#تراجم قرآن
Explore tagged Tumblr posts
Text
ترجمہ فہم القرآن ۔۔۔ میاں محمد جمیل، جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل ٹیکسٹ فائل کتاب کا نمونہ پڑھیں ….. ۔ البقرۃ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ۱۔ الٓمّٓ۔ ۲۔ اس کتاب میں کوئی شک نہیں یہ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔ ۳۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے، نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ۴۔ اور جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل کیا…
View On WordPress
1 note
·
View note
Text
عندي قناعة أن أصحاب التخصصات غير الشرعية (طب، هندسة، تجارة... إلخ) بحاجة إلى المواظبة على ورد من القرآن الكريم والسنة النبوية وقراءة تراجم السلف أكثر من المتخصصين من المجالات الشرعية.
ليه؟
عشان طبيعة الحياة المعاصرة بتخليك خلال الدراسة والعمل في المجالات دي ممكن تقعد طول السنة متسمعش كلمة في الدين، فلو ما اتحركتش بنفسك هتلاقي الدنيا بقت طاغية في حياتك، ومعايير السوق بقت هي معاييرك.
طب أنا مليش في القراءة، أعمل إيه؟
أكثر من السماع، تلاوة قرآن بقى ودروس وتلمّس حِلَق الذكر سواء كانت واقعية أو إلكترونية، المهم متسيبش الدنيا تاخدك.
اللهم يا مقلب القلوب ثبت قلوبنا على دينك. 💙
د. خالد عبد ربه.
#بَصَآئِر
4 notes
·
View notes
Text
آج سر سید احمد خان کا یوم پیدائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرسید احمد خاں برصغیرمیں مسلم نشاط ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا.
سر سید احمد خان انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی. آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔
" سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اسوقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے ۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ ..... وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ ... سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔
سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل كی. ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاك كا مطالعہ كیا اور عربی اور فارسی ادب كا مطالعہ بھی كیا۔ اس كے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل كی.جریدے Sayyad القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی.
سر سید نے کئی سال کے لئے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس نے کورس مکمل نہیں ہے.
ابتدائی تعلیم حاصل كرنے كے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی كام سیكھا۔ 1837ء میں آگرہ میں كمیشنر كے دفتر میں بطور نائب منشی فرائض سنبھالے۔ 1841ئ اور 1842ئ میں مین پوری اور 1842ء اور1846ء تك فتح پور سیكری میں سركاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی كرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام كے دوران آپ نے اپنی مشہور كتاب " آثار الصنادید" 1847ء میں لكھی۔ 1857ئ میں آپ كا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام كے دوران آپ نے اپنی " كتاب سركشی ضلع بجنور" لكھی۔ جنگ آزادی كے دوران آپ بجنور میں قیام پذیر تھے۔ اس كٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اوربچوں كی جانیں بچائیں۔آپ نے یہ كام انسانی ہمدردی كیلئے ادا كیا۔ جنگ آزادی كے بعد آپ كو آپ كی خدمات كے عوض انعام دینے كیلئے ایك جاگیر كی پیشكش ہوئی جسے آپ نے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔
1857ء میں آپ كو ترقی دے كر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ كی تعیناتی مراد آباد كر دی گئی۔ 1862ء میں آپ كا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے۔
1877ء میں آپ كو امپیریل كونسل كا ركن نامزد كیا گیا۔ 1888ء میں آپ كو سر كا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان كی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ كو ایل ایل ڈی كی اعزازی ڈگری دی۔ 1864ء میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں مضامین سرسید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ اورادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔
۔ 1859 ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گیے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں Tatler اور Spectator کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ (علیگڑھ تحریک)۔۔۔۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔
آپ نے 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں وفات پائی اور اپنے محبوب کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔ سرسید کی تمام زندگی قوم و ادب کی خدمت میں گزری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں ۔ ۔ ۔ انہوں نے دربار کو جانا کم کردیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو ، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی ، دلوانا شروع کردیا تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:
" ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا ۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہوگئی ۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا ۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے ، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے ، پوچھا کہ " تمہارا بیٹا ہے؟" انہوں نے کہا، "حضور کا خانہ زاد! " بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے ، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترہ پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتئ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اہنے سامنے بلا��ا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ " دیر کیوں کی؟" حاضرین نے کہا ، " عرض کرو کہ تقصیر ہوئی " مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ " سو گیا تھا! " بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، " بہت سویرے اُٹھا کرو! " اور ہاتھ چھوڑ دئیے ۔ لوگوں نے کہا، " آداب بجا لاؤ! " میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اُٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی
۔۔۔
1855 ء میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف "آئین اکبری" کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا ۔ اس میں انہو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کردیا۔
دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے ۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔
سر سید کہتے تھے کہ :
" جب میں مرادآباد میں تھا ، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے ، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آکر ٹھہرے ہیں ۔ میں فورا سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔"
ظاہراً جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لئے مرزا نے مرادآباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی ۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا ۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا توبہت گھبرائے ، سرسید نے کہا:
" آپ خاطر جمع رکھئے ، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔"
مرزا صاحب نے کہا، " بھئی مجھے دکھا دو ، تم نے کہاں رکھی ہے؟" انہوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی ۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، " بھئی ! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے ، شاید اسی لئے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے:
واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند
سرسید ہنس کے چُپ ہورہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی ، رفع ہوگئی ، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے
۔۔۔۔
تصانیف
۔۔۔۔۔
آثار الصنادید
خطبات احمدیہ
الکلام
سفرنامہ لندن
تاریخ بجنور
۔۔۔۔۔۔
سرسید كا نقطہ نظر تھا كہ مسلم قوم كی ترقی كی راہ تعلیم كی مدد سے ہی ہموار كی جا سكتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ جدید تعلیم حاصل كریں اوار دوسری اقوام كے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلكہ مسلمانوں كے لیے جدید علوم كے حصول كی سہولتیں بھی فراہم كرنے كی پوری كوشش كی۔ انہوںنے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم كی طرف مسلمانوں كو راغب كیا۔ انہوںنے انگریزی كی تعلیم كو مسلمانوں كی كامیابی كے لیے زینہ قرار دیا تاكہ وہ ہندوئوں كے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل كر سكیں۔
1859 میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ئ میں غازی پور میں مدرسے قائم كیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی كے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے كا بندوبست بھی كیا گیا۔
1875ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول كی بنیاد ركھی جو بعد ازاں ایم ۔اے۔ او كالج اور آپ كی وفات كے بعد 1920ء میں یونیورسٹی كا درجہ اختیار كر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرن��ڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ كی خدمات حاصل كیں۔
1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفك سوسائٹی كے نام سے ایك ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے كے قیام كا مقصد مغربی زبانوں میں لكھی گئیں كتب كے اردو تراجم كرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی كے دفاتر علی گڑھ میں منتقل كر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل كو انگریزی زبان سیكھنے كی ترغیب دی تاكہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سكے۔ یوں دیھکتے ہی دیكھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم كا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی كی خدمات كی بدولت اردو زبان كو بہت ترقی نصیب ہوئ ۔
1886ئ میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے نام سے ایك ادارے كی گنیاد ركھی گئی۔ مسلم قوم كی تعلیمی ضرورتون كے لیے قوم كی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور كانفرنس كی كاركردگی سے متاثر ہو كر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں كا آغاز كیا۔ لاہور میں اسلامیہ كالج كراچی میں سندھ مسلم مدرسہ٬ پشاور میں اسلامیہ كالج اور كانپور میں حلیم كالج كی بنیاد ركھی۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس مسلمانوں كے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق كے تحفظ كے لیے بھی كوشاں رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔ سر سید کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا۔[4] اس سوسائٹی کے جلسوں میں جس میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوتے اور آلات کے ذریعہ تجربے بھی کیے جاتے، کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو بتایا جا سکے کہ بنا جدید علوم خاص طور پرسائنس کے میدان میں ترقی نہیں کی جا سکتی اور اسی لیے سائنٹفک سوسائٹی نے جن دو درجن کتابوں کا ترجمہ کرایا ان میں چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاضی اورسائنس سے متعلق تھیں۔ سر سید احمد خاں کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جا رہا ہے اور جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہی راستا اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درسگاہیں کیسی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے؟ اس لیے وہ خود انگلستان گئے، وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا، تعلیمی اداروں میں رہے، اساتذہ سے ملاقاتیں کیں اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا۔[4] انہوں نے کہا:[5] ” میں نے صرف اس خیال سے کہ کیا راہ ہے جس سے قوم کی حالت درست ہو، دور دراز سفر اختیار کیا اور بہت کچھ دیکھا جو دیکھنے کے لائق تھا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میں نے کوئی عمدہ چیز دیکھی، جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جب کبھی علمی مجلسیں دیکھیں، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے، جب کبھی کھیل کود، عیش و آرام کے جلسے دیکھے، یہاں تک کہ جب کبھی کسی خوب صورت شخص کو دیکھا مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں، جہاں تک ہو سکا ہر موقع پر میں نے قومی ترقی کی تدبیروں پر غور کیا سب سے اول یہی تدبیر سوجھی کہ قوم کے لیے قوم ہی کے ہاتھ سے ایک مدرسہ العلوم قائم کیا جائے جس کی بنا آ پ کے شہر میں اور آپ کے زیر سایہ پڑی۔ “
۔۔۔
سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجہ رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یار دعمل تو مایوسی ، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پارہا تھا ۔ اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لئے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہوگئے۔ اس مقصد کے لئے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔ 1869 ءمیں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ، اور گارڈین سے متاثر ہو کر ۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لئے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں. علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی.
