16 اکتوبر تک جڑواں شہروں میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے…
0 notes
dpr-lahore-division · 2 months ago
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1029
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا پنجاب بھر میں سکول بلڈنگز کی چیکنگ کا حکم
مخدوش اور خستہ حال عمارتوں میں بنے سکول سیل کرنے اور سکولوں کی صفائی کی صورتحال کی چیکنگ کی ہدایت
ارکان اسمبلی کی تجاویز پر مظفر گڑھ کے مرکزی روڈز کی تعمیر و مرمت اور بحالی یقینی بنانے کا حکم
وزیر اعلیٰ مریم نواز کا مظفرگڑھ کے مرکزی علاقوں میں تجاوزات اور ناقص صفائی اور لینڈ ریکارڈ سینٹرز کے بارے میں عوامی شکایات پر اظہار برہمی
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا تجاوزات کے خاتمے کے لئے فوری طور پر مہم شروع کرنے کا حکم
ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں کرپٹ عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے، وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت
عوامی امور پر نظر ہے، تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں، ہر آنے والے دن میں بہتری آ رہی ہے:مریم نواز شریف
جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت ترین اور فیصلہ کن کارروائی کر کے خوف زدہ کیا جائے
پولیس کو عوام میں ریلیف اور مجرموں میں خوف کا احساس پیدا کرنا چاہیے، مظفر گڑھ میں نو گو ایریا ختم ہونا قابل اطمینان ہے
سوشل سیکیورٹی ہسپتال میں ڈائیلسیز کی سہولت کی تجویز کا جائزہ لیا جائے گا:مریم نواز شریف
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی مظفر گڑھ کے ڈپٹی کمشنر آفس میں ارکان اسمبلی سے ملاقات، سی ایم انیشیٹیوز اور امن امان پر بریفنگ
لاہور27ستمبر: وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے پنجاب بھر میں سکول بلڈنگز کی چیکنگ کا حکم دیاہے-مخدوش اور خستہ حال عمارتوں میں بنے سکول سیل کرنے کی ہدایت کی ہے-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے سکولوں کی صفائی کی صورتحال کی چیکنگ کی ہدایت کرتے کہاکہ عوامی امور پر نظر ہے، تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں -مجھے یقین ہے کہ کچھ سالوں میں شکایات برقرار نہیں رہیں گی -شاباش دینے میں کنجوس نہیں، چیزوں کو بہتر کرنے کے لیے سخت رویہ اپنانا پڑتا ہے - ہر آنے والے دن میں بہتری آ رہی ہے -انہوں نے کہاکہ پولیس کو عوام میں ریلیف اور مجرموں میں خوف کا احساس پیدا کرنا چاہیے - جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت ترین اور فیصلہ کن کارروائی کر کے خوف زدہ کیا جائے - جرائم بر خلاف پراپرٹی کے رجحان پر قابو پایا جائے -وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے مظفر گڑھ کے ڈپٹی کمشنر آفس میں ارکان اسمبلی سے ملاقات کی-ارکان اسمبلی نے عوامی مسائل کے حل کے لیے تجاویز اور سفارشات پیش کیں -وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے ارکان اسمبلی کی تجاویز پر مظفر گڑھ کے مرکزی روڈز کی تعمیر و مرمت اور بحالی یقینی بنانے کا حکم دیا-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے مظفرگڑھ کے مرکزی علاقوں میں تجاوزات اور ناقص صفائی پر برہمی کا اظہار کیااورتجاوزات کے خاتمے کے لئے فوری طور پر مہم شروع کرنے کا حکم دیا-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے ہدایت کی کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں کرپٹ عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے لینڈ ریکارڈ سینٹرز کے بارے میں عوامی شکایات پر برہمی کااظہار کیا-وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ مظفر گڑھ میں نو گو ایریا ختم ہونا قابل اطمینان ہے، اسے بحال رکھا جائے - سوشل سکیورٹی ہسپتال میں ڈائیلسیز کی سہولت کی تجویز کا جائزہ لیا جائے گا-وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے ارکان اسمبلی سے روٹی، آٹا اور اشیا خوردو نوش کے نرخ کے بارے میں بھی دریافت کیا -ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ نے سی ایم انیشیٹیوز پر رپورٹ پیش کی جبکہ ڈی پی او مظفرگڑھ نے امن و امان کی صورتحال سے آگاہ کیا -سینیٹر پرویز رشید، سینئر منسٹر مریم اورنگزیب،صوبائی وزیراطلاعات و ثقافت عظمیٰ زاہد بخاری، معاون خصوصی ذیشان ملک، ارکان اسمبلی، چیف سیکرٹری،سیکرٹری پی اینڈ ڈی، کمشنر ڈی جی خان، آر پی او اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے-
٭٭٭٭
0 notes
pakistantime · 3 months ago
Text
یحییٰ سنوار، حماس سربراہ کون ہیں؟
Tumblr media
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ یحییٰ سنوار ایک سخت اور پُرعزم جنگجو شخصیت کے مالک ہیں جو اسرائیل کے خلاف فلسطینی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
