#اردو شعر و شاعری
Explore tagged Tumblr posts
Text
علامہ محمد اقبال
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یہاں نوری سے مراد فرشتہ ہے اور ناری سے مراد شیطان
4 notes
·
View notes
Text
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لٰا اِلہٰ اِلاٌٰ اللہَ
- علامہ اقبال
An Abraham by this era is sought once again
The idol halls shall once more echo, "La ilaaha illallah"
-Allama Iqbal
Ye daur apnay Ibraheem ki talaash mai hai
Sanam-kada hai jaha'n, "La illaha illallah"
- Allama Iqbal
#علامہ اقبال#اردو ادب کے شمس و قمر#اردو شعر#اردو ادب#اردوشاعری#اردو شاعری#اردوادب#اردو#urdu quote#urdupoetry#urdu shayari#urdu literature#urdu lines#urdu stuff#urdu#allama iqbal#Ibrahim A.S#islam#Muslims#desi tumblr#just desi things#desi larki#life of a desi girl#desi academia#pakistan#urdu aesthetic#desi culture#pakistani aesthetics
20 notes
·
View notes
Text
میر انیس وفات 10 دسمبر
میر انیس وفات 10 دسمبر
ببر علی انیس۔ اردو مرثیہ گو۔ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔ مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔ شاعری و مرثیہ گوئی شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے…
View On WordPress
0 notes
Text
استاد مرحوم, ابنِ انشا کی یادگار تحریر
استاد مرحوم نے اہلِ زبان ہونے کی وجہ سے طبیعت بھی موزوں پائی تھی اور ہر طرح کا شعر کہنے پر قادر تھے۔ اردو، فارسی میں ان کے کلام کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو غیر مطبوعہ ہونے کی وجہ سے اگلی نسلوں کے کام آئے گا۔ اس علم و فضل کے باوجود انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک بار اسکول میگزین میں جس کے یہ نگران تھے، ایڈیٹر نے استاد مرحوم کے متعلق یہ لکھا کہ وہ سعدی کے ہم پلہ ہیں، انہوں نے فوراً اس کی تردید کی۔ سکول میگزین کا یہ پرچہ ہمیشہ ساتھ رکھتے اور ایک ایک کو دکھاتے کہ دیکھو لوگوں کی میرے متعلق یہ رائے ہے حالانکہ من آنم کہ من دانم۔ ایڈیٹر کو بھی بلا کر سمجھایا کہ عزیزی یہ زمانہ اور طرح کا ہے۔ ایسی باتیں نہیں لکھا کرتے۔ لوگ مردہ پرست واقع ہوئے ہیں۔ حسد کے مارے جانے کیا کیا کہتے پھریں گے۔ اہل علم خصوصاً شعرا ء کے متعلق اکثر یہ سنا ہے کہ ہم عصروں اور پیشروؤں کے کمال کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں، استاد مرحوم میں یہ بات نہ تھی، بہت فراخ دل تھے۔
فرماتے، غالب اپنے زمانے کے لحاظ سے اچھا لکھتے تھے۔ میر کے بعض اشعار کی بھی تعریف کرتے۔ امیر خسرو کی ایک غزل استاد مرحوم کی زمین میں ہے۔ فرماتے، انصاف یہ ہے کہ پہلی نظر میں فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کون سی (غزل) بہتر ہے۔ پھر بتاتے کہ امیر خسرو سے کہاں کہاں محاورے کی لغزش ہوئی ہے۔ اقبال ؒ کے متعلق کہتے تھے کہ سیالکوٹ میں ایسا شاعر اب تک پیدا نہ ہوا تھا۔ اس شہر کو ان کی ذات پر فخر کرنا چاہیے۔ ایک بار بتایا کہ اقبالؒ سے میری خط و کتابت بھی رہی ہے۔ دو تین خط علامہ مرحوم کو انہوں نے لکھے تھے کہ کسی کو ثالث بنا کر مجھ سے شاعری کا مقابلہ کر لیجئے۔ راقم نے پوچھا نہیں کہ ان کا جواب آیا کہ نہیں۔ استاد مرحوم کو عموماً مشاعروں میں نہیں بلایا جاتا تھا کیوں کہ سب پر چھا جاتے تھے اور اچھے اچھے شاعروں کو خفیف ہونا پڑتا۔ خود بھی نہ جاتے تھے کہ مجھ فقیر کو ان ہنگاموں سے کیا مطلب۔ البتہ جوبلی کا مشاعرہ ہوا تو ہمارے اصرار پر اس میں شریک ہوئے اور ہر چند کہ مدعو نہ تھے منتظمین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
دیوانہ کسمنڈوی، خیال گڑگانوی اور حسرت بانس بریلوی جیسے اساتذہ سٹیج پر موجود تھے، اس کے باوجود استاد مرحوم کو سب سے پہلے پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ وہ منظر اب تک راقم کی آنکھوں میں ہے کہ استاد نہایت تمکنت سے ہولے ہولے قدم اٹھاتے مائیک پر پہنچے اور ترنم سے اپنی مشہور غزل پڑھنی شروع کی ۔ ہے رشت غم اور دلِ مجبور کی گردن ہے اپنے لئے اب یہ بڑی دور کی گردن ہال میں سناٹا سا چھا گیا۔ لوگوں نے سانس روک لئے۔ استاد مرحوم نے داد کے لئے صاحب صدر کی طرف دیکھا لیکن وہ ابھی تشریف نہ لائے تھے، کرسیِٔ صدارت ابھی خالی پڑی تھی۔ دوسرا شعر اس سے بھی زور دار تھا۔ صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا اور دار پہ ہے حضرتِ منصور کی گردن دوسرا مصرع تمام نہ ہوا تھا کہ داد کا طوفان پھٹ پڑا۔ مشاعرے کی چھت اڑنا سنا ضرور تھا، دیکھنے کا اتفاق آج ہوا۔ اب تک شعراء ایک شعر میں ایک مضمون باندھتے رہے ہیں اور وہ بھی بمشکل۔ اس شعر میں استاد مرحوم نے ہر مصرع میں ایک مکمل مضمون باندھا ہے اور خوب باندھا ہے۔
لوگ سٹیج کی طرف دوڑے۔ غالباً استاد مرحوم کی پابوسی کے لئے۔ لیکن رضا کاروں نے انہیں باز رکھا۔ سٹیج پر بیٹھے استادوں نے جو یہ رنگ دیکھا تو اپنی غزلیں پھاڑ دیں اور اٹھ گئے۔ جان گئے تھے کہ اب ہمارا رنگ کیا جمے گا۔ ادھر لوگوں کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ تیسرے شعر پر ہی فرمائش ہونے لگی مقطع پڑھیے مقطع پڑھیے۔۔۔۔ چوتھے شعر پر مجمع بے قابو ہو رہا تھا کہ صدرِ جلسہ کی سواری آگئی اور منتظمین نے بہت بہت شکریہ ادا کر کے استاد مرحوم کو بغلی دروازے کے باہر چھوڑ کر اجازت چاہی۔ اب ضمناً ایک لطیفہ سن لیجئے۔ دوسری صبح روزنامہ''پتنگ‘‘نے لکھا کہ جن استادوں نے غزلیں پھاڑ دی تھیں، وہ یہ کہتے بھی سنے گئے کہ عجب نامعقول مشاعرے میں آ گئے ہیں۔ لوگوں کی بے محابا داد کو ہوٹنگ کا نام دیا اور استاد مرحوم کے اس مصرع کو'' صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا‘‘، لا علمی ، شرارت اور ''سرقہ‘‘ قرار دیا۔ پھر اس قسم کے فقروں کا کیا جواز ہے کہ ''استاد چراغ شعر نہیں پڑھ رہے تھے روئی دھن رہے تھے۔‘‘ صحیح محاورہ روئی دھننا نہیں روئی دھنکنا ہے۔ اس دن کے بعد سے مشاعرے والے استاد مرحوم کا ایسا ادب کرنے لگے کہ اگر استاد اپنی کریم النفسی سے مجبور ہو کر پیغام بھجوا دیتے کہ میں شریک ہونے کے لئے آ رہا ہوں تو وہ خود معذرت کرنے کے لئے دوڑے آتے کہ آپ کی صحت اور مصروفیات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ ہمیں (ان کے نا چیز شاگردوں کو) بھی رقعہ آ جاتا کہ م��مولی مشاعرہ ہے، آپ کے لائق نہیں۔ زحمت نہ فرمائیں۔
بشکریہ دنیا نیوز
4 notes
·
View notes
Text
💜معلومات اردو ادب💜
س۔1۔
*آورد* ۔ جب شاعر ارادی طور پر فکر سخن میں بیٹھے اور شعر کہنے کے بعد اس کے لفظ و بیان اور ترتیب و تنظیم پر غور و غوض کرے اور بہتر پیرایہ میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔
س2۔
*ابتذال*۔ کلام میں غیر مہذب سوقیانہ اور بازاری الفاظ لانا یا ایسا کلام کہنا جس کا مضمون شائستگی سے بعید ابتذال کہلاتا ہے ۔
س۔3۔
*استعارہ*۔ استعارہ علم بیان کی اصطلاح ہے جس کا معنی ادھار لینا ہے کسی شے کے لوازمات اور خصوصیت کو کسی دوسری شے سے منسوب کرنا ۔
س۔4۔
*اشتراکیت* ۔ شخصی ملکیت کے تصور اور اجتماعی ملکیت کا فلسفہ جس میں معاشرے کے افراد میں ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم و اشتراکیت کہلاتا ہے۔
س5۔
*المیہ*۔ المیہ اس ڈرامے کو کہتے ہیں جس کو پڑھنے یا دیکھنے سے قاری یا ناظر میں رحم یا خوف دونوں جزبات پیدا ہوں یعنی وہ ڈرامہ جس کے واقعات میں حزنیہ فضا ہو اور وہ اپنے اختتام پر قاری یا ناظر کو حزیں افسردہ ہمدرد اور اندوہ گیر چھوڑ دے ۔