سر سید احمد خاں نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی داغ بیل ڈالی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا:
” میں ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہو جائے، اگرگورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ “
ا س تحریك كے دیگر قائدین میں سے محسن الملك٬ وقار الملك٬ مولانا شبلی نعمانی٬ مولانا الطاف حسین حالی٬ اور مولانا چراغ علی خاص طور پر قابل ذكر ہیں۔ ان لوگوں نے وہ كارہائے نمایاں انجام دیے كہ آنے والی مسلم نسلیں ان كی جتین بھی قدر كریں كم ہے۔ سرسید اور ان كے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریك كو ایك ہمہ گیر اور جامع تحریك بنا دیا۔ یوں مسلمانوں كی نشاۃ الثانیہ كا آغازہوا۔
۔۔۔۔۔۔
1857ءكی جنگ آزادی كی تمام تر ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انہیں سزا دینے كے لئے ان كے خلاف نہایت ظالمانہ اقدامات كئے گئے ہندو جو كہ جنگ آزادی میں برابر كے شریك تھے۔ انہیں بالكل كچھ نہ كہا گیا۔ انگریز كی اس پالیسی كی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان معاشی حالت ابتر ہو گئی انگریزوں نے فارسی كی بجائے جو كہ مسلمانوں كی زبان تھی۔ انگریزی كو سركاری زبان كا درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان كسی صورت بھی انگریزی زبان سیكھنے پر رضا مند نہ تھے، دوسری طرف ہندووٕں نے فوری طور پر انگریزی زبان كو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نكل گئے۔
ان اقدامات نے مسلمانوں كی معاشی اور معاشرتی حالت كو بہت متاثر كیا تھا مسلمان جو كبھی ہندوستان كے حكمران تھے، ادب ادنیٰ درجے كے شہری تھے۔ جنہیں ان كے تمام حقوق سے محروم كر دیا گیا تھا۔
سرسید احمد خان مسلمانوں كی ابتر حالت اور معاشی بدحالی كو دیكھ كر بہت كڑھتے تھے آپ مسلمانوں كو زندگی كے باعزت مقام پر دیكھنا چاہتے تھے اور انہیں ان كا جائز مقام دلانے كے خواہاں تھے۔ آپ نے مسلمانوں كی راہنمائی كا ارادہ كیا اور انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل كرنے كے لئے جدوجہد كی تلقین كی۔
سرسید احمد خان نے یہ محسوس كر لیا تھا كہ ہندوستان كے مسلمانوں كی موجودہ حالت كی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں كے انتہا پسند رویے كی وجہ سے ہے۔ ہندوستان كے مسلمان انگریز كو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیكھنا اپنے مذہب كے خلاف تصور كرتے تھے۔ مسلمانوں كے اس رویے كی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں كے درمیان ایك خلیج حائل رہی، سرسید احمد خان نے یہ محسوس كر لیا تھا كہ جب تك مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں كے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ كریں گے ان كی حالت بہتر نہ ہو سكے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندووٕں سے پیچھے رہیں گے۔ آپ نے مسلمانوں كو یہ تلقین كی كہ وہ انگریزوں كے متعلق اپنا رویہ بدلیں كیونكہ انگریز ملك كے حكمران ہیں۔ آپ نے اپنی تحریك كا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں كے درمیان غلط فہمی كی فضا كو ختم كرنے سے كیا۔
۔۔۔۔۔۔
سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے كہ مسلمانوں كی موجودہ بدحالی كا سب سے بڑا سبب مسلمانوں كا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ آپ یہ سمجھتے تھے كہ مسلمانوں كو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت كا رویہ ترك كر كے مفاہمت كا راستہ اختیار كرنا چاہئے۔ دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاصل كر كے تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نكل گئے تھے اور اعلیٰ ملازمتیں حاصل كر لی تھیں۔ آپ نے مسلمانوں كو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے كی تلقین كی اور انہیں یہ باور كرایا كہ جب تك وہ اپنا انتہا پسند رویہ ترك كر كے انگریزی علوم نہیں سیكھیں گے وہ كسی طرح بھی اپنی موجودہ بدحالی پر قابو نہ پا سكیں گے۔ آپ نے قرآن پاك كے حوالے دے كر مسلمانوں كو یہ سمجھایا كہ انگریزی علوم سیكھنا اسلام كے خلاف نہیں ہے آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں كو خبردار كیا۔ مسلمانوں كی تعلیمی بہتری كے لئے آپ نے متعدد اقدامات كئے۔
1859ء میں مراد آباد كے مقام پر ایك مدرسہ قائم كیا گیا جہاں فارسی كی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسے میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ 1863ئ میں غازی پور میں سائنٹیفك سوسائٹی قائم كی گئی جس كا مقصد انگریزی علوم كو اردو اور فارسی میں ترجمہ كرنا تھا تاكہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ كرسكیں۔ 1866ئ میں سائنٹیفك سوسائٹی كے زیر اہتمام ایك اخبارجاری كیا گیا جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ كہا جاتا ہے یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع كیا جاتا تھا۔ اس اخبار كے ذریعے انگریزوں كو مسلمانوں كے جذبات سے آگاہ كیا جاتا تھا۔
1869ء میں آپ كے بیٹے سید محمود كو حكومت كی طرف سے اعلیٰ تعلیم كے لئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے كے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا كر آپ نے آكسفورڈ اور كیمبرج یونیورسٹیوں كے نظام تعلیم كا مشاہدہ كیا۔ آپ ان یونیورسٹیوں كے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ كیا كہ ہندوستان جا كر ان یونیورسٹیوں كی طرز كا ایك كالج قائم كریں گے۔
آپ انگلستان سے 1870ء میں واپس آئے اور [[ہندوستان] میں انجمن ترقی مسلمانان ہند كے نام سے ایك ادارہ قائم كیا جس كا مقصد مسلمانوں كو جدید تعلیم سے روشناس كرانا تھا۔ 1870ءمیں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لكھا جس میں آپ نے مسلمانوں كے ان معاشرتی پہلووٕں كی نشاندہی كی جن كی اصلاح كرنا مقصود تھی اور مسلمانوں كو تلقین كی كہ وہ اپنے ان پہلووٕں كی فوری اصلاح كریں۔
۔۔۔۔۔۔
انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں كی تعلیمی ترقی كے لئے ایك كمیٹی قائم كر دی جس نے اعلیٰ تعلیم كے لئے ایك كالج كے قیام كے لئے كام شروع كیا۔ اس كمیٹی كو محمڈن كالج كمیٹی كہا جاتا ہے۔ كمیٹی نے ایك فنڈ كمیٹی قائم كی جس نے ملك كے طول و عرض سے كالج كے لئے چندہ اكٹھا كیا۔ حكومت سے بھی امداد كی درخواست كی گئی۔
1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول قائم كیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے كا بندوبست كیا گیا۔ 1877ء میں اس اسكول كو كالج كا درجہ دے دیا گیا جس كا افتتاح لارڈ لٹن نے كیا۔ یہ كالج رہائشی كالج تھا اور یہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید كی یہ دلی خواہش تھی كہ اس كالج كو یونیورسٹی كا درجہ دلا دیں۔ یہ كالج سرسید كی وفات كے بعد 1920ء میں یونیورسٹی بن گیا یہاں سے فارغ التحصیل طلباءنے آگے چل كر تحریك پاكستان میں نمایاں كردار ادا كیا۔
۔۔۔۔
سرسید احمد خان نے 27دسمبر 1886ء كو محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كی بنیاد ركھی اس كانفرنس كا بنیادی مقصد مسلمانوں كی تعلیمی ترقی كے لئے اقدامات كرنا تھا۔ اس كا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ كانفرنس نے تعلیم كی اشاعت كے لئے مختلف مقامات پر جلسے كئے۔ہر شہر اور قصبے میں اس كی ذیلی كمیٹیاں قائم كی گئیں۔ اس كانفرنس كی كوششوں سے مسلمانوں كے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس كانفرنس نے ملك كے ہر حصے میں اجلاس منعقد كئے اور مسلمانوں كو جدید تعلیم كی اہمیت سے روشناس كرایا۔ اس كانفرنس كے سربراہوں میں نواب محسن الملك، نواب وقار الملك، مولانا شبلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔
محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل كر تعلیمی ترقی كے اقدامات پر غور كیا جاتا تھا اور مسلمانوں كے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور كیا جاتا تھا۔[7]
آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام بھی 1906ء میں محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے موقع پر ڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے موقع پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلاس میں شركت كی۔ اجلاس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایك سیاسی جماعت تشكیل دی جائے۔ یاد رہے كہ سرسید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا۔ لیكن بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ ننواب محسن الملك، مولانامحمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ كا صدر سید امیر علی كو بنایا گیا۔
۔۔۔
1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کردیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867 ء میں ہی اردو ہندی تنازعہ کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علیحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جارہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں ار ہندوؤں کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔[8]