پس منظر اور ابتدائی زندگی یحییٰ سنوار 1962 میں غزہ پٹی کے شہر خان یونس میں پیدا ہوئے۔ انکا تعلق ایک غریب فلسطینی خاندان سے ہے اور بچپن ہی سے انہوں نے اسرائیل کے خلاف فلسطینی جدوجہد میں حصہ لیا۔ حماس سربراہ کی جوانی 1980 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں گزری، جو فلسطین کی آزادی کے لیے ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے۔
حماس میں شمولیت اور قیادت کا سفر یحییٰ سنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہنمائی میں 1980 کی دہائی میں حماس میں شمولیت اختیار کی، وہ جل�� ہی تنظیم کے اندرونی سیکیورٹی یونٹ کے سربراہ بن گئے، یہ یونٹ اسرائیلی حکام کےلیے جاسوسی کرنے والوں کی نشاندہی کرنے اور سزا دینے کےلیے ذمہ دار تھا۔ ان کے اس کردار نے انہیں ایک سخت گیر اور غیر مصالحانہ شخصیت کے طور پر متعارف کروایا۔
قید اور رہائی یحییٰ سنوار کو 1988 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور متعدد قتل کے الزامات میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے اسرائیل کی جیلوں میں تقریباً 22 سال گزارے جہاں ان کے نظریات اور ان کی عسکری صلاحیتوں میں مزید پختگی آئی۔ انہیں 2011 میں ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا۔ یہ رہائی انہیں حماس کے اندر ایک مضبوط مقام دلوانے کا سبب بھی بنی۔
حماس کی قیادت میں کردار رہائی کے بعد یحییٰ سنوار نے تیزی سے حماس میں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ 2017 میں انہیں حماس کے غزہ پٹی کے لیے سیاسی دفتر کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ ان کے اس عہدے نے انہیں حماس کے عسکری اور سیاسی ونگز کے درمیان ایک رابطے کا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ سنوار کو حماس کی حکمت عملی میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا رہنما مانا جاتا ہے، خصوصاً اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے۔ ان کے فیصلے اکثر سخت گیر ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا سمجھوتے کے حامی نہیں سمجھے جاتے۔
حماس کے موجودہ حالات اور سنوار کی قیادت اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے خلاف حملوں کے بعد یحییٰ سنوار زیر زمین چلے گئے اور ان کی تلاش اسرائیل کے لیے ایک اولین ترجیح بن گئی۔ اسرائیلی فوج نے متعدد بار غزہ میں یحییٰ سنوار کو تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ مسلسل اسرائیلی جاسوسی اور حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ یحییٰ سنوار کی قیادت میں حماس نے ناصرف اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا بلکہ فلسطینی عوام کے درمیان اپنی مقبولیت کو بھی برقرار رکھا۔ ان کی حکمت عملی نے حماس کو تنقید کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور مزاحمتی تحریک کے طور پر قائم رکھا ہے۔
شخصیت اور اثرات
یحییٰ سنوار کو ایک کرشماتی اور سخت گیر رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کی قیادت نے حماس کو ایک مضبوط عسکری اور سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا جو ناصرف اسرائیل بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کےلیے بھی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ سنوار کی زندگی اور ان کے کارنامے فلسطینی تحریک کی مزاحمت اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کی ایک مضبوط علامت بن چکے ہیں۔ ان کی قیادت نے حماس کی صفوں میں اتحاد اور مزاحمت کی ایک نئی روح پھونک دی ہے جو آنے والے وقتوں میں بھی فلسطینی تحریک کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 10 months ago
Text
بشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے بنی گالہ منتقل، عمران خان کا گھر سب جیل قرار
توشہ خانہ ریفرنس میں 14 سال کی قید کی سزا پانے والی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ منتقل کرکے سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ میں نظر بند رکھا جائے گا، بشریٰ بی بی کو سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے بنی گالا منتقل کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے بنی گالا رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