س۔6۔
*انشا پرداز*۔ کسی نثر پارے میں دو چیزیں قابل توجہ ہوتی ہیں اول مواد دوم اسلوب اگر کسی نثر پارے کا اسلوب نہایت نرالا شعرانہ اور متخیلہ کی کرشمہ سازی کا حامل ہے تو وہ نثر پارہ اپنے اسلوب کی بدولت زندہ رہتا ہے اردو میں رجب علی بیگ سرور محمد حسین آذاد ملا وجہی اور غالب ایسے صاحب طرز انشا پرداز ہیں جن کی نثر شاندار اسلوب کی بنا پر ہمیشہ سے مقبول ہے ۔
س۔7۔
*ایجاز* ۔ کسی موضوع کو کم سے کم ممکنہ حرفوں میں ادا کرنا ایجاز کہلاتا ہے۔
س۔8۔
*علم بدیع* ۔ یہ شعری تنقید کی ایک اصطلاح ہے چنانچہ علم بدیع وہ علم ہے جس میں کلام کی خوبیوں سے بحث کی جاتی ہے۔
س۔9۔
*بحر* ۔ یہ علم عروض کی اصطلاح ہے شعر جس وزن پر کہے جاتے ہیں اس کا اصطلاحی نام بحر ہے ۔
س۔10۔
*بلاغت* ۔ اس سے مراد پہنچنا اثر آفرینی اور کلام کا سریع الفہم ہونا ہے بلاغت ہر وہ زریعہ ہے جس سے ہم اپنے معنی کو خوبصورت انداز میں فصاحت کے ساتھ سامع تک پہنچاتے ہیں اور سامع کے دل میں وہی اثر پیدا کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے دل میں ہوتا ہے۔
س۔11۔
*تاثر* ۔ وہ جزباتی اثر جو قاری سامع یا ناظر کسی فن پارے کو پڑھ س یا دیکھ کر فوری طور پر قبول کرتا ہے تاثر کہلاتا ہے۔
س۔12۔
*تجسیم* ۔ غیر مرئی حقائق جبلات یا عادات وغیرہ کو حرکی مادی جسم میں ڈھال کر پیش کرنا تجسیم کہلاتا ہے ۔
س۔13۔
*تجنیس* ۔ یہ ایک صنعت شاعری ہے اس سے مراد ہم جنس ہونا اور ہم صوتیت ہے کلام میں دو ایسے الفاظ استعمال کرنا جو تلفظ یا املا یا دونوں میں مشابہت رکھتے ہوں لیکن معنوں میں اختلاف ہو تجنیس کہلاتا ہے۔
س۔14۔
*تحریف* ۔ پیروڈی کا لفظ یونانی الاصل ہے اردو می اس کے لیے تحریف کی اصطلاح رائج ہوئی کسی شاعر کے سنجیدہ کلام کو معمولی رد وبدل سے مضحکہ خیز بنا دینا یا کسی سنجیدہ کلام کی اس طرح نکل اتارنا کہ وہ مضحک بن جاے ۔
س۔15۔
*تخلص* ۔ شاعر اپنے ذاتی اور خاندانی نام کے علاوہ جو نام شعرانہ شناخت کے طور پر اپناتا ہے اسے اصطلاحاً تخلص کہلاتا ہے ۔
س۔15۔
*خطاب* ۔ جو بادشاہ یا سرکار سے اعزا��ی طور پر ملتا ہے جیسے علامہ الدولہ وغیرہ۔
س۔16۔
*لقب* ۔ ایک وصفی نام جو کسی خصوصیت یا وصف کی وجہ سے پڑ گیا ہو جیسے مرزا نوشہ لقب ہے اسد اللہ خان غالب کا ۔
س۔17۔
*ترفع*۔ تنقید کی عظیم اور قدیم اصطلاح ہے جو دوسری صدی عیسوی سے رائج ہے ترفع کسی فن پارے کی وہ خوبی ہے جس کے باعث اس کا اسلوب عام سطح سے بلند ہو کر خاص امتیاز کا حامل ہو جاتا ہے ۔
س۔18۔
*تصرف* ۔ یہ عمومی طور پر شعری اصطلاح ہے جس سے دخل دینا اختیار قبضہ وغیرہ مراد ہے کسی شاعر یا نثر نگار کے کلام میں کچھ ردوبدل کرکے ایک نئی معنوی کیفیت پیدا کرنا تصرف کہلاتا ہے۔
س۔19۔
*تصوّف* ۔ یہ روحانیت کی اصطلاح ہے فرد کے روحانی تجربے کو تصوف کہتے ہیں تصوف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صاحبِ حال کے تجربے میں آتا ہے یہ فرد کی مکمل تنہائی کا تجربہ ہے جو ناقابل بیان ہے یعنی اس تجربے کا ابلاغ نہیں ہو سکتا کیونکہ ابلاغ عمرانی ہے۔
س۔20
*تضاد* ۔ یہ ایک شعری صنعت ہے جب کلام میں ایسے الفاظ لاے جائیں جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعت تضاد کہلاتی ہے
س۔21۔
*تقریظ*۔ کسی ادب پارے کے بارے میں تبصرہ کرنا عکاظ کے مقام پر ایک میلہ لگتا تھا جہاں ایک شعری نشست منعقد کی جاتی تھی صدر محفل کسی ایک قصیدے کو دوسرے پر برتری دے کر اس کی خوبیوں اور محاسن پر ایک بلیغ تقریر کرتا تھا اسے تقریظ کہتے تھے۔
س۔22۔
*تلمیح* ۔ تلمیح کی اصطلاح علم بدیع کے حصے میں آئی ہے کلام میں کوئی ایسا لفظ یا مرکب استعمال کرنا جو کسی تاریخی مذہبی یا معاشرے واقعے یا کہانی کی طرف اشارہ کرے تلمیح ہے ۔
س۔23۔
*تنقید* ۔ کسی فن پارے کے محاسن کو معیاراتِ فن کے مطابق پرکھنا جانچ پڑتال کرنا اور اندرونی حاسبہ جمال کی مدد سے اس کی قدر وقیمت کا تعین کرنا "تنقید" کہلاتا ہے۔
س۔24۔
*جزئیات نگاری* ۔ کسی واقعے یا امیج کو شاعری یا افسانے میں بیان کرتے وقت اس کے نہایت معمولی حصے کو بھی مدِ نظر رکھنا جزئیات نگاری کہا جاتا ہے۔
س۔25۔
*خارجیت* ۔ یہ تنقید شعر کی اصطلاح ہے جو خارجی واردات لوازمات اور متعلقات میں راہ کر شاعری کرے وہ خارجیت پسند ہوتا ہے خارجیت پسند شاعر زندگی کی بیرونی سطح دیکھتا ہے
س۔26۔
*مقفیٰ نثر* ۔ ایسی نثری عبارت جس کے فقروں میں وزن نہ ہو لیکن قافیہ کا استعمال کیا گیا ہو ۔
س27۔
*مسجع نثر* ۔ ایسی عبارت جس کے ایک فقرے کے الفاظ دوسرے فقرے کے الفاظ میں ہم وزن اورہم قافیہ ہوں ۔
28۔
*صنعت حسن تعلیل* ۔ حسن تعلیل ایسی شعری صنف ہے جس میں شاعر کسی واقعے کی اصل منطقی جغرافیائی یا سائنسی وجہ نظر انداز کر کے ایک تخیلاتی جزباتی اور عین شاعرانہ وجہ بیان کرے
؎پیاسی جو تھی سپاہِ خدا تین رات کی
ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی۔
س۔29۔
*راجائیت*۔ ادبی اصطلاح کے طور پر آرزو مندی زندگی سے محبت اور پر امید لہجہ اختیار کرنا ۔
س۔30۔
*ریختی*۔ ایسی نظم جو عورتوں کے بارے میں عورتوں ک�� طرف سے لکھی جاے ۔
س31۔
*شہر آشوب* ۔ وہ نظم جس میں کسی ملک شہر یا معاشرے کے اقتصادی سیاسی یا معاشرتی دیولیہ پن مجلسی زندگی کے پہلوؤں کا نقشہ طنزیہ انداز میں پیش کیا جاے ۔
س۔32۔
*واسوخت*۔ ایسی نظم جس میں شاعر اپنے محبوب کی بےوفائی تفافل اور رقیب کے ساتھ اس کے تعلق کی شکایت کرتا ہے اور ساتھ ہی کسی اور محبوب کے ساتھ واسطہ ظاہر کر کے اسے دھمکاتا ہے ۔
س33۔
*رمزوایمائیت*۔ رمزوایمائیت سے مراد کسی پوشیدہ بات کو اشاروں میں بیان کرنا ۔
س34۔
*تغزل*۔ یہ ایک شعری اصطلاح ہے تغزل اس کیفیت کا نام ہے جو شاعری میں لطیف و اثر اور حسن و درد پیدا کرتی ہے۔
؎چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ۔
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ۔
س35۔
*سہل ممتنع* ۔ ایسا شعر جو اس قدر آسان لفظوں میں ادا ہو جاے کہ اس کے آگے مزید سلاست کی گنجائش باقی نہ رہے ۔
؎ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا ۔
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ۔
س۔36۔
*امیجری* ۔ کسی امیج کو زبان دینا شاعر یا ادیب الفاظ کے زریعے سے وہ تصویریں پیش کرتا ہے جو تہ درتہ کیفیات کی شکل میں اس کے زہنی تجربوں میں آتی ہیں اور خارجی دنیا میں اس کا وجود نہیں ہوتا۔
س۔37۔
*خمریات*۔ یہ بنیادی طور پر شاعری کی اصطلاح ہے ایسی شاعری جس میں شراب اور متعلقات شراب کا بکثرت زکر ہو اسے خمریات کہتے ہیں ۔
س۔38۔
*داخلیت*۔ ادب میں داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر اپنی قلبی واردات اپنے نجی جزبات و احساسات میں ہی اپنی تخلیقی زندگی گزارتا ہے ۔
س۔39۔
*دبستان* ۔ جب بہت سے ادیب اور شعرا ایک مخصوص علاقے اور زمانے کی طرز بود و باش اور سماجی اقدار سے متاثر ہو کر ادب میں ایک ہی طرز فکر اور انداز نظر اپناتے ہیں تو اسے دبستان کہا جاتا ہے۔ جیس دبستان لکھنو دبستان دہلی
س۔40۔
*رعایت لفظی* ۔ رعایت لفظی شاعری و نثری اصطلاح ہے لفظوں کی مناسبت سے ایک ایسی دلچسپ اور مضحکہ خیز صورت حال کو سطح پر لانا جو پہلے نظروں سے غائب تھی مثلاً اے بی اور بی اے میں تجنیسی
ربط ہے
Copied
17 notes
·
View notes
Text
#Death Anniversary of Jhon eliya
جنت سے جون ایلیا کا خط انور مقصود کے نام
انو جانی !