اردو زبان كی ترقی و ترویج كا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی كی منزلیں طے كرتی ہوئی ہندوستان كے مسلمانوں كی زبان بن گئی۔ اردو كئی زبانوں كے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لئے اسے لشكری زبان بھی كہا جاتا ہے۔ اس كی ترقی میں مسلمانوں كے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت كام كیا ہے سرسید احمد خان نے بھی اردو كی ترویج و ترقی میں نمایاں كام كیا لیكن چونكہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت كرتا تھا جس سے مسلمانوں كی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندووٕں نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی۔
1867ء میں بنارس كے چیدہ چیدہ ہندو رہنماوٕں نے مطالبہ كیا كہ سركاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی كو یكسر ختم كر دیا جائے اور اس كی جگہ ہندی كو سركاری زبان كے طور پر رائج كیا جائے۔ ہندووٕں كے اس مطالبے سے سرسید احمد خان پر ہندووٕں كا تعصب عیاں ہو گیا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد كے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا كہ :
٫٫ مجھے یقین ہو گیا ہے كہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایك قوم كے كبھی نہیں ایك دوسرے كے ساتھ مل كر نہیں رہ سكتے۔٬٬
سرسید احمد خان نے ہندووٕں كی اردو زبان كی مخالفت كے پیش نظر اردو كے تحفظ كے لئے اقدامات كرنیكا ارادہ كیا1867ء میں آپ نے حكومت سے مطالبہ كیا كہ ایك ٫٫ دار الترجمہ٬٬ قائم كیا جائے تاكہ یونیورسٹی كے طلبائ كیلئے كتابوں كا اردو ترجمہ كیا جا سكے ہندووٕں نے سرسید احمد خان كے اس مطالبے كی شدت سے مخالفت كی لیكن آپ نے تحفظ اردو كے لئے ہندووٕں كا خوب مقابلہ كیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایك تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم كی اورسائنٹیفك سوسائٹی كے ذریعے اردو كی حفاظت كا بخوبی بندوبست كیا۔
ہندووٕں نےاردو كی مخالفت میں اپنی تحریك كو جاری ركھا۔1817ء میں بنگال كے لیفٹیننٹ گورنر كیمبل نے اردو كو نصابی كتب سے خارج كرنے كا حكم دیا۔ ہندووٕں كی تحریك كی وجہ سے 1900ء میں یو پی كے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میكڈانلڈ نے احكامات جاری كئے كہ دفاتر میں اردو كی بجائے ہندی كو بطور سركاری زبان استعمال كیا جائے۔
اس حكم كے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900 ء كو علی گڑھ میں نواب محسن الملك نے ایك جلسے سے خطاب ��رتے ہوئے حكومت كے اقدام پر سخت نكتہ چینی كی۔ نواب محسن الملك نے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم كی جس كے تحت ملك میں مختلف مقامات پر اردو كی حمایت میں جلسے كئے گئے اور حكومت كے خلاف سخت غصے كا اظہار كیا گیا۔ اردو كی حفاظت كے لئے علی گڑھ كے طلبائ نے پرجوش مظاہرے كئے جس كی بنائ پر گونر میكڈانلڈ كی جانب سے نواب محسن الملك كو یہ دھمكی دی گئی كہ كالج كی سركاری گرانٹ بند كر دی جائے گی۔
اردو كے خلاف تحریك میں كانگریس اپنی پوری قوت كے ساتھ شامل كار رہی اور اسے قبول كرنے سے انكار كر دیا۔ اردو زبان كی مخالفت كے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشكار ہو گئی۔ اس تحریك كے بعد مسلمانوں كو اپنے ثقافتی ورثے كا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت كے تحفظ كے لئے متحد ہوئی۔
سرسیّد احمد خان نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔
۔۔۔۔
آپ نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم كے حصول اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحای پر دین تاكہ وہ ہندوئوں كے برابر مقام حاصل كر سكیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات كو ختم كر كے تعاون اور اتحاد كی راہ رپ گامزن كرنے كے حق میں بھی تھے۔ انہوںنے دونوں قوموں كو ایك دوسرے كے قریب لانے كی مسلسل كوششیں كیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ بھرتی كیے اور ہندو طلباء كو داخلے دیے ہندووں نے اردو كے مقابل ہندی كو سركاری دفاتر كی زبان كا درجہ دلوانے كے لیے كوششیں شروع كر دیں۔ 1857ء میں اردو ہندی تنازعے نے سرسید كو بددل كر دیا اور اانہوںنے صرف اور صرف مسلمانوں كے حقوق كے تحفظ كے لیے اپنی تحریك كے ذریعے كام شروع كر دیا۔ زبان كا تنازعہ سرسید كی سوچ اور عمل كو بدل گیا۔ انہوںنے دو قومی نظریہ كی بنیادپر برصغیر كے سیاسی اور دیگر مسائل كے حل تلاش كرنے كا فیصلہ كیا۔
سرسید كی سیاسی حكمت عملی كی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں كو ایك علیحدہ قوم ثابت كیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ كے افكار كو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ كی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال كی۔ انہوںنے كہا كہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب كے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایك مكمل قوم وك درجہ ركھتے ہیں۔ مسلمانوں كی علیحدہ قومی حیثیت كے حوالے سے سرسید احمد نے ان كے یلے لوكل كونسلوں میں نشستوں كی تخصیص چاہی اعلیٰ سركاری ملازمتوں كے لیے كھلے مقابلے كے امتحان كے خلاف مہم چلائی٬ اكثریت كی مرضی كے تحت قائم ہونے والی حكومت والے نظام كو ناپسند كیا۔ ا نہو ں نے مسلمانوں كی علیحدہ پہچان كروائی اور دو قومی نظریہ كی بنیاد پر ان كے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں كوسیاست سے دور ركھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوںنے مسلمانوں كو 1885ء میں ایك انگریز اے او ہیوم كی كوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دورركھا۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید كی پالیسی كی افادیت كو ثابت كر دیا ان كو بجا طور پر پاكستان كے بانیوں میں شمار كیا جاتاہے۔
مولوی عبدالحق نے سرسید كی قومی و سیاسی خدمات كے حوالے سے لكھا ہے:
٫٫قصر پاكستان كی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مرد پیر نے ركھی تھی٬٬
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
��شکریہ خالد محمود
1 note
·
View note
Text
عبد الرحٰمن باسکوینی انتقال کرگئے
عبد الرحٰمن باسکوینی انتقال کرگئے
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ اطالوی(Italian) داعی اور مترجم قرآن عبد الرحٰمن باسکوینی انتقال کرگئے اطالوی(Italian)زبان میں قرآن کے چودہ(14)مکمل اور بارہ(12) نامکمل تراجم موجود ہیں۔ یہ تراجم مستشرقین اور غیر مسلموں نے کیے ہیں۔ان تراجم میں بے شمار غلطیاں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے کئی تراجم اصل عربی متن کے مفہوم سے ہٹ کر اور بعید تر ہیں ۔ان تراجم قرآن میں بعض تراجم فرانسیی ولاطینی…
View On WordPress
0 notes
Text
پنجابی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع ہوگیا - اردو نیوز پیڈیا
پنجابی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع ہوگیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین لاہور: اسلامی کتب کی اشاعت کے معروف ادارے دارالسلام نے پنجابی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع کردیا ہے۔ دارالسلام انٹر نیشنل کے مینجنگ ڈائریکٹر عبدالمالک مجاہد کا کہنا ہے کہ ادارے نے پنجابی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع کردیا، اس سے قبل 28 عالمی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع کیے گئے، پنجابی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ وقت کی اہم ضرورت تھی جسے اب پورا کیا گیا…
View On WordPress
0 notes
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/quran-collection/poetry-quranic-surahs-jalli-new-edition-khalil-ur-rehman-chishti/
Poetry of Quranic Surahs Jalli-New Edition by Khalil-ur-Rehman Chishti
#1493
مصنف : خلیل الرحمن چشتی
مشاہدات : 26829
قرآنی سورتوں کا نظم جلی۔نیو ايڈیشن
ڈاؤن لوڈ 1
قرآن کریم کلام الٰہی اور زندہ و جاوید معجزہ ہے۔اس کا اعجاز در حقیقت اسکی تاثیری زبان،بلاغت و فصاحت،اسالیب و مضامین اور اس کے خاص کلیدی الفاظ اور خاص اصلاحات میں پنہاں ہے۔قرآن کریم چونکہ ہماری فوز و فلاح اور صلاح و اصلاح کا سچا ضامن ہےلہذا اس کی تفہیم و افہام کیلئے تراجم کے ساتھ ساتھ آیات و سور کے باہمی ربط و نظم کو ملحوظ خاطر رکھنا از بس ضروری و لازمی ہے۔قرآن کے نظم جلی اور نظم خفی پر واقفیت حاصل کرنا اس اعتبار سے بہت کارآمد ہے کہ اس کےذریعے سے ربط کلام اور وحدت کلام کو بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس کے ذریعے سے قرآن کریم کا درست ترجمہ کرنے اور فہم قرآن کی استعداد و لیاقت کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔اس طرح محدود وقت میں قرآن کریم کی تفہیم و افہام آسان ہو جا تا ہے۔ زیر نظر کتاب اس حوالے سے قابل داد ہے کہ اس میں موصوف کے وسیع تجر بات و مشاہدات ،قرآن فہمی اور اسکے عمیق مطالعے کی جھلک نظر آتی ہے۔ ’قرآنی سورتوں کا نظم جلی‘ کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے۔ پہلا ایڈیشن بھی قارئین کتاب و سنت ڈاٹ کام کے لیے مزید مطالعہ۔۔۔
#Poetry of Quranic Surahs Jalli-New Edition by Khalil-ur-Rehman Chishti#قرآنی سورتوں کا نظم جلی۔نیو ايڈیشن مصنف : خلیل الرحمن چشتی
0 notes
Photo