لکی کریک کیسینو - بلاگ تعارف: لکی کریک کیسینو کے تھرل کی نقاب کشائی پر لکی کریک کیسینومزہ کبھی نہیں رکتا اور جیک پاٹ ہمیشہ پہنچ میں رہتا ہے۔ لکی کریک کیسینو آن لائن جوا کھیلنے کے لیے بہترین جگہوں میں سے ایک ہے کیونکہ ان کے فراہم کردہ دلچسپ گیمز کی وجہ سے، جو جدید ٹیکنالوجی کو اولڈ ویسٹ میسٹک کے ساتھ ملاتی ہے۔ لکی کریک مہارت کی تمام سطحوں کے کھلاڑیوں کا خیرمقدم کرتا ہے، لہذا چاہے آپ تجربہ کار ہو یا ابھی شروعات کریں، آپ کو اپنی پسند کے مطابق کچھ ملے گا۔ اس ٹکڑے میں، ہم اس بات کا بغور جائزہ لیں گے کہ جوش اور مالی انعام کی تلاش میں رہنے والوں کے لیے لکی کریک کیسینو کو اس طرح کی مقبول منزل کیا بناتی ہے۔ کے لیے یہاں کلک کریں۔ کیسینو کی خبریں۔. لکی کریک کیسینو کے کھیلوں کی شاندار قسم لکی کریک کیسینو لکی کریک کیسینو میں، کھلاڑی مختلف قسم کے دلچسپ کیسینو گیمز میں سے انتخاب کر سکتے ہیں۔ لکی کریک کیسینو میں مختلف قسم کے سلاٹس، ٹیبل گیمز، ویڈیو پوکر، اور صنعت کے معروف سافٹ ویئر ڈویلپر Saucify کے ذریعے چلنے والی خاص گیمز شامل ہیں۔ جوئے بازی کے اڈوں کے روایتی تھری ریل سلاٹس سے لے کر زندگی بھر کے گرافکس اور اینیمیشنز کے ساتھ جدید ترین ویڈیو سلاٹس تک کے گیمز کا انتخاب یقینی طور پر جواریوں میں سے سب سے زیادہ پسند کرنے والوں کو بھی خوش کرے گا۔ بلیک جیک، رولیٹی، بیکریٹ، اور کریپس لکی کریک پر دستیاب بہت سے ٹیبل گیمز میں سے چند ایک ہیں۔ گیمز میں اعلیٰ معیار کے بصری اور سیال کنٹرول ہوتے ہیں، اس لیے آپ اپنا گھر چھوڑے بغیر ایک حقیقی کیسینو ماحول سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ پروموشنز اور بونس جو آپ نہیں بھولیں گے۔ لکی کریک کیسینو کے کھلاڑی اسٹیبلشمنٹ سے بہترین سلوک کی توقع کر سکتے ہیں۔ جب آپ کیسینو میں کسی اکاؤنٹ کے لیے سائن اپ کرتے ہیں، تو آپ کو ایک شاندار ویلکم پیکج ملے گا جس میں میچ بونس اور مخصوص سلاٹ مشینوں پر مفت اسپن شامل ہوں گے۔ یہ ڈیل کھیل کے بارے میں آپ کے پہلے تاثر کو بہتر بنانے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتی ہے۔ یہ آپ کے بڑے جیتنے کے امکانات کو بھی بہتر بناتا ہے۔ لیکن یہ مذاق کا خاتمہ نہیں ہے! ڈیلی بونس، فری اسپنز، کیش بیک ڈیلز، اور ٹورنامنٹ�� لکی کریک کیسینو میں دستیاب اکثر پروموز میں سے چند ہیں۔ کھلاڑیوں کے پاس اپنے ابتدائی فنڈز کو بڑھانے اور ان پروموز کی بدولت اپنی کمائی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے کافی مواقع ہیں۔ اگر آپ بہترین بونس اور سودوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو آپ کو جوئے بازی کے اڈوں کا پروموشنل صفحہ کثرت سے چیک کرنا چاہیے۔ مکمل حفاظت میں گیمنگ آن لائن جوئے بازی کے اڈوں کے لیے سیکیورٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ لکی کریک کیسینو اس سے واقف ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے صارفین کی حفاظت کے لیے ایسی سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ کیسینو کے پاس قابل احترام Curacao گیمنگ اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ لائسنس ہے، جو اس کے کھلاڑیوں کو محفوظ اور منصفانہ گیمنگ کو یقینی بناتا ہے۔ لکی کریک آپ کے نجی ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے جدید ترین خفیہ کاری ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے۔ آپ کے آلے اور کیسینو کے سرورز کے درمیان بھیجی گئی تمام معلومات اس طرح نجی اور محفوظ رہیں گی۔ جوئے بازی کے اڈوں کے کھیلوں کی بے ترتیبی اور انصاف پسندی کو بھی بیرونی آڈیٹرز کے ذریعے باقاعدگی سے چیک کیا جاتا ہے۔ [embed]https://www.youtube.com/watch?v=1QJs_1_Pwwg[/embed] ادائیگی کے لچکدار طریقے لکی کریک کیسینو اپنے صارفین کے لیے مختلف قسم کے محفوظ اور قابل اعتماد بینکاری طریقے فراہم کرتا ہے۔ کریڈٹ کارڈز، ای بٹوے، اور یہاں تک کہ کریپٹو کرنسی بھی آپ کے کیسینو اکاؤنٹ کو فنڈ دینے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ چونکہ کیسینو مختلف قسم کی مقبول کرنسیوں کو قبول کرتا ہے، اس لیے دنیا بھر کے گیمرز اس کے گیمز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ لکی کریک واپسی کی درخواستوں پر فوری اور درست طریقے سے کارروائی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ کیسینو تیزی سے نکلوانے پر کارروائی کرنے کے لیے سخت محنت کرتا ہے تاکہ آپ جلد از جلد اپنے نقد رقم حاصل کر سکیں۔ جمع کرنے کے کئی مختلف طریقوں کا مطلب ہے کہ آپ کو ایک ایسا مل سکتا ہے جو آپ کے لیے کارآمد ہو اور فوراً اپنے آن لائن گیمنگ ایڈونچر کے ساتھ شروع کریں۔ چلتے پھرتے موبائل گیمنگ آج کے تیز رفتار ماحول میں موافقت اور استعمال میں آسانی سب سے اہم ہے۔ وہ کھلاڑی جو چلتے پھرتے اپنے پسندیدہ کیسینو گیمز کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں انہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ لکی کریک کیسینو اس کی حمایت کرتا ہے۔ موبائل سائٹ فون اور ٹیبلیٹ کے بہت سے مختلف برانڈز اور آپریٹنگ سسٹمز کے ساتھ کام کرتی ہے۔ آپ کسی بھی وقت کہیں سے بھی لکی کریک کیسینو جا سکتے ہیں، چاہے آپ بس کا