تمہارا خط ملا، پاکستان کے حالات پڑھ کر کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی۔
یہاں بھی اسی قسم کے حالات چل رہے ہیں۔
شاعروں اور ادیبوں نے مر مر کر یہاں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔
مجھے یہاں بھائیوں کے ساتھ رہنے کا کہا گیا تھا، میں نے کہا کہ میں زمین پر بھی بھائیوں کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا،
مجھے ایک الگ کوارٹر عنایت فرمائیں۔
مصطفیٰ زیدی نے یہ کام کر دیا اور مجھے کواٹر مل گیا،
مگر اس کا ڈیزائن نثری نظم کی طرح کا ہے جو سمجھ میں تو آجاتی ہے لیکن یاد نہیں رہتی، روزانہ بھول جاتا ہوں کہ میرا بیڈ روم کہاں ہے۔
لیکن اس کوارٹر میں رہنے کا ایک فائدہ ہے،
میر تقی میر کا گھر سامنے ہے۔ ان کے 250 اشعار جن میں وزن کا فقدان تھا، نکال چکا ہوں مگر میر سے کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔
کُوچہ شعر و سخن میں سب سے بڑا گھر
غالب کا ہے۔
میں نے میر سے کہا آپ غالب سے بڑے شاعر ہیں آپکا گھر ایوانِ غالب سے بڑا ہونا چاہئے، میر نے کہا ، دراصل وہ گھر غالب کے سسرال کا ہے،
غالب نے اس پر قبضہ جما لیا ہے۔
میر کے گھر کوئی نہیں آتا، سال بھر کے عرصے میں بس ایک بار ناصر کاظمی آئے وہ بھی میر کے کبوتروں کو دیکھنے کے لئے۔
ایوانِ غالب مغرب کے بعد کھلا رہتا ہے، جس کی وجہ تم جانتے ہو
مجھے کیا بُرا تھا مرنا ،
اگر ایک “بار” ہوتا۔
یہاں آکر یہ مصرعہ مجھے سمجھ میں آیا۔ اس میں
“بار” انگریزی والا ہے۔
دو مرتبہ غالب نے مجھے بھی بلوایا لیکن منیر نیازی نے یہاں بھی میرا پتہ کاٹ دیا۔
سودہ کا گھر میرے کوارٹر سے سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہاں آنے کے بعد میں ان سے ملنے گیا، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے،
میاں! تم میرا سودا لا دیا کرو۔
مان گیا۔ سودہ کا سودا لانا میرے لئے باعث عزت ہے۔
لیکن جانی!جب سودہ حساب مانگتے تھے تو مجھ پر قیامت گزر جاتی تھی۔
جنت کی مرغی اتنی مہنگی لے آئے،
حلوہ کیا نیاز فتح پوری کی دکان سے لے آئے؟،
تمہیں ٹینڈوں کی پہچان نہیں ہے؟
ہر چیز پہ اعتراض۔
مجھے لگا تھا کہ وہ شک کرنے لگے ہیں کہ میں سودے میں سے پیسے رکھ لیتا ہوں۔
چار روز پہلے میں نے ان سے کہہ دیا کہ
میں اردو ادب کی تاریخ کا واحد شاعر ہوں جو اسی لاکھ کیش چھوڑ کے یہاں آیا ہے۔
آپکے ٹینڈوں سے کیا کماؤں گا۔
آپکو بڑا شاعر مانتا ہوں اس لئے کام کرنے کو تیار ہوا،
آپکی شاعری سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا،
آپکی کوئی زمین استعمال نہیں کی۔
آئندہ اپنا سودا فیض احمد فیض سے منگوایا کیجیئے،
تاکہ آپکا تھوڑا بہت قرض تو چکائیں۔
میرے ہاتھ میں بینگن تھا، وہ ان کو تمھایا اور کہا:
بینگن کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
ایک شہد کی نہر کے کنارے احمد فراز سے ملاقات ہوئی،
میں نے کہا میرے بعد آئے ہو اس لئے خود کو بڑا شاعر مت سمجھنا،
فراز نے کہا، مشاعرے میں نہیں آیا۔
پھر مجھ سے کہنے لگے،
امراؤ جان کہاں رہتی ہے؟
میں نے کہا، رسوا ہونے سے بہتر ہے گھر چلے جاؤ، مجھے نہیں معلوم کہا وہ کہاں رہتی ہے۔
جانی! ایک حُور ہے
جو ہر جمعرات کی شام میرے میرے گھر
آلو کا بھرتا پکا کے لے آتی ہے۔
شاعری کا بھی شوق ہے، خود بھی لکھتی ہے،
مگر جانی! جتنی دیر وہ میرے گھر رہتی ہے صرف مشتاق احمد یوسفی کا ذکر کرتی ہے۔
اس کو صرف مشتاق احمد یوسفی سے ملنے کا شوق ہے۔
میں نے کہا، خدا ان کو لمبی زندگی دے، پاکستان کو ان کی بہت ضرورت ہے، اگر ملنا چاہتی ہو تو زمین پر جاؤ،
جس قسم کی شاعری کر رہی ہو کرتی رہو،
وہ خود تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے اور
پکنک منانے سمندر کے کنارے لے جائینگے۔
ابنِ انشاء، سید محمد جعفری، دلاور فگار، فرید جبال پوری اور ضمیر جعفری ایک ہی کوارٹر میں رہتے ہیں۔
ان لوگوں نے 9 نومبر کو اقبال کی پیدائش کے سلسلے میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔
اقبال، فیض، قاسمی، صوفی تبسم، فراز اور ہم وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔
کوارٹر میں اندھیرا تھا اور دروازے پر پرچی لگی تھی:
“ہم لوگ جہنم کی بھینس کے پائے کھانے جا رہے ہیں،
ڈنر اگلے سال 9 نومبر کو رکھا ہے۔”
اگلے دن اقبال نے پریس کانفرنس کی اور ان سب کی ادبی محفلوں میں شرکت پر پابندی لگا دی۔
تم نے اپنے خط میں مشفق خواجہ کے بارے میں پوچھا تھا۔
وہ یہاں اکیلے رہتے ہیں، کہیں نہیں جاتے ۔
مگر حیرت کی بات ہے جانی!میں نے ان کے گھر اردو اور فارسی کے بڑے بڑے شاعروں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔
یہاں آنے کی بھی جلدی نہ کرنا کیونکہ تمہارے وہاں رہنے میں میرا بھی فائدہ ہے۔
اگر تم بھی یہاں آگئے پھر وہاں مجھے کون یاد کرے گا؟؟؟
جیتے رہو اور کسی نہ کسی پر مرتے رہو،
ہم بھی کسی نہ کسی پر مرتے رہے
مگر جانی!