ابن بطوطہ سے کون واقف نہیں سیر و سیّاحت کے دلدادہ ابنِ بطوطہ ایک مؤرخ اور وقائع نگار تھے جنھوں نے نوجوانی میں حج کی ادائیگی کے ساتھ دنیا بھر کی سیر کرنے کی ٹھانی اور گھر سے نکل پڑے۔ اپنے اس سفر میں انھوں نے مختلف ملکوں میں قیام کے دوران سیر و سیّاحت کا شوق پورا کیا۔ انھیں حکم رانوں، امرا اور اپنے وقت کی عالم فاضل شخصیات اور قابل لوگوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے سارا آنکھوں دیکھا حال اور ماجرا کتاب میں محفوظ کرلیا۔ ان کا سفر نامہ آج بھی مقبول ہے۔ ابنِ بطوطہ کے سفرنامے کے مختلف اردو تراجم آج بھی ذوق و شوق اور دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ترجمے سے یہاں وہ سطور نقل کی جارہی ہیں جس میں ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرِ شام کے دوران پھوٹ پڑنے والی وبا کا تذکرہ کیا ہے۔ ابنِ بطوطہ لکھتے ہیں: “میں عظیم طاعون کے زمانے میں ربیع الآخر سن 749 ھجری (1348عیسوی) کے آخری دنوں میں دمشق پہنچا۔ وہاں دیکھا کہ لوگ مسجد میں حیران کُن حد تک تعظیم میں مشغول ہیں۔ بادشاہ کے نائب کے حکم سے منادی کی گئی کہ دمشق کے سب لوگ تین دن روزہ رکھیں اور بازاروں میں کھانا نہ پکائیں۔ لوگوں نے لگا تار تین دن روزہ رکھا۔ آخری روزہ جمعرات کے دن تھا۔ اس کے بعد تمام امرا، شرفا، جج، فقہا اور مختلف طبقاتِ عصر جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ان سے مسجد بھر گئی۔ انھوں نے یہاں جمعہ کی رات نماز، ذکر اور دعا میں گزاری۔ اس کے بعد فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ سب کے سب پیدل باہر نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید تھا اور امرا بھی ننگے پاؤں تھے۔ شہر کے تمام لوگ، مرد عورتیں، چھوٹے بڑے، سب کے سب نکلے۔ یہودی اپنی تورات کے ساتھ نکلے۔ عیسائی انجیل کے ساتھ نکلے۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی ان کے ہم راہ تھے۔ وہ سب کے سب اللہ تعالی کے حضور عجز و انکسار کے ساتھ اپنے کتاب اور انبیا کا واسطہ دے کر دعا کر رہے تھے۔ وہ پیدل (باہر کی) مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر وہ زوال کے وقت تک عاجزی سے رو رو کر دعا کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ شہر کی جانب پلٹے اور نماز جمعہ ادا کی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے وبا کو ہلکا کیا تو اس وقت مرنے والوں کی تعداد روزانہ 2000 تک پہنچ گئی تھی۔” visit our website www.defenders.com.pk #defendersofficials #ibn-e-batuta https://www.instagram.com/p/CJVWZKlnqNq/?igshid=y68am5ei81m8
0 notes
Photo
تبصرہ کتاب📖: سچی پیش گوئیاں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی (رحمة الله عليه) ایک نہایت دور اندیش بزرگ اور اللہ تعالی کے ولی کا مل گزرے ہیں۔ جن کا دور چھٹی صدی ہجری ہے انہوں نے اشعار کی شکل میں مستقبل کی جو دھندلی سی تصویر پیش کی ہے وہ دور آخر کو سمجھنے اور اس پر تحقیق کرنے والوں کے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے دنیا کے مستقبل کے حوالے سے دو ہزار سے زائد اشعار کہے جن میں سے اس وقت تقریبا 300 کے قریب دستیاب ہیں، جن کے مطالعے سے ماضی و مستقبل کے اہم واقعات روز روشن کی طرح سامنے آجاتے ہیں۔ دستیاب شدہ اشعار کے حوالے سے کچھ کتب موجود ہیں جن میں زیادہ تر فارسی زبان کے ان اشعار کے تراجم پر ہی اکتفا کیا گیا ہے کہیں تھوڑی بہت تشریح بھی دی گئی ہے، تاہم پیش نظر کتاب میں اُن دستیاب شده اشعار کی تشریح ہمارے حالات و واقعات کے سیاق و سباق میں نہایت ہی آسان اور سلیس انداز میں پیش کی گئی ہے جو کہ ایک قابل تحسین اور مفید کاوش ہے۔ انہیں اشعار میں سے ایک نہایت ہی نصیحت آموز اور جامع شعر درج ذیل ہے: عجلت اگر بخواهی نصرت اگر بخواهی کن پیروی خدارا احکام قدسیانه ترجمہ: اگر تو چاہتا ہے کہ فتح و نصرت جلد از جلد حاصل ہو تو پھر اللہ تعالی کے احکامات ( قرآن) کی پیروی کر۔ (at Karachi, Pakistan) https://www.instagram.com/p/CGczeOeDpji/?igshid=ymro9m8t269c
0 notes
Photo
در زیر نمونه ای از کتاب سوزی اعراب در هنگام حمله و هجوم به مصر میاید و بدیهی است که همین رفتار را نسبت به کتابهای ارزشمند ایران نیز داشته اند. پس از اینکه #عمروعاص مصر را گشود. کتابخانه #اسکندریه با اینکه چندین بار دچار آتش سوزی شده بود، اما هنوز دارای کتابهای ارزشمندی بود. شخصی به نام یحیی نحوی از فلاسفه بزرگ آن زمان که در مصر زندگی می کرد، توانست به عمروعاص نزدیک شود و مدتها با وی بحث و گفتگو کند. عمرو عاص زیرک نیز از مباحثه با وی لذت می برد و اوقات خود را با وی صرف می کرد و از دانش او بهره میبرد. روزی یحیی به عمروعاص گفت: چیزهای به درد عرب خورد اما چیزهایی نیز وجود دارد که مورد استفاده شما نیست و اگر آنها را به اهلش بسپارید شایسته تر است. عمروعاص پرسید که آنها چیستند؟ یحیی نحوی پاسخ داد که در خزاین سلطنتی کتابهایی است که در صندوقهایی لاک و مهر شده و هیچکس تاکنون به آنها دسترسی نداشته است. خوب است که آنها را به هیئت علمی تحویل دهید تا از آن استفاده کنند. عمرو عاص پس از آن که در مورد تاریخچه آن کتاب ها از یحیی سوال کرد، گفت که حرفی ندارم اما باید در مورد آنها از خلیفه عمربن خطاب کسب اجازه کنم! و طی نامه ای از عمر در مورد این کتب سوال کرد. عمر پاسخ نوشت که: « اگر مطالب آن کتابها در قرآن باشد که قرآن کافی است و اگر مخالف قرآن باشد به آن نیازی نداریم و باید از بین برده شود»! گویند عمرو عاص با این نامه عمر تمام این کتابهای ارزشمند را در بین گرمابه داران مصر تقسیم کرد تا طعمه آتش آن حمامها شود. در ادامه همین روایت آمده که گرمابه های اسکندریه به مدت شش ماه با آتش این کتابها، آب خود را گرم می کردند! لازم به ذکر است که گفته شود ابن خلدون در روایتی مشابه کتاب سوزی اعراب در ایران را ،هنگام حمله توضیح داده است. . منبع: #کاسه_کوزه_تمدن #باستانی_پاریزی صفحه۳۵۰-۳۵۳ ... به نقل از: تراجم الحکما از ابن قفطی . https://www.instagram.com/p/CC4F-r4HDCv/?igshid=1lor81vsma9x9
0 notes
Text
مسجد حرام : قرآن کریم کے 10 لاکھ سے زیادہ نسخے فراہم
حرمین شریفین کے امور کی جنرل پریذیڈنسی نے مسجد حرام میں قرآن کریم کے دس لاکھ سے زیادہ نسخے مہیا کر دیے ہیں جو 65 زبانوں میں تراجم پر مشتمل ہیں۔ ان میں "بریل" لینگویج بھی شامل ہے جس کے 300 نسخے خصوصی الماری میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ جنرل پریذیڈنسی نے مناسک، روزے کے احکام، اذکار، دعاؤں اور خواتین کے مسائل سے متعلق 269310 کتابچے بھی بطور ہدیہ پیش کیے ہیں۔ علاوہ ازیں حرم شریف میں مردوں اور خواتین کے شعبوں میں 7034 زائرین نے تلاوت کی تصحیح اور حفظ کے حلقوں سے استفادہ کیا۔
مزید برآں "حرمین قاری پورٹل پروگرام" کے تحت مردوں کے لیے 25 قاری اور خواتین کے لیے 9 قاریات کے ذریعے دنیا بھر میں خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں 1437 ہجری میں 75 ہزار، 1438 ہجری میں 92 ہزار اور رواں برس یعنی 1439 ہجری کے پہلے چھ ماہ کے دوران 52 ہزار افراد استفادہ کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ حرمین قاری پورٹل پروگرام کو دنیا بھر میں 179 ممالک کے 34 ہزار صارف استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے قیام کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں 230 طلبہ و طالبات ف��رغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ یہ پورٹل مختلف قرأتوں ، حفظ ، دُہرائی ، تلاوت بہتر بنانے اور نورانی قاعدے کے حوالے سے پروگرام پیش کرتا ہے۔
مکّہ – مکہ مکرمہ
0 notes
Text
عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ
سندھ کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ یہاں اسلام کے ابتدائی دور سے بلخ و بخارا، قندھار و بدخشاں سے لاکھوں فرزندان اسلام اور ہزاروں صوفیائے کرام وارد ہوتے رہے، انھوں نے نہ صرف اس خوب صورت خطہ ارض کو اپنا مسکن بنایا بلکہ ��وحید اور تبلیغ کی مشعلیں روشن کر کے لاکھوں افراد کو حلقہ بگوش اسلام کیا، یہ سلسلہ سندھ میں محمد بن قاسم کی سندھ آمد 712ء سے شروع ہوا اور کئی صدیوں تک مسلسل جاری رہا، ہندوستان میں اسلام کی داغ بیل سب سے پہلے سندھ کی سرزمین پر پڑی اور پھر رفتہ رفتہ دین اسلام ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلتا چلا گیا اور سندھ کو باب الاسلام کا شرف حاصل ہوا، اسی وادیٔ مہران نے ایک عظیم صوفی شاعر کو بھی جنم دیا جس کو دنیا شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے نام سے جانتی ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ سندھ کے قصبے ہالا حویلی میں 1102ھ بمطابق 1689ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام شاہ حبیب تھا جب کہ آپ کے دادا سندھ میں شاہ کریم بلڑی والے کے نام سے مشہور تھے۔ شاہ لطیفؒ کے بارے میں اکثر مورخین کا کہنا ہے کہ آپ نے باقاعدہ کسی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن آپ کی شاعری اور کلام دیکھ کر اس بات کا کہیں سے بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ ان پڑھ تھے آپ کو عربی، فارسی، ہندی اور سندھی زبان پر خاص عبور حاصل تھا۔
شاہ لطیفؒ کی شاعری کا مجموعہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ کے نام سے معروف ہے سندھ کے معروف شعرا شیخ ایاز اور آغا سلیم نے شاہ جو رسالو کے منظوم تراجم کیے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ادب کی گہری تخیلاتی دنیا میں سندھی زبان نے اگر کوئی کلاسیکیت پیدا کی ہے تو وہ ان کی تصوف پر مبنی نظمیں ہیں جن کا مجموعہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ ہے۔