انتظار کر رہے ہوں، گھر میں آرام کر رہے ہوں، یا دفتر میں وقفہ لے رہے ہوں۔ موبائل کیسینو میں سادہ ڈیزائن، فلوئڈ اینیمیشنز اور مختلف قسم کے گیمز ہیں جو پورٹیبلٹی کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کیے گئے ہیں۔ لکی کریک کیسینو کے موبائل گیمز کے ساتھ، آپ جیتنے کا جوش محسوس کر سکتے ہیں چاہے آپ کہیں بھی ہوں۔ قابل اعتماد کسٹمر سروس لکی کریک کیسینو لکی کریک کیسینو اپنی کلائنٹ سروس پر ایک پریمیم رکھتا ہے۔ اگر آپ کے کوئی سوالات یا مسائل ہیں تو، کیسینو میں مدد کے لیے 24/7 کے ساتھ ایک معاون عملہ کھڑا ہوتا ہے۔ چاہے آپ کو لاگ ان کرنے میں پریشانی ہو، گیم کے بارے میں سوالات ہوں، یا کسی تکنیکی خرابی میں مدد کی ضرورت ہو، سپورٹ ٹیم صرف ایک کلک یا فون کال کی دوری پر ہے۔ جب بھی آپ کو مدد کی ضرورت ہو آپ ٹول فری فون، ای میل، یا لائیو چیٹ کے ذریعے سروس ٹیم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ لکی کریک کا مددگار اور شائستہ معاون عملہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا کہ آپ کے پاس کھیلنے میں اچھا وقت ہے۔ فائدے اور نقصانات پیشہ Cons کے کیسینو گیمز کا وسیع انتخاب کچھ ممالک کے کھلاڑیوں کے لیے محدود رسائی صارف دوست اور بصری طور پر کشش محدود ادائیگی کے اختیارات خوش آمدید بونس اور پروموشنز زیادہ شرط لگانے کی ضروریات موبائل دوستانہ پلیٹ فارم کوئی لائیو ڈیلر گیمز نہیں۔ 24/7 کسٹمر سپورٹ واپسی کی کارروائی کا وقت سست ہو سکتا ہے۔ انعامات کے ساتھ وفاداری کا پروگرام ملکیت اور لائسنسنگ کے بارے میں محدود معلومات باقاعدہ ٹورنامنٹ اور مقابلے کچھ گیمز کی محدود دستیابی خلاصہ میں، آپ کا پریمیئر آن لائن جوئے کا پورٹل آخر میں، لکی کریک کیسینو ان لوگوں کے لیے ایک بہترین آپشن ہے جو آن لائن جوئے کی معروف سائٹ کے خواہاں ہیں جو گیمز کا ایک دلچسپ انتخاب، فراخدلی بونس، اور ایک محفوظ ترتیب فراہم کرتا ہے جس میں کھیلنا ہے۔ لکی کریک کیسینو ایک اعلی آن لائن کیسینو تجربہ کے خواہشمند محفلوں کے لیے تیزی سے جانے والی سائٹ بن گیا ہے کیونکہ اس کی حیرت انگیز گیم لائبریری، بہت سارے پروموز، بینکنگ کے لچکدار طریقے، اور ذمہ دار کسٹمر کیئر ٹیم ہے۔ لکی کریک کیسینو مختلف قسم کے کھیل پیش کرتا ہے، بشمول سلاٹس، پوکر، اور دیگر ٹیبل گیمز۔ ایک ایسے سفر پر نکلیں جو یکساں طور پر تفریحی اور فائدہ مند ہونے کا وعدہ کرتا ہو۔ لکی کریک کیسینو میں ابھی ایکشن میں شامل ہوں یہ دیکھنے کے لیے کہ ہر کوئی اس کے بارے میں کیوں بات کر رہا ہے۔ ذہن میں رکھیں کہ لکی کریک کیسینو میں، قسمت بہادروں کی حمایت کرتی ہے۔ خبردار، جوئے میں خطرہ ہے۔ اگر آپ کی جگہ جوا کھیلنا قانونی ہے، تو براہ کرم ذمہ داری کے ساتھ ایسا کریں۔ دیگر گیمز کے لیے، رجوع کریں۔ کیسینو پیشن گوئی سافٹ ویئر. اکثر پوچھے گئے سوالات بالکل! کوراکاؤ گیمنگ اتھارٹی نے لکی کریک کیسینو کو لائسنس جاری کیا ہے، جو کیسینو کی قانونی حیثیت اور اس کے صارفین کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آپ لکی کریک کیسینو کے موبائل پلیٹ فارم کی بدولت چلتے پھرتے اپنی پسندیدہ گیمز کھیل سکتے ہیں، جو iOS اور اینڈرائیڈ دونوں سمارٹ فونز کے لیے دستیاب ہے۔ سلاٹ مشینیں، ٹیبل گیمز، ویڈیو پوکر، اور خصوصی گیمز لکی کریک پر دستیاب جوئے کے چند اختیارات ہیں۔ ہر گیمر کی ترجیحات کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ بالکل! لکی کریک کیسینو میں پروموز اور ٹورنامنٹ جوئے کے مقام کے کچھ دلچسپ ترین پہلو ہیں۔ لکی کریک کیسینو میں کریڈٹ کارڈز، الیکٹرانک بٹوے، اور کریپٹو کرنسیز ادائیگی کے کچھ اختیارات ہیں جنہیں قبول کیا جاتا ہے۔ https://blog.myfinancemoney.com/lucky-creek-casino/?rand=725 https://blog.myfinancemoney.com/lucky-creek-casino/
0 notes
cryptoguys657 · 2 years ago
Text
شبِ معراج مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے
  کراچی: ملک بھر میں شب معراج مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی فرزندان اسلام مذہبی جوش و جذبے اور عقیدت کے ساتھ  شب معراج منا رہے ہیں، مساجد میں نوافل کی ادائیگی کیلیے خصوصی اجتماعات جبکہ درود و سلام کی محافل کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس موقع پر سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت ہیں جبکہ مساجد میں چراغاں کیا گیا ہے اور دروس کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ مسلمان اللہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 5 months ago
Text
یومِ عاشور عقیدت واحترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے
پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں یومِ عاشور  خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ کے نواسے حضرت امام حسینؓ سمیت دیگر شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنےکیلئے روایتی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے جبکہ ملک بھر میں سخت سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ یوم عاشور کے موقع پر ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ماتمی جلوس نکالے جائیں گے، ذاکرین اور علمائے کرام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی…