جینے کا موقع نہیں ملا -
تحریر: انور مقصود
3 notes
·
View notes
Text
راحت اندوری کے پانچ شعر جو ہمیشہ زندہ رہیں گے
بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر راحت اندوری کرونا کی شاعری کی سب سے بڑی خاصیت عوام سے جڑ کر رہنا تھا۔ ایک قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ شعر کسی کی سمجھ میں مشکل سے آئے اور لوگ چراغ لے کر اس میں معنی ڈھونڈتے رہیں۔ کئی بڑی محنت کر کے اپنی شاعری کو حالاتِ حاضرہ سے کوسوں پرے رکھتے ہیں تاکہ کسی کو یہ گمان نہ گزرے کہ شاعر پر موجودہ سیاسی، سماجی یا معاشرتی صورتِ حال کا کوئی اثر پڑ رہا ہے۔ دوسری قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جنہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ پانچ سو سال بعد کا ادب انہیں کس طرح یاد رکھے گا۔ وہ لمحۂ موجود میں جیتے ہیں اور اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اٹھاتے ہیں۔
راحت اندوری دوسرے قبیلے سے تعلق رکھنے والے شاعر تھے۔ حالات حاضرہ پہ کہنا ہو یا مزاحیہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنا ہو، ان کے الفاظ پر پورا مجمع ایک دم واہ واہ کی صداؤں سے گونج اٹھتا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’آج کل دو ٹکے کے لوگ بھی خود کو بڑا شاعر بنا کے پیش کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں بڑا شاعر ہوں، کوشش ہے کہ زندگی میں کوئی ایک شعر اچھا کہہ لوں۔‘ یہ بات وہ ہر مشاعرے میں دہراتے تھے۔ یہی بات راحت اندوری کی بھی تھی۔ بے شک اندوری صاحب نے بھی کروڑوں لوگوں کے دل جیتے ہیں۔ ویسے تو ان کے سینکڑوں شعر ایسے ہیں جو لوگوں کے دلوں اور زبانوں پر زندہ ہیں، میری نظر میں راحت اندوری کے مندرجہ ذیل پانچ اشعار کا نقش آسانی سے نہیں مٹے گا۔
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟
پلوامہ حملے کے بعد اور بالخصوص پارلیمانی انتخابات برائے 2019 کے دوران یہ شعر بہت ہٹ رہا گو کہ راحت اندوری نے یہ شعر اس سے بہت پہلے کہا تھا۔ بدقسمتی سے ہندوستان و پاکستان دونوں کی اندرونی سیاست ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے پر مبنی ہے۔ مذہبی اقلیتیں دونوں ممالک میں محفوظ نہیں لیکن مزے کی بات ہے کہ دونوں اپنے ملکوں میں انہیں حقوق و تحفظ دینے کے بجائے ان کے استحصال پر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔ چناؤ کے دوران ایک دوسرے کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ راحت اندوری کا یہ شعر بہت دیر تک ہندوستان و پاکستان کی سیاسی منظر کشی پیش کرتا رہے گا-
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے اے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا
شعر کے لفظ سادہ ہیں لیکن مطلب رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ یہ شعر سامراجیت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ کس طرح سے سامراجی نظام مزدوروں و محنت کشوں کا لہو پیتا ہے یہ اس کی بھر پور ترجمانی کر رہا ہے۔ یہ شعر پڑھنے کے بعد میرا ذہن ہمیشہ پریم چند کے شہرہ آفاق ناول گئودان پر چلا جاتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار ہوری کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے گھر میں ایک گائے آئے لیکن عمر بھر شب وروز کی مشقت کے باوجود اس کی یہ تمنا پوری نہیں ہوتی۔ وہ مزدور جس سے خوب کام لیا جاتا ہے اور اس کی محنت کا سر پلس سیدھا زمیندار و سرمایہ دار کی جیب میں جاتا ہے - کرائے کے گھر یا جونپڑی میں رہ کر مشقت کرنے والا مزدور جس کو زندگی بھر اپنا گھر بھی میسر نہیں آتا، مرنے کے بعد دو گز کا مستقل مالک بن جاتا ہے۔ اب مرنے کے بعد اس مکان سے کوئی اسے بےدخل نہیں کر سکتا۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ویسے یہ پوری غزل ہی کمال کی ہے اور اس کا ایک ایک شعر اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے لیکن یہ شعر اپنی مثال آپ ہے۔ 73 سالہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور دلتوں کی کھلے عام تضحیک کے اوپر اس شعر سے بڑا جواب ہو نہیں سکتا۔ اس شعر کو ایک طرح سے آئین ہند کے دیباچے کا شعری روپ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
اس شعر کا پہلا حصہ تو ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی پر مرثیہ ہے جبکہ دوسرے حصے میں مسلمانوں کی عظیم تاریخ پر قصیدہ خوانی کی ہے۔
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے
موجودہ دور کے میڈیا پر کارپوریٹ مافیا کا کنٹرول اور میڈیا سنسر ش�� پر یہ شعر سو فی صد صادق آتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بھی آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مخصوص لوگوں کو بلا کر دوسروں پر بے بنیاد الزام لگائے جاتے ہیں اور پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ میڈیا جس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرتا نظر آتا ہے - ڈاکٹر راحت اندوری یکم جنوری 1950 کو پیدا ہوئے اور عالمی شہرت یافتہ اردو شاعر تھے۔ آپ سات کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ 40 سے 45 سالوں تک اردو مشاعروں کی دنیا پر راج کرنے والا اندوری کل دنیا کو الوداع کہہ گیا۔
محمد ارشد چوہان (کالم نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
5 notes
·
View notes
Text
*Iftekhar Raghib - Urdu Poetry*
*Android App in Google Play Store*
★ *افتخار راغب کی شاعری کی اینڈرائڈ ایپ جس میں پانچوں مجموعۂ غزلیات "لفظوں میں احساس"، "خیال چہرہ"، "غزل درخت", "یعنی تو" اور "کچھ اور" شامل ہیں*
★ *افتخار راغب کی شاعری پسند کرنے یا پڑھنے کی خواہش رکھنے والے اہلِ اردو Play Store میں Iftekhar Raghib - Urdu Poetry تلاش کرکے یا مندرجہ ذیل لنک سے اپنے موبائل یا کسی بھی اینڈرائڈ ایپ ڈیوائس میں یہ ایپ بہت آسانی سے انسٹال کر کے جب جی چاہے آف لائن پڑھ سکتے ہیں.*
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.o5appstudio.iftekharraghibbooks
★ *اس ایپ سے ایڈ یعنی اشتہارات مکمل طور پر ہٹا دیے گئے ہیں اور ایپ کی سائز اب مزید چھوٹی (تقریبآ 10 mb) ہوگئی ہے.*
★ *ایپ دیدہ زیب انداز میں نستعلیق خط میں تیار کی گئی ہے جس سے قارئیں کو پڑھنے میں بہت آسانی ہوتی ہے.*
★ *ایپ میں کاپی کرنے، کسی لفظ یا مصرع سے شعر یا غزل تلاش 🔍🔎 کرنے کی سہولت بھی ہے.*
★ *ایپ میں کسی غزل کو واٹس ایپ ، فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا پر ڈائرکٹ شیئر کرنے کی سہولت بھی موجود ہے.*
★ *اگر ایپ پسند آئے تو اپنی جانب سے ایپ کی ریٹنگ اور اس پر کمنٹس کیجیے۔ بہتری کے لیے اپنے مشوروں سے بھی نوازیے.*
★ *کوئی غزل یا شعر پسند آئے یا اس سے آپ کے دل کو تسکین و فرحت کا احساس ہو تو اپنی دعاؤں سے ضرور نوازیے*
1 note
·
View note
Text
اردو بچوں کا کھیل نہیں۔۔😴
اردو ادب کی اصطلاحات
اردو ادب کے دامن میں ان گنت تراکیب و اصطلاحات موجود ہیں۔ ہم اردو ادب کی اصطلاحات سے بہت حد تک شناسا ہونے کے باوجود ان سے کلی طور پر کم ہی واقف ہو پاتے ہیں۔ گرچہ یہ موضوع بہت وسیع ہے تاہم ان سے کسی حد تک واقف ہونے کے لیے ذیل میں فقط ان اصطلاحات کی فہرست درج ہے۔
علوم قواعد
1۔علمِ صرف 2۔ علمِ نحو 3۔ علمِ عروض 4۔علمِ شعر 5۔ علمِ قافیہ 6۔ علم معانی / علم بدیع 7۔علم بیان 8۔ علمِ لغت 9۔ علمِ اشتقاق 10 ۔ علمِ انشا 11 ۔ علمِ خط 12 ۔ علمِ تاریخ
علم بیان کی چار اقسام میں تشبیہ ، استعارہ، کنایہ ، مجاز مرسل شامل ہیں۔
تخلیقی ادب
تخلیقی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب۔
افسانوی ادب غیر افسانوی ادب