ایک مرتبہ جرمن اسکالر اور ماہر لسانیات ڈاکٹر این میری شمل نے کہا تھا کہ انگریزی کلاسیکی شاعری کی بہت بڑی شخصیات کو میں نے پڑھا ہے وہ لوگ کسی طرح لطیفؒ سے بڑے کلاسیکل شاعر نہیں ہیں اور ڈاکٹر شمل نے کہا تھا کہ سندھی سیکھنے کی میری سب سے بڑی وجہ لطیف کو سمجھنا تھا مگر شاہ لطیفؒ کے ساتھ ستم یہ ہوا کہ ان کی زبان صرف وہ سمجھتے ہیں جنھیں سندھی پر پورا عبور ہو، عام سندھی بول چال میں لطیفؒ کی زبان مفقود ہے۔ آپ نے جو کچھ حاصل کیا وہ اپنے ذاتی شوق، ذاتی لگن اور ذاتی کاوش سے حاصل کیا اور قرآن حکیم، مثنوی مولانا روم اور شاہ کریم کے ابیات کو ہمیشہ اپنے زیر مطالعہ رکھا۔
آغاز جوانی ہی میں جب آپ کی عمر تقریباً 20 سال بھی تو شاہ سائیں کو کوٹری کے مغل نواب مرزا مغل بیگ کی بیٹی سیدہ بیگم سے عشق ہو گیا اور آپ اس عشق میں گرفتار ہو کر معرفت الٰہی تک جا پہنچے اور اپنی محبوبہ کو پانے کی جستجو میں مگن رہنے لگے، اپنے عشق کو پانے کی تڑپ نے انھیں جوگی بنا دیا، انھوں نے گہرے پیلے رنگ کا لباس پہننا شروع کر دیا، ایک چھڑی اٹھا لی، صندل کی لکڑی سے بنا ایک پیالہ کھانے اور شفاف پتھر سے بنا دوسرا پیالہ پینے کے لیے ساتھ لیا اور جنگل کی جانب نکل گئے۔
یہ واقعی ان کی کرامت ہے کہ 43 برس کی بقیہ زندگی میں یہی دونوں پیالے اور چھڑی ان کے ساتھ رہے، نہ ٹو��ے اور نہ گم ہوئے، یہ چیزیں آج بھی ان کے مزار پر موجود ہیں۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات مخدوم محمد حسین شاہ سے ہوئی۔ انھوں نے اپنی روحانی قوت سے شاہ سائیں کے دل و دماغ کو ریاضت کی بھٹی میں تپا کے سونا بنا دیا۔ دل کا درد، عشق کی تڑپ، چاہت کا سیل بے کراں، فراق کی مجبوریاں، سفر کی صعوبتیں، یہ سارے تجربے اور تمام دکھ درد ان کی شاعری میں ڈھل گئے تھے اور انھوں نے اس درد اور تڑپ کو سسی، مومل اور ماروی کی داستان میں سمو کر اہل دل کے سامنے پیش کر دیا۔
شاہ لطیفؒ نے کوٹری سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر ریت کے ایک ٹیلے کو اپنا مسکن بنایا چونکہ ریت کے ٹیلے کو سندھی میں بھٹ کہتے ہیں اس لیے آپ سائیں عبداللطیف بھٹائیؒ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ سائیں لطیف وڈیروں، جاگیرداروں اور نوابوں سے دور بھوکے اور مظلوم عوام کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کا سارا دکھ درد شاہ کے کلام میں نظر آتا ہے، شاہ لطیف نے بیشمار سُر اور تال ایجاد کیے وہ امیر خسروؒ کے بعد سُروں کے سب سے بڑے موجد ہیں اور ان کو بجا طور پر سندھی زبان و ادب کا امیر خسروؒ کہا جا سکتا ہے۔
شاہ لطیفؒ کی شاعری عشق حقیقی کا مظہر اور معرفت الٰہی کا بہترین نمونہ ہے آپ نے اپنی شاعری میں وحدانیت و محبت کا عظیم درس دیا ہے۔
شاہ لطیفؒ کا ’’سرسری راگ‘‘ سندھ کی سیاست پر مبنی اس وقت کے اور آج کے سیاسی حالات کا حقیقی عکس نظر آتا ہے، شاہ لطیفؒ اپنے عہد میں انگریزوں کی آمد اور ان کے خطرناک عزائم کی نشاندہی اپنی شاعری میں بیان کرتے رہے، شاہ لطیفؒ نے اپنی شاعری میں سندھ کی دھرتی کو کشتی سے تشبیہہ دی ہے، سندھ کے حکمرانوں کو اپنے استعارے کی زبان میں اس بات کی تلقین کی ہے کہ اگر سمندر کی موجوں سے اس کشتی کو محفوظ رکھنا اور بچانا ہے تو ان باتوں کا خیال ضرور رکھنا کہ یہ کشتی پرانی ہو چکی ہے، سمندر کی تیز و تند موجوں کا اب یہ کشتی مقابلہ نہیں کر سکتی، کشتی کی پچھلی طرف سے چور داخل ہو رہے ہیں لہٰذا غفلت کی نیند سے جاگنا اور کشتی کو بچانا ضروری ہے۔
شاہ لطیفؒ کی شاعری کا پیغام اس بات کی بھرپور ترجمانی کر رہا ہے کہ شاہ صاحب کی دوربین نگاہوں نے سندھ کے مستقبل کا مشاہدہ کر لیا تھا اور سندھ کے آنے والے حالات سے پیشگی طور پر آگاہ کر رہے تھے سندھ جو امن و آشتی کی دھرتی ہے، اس دھرتی پر گزشتہ کئی برس پہلے انسان، انسان کا دشمن اور خون کا پیاسا ہو گیا تھا، روئے زمین پر جب انسان پر حیوانیت غالب آ جائے اور انسانیت محو خواب ہو تو ایسے موقعے پر شاہ لطیفؒ کے نزدیک اس کی اصلاح کی اشد ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ ضمیر کا جاگنا نہایت ضروری ہے اور عقل و شعور کے خنجر سے ہی انسانی ذہن و فکر میں جو حیوانیت کے خونخوار جراثیم پرورش پاتے ہیں ان کو کاٹا اور ختم کیا جا سکتا ہے۔
شاہ لطیفؒ کا یہی آفاقی پیغام دراصل مظلوم، ستم خوردہ، غریب و بے کس انسانوں کی نجات کا ذریعہ ہے، شاہ صاحب کی شاعری کا کمال ہے کہ وہ فن کی اتنی اعلیٰ و ارفع رفعتوں پر فائز ہیں کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود آپ کی شاعری کے ذوق و شوق میں کسی درجہ کوئی فرق نہیں آیا۔شاہ لطیفؒ کی شاعری کے بول الفاظ کے بجائے ایک اسپرٹ ایک روح اور غضب کے جادو کا مقام رکھتے ہیں،
شاہ صاحب نے 18 ویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کی سیاست، سلطنت مغلیہ کے زوال اور سندھ کی چھوٹی چھوٹی بنتی اور بگڑتی ہوئی حکومت کے اثرات سے دوچار ہونے والے عوام کو سہارا دے کر ایک نئی زندگی کی نوید سنائی، شاہ صاحب نے اس بات کا شعور اور درس عام کیا کہ سکون قلب دولت کی ریل پیل اور عیش و آرام کی فراوانی میں نہیں ہے بلکہ سکون خاطر تو ذکر الٰہی سے ملتا ہے۔ شاہ ��احبؒ کے دور میں خاندان مغلیہ کا سورج غروب ہونے کو تھا اور سندھ میں کلہوڑو خاندان کے حکمرانوں کا آنا یقینی ہو چلا تھا، آپؒ نے خود اپنی دوررس نگاہوں سے سلطنت دہلی کے اقتدار کے ہچکولے کھاتے اور ڈوبتے عبرتناک منظر نامے کو دیکھ لیا تھا۔
شاہ صاحب کے نواب مرزا مغل بیگ کی بیٹی سے عشق اور اظہار کے بعد نواب سے تعلقات خاصے کشیدہ ہو گئے تھے اور نواب نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ خود شاہ صاحب کے لیے کوٹری میں رکنا مشکل ہو گیا تھا اور وہ ہالا چلے آئے تھے تاہم خدا کا کرنا یہ ہوا کہ نواب کی حویلی پر حملہ ہوا، سارے مرد مارے گئے صرف ایک لڑکا اور چند خواتین باقی بچیں۔ نواب خاندان نے اسے شاہ حبیب کا مدعا سمجھا، خواتین شاہ کے پاس آئیں، معافی مانگی اور ہمارے اس عظیم صوفی شاعر کی مطلوب و محبوب لڑکی نکاح میں دے دی۔
آپ کی شاعری میں اسلامی تعلیمات پر مبنی امن و محبت اور انسان دوستی کا لازوال آفاقی پیغام پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری ’’قومی ورثہ‘‘ کا درجہ رکھتی ہے، آپ کے عارفانہ اور صوفیانہ طرز کلام میں انسانوں خصوصاً سندھ کی عوام کے لیے امن و سلامتی، بہادری، جرأت اور انسان دوستی کا وہ واضح پیغام ہے جس نے شاہ صاحب کو نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کر دیا ہے آپ 1165ھ بمطابق 1755 عیسویں 63 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، ہر سال 14 صفر کو بھٹ شاہ میں آپؒ کا سالانہ عرس بڑی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
0 notes
Text
ایک اور مولانا مودودی کی ضرورت
قرآن کریم کو ام الکتاب اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں ازل سے ابد تک، پیدا و پنہاں، تمام علوم و فنون کی معلومات اور بشارتیں دی گئی ہیں۔ زمانہ ء حال کو تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں، زمانہ ء ماضی پر نظر ڈالیں تو کوئی ایسا موضوع نہیں جس کا ذکر قرآن حکیم میں موجود نہ ہو۔ مغرب کے فلاسفہ اور سائنس دان چونکہ قرآنِ حکیم سے اکتسابِ فیض نہیں کر پاتے اس لئے ان کو معلوم نہیں کہ جو ایجادات وہ کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں ان سب کی نوید ام الکتاب میں دی جا چکی ہے اور مشرق کے واعظ و حفاظ چونکہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہیں اس لئے ان کو بھی معلوم نہیں کہ خداوندِ کریم و جلیل نے ان کے سینوں کے اندر علم و ہنر کا کیسا ماہِ تمام رکھ دیا ہے!
1980ء کے عشرے میں پاک آرمی میں ’’آرمی بک کلب‘‘ کے نام سے ایک نئی طرح ایجاد کی گئی۔ ہر آفیسر سے 200 روپے سالانہ کے حساب سے چندہ جمع کیا جاتا تھا جس کے عوض سال بھر میں چار کتابیں ایشو کی جاتی تھیں۔ ان میں زیادہ تر کتابیں ملٹری ہسٹری اور دیگر عسکری موضوعات پر ہوتی تھیں۔ کچھ برسوں کے بعد کسی نے اعتراض کیا کہ یہ ساری کتابیں انگریزی میں کیوں ہوتی ہیں۔ اردو میں بھی کوئی ایک آدھ کتاب دی جانی چاہیے۔ لیکن چونکہ اردو زبان میں ملٹری کے بارے میں کوئی ایسی ثقہ تصنیف موجود نہیں تھی اس لئے آرمی بک کلب کی انتظامیہ نے سوچ سوچ کر اس کا یہ حل نکالا کہ اگر عسکری اردو نہیں تو ’’اسلامی اردو‘‘ ہی سے آغاز کیا جائے۔
چنانچہ 1990ء کے عشرے میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کی ایک ایک جلد بھی ہر سال فراہم کی جانے لگی۔ یعنی تین کتابیں انگریزی میں ملٹری ہسٹری پر اور ایک (تفہیم القرآن) اردو میں۔۔۔ یہ سلسلہ چھ سال تک چلتا رہا۔ شائد 1994ء وہ آخری سال تھا جس میں تفہیم القرآن کی چھ کی چھ جلدیں پوری ہو گئیں۔ دریں اثناء آرمی کے ساتھ نیوی اور ائر فورس نے بھی پہلے آرمی بک کلب میں شمولیت اختیار کی تو اس سکیم کا نام ’’سروسز بک کلب‘‘ رکھا گیا لیکن بعد میں بحریہ اور فضائیہ نے اپنے اپنے بک کلب الگ بنا لئے۔
اس بک کلب نے آرمی آفیسرز کو دو بڑے فائدے بہم پہنچائے۔ ایک تو یہ کہ افسروں (سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر جنرل تک) کی غالب تعداد کلاسیکل عسکری تاریخ کو ’’ازراہِ مجبوری‘‘ پڑھنے لگی اور دوسرے تفہیم القرآن کو افسروں کی کلاس میں بار مل گیا۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بک کلب سکیم کا سب سے بڑا فائدہ دینِ اسلام کی یہی تفہیم تھی جو مولانا مودودی کی چھ جلدوں پر مشتمل اس کتاب کے توسط سے مسلح افواج کے افسروں کو اپنی قومی زبان میں قرآن حکیم کے متن اور اس کے ترجمے اور تفسیر سے روشناس اور سرشار کر گئی۔ فوج کی پروفیشنل غیر مرئی اخلاقیات میں مولانا مودودی کی اس تفسیر نے ایک زبردست کیٹالسٹ (Catalyst) کا کام کیا!