0 notes
topurdunews · 29 days ago
Text
تمام ایئرپورٹس پر بائیو میٹرک مشینیں نصب کرنیکا فیصلہ
(24نیوز)حکومت نے بارڈر سیکیورٹی  کو مزید سخت کرتے ہوئے ملک بھر کے تمام ایئر پورٹس پر بائیو میٹرک مشینیں نصب کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ایف آئی اے کو فوری اقدامات اٹھانے کے لیے مراسلہ بھی جاری کردیا گیاہے،وزارت داخلہ نے بین الاقوامی مسافروں کے لیے بائیو میٹرک تصدیق لازمی قرار دے دی ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق بائیو میٹرک تصدیق کے باعث اشتہاری و مطلوب ملزمان کا اندرون اور بیرون ملک…
0 notes
risingpakistan · 2 years ago
Text
عمران خان کی سیاست
Tumblr media
عمران خان مشکل میں ہیں اور سیاسی پنڈتوں کے بقول وہ کئی معاملات میں ریڈ لائن کراس کر چکے ہیں۔ کئی سیاسی اور صحافتی دانشور وں کے بقول ان پر کراس لگ چکا ہے اور فوری طور پر ان کی اقتدار میں واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ موجودہ حالات میں عمران خان تنہا نظر آتے ہیں جب کہ ان سیاسی مخالفین متحد ہیں۔ عمران خان کی مزاحمتی سیاست محض اپنے سیاسی مخالفین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی چیلنج کر چکے ہیں۔ ٹکراؤ کی سیاست نے ان کو کئی محاذوں پر الجھا دیا ہے۔ ان کے بقول وہ تن تنہا ہی ان سب کا مقابلہ کر سکتے ہیں  مگر ایسا نہیں ہے۔ بیک وقت کئی محاذوں پر ان کی لڑائی نے ان کو واقعی مشکل میں ڈال دیا ہے بلکہ ان کے گرد سیاسی ، انتظامی اور قانونی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان قومی سیاست میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں پاپولر راہنما ہیں۔ ایسے میں ایک مقبول سیاسی راہنما کی سیاسی ذمے داری بھی ہمیں باقی تمام سیاسی قیادت کے مقابلے میں زیادہ نظر آنی چاہیے۔  کیونکہ ملک کو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں عمران خان سے عوامی توقعات زیادہ ہیں۔ لیکن اگر مجموعی طو رپر عمران خان کی سیاست کو دیکھیں تو اس میں ہمیں مہم جوئی، ٹکراؤ، محاذآرائی یا مزاحمت کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔
ممکن ہے کہ عمران خان کئی معاملات میں اپنے موق�� میں درست ہوں مگر ان مسائل سے نمٹنے کی جو پالیسی ہے، انھوں نے اختیار کر رکھی ہے، وہی ان کے لیے بڑا چیلنج بھی بن گیا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کے رد عمل میں جو کچھ 9 مئی کو ہوا، وہ واقعی قابل مذمت ہے اور اس کی ذمے داری پی ٹی آئی کی قیادت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ موقف کہ جلاؤ گھیراؤ میں پی ٹی آئی کے نام پر شرپسند تھے، ممکن ہے درست ہو مگر ان شرپسندوں کو روکنا، کنٹرول کرنا اور ان کی نگرانی کرنا بھی پی ٹی آئی قیادت ہی کی ذمے داری بنتی تھی۔ بنیادی طور پر سیاسی لڑائی سیاسی انداز میں ہی ہونی چاہیے، یہ لڑائی نہ صرف پرامن ہو بلکہ آئینی اور قانونی دائرہ کار تک ہی محدود رہنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے جو بھی رہنما اپنے کارکنوں اور حامیوں کو فوجی تنصیبات، دفاتر سمیت گھروں تک لے گئے، ان سے سنگین غلطی ہوئی ہے، انھیں اور پی ٹی آئی کو اس کا بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ پی ٹی آئی کی پہلے سے جاری جدوجہد میں 9 مئی کے واقعہ نے ان کو عملا دفاعی پوزیشن پر لاکر کھڑا کیا ہے، انھیں سخت تنقید اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔
Tumblr media
یہ جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے اس میں حکومتی حکمت عملی کا بھی حصہ ہے۔ اول حکومت ان کی بھی خواہش تھی کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ جاری رہے۔ دوئم عمران خان کو سیاسی اور قانونی محاذ پر اس حد تک پریشان کر دیا جائے کہ وہ ان معاملات سے باہر ہی نہ نکل سکیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کو کئی محاذوں پر نہ صرف سخت مزاحمت کا سامنا ہے بلکہ ان کے خلاف 150 سے زیادہ مقدمات بنانا، دہشت گردی کے مقدمات جیسے معاملات حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ان کے معاملات میں بہتری آنے کے بجائے کافی بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ عمران خان اس بد اعتمادی کو ختم نہیں کر سکے بلکہ معاملات کو عوامی جلسوں میں لے آئے، یہ حکمت عملی تباہ کن ثابت ہوئی۔ سوئم ان کے مخالفین ان کو سیاسی طور پر نااہل کرنا یا ان کی جماعت پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی مزاحمتی سیاست کا براہ راست فائدہ پی ڈی ایم کو ہو رہا ہے اور یہ جماعتیں اسٹیبلیشمنٹ کے قریب اور عمران خان کافی فاصلے پر نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے عمران خان نے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ جو ٹکراو کی سیاست کو اختیار کیا ہوا ہے اس سے ان کی مقبولیت تو بڑھی ہو گی مگر عملا سیاسی طاقت کے مراکز میں ان کو فی الحال مزاحمت کا سامنا ہے اور اس مزاحمت نے اب بالخصوص 9 مئی کے واقعات کے بعد ان کی اپنی جماعت میں نہ صرف بڑے پیمانے پر سیاسی توڑ پھوڑ کی ہے بلکہ پارٹی کے لوگ ہی پارٹی سے خود کو علیحدہ ک�� رہے ہیں۔