داستان ۔ ناول ۔ افسانہ ۔ ڈراما مقالہ ۔ مضمون ۔ تاریخ ۔ (سوانح/ سوانح حیات / آپ بیتی /خود نوشت سوانح )۔ خود نوشت ۔ (خاکہ/خاکہ نگاری) – سفر نامہ ۔ طنز و مزاح ۔ (مکتوب/خط)
(ڈائری/روزنامچہ) ۔ انشائیہ ۔ (تذکرہ / تذکرہ نگاری) ۔ دیباچہ، مراسلہ ۔ روزنامچہ ۔ تبصرہ ۔ لغت نویسی ۔ رپورت��ژ
نظم و نثر
نثر شاعری
(کہانی /مختصر کہانی )
ڈراما ۔ ناول ۔ ناولیٹ
افسانہ ۔ افسانچہ ۔
( خاکہ/ خاکہ نگاری ) ۔
انشائیہ ۔ سفرنامہ ۔
(سوانح /سوانح حیات ) ۔
(داستان / قصہ )
فلم ۔ پیروڈی ۔تنقید ۔
(کالم/ بیانیہ / مقالہ /مضمون)
( حمد ۔ نعت/نعتیہ قصیدہ ۔ مدح ۔ قصیدہ ۔ منقبت ۔ مناجات ۔ سلام ۔ مرثیہ۔شخصی مرثیہ ۔ شاہنامہ ۔ رزمیہ/رزم نامہ )
( غزل ۔ مثنوی ۔جدید مثنوی ۔ نظم ۔ پابند نظم ۔ شہرآشوب ۔ واسوخت ۔ ریختی ۔ہجو ۔ تلمیح )
(ثلاثی ۔ رباعی ۔قطعہ ۔ مخمس ۔مسدس )
( ماہیا ۔ سہرا ۔ دوہا ۔ گیت ۔)
بیرونی زبانوں کی ہئیتیں
(معریٰ نظم ۔ آزاد نظم ۔ سانیٹ ۔ ترائیلے ۔ ہائیکو ۔ نثری شاعری ۔)
نظم کی اقسام :
موضوعاتی نظم ، نیچرل نظم ، وطنی نظم ، قومی نظم ، رومانی نظم ، انقلابی نظم ، علامتی نظم ، آزاد نظم ، معری نظم ، جدید نظم )
غزل کی اقسام :
( مردف غزل ، غیرمردف غزل )
غزل کے اجزائے ترکیبی : ( 1۔ ردیف 2۔ قافیہ 3۔ مطلع 4۔ مقطع)
نظم کو موضوعات کے حوالے سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں واسوخت۔قصیدہ۔ شہرآشوب۔مرثیہ۔ شامل ہیں
صنعتی شاعری اور صنعتوں کی اقسام ترميم
علم میں مختلف قسم کی صنعتیں بیان کی جاتی ہیں۔اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ا۔صنائع لفظی :۔
ب۔ صنائع معنوی:۔
صنائع لفظی صنائع معنوی
صنعتِ تجنیس ۔ صنعتِ تثلیث ۔ صنعتِ اشتقاق ۔ صنعتِ شبہِ اشتقاق ۔ (صنعتِ تکریر/صنعتِ تکرار )۔ صنعتِ تصحیف ۔
صنعتِ توسیم ۔ صنعتِ ایداع ۔(صنعتِ متتابع /استتباع) ۔(صنعتِ تزلزل /متزلزل) ۔(صنعتِ قلب /مقلوب ) ۔
صنعتِ ردا لعجز علی الصدر ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الارض ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الابتدا ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الحشو ۔صنعتِ مجنح
صنعتِ محاذ ۔ صنعتِ قطار العبیر ۔ صنعتِ تفریح ۔ صنعتِ قلب ۔ صنعتِ مقلوب ۔ صنعتِ مثلث ۔
صنعتِ ترصیع ۔صنعتِ ایہام۔صنعتِ مبادلہ الراسین ۔ صنعتِ تضمین المزدوج ۔ صنعتِ ترافق۔( صنعتِ نظم والنثر / سہل ممتنع)
(صنعتِ مربع/چہار در چہار) ۔صنعتِ مدور ۔ صنعتِ اقسام الثلثہ ۔ صنعتِ سیاق الاعداد ۔صنعتِ مسمط ۔ صنعتِ توشیح ۔
صنعتِ ترصیح ۔صنعتِ متلون ۔ صنعتِ مخذف ۔ (صنعتِ ذوالقوافی/ ذوالقافتین)۔ صنعتِ مشجر ۔(صنعتِ لزوم ما لا یلزم )۔
(صنعتِ حذف / قطع الحروف) ۔(صنعتِ عاطلہ / مہملہ / غیر منقوطہ) ۔ صنعتِ منقوطہ ۔ صنعتِ خیفا ۔ صنعتِ رقطا ۔
صنعتِ فوق النقاط ۔ صنعتِ تحت النقاط ۔ صنعتِ واصل الشفتین۔صنعتِ واسع الشفتین ۔ صنعتِ جامع الحروف ۔
صنعتِ مخلوط ۔ صنعتِ منشاری ۔ صنعتِ مقطع یا غیر موصل ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ اربعہ الحروف ۔ صنعتِ معجزہ الاستہ والشفا ۔
صنعتِ متحمل المعانی ۔ صنعتِ معرب ۔صنعتِ افراد ۔ صنعتِ موصل ۔ صنعتِ اظہارِ مضمر ۔ صنعتِ معما ۔ ( صنعتِ نغز / چیستاں / پہیلی )
صنعتِ تابع مہمل ۔ صنعتِ اشارہ ۔ صنعتِ تلمیح ۔
(صنعتِ تضاد/ طباق ) ۔ صنعتِ تذبیح ۔ (صنعتِ ایہام / تضاد )۔ ( صنعتِ ایہام / توریہ ) ۔ (صنعتِ استباح / مدح الموجہ )
(صنعتِ مراۃ النظیر /تناسب) ۔ ( صنعتِ تنسیق الصفات )۔ صنعتِ براعت الاستہلال ۔ صنعتِ تشابہ الاطراف ۔
صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ اطراد ۔ صنعتِ ارصاد ۔ صنعتِ تاکید المدح بما یشبہ الذم ۔ صنعتِ تاکید الذم بما یشبہ المدح ۔
صنعتِ الحاق النجزی بالکلی ۔ صنعتِ تجرید ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ متحمل الضدین ۔ صنعتِ ہجوِ ملیح ۔ صنعتِ استدراک ۔
صنعتِ تجاھلِ عارفانہ ۔ صنعتِ لف و نشر ۔ صنعتِ جمع ۔صنعتِ تفریق ۔ صنعتِ تقسیم ۔ صنعتِ جمع و تفریق ۔
صنعتِ جمع و تفریق و تقسیم ۔ صنعتِ رجوع ۔ صنعتِ حسنِ تعلیل ۔ صنعتِ مشاکلہ ۔ صنعتِ عکس ۔
صنعتِ قول بالموجب ۔ صنعتِ مذہبِ کلامی ۔ صنعتِ مذہبِ فقہی ۔ صنعتِ ادماج ۔ صنعتِ مبالغہ ۔ صنعتِ تعجب ۔
صنعتِ جامع اللسانین ۔ صنعتِ ذو رویتین ۔ صنعتِ ذو ثلثہ ۔ صنعتِ ترجمہ اللفظ ۔ صنعتِ ابداع ۔ صنعتِ تصلیف
صنعتِ صلب و ایجاد ۔ صنعتِ کلامِ جامع ۔ صنعتِ ایرادالمثل / ارسال المثل ۔ صنعتِ استخدام ۔
صنعتِ الہزال الذی یراد بہ الجد / ہزل ۔ صنعتِ تلمیح ۔ صنعتِ نسبت ۔ صنعتِ اتفاق / حسنِ مقطع ۔ صنعتِ اتساع
صنعتِ تضاد ۔صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ تجنیس ۔
1۔صنعتِ اہمال 2۔ صنعتِ لزوم مالایلزم 3۔صنعتِ ہما 4۔ صنعتِ ابہام
5۔ صنعتِ مُبالغہ 6۔صنعتِ حُسن التعلیل 7۔صنعتِ طباق 8۔صنعتِ مراعات النظیر
9۔ صنعتِ لف و نشر 10۔صنعتِ مہملہ 11۔صنعتِ تلمیح 12۔صنعتِ معاد
13۔صنعت رجوع 14۔صنعتِ ترصیح 15۔صنعتِ تنسق الصفات 16۔صنعتِ سیاق اعداد
17۔صنعتِ ذو قافیتین و ذو القوافی 18۔صنعتِ جمعیت الفاظ 19۔صنعتِ تضاد 20۔صنعتِ ضرب المَثَل
صنعت توشیع
اردوتنقید میں مستعمل دیگر اصطلاحات ترميم
آزاد تلازمہِ خیال ۔ آفاقیت ۔ آہنگ ۔ (آزاد نظم / فری ورس )ابتذال ۔ ابدیت ۔ اجتماعیت ۔ اجتماعی لاشعور ۔(اجمال / اختصار / ایجاز ) ۔ ادب برائے ادب ۔ ادب برائے زندگی ۔ ادب لطیف ۔ ( ارتفاع / عروج / بلندی ) ۔ استعارہ۔
اشتراکیت ۔اشتقاق ۔اشکال ۔ اصلیت /واقعیت ) ۔ انفرادیت ۔ (ایہام/ توریہ) ۔ ایہام تناسب ۔ ایہام گوئ ۔
بدیع ۔ (برجستہ /برجستگی) ۔ (بلینک ورس / نظم معری) ۔ بیت الغزل۔ (بورژوا / پرولتاریہ) ۔ بورژوازی۔ پرولتاریہ ۔بیان(علم) ۔ پلاٹ ۔ ( پیکر/ پیکر تراشی ) ۔ (تجاہل عارفانہ / تجنیس) ۔ تحلیلِ نفسی ۔ تخیل ۔ ترقی پسند ادبی تحریک
ترقی پسندی ۔ تخلص ۔ تلمیح۔ تشبیب ۔ تحت اللفظ ۔تشبیہ۔ تزکیہ Catharsis ۔ تشبیہ ۔ (تضاد / طباق ) ۔ تضمین۔تعقید ۔ تغزل ۔ تفحص الفاظ ۔ تقریظ ۔ تکنیک۔تلمیح ۔تمثیل ۔ تنافر ۔توالی اضافات ۔ توجیہ ۔ ٹکسالی زبان
جدت ادا ۔ جدلیاتی مادیت ۔ جمالیات ۔ (جوش/جوش بیان) ۔ (چیستان / معما) ۔ حسن تعلیل ۔ (حشو/ زوائد) ۔ (حقیقت پسندی / حقیقت نگاری) ۔ (فطرت پسندی / فطرت نگاری) ۔ خارجیت ۔
داخلیت۔ دبستان ۔ ربط ۔ رجعت پسندی ۔ رزمیہ ۔(رعایت لفظی / مناسبت لفظی) ۔ روایت ۔ رومانویت ۔ردیف ۔ روزمرہ ۔ ریختی ۔ زٹل ۔ زمین
سادگی ۔ سراپا ۔ماورائے حقیقت پسندی ۔ سرقہ ۔سلاست۔ سلام ۔ سوز و گداز۔ سوقیانہ ۔ سہلِ ممتنع ۔ شاعری ۔ شعر ۔ شعور کی رو ۔ ( شکوہِ الفاظ / شوکتِ الفاظ ) ۔ شہر آشوب ۔
صنعت ۔ ( صنمیات / اساطیر/ دیومالا) ۔ ضرب المثل ۔ ضربالمثل ۔ضعفِ تالیف ۔ضلع جگت ۔ طبقاتی کشمکش ۔ ظرافت ۔ بذلہ ۔ پند ۔طنز ۔ مزاح ۔ ہزل ۔
عقلیت ۔ علامت ۔علامتیت ۔ عملیت ۔ ( عینیت / تصوریت / مثالیت ) ۔ ( غرابت / غریب ) ۔ (فاشزم / فسطائیت ) ۔ فحاشی۔ فرد ۔ فصاحت ۔ بلاغت ۔ قافیہ ۔قولِ محال ۔ قافیہ ۔
کردار ۔ (کلاسک/کلاسیک)۔کلاسیکیت ۔ کنایہ ۔ کنایہ ۔ گرہ ۔ گلدستہ۔ گریز۔لاشعور ۔لف و نشر ۔ لہجہ ۔مادیت ۔ مبالغہ ۔ مجاز ۔ مجازِ مرسل ۔مطلع ۔مقطع ۔مصرع ۔محاکات ۔ محاورہ ۔ مراعات النظیر ۔ مزاح ۔ (مضمون / مضمون آفزینی)
معاملہ بندی ۔ علمِ معانی ۔ ( معنی / معنی آفزینی ) ۔ ( مہملہ / مہملا) ۔ مجاز مرسل ۔ محاورہ ۔( موضوع )
نازک خیالی ۔ نثرِ عا ری ۔ نثرِ مرجز ۔ نثرِ مسجع ۔ نثرِ مقفی ۔نشاۃ الثانیہ ۔ نعت ۔( نقطہِ عروج / منتہی ) ۔ نوٹنکی ۔ نوحہ ۔ نیچرل شاعری ۔ واسوخت ۔ واقعہ نگاری ۔ وجدان ۔ وحدتِ تاثر ۔ وحدتِ ثلاثہ ۔ ہزل ۔ہیرو-
13 notes
·
View notes
Text
جنت سے جون ایلیا کا خط انور مقصود کے نام
انو جانی !