مجھ جیسا بندۂ گہنہ گار بھی ہر سال ماہِ رمضان میں پورے 30 پاروں کی تفسیر اور ترجمہ پڑھنے لگا۔ بار بار اس ایکسرسائز کا فائدہ یہ ہوا کہ ذہن میں اسلام کی بنیادی تعلیمات غیر محسوس طریقے سے راہ پانے لگیں۔ حضرت مودودی کا طرزِ تحریر بھی دل میں کھب جانے والا تھا اور فوجی افسروں کو بطورِ خاص اس لئے بھی اپیل کرتا تھا کہ اس میں تعقّل (Reasoning) اور تجزیئے (Analysis) کو کسوٹی بنا کر قرآن کریم کے موضوعات کی تشریح کی گئی تھی۔ ہر سورہ کا زمانہء نزول، اس کی شانِ نزول، مباحث و موضوعات اور پھر رکوع وار ترجمہ اور تفسیر اس قدر مدلل تھی کہ بار بار تلاوت کرنے اور پڑھنے کے بعد بھی جی کو سیری نہیں ہوتی تھی!
پھر ایک دو برس بعد ماہ رمضان ہی کے دوران وہ وقت بھی آیا جب میں نے دوسرے مفسرین کی متداول اردو اور انگریزی تفاسیر کی طرف بھی توجہ دی اور ہر مکتبہ ء فکر و مسلک کی تفسیروں اور تراجم کی ورق گردانی کرنے لگا جس سے نہ صرف یہ کہ دینِ اسلام کی حقانیت دل میں راسخ ہوتی چلی گئی بلکہ میرا مطمعِ نظر بھی وسیع اور لچکدار ہوتا رہا۔ جو تفسیر اور جو ترجمہ دل کو زیادہ اچھا لگا وہی یاد رہ گیا۔ اور پھر اگلا مرحلہ وہ آیا کہ میں نے تفہیم القرآن کی ہر جلد میں جگہ جگہ اپنے محدود علم کے مطابق حواشی قلمبند کرنے شروع کر دیئے۔ آج بھی مولانائے مرحوم و مغفور کی تفہیم پر ان حواشی کو کھول کر دیکھتا ہوں تو دل میں شکرِ ایزدی بجا لاتا ہوں کہ اس نے مجھ نا چیز اور کم فہم انسان کے فہم میں دین کو سمجھنے کا یہ شعور عطا کیا اور تفہیم القرآن کو اس کا سبب بنایا۔
مولانا مودودی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ ہر سورہ کے نزول کا جو تاریخی پسِ منظر بیان کرتے ہیں اور جو مضامین زیر بحث لاتے ہیں ان کی سپورٹ میں مشرق و مغرب کے حکماء اور فلاسفہ کے حوالے کوٹ (Quote) کرتے چلے جاتے ہیں۔ پڑھنے والے کو حیرت ہوتی ہے کہ مفسر اور مترجم کا مبلغ فہم و فراست کس کینڈے کا ہے۔ ان کے دلائل قاری کے دل میں براہینِ قاطع کی طرح اتر جاتے ہیں۔ اور ایک اور لطف یہ بھی ہے کہ قاری کے سینے میں اخذِ معلومات کی مزید جوت بھی جگاتے جاتے ہیں۔ مجھے بارہا ایسے معلوم ہوا کہ ان کی تفسیر نہ صرف ماضی و حال کے حقائق کی شارح ہے بلکہ مستقبل کی بھی ترجمان ہے!
لیفٹیننٹ کرنل (ر)غلام جیلانی خان
0 notes
Text
علم غیب سے متعلق قرآنی آیات - علماء کی قرآن میں خیانت
علم غیب سے متعلق قرآنی آیات – علماء کی قرآن میں خیانت
!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم مسلمان جو اسلام کے داعی ہیں خود قرآن مجید میں خیانت کے مرتکب ہیں۔ یہی نہیں علماء اپنے مسلک کے دفاع کے لیے قرآن مجید کے تراجم میں تبدیلی سے بھی بعض نہیں آتے۔ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا اور قرآن مجید پر عمل پیرا رکھ۔ آمین۔
سب سے پہلے یہ بات یاد رکھئے گا کہ قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہ احبار…
View On WordPress
0 notes
Text
یکساں اور انقلابی نظامِ تعلیم کا مختصرخاکہ
تحریر و تحقیق ۔ اشتیاق احمد انقلابی نظامِ تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ ایسا تعلیمی نظام جو انفرادی اور اج تماعی طور ہر افراد کی تربیت کرے۔ انہیں اچھا مسلمان اور محب، وطن شہری بنائے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ قوم پر تحقیق، تخلیق اور ایجادات کے دروازے کھولے۔قوم کو ہر لحاظ سے خود کفیل بنائے۔آئیے ایسے انقلابی نظامِ تعلیم کا مختصر خاکہ ملاحظہ فرمایئے۔ یہ نظام پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک کے مراحل پر مشتمل ہوگا 1:پہلی سے پانچویں جماعت تک صرف دو کتابیں ہوں پہلی اردو اور دوسری ریاضی کی۔سائنس ،معاشرتی علوم،اسلامیات ،جغرافیہ اور دیگر علوم کی بابت مضامین سادہ اور آسان پیرائے میں اردو کی کتا ب میں ہی ہوں ۔اس کے علاوہ ریاضی کی کتاب میں جمع تفریق اور ضرب تقسیم کی بنیادی مہارتیں اور روز مرہ کی پیمائشیں وغیرہ ہوں ۔املا اور ریاضی کی مہارتوں کو پختہ کرنے کے لیے تختی اور سلیٹ کا استعمال لازمی ہو ۔بھاری بھرکم کاپیوں ،دستوں اور پنسلوں کا بوجھ صرف اشرافیہ کے چونچلے ہیں اور مفت تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ 2:چٹھی سے آٹھویں جماعت تک اردو اور ریاضی کے ساتھ ایک تیسری کتاب سائنس کی ہو ۔سائنس کی یہ کتاب ماحول سے مربوط سائنسی تصورات پر مشتمل ہو ۔انسانیات، حیوانیات ور نباتیات کا علم ماحول اور تہذیب و ثقافت سے مربوط ،سادہ اور آسان اصطلاحات میں ہو۔انگریزٰی یا کوئی دوسری زبان لازمی طور پر نہیں نافذ نہ کی جائے۔ 3:نہم و دہم میں اردو اور ریاضی کی لازمی حیثیت کے ساتھ طبیعات ،کیمیا ،حیاتیات اور کمپیوٹر کے آسان فہم کورسز پڑھائے جائیں ۔ان تمام کورسز کا میعار ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہو ۔ان مضا میں کے ساتھ آرٹس کے تمام مضامین شامل ہوں ۔طالب علموں کو مختلف زبانیں پڑھنے کی بھی اجازت ہو گی مگر اختیا ری حیثیت سے ۔پہلی جماعت سے میٹرک تک کے اس نصابی خاکے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہو گی کہ پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا کم از کم ۸۰ سے ۹۰ فی صد حصہ بلا کسی رکاوٹ کے میٹرک پاس کر جائے گا جبکہ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا صرف ۱۰ فی صد حصہ میٹرک کر پاتا ہے ۔باقی ۹۰ فی صد انگریزی میں الجھ کر تعلیم کو خیرباد کہہ دیتا ہے۔ذرا سو چیے کہ یہ ایک عظیم انقلاب نہیں ہو گا ؟ 4:گیارہویں اور بارہویں جماعت میں اردو ، اسلامیات ،مطالعہ پاکستان کی لازمی حیثیت کے ساتھ تمام تر سائنسی اور غیر سائنسی مضامین اردو میں ہی پڑھائے جائیں جیسا کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں سندھی اور اردو میں پڑھائے جاتے ہیں اس کے لئے بھارت میں چھپنے والی سائنسی مضامین کی تمام کتابیں ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں جو کہ ncertbooks.comپر دستیاب ہیں ۔انٹرمیڈیٹ میں بھی طالب علموں کو تمام تر مضامین قومی زبان میں ہی پڑھائے جا ئیں یہاں بھی دیگر زبانیں اختیاری طور پر پڑھانے کے انتظامات ہوں ۔ 5:بی ایس سی اور ایم ایس سی کے تمام تر کورسز فوری طور پر اردو میں تیار کئے جائیں ۔ زیادہ تر کورسز اردو یو نیورسٹی کراچی اور مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی حیدر آباد دکن نے پہلے سے تیار کئے ہوئے ہیں جنہیں ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں رائج ہونے کے لیے قوت نافذہ کا انتظارہے۔جو کورسز بچ گئے ہیں انہیں بھی جلد از جلد ترجموں کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔پہلے پانچ سالوں میں ہر مضمون کا امتحان اردو میں دینے کی اجازت دی جائے ۔ اس سے خود بخود ہر سطح کا نصاب ترجمہ ہونا شروع ہو جائے گا۔قرین قیاس ہے کہ سب سے پہلے ایم بی بی ایس کا نصاب ترجمہ کیاجائے۔ 6:ہر یونیورسٹی میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کی طرز کا دارالترجمہ قائم کیا جائے جہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کے ساتھ ساتھ دیگر کتابوں کی تصنیف و اشاعت کا ہدف مقرر کیا جائے۔10 سالوں میں یونیورسٹیوں کی لائبریریاں ہمارے اپنے لوگوں اور اپنی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھر جائیں گی۔اس طرح خود انحصاری اور تحقیق و تخلیق کی وہ دولت ہاتھ آئے گی جس کے طفیل پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کا ۶۰ سے ۷۰ فی صد حصہ ماسٹر ڈگری کا حامل ہو گا او ر ایجادات کے صدیوں سے بند دروازے کھل جائیں گے۔ذرا موجودہ صورت حال دیکھئے کہ ہمارے بچوں کا 1 فی صد حصہ بھی بی اے ،بی ایس سی نہیں کر پاتا۔ راستے میں تعلیم سے دلبرداشتہ ہو کر جو وسائل ضائع ہوتے ہیں وہ تو کسی حدو حساب میں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایم بی بی ایس اور ایم ایس سی وغیرہ میں ہمارے طلبہ طلباء و طالبات اپنے کورسز کو صرف پانچ سے دس فی صد تک سمجھتے ہیں جبکہ باقی سارا رٹا ہوتاہے۔