پارٹی کی مجموعی قیادت جیلوں میں ہے اور ان پر دہشت گردی کے مقدمات بھی درج ہیں اور بیسیوں کارکن جیلوں میں موجود ہیں۔ پارٹی کے اندر بھی عمران خان کی سیاسی مہم جوئی پر پارٹی میں ایک متبادل نقطہ نظر بھی موجود ہے کہ ہماری سیاسی حکمت عملی اور عمران خان کا سخت گیر پالیسی پر سختی سے قائم رہنے کی پالیسی بھی درست نہیں ہے۔ اصولی طور پر عمران خان کی سیاسی حکمت میں جو ان کو مسائل درپیش تھے یا ہیں اس میں بات چیت، مذاکرات یا ان کے ساتھ جڑ کر موجود جو بھی اختلافات یا متبادل سوچ ہے اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے تھا۔ ویسے بھی سیاسی لڑائی میں جب آپ ایک ہی وقت میں تمام محاذوں پر ٹکراو کی سیاست کریں گے تو آپ کے لیے آسانیاں کم اور مشکلات زیادہ ہوں گی۔ عمران خان کے سامنے ایک طرف بڑی سیاسی جنگ ہے اور اسی جنگ نے ان کے تمام سیاسی مخالفین کو یکجا کیا ہوا ہے جو خود عمران خان کی برتری کو نمایاں کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ان کو قانونی محاذ پر اور انتظامی سطح پر اپنے سیاسی اور غیر سیاسی حریفوں سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
وہ اپنی سیاسی طاقت کو محض ٹکراو کی سیاست کی نذر نہ کریں اور نہ ہی اپنی جماعت یا کارکنوں کو اس حد تک جذباتیت کی سیاست میں الجھا دیں کہ ا ن میں ٹھراو کی سیاست قائم نہ ہو سکے۔ عمران خان کی جو بڑی طاقت نئی نسل ہے اس کو جذباتیت یا جنوں کی سیاست کے ساتھ ساتھ مثبت طور پر ملک و قوم کی تعمیر میں بھی استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ ان کی سیاست لمبے عرصہ تک اپنی ساکھ کو قائم رکھ سکے۔ یہ بات اصولی طو رپر ٹھیک ہے کہ آپ اپنی بات منوانے کے لیے مزاحمت کا کارڈ کھیلتے ہیں اور آپ کی مضبوط مزاحمت ہی آپ کے لیے باقی فریقوں پر دباؤ کی سیاست کے نتیجے میں نئے سیاسی امکانات پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس میں جو مزاحمتی پہلو ہے اول وہ سیاسی ، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر ہی لڑنی ہے اور دوسرا سیاسی لڑائی میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ میں توازن قائم کیا جانا چاہیے۔ سیاسی ترجیحات کا تعین کیا جانا چاہیے کہ حکمت عملی کی ترجیحات اور اس کی درجہ بندی کیا ہو اور کیسے حکمت کے ساتھ ان معاملات کو سیاسی اور قانونی محاذ پر نمٹا جائے۔
وہ اپنی سیاسی طاقت اور مقبولیت کو مستقل بنیادوں پر قائم کریں اور اپنے ایجنڈے کو ایک بڑے سیاسی، انتظامی ، معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحاتی عمل کے ساتھ جوڑ کر وہ کچھ کرنے کی کوشش کریں جو ان کے سیاسی مخالفین نہیں کر رہے۔ اس وقت تحریک انصاف پر جو مشکل وقت ہے وہ بھی گزر جائے گا لیکن اس مشکل وقت میں عمران خان کا دھیمے انداز میں آگے بڑھنا ہی ان کے لیے سود مند ہو سکتا ہے۔ کوئی عمران خان کو یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ اپنی مزاحمتی سیاست سے دست بردار ہو جائیں بلکہ اصولی بات یہ ہے کہ اسی مزاحمتی سیاست میں ان کو سوچ سمجھ کر تدبر، فہم وفراست، عقل و دانش کی مدد سے آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاسی اننگز اسی صورت میں کھیلی جاتی ہے جب آپ ایک لمبی سیاسی اننگز کے لیے میدان میں رہتے ہیں۔ کیونکہ سیاسی وکٹ پر کھڑا رہنا ہی سیاسی طاقت کو برقرار رکھتا ہے۔
سلمان عابد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 10 months ago
Text
انتخابات سے قبل سنایا گیا فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کی یاد تازہ کررہا ہے
Tumblr media
خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس فیصلے کا پہلے سے ہی اندازہ تھا۔ ع��م انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل سنایا گیا یہ عدالتی فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات اور سزاؤں کی یاد تازہ کررہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو مختلف مقدمات کے ذریعے منظر سے ہٹانے کی شرمناک سیاسی روایت کے تحت عمران خان نے اپنے بہت سے پیشروؤں جیسا ہی انجام پایا ہے۔ ان پر اور شاہ محمود قریشی پر جیل کے اندر سائفر سے متعلق مقدمہ چل رہا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی رہنما کو سرکاری راز افشا کرنے پر سزا سنائی گئی ہے۔ عمران خان پر ایک سفارتی دستاویز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور خفیہ مواصلات کو گم کردینے کا الزام ہے عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ دستاویز امریکا کی جانب سے درپیش ایک خطرے کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ان کی حکومت کو واشنگٹن اور اس وقت کی فوجی قیادت کی سازش کے ذریعے ہٹایا جارہا ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے بھیجے گئے سائفر کو غلط طریقے سے استعمال کیا تھا اور یہ بیانیہ گھڑ لیا گیا تھا کہ ان کی حکومت کو بیرونی سازش کے ذریعے ہٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے نام نہاد دستاویز کو ایک سیاسی جلسے میں لہرایا، جس سے ان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے سے کچھ ہفتوں پہلے عوامی جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اس بیانیے نے کام دکھایا اور عمران خان کے حامیوں کو پرجوش کر دیا۔ یہ واضح ہے کہ سازش کا الزام انہیں عسکری قیادت کے ساتھ بھی محاذ آرائی پر لے آیا، وہی عسکری قیادت جس نے کبھی ان کی حکومت کو سہارا دیا تھا۔ درحقیقت سابق وزیر اعظم کے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کے پیچھے بدلہ لینے کی خواہش کارفرما تھی۔ جیل کے اندر عدالتی کارروائی جس طریقے سے چلی اس سے مس ٹرائل کے الزامات کو تقویت ملی۔ پھر انتخابات سے چند روز قبل فیصلہ سنایا جانا بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔
Tumblr media
 یہ سابق وزیر اعظم کی دوسری سزا ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مجرم ٹھہرائے گئے تھے۔ انہیں گزشتہ سال اگست میں توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی، جس نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا۔ دریں اثنا، پی ٹی آئی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن نے پارٹی کے ڈھانچے کو ختم کر دیا ہے۔ اس کا مقصد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان یعنی کرکٹ بیٹ واپس لے لیا اور اس فیصل�� کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے انتخابی امکانات کو سب سے بڑا دھچکا پہنچا۔ پھر بھی تمام تر ریاستی جبر کے باوجود پی ٹی آئی ایک مضبوط قوت بنی ہوئی ہے، جس نے آنے والے انتخابات، جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں مینیج کر لیا گیا ہے، میں اپنے حریفوں کو چیلنج کیا ہے۔ انتخابات کے موقع پر پارٹی کے دو اہم رہنماؤں کو سزا سنانے کا مقصد پارٹی کے حامیوں کے حوصلے پست کرنا لگتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ اس کے برعکس بھی نکل سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے حامی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلیں۔ ایسی صورتحال میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس لہر کو روکنا انتہائی مشکل ہو گا۔ 
پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما کی سزا پورے سیاسی ماحول کو بدل سکتی ہے۔ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو مقبول سیاسی رہنماؤں کو الگ تھلگ کرنے کی ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ درحقیقت، اس بات کے قوی اشارے ہیں کہ سزا سے سابق وزیر اعظم کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے خاص طور پر نوجوانوں میں جو کہ کل ووٹروں کی اکثریت ہیں۔ یہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مرکزی دھارے کی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے کھیلے جانے والے طاقت کے کھیل کو بھی خراب کر سکتا ہے۔ انتخابی عمل میں عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا مظاہرہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمزور انتخابی مہم سے ہوتا ہے۔پی ٹی آئی اور کچھ دوسرے گروہوں پر جاری جبر نے پہلے ہی ایک انتہائی غیر مستحکم صورتحال پیدا کر دی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران خان کی سزا ملک میں موجودہ سیاسی پولرائزیشن اور عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے، جس سے پورے جمہوری عمل کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات کی ساکھ پہلے ہی مشکوک ہونے کے باعث ملک کے استحکام کی طرف بڑھنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ 
مشکوک انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی ایک کمزور سویلین حکومت کے لیے بہتر حکومت کرنے اور اقتصادی اور قومی سلامتی کے محاذوں پر کچھ ڈیلیور کرنے کا امکان نہیں ہے۔ جمہوری سیاسی عمل کے کمزور ہونے کے نتیجے میں طاقت کے ڈھانچے پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا سایہ پہلے ہی طویل ہو چکا ہے۔ ایک عوامی اجتماع میں آرمی چیف کے حالیہ تبصروں سے متعلق سامنے آنے والی کچھ خبریں موجودہ سیاسی نظام کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے تنقیدی جائزے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ملک میں آرمی چیف کا اسٹیبلشمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر کے موضوعات پر بات کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی جب موجودہ آرمی چیف نے طلبہ سے بات کرتے ہوئے سیاست سے لے کر معیشت، خارجہ پالیسی اور مذہب تک کے مسائل پر بات کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اپنا وژن تھا کہ ملک کس طرح اپنی تقدیر بدل سکتا ہے، کچھ لوگ اسے ’جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن‘ کہتے ہیں،۔ یہ یقینی طور پر پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کے ریمارکس فوجی سربراہوں سے منسوب کیے گئے ہوں۔ 
سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھی ملک کو درست سمت میں لے جانے کے لیے اپنی ایک ’ڈاکٹرائن‘ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ کے ساتھ یہ عوامی تعامل انتخابات کے قریب ہی ہوا تھا۔ ایسا عمران خان کی تازہ ترین سزا سے چند دن پہلے ہونا اتفاق نہیں ہو سکتا۔ یہ یقینی طور پر کوئی غیر سیاسی گفتگو نہیں تھی اور اس کے ملک کے مستقبل پر اثرات ہوں گے۔ اگرچہ سیاست کے بارے میں آرمی چیف کے خیالات زیادہ تر سویلین سیاسی رہنماؤں پر ادارہ جاتی عدم اعتماد کی عکاسی کرتے تھے تاہم سماجی اور ثقافتی مسائل پر ان کا نقطہ نظر زیادہ اہم لگا۔ اگرچہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ فوج زمام اقتدار سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ سویلینز کو بھی کھلی چھوٹ نہیں دینا چاہتی ہے۔ سیاست دانوں کا عدم اعتماد اب بھی واضح ہے، حالانکہ انتخابات کے انعقاد پر شک کی اب کوئی وجہ نہیں ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ عمران خان کی سزا کے بعد سیاسی منظر نامہ کیسا بنتا ہے۔
زاہد حسین  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
cryptosecrets · 2 years ago
Text
شبِ معراج مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے
  کراچی: ملک بھر میں شب معراج مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی فرزندان اسلام مذہبی جوش و جذبے اور عقیدت کے ساتھ  شب معراج منا رہے ہیں، مساجد میں نوافل کی ادائیگی کیلیے خصوصی اجتماعات جبکہ درود و سلام کی محافل کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس موقع پر سیکیورٹی کے انتظامات انتہائی سخت ہیں جبکہ مساجد میں چراغاں کیا گیا ہے اور دروس کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ مسلمان اللہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dpr-lahore-division · 5 months ago
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ، محکمہ تعلقات عامہ ، حکومت پنجاب ، شیخوپورہ
ہینڈ آؤٹ نمبر:10047
17 جولائی 2024
شیخوپورہ: ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار علی خان کا ایڈیشنل کمشنر عثمان غنی کے ہمراہ مرکزی جلوس کے روٹ کا دورہ۔
شیخوپورہ: ڈپٹی کمشنر نے جلوسوں کے عزاداروں میں لنگر اور ٹھنڈے و میٹھے پانی کی تقسیم کا جائزہ لیا۔
شیخوپورہ:جلوسوں کے روٹس و دیگر مقامات پر شہریوں میں کھانا اور پانی تقسیم کیا۔
شیخوپورہ: ضلع شیخوپورہ میں یومِ عاشور عقیدت و احترام کیساتھ منایا جارہا ہے۔
شیخوپورہ: نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے جانثاروں کی عظیم قربانی کی یاد میں مرکزی جلوس امام بارگاہ گلستان زہرہ سے برآمد ہوا۔
شیخوپورہ: مرکزی جلوس کے راستوں پر 22 سو سے زائد پولیس اہلکاران تعینات کے گئے ہیں۔
شیخوپورہ: ضلع بھر میں یوم عاشورہ پر 69 چھوٹے بڑے جلوس اپنے روائتی اور قدیمی راستوں پر گامزن ۔
شیخوپورہ: شہدائے کربلا کی عظیم قربانیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ ڈاکٹر وقار علی خان
شیخوپورہ: یوم عاشور کا دن ہمیں محبت اور اتحاد کی نئی مثال قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ
شیخوپورہ: ضلع بھر میں 10 محرم کی مجالس اور جلوسوں کے لیے بہترین اور فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار علی خان
شیخوپورہ: ریسکیو 1122، محکمہ صحت، سول ڈیفنس، میونسپل کمیٹی اور پولیس اہلکار ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار علی خان
شیخوپورہ: ضلعی کنٹرول روم سے مجالس اور جلوسوں کی لائیو مانیٹرنگ کی جا رہی ہے ۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ
شیخوپورہ: ضلعی اور تحصیل کی سطح پر قائم کیے گئے کنٹرول رومز میں تمام محکموں کا عملہ تعینات کیا گیا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر
شیخوپورہ: شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کی چیکنگ کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ
شیخوپورہ: ضلعی انتظامیہ کو ہمیشہ امن کمیٹی کے ممبران اور علماء کرام کا بھر پور تعاون حاصل ہے ، ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار علی خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 notes