تمہارا خط ملا، پاکستان کے حالات پڑھ کر کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی۔ یہاں بھی اسی قسم کے حالات چل رہے ہیں۔شاعروں اور ادیبوں نے مر مر کر یہاں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔مجھے یہاں بھائیوں کے ساتھ رہنے کا کہا گیا تھا، میں نے کہا کہ میں زمین پر بھی بھائیوں کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا، مجھے ایک الگ کوارٹر عنایت فرمائیں۔مصطفیٰ زیدی نے یہ کام کر دیا اور مجھے کواٹر مل گیا، مگر اس کا ڈیزائن نثری نظم کی طرح کا ہے جو سمجھ میں تو آجاتی ہے لیکن یاد نہیں رہتی، روزانہ بھول جاتا ہوں کہ میرا بیڈ روم کہاں ہے۔ لیکن اس کوارٹر میں رہنے کا ایک فائدہ ہے، میر تقی میر کا گھر سامنے ہے۔ ان کے 250 اشعار جن میں وزن کا فقدان تھا، نکال چکا ہوں مگر میر سے کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔
کُوچہ شعر و سخن میں سب سے بڑا گھر غالب کا ہے۔میں نے میر سے کہا آپ غالب سے بڑے شاعر ہیں آپکا گھر ایوانِ غالب سے بڑا ہونا چاہئے، میر نے کہا ، دراصل وہ گھر غالب کے سسرال کا ہے، غالب نے اس پر قبضہ جما لیا ہے۔میر کے گھر کوئی نہیں آتا، سال بھر کے عرصے میں بس ایک بار ناصر کاظمی آئے وہ بھی میر کے کبوتروں کو دیکھنے کے لئے۔ایوانِ غالب مغرب کے بعد کھلا رہتا ہے، جس کی وجہ تم جانتے ہو
مجھے کیا بُرا تھا مرنا ،
اگر ایک “بار” ہوتا۔
یہاں آکر یہ مصرعہ مجھے سمجھ میں آیا۔ اس میں “بار” انگریزی والا ہے۔
دو مرتبہ غالب نے مجھے بھی بلوایا لیکن منیر نیازی نے یہاں بھی میرا پتہ کاٹ دیا۔ سودہ کا گھر میرے کوارٹر سے سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہاں آنے کے بعد میں ان سے ملنے گیا، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے، میاں! تم میرا سودا لا دیا کرو۔ مان گیا۔ سودہ کا سودا لانا میرے لئے باعث عزت ہے۔ لیکن جانی!جب سودہ حساب مانگتے تھے تو مجھ پر قیامت گزر جاتی تھی۔جنت کی مرغی اتنی مہنگی لے آئے، حلوہ کیا نیاز فتح پوری کی دکان سے لے آئے؟، تمہیں ٹینڈوں کی پہچان نہیں ہے؟ ہر چیز پہ اعتراض۔ مجھے لگا تھا کہ وہ شک کرنے لگے ہیں کہ میں سودے میں سے پیسے رکھ لیتا ہوں۔چار روز پہلے میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں اردو ادب کی تاریخ کا واحد شاعر ہوں جو اسی لاکھ کیش چھوڑ کے یہاں آیا ہے۔ آپکے ٹینڈوں سے کیا کماؤں گا۔آپکو بڑا شاعر مانتا ہوں اس لئے کام کرنے کو تیار ہوا، آپکی شاعری سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا، آپکی کوئی زمین استعمال نہیں کی۔آئیندہ اپنا سودا فیض احمد فیض سے منگوایا کیجیئے، تاکہ آپکا تھوڑا بہت قرض تو چکائیں۔میرے ہاتھ میں بینگن تھا، وہ ان کو تمایا اور کہا:
بینگن کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
ایک شہد کی نہر کے کنارے احمد فراز سے ملاقات ہوئی، میں نے کہا میرے بعد آئے ہو اس لئے خود کو بڑا شاعر مت سمجھنا، فراز نے کہا، مشاعرے میں نہیں آیا۔ پھر مجھ سے کہنے لگے، امراؤ جان کہاں رہتی ہے؟ میں نے کہا، رسوا ہونے سے بہتر ہے گھر چلے جاؤ، مجھے نہیں معلوم کہا وہ کہاں رہتی ہے۔
جانی! ایک حُور ہے جو ہر جمعرات کی شام میرے میرے گھر آلو کا بھرتا پکا کے لے آتی ہے۔ شاعری کا بھی شوق ہے، خود بھی لکھتی ہے، مگر جانی! جتنی دیر وہ میرے گھر رہتی ہے صرف مشتاق احمد یوسفی کا ذکر کرتی ہے۔ اس کو صرف مشتاق احمد یوسفی سے ملنے کا شوق ہے۔ میں نے کہا، خدا ان کو لمبی زندگی دے، پاکستان کو ان کی بہت ضرورت ہے، اگر ملنا چاہتی ہو تو زمین پر جاؤ، جس قسم کی شاعری کر رہی ہو کرتی رہو، وہ خود تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے اور پکنک منانے سمندر کے کنارے لے جائینگے۔ابنِ انشاء، سید محمد جعفری، دلاور فگار، فرید جبال پوری اور ضمیر جعفری ایک ہی کوارٹر میں رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے 9 نومبر کو اقبال کی پیدائش کے سلسلے میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔اقبال، فیض، قاسمی، صوفی تبسم، فراز اور ہم وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔کوارٹر میں اندھیرا تھا اور دروازے پر پرچی لگی تھی: “ہم لوگ جہنم کی بھینس کے پائے کھانے جا رہے ہیں، ڈنر اگلے سال 9 نومبر کو رکھا ہے۔”اگلے دن اقبال نے پریس کانفرنس کی اور ان سب کی ادبی محفلوں میں شرکت پر پابندی لگا دی۔
تم نے اپنے خط میں مشفق خواجہ کے بارے میں پوچھا تھا۔ وہ یہاں اکیلے رہتے ہیں، کہیں نہیں جاتے ۔ مگر حیرت کی بات ہے جانی!میں نے ان کے گھر اردو اور فارسی کے بڑے بڑے شاعروں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔یہاں آنے کی بھی جلدی نہ کرنا کیونکہ تمہارے وہاں رہنے میں میرا بھی فائدہ ہے۔اگر تم بھی یہاں آگئے پھر وہاں مجھے کون یاد کرے گا؟؟؟
جیتے رہو اور کسی نہ کسی پر مرتے رہو،ہم بھی کسی نہ کسی پر مرتے رہے مگر جانی! جینے کا موقع نہیں ملا
۔ انور مقصود
#urdu#anwar maqsood#jon elia#urdu lit#urdu literature#words#spilled ink#bestest#best#funny#special#personal#😁#😂#jaun elia#jaun
13 notes
·
View notes
Text
اکبر الہٰ آبادی
ہم کیا کہیں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی،اے کیا ، نوکر ہوئے ، پنشن ملی ، پھر مر گئے
#اکبر الہ آبادی#Akbar Allahabadi#Syed Akbar Hussain#Urdu#Urdu Poetry#Poetry#اردو#اردو شعر و شاعری#اردو شعر#اردو شاعری#شعر و شاعری#شعر#شاعری
0 notes
Photo
نشان سجدہ سجا کر بہت غرور نہ کر وہ نیتوں سے نتیجے نکال لیتا ہے بہترین شعر و شاعری کے لئے ہمیشہ اردو ڈیزائنر ایپلیکیشن استعمال کریں https://www.instagram.com/p/CdmiHD0ofCC/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Text
نظم 'وہ ہم سفر تھا' کے خالق معروف شاعر و ادیب نصیر ترابی
نصیر ترابی کی عمر 75 برس تھی اور وہ اردو کے نامور شاعر، ماہر لسانیات، لغت نویس جبکہ نامور خطیب علامہ رشید ترابی کے فرزند تھے۔ وہ 15 جون 1945 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی۔ نصیرترابی نے 1962 میں جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ کے شعبے سے ایم اے کیا اور اسی سال اردو ادب سے وابستہ ہوئے اور شاعری کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا مجموعہ ’’عکس فریادی‘‘ 2000 ء میں شائع ہوا۔ 1971 میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد انھوں نے ’وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی‘‘ جیسی انتہائی مقبول ہونے والی غزل کہی۔ وہ سقوط ڈھاکہ کو ایک بہت بڑا تاریخی المیہ قرار دیتے تھے، جس کا عک�� ان کی اس غزل میں نمایاں ہے۔
بعدازاں نصیر ترابی کی یہ معروف غزل ایک پاکستانی ڈرامے کے تھیم سانگ کے طور پر شامل کیا گیا اور اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ نصیر ترابی ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے کئی نمایاں اداروں میں کلیدی عہدوں پرفائز رہے۔ وہ پاکستان رائٹرگلڈ کے ایگزیکٹیو ممبر جبکہ سینڈیکیٹ جامعہ کراچی اور ایریا اسٹڈی سینٹر یورپ کے ممبر بورڈ آف گورنر بھی رہے۔ ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور افسر تعلقات عامہ مقرر ہوئے۔ ان کی شائع ہونے والی کتابوں میں (غزلیات)، شعریات (شعر و شاعری پر مباحث اور املا پر مشتمل)، لاریب (نعت، منقبت، سلام) شامل ہیں۔ ان میں سے لاریب کو اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