ان اقدامات کی بدولت رٹا صرف پانچ سے دس فی صد تک رہ جائے گا جبکہ ۹۰ سے ۹۵ فی صد تک نفسِ مضمون کا فہم ہو گا۔یہ ایک بڑے انقلاب کی صورت ہو گی۔ 7:جامعات کے علاوہ ہر ضلع میں ایک ترجمہ مرکز قائم ہو جہاں دیگر زبانوں سے علوم وفنون منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اور علاقائی زبانوں کی ترقی کے لیے بھی کام کیا جائے۔ان تمام ترجمہ مراکز کو ایک مرکزی دارالترجمہ سے کنٹرول کیا جائے اور ضروری رہنمائی و تر بیت فراہم کی جائے ۔دنیا میں موجود کسی بھی ملک نے یہ کام کئے بغیر ترقی نہیں کی۔ 8:تمام جامعات اور اضلاع کی سطح پر کئے گئے تحقیقی کام کی ہر سال کسی مناسب جگہ پر نمائش کی جائے اور بہترین محققین و مصنفین کو انعام واکرام اور دیگر مراعات سے نوازا جائے۔شہروں کے علاوہ ہر گاؤں میں ایک دارالمطالعہ قائم کیا جائے جہاں مطالعہ کے شوقین نچلی سطح پر کتاب کو اپنی دسترس میں پائیں اور پڑھنے لکھنے کے ذوق کی آبیاری کا دائرہ وسیع ہو ۔ 9:پہلی جماعت سے ایم بی بی ایس اور ایم ایس سی تک کے تمام کورسز آسان فہم زبان میں سی ڈیز پر تیار کئے جائیں اور بازار میں عام سی ڈی یا ڈی وی ڈی کی صورت میں دستیاب ہوں ۔یہ تمام مواد مثالی اسباق کی صورت میں ہو جس سے علوم وفنون کا فہم آسان ہو اس سے ٹیوشن کا مذموم کاروبار خود بخود دم توڑ جائے گا۔رٹے کی بیماری ختم ہو جائے گی اور اس کی جگہ فہم و ابلاغ آ جائے گا۔ملاحظہ فرمائیے ناچیز کی تیار کی ہوئی سینکڑوں ویڈیوز ،مثالی اسباق کی صورت میں youtube پر جن کے پتے ishtiaqahmedishاور ishtiaqahmad1000اوراس کے علاوہ tahqeeqotakhleeq.blogspot.comپر ہزاروں گھنٹوں پر مشتمل اسباق شامل ہیں۔ 10:ملک میں فرہنگستانِ علم کے نام سے تمام علوم و فنون کی اصطلاحات اپنے ماحول، زبان اور ان کے تاریخی پسِ منظر کے اعتبار سے وضع کی جائیں اور ان کو عملاً نصاب کا حصہ بنایا جائے۔یاد رہے کہ کوئی بھی قوم پہلے الفاظ و اصلاحات ایجاد کرتی ہے اور اس کے بعد آلات و اشیاء۔یہ ایک زبردست تخلیقی عمل ہے اس سے گزرنے والی قوم پر تخلیقات و ایجادات کے دروازے بند ہو ہی نہیں سکتے۔ 11:ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی اور ایک میڈیکل کالج ہو ۔مذکورہ بالا اصلا حات کے نتیجہ میں بچے اتنی بڑی تعداد میں ماسڑ ڈگری تک پہنچیں گے کہ ضلعی سطح پر قائم کردہ یہ ادارے کم پڑ جائیں گے اور انہیں تحصیل سطح پر لانا پڑے گا۔ضمناً عرض کرتا چلوں کہ ہمارے حکمران دانستہ طور پر اپنی عوام کو اَن پڑھ رکھ کر ان پر جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام مسلط کر رہے ہیں۔یہ اصلاحات واحد ذریعہ ہیں ان سے پیچھا چھڑوانے کا۔ 12:اصولی طور پر معاشرے کو تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ دار ی ہے۔ریاست کے وزیر اور مشیر خود ہی اپنے اپنے سکول سسٹم کھول کر بیٹھ جائیں اور سامراجی مداخلت کے ساتھ ایک کمائی کا بڑا ذریعہ بنا لیں تو ظاہر ہے کہ غریبوں کے لئے قائم کردہ سکول اور کالج خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ان تمام سیاسی مگر مچھوں کے تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جائے اور ان کے بچوں کو غریبوں کے بچوں کے ساتھ پڑھنے کے لئے بٹھایا جائے تاکہ کبرو نخوت کے ان مجسموں کی گردنوں میں تنا ہوا سریہ نکل جائے اور وہ انسانیت کی سطح پر اُتر کر اپنے اردگِرد دیکھنا شروع کر دیں ۔ 13دینی مدارس کے نظام میں بھی اصلاحات لائی جائیں۔دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی اور معاشرتی علوم بھی پڑھائے جائیں تاکہ وہاں سے فارغ التحصیل افراد عالمِ دین بننے کے ساتھ ساتھ مستند طبیب اور سائنسدان بھی بن سکیں۔ہر بڑے مدرسہ میں ایک دارالترجمہ بھی قائم ہو ۔قرونِ وسطیٰ کے تحقیقی مراکز اسی طرز پرقائم تھے۔ 14:مسجدوں کو بھی بچوں کو پڑھانے کے لیے استعمال میں لایا جائے ۔سکولوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے صبحُ و شام کی کلا سیں بھی لگائی جا سکتی ہیں۔نیت ٹھیک ہو تو بوہڑ،پیپل اور شیشم وغیرہ کے بڑے بڑے درختوں کے سایہ میں بھی بچوں کو بٹھا کر بھی تعلیم دی جا سکتی ہے ۔فر نیچر ضروری نہیں صفوں اور ٹاٹوں پر بیٹھ کر ب��ے آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ٹاٹ سسٹم ختم کر کے فر نیچر کا شور مچانا ہمارے سیاسی شعبدہ بازوں اور کمیشن مافیا کی لوٹ مارکا ڈھونگ کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔جو لوگ روٹی کو ترستے ہیں انہیں ٹاٹوں پر بٹھا کے ہی پڑھانا ممکن ہے۔ہاں ، پڑھ لکھ کر ترقی کرنے کے بعد وسائل کو یکساں تقسیم کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ 15:تمام تر مقابلے کے امتحانات اردو میں لیے جائیں گے۔ اس سے موچی اور نائی (یہ پیشے بھی باقی پیشوں کی طرح قابل احترام ہیں) کا بیٹا بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکے گا۔ان امتحانات کو انگلش میں لینا ملک کے 99فی صد لوگو ں کو آگے آنے سے روکنے کے مترادف ہے۔سپوکن انگلش اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے پاگل پن کو ختم کر کے ایسے ماہرین تیار کئے جائیں جو غیر ملکی زبانوں کے ماہر ہوں اور انہیں اپنی مادری زبان پر بھی اعلیٰ درجے کاعبور حاصل ہو ۔ان افراد کے ذمہ دوسری زبانوں کے علوم وفنون کو اپنی زبان میں منتقل کرنا ہو اور وطنِ عزیز میں سب سے زیادہ تنخواہ تحقیق کاروں کو ہی دی جائے ۔ وطنِ عزیز کا عدالتی نظام قومی اور صوبائی زبانوں میں ہو۔ اس سے انصاف کی فراہمی آسا ن اور سہل ہو گی۔انگریزی میں لکھے ہوئے عدالتی فیصلے کی چٹھی پورے پورے گاؤں پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ 16:بازار میں مختلف قسم کے بینر اور اشتہاری بورڈ صرف اردو یا مقامی زبان میں لکھنے کی اجازت ہو تاکہ قومی زبان قومی تفاخر کا ذریعہ بنے۔ 17:غیر ملکی امداد پر ہر قیمت پر پابندی لگائی جائے کیونکہ غیر ملکی امداد ایسی پالیسیوں کے ساتھ مشروط ہوتی ہے جو بالآخر قوم کو جاہل اور گنوار بنا کر رکھ دیتی ہے جیسا کہ پاکستان میں خصو صاً صوبہ پنجاب میں تمام تر پالیسی ساز اداروں کو جن میں پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ اور ڈائریکٹو ریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ لاہور جیسے ادارے شامل ہیں ان کو سامراجیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اڈوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ 18:مسلم ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ تعلیمی منصو بے شروع کیے جائیں ۔ایک دوسرے سے جدید ترین علوم و فنون کا تبادلہ کیا جائے ۔تراجم کے کام میں خصو صاً باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے اور اُمتِ مسلمہ کو جو تعلیم و تحقیق کے میدان میں چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کی حکمت عملی وضع کی جائے ۔ 19:سب سے اہم بات یہ کہ قوم کوحقیقی اسلامی تہذیب سے روشناس کرانے اور ان میں بہترین اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کے لئے چٹھی جماعت سے سو لہویں جماعت تک مکمل قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جائے ۔ اس سے فرقہ واریت کی جڑیں بھی خود بخود کھوکھلی ہو جائیں گی اوراس سے قومی یکجہتی اور ایمان کی پختگی جیسی بے شمار لازوال نعمتیں حاصل ہوں گی۔ حرفِ آخر : مذکورہ بالا اقدامات میں یقیناً مختلف زاویوں سے ترمیم و اضافہ اور بہتر تجاویز ممکن ہیں مگر یہ ناچیز پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہے کہ ان پر عمل کرنے سے پاکستان بیس سالوں میں سپر طاقت بن جائے گا ورنہ جو کچھ تعلیمی نظام کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے اس کے وجود کو بے شمار خطرات لاحق ہیں۔اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اسے انتہائی حد تک کمزور کرنے کے آثارو شواہد ہر طرف بکھرے پڑے نظر آتے ہیں۔دشمن نے یہ محاذ اس لئے چنا ہے کہ تمام محاذوں کو جانے والے راستے اسی سے گزرتے ہیں۔آئیے ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر ہو جائیں اور حتی المقدور وسائل اکٹھے کر کے اس وطن کو تر قی و خوشحالی کے بامِ عروج تک پہنچا دیں۔" فآ طمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک Read the full article