6 notes
·
View notes
Text
میر انیس
ببر علی انیس۔ اردو مرثیہ گو۔ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔ مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔ شاعری و مرثیہ گوئی شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے…
View On WordPress
0 notes
Text
میں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
آج 5 دسمبر 1989 ہے عصرِ حاضر کے منفرد اور ممتاز شاعر تہذیب حافی کا جنم دن ۔
آئیے انکا ایک ایک شعر کمینٹ کرکے انہیں خراج تحسین پیش کریں 💚💚
تہذیب حافی بلاشبہ ایک منفرد اسلوب کے حامل شاعر ہیں جن کے ہاں نئی تشبیہات اور نئے استعارات ہیں ۔
اصل نام تہذیب الحسن قلمی نام تہذیب حافیؔ ۔ نئے انداز سے بھرپور، جدید اور خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر تہذیب حافی 5 دسمبر 1989ء کو تونسہ شریف(ضلع ڈیرہ غازی خان ) میں پیدا ہوئے۔ مہران یونیورسٹی سے سافٹ وئیر انجینئرنگ کرنے کے بعد بہاولپور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ آج کل لاہور میں قیام پذیر ہیں۔
تہذیب حافی ان شعراء میں شامل ہے جن کو دیکھ سن کر نوجوان نسل شاعری کی طرف آئی ہے ۔ ان کے جنم دن پر ان کے کلام سے میرا انتخاب ۔
تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا
میں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
اگر ہم پر یقین آتے نہیں تو
کہیں لگوا لو انگوٹھے ہمارے
سفر سے باز رہنے کو کہا ہے
کسی نے کھول کر تسمے ہمارے
داستاں ہوں میں اک طویل مگر
تو جو سن لے تو مختصر بھی ہوں
میں اسے ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہو گئی تو
ہم ایسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے
تمام ناخدا ساحل سے دور ہو جائیں
سمندروں سے اکیلے میں بات کرنی ہے
بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا
ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا
صحرا سے ہو کے باغ میں ��یا ہوں سیر کو
ہاتھوں میں پھول ہیں مرے پاؤں میں ریت ہے
اس نے ہمارے گاؤں سے جانے کی بات کی
اور سارے پیڑ شہر کے رستوں میں گر گئے
جھیل سیف الملوک پر جاؤں
اور کمرے میں کیمرہ رہ جائے
اب ترے راز سنبھالے نہیں جاتے مجھ سے
میں کسی روز امانت میں خیانت کروں گا
اشک گرنے سے کوئی لفظ نہ مٹ جائے کہیں
اُس کی تحریر کو عجلت میں پڑھا جاتا ہے
اک آستیں چڑھانے کی عادت کو چھوڑ کر
حافیؔ تم آدمی تو بہت شاندار ہو
ہم محبت میں ہارے ہوئے لوگ ہیں
اور محبت میں جیتا ہوا کون ہے
تیری خاطر تری خوشی کے لئے
میں نے سگریٹ بھی چھوڑ دی ہے دوست
اک شکایت مجھے بھی ہے تجھ سے
تو بہت جھوٹ بولتی ہے دوست
یقین کیوں نہیں آتا تمہیں مرے دل پر
یہ پھل تمہیں کہاں سے موسمی نہیں لگتا
میں چاہتا ہوں وہ میری جبیں پہ بوسہ دے
مگر جلی ہوئی روٹی کو گھی نہیں لگتا
چارپائی ہے کہیں شمع کہیں رکھی ہے
واقعی رات ہے یا میری غلط فہمی ہے
میں اسے چومتا رہتا ہوں کہ میں جانتا ہوں
چومتے رہنے سے تصویر نئی رہتی ہے
کچھ ضرورت سے کم کیا گیا ہے
تیرے جانے کا غم کیا گیا ہے
تا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے
وہ پھول اور کسی شاخ پر نہیں کھلنا
وہ زلف صرف مرے ہاتھ سے سنورنی ہے
گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے
مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی
میں تیرے دشمن لشکر کا شہزادہ
کیسے ممکن ہے یہ شادی شہزادی
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
پہن تو لی ہے بدن پر تیرے وصال کی شال
میں جانتا ہوں کہ کپڑے نے رنگ چھوڑنا ہے
ساری عمر اس خواہش میں گزری ہے
دستک ہوگی اور دروازہ کھولوں گا
جنم دن بہت مبارک ہو ۔ آپ سے محبت اور پیار ہمیشہ رہے گا۔ آپ ہمیشہ آباد رہیں
2 notes
·
View notes
Text
آغا شورش کاشمیری اور ان کی کاٹ دار تحریریں
قوم اپنی اعلیٰ اقدار اور روایات کھو چکی اور اس میں ایک زوال پذیر معاشرے کی تمام خامیاں نشوونما پا چکی ہیں۔ زوال کی اس سے بڑی نشانی کیا ہو گی کہ ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنی قومی زبان کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنے بچوں کواپنی تاریخ اور مذہب بھی غیر ملکی زبان میں پڑھاتے ہیں۔ والدین کے لیے یہ بات ذرا بھی تشویش کا باعث نہیں ہے کہ اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والے بچّے اپنی قومی زبان اردو نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کی غلط انگریزی سن کر والدین فخر محسوس کرتے ہیں جو بدترین احساسِ کمتری کی نشانی ہے۔ جو نسل اردو زبان سے نا بلد ہے، وہ اپنی تاریخ اور آزادی کی تحریک سے بھی بے خبر رہی گی اور جس غیر ملکی زبان کو وہ برتر سمجھتی ہے، اُسی کی تہذیب اور معاشرت کی تقلید کرے گی اور اسی کی غلامی کو اپنا عقیدہ اور ایمان بنا لیگی۔
اب بھی وقت ہے کہ اربابِ اختیار، والدین اور اہلِ قلم ایک بھرپور جدّوجہد کے ذریعے نئی نسل کو انگریزی کی ذہنی غلامی سے نجات دلا کر اردو کی جانب راغب کریں۔ اس سلسلے میں راقم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اردو زبان کے ��عروف تخلیق کاروں کی منتخب نگارشات قارئین سے گاہے بہ گاہے شئیر کرتا رہوں گا۔ آغاز آغا شورشؔ کاشمیری سے کیا جا رہا ہے۔ غالبؔ ، اقبالؔ ، اور فیضؔ کی شاعری پر بھی بات ہوتی رہے گی۔ شورشؔ کاشمیری کی شاعری بڑی جاندار اور نثر اس سے بھی کاٹ دار تھی ، نظم اور نثر دونوں ولولے، طنطنے کے علاوہ انقلابیّت سے بھرپور ہے۔ مگر ان کی وجہء شہرت ان کی بے مثال خطابت تھی۔ برّصغیر نے بڑے بلند پایہ مقرّر اور خطیب پیدا کیے ہیں۔ اردوخطابت کے حرفِ آخر کا نام سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ہے۔ شاہ جی کو اردو زبان کا سب سے بڑا خطیب مانا جاتا ہے۔ خطابت کے اُسی قافلے کا آخری سالار آغا شورش کاشمیری تھا۔
زندگی کی آخری دھائی میں اردو زبان کے سب سے بڑے خطیب (Public Speaker) بلا شبہ آغا شورش تھے۔ وہ لاکھوں کے مجمعے کو مٹھی میں لینے اور ان کے جذبات کو آگ لگا دینے کا فن جانتے تھے، بے پناہ مطالعے کے باعث وہ زبان و بیان کے رموز پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ہم قافیہ الفاظ ان کے منہ سے آبشار کے پانی کی طرح نکلتے اور دریا کی روانی کیطرح بہتے چلے جاتے تھے۔ وہ انگریزوں اور دیسی حکمرانوں سے ٹکرّ لیتے رہے اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ میٹرک کے بعد ہم ان کا ہفت روزہ چٹان (جسکی 1970 کی دھائی میں سرکولیشن ایک لاکھ سے زیادہ ہوتی تھی) باقاعدگی سے پڑھتے رہے۔ بارھا ان کی تقریر یں سننے کا اتفاق ہوا اور چند مرتبہ مرکزی مجلسِ اقبال کی تقریب میں بھی ان کے خطاب سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ موجودہ دور میں آغا شورش کاشمیری پر سرکاری سطح پر کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ حالانکہ موجودہ حکومت کی کابینہ کے دو ارکان (ایک وزیر اور ایک مشیر) تو آغا صاحب کے شاگرد ہونے کا دعوٰ ی کرتے ہیں۔
وزیر صاحب تقریر میں ان کی نقّالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر موصوف کا مطالعہ قلیل اور زبان طویل ہے جسکے باعث دو تین فقرے روانی سے نہیں بول پاتے۔ مشیر محنتی ہیں اور اپنے کالموں میں اکثر آغا صاحب کے شعر استعمال کرتے ہیں۔ پرانی کتابوں میں سے” مضامینِ شورش” کے نام سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی جو آغا صاحب کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں پر مشتمل ہے جسے پروفیسر اقبال جاوید نے بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔ پروفیسر اقبال جاوید لکھتے ہیں، ” شورش ؔکے شعور نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ صحافت و خطابت اور شعر و سخن کے لحاظ سے سماوی رفعتوں کو چھو رہا تھا۔ اقبال ؒ کا مفکرانہ سوز و ساز، ظفرعلی خانؒ کا نعرہء پیکار، محمد علی جوہرؒ کا پر خلوص طنطنہ ، ابوالکلام آزاد کی پُر شکوہ علمیّت اور سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے خطیبانہ زمزمے فضاؤں میں منتشر ہو کر دلوں کے انجماد کو اضطراب بخش رہے تھے”۔
عبد السلام خورشید کے الفاظ میں ” شورش کو ابوالکلام نے شعور بخشا، اقبال ؒ نے فکر دی، ظفر علی خان نے سج دھج عطاء کی اور عطاء اللہ شاہ بخاری کے پاکیزہ ذوق نے ان کی زبان کو خاراشگافی کی صلاحیتّیں بخشیں” ۔ اور اب آغا صاحب کی چند تحریروں سے لطف اُٹھائیں۔ “ کیا ہمارے ملک میں اسوقت کوئی بڑا ادیب یا شاعر ہے ؟ ” کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں، ”اس حقیقت کے سامنے بہر حال سر جھکانا پڑتا ہے کہ ہماری ادبی اور شعری صفیں باعظمت لوگوں سے خالی ہیں۔ سن رسیدہ اہلِ قلم میں غلام رسول مہر اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے نام لیے جا سکتے ہیں مگر ان کے ادب میں علم ہے یا تاریخ ۔ مولانا مودودی تو ایک ادیب کی نسبت ایک عالم یا مفکّر زیادہ ہیں، شاعروں میں حفیظ جالندھری کا بڑا کام ہے، پختہ مشق شعراء میں احسان دانش بوڑھے ہو گئے، جوش ملیح آبادی آثار قدیمہ میں سے ہیں، فیض احمد فیض کو بڑے شاعر کی حیثیّت سے پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کی تائید ادبی رائے سے کم اور سیاسی راستے سے زیادہ ہوتی ہے۔
” پھر لکھتے ہیں” غالب مسلّمہ طور پر ایک عظیم شاعر ہے ، حالی ؔقوم کا مرثیہ خواں تھا۔ اقبال ؒ نے ملّت کو نصب العین اور ایشیاء میں اسلام کو شعلہء نوا بخشا ، جوش نے نظم کا رخ پھیرا۔ حفیظ ؔنے بھی کبھی گرمیء محفل پیدا کی اور فیضؔ نے آشفتہ مغز نوجوانوں کی جماعت کو متا ثر کیا۔” “وہ کتابیں جنھوں نے مجھے متاثر کیا “ کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں “کتابوں کی طاقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا، پوری دنیا کتابوں کی مرہون ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے کتاب کو جدید انسان کی شریک ِ حیات قرار دیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ ایک بہترین ساتھی، شائستہ ترین دوست اور ہر وقت فراہم ہونے والی رفیقہء حیات ہے۔” لکھتے ہیں ”میں 1935 سے 1946 تک جیل میں رہا، یہ زمانہ ایسا تھا جس میں مَیں نے اچھی بری کتابوں کو پڑھا ہی نہیں کھنگال ڈال، بے شمار کتابوں اور مصنفوں نے گرویدہ کیا لیکن میں کسی کے سایہء افکار میں ٹھہرا نہیں۔
میں نے فکر و نظر کا دامن بھرنے کے بعد اس سے نکل جانے کی کوشش کی ہے ۔ میں نے رو سو کے اعترافات میں بڑی لذّت محسوس کی ہے ھیوگو وکٹر کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتا رہا۔ والٹیئر نے مجھ پر خاصا اثر کیا۔ کارل مارکس کے سرمایہ کو میں نے بہ التزام سبقََا سبقََا پڑھا ہے۔ افلاطون کی جمہوریّت نے بھی میرے خیالات کو متاثر کیا۔ لیکن جن مصنفّوں نے میرے عقیدے میں پختگی پیدا کی وہ دو ہی تھے۔ مولانا ابولکلام آزادؔ اور علّامہ اقبال۔ ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن اور الہلال نے میری تعمیر میں حصّہ لیا ہے اور کلام ِ اقبالؔ نے مجھ میں نہ صرف مسلمانوں سے یک گونہ وابستگی پیدا کر دی ہے بلکہ اسلام کے ماضی کا شَیداء، حال کا نقّاد اور مستقبل کا سپاہی بنا دیا ہے” ۔ آغا صاحب نے کئی نامور شخصیات کے خاکے لکھے ہیں۔ حکیم محمد سعید کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں، “ دلّی اپنے ساتھ مسلمانوں کی جملہ روایتیں لے کر کراچی آئی، ثقافت کا ہمہمہ، فراست کا طنطنہ، زبان کا لوچ، لہجے کی نزاکت، رہن سہن کی نفاست، دماغ کا نور ، دل کا سرور۔
ان لوگوں کا اثاثہ مہاجرت تھا جو دہلی سے رخصت ہو کر پاکستان پہنچے اور کراچی کو بسایا اور دیکھتی آنکھوں ایک ایسا شہر جوان ہو گیا جو سمندر کے ساحل پر ایک بے قابو شہر تھا۔ یہاں بولی کے اضلاع کا نچوڑ اٹھ آیا تھا، حیدرآباد کی فراست چلی آئی تھی اور دہلی جو مسلمانوں کی نو سو سالہ عظمت کاچمکا ہوا نشان تھا اس کی وجاہتیں رَختِ سفر باندھ کر کراچی کو عروس البلاد بنا رہی تھیں” ۔ سعادت حسن منٹو اور اختر شیرانی کے بارے میں لکھتے ہیں ” دونوں میں بہت سی باتیں مشترک تھیں مثلََا دونوں شراب کی نذر ہو گئے ، دونوں نے اسطرح پی کہ ان کی زندگی میں سے شراب نکال دی جائے تو ایک چوتھائی رہ جاتی ہے”۔ اور آخر میں آغا شورشؔ کی زبانی اختر شیرانی کا ایک واقعہ سن لیں۔ “عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کیمونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے، ان سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ اختر شیرانی اُسوقت تک دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اوراُنکے ہوش قائم نہ تھے، تمام بدن پر رعشہ طاری تھا۔ کسی نے ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، وہ اپنے موڈ میں تھا کہا ” یہ افلاطون، ارسطو یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے قدموں میں بیٹھتے، ہمیں ان سے کیا ؟ اس لڑکھڑاتی ہوئی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر ایک بدبخت نے سوال کر دیا۔
آپ کا حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اللہ اللہ ایک شرابی پر جیسے کوئی برق گری ہو۔ بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کو دے مارا ۔ پھر کہا “بد بخت ایک عاصی سے سوال کر تا ہے۔ ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟ ” تمام جسم کانپ رہا تھا ۔ رونا شروع کر دیا ، گھِگھی بندھ ہو گئی، پھر بولے” تم نے اس حالت میں یہ پاک نام کیوں لیا۔ تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ ” گستاخ ! بے ادب !مسلسل روتے جاتے اور کہتے جاتے۔” کمبخت ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں گناہگار ضرور ہوں مگر یہ مجھے کافر بنانا چاہتے ہیں” ۔ شیخ سعدیؒ یا د آتے ہیں جو فرما گئے کہ ہزار باربشویم دھن زمشک وگلاب،ھنوز نامی تو گفتن کمالِ بے ادبی ست (ہزار بار بھی اگر منہ مشک و گلاب سے دھوؤں تو پھر بھی آپﷺ کا پاکیزہ نام لینا بہت بڑی بے ادبی ہے)
ذوالفقار احمد چیمہ
4 notes
·
View notes