0 notes
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/quran-collection/verses-quranic-surahs-bold-khalil-ur-rehman-chishti/
The verses of the Qur'anic Surahs are bold by Khalil-ur-Rehman Chishti
#1044
مصنف : خلیل الرحمن چشتی
مشاہدات : 19184
قرآنی سورتوں کا نظم جلی
ڈاؤن لوڈ 1
قرآن کریم کلام الہی اور ��ندہ و جاوید معجزہ ہے۔اس کا اعجاز در حقیقت اسکی تاثیری زبان،بلاغت و فصاحت،اسالیب و مضامین اور اس کے خاص کلیدی الفاظ اور خاص اصلاحات میں پنہاں ہے۔قرآن کریم چونکہ ہماری فوز و فلاح اور صلاح و اصلاح کا سچا ضامن ہےلہذا اس کی تفہیم و افہام کیلئے تراجم کے ساتھ ساتھ آیات و سور کے باہمی ربط و نظم کو ملحوظ خاطر رکھنا از بس ضروری و لازمی ہے۔قرآن کے نظم جلی اور نظم خفی پر واقفیت حاصل کرنا اس اعتبار سے بہت کارآمد ہے کہ اس کےذریعے سے ربط کلام اور وحدت کلام کو بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس کے ذریعے سے قرآن کریم کا درست ترجمہ کرنے اور فہم قرآن کی استعداد و لیاقت کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔اس طرح محدود وقت میں قرآن کریم کی تفہیم و افہام آسان ہو جا تا ہے۔ زیر نظر کتاب اس حوالے سے قابل تقلید ہے کہ اس میں موصوف کے وسیع تجر بات و مشاہدات ،قرآن فہمی اور اسکے عمیق مطالعے کی جھلک نظر آتی ہے۔(م۔آ۔ہ)
#The verses of the Qur'anic Surahs are bold by Khalil-ur-Rehman Chishti#قرآنی سورتوں کا نظم جلی مصنف : خلیل الرحمن چشتی
0 notes
Text
بیس سیکنڈ میں سائینس انفیکشن سے مکمل نجات حاصل کریں
سائینس انفیکشن ایک ایسا انفیکشن ہے جو ناک اور حلق کے راستے میں جلن اور سوزش پیدا کرتا ہے۔ اس انفیکشن کی علامات یہ ہیں۔شدید سر درد اور بخارناک بند ہوناناک اور حلق میں بے چینی اور تکلیفاس مسئلے کے لئے ادویات کے علاوہ بہت سے قدرتی طریقے بھی موجود ہیں جو ناک اور حلق میں موجود جراثیم اور وائرس کو ختم کرنے میں کارآمد ہیں۔سیب کا سرکہ اس انفیکشن کو ختم کرنے کے لئے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس میں موجود اہم غذائی اجزاء جسم سے فاسد مادے خارج کرنے اور قوت مدافعت بحال کرنے میں کارآمد ہیں۔
ترکیب ایک چوتھائی کپ سیب کا سرکہآدھا کپ پانی1 کھانے کا چمچ شہدلیموں کا رسسب سے پہلے پانی گرم کریں پھر اس میں شہد اور
سیب کا سرکہ ملائیں۔ آخر میں لیموں کا رس ملائیں۔ اس کو کمرے کے درجہ حرارت پر رکھیں۔اس مشروب کو روزانہ صبح اور رات پیئں جب تک تکلیف میں آرام نہ آجائےکسی بھی مشکل معاشی و معاشرتی حالات کی وجہ سے، من چاہا نتیجہ نہ ملنے کی صورت میں یا پھر کسی اچانک نقصان کی صورت میں ڈپریشن ہو جانا فطری بات ہوتی ہے ۔ جس کے وجہ سے جہاں آپ حوصلہ ہار جاتے ہیں وہیں پر ذہنی و جسمانی طور پر بھی کمزور ہو جاتے ہیں ۔ اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ
ہر بندہ کسی بھی مشکل حالات میں اس کا شکار ہو سکتا ہے ۔ فرق اس بات سے پڑ��ا ہے صاحب ، کہ آپ نے کتنے اچھے طریقہ سے اس حالت پر قابو پا کر خودمضبوط بنایا ہے ۔ تو جناب اسی حوالے سے ذیل میں 5 بہترین آزمودہ کاموں کا ذکر ہے جن کو اختیار کر کے آپ اپنے آپ کو ڈپریشن کی حالت سے فوری باہر نکال سکتے ہیں1۔ بلا وجہ جاگنا ختم کریں ۔ اگرچہ اس حالت میں نیند لینا تھوڑا مشکل ہو جاتا مگر پھر بھی آپ کو چاہے نیند آئے یا نہ آئے ۔ چاہے اداسی والی لا تعداد منتشر سوچیں ساتھ ہوں مگر پھر بھی آپ نے سونے کے اوقات میں بستر پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنی ہے ، مطلب کہ آپ کو اپنی نیند مکمل کرنی ہے ۔ایسا بالکل نہیں کرنا کہ پوری رات اداسی کے گانے سنتے میں گزار دیں، موبائل پر ٹائم پاس کریں یا کسی کے ساتھ اداسی والی باتیں کرتے رہیں۔ ایسے کاموں کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے رات کو لازمی نیند لیں اور
روزانہ کی بنیاد پر اس عادت کو اپنائیں 2۔ کھانا کھانے سے نہیں بھاگنا ۔ مثبت سوچوں کو اجاگر کرنے اور صحت مند ذہن رکھنے کے لیے مناسب کھانا بہت ضروری ہے ۔ بھوک نہ بھی لگے مگر پھر بھی اپنی روٹین کے مطابق آپ نے لازمی کھانا ہے ۔ اسی وجہ سے آپ کے اندر انرجی پیدا ہو گی ۔ خاص کر ناشتہ بالکل نہیں چھوڑنا ۔ آپ کے پیٹ کو آپ کے ڈپریشن کی کوئی پروا نہیں ہوتی ۔کتنی کے دیر بھوکے رہ لیں گے آپ ؟ جب پیٹ بھرنا مجبوری ہی ہے تو پھر کھانا چھوڑنا ہی کیوں صاحب ۔ اس لیے صحت مند غذا سے اپنے وقت پر کھانا کھانے کی روٹین برقرار رکھیں ۔3۔ ذہن کی صفائی کریں ۔ یقین مانیں کہ ساری بات مضبوط ذہن کی ہوتی ہے ۔ اپنی لا تعداد و منتشر سوچوں پر قابو پانے کی ہوتی ہے ۔ اس لیے اپنے ذہن کو خالی کریں اور اپنی سوچوں کو اس میں قید مت کریں ۔ آزاد کریں ان کو ۔پر سکون ہوں ذرا ۔
اس کے لیے بہترین کام اچھے سے وضو کر کے نماز ادائیگی ہے ۔ جس کے دوران اپنا فوکس ان الفاظ و تراجم پر مرکوز کریں جو نماز پڑھتے ہم ادا کرتے ہیں ۔ اپنے مکمل شعور کے ساتھ نماز کے ہر رکن کو ادا کریں اور پھر مکمل عاجزی و آنسؤں کے ساتھ دعا کریں ۔ قرآن کی تلاوت کریں ۔ ان سب سے ڈپریشن میں بہت تیزی کے ساتھ کمی آئے گی اور اطمینان میسر ہو گا انشا اللّه ۔اس کے علاوہ سانس کی آمد و رفت پر فوکس رکھنے والا مراقبہ بھی بہت مفید ہے ۔4۔ باہر نکلیں ، گھومیں پھریں ، واک کریں ۔ آپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں کہ ایسی حالت میں کہیں جانے کو ، کسی سے ملنے اور بات کرنے کو دل نہیں کرتا ۔ واقعی ایسا ہی ہوتا ہے آپ بھی کریں مگر صرف وقتی طور پر، مگر پھر کمرے سے باہر آئیں ، لوگوں سے ہلکی پھلکی باتیں کریں ۔واک کے لیے جائیں ۔ مقصد بس خود کو حرکت میں لانا ہے تبھی ذہن کھلتا ہے ، ارد گرد کی ہلچل سے سوچوں کا رخ بدلتا ہے ۔ جسم میں انرجی آتی ہے جس سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے ۔
چاہے خاموش رہ کر اکیلے ہی گھومیں پھریں یا واک و ورزش کریں ، کوئی مسلہ نہیں مگر بس خود کو حرکت میں لانا ہے ۔5۔ توجہ کا فوکس بدلیں جس وجہ سے آپ کو ڈپریشن ہوا، اس بارے میں اب بہت سوچ لیا جناب ۔اب ذرا دھیرے دھیرے سوچوں کا رخ ” حل ” کی تلاش میں لگائیں ۔ اپنے آپ سے مثبت خود کلامی کرتے اور اللّه سے صبر و رہنمائی کی دعا مانگتے اپنے ذہن کو مسلہ و پریشانی سے نکلنے کے راستوں پر لگائیں۔ اپنوں اور اچھے دوستوں سے مشورہ کرنے یا مدد مانگنے سے مت ججھکیں ۔برین سٹورمنگ کرتے تمام متوقع حل کو لکھیں اور پھر مناسب حل پر عمل کریں ۔ یاد رکھیں کہ ڈپریشن کا بہترین حل آپکا ” عمل ” کرنا ہے نا کہ صرف پریشانی کو ہی بار بار سوچنا ۔
تو دوستو یہ وہ 5 اہم کام ہیں جن کے کرنے سے آپ جلد ہی ڈپریشن کی حالت سے باہر آ سکتے ہیں ۔ مگر یاد رہے کہ یہ سب آپ کے اپنے چاہنے پر ہی ہے ۔ کوئی دوسرا آپ کو پکڑ کر سیٹ نہیں کرے گا ۔ اگر الجھن زیادہ ہو ، خود سے کچھ سمجھ نہ آئے تو کسی اچھے ماہر نفسیات سے مل کر کونسلنگ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے نہ ہی کوئی معیوب بات ہے ۔ اس وقت میں آپ کو صرف بھرپور توجہ سے سننے اور سمجھنے والا چاہیے ہوتا ہے۔ کوئی اور نہ ملے تو میں حاضر ہو صاحب ۔ میں رضاکارانہ آپ کو اللّه کی عطا کردہ زندگی جیسی خوبصورت نعمت سے لطف اندوز ہونے کے لیے لازمی رہنمائی کروں گا ان شا اللّه
اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تا کہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post بیس سیکنڈ میں سائینس انفیکشن سے مکمل نجات حاصل کریں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2UqdmtI via India Pakistan News
0